نبی اکرم ﷺ کی عسکری فہم وفراست(اسماءالنبی الکریمﷺ کےتناظرمیں)

نبی اکرم ﷺ کی عسکری فہم وفراست(اسماءالنبی الکریمﷺ کےتناظرمیں)

نبی اکرم ﷺ کی عسکری فہم وفراست(اسماءالنبی الکریمﷺ کےتناظرمیں)

مصنف: فائزہ بلال نومبر 2015

اسلام اور حرب معنوی اعتبار سے دو مختلف بلکہ متضاد اصطلاحات ہیں - اسلام سے مراد امن وآشتی ہے جبکہ حرب کو تاریخ میں جنگ و جدال اور تباہی و بربادی سے تعبیر کیا جاتا ہے اسلامی فلسفہ وفکر کا کمال یہ ہے کہ اس نے قدیم نظریہ جنگ کی تطہیر کی اور فتنہ وفساد کی سرکوبی ، ظلم واستبداد کی روک تھام اور امن وامان کے قیام کے لئے پہلی مرتبہ جہاد اسلامی کا انقلاب اور منفردنظریہ پیش کیا ۔اسی لئے رسول عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنگ کی حقیقت میں جو اانقلاب پیدا کیا ہے اس میں سب سے زیادہ نمایاں کارنامہ جنگ کے مقصد کو متعین کرناتھا اسے محض خون آشامی اور غارت گری کے دائرے سے نکال کر ایک اعلیٰ اخلاقی اور مدنی نصب العین کی سطح تک لانا تھا۔(۱) علاوہ ازیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لشکریان اسلام کی ذہنی اصلاح کی طرف بھی خاص توجہ فرمائی ، ان کے مورال کو اخلاقی اقدار پر استوار کیا اورا ن کی جسمانی اور عملی تربیت کا اہتمام فرمایا -آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہر پہلو سے میدان ِجنگ کا معائنہ فرمایا - صفوں کو استوار کیا ، مجاہدین کے مابین مکمل ربط اور ہم آہنگی قائم کی ، نظم وضبط کا اہتمام فرمایا اور ایسے مثالی لشکر کی تشکیل فرمائی جس کی نظیر تاریخ میں نہیں ملتی -عساکر اسلام کی اس کایا پلٹ تربیت کا سب سے بڑا محرک صحابہ کرام ؓکی ذات مباکہ سے محبت تھی اور وہ اپنے سپاہ سالار کی جنبش ابروپر کٹ مرنے کے لئے مضطرب رہتے -عہد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام جنگیں اس حقیقت پر مہر تصدیق ثبت کرتی ہیں کہ وسائل اور افواج کی کثرت کسی دور اندیش سپہ سالار اور کفن بدوش لشکر کے سامنے بے معنی ہوکر رہ جاتی ہیں - آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمام سیاسی اور عسکری فیصلے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوی فراست پر دلیل ہیں-

جنگی تیاری، آلات حرب اور عسکری حکمت عملی:

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تبشیر وانذار (بشیری و نذیری) کے ذریعے نہ صرف صحابہ کرام کو جہاد کی ترغیب وتحریک دی بلکہ جہاد کی تیاری اور صحابہ کرام ؓ کی تربیت سمیت ہر مرحلے پر ذاتی دلچسپی کا اظہار فرمایا ، عملی نمونہ پیش کیا اور شہید کے لئے ابدی حیات کا مژدہ جاں فزا سنا کر اس عظیم عبادت کی اہمیت کو اُجاگر کیا -

سیدناالمرابطﷺ (جہاد کی تیاری کرنے والے ):

{یٰٓا یُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْااصُبِرُ وْاوَصَابِرُوْاوَرَابِطُوْاوَاتَّقُوْ االلّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْن}(۲)

’’اے ایمان والو! صبر کرو اور صبر پر ثابت قدم رہو اور (جنگ کے لئے )تیار ومستعد رہواور اللہ سے ڈروتاکہ تم کامیاب ہوجاؤ‘‘

یعنی اسلامی مملکت کی سرحدوں پر مورچوں میں مضبوطی سے ڈٹے رہو جیساکہ دشمن ڈٹے رہے اور مکمل تیاری رکھو -المرابط،ربط یارباط سے ہے یعنی نگہبانی کرنا ، حفاظت کرنا یا باندھ کر رکھناامام راغب اصفہانی مرابط کی دو اقسام بیان کرتے ہیں اول: مسلمان پر دشمن غفلت میں حملہ آور نہ ہوجائے -دوم: نفس اور بدن کی حفاظت کرنا کہ کہیں شیطان گناہ نہ کرائے(۳)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان عالی شان ہے کہ ایک نماز سے دوسری نماز تک اذان کا انتظار کرنا بھی رباط ہے کہ یہ گناہوں کے مٹانے اور درجات کی بلندی کا سبب ہے (۴)

{وَأعِدُّوألَہُم مَّااسْتَطَعْتُم مَّن قُوۃٍوَمِن رَّبَاطِ الُخَیْلِ}(۵)

’’اور ان کے لئے بہ قدر استطاعت ہتھیاروں کی قوت اور گھوڑے باندھنے کو فراہم کرو یعنی جہاد کی خوب تیاری کر چھوڑو۔‘‘

سیدنا المحرص (جہاد پر رغبت دلانے والے ):

{یٰٓایُّھَا النَّبِیُّ حَرَّضِ الْمُؤمِنِیْنَ عَلَی الْقِتَالِ}(۶)

ترجمہ:-’’اے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم !مومنین کوجہاد کی ترغیب دیجئے‘‘-

اس آیت مبارکہ میں مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب وتحریص دلائی گئی ہے اوربتایاگیا ہے کہ دس مسلمان سوکافروں کے مقابلہ سے نہ بھاگیں اب اس حکم میں تخفیف کردی گئی ہے اوربتایا گیا ہے اورایک مسلمان کودوکافروں سے لڑنے کامکلّف کیاگیا ہے کیونکہ مسلمانوں کے لئے میدان جنگ میں موت وحیات برابر کاسودا ہوتاہے-جیت کی صورت میں وہ غازی ہوگا ورنہ شہید -(۷)

ایک مجاہد عزمِ راسخ ،اخلاص اوردلی جذبہ کے ساتھ میدان جنگ میں اُترتا ہے اس کادل اللہ کے نور، اس کی معرفت اورایمان سے بھرپور ہوتاہے- وہ دین اسلام کی سربلندی کے لئے جہاد میں شریک ہوتا ہے اورشہادت اس کی تحریص ہے اس لئے وہ خوش دلی اورشرح صدر کے ساتھ جنگ کرتا ہے لیکن اس کے لئے مسلمانوں کوجنگ کے لئے ترغیب وتحریص دلانا بہت ضروری ہے-

سیدنا الند ب (جہاد پراُبھارنے والے):

{عن جابر رضی اللّٰہ عنہ یقول ندب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم النّاس یوم الخندق فانتدب الزبیر رضی اللّٰہ عنہ}(۸)

’’حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم  نے خندق کے دن ان لوگوں کوپیش قدمی پر ترغیب دی تو حضرت زبیرؓ  بھی میدان میں اُترے‘‘-

سیّدنا القتّول (ماہرِ جنگ):

شیخِ محقق شاہ عبدالحق محدّثِ دہلوی نے اس اسم مبارک کاتذکرہ مدارج النبوۃ میں کیا ہے -القتول :الصبور کے وزن پرہے یعنی جنگ کرنے والے ماہر شخص (۹)  

سیّدنا الرئیس (ماہر سردار)

نبی اکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ریاست مدینہ کے بہترین سردار ،بہادر سپہ سالار اوردوراندیش حاکم ثابت ہوئے-آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اندرونی طور پر جہاں نظامِ مواخات قائم کرکے امن وامان کاماحول بنایا وہیں خارجی عناصر سے نپٹنے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میثاقِ مدینہ ریاستی حقوق کی پہلی دستاویز کے طور پر پیش کیا اس طرح مدینہ منورہ مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے پہلا پلیٹ فارم بلکہ پہلی اسلامی ریاست ثابت ہوا اورمسلمانوں کو بحیثیت قوم پہلی مرتبہ تسلیم کیا گیا (۱۰) بلکہ اس دستوری دستاویز کی دفعات اس حقیقت کی آئینہ دارہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قریش کی طرف سے جنگی کاروائی کے خطرے کے پیش نظر پوری پیش بندی کر لی تھی -

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بطور ماہر سپہ سالار دقت نظری سے تمام صورت حال کا جائزہ لیتے اورعسکری حکمتِ عملی وضع فرماتے -

سیّدنا الرّامی (ٹھکانے پر تیر مارنے والے):

حضرت قیس بن ابی حازمؓ سے روایت ہے کہ حضرت خالد بن ولیدؓ دونشانوں کے درمیان تیر سے نشانہ لگارہے تھے اورصحابہ کرامؓ بھی موجود تھے-انہوں نے فرمایا ہمیں حکم ملا ہے کہ ہم اپنی اُولاد کوتیر اندازی اورقرآن کی تعلیم دیں -(۱۱) تیر اندازی کی طرح دوسرے حربی فنون کی مشقیں اوران میں مہارت حاصل کرنا بھی اسلامی

واپس اوپر