صوفیائے کرام کی نقل کردہ احادیث ،کی سَنَد اور حیثیت

صوفیائے کرام کی نقل کردہ احادیث ،کی سَنَد اور حیثیت

صوفیائے کرام کی نقل کردہ احادیث ،کی سَنَد اور حیثیت

مصنف: مفتی محمد شیرالقادری مئی 2015

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ  وَالصَّلٰوۃُ  وَالسَّلَامُ  عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ وَعَلٰی اٰلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ وَاَزْوَاجِہٖ وَذُرِّیَّتِہٖ وَاَھْلِ بَیْتِہٖ  وَ اَوْلِیَائِ اُمّتِہٖ وَ عُلَمَائِ مِلَّتِہٖ اَجْمَعِیْنَ o اَمَّابَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِo بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ o

ہر آدمی کیلئے یہ ضروری ہے کہ وہ جس فیلڈسے متعلق بات کرنا چاہتا ہے تو اُسے اس فیلڈ کے بنیادی اُصول وضوابط اور قواعد کو سمجھنا از حد ضروری ہے کیونکہ ہرعلم کے کچھ بنیادی اُصول ہوتے ہیں جیسا کہ حضرت امام عبدالوہاب شعرانی رحمۃ اللہ علیہ ’’ الیواقیت والجواہر ‘‘ میں امام ابن عربی کے حوالے سے لکھتے ہیں :

{ما من طائفۃ تحمل علما من المنطقیین والنحاۃ و أھل الھندسۃ والحساب المتکلمین والفلاسفۃ الا ولھم اصطلاح لا یعلمہ الدخیل فیھم الا بتوقیف منھم}(الیواقیت والجواہر  فی بیان عقائد الا کابر،جلد ۱ ص۲۰، دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان)

’’جو گروہ بھی منطقیوں اور نحویوں چاور اہل ہندسہ و حساب ، علم الکلام والوں اور فلسفیوں میں سے کسی علم کا حامل ہے اس کی اپنی اصطلاح ہے جس کو اُس میں داخل ہونے والا نہیں جانتا مگر جب وہ خود اُسے واقفیت بخشیں-‘‘

 اورالشیخ عبدالقادر عیسیٰ رحمتہ اللہ علیہ ’’حقائق عن التصوف‘‘ میں لکھتے ہیں :  

{فان لکل فن من الفنون اوعلم من العلوم کالفقہ والحدیث والمنطق والنحوو الھندسۃ والجبروالفلسفۃ اصطلاحات خاصۃ بہ لا یعلمھا الا ارباب ذلک العلم }(حقا ئق عن التصوف ص۲۵۸،از دیوان پریس برطانیہ)

تمام علوم وفنون مثلاً فقہ ،حدیث ،منطق ،نحو ،طب ،جومیڑی ،ریاضی اور فلسفہ وغیرہ کی اپنی مخصوص اصطلاحات ہیں جو ان علوم کے ماہرین جانتے ہیں

الشیخ القاضی العلامۃ محمد اعلیٰ بن علی الفاروقی (المتوفی ۱۱۹۱ھ) ’’کشاف اصطلا حات الفنون‘‘ میں لکھتے ہیں:

{الشطح ‘‘ من مصطلحات الصوفیۃ} کشاف اصطلاحات الفنون جلد ۴ ص۹۴ سہیل اکیڈمی لاھور)

شطح صوفیائے کرام کی اصطلاحات میں سے ایک اصطلاح ہے -

توہم واضح یہ کرنا چاہتے ہیں کہ ہر علم کی الگ الگ اصطلاحات ہوتی ہیں - ہمارے ہاں جوعلماء اور مشائخ کے درمیان نزاع کی نوبت آجاتی ہے تواس کی بنیادی وجہ یہ ہوتی ہے کہ علماء صوفیاء کی اصطلاحات سے واقف نہیں ہوتے اور مشائخ علماء و محدثین کی اصطلاحات سے اَن جان ہوتے ہیں - ہم متقدمین مشائخ و علما ء کی بات نہیں کررہے کیونکہ تقریباً اڑھائی ،دو اڑھائی سوسال قبل تک علم ظاہر اور علم باطن کا مرکز ایک ہی ہوتاتھا جوبھی مدرسہ میں فارغ التحصیل ہوتا وہ بیک وقت صوفی بھی ہوتا اور بیک وقت عالم بھی ہوتا اگر صاحبِ رُتبہ صُوفی نہ بھی ہوتا تو فکری و نظری طور پہ تصوف و اہلِ تصوف سے ضرور واقف و مانُوس ہوتا تھا اور بقدرِ ظرفِ طلب اُن سے فیض یاب بھی ہوتا تھا - زوالِ اُمّت اور مغربی غُلامی کے وقت کے آغاز سے یعنی تقریباً دو اڑھائی سوسال سے علماء و صوفیاء کو الگ الگ کردیا گیا ہے نہ وہ ان سے واقف رہے نہ یہ اُن سے واقف رہے-

بوجہ درج بالا کئی ایک مسائل و مُعاملات ایسے پیدا ہو جاتے ہیں جن پہ تحقیقِ مزید کی بجائے بات خواہ مخواہ کی بحث و تنقیص پہ جا پہنچتی ہے جس سے کہ اکابرین و سلف صالحین کے طریقہ و ترتیب سے آدمی کہیں دُور جا نکلتا ہے - مثلاً ایک مُعاملہ جو سوال کی شکل میں اکثر پیش آتا ہے کہ

’’صوفیائے کرام جواحادیثِ مبارکہ اپنی کتابوں میں ’’ قال رسول اللہ ﷺ ‘‘ لکھ کر بیان کرتے ہیں لیکن اِن میں سے اکثراحادیث صحاحِ ستہ کی کتابوں میں نہیں ملتیں تو کیا اُن احادیث کا انکار اس بناء پر کیا جا سکتا ہے کہ چونکہ یہ صحاحِ ستہ میں موجود نہیں ہیں لہٰذا یہ احادیث ہی نہیں ہیں ؟ کچھ لوگ  صوفیاء کی کتابوں میںاُن کی نقل کردہ احادیث کو نہیں مانتے بلکہ صرف اُسی کو حدیث مانتے ہیں جو صحاح ستّہ میں ہو‘‘-

اس مسئلے کو بیان کرنے سے پہلے ایک بنیادی مقدمہ کا سمجھنا نہایت ہی ضروری ہے -حضور شہنشاہِ بغداد حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی الحسنی الحسینی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:

{فالانسان علی نوعین : جسمانیّ و روحانیّ } (سرالاسرار و مظھر الانوار فی ما یحتاج الیہ الابرار، ص:۱۳، دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان)

ترجمہ:-’’ پس انسان کی دو حالتیں ہیں جسمانی اور رُوحانی-‘‘

 سندِ اصفیا و اتقیا و علما ء حضرت امام عبد الوہاب شعرانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :

{الانسان مرکب من جسم وروح} (لواقع الانوار القدسیۃ فی بیان العھود المحمدیہ ، ص:۱۳۴، دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان)

ترجمہ:-’’ انسان مرکب ہے جسم اور رُوح سے-‘‘

اور امام فخرالدین رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :

{واعلم ان الانسان مرکب من جسد و من روح } (تفسیر کبیر جلد ۱، ص:۱۵۲، دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان)

ترجمہ:-’’ اور جان لے کہ انسان مرکب ہے جسم اور رُوح سے-‘‘

اِن جلیل القدر شیوخِ اُمّت کی درج بالا عبارات سے مترشح ہوا کہ اللہ رب العزت نے انسان کو بشریت اور رُوحانیت کا مرکب بنایا ہے اور انسان کی ظاہری اورباطنی تطہیر کیلئے دو علوم (علم ظاہر یعنی علم شریعت اور علم باطن یعنی علم رُوحانیت) عطا فرمائے جن کو قرآن مجید اور احادیثِ رسول اللہ ﷺ میں مختلف مقامات پر بیان کیا گیا ہے-جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

{فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَـآ اٰتَیْنٰـہُ رَحْمَۃً مِّنْ عَبْدِنَا وَعَلَّمْنٰـہُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا o}

ترجمہ :- تو دونوں نے (وہاں) ہمارے بندوں میں سے ایک (خاص) بندے (خضر ں) کو پا لیا جسے ہم نے اپنی بارگاہ سے (خصوصی) رحمت عطا کی تھی اور ہم نے اسے علمِ لدنی (یعنی اَسرار و معارف کا اِلہامی علم) سکھایا تھا-(الکھف:۶۵)

امام ابی محمد الحسین بن مسعود البغوی الشافعی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی: ۵۱۶ ھ) اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

{أی علم الباطن الھاما} (تفسیر بغوی المسمی معالم التنزیل، جلد ۳ ص ۱۴۴ دارالکتب العلمیہ بیروت)

ترجمہ:-یعنی علمِ باطن الہامی ہے -

امام ابی عبداللہ محمد بن احمد بن ابی بکر القرطبی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی: ۶۷۱ ھ)  { وعلمنہ من لدنا علما} کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

 {أی علم الغیب ابن عطیہ: کان علم الخضر معرفتہ بواطن قد أوحیت الیہ } (تفسیر قرطبی جلد ۱۳ ص ۳۲۵ مکتبۃ الرسالۃ العالمیہ)

ترجمہ:- یعنی علمِ غیب ہے (اور)ابن عطیہ کا قول ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام کا علمِ باطنی حقائق کا جاننا تھا جو انکی طرف وحی کیا گیا -‘‘

امام نورالدین علی بن سلطان الھروی المکی الحنفی المعروف بہ الملا علی القاری (المتوفی: ۱۰۱۴ ھ) {وعلمنہ من لدنا علما} کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

{ العلم اللدنی ما یحصل من طریق الھام دون التکلیف بالطلب} (تفسیر الملا علی القاری المسمی انوارالقرآن واسرار الفرقان جلد ۳ ص ۲۱۲ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان)

ترجمہ:-علم لدنی وہ ہے جوطلب کی مشقت کے علاوہ الہام کے طریقہ سے حاصل ہو -

صاحبِ عرائس البیان الشیخ العارف باللہ ابی محمد صدرالدین روز بھان ابی نصر البقلی الشیرازی (المتوفی:۶۰۶ ھ) {وعلمنہ من لدنا علما} کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

{من المعارف القدسیۃ والحقائق الکلیۃ اللدنیۃ بلا واسطۃ تعلیم بشری}( تفسیر عرائس البیان فی حقائق القرآن جلد ۲ ص ۴۳۲ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان)

ترجمہ:-(علمِ لدنی)معارفِ قدسیہ اور حقائق کلیہ لدنیہ میں سے ہے جو تعلیمِ بشری کے واسطے کے بغیر حاصل ہوتا ہے -

الشیخ اسماعیل حقی بن مصطفی الحنفی (المتوفی: ۱۱۲۷ھ) {وعلمنہ من لدنا علما} کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

{خاصا ھو علم غیوب والاخبار عنھا باذنہ تعالیٰ علی ماذھب الیہ ابن عباس رضی اللّٰہ عنھما اوعلم الباطن }

ترجمہ:-(علم لدنی )حقیقتاً علم غیب کی خبریں ہیں اللہ تعالیٰ کے اِذن سے -اس کی طرف حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنھما گئے ہیں یا علمِ لدنی سے مراد علمِ باطن ہے-

علامہ اسماعیل حقی آگے لکھتے ہیں:

{وعلمنہ من لدنا علما‘‘ وھو علم معرفۃ ذاتہ و صفاتہ الذی لا یعلمہ احد الا بتعلیمہ ایاہ} (تفسیر روح البیان جلد ۵ ص ۲۷۲ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان )

ترجمہ:-(وعلمنہ من لدنا علما)علم لدنی اس کی ذات و صفات کی معرفت کا نام ہے اسے کوئی ایک بھی نہیں جانتا مگر جسے وہ بطورِ خاص سکھائے-

 امام ابی العباس احمد بن المھدی ابن عجیبہ الحسنی (المتوفی: ۱۲۲۴ھ) {وعلمنہ من لدنا علما} کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

{العلم اللدنی : ھوالذی یفیض علی القلب من غیر اکتساب ولا تعلم} (تفسیر بحرالمدید فی تفسیر القرآن المجید جلد ۴ ص ۱۷۹ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان)

ترجمہ:-علم لدنی وہ علم ہے جو بغیر کسب اور بغیر سیکھے قلب(دل)پر وارد ہو-

قرآن مجید میں ایک اور مقام پر علمِ باطن سے متعلق ارشادِ باری تعالیٰ ہے-

{کَمَآ اَرْسَلْنَا فِیْکُمْ رَسُوْلًا مِّنْکُمْ یَتْلُوْا عَلَیْکُمْ اٰیٰـتِنَا وَیُزَکِّیْکُمْ وَیُعَلِّمُکُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُعَلِّمُکُمْ مَّا لَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ}( سورۃ البقرہ :۱۵۱)

ترجمہ:-اسی طرح ہم نے تمہارے اندر تمہیں میں سے (اپنا) رسول بھیجا جو تم پر ہماری آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور تمہیں (نفسًا و قلبًا) پاک صاف کرتا ہے اور تمہیں کتاب کی تعلیم دیتا ہے اور حکمت و دانائی سکھاتا ہے اور تمہیں وہ (اسرارِ معرفت وحقیقت) سکھاتا ہے جو تم نہ جانتے تھے-

امام المحققین ، قدوۃ المدققین القاضی ناصرالدین ابی سعید عبداللہ ابن عمر بن محمد الشیرازی البیضاوی (المتوفی:۷۹۱ھ) { وَیُعَلِّمُکُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُعَلِّمُکُمْ مَّا لَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَo} کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

 {بالفکر والنظر، اذ لا طریق الی معرفتہ سوی الوحی ، وکرر الفعل لیدل علی اِنّہٗ جنس آخر} (تفسیر بیضاوی المسمی انوارالتنزیل و اسرار التاویل جلد ۱ ص ۹۵ دارالکتب العلمیہ بیروت)

ترجمہ:-نظر و فکر کے ساتھ ،جبکہ ا س کی معرفت کی طرف وحی کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے اور یہاں فعل (یعلمکم)کا تکرار اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ(علم) دوسری جنس سے ہے-

خاتمۃ المحققین و عمدۃ المدققین مفتیٔ بغداد علامہ ابی الفضل شھاب الدین السید محمود آلوسی البغدادی (المتوفی: ۱۲۷۰ھ) نے بھی اس آیت کی یہی تفسیر بیان فرمائی ہے-(تفسیر روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم والسبع المثانی جلد ۱ ص ۲۸ المکتبۃ الحقانیہ ملتان)

الشیخ علی بن سلطان محمد القاری (المتوفی: ۱۰۱۴ ھ) اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

{وکررالفعل لیدل علی انہ جنس آخر} (تفسیر انوارالقرآن و اسرار الفرقان جلد ۱ ص ۱۳۶دارالکتب العلمیہ بیروت)

(یعلمکم)فعل کا تکرار اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ یہ تعلیم دوسری قسم کی  ہے-

 الشیخ القاضی ثناء اللہ العثمانی الحنفی المظہری رحمۃ اللہ علیہ اس آیت مبارکہ کی تفسیر کرتے ہوئے  لکھتے ہیں:

{ویعلمکم ما لم تکونوا تعلمون} تکرار الفعل یدل علی ان ھذا التعلیم من جنس آخر ولعل المراد بہ العلم اللدنی} (التفسیر المظہری جلد ۱ ص ، ۱۵۱-۱۵۲، مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ پاکستان)

{ یعلمکم} فعل کا تکرار اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ یہ تعلیم دوسری قسم کی ہے اور شاید اس سے مراد علم لدنی ہے -

 قرآن مجید کی آیات مبارکہ اوران کی تفاسیرسے خوب واضح ہوگیاہے کہ علم ظاہرکے ساتھ ایک دوسراعلم بھی ہے جو علم باطن کے نام سے موسوم کیاگیاہے اور حضورنبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کوان دونوں علوم کی باقاعدہ تعلیم فرمائی-حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ’’ صحیح بخاری‘‘ میں حضرت ابوہریرہ کی روایت نقل کرتے ہیں :

{قال حفظت من رسول اللّٰہ ﷺ وعاء ین فأما أحدھما فبثثتہ وأما الاخر فلو بثثتہ قطع ھذا  البلعوم} (صحیح البخاری ،کتاب العلم ،باب حفظ العلم ،ص:۱۰۵، دارالمعرفت بیروت ، لبنان)

ترجمہ:-حضرت ابو ھریرہ ؓ فرماتے ہیں: مَیں نے حضور نبی پاک ﷺسے دو اقسام کے علم سیکھے ہیں کہ ایک کو تو میں نے بیان کردیا اور دوسرے کو اگر میں بیان کرتا تو میرا یہ حلقوم کاٹ دیا جاتا-

الحافظ الامام بدرالدین أبی محمدبن احمدالعینی : (المتوفی:۸۵۵ھ) اسی حدیث پاک کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

{قالت المتصوفۃ: المرادبالاوّل: علم الأحکام : والأخلاق وبالثانی: علم الأسرار،المصئون عن الأغیار،المختص بالعلماء باللّٰہ من أہل العرفان. وقال آخرون منھم : العلم المکنون والسرالمصئون علمنا ،وھونتیجۃ الخدمۃ و ثمرۃ الحکمۃ ،لایظفربھا إلاالغواصون فی بحار المجا ہدات، ولایسعدبھاإلاالمصطفون بأنوارالمجاہدات والمشاہدات}(عمدۃ القار ی شرح صحیح البخاری: جلد ۲ صفحہ نمبر۲۷۶، دار احیاء التراث العربی بیروت، لبنان)

ترجمہ:صوفیاء فرماتے ہیں پہلے ظرف سے مراد احکام اوراخلاق کاعلم ہے اوردوسرے ظرف سے مراد اسرارورموز کاعلم ہے جواغیارسے محفوظ ہے اوراہل عرفان میں سے علماء باللہ کے ساتھ خاص ہے-اوران میں سے دوسروں نے کہا:اس سے مراد مخفی علم ہے اوروہ راز ہے جومحفوظ ہے اوریہ ( علم مقربین)کی خدمت کانتیجہ اورحکمت کاثمرہ ہوتا ہے -یہ ان ہی کوحاصل ہوتا ہے جومجاہدات کے سمندروں میں غواصی کرتے ہیںاوریہ ان ہی پرمنکشف ہوتاہے جن کے دل مجاہدات اورمشاہدات کے انوارسے روشن ہوتے ہیں-

امام شرف الدین حسین بن محمد بن عبداللہ الطیبی (المتوفیٰ: ۷۴۳ھ) اسی حدیث کے تحت لکھتے ہیں:

{ولعل المراد بالأول علم الأحکام والأخلاق و بالثانی: علم الأسرار المصون عن الاغیار ، المختص بالعلماء باللّٰہ من اھل العرفان} (شرح الطیبی علی مشکاۃ المصابیح المسمی الکاشف عن حقائق السنن جلد ۱ ص ۴۵۷ مکتبہ دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان)

ترجمہ:-اور شاید پہلے علم سے مراد احکام اور اخلاق کا علم ہے اور دوسرا اَسرارو رموز کا علم ہے جو اغیار سے محفوظ ہے اور اہلِ عرفان میں سے علماء باللہ کے ساتھ خاص ہے -

شیخ المحققین حضرت شاہ عبدالحق محدث دہلوی (المتوفی ۱۰۵۲ھ) اسی حدیث کے تحت لکھتے ہیں :

’’ و گفتہ اند کہ مراد باول علم احکام و اخلاق ست کہ مشترک است میان خواص و عوام و بثانی علم اسرار کہ محفوظ و مصؤلست از اغیار از جہت باریکی و پوشیدگی آن و عدم وصول فہم ایشان بان و مخصوص است بخواص از علماء باللہ از اہل عرفان-‘‘ (اشعۃ للمعات شرح مشکوٰۃ جلد ۱ ص۱۹۰ مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ پاکستان)

ترجمہ:- اور علماء کرام فرماتے ہیں کہ اول علم سے مراد احکام و اخلاق کا علم ہے اور (یہ علم) خواص و عوام میں مشترک ہے-اور دوسرے علم سے مراد اسرار کا علم ہے جو اغیار سے محفوظ و مصئون ہے کیونکہ وہ اپنی باریکی ، پوشیدگی اور فہم عوام کے اس تک رسائی نہ ہونے کے باعث اہلِ عرفان علماء باللہ کے ساتھ خواص ہے-

العلامۃ الشیخ علی بن سلطان محمد القاری (المتوفی۱۰۱۴ ھ) اس حدیث پاک کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

{(فأما أحدھما) وھو علم الظاہر من الأ حکام والأ خلاق (وأما الاخر) وھو علم الباطن}(مرقاۃ شرح مشکوٰۃ جلد ۱ ص ۴۷۹ ،مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ پاکستان)

ترجمہ:- پس دونوں علوم میں سے پہلا علم احکام اور اخلاق سے متعلق ہے اور وہ علم ظاہر ہے اور دوسرا وہ علمِ باطن ہے-

حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ ’’مرأ ۃ شرح مشکوٰۃ‘‘ میں اسی حدیث کے تحت لکھتے ہیں :

(حضرت ابو ہریرہ ؓ فرماتے ہیں) مجھے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے دو قسم کے علم ملے ایک علمِ شریعت جو میں نے تمہیں بتا دیااور دوسرا علم اسرار و طریقت و حقیقت کہ اگر وہ ظاہر کروں تو عوام نہ سمجھیں اور مجھے بے دین سمجھ کر قتل کردیں- (مرأۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد ۱ ص ۱۸۲ مکتبہ اسلامیہ لاہور)

ان دونوں علوم کی مزیدتائید حضورنبی کریم ﷺکے اس ارشاد گرامی سے ہوتی ہے -حضرت امام حسن بصری رضی اللہ عنہ سے مرسلا روایت ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :

{العلم علمان، ،فعلم فی القلب فذاک العلم النافع، وعلم علی اللسان فذاک حجۃ اللّٰہ عزوجل علی ابن آدم -رواہ الدارمی}( مشکوٰۃ المصابیح کتاب العلم ، ص:۳۷ قدیمی کتب خانہ کراچی پاکستان)

ترجمہ:-علم دو قسم کا ہے پس ایک قلب کا علم ہے پس یہی علم نافع ہے اور دوسرا زبان کا علم ہے پس یہ بنی آدم پر اللہ تعالیٰ کی حجت ہے-

الشیخ علی بن سلطان محمد القاری (المتوفیٰ: ۱۰۱۴ھ) اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں-

{ قد یحمل الاوّل علی علم الباطن ، والثانی علی علم الظاہر}(ملا علی القاری مرقاۃ شرح مشکوٰۃ کتاب العلم ، حدیث نمبر ۲۷۰ جلد ۱ ص ۴۷۸ مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ پاکستان)

ترجمہ:-تحقیق محمول کیا ہے پہلے کو علم باطن اور دوسرے کو علم ظاہر پر-

امام شرف الدین حسین بن محمد بن عبداللہ الطیبی (المتوفیٰ: ۷۴۳ھ) اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں:

{و یمکن ان یحمل الحدیث علی علمی الظاہر والباطن}(شرح الطیبی علی مشکاۃ المصابیح المسمی الکاشف عن حقائق السنن جلد ۱ ص ۴۵۶ مکتبہ دارالکتب العلمیۃ بیروت)

ترجمہ:-اور ممکن ہے کہ اس حدیث کو علمِ ظاہر اور علمِ باطن پر محمول کیا جائے-

حجۃ الاسلام امام ابی حامد محمد بن محمد الغزالی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی: ۵۰۵ ھ) علمِ طریق آخرت سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

{فاعلم انہ قسمان: علم مکاشفۃ وعلم معاملۃ ، فالقسم الاول علم المکاشفۃ وھو علم الباطن و ذٰلک غایۃ العلوم} (احیاء علوم الدین جلد ۱ ص ۳۵ مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ پاکستان)

ترجمہ:-پس جان لے کہ علم آخرت کی دو قسمیں ہیں : علمِ مکاشفہ اور علمِ معاملہ پس پہلی قسم علمِ مکاشفہ ہے اور وہ علمِ باطن ہے اور وہ تمام علوم کی انتہا اور علتِ غائی ہے -

ان دونوں علوم کی تائید میںحضرت عبداللہ ابن مسعودؓ کی روایت نہایت ہی قابلِ ذکرہے :

{قال رسول اللّٰہ ﷺ انزل القرآن علی سبعۃ احرف لکل آیۃ منھاظاہر و بطن ولکل حد مطلع رواہ فی شرح السنۃ}(مشکوٰۃ المصابیح، کتاب العلم،ص:۳۵، قدیمی کتب خانہ کراچی ، پاکستان)

ترجمہ:- حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا : کہ قرآن سات حرفوں پر اتارا گیا ہے اُن میں سے ہر آیت کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن بھی -اور ہر ظاہر و باطن کی ایک حد ہے جہاں سے اطلاع ہے-

امام جلال الدین سیوطی  ’’ الإ تقان فی علوم القرآن‘‘میں اس روایت کوان الفاظ میں نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

{ واخرج ابو نعیم فی الحلیۃ عن ابن مسعود قال إن القرآن انزل علی سبعۃ أحرف، ما منھا حرف إلا ولہ ظھر وبطن ، و إن علی بن أبی طالب عندہ من الظاہر والباطن}(الإ تقان فی علوم القرآن ، النوع الثمانون فی طبقات المفسرین ، تفسیر الصحابۃ ) (حِلیۃ الاولیاء و طبقات الاصفیاء ، جلد ۱، ص ۶۵ دارالکتاب العربی بیروت)

ترجمہ:-امام ابو نعیم اصفہانی’’ حلیۃ‘‘ میں حضرت عبداللہ ابن مسعود ؓ سے روایت کرتے ہیں:کہ بے شک قرآن پاک سات حروف پر نازل ہوا ہے کہ اس کے ہر حرف کا ظاہر بھی ہے اور باطن بھی ہے اور حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس اس کا ظاہر بھی ہے اور باطن بھی-

ان تمام دلائل سے یہ واضح ہوا کہ علم ظاہر کی طرح علم باطن بھی ہمارے دین کا درجہ ہے اور اس کی تعلیم دینا فرائضِ نبوت میں سے ہے اور زمانۂ مصطفیٰ ﷺمیں اس کی باقاعدہ تعلیم و تربیت دی جاتی تھی-

اب حضرت امام مالک رضی اللہ عنہ ان دونوں علوم کے باہمی ربط و تعلق کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

{من تفقہ ولم یتصوف فقد تفسق، ومن تصوف ولم یتفقہ فقد تزندق، ومن جمع بینھما فقد تحقق} (مرقاۃ شرح مشکوٰۃ جلد ۱ ص ۴۷۸ مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ پاکستان)

ترجمہ:جس نے علمِ فقہ حاصل کیا اور تصوف سے بے بہرہ رہا پس وہ فاسق ہوا اور جس نے تصوف کو اپنایا مگر فقہ کو نظر انداز کر دیا وہ زندیق ہوا اور جس نے دونوں کو جمع کیا پس اُس نے حق کو پالیا-

حضرت امام ابو طالب المکی ؓان دونوں علوم کے ربط وتعلق کویوں بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

{ہما علمان أصلیان لا یستغنی أحدھما عن الاخر بمنزلۃ الإسلام والإیمان مرتبط کل منھما بالاخر کالجسم والقلب لا ینفک أحد عن صاحبہ} (رواہ دارمی) (مرقاۃ شرح مشکوٰۃ جلد ۱ ص ۴۷۸ مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ پاکستان) (شرح الطیبی علی مشکوٰۃ المصابیح المسمی الکاشف عن حقائق السنن جلد ۱ ص ۴۵۶ دارالکتب العلمیہ بیروت، لبنان)

ترجمہ:یہ دونوں علوم اصل ہیں کوئی ایک بھی دوسرے سے مستغنی نہیں ہوسکتا یہ بمنزلِ ایمان اور اسلام کے ہیں ان کا ایک دوسرے سے تعلق جسم اور دل کی طرح ہے کوئی ایک بھی دوسرے سے جدا نہیں ہوسکتا -

اور اسی طرح امام الفقہاء والمجتھدین سید محمد امین ابن عابدین شامی رحمۃاللہ علیہ( المتوفیّٰ:۱۲۵۲ھ) نے ان دونوں علوم کے باہمی ربط کویوں بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

{وھی الطریقۃ والشریعۃ متلازمۃ }(ردالمختارار علی الدرالمختار جلد۶ صفہ۳۸۰ مکتبہ امدادیہ ملتان)

ترجمہ:- اور یہ طریقت اور شریعت لازم وملزوم ہے-

امام ابوالقاسم القشیری رحمۃ اللہ علیہ شریعت و طریقت کے باہمی ربط کو یوں بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

{وکل شریعۃ غیر مؤیدۃ بالحقیقۃ فغیر مقبول وکل حقیقۃ غیر مقیدۃ بالشریعۃ فغیر مقبول} (الرسالۃ القشیریہ:۱۱۸ ،داراکتب العلمیہ بیروت، لبنان)

ترجمہ:-پس جس شریعت کو حقیقت کی تائید حاصل نہ ہو وہ غیر مقبول ہے اور جو حقیقت شریعت سے مقید نہ ہو وہ بھی غیر مقبول ہے-

الشیخ القاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ علم باطن کہاں سے حاصل ہوگا؟اور اس کاماخذ مصدرکیاہے ؟

{العلم اللدنی المأخوذ من بطون القرآن ومن مشکاۃ صدر النبی الذی لا سبیل إلی درکہ إلا الانعکاس وأما درک درکہ فبعید عن القیاس}(التفسیر المظہری:جلد ۱ ص ۱۵۲، مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ ، پاکستان)

ترجمہ:- علم اللدنی کے حصول کا ذریعہ قرآن کا باطن ہے اور حضور نبی کریم ﷺ کا سینہ اطہر ہے اس علم اللدنی کے حصول کا فقط واحد ذریعہ انعکاس ہے اس کے ادراک کا پتہ چلانا بعید از قیاس ہے-

بطون قرآن اورسینۂ مصطفی ﷺ تک رسائی فقط طہارت باطنی سے ہی ممکن ہے اورقرآنی اصطلاح میں طہارتِ باطنی کوتزکیۂ نفس کانام دیاگیاہے اوریہی تزکیہ نفس انسان کی کامیابی کی ضمانت ہے - جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

{قد افلح من تزکی}(سورۃ الاعلیٰ:۱۴)

ترجمہ:-بے شک وہی بامراد ہوا جو (نفس کی آفتوں اور گناہ کی آلودگیوں سے) پاک ہوگیا-

نجیب الطرفین کریم الابوین السید الشریف الشیخ محی الدین ابی محمد عبدالقادر الجیلانی البغدادی الحسنی الحسینی قدس سرہٗ المتوفی۵۶۱ ھ ،اسی آیت کی تفسیر کرتے ہوئے ’’ تفسیر الجیلانی‘‘ میں لکھتے ہیں:

{و تطھر عن أدناس الطبائع وأکدار الھیولی من المیل إلی الدنیا وما فیھا من اللذات الفانیۃ والشھوات الغیر الباقیۃ ، و توجہ نحو المولی بالعزیمۃ الخالصۃ} (تفسیر الجیلانی جلد ۶ ص ۳۵۱ مکتبہ الجیلانی للبحوث العلمیہ استنبول ، ترکی)

’’اور پاک ہو طبیعتوں کے میل کچیل سے اور مادہ کی مقدار دُنیا کی طرف مائل ہونے سے اور جو اس میں لذاتِ فانیہ ہیں اُ ن سے ،اور نہ رہنے والی شہوات سے اور تُو متوجہ ہو اپنے مولیٰ کی طرف خالص رخصت کیساتھ(یعنی ہر چیز سے کٹ کر)-‘‘

اورعلامہ اسماعیل حقی رحمۃ اللہ علیہ {قد افلح من تزکی و ذکر اسم ربہ فصلی} کے تحت لکھتے ہیں:

{و فی الآیۃ اشارۃ إلی تطھیر النفس عن المخالفات الشرعیۃ و تطھیر القلب عن المحبۃ الدنیویۃ بل عن ملاحظۃ الغیر والتوجہ إلی اللّٰہ تعالیٰ بقدر الاستعداد} (روح البیان فی تفسیر القرآن جلد ۱۰ ص ۴۱۷ مکتبہ دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان)

ترجمہ:- اس آیت میں نفس کی مخالفاتِ شرعیہ سے پاک کرنے اور قلب کو حبِ دنیا سے نہ صرف پاک کرنے بلکہ اسے ملاحظہ غیر سے پاک کرنے اور صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی طرف بقدر استعداد متوجہ کرنے کی طرف اشارہ ہے-

اور قرآن مجید میں ایک اورمقام پر تزکیہ نفس سے متعلق ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

{قد افلح من زکھاo  و قد خاب من دسھا }(الشمس:۱۰،۹)

ترجمہ:-بے شک وہ شخص فلاح پا گیا جس نے اس (نفس) کو (رذائل سے) پاک کر لیا (اور اس میں نیکی کی نشو و نما کی)-اور بے شک وہ شخص نامراد ہوگیا جس نے اسے (گناہوں میں) ملوث کر لیا (اور نیکی کو دبا دیا)-

 حضرت امام حسن بصری ؓ اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

{معناہ قد أفلح من زکی نفسہ فأصلحھا و حملھا علی طاعۃ اللّٰہ عز وجل} (تفسیر بغوی المسمی معالم التنزیل جلد ۴ ص ۴۶۰ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان) (تفسیر مظہری جلد۷ ص ۴۶ مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ پاکستان)

ترجمہ:-’’اس کا معنی یہ ہے بے شک وہ شخص کامیاب ہوگیا جس نے اپنے نفس کو پاک کر لیااور اس کی اصلاح کرلی اور اس کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر آمادہ کر لیا -‘‘

تو تزکیہ نفس کرنے سے انسان کے دل میں نور پیدا ہوجاتا ہے جس کو صوفیا نہ اصطلاح میں علم باطن کہتے ہیں جیسا کہ حجۃ الاسلام امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

{علم المکاشفۃ فھو عبارۃ عن نور یظھر فی القلب عند تطھیرہ و تزکیہ من صفاتہ المذمومۃ} (احیاء علوم الدین : جلد ۱ ص ۳۶ مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ )

ترجمہ:-علمِ مکاشفہ پس وہ نور سے عبارت ہے اور وہ ظاہر ہوتا ہے دل میں اُس کے صفات ِ مذمومہ سے طہارت اور پاکیزگی کے وقت -

اور اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے امام ابی العباس احمد بن محمد بن المھدی ابن عجیبہ الحسنی (المتوفی ۱۲۲۴ھ) لکھتے ہیں :

{وذلک بعد تطھیر القلب من النقائص والرذائل و تفرغہ من العلائق والشواغل، فاذا کمل تطھیر القلب ، وانجذب إلی حضرۃ الرب، فاضت علیہ العلوم اللدنیہ ، والاسرار الربانیۃ} (تفسیر بحرالمدید جلد ۴ ص ۱۷۹ مکتبہ دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان)

ترجمہ:-اور (اس نور کاپیدا ہوجانا ) قلب کا نقائص اور رذائل سے پاک ہونے اور دل کا علائق و شواغل سے فارغ ہونے کے بعدہے - پس جب دل کی طہارت مکمل ہوجاتی ہے اور اللہ رب العزت کی حضوری نصیب ہوتی ہے تو علوم لدنیہ اور اَسرارِ ربانیہ (دل)پر وارد ہونے لگتے ہیں-

شیخ محقق حضرت شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

وبعضے میگویند کہ این بشارت است برائیاں جمال او را در خواب کہ آخر بعد از ارتفاع کدورات نفسانیہ و قطع علائق جسمانیہ بمرتبۂ برسند کہ بیحجاب کشفا عیانا در بیداری باین سعادت فائز باشند- (اشعۃ اللمعات شرح مشکوٰۃ جلد ۳ ص ۶۸۵ ، مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ پاکستان)

ترجمہ:-بعض ارباب معرفت کہتے ہیں کہ یہ خواب میں جمال محمدی ﷺ کا دیدار کرنے والے خوش بختوں کیلئے بشارت ہے کہ جسمانی کدورتوں کے اٹھ جانے اور جسمانی تعلقات منقطع ہوجانے کے بعد اس مقام کو پہنچ جائیں گے کہ بحالت بیداری کشف اور مشاہدے میں اس سعادت کو حاصل کریں گے-

اور اسی سے متعلقہ حجۃ الاسلام امام محمد بن محمد الغزالی رحمۃاللہ علیہ’’المنقذمن الضلال‘‘میں لکھتے ہیں:

 {ووراء العقل طور آخر تنفتح فیہ عین أخرٰی یبصر بھاالغیب وماسیکون فی المستقبل وأموراً  أخرٰی العقل معزول عنھا} (مجموعہ رسائل الامام غزالی ’’المنقذمن الضلال ص۶۶‘‘ مکتبہ دارالکتب العلمیہ بیروت)

ترجمہ:-اور ماوراء عقل ایک اور راستہ ہے جس میں دوسری (باطنی)آنکھ کھل جاتی ہے اس کے ذریعے غیب کا ادراک ہوتا ہے اورمستقبل میں ظہور پذیر ہونے والے واقعات اور دیگر ایسے امور جس سے عقل قاصر ہوتاہے ، بھی نظر آنے لگتے ہیں-

حجۃ الاسلام امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ (الرسالۃ اللدنیہ)میں لکھتے ہیں : کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

{مامن عبدالاولقلبہ عینان} وھماعینان یدرک بھماالغیب فاذا اراداللّٰہ تعالیٰ بعبد خیرا فتح عینی قلبہ لیری ما ھو غائب عن بصرہ}(مجموعہ رسائل الامام الغزالی ، الرسالۃ اللدنیہ صفحہ: ۶۲، دارالکتب العلمیۃ بیروت)

ترجمہ:-’’ہر بندے کے دل کی دو آنکھیں ہوتی ہیں-‘‘

جن سے وہ غائب کا ادراک کرتا ہے جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے بھلائی چاہتا ہے تو اس کے قلب کی دونوں آنکھوں کو کھول دیتا ہے تاکہ وہ ان چیزوں کو بھی دیکھ لے جو اس کی ظاہری آنکھوں سے پوشیدہ ہیں-‘‘

نورِ باطن کی وسعت کا اندازہ حجۃ الاسلام امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کے اِس ارشاد سے لگا لیجئے آپ فرماتے ہیں:

{ومن أول الطریقۃ تبتدی ء المشاھدات والمکاشفات ، حتی إنھم فی یقظتھم یشاھدون الملائکۃ وأرواح الانبیاء ، ویسمعون منھم أصواتا ویقتبسون منھم فوائد} (مجموعہ رسائل الامام غزالی ، المنقذمن الضلال صفحہ:۶۳مکتبہ دارالکتب العلمیہ بیروت، لبنان) ( تفسیرروح المعانی ، الجز ۲۲:۵۷المکتبۃ الحقانیہ ملتان، پاکستان)

ترجمہ:- اور ابتدائے طریقت میں مکاشفات ومجاہدات شروع ہوجاتے ہیں یہاں تک کہ عین حالت بیداری میں بھی وہ ملائکہ اور ارواح انبیاء علیھم السلام کا مشاھدہ کرتے ہیں اور ان کی باتیں سنتے ہیں اور ان سے اکتسابِ فیض کرتے ہیں-

اور یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ اُمت محمدیہ ﷺ میں بہت سے پاکیزہ نفوس اس مقام پر پہنچے جو مجلس محمدی ﷺ میں حاضر اور بارگاہِ نبوی ﷺ سے براہِ راست ہدایت و رہنمائی حاصل کرتے ہیں جیسا کہ العلامہ محمد عبدالرؤف المناوی (التوفی:۱۰۳۱ھ) حدیث :{طوبیٰ لمن رانی} کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

{والعارفون یرونہ فی عالم الحس یقظۃحتی قال الشیخ ابوالعباس المرسی : لواحتجب عنی رسول اللّٰہ ﷺ طرفۃ عین ما عددت نفسی من الفقراء وفی روایۃمن المسلمین} (فیض القدیر شرح الجامع الصغیر جلد ۴ حدیث نمبر ۵۳۰۵ صفحہ ۳۷۰ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان)

ترجمہ:-عارفین آپ ﷺ کو عالم بیداری میں دیکھتے ہیں یہاںتک کہ حضرت شیخ ابو العاص المرسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اگر رسول اللہ ﷺ  ایک پل کیلئے بھی مجھ سے اوجھل ہوں تو میں اپنے آپ کو(اس وقت )فقراء میں شمار نہیں کرتا ، اور ایک روایت میں ہے مسلمانوں میں شمار نہیں کرتا -‘‘

امام جلال الدین عبدالرحمن بن ابی بکر السیوطی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی :۹۱۱ھ) حضرت شیخ ابو العاس مرسی رحمۃ اللہ علیہ سے متعلق یوںلکھتے ہیں :

{وقال الشیخ : لو حجب عنی رسول اللّٰہﷺ طرفۃ عین ماعددت نفسی من المسلمین}(الحاوی للفتاویٰ- جلد ۲ ص:۲۴۶ دارالکتب العلیمہ بیروت لبنان)

ترجمہ:-اگر رسول اللہ ﷺ ایک لمحہ بھر بھی مجھ سے محجوب ہوں تو میں اپنے آپ کومسلمانوں میں نہیںشمار کرتا-

عارف باللہ أحمد بن محمد بن عجیبۃ الحسینی (المتوفی: ۱۲۲۴ ھ) ’’شرحِ الحِکم ‘‘ میں حضرت الشیخ ابوالعباس المرسی کا یوںقول نقل کرتے ہیں :

{قال ابو العباس المرسی لی ثلاثون سنۃ  ماغاب عنی رسول اللّٰہ ﷺ طرفۃ اعین و لو غاب عنی ما اعددت نفسی من المسلمین} (ابعاد الغُمم عن ایقاظ الھُمم فی شرحِ الحِکم :ص : ۱۱۹ ،دارالکتب العلمیہ بیروت، لبنان)

ترجمہ:-ابو العباس المرسی نے فرمایا تیس سال سے میری یہ کیفیت ہے کہ رسول ﷺ مجھ سے ایک پل کے لیے بھی علیحدہ نہیں ہوئے اگر آپ ﷺ مجھ سے اوجھل ہوجائیں تو مَیں خود کو مسلمانوں میں شمار نہیں کرتا-‘‘

حضرت امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ (الحاوی للفتاویٰ)میں شیخ خلیفۃ بن موسی النھرملکی کے حوالے سے لکھتے ہیں :

{وقال أیضاً فی ترجمۃ الشیخ خلیفۃ بن موسی النھر ملکی : کان کثیر الرؤیۃ لرسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم یقظۃ ومنا ما فکان یقال إن أکثر أفعالہ متلقا ۃ منہ بأ مرمنہ إمایقظۃ إما مناما ، ورآہ فی لیلۃ واحدۃ سبع عشرۃ مرۃً } (الحاوی للفتاویٰ جلد ۲ صفحہ نمبر ۲۴۶ ،دارالکتب العلمیہ بیروت، لبنان)

 ترجمہ : - اسی طرح شیخ خلیفۃ بن موسی النھر ملکی کے ترجمہ میں ہے کہ حالت بیداری میں رسول اللہ ﷺ کا کثرت سے دیدار ہوتا تھا اور نیند کی حالت میں بھی- کہا جاتا ہے ان کے اکثر امور آپﷺسے حاصل شدہ تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم سے تھے وہ احکام حالت بیداری میں بھی اور حالت خواب میں بھی تھے اور ایک ہی رات میں آپ رحمۃ اللہ علیہ نے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سترہ (۱۷) مرتبہ زیارت کی-

(اسی روایت کوامام المحققین ، عمدۃ المدققین مفتیٔ بغداد حضرت شیخ شہاب الدین سید محمود آلوسی (المتوفی: ۱۲۷۰ھ) نے بھی تفسیر روح المعانی جلد:۱۱، جز: ۲۲، ص: ۵۱ پر نقل کیا ہے - )

امام عبدالوہاب شعرانی (المتوفی: ۹۷۳ ھ) حضرت امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی : ۹۱۱ ھ) کے حوالے سے لکھتے ہیں :

{والشیخ جلال الدین الألسیوطی ،کان یقول : رأیت النبی ﷺ واجتمعت بہ یقظۃ نیفاً وسبعین مرۃ } (لواقح الا نوارالقدسیہ فی بیان العھود المحمدیہ ،ص: ۱۶دارالکتب العلمیہ بیروت، لبنان)

ترجمہ:-’’شیخ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ فرماتے تھے ،کہ میں نے نبی پاکﷺکی مجلس اور زیارت حالتِ بیداری میں پچھتر مرتبہ کی -‘‘

علامہ ابی العباس احمد بن محمد بن المھدی ابن عجیبہ الحینی (المتوفی  ۱۲۲۴ھ) حضرت الشیخ ابوالعباس المرسی کا قول نقل کرنے کے بعدلکھتے ہیں:

{وأھل ھذا المقام موجودون فی کل زمان، فإن القادر فی زمانھم ھو القادر فی زماننا}(تفسیر بحر المدید فی تفسیر القرآن المجید جلد ۳ صفحہ: ۳۶۶،دارالکتب العلمیۃ بیرو ت ، لبنان)

ترجمہ:-’’ اس مقام و مرتبے والے ہر زمانے میں موجود ہوتے ہیں پس ان کے زمانہ میں جو (اس مقام پر) قادر رہے وہ ہمارے زمانہ میں بھی پائے گئے ہیں(یعنی کوئی زمانہ ایسے لوگوں سے خالی نہیں رہا)-‘‘

امام عبدالوہاب شعرانی لکھتے ہیں :

{واعلم أن مقام مجالسۃ رسول اللّٰہ عزیزۃ جدًا ، وقد جاء شخص إلٰی سیدی علی المرصفی وأنا حاضر فقال : یا سیدی قد وصلت إلی مقام صرت أری رسول اللّٰہ ﷺ یقظۃ أی وقت شئت} (لواقع الا نوارالقدسیہ فی بیان العھود المحمدیہ ، ص:۱۶دارالکتب العلمیہ بیروت، لبنان)

ترجمہ:-’’ جان لے بے شک رسول اللہﷺ کی مجلس کی جگہیں بہت ہی پیاری ہیں اور تحقیق ایک شخص ’’سیدی علی مرصفی‘‘ کی بارگاہ میں آیا اور میں بھی وہاں موجود تھا اس نے کہا یاسیدی !میں ایک ایسے مقام تک پہنچ گیا ہوں جہاں میں حالت بیداری میں جس وقت بھی تمنا کرتا ہوں رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کرلیتا ہوں -‘‘

الشیخ امام جلال الدین سیوطی حضور شہنشاہ بغداد حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی الحسنی الحسینی سے متعلق ’’ الحاوی للفتاوی‘‘میں اور شیخ الاسلام امام ابن حجر ھیثمی (المتوفی: ۹۷۴ ھ) فتاوی حدیثیہ میں لکھتے ہیں :

{ وقال الشیخ سراج الدین بن الملقن فی’’ طبقات الا ولیاء ‘‘ :قال الشیخ عبدالقادر الکیلانی: رأیت رسول اللّٰہ ﷺ قبل الظھر فقال لی: یا بنی لم لا تتکلم ؟ قلت : یا أبتاہ أنا رجل أ عجمی کیف أ تکلم علی فصحا ء بغداد ؟ فقال افتح فاک ففتحتہ فَتفل فیہ سبعا وقال : تکلم علی الناس وادع الی سبیل ربک بالحکمۃ والموعظۃ الحسنۃ فصلیت الظھر و جلست وحضرنی خلق کثیر فارتج علیّ فرأیت علیًّا قائمًا’’بازائی فی المجلس فقال لی : یا بنی لم لا تتکلم؟ قلت یا أبتاہ قد ارتج علیّ فقال : افتح فاک ففتحتہ فتفل فیہ ستا فقلت: لم لا تکملھا سبعا؟ قال : أدبًا مع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم }(الحاوی للفتاویٰ جلد ۲ صفحہ ۲۴۶ دارالکتب بیروت، لبنان) (فتاوی حدیثیہ ص ۳۹۳، قدیمی کتب خانہ کراچی ، پاکستان) (تفسیر ’’روح المعانی‘‘ جلد :۱۱ ، الجز:۲۲، صفحہ ۵۱مکتبہ حقانیہ ملتان، پاکستان)

ترجمہ:-شیخ سراج الدین بن الملقن’’ طبقات الاولیاء ‘‘میں فرماتے ہیں کہ شیخ عبدالقادر جیلانی ؓ نے فرمایا :مَیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ظہر سے پہلے دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے فرمایا اے میرے بیٹے تم کلام کیوں نہیں کرتے ؟ میں نے عرض کی اے میرے حضور! مَیں عجمی ہوں کیسے بغداد کے فصیح وبلیغ (لوگوں) کو( وعظ ونصیحت) پر کلام کروں؟ آپ نے فرمایا منہ کھول ، مَیں نے منہ کھولا پس آپ نے سات مرتبہ اپنا لعابِ دہن ڈالا اور فرمایا لوگوں کو وعظ ونصیحت کیجئیے اور بلائیے اپنے ربّ کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ -پس مَیں نے نماز ظہر ادا کی اور میں بیٹھا اور بہت زیادہ لوگ جمع ہوگئے، مجھ پر کپکی طاری ہوئی تو مَیں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنے سامنے اسی مجلس میں دیکھا آپ نے مجھ سے فرمایا اے میرے بیٹے آپ کلام کیوں نہیں کرتے ؟مَیں نے عرض کی دادا حضور !مجھ پر کپکی سی طاری ہو رہی ہے تو آپ نے فرمایا اپنا منہ کھولیے میں نے اپنا منہ کھولا آپ ؓ نے چھ مرتبہ لعاب دہن ڈالا- مَیں نے عرض کیا سات مرتبہ مکمل کیوں نہیں فرمایا؟ آپ ؓ نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ادب واحترام کی وجہ سے -

شیخ محقق حضرت شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ حضور شہنشاہ ِ بغداد سیّدنا شیخ عبد القادر الجیلانی رضی اللہ عنہ سے متعلق لکھتے ہیں:

در بہجۃ الاسرار باسنادی کہ دروی دو واسطہ بیش نیست روایت کردہ کہ روزی غوث الثقلین شیخ محی الدین عبدالقادررضی اللہ عنہ برکرسی نشستہ بودووعظ میفرمودوقریب بدہ ہزارکس درپایۂ وعظ وی حاضر وشیخ علی بن ہُیتیے درزیزپای کرسّی شیخ نشست گاہ شیخ علی بن ہُیتیے راخوابی بردپس شیخ عبدالقادرقوم رافرمود{اسکنوا}پس ہمہ ساکت شدندتاآنکہ جزانفاس ازایشان شنیدہ نمیشدپس فرودآمدشیخ از کرسی و بایستادبادب پیش شیخ علی مذکور و می نگریست دروی پس بیدارشدشیخ علی وگفت شیخ عبدالقادربادیٔ -دیدی توآں حضر ت را در خواب گفت {نعم} فرمود ازین جہت ادب درزیدم باتووایستادم درپیش توفرمودبچہ وصیت کرد ترا آں حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گفت بلازمت من مجلس ترا پس شیخ علی گفت آنچہ من درخواب دیدم شیخ عبدالقادر دربیداری دید و روایت کردہ اند کہ ہفت کس از مردان راہ دران روز از عالم رفتند رحمۃ اللّٰہ علیہم اجمعین(اشعۃ اللمعات شرح مشکوٰاۃ: جلد۳،صفحہ ۶۸۴مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ پاکستان)

ترجمہ:صاحب بہجۃ الاسرار اپنی سندسے روایت کرتے ہیں جس میں صرف دوواسطے ہیںکہ ایک دن غوث الثقلین شیخ محی الدین عبدالقادررضی اللہ تعالیٰ عنہ کرسی پربیٹھے ہوئے وعظ کہہ رہے تھے ،قریباً دس ہزار افرادمجلسِ وعظ میں حاضرتھے ،شیخ علی بن ہیتی،حضرت شیخ کی کرسی کے پائے کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ،شیخ علی بن ہیتی کونیندآگئی ،حضرت شیخ عبدالقادر نے حاضرین کوخاموشی کاحکم دیاسب لوگ خاموش ہوگئے ،حالت یہ تھی سانس لینے کی آوازوں کے علاوہ کچھ سنائی نہ دیتاتھا،حضرت شیخ عبدالقادر کرسی سے نیچے اترے اورشیخ علی ہیتی کے سامنے باادب کھڑے ہوکران کی طرف دیکھنے لگے ،شیخ علی بیدارہوئے توحضرت شیخ نے کہاتمہیں خواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت ہوئی ہے ؟ انہوں نے عرض کیا ، ہاں !فرمایا: اسی لئے میں تمہارے سامنے باادب کھڑاتھا،تمہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیانصیحت کی؟ کہنے لگے کہ آپ کی مجلس میں باقاعدہ حاضری دیاکروں ،شیخ علی نے کہاکہ جو کچھ میں نے خواب میں دیکھا تھاحضرت شیخ عبدالقادرنے بیداری میں دیکھاروایت کرتے ہیں کہ اس دن مردانِ خدا میں سے سات افراد اس دنیاسے چلے گئے رحمۃ اللہ علیہم اجمعین-

شیخ محقق محدثِ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

’’و در مواہب لدنیہ گفتہ کہ ابن منصور در رسالۂ خود نوشتہ کہ در آمد شیخ ابوالعباس قسطلانی برآن حضرت پس دعا کرد آن حضرت او را و فرمود {اخذاللّٰہ بیدک یا احمد}-‘‘(اشعۃ اللمعات، جلد ۳ ص ۶۸۴، مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ پاکستان)

ترجمہ:-مواہب لدنیہ میں ہے کہ ابن منصورنے اپنے رسالے میں لکھا کہ شیخ ابوالعباس قسطلانی حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ ﷺ نے ان کیلئے دعا کی اور فرمایا احمد اللہ تعالیٰ تمھاراہاتھ پکڑے -

شیخ محقق رحمۃ اللہ علیہ مزید شیخ ابو مسعود رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’واز شیخ ابو المسعود آوردہ کہ مصافحہ میکرد آن حضر ت را بعد از ہر نماز-‘‘(اشعۃ اللمعات جلد :۳ ص:۶۸۴، مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ پاکستان)

ترجمہ : -شیخ ابو المسعودؓکے بارے میں بیان کیا کہ وہ ہر نماز کے بعد حضور نبی کریم ﷺسے مصافحہ کیا کرتے تھے-

فقہا ، مفسرین ، محدثین اور جلیل القدر بزرگانِ دین (رحمۃ اللہ علیھم اجمعین) کے اِن تمام دلائل اور اِن تمام روایات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ صوفیاء کرام کو حضور نبی کریم ﷺ کی بارگاہ کی حضور ی نصیب ہوتی ہے اور حضور پاکﷺ انہیں باقاعدہ تعلیم وتربیت دیتے ہیں : جیسا کہ سورۃ الجمعۃ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :

{ ہُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْہُمْ یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیٰـتِہٖ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ ق وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰـلٍ مُّبِیْنٍo} (الجمعہ:۳،۲)

ترجمہ:-وہی ہے جس نے ان پڑھ لوگوں میں انہی میں سے ایک (با عظمت) رسول(ﷺ) کو بھیجا وہ اُن پر اُس کی آیتیں پڑھ کر سناتے ہیں۔ اور اُن (کے ظاہر و باطن) کو پاک کرتے ہیں اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں بے شک وہ لوگ اِن (کے تشریف لانے) سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے-

{وَاٰخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِہِمْ  ط وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُo}

ترجمہ:-اور اِن میں سے دوسرے لوگوں میں بھی (اِس رسول ﷺ کو تزکیہ و تعلیم کے لیے بھیجا ہے) جو ابھی اِن لوگوں سے نہیں ملے (جو اس وقت موجود ہیں یعنی اِن کے بعد کے زمانہ میں آئیں گے)، اور وہ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے-

امام فخرالدین محمد بن حسن بن حسین ابن علی التمیمی الرازی الشافعی (المتوفی ۶۰۶ھ) ان آیات کی تفسیر کرتے ہوئے ’’ تفسیر کبیر‘‘ میںلکھتے ہیں:

{’’ویعلمھم ‘‘ ای ویعلمھم ویعلم آخرین منھم}( التفسیرالکبیر جلد ۱۵ جز ۳۰ صفحہ : ۵،دا رالکتب العلمیہ بیروت، لبنان)

ترجمہ :- یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کرام کو بھی تعلیم دیتے ہیں اور بعد میں آنے والوں کو بھی تعلیم فرماتے ہیں -

امام ابی عبداللہ محمد بن احمد بن ابی بکر القرطبی (المتوفی ۶۷۱ھ) ان آیات کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

{ ’’ویزکیھم ویعلمھم ‘‘ ای یعلمھم ویعلّم آخرین من المؤمنین }(الجامع لاحکام القران جلد ۲۰ صفحہ نمبر ۴۵۳ الرسالۃ العالمیۃ)

ترجمہ:-آپﷺ انہیں پاک بھی فرماتے ہیں اور تعلیم بھی دیتے ہیں اور بعد والے مومنین کا بھی تزکیہ اور تعلیم فرماتے ہیں-

دیوبند مکتبۂ فکر کے ایک بہت بڑے محدث اور شارح بخاری علامہ الشیخ انورشاہ کشمیری (متوفی ۱۳۵۲ھ) ’’ فیض الباری شرح صحیح بخاری ‘‘میں لکھتے ہیں:

{ویمکن عندی رؤیتہ ﷺ یقظۃ لمن رزقہ اللّٰہ سبحانہ کما نقل عن السیوطی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی. کان زاھدًا متشدداً فی الکلام علی بعض معاصریہ ممن لہ شأن. أنہ رآہ ﷺ اثنین و عشرین مرۃ وسألہ عن احادیث  ثم صححھابعد تصحیحہ ﷺ . وکتب إلیہ الشاذلی یستشفع بہ ببعض حاجتہ إلی سلطان الوقت، وکان یوقِّرہ فأبی السیوطی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی أن یشفع لہ، وقال: إنی لا أفعل و ذلک لأن فیہ ضررُ نفسی و ضررُ الأمۃ، لأنی زرتہﷺ غیر مرۃ ولا أعرف فی نفسی أمرًا غیر أنی لا أذھب إلی باب الملوک ، فلو فعلت أمکن أن احرم من زیارتہ المبارکۃ. فأنا أرضی بضررِک الیسیر من ضررِ الأمۃ الکثیر.والشعرانی رحمہ اللّٰہ تعالی أیضاً کتب أنہ راہﷺ وقرأ علیہ البخاری فی ثمانیۃ رفقۃ معہ، ثم سمّاھم وکان واحد منھم حنفیا وکتب الدعاء الذی قرأہ عند ختمِہ- فالرؤیۃ یقظۃ متحققۃ وإنکارُھا جھلٌ .}(فیض الباری شرح صحیح بخاری،جلد ۱ ص ۲۹۲، دارالکتب العلمیہ بیروت، لبنان)

 ’’میرے نزدیک رسول اللہ ﷺ کا بیداری میں دیدار کرنا ہر اس شخص کے لئے ممکن ہے جس کو اللہ تعالیٰ یہ نعمت عطا فرمائے جس طرح حافظ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہے کہ وہ زاہد اور اپنے بعض معاصرین پر کلام میں متشدد تھے اُس کیلئے یہ شان ہے کہ انہوں نے رسول ﷺ کی بائیس مرتبہ (صحیح پچھتر بار ہے )زیارت کی اور آپ ﷺ سے بعض احادیث کی صحت کے متعلق سوال کیا اور جب آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ صحیح ہیں تو حافظ سیوطی نے ان کو صحیح قرار دیا اور شاذلی نے سوال کیا کہ وہ حاکم وقت کے پاس اس کی شفاعت کریں تو حافظ سیوطی نے

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر