تاویلات کی شرعی حیثیت

تاویلات کی شرعی حیثیت

علمِ تاویل کی تعریف و توضیح:

’’اَلتّأويل من الأول، أي: الرجوع إلى الأصل‘‘[1]

’’تاویل کا لفظ اَوْل سے مشتق ہےیعنی اپنی اصل کی طرف لوٹنا‘‘-

اصطلاح شرع میں،ایک لفظ کو اس کے ظاہری معنی سے ہٹا کر ایک ایسے معنی پر محمول کرنا جس کاوہ احتمال رکھتا ہو اور وہ احتمال کتاب و سنت کے موافق ہو،مثلاً اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

’’يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ‘‘

’’وہ (اللہ تعالیٰ) مردے سے زندہ کو نکالتا ہے‘‘-

’’اگراس آیت میں انڈے سے پرندے کونکالنا مراد ہو تو تفسیر ہے اوراگر کافرسے مومن کو پید اکرنا یا جاہل سے عالم کوپید اکرنا مرادہو تویہ تاویل ہے ‘‘- [2]

تاویل کی تعریف میں محی السُنّۃ اما م بغویؒ فرماتے ہیں:

’’فأما التأويل وهو صرف الآية إلى معنى محتملٍ موافق لما قبلها وما بعدها غير مخالف للكتاب والسنة من طريق الاستنباط - فقد رخص فيه لأهل العلم‘‘[3]

’’پس جہاں تک تاویل کا تعلق ہے، پس یہ آیت کو کسی ایسے معانی کی طرف پھیرنا ہے جس کا وہ احتما ل رکھتی ہے،جو اپنے ماقبل اور اپنے مابعد کے موافق ہو،استنباط کے طریقے سے جو قرآن و سنت کے مخالف نہ ہو،پس اہل ِ علم نے اس کی اجازت دی ہے ‘‘-

تاویل کی تعریف میں شیخ مرتضے ٰزبیدی نے ابن ِ کمال کاقول نقل کرتے ہوئے فرمایا:

’’آیت ِ قرآنی کو ظاہری معانی سے پھیر کر دوسرے مفہوم کی طرف لایا جائے،بشرطیکہ وہ معانی کتاب و سنت کے موافق ہو تاویل کہلاتا ہے‘‘-[4]

اسلاف میں تاویلِ قرآن کی روایت:

  1. جامع البيان فی تأويل القرآن المعروف تفسیر الطَّبَری(لابی جعفر محمد بن جریرالطبریؒ )المتوفی:310ھ)
  2. انوار التنزيل و اسرار التاويل المعروف تفسیر البيضاوی (لقاضی ناصرالدین عبداللہ ابن عمربن محمد الشیرازی البیضاویؒ (المتوفی:791ھ)
  3. مدارك التنزيل و حقائق التأويل المعروف تفسیرالنّسفی (لامام عبد اللہ بن احمد بن محمود النسفیؒ (المتوفی:710ھ)
  4. لباب التاویل فی معانی التنزیل المعروف تفسیر الخازن (لامام علی بن محمد بن ابراھیم البغدادیؒ (المتوفی:725ھ)
  5. تاویلات اھل السنہ، (لامام ابو منصور محمد بن محمد بن محمود الماتریدیؒ (المتوفی:333ھ)

ان مذکورہ تفاسیر کے اسماءمیں تاویل کے لفظ کی موجودگی سے اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ ہمارے اکابرین کے نزدیک تاویل کا لفظ اجنبی نہیں تھا،اس کے علاوہ تفسیر ابن عباس ،تفسیر ابی السعود،تفسیر بغوی،تفسیر ملا علی قاری،تفسیر روح المعانی، تفسیر کبیر،تفسیر قشیری،تفسیر بحر محیط،تفسیر سمعانی اور دیگر کئی معتبر تفاسیر میں بھی قرآن مجید کی آیات بینات کی تاویلات موجود ہیں-

سلف صالحین نے جہاں تاویلات کے جواز کیلئے بہت سے دلائل رقم فرمائے ہیں وہاں اس کے لیے کڑی شرائط بھی رقم فرمائیں تاکہ کوئی تاویل کی آڑ میں اپنے مذموم مقاصد کو پایہ تکمیل تک نہ پہنچاتا رہے جیسا کہ علامہ جلال الدین سیوطیؒ نے مفسر کے لیے فرمایا ہے کہ وہ ان 15علوم کا جامع ہو-

’’علم لغت، علم نحو، علم صرف،علم اشتقاق، علم معانی،علم بیان اور علم بدیع ، علم قرات، علم اصول دین، علم اصول فقہ،علم ناسخ و منسوخ، علم فقہ، ان احادیث مبارکہ کا علم جو کہ تفسیر، مجمل اور مبہم کی مبیّن ہیں اور وہبی علم‘‘-[5]

مزید ایک قول نقل کرتے ہوئے فرمایا:

’’التفسير أعم من التأويل‘‘[6]

’’تفسیر ،تاویل سے عام ہے‘‘-

یعنی اس قول کا مطلب یہ ہے کہ تاویل اس سے خاص ہے یعنی ان مذکورہ علوم کے علاوہ تاویل کے لیے نورِ معرفت و نورِ بصیرت بھی ضروری ہے کیونکہ تاویل کا تعلق قرآن کے باطن سے ہے اور اس کے بارے میں وہی بات کرسکتاہے جس کا خود باطن روشن ہو-

علم ِتاویل پہ اعتراضات کا جائزہ:

جس طرح کہ اہلِ علم نے بکثرت اس کی توثیق فرمائی ہے ، وہیں بعض لوگوں نے اس سے اختلاف بھی کر رکھا ہے - ان کے چند اعتراض درج ذیل ہیں :

1- ’’ھُوَ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ مِنْہُ اٰیٰتٌ مُّحْکَمٰتٌ ھُنَّ اُمُّ الْکِتٰبِ وَاُخَرُ مُتَشٰبِھٰتٌ ط فَاَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَہَ مِنْہُ ابْتِغَآئَ الْفِتْنَۃِ وَابْتِغَآئَ تَاْوِیْـلِہٖج وَمَا یَعْلَمُ تَاْوِیْلَہٗٓ اِلاَّ اللہُ م وَالرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ یَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِہٖ کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَاج وَمَا یَذَّکَّرُ اِلَّآ اُولُوا الْاَلْبَابِ‘‘[7]

’’وہی ہے جس نے آپ پر کتاب نازل فرمائی جس میں سے کچھ آیتیں محکم (یعنی ظاہراً بھی صاف اور واضح معنی رکھنے والی) ہیں وہی (احکام) کتاب کی بنیاد ہیں اور دوسری آیتیں متشابہ (یعنی معنی میں کئی احتمال اور اشتباہ رکھنے والی) ہیں، سو وہ لوگ جن کے دلوں میں کجی ہے اس میں سے صرف متشابہات کی پیروی کرتے ہیں (فقط) فتنہ پروری کی خواہش کے زیر اثر اور اصل مراد کی بجائے من پسند معنی مراد لینے کی غرض سے اور اس کی اصل مراد کو اﷲ کے سوا کوئی نہیں جانتا اور علم میں کامل پختگی رکھنے والے کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لائے، ساری (کتاب) ہمارے رب کی طرف سے اتری ہے-

اس آیت مبارک سے معترضین یہ استنباط کرتے ہیں کہ متشابہ آیات کی پیروی اور تاویلات کے درپے وہ لوگ ہوتے ہیں، جن کے دل میں کجی (ٹیڑھا پن)ہے حالانکہ تاویل کا علم تو صرف اللہ پاک کے پاس ہے ،لہذا تاویل جائزنہیں -

2-اللہ پاک نے ارشادفرمایا :

’’اَنْ تَقُوْلُوْا عَلَی اللہِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ‘‘[8]

(اور (مزید) یہ کہ تم اﷲ (کی ذات) پر ایسی باتیں کہو جو تم خود بھی نہیں جانتے‘‘-

3-رسول اللہ (ﷺ) نے ارشادفرما یا:

’’من قال في القرآن برأيه أو بما لا يعلم فليتبوأ مقعده من النار ‘‘[9]

’’جس نے اپنی رائے سے قرآن کی تفسیرکی یا بوجہ جہالت کچھ کَہ دیاتواس نے اپناٹھکانہ جہنم میں بنالیا‘‘-

4- حضرت حذیفہ (رضی اللہ عنہ) سید ی رسول اللہ (ﷺ) سے روایت بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا کہ:

’’إن في أمتي قوما يقرؤون القرآن ينثرونه نثر الدقل يتأولونه على غير تأويله‘‘[10]

’’میری امت میں ایک جماعت ہوگی جو قرآن پڑھے گی-اسے یوں بکھیرے گی جس طرح ردی کھجوریں بکھیری جاتی ہیں،وہ ایسے معانی بیان کریں گے جواس کے معانی نہیں ہوں گے ‘‘-

ان مذکورہ روایات کے علاوہ دیگر کئی روایات ہیں جن کو وہ پیش کر کے سادہ لوح مسلمانوں کے دلوں میں یہ بات راسخ کرتے ہیں کہ قرآن کی تاویل کرنا جائز نہیں -

اب مذکورہ اوران جیسے کئی اعتراضات کا جواب دینے سے پہلے قرآن مجید کے فضائل و کمال کو درج کرنا ضروری ہوگا -

قرآن پاک کی عظمت و فضیلت:

’’قرآن مجید اللہ پاک کی وہ لاریب کتاب ہے، جس کی جامعیت و وسعت کا اندازہ عقلِ انسانی سے ماورٰی ہے ،یہ وہ بحرِ بیکراں ہے جس میں غوطہ زنی کرنے والا ’’ھَلْ مِنْ مَّزِیْد‘‘کا طالب رہا-اللہ پاک نے نہ صرف اس میں پہلی کتب آسمانی کے تمام علوم کو جمع فرما دیا ہے بلکہ یہ علومِ اولین و آخرین کا جامع ہے - چند ایسی روایات پیش کی جاتی ہیں جو قرآن پاک کی جامعیت اورعلوم ِ قرآن کی وسعت پہ دلالت کرتی ہیں-

1-اللہ پاک کا فرمان مبارک ہے:

’’وَ نَزَّلْنَا عَلَیْکَ الْکِتٰبَ تِبْیَانًا لِّکُلِّ شَیْءٍ وَّ ہُدًی وَّ رَحْمَۃً ‘‘[11]

’’اور ہم نے تم پر یہ قرآن اتارا کہ ہر چیز کا روشن بیان ہے اور ہدایت و رحمت ‘‘-

2-اللہ پا ک کا فرمان مبارک ہے :

’’وَلَا رَطْبٍ وَّ لَا یَابِسٍ اِلَّا فِیۡ کِتٰبٍ مُّبِیْن‘‘[12]

’’اور نہ کوئی تر اور نہ خشک جو ایک روشن کتاب میں لکھا نہ ہو‘‘-

3- حضور نبی کریم ،رؤف رحیم (ﷺ)نے ارشادفرمایا :

’’فضل كلام الله على سائر الكلام كفضل الله على سائر خلقه ‘‘[13]

’’اللہ تعالیٰ کے کلام (قرآن مجید) کی فضیلت دوسرے کلام پہ ایسے ہے جیسے خود اللہ تعالیٰ کو اپنی تمام مخلوقات پر فضیلت و برتری ہے‘‘-

4-رسول اللہ (ﷺ) نے ارشادفرمایا :

’’كتاب الله فيه نبأ ما كان قبلكم و خبر ما بعدكم و حكم ما بينكم وهو الفصل ليس بالهزل من تركه من جبار قصمه اللہ‘‘[14]

’’(یہ) اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے جس میں تم سے قبل کے حالات، تم سے بعد کی خبریں اور تمہارے درمیان (موجودہ امور) کا فیصلہ ہے اور ایسا فیصلہ ہے جو مذاق نہیں جس نے تکبر کرتے ہوئے اسے چھوڑ دیا تو اللہ تعالیٰ اسے توڑ دے گا‘‘-

5:-حضرت عبداللہ ابن عباس (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا:

’’إن القرآن ذوشجون وفنون وظهور وبطون، لا تنقضي عجائبه، ولا تبلغ غايته، فمن أوغل فيه برفق نجا، ومن أوغل فيه بعنف هوى: أخبار و أمثال وحلال وحرام وناسخ ومنسوخ ومحكم و متشابه وظهر وبطن، فظهره التلاوة، وبطنه التأويل، فجالسوا به العلماء وجانبوا به السفهاء‘‘[15]

’’بے شک قرآن مجید وادی کے راستوں کی طرح ہے اور مختلف فنون والا ہے اس میں ظہور و خفاء ہے (یعنی ظاہر و پوشیدہ باتیں) ، اس کے عجائب ختم نہیں ہوتے،اس کی انتہاء تک رسائی نہیں ہوتی جو شخص اس میں نرمی سے داخل ہوا اس نے نجات پائی اور جو آدمی سختی سے داخل ہوا وہ گر گیا ، اس میں خبریں، مثالیں، حلال، حرام، ناسخ، منسوخ، محکم ، متشابہ، ظاہر، باطن ہے اس کی ظاہر سے مراد اس کی تلاوت اور باطن سے مراد اس کی تاویل ہے پس اس کے اسرار کوجاننے کے لیے علماء کےپاس بیٹھو اوربے وقوفوں سے دور رہو‘‘-

6-حضرت حسن (رضی اللہ عنہ) نبی پاک (ﷺ) سے مرفوعاً روایت بیان کرتے ہیں کہ نبی مکرم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا :

’’ما نزل من القرآن آیۃ الا لھا ظھر و بطن، ولکل حرف حد ولکل حد مطلع‘‘[16]

’’قرآن پاک کی ہر آیت کا ایک ظاہر بھی ہوتا ہے اور باطن بھی اورہر حرف کی ایک حد ہوتی ہے اورہر حد کی ایک مطلع ہے ‘‘-

7- حضرت موسیٰ (علیہ السلام ) کو فرمایا گیا:

’’ يا موسى إنما مثل كتاب أحمد في الكتب بمنزلة وعاء فيه لبن كلما مخضته أخرجت زبدته‘‘[17]

’’اے موسیٰ (علیہ السلام) کتب سماوی میں جناب احمد (ﷺ) کی کتاب بمنزلہ ایک ایسے برتن کے ہے جس میں دودھ بھرا ہوا ہو اور تم جس قدر ہلاؤ اسی قدر اس کا مکھن نکالتے جاؤ‘‘-

قرآن پاک کے مذکورہ فضائل سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ پاک نے قرآن پاک کو کتنی جامعیت اور وسعت عطافرمائی ہے کہ اس میں اہلِ علم و تقویٰ جتنی غوّاصی کرتے جائیں گے اُسی قدر نایاب جواہرات سے جھولیاں بھرتے جائیں گے - اب تاویل کے شرعی جواز اور اس پہ اعتراضات کے جوابات کو بعون اللہ تعالیٰ عرض کرنے کی کوشش کریں گے-

تاویل کا جواز قرآن و سنت کی روشنی میں:

قرآن و حدیث کے بعض نصوص بالکل جامع اور اس انداز میں واضح ہیں اورجامع ہیں کہ ان میں کسی قسم کے ابہام یا تاویل کی گنجائش نہیں ہوتی اور نہ ہی ان میں مختلف معانی یاآراء کا احتمال ہوتاہے جیساکہ اللہ پاک کافرمان مبارک ہے:

’’قُلْ ہُوَ اللہُ اَحَدٌ ؁ اَللہُ الصَّمَدُ ہ ‘‘[18]

’’(اے محبوب مکرم(ﷺ)!)فرمادیجئے کہ وہ اللہ ہے وہ ایک ہے، اللہ بے نیاز ہے‘‘-

بعض نصو ص ایسی ہوتی ہیں کہ وہاں ظاہری معانی مراد لینا محال ہوتاہے اور تاویل کے بغیر کوئی چارہ کارنہیں ہوتا جیسا کہ اللہ پاک کا فرمان عالی شان ہے:

’’فَفِرُّوْا اِلیَ اللہِ‘‘[19]         

’’پس دوڑو اللہ تعالیٰ کی طرف‘‘-

مزید ارشادفرمایا:

’’ وَمَنْ کَانَ فِیْ ہٰذِہٖ اَعْمٰی فَہُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ اَعْمٰی‘‘[20]

’’اور جو شخص اس (دنیا) میں اندھا رہا سو وہ آخرت میں بھی اندھا‘‘-

تو ان مذکورہ آیات بینات میں ہم جب تک دوڑنے اور اندھا پن کی تاویل نہیں کریں گے معانی واضح نہیں ہوگا- اسی طرح بعض نصو ص ایسی ہوتی ہیں کہ ظاہری معانی لیناممکن ہوتا ہے ،ہاں البتہ اس کے ظاہری معانی کو برقرار رکھتے ہوئے اگر اس کا کوئی اور باطنی معانی مراد لے لیا جائے یعنی ا س کی ایسی تاویل کر دی جائے جو قرآن و سنت کے مطابق ہوتو ایساکرنا بھی جائز اورمستحسن ہوتا ہے- جیسا کہ فرمان ِ باری تعالیٰ ہے:

’’یٰاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَاتِلُوا الَّذِیْنَ یَلُوْنَکُمْ مِّنَ الْکُفَّارِ وَلْیَجِدُوْا فِیْکُمْ غِلْظَۃً ط وَاعْلَمُوْا اَنَّ اللہَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ‘‘[21]

’’اے ایمان والوں جہاد کرو ان کافروں سے جو تمہارے قریب ہیں اور چاہیے کہ وہ تم میں سختی پائیں اور جان رکھو کہ اللہ پرہیزگاروں کے ساتھ ہے‘‘-

یہاں تاویل کرتے ہوئے ’’یَلُوْنَکُمْ مِّنَ الْکُفَّارِ‘‘نفس بھی لیاگیاہے کہ یہ انسان کے قریب ہے اور اس سے جہاد ضروری ہے -

جہاں تک تاویل کے جواز کا تعلق ہے تو اللہ پاک نے خود قرآن پاک میں غور و فکر اور تدبر کا حکم فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا :

’’اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰی قُلُوْبٍ اَقْفَالُہَا‘‘[22]

’’تو کیا وہ قرآن کو سوچتے نہیں یا بعض دلوں پر ان کے قُفل لگے ہیں-

’’کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَیْکَ مُبٰرَکٌ لِّیَدَّبَّرُوْا اٰیٰتِہٖ وَ لِیَتَذَکَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ ‘‘[23]

’’یہ ایک کتاب ہے کہ ہم نے تمہاری طرف اتاری برکت والی تاکہ اس کی آیتوں کو سوچیں اور عقل مند نصیحت مانیں‘‘-

اگر تاویل کرنا جائز نہ ہوتا تو اللہ پاک قرآن پاک کی آیات مبارکہ میں غور و فکر اور تدبر کی اجازت مرحمت نہ فرماتا- نیز قرآن میں خود تاویل کا جواز موجود ہے-جیسا کہ حضرت موسی و حضرت خضر (علیھم السلام) کے سفر میں جب حضرت خضر (علیہ السلام) نے جب بچے کو قتل کرنے،کشتی توڑنے اور بغیر اجرت کے دیوار سیدھی کرنے کی صورت میں کچھ ایسے امور سر انجام دیے جو بظاہر سمجھ سے بالا تر تھے تو حضرت موسی ٰ(علیہ السلام)خاموش نہ رہے اور ان کی وجہ دریافت کی تو حضرت خضر(علیہ السلام)نے فرمایا:

’’سَاُنَبِّئُکَ بِتَاْوِیْلِ مَا لَمْ تَسْتَطِعْ عَّلَیْہِ صَبْرًا‘‘[24]

’’اب میں آپ کو ان باتوں کی تاویل ) بتاؤں گا جن پر آپ سے صبر نہ ہوسکا‘‘-

آپ (علیہ السلام)نے پھر فرمایا:پس جو کشتی تھی وہ مساکین کی تھی جو سمندرمیں کام کرتے تھے-میں نے چاہا کہ میں اس کو عیب دار کردوں کیونکہ پیچھے ایک ظالم بادشاہ آرہا تھا جو ہرکشتی کو غصب کر رہا تھا-اور جہاں تک بچے کا تعلق ہے اس کے والدین مومن تھے،مجھے خدشہ ہواکہ کہیں یہ بچہ ان کے کفر کا سبب نہ بنے اور میں نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہِ اقدس سے دعاکی کہ اللہ پاک ان کو اس سے نیک اورصالح لڑکا عطا فرما-دیوار دو یتیم بچوں کی تھی جس کے نیچے ان کاخزانہ تھااوران دونوں بچوں کا والد بڑا نیک تھا- یہاں تک فرمانے کے بعد آپ (علیہ السلام) نے بڑے معانی خیز کلمات ارشافرمائے ،جن میں جہاں تاویل کاجواز موجود ہے وہاں صاحبان طریقت اور ارباب ِ علم و دانش کے لیے کئی اسباق پنہاں ہیں -

’’فَاَرَادَ رَبُّکَ اَنْ یَّبْلُغَا اَشُدَّہُمَا وَ یَسْتَخْرِجَا کَنْزَہُمَا رَحْمَۃً مِّنْ رَّبِّکَ ۚ وَمَا فَعَلْتُہٗ عَنْ اَمْرِیْ ط ذٰلِکَ تَاْوِیْلُ مَا لَمْ تَسْطِعْ عَّلَیْہِ صَبْرًا‘‘ [25]

’’تو آپ کے رب نے چاہا کہ وہ دونوں اپنی جوانی کو پہنچیں اور اپنا خزانہ نکالیں آپ کے رب کی رحمت سے اور یہ کچھ میں نے اپنے حکم سے نہ کیا - یہ تاویل ہے ان باتوں کی جس پر آپ سے صبر نہ ہوسکا -

سب سے اہم بات کہ حضور نبی کریم (ﷺ)نے تاویل کا علم خود صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم)کو عطافرما یا جیساکہ حضرت عبداللہ ابن عباس (رضی اللہ عنہ) کے حق میں دعا فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا:

’’اللهم فقهه في الدين وعلمه التأويل‘‘[26]

’’اے اللہ !ان کو دین کی فہم اورعلم ِ تاویل عطافرما‘‘-

مفتیٔ بغداد علامہ سید محمود آلوسی مذکورہ حدیث مبارک کو لکھنے کے بعد فرماتے ہیں :

’’ولو كان التأويل مما لا يعلمه إلا الله تعالى لما كان للدعاء معنى‘‘[27]

’’اور اگر تاویل کو اللہ پاک کے علاوہ کوئی نہ جانتا ہوتا تو اس دعا کا کیا معانی ہوگا؟‘‘-

      اس لیے حضرت عبداللہ ابن عباس (رضی اللہ عنہ)اسی دعا کی وجہ سےفرمایا کرتے تھے:

’’أنا ممن يعلم تأويله‘‘[28]

’’میں اس کی تاویل کو جانتاہوں ‘‘-

حضور نبی کریم (ﷺ) کے فرمان مبارک ’’لكل آية منها ظهر وبطن‘‘کی وضاحت میں محی السنہ امام بغویؒ فرماتے ہیں :

’’الظهر لفظ القرآن والبطن تأويله‘‘

’’ظاہر سے مراد قرآن مجید کا لفظ اورباطن سے مراد اس کی تاویل ہے ‘‘-

تفسیر اشاری اور تاویلاتِ صوفیانہ کے جواز کے قائلین درج ذیل نصوص سے بھی استدلال کرتے ہیں:

1-حضرت عبد اللہ ابن عباس (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے، فرماتے ہیں:

’’حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) مجھے غزوہ بدر کے بزرگوں کے ساتھ شامل کرتے تھے،پس ان بزرگوں میں سے بعض نے فرمایا کہ آپ اس کو ہمارے ساتھ کیوں داخل کرتے ہیں حالانکہ ہمارے بیٹے اس کی عمرکے ہیں، تب حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا: تمہیں اس کی وجہ معلوم ہے پھرایک دن حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) نے حضرت عبداللہ ابن ِ عباس (رضی اللہ عنہ) کو بلایا پس میں نے یہی گمان کیا کہ آپ (رضی اللہ عنہ)نے مجھے اس دن اس لیے بلایا تھاکہ آپ (رضی اللہ عنہ) مجھے ان کو دکھائیں- حضرت عمر (رضی اللہ عنہ)نے فرمایا :آپ لوگ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان مبارک’’إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللّهِ وَالْفَتْحُ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُوْنَ فِيْ دِيْنِ اللهِ أَفْوَاجً فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَ اسْتَغْفِرْہُ ط اِنَّہٗ کَانَ تَوَّابًا‘‘کے متعلق کیا کہتے ہیں ؟تو ان میں سے بعض بزگوں نے کہا کہ ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ جب ہماری مدد کی جائے اورہمیں فتح عطاکی جائے تو ہم اللہ تعالیٰ کی حمد وثنابیان کریں اور اللہ سے استغفارکریں جبکہ دوسرے بزرگ خاموش رہے اور انہوں نے کچھ نہیں کہا پھر حضرت عمر (رضی اللہ عنہ)نے مجھ سے فرمایا:اے ابن عباس! کیاتم بھی اسی طرح کہتے ہو؟میں نے کہا: نہیں! حضرت عمر (رضی اللہ عنہ)نے پوچھا :پھر تم کیا کہتے ہو؟ میں نے کہا:یہ رسول اللہ (ﷺ)کی مدتِ حیات مبارک ہے جس کی اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ) کو خبر دی ہے فرمایا:

’’اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللہِ وَ الْفَتْحُ‘‘

یہ حضورنبی کریم (ﷺ)کی وصال مبارک کی علامت ہے-

’’فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَ اسْتَغْفِرْہُ طاِنَّہٗ کَانَ تَوَّابًا‘‘

توحضرت عمر(رضی اللہ عنہ)نےفرما یا :مجھے اس آیت کے بارے میں اتناہی علم ہے جتناتم بیان کررہے ہو‘‘-

(جب اللہ کی مدد اور فتح آئے،تو اپنے رب کی ثناء کرتے ہوئے اس کی پاکی بولو اور اس سے بخشش چاہو بے شک وہ بہت توبہ قبول کرنے والا ہے)

2-اسی طرح ایک اور روایت ہے جو تاویل کے جواز پہ بین دلیل ہے-حضرت ابوسعید خُدری(رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے فرماتے ہیں :

’’ رسول اللہ (ﷺ)نے لوگوں کو خطاب فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا:

’’ان اللہ خیر عبدا بین الدنیا و بین ما عندہ فاختار ذلک العبد ما عند اللہ قال فبکی ابوبکر فعجبنا لبکائہ ان یخبر رسول اللہ علیہ و آلہ وسلم عن عبد اللہ خیر فکان رسول اللہ (ﷺ) ھو المخیر و کان ابو بکر اعلمنا‘‘[29]

’’بے شک اللہ پاک نے ایک بندہ کو دنیا اور اپنے پاس رہنے کے درمیان اختیار دیا تو اس بندہ نے اس اجر کو اختیا رکر لیا، جو اللہ تعالیٰ کے پاس ہے،انہوں نے بیان کیا کہ یہ سن کر حضرت ابوبکر(رضی اللہ عنہ)رونے لگے،تو ہم کو ان کے رونے پہ تعجب ہوا کہ رسول اللہ (ﷺ)نے اس بندہ کے متعلق خبردی ہے جس کو اختیاردیا گیا (یعنی اس کو سن کر رونے کی وجہ کیا ہے؟ بعد میں پتہ چلا کہ) رسول اللہ (ﷺ) کو ہی اختیار دیا گیا تھا اور حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہ)ہم سے زیادہ علم والے تھے‘‘-

3- حضرت عبداللہ(رضی اللہ عنہ)فرماتے ہیں کہ :

’’لما نزلت ھذہ الایۃ{اَلَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ} شق ذلک علی أصحاب رسول اللہ (ﷺ) و قالو اینالم یلبس ایمانہ بظلم فقال رسول اللہ (ﷺ) انہ لیس بذالک الا تسمع الی قول لقمان لابنہ{ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ }

’’جب یہ آیت ’’ وہ جو ایمان لائے اور اپنے ایمان میں کسی ناحق کی آمیزش نہ کی‘‘نازل ہوئی تو رسول اللہ (ﷺ) کے اصحاب پہ یہ بات گراں گزری اورانہوں نے کہا کہ ہم میں سے کون ہے جو اپنے ایمان کے ساتھ ظلم کو نہ ملایا ہو،تو رسول اللہ (ﷺ) نے ارشادفرمایا:یہاں ظلم سے یہ مراد نہیں،کیاتم نے نہیں سنا کہ لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا:بے شک شرک کرنا ضرور سب سے بڑا ظلم ہے ‘‘-

تاویل کاعلم چونکہ قرآن و سنت سے ثابت ہے اس لیے امیر المؤمنین سیدنا حضرت علی المرتضیٰ (رضی اللہ عنہ) نے خوارج کو مخاطب کرتے ہوئے ارشادفرمایا:

’’نحن ضربناکم علی تنزیلہ فالیوم نضربکم علی تأویلہ‘‘[30]

’’ہم نے اس سے پہلے تمہارے خلاف تلوار چلائی تھی کہ تم تنزیل قرآن کے منکرتھے اب تمہارے خلاف اس لیے جہاد کررہے ہیں کہ تم تاویل ِقرآن کے منکر ہو‘‘-

اسی طرح حضرت ابو درداء (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں:

’’إنك لاتفقه كل الفقه حتى ترى للقرآن وجوها‘‘

’’تم قرآن کو پوری طرح سمجھ نہیں سکتے یہاں تک کہ تم قرآن مجید کے کئی وجوہ دیکھ لو‘‘-

ان مذکورہ بالا روایات مبارکہ میں ہمیں تاویل واضح نظر آتی ہے جو تاویل کے برحق ہونے پہ بین دلیل ہے -

جہاں تک ’’سورہ العمران :7‘‘ کاتعلق ہے جس کو جواز بنا کر تاویل کا انکار کیا جاتا ہے-اس کاحل درج ذیل ہے -صاحبِ تفسیر ابن کثیر اس آیت کی تفسیر میں رقمطراز ہیں :

’’ وَابْتِغَآئَ تَاْوِیْـلِہٖ‘‘یہاں بیان فرمایا ہے کہ یہ لوگ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے اس میں تحریف کرتے ہیں (یعنی یہاں تاویل بمعنی تحریف ہے جوتمام مکاتب ِ فکر کے نزدیک جائز نہیں) مزید آگے فرماتے ہیں کہ بعض علماء ’’راسخون فی العلم‘‘پر وقف کرتے ہیں ،یہی اکثر مفسرین اور اہلِ اصول کی رائے اور دلیل یہ ہے کہ ایسی چیز جو سمجھ میں نہ آئے ایساخطاب اللہ تعالیٰ کی جناب سے بعید ہے - حضرت عبداللہ ابن ِ عباس (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ میں ان علماء راسخین میں سے ہوں، جو تاویل کو جانتے ہیں، پھر متشابہ آیات کی تفسیر ان محکم آیات سے کرتے ہیں جن میں کسی قسم کی تاویل کی گنجائش نہیں ہوتی یوں قرآن کریم کی تمام آیا ت باہم مربوط اورمنظم ہوجاتی ہیں، نیز ایک دوسرے کی تصدیق ہو جاتی ہے ‘‘- [31]

اس طرح امام ابو عبد اللہ محمد بن احمد بن ابوبکر القرطبیؒ اسی آیت کے تحت مختلف اقوال ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں :

ابن فورک نے اسے ترجیح دی ہے کہ ’’راسخون فی العلم‘‘اس کی تاویل جانتے ہیں اور انہوں نے اس بارے میں خوب بیان کیا ہے- حضور نبی کریم (ﷺ) کے اس ارشادمیں جو آپ (ﷺ)نے حضرت ابن عباس (رضی اللہ عنہ) کیلیے فرمایا ہے:

 ’’اللهم فقهه في الدين وعلمه التأويل‘‘

’’یا اللہ !ان کو دین کی فقاہت عطافرما اور تاویل کاعلم عطا ‘‘-

جسے وہ تیری ذات کے لیے بیان کرے ،یعنی اسے اپنی کتاب کے معانی کا علم عطا فرما اور اس بناء پہ وقف ’’راسخون فی العلم‘‘ پر ہوگا اور ہمارے شیخ ابو العباس احمد بن عمر نے کہا ہے کہ ’’یہی صحیح ہے کیونکہ انہیں راسخین کا نام دینا اس کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ اس محکم سے زیادہ علم رکھتے ہیں،جسے جاننے میں وہ تمام لوگ برابر ہوتے ہیں جو کلام ِعرب کو سمجھتے ہیں اورپھر کون سی شے میں ان کا رسوخ ہے جب وہ اتناہی جانتے ہیں،جتناسب جانتے ہیں- لیکن متشابہ کی کئی اقسام ہیں، پس ان میں سے ایک یہ ہے جسے یقیناًکوئی نہیں جانتا،جیساکہ روح اورقیامت کا علم،کہ یہ ان میں سے ہے جسے اللہ پاک نے اپنے علم ِ غیب کے ساتھ خاص فرمایا ہے ،اوراس کا علم کوئی نہیں حاصل کرسکتا،نہ حضرت ابنِ عباس (رضی اللہ عنہ)اورنہ کوئی اور-پھر متبحر علماء میں سے جنہوں نے یہ کہا ہےکہ راسخین متشابہ کا علم نہیں رکھتے تو انہوں نے متشابہ کی اسی نوع کا ارادہ کیا ہے- اور رہا وہ جسے وجوہ ِلغت پر اور کلام ِعرب کی طرزپر محمو ل کرنا ممکن ہوتاہے تو اس میں تاویل کی جاسکتی ہے،اس کی صحیح تاویل جانی جاسکتی ہے اور اس سے اسے زائل کیا جاسکتاہے جس کا تعلق غیرِ صحیح تاویل کےساتھ ہو جیساکہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام)کے بارے میں اللہ تعالیٰ کافرمان مبارک ’’وَرُوحٌ مِنْهُ‘‘ (النساء : 171)’’إلى غير ذلك‘‘-پس کسی کو راسخ کا نام نہیں دیاجاسکتامگر تبھی جب وہ (اللہ تعالیٰ کی جانب سے)دی گئی قدرت واستطاعت کے مطابق اس نوع میں سے کثیر علم رکھتاہو-

جو حضرات یہ کہتے ہیں کہ متشابہ سے مراد منسوخ ہے تو اس قول کی بناء پر راسخین کو تاویل کے علم میں داخل کرنا صحیح ہے لیکن متشابہات کو اسی نوع کےساتھ خاص کرنا صحیح نہیں ہے کیونکہ متشابہات کاعلم وسیع ہے -[32]

امام بخاریؒ ’’کتاب التفسیر، باب: تفسیر سورہ العمران‘‘ میں فرماتے ہیں :

’’المشتبھات {وَ الرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ} یعملون {يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ }

علامہ بدر الدین عینیؒ اسی کی شرح میں حضرت مجاھدؒ کا قول نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

"الراسخون في العلم يعلمون تأويله يقولون آمنا به

’’ راسخون فی العلم‘‘اس کی تاویل جانتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لائے ‘‘-

اس کا نہایت جامع جواب علامہ سید محمود آلوسی بغدادیؒ نے دیاہے، فرماتے ہیں :

’’جن علما ء کے نزدیک متشابہات سے مراد وہ امور ہیں جن کا علم اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے مختص فرمایا ہے، وہ علماء بھی اس بات کا انکار نہیں کرتےکہ اللہ تعالیٰ نے امور کا علم بذریعہ وحی اپنے رسول (ﷺ) کو عطا فرمایا ہے،یااولیائے کاملین کے قلوب میں القاء فرمایا ہے کیونکہ جوشخص حضور نبی کریم (ﷺ) کے مقام ِ رفیع اور آپ (ﷺ) کی امت کے اولیائے کاملین کے مرتبہ کو پہچانتاہے وہ اس کا انکار نہیں کر سکتا- نفی علم محیط کی ہے اور اس علم کی جو انسان اپنی عقل و فکر سے حاصل کرتا ہے، نہ کہ اس علم کی جو اللہ اپنے نبی کو بذریعہ وحی یا کسی ولی کو بذریعہ الہام عطا فرماتا ہے‘‘- [33]

علم تاویل کاجواز صوفیاء کرام و آئمہ و مجتہدین کی تعلیمات کی روشنی میں :

اسلام کو شروع سے جن آزمائشوں اور مصائب سے گزرنا پڑا،اگر کسی بھی دوسرے مذہب کا ان آلام و مصائب سے واسطہ پڑتا تو اس کا شیرازہ بری طرح بکھر جا تا اور شاید اس کا نا م و نشان بھی اس صفحۂ ہستی سے رہتی دنیا تک مٹ جا تا،لیکن اسلام کا یہ طرہ امتیا ز ہے کہ اسلام ان تند و تیز موجوں میں (نعوذ باللہ ) بَہ نہیں گیا بلکہ روشنی کے بلند و بالا مینار کی طرح قائم رہا، ان شاء اللہ اسلام کا یہ روشن مینار تا قیامت نُورِ ہدایت بکھیرتا رہے گا -اس کی دلنواز تجلیات ظلمتوں کا سینہ چیرتی رہیں گی اور تلاطم خیز موجوں میں پھنسے ہوئے سفینوں کو بخیر و عافیت ساحل تک پہنچاتی رہیں گی- ان کارہاے نمایاں میں صوفیاء کرام، آئمہ و مجتہدین کی کاوشوں کا ایک ناقابلِ فراموش کردار ہے جس کا کوئی بھی سلیم الفطرت انکار نہیں کرسکتا-خاص طور پر مشکل وقت میں ان آئمہ و مجتہدین نے ہی اسلام کے لیے اپنے تن من دھن کی قربانی دے کر اسلام کی روح کو زندہ رکھا ، کیونکہ جب بھی اسلام پر مشکل وقت آیا تو صوفیائے اُمت اورعلمائے حق نے نہ صر ف اس فتنہ کا قلع قمع کیا بلکہ اسلام کی نورانی کرنو ں کو مزید آگے عوام النا س کے قلوب واذہان تک پہنچایا -صوفیا ء کرامؒ نے قرآن کو سمجھا اور اس کے باطنی رموز کو عام فہم انداز میں بیان کیا کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے،یہ ان کے خلوص اور اللہ پاک کی بارگاہ میں مقبولیت کا ہی نتیجہ ہے کہ آج اُمت ان کے فیوض و برکات سے مستفید ہو رہی ہے- صوفیاء کرام کو جو اللہ پاک کی بارگاہِ اقدس کا قرب ِ خاص نصیب ہوتا ہے جس کی بدولت اللہ پاک ان کے قلوب مبارکہ پہ مختلف امور کا الہام فرماتا ہے-صوفیا کرام چونکہ قرآن ِ پاک کے باطن سے واقف ہوتے ہیں اور ایک روایت کے مطابق ’’فكل إناء يترشح بما فيه‘‘ [34]کے تحت بات بھی باطن کی کرتے ہیں تو بعض اوقات ہم ظاہر تک محدود لوگ جس طرح قرآن پاک کے باطن سے لاعلم ہیں تو ہم ان کا انکار کردیتے ہیں -

اب ہم ذیل میں صوفیائے کرام، آئمہ و مجتہدین کی تعلیمات مبارکہ سے تاویل کے جواز تلاش کرنے کی سعی کرتے ہیں- سب سے پہلے صوفیاء و اتقیاء و صلحاء کے سرخیل امیر المؤمنین سیدنا حضرت علی المرتضیٰ شیرِخدا(رضی اللہ عنہ) کی حیات طیبہ کا واقعہ مبارک منقول ہے کہ ایک دفعہ بیان کیاگیا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کتاب کی اتنی بڑی شرح تھی کہ اس کو چالیس اونٹ اٹھاتے تھے ،توآپ (رضی اللہ عنہ)نے فرمایا :

’’لوباذن اللہ فی شرح معانی الفاتحہ لاشرح فیھا حتّٰی تبلغ مثل ذلک ‘‘[35]

’’اگراللہ تعالیٰ مجھ کواجازت فرمائے اورصرف سورہ فاتحہ کی تفسیر شروع کروں تو وہ بھی اتنی بھاری ہو جائے (کہ چالیس اونٹوں پہ لادی جائے ) ‘‘-

حقیقت یہ ہے کہ ہرشخص قرآن ِ پا ک کے باطن تک رسائی حاصل نہیں کرسکتا، جیساکہ سیدنا الشیخ عبد القادر جیلانی (قدس اللہ سرّہٗ )فرماتے ہیں:

’’تفسیرعوام کے لیے ہے اورتاویل خواص کے لیے‘‘-[36]

سیدنا امام جعفرصادق (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں :

’’ والله لقد تجلّى الله تعالٰى لخلقه في كلامه ولكن لا يشعرون‘‘[37]

’’اور اللہ پاک اپنے کلام میں اپنی مخلوق پر تجلیات فرماتا ہے لیکن وہ ان کا شعور نہیں رکھتے ‘‘-

اسی طرح محبوب ِ سبحانی، قطب ربانی سیدی الشیخ عبد القادر جیلانی (قدس اللہ سرّہٗ) کی حیات مبارکہ کا واقعہ ہے کہ شیخ ابو محمد یوسف بن الامام الازجی عبد الرحیم بن علی النحوزیؒ نے خبردیتے ہوئے کہا ہے کہ :

’’مجھے حافظ ابو العباس احمد نے بتایا کہ ایک دن میں تمہارے والد(الامام الازجی عبد الرحیم) کےساتھ شیخ عبد القادر (قدس اللہ سرہ) کی مجلس مبارک میں حاضر تھا کہ ایک قاری نے ایک آیت کی تلاوت کی جس کی تفسیر میں حضور غوث پاک (قدس اللہ سرہ) نے ایک توجیہ بیان فرمائی-میں نے تمہارے والد سے پوچھا کہ کیا آپؒ تفسیر کی اس توجیہ کو جانتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ہاں جانتا ہوں پھر آپ (قدس اللہ سرہ)نے اس آیت مبارکہ کی اور توجیہ بیان فرمائی میں نے پوچھا کیا اس کی توجیہ کو بھی جانتے ہو؟ انہوں نے کہا جی ہاں! -حتی کہ سیدی الشیخ عبد القادر جیلانی (قدس اللہ سرہ) اس کی گیارہ توجیہات بیان فرمائی اورمیں تمہار ے والد سے ہربارپوچھتا کہ کیا تم اس کی توجیہ جانتے ہو تو وہ کہتے کہ جی ہاں- پھر شیخ (عبدالقادرجیلانی (قدس اللہ سرہ) نے ایک اور (بارہویں)توجیہ بیان فرمائی -میں نے تمہارے والد سے پوچھا کہ کیا آپ (قدس اللہ سرہ) کی اس توجیہ کو بھی جانتے ہو تو آپ کے والد نے کہا کہ نہیں،یہاں تک آپؒ نے اس آیت پاک کی مکمل 40 توجیہات ذکر فرمائیں اورپھر آپ (قدس اللہ سرہ)نے فرمایا کہ اب ہم قال(علم ظاہر ) سے حال ( علم ِ باطن)کی طرف رجوع کرتے ہیں ‘‘- [38]

مزید ایک مرتبہ آپ (قدس اللہ سرہ) نے ارشاد فرمایا:

’’ابھی میرے دل میں علم ِ لد نی کے 70 دروازے کھولے گئے ہیں ہر دروازے کی وسعت زمین و آسمان جتنی ہے پھر خاص الخاص کی ایسی باتیں بیان فرمائیں کہ حاضرین میں سے ہر ایک حیران رہ گیا‘‘- [39]

امام جلال الدین سیوطیؒ نے اپنی کتاب ’’الاتقان فی علوم القرآن‘‘کی ’’النوع الخامس و الستون فی العلوم المستنبطۃ من القرآن‘‘میں علامہ ابن ابی الفضل المرسی کاایک قول نقل کرتے ہوئے فرمایا:

’’قرآن میں علوم ِ اولین و آخرین جمع کر دئیے گئے ہیں یہاں تک کہ کوئی علم ایسا نہیں ہے جس کے بارے میں قرآن نے اشارہ نہ فرمایا ہو‘‘-

آپؒ نے علم قرأت، تفسیر، فقہ، تاریخ، قصص، مواعظ و حکم، الامثال، تعبیر، فرائض اور علم المواقیت و غیر کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:

’’ان علوم کے علاوہ اور بھی بہت سے علوم قرآن میں ہیں، مثلاًعلم طب، علم جدل، علم ہیت، علم ہندسہ، علم جبر و مقابلہ اور علم نجوم وغیرہ‘‘-

علامہ المرسی کی اس اقتباس کے بعد امام جلال الدین سیوطیؒ اپنی رائے دیتے ہوئے فرماتے ہیں:-

’’میں کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ہر چیز پر مشتمل ہے اور جہاں تک انواع ِ علوم کی بات ہے تو کسی علم کا کوئی باب اور کوئی مسئلہ ایسا نہیں ہے جس کی طرف قرآن مجید نے اشارہ نہ فرمایا ہو، قرآن میں عجائب المخلوقات ہیں، ملکوت السموٰت و الارض ہیں اور جو کچھ افق اعلیٰ اور تحت الثری ٰ میں ہے وہ سب کچھ قرآن میں ہے ‘‘-

اسی طرح امام رازیؒ نے قرآن مجید میں جدید علوم کی نفی کرنے والوں کو جواب دیتے ہوئے فرمایا :

’’ممکن ہے کہ بعض جُہّال اور احمق قسم کے لوگ یہ اعتراض کریں کہ آپ نے تفسیر قرآن میں علم ہیت و نجوم وغیرہ کی بھرمار کر دی ہے اور یہ طریقہ تفسیر درست نہیں ہے جواباً اس مسکین ِ عقل سے کَہ دو کہ اگرتم صرف قرآن ہی میں غور و فکر کرتے تو اپنے اس قول کا بطلان تم پر واضح ہو جاتا‘‘-

مندرجہ بالا روایات کے باوجود جو لوگ تاویل کے قائل نہیں اور وہ تمام علوم کا مآخذ قرآن مجید کو نہیں بناتے-ان کی خدمت میں امام غزالیؒ کی کتاب ’’احیاء علوم الدین‘‘ کے باب ’’الباب الرابع في فهم القرآن وتفسيره بالرأي من غير نقل‘‘سے چند اقتباسات عرض کروں گا- آپؒ رقم طراز ہیں :

v     حضرت علی المرتضیٰ (رضی اللہ عنہ)کا ارشاد مبارک ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی بندے کو اپنے کتاب کی سمجھ عنائت فرماتا ہے اگر قرآن کے معانی سوائے ترجمہ منقول کے اور کچھ نہیں تو پھر اس سمجھ سے کیا مراد ہے-

v     حضرت علی المرتضیٰ (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا کہ اگر میں چاہوں تو میں قرآن کی تفسیر سے ستر اونٹ بھر دوں اس سے کیا مراد ہے؟

v     بعض علماء کا قول ہے کہ ہرآیت کے 60000 افہام (معانی) ہیں اور جس قدر سمجھنے سے باقی رہ گئے ہیں وہ ان سے بھی زیادہ ہیں-

v     ایک بزرگ کا قول ہے کہ قرآن 70200علوم پر حاوی ہے-

v     حضرت علی المرتضی ٰ (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا کہ جو قرآن کو سمجھ جاتا ہے وہ جملہ علوم کو بیان کرتا ہے-

صوفیانہ تاویلات کے جواز میں امام جلال الدین سیوطیؒ نے الاتقان میں حضرت ابن عطاء کا یہ قول نقل فرماتے ہیں کہ:

’’تم جان لو کہ اس گروہ کی تفسیر یعنی اللہ تعالیٰ کے کلام اور اس کے رسول مکرم (ﷺ) کے کلام کی تفسیر اشاری عربی معانی کے ساتھ کرنا ظاہرکو ظاہر سے پھیرنا نہیں لیکن آیت جس مقصد کے لیے آئی ہے آیت کے ظاہر سے وہ بات سمجھ میں آتی ہے اور زبان کا عرف اس پر دلالت کرتا ہے لیکن اس کےکچھ باطنی مفہوم ہیں جو آیت و حدیث سے ان لوگوں کو سمجھ آتے ہیں جن کے دلوں کو اللہ تعالیٰ کھول دیتا ہے- لہٰذا ان لوگوں سے ان معانی کےحصول سے تجھے یہ بات نہ روکے کہ کوئی جھگڑالو اور معارضہ کرنے والا کہے کہ یہ (تفسیر اشاری) اللہ تعالیٰ کے کلام اور رسول اللہ (ﷺ)کے کلام کو (ظاہر سے) پھیرنا ہے یہ پھیرنا اس صورت میں ہوتا اگر وہ کہتے کہ آیت کا صرف یہی معنی ہے،جب کہ انہوں نے یہ بات نہیں کہی بلکہ وہ ظاہر کو ان کے ظاہر پہ رکھتے ہوئے ان کے موضوعات مراد لیتے ہیں اور اسے مضبوط کرتے ہیں اور اللہ پاک کی طرف اس بات کو سمجھتے ہیں جو ان کی طرف الہام کی جاتی ہے ‘‘- [40]

اسی طرح ابن نجیمؒ کی ’’بحرائرائق شرح کنز الدقائق‘‘ میں متعدد جگہ پہ تاویل کا جواز ملتا ہے،جیساکہ ایک جگہ ایک قول نقل کرتے ہوئے رقمطرازہیں :

’’التأويل في الخبر الذي ورد عن النبي(ﷺ) إن الله يبغض الحبر السمين. معناه إذا تعمد السمن أما إذا خلقه الله سمينا فهو غير داخل في الخبر‘‘[41]

’’بے شک اللہ پاک موٹے عالم کو ناپسند فرماتا ہے جو کہ حضور نبی کریم (ﷺ)سے روایت ہے کی تاویل ہوگی-(وہ اس طرح کہ )اس کا معانی ہے کہ جب وہ جان بوجھ کر موٹا ہوا (تو اُسے اللہ پاک ناپسند فرمائے گا) اور جہاں تک تعلق ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو موٹا پیدا فرمایا ہے تو وہ اس وعید میں داخل نہیں ہے ‘‘-

اسی طرح علامہ ابن عابدین شامیؒ امام سبکیؒ کا قول نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’ثُمَّ إنْ قَدَرْتَ عَلَى التَّأْوِيلِ وَتَحْسِينِ الظَّنِّ فَدُونَك ، وَ إِلَّا فَاضْرِبْ صَفْحًا‘‘[42]

’’پھر اگر تو اگر تاویل اور حسن ظن پہ قدرت رکھے تو یہ تیرے لئے کافی ہے ورنہ تو اس سے اجتناب کر‘‘-

بعض لوگ بزرگان ِ دین کی تاویلات پہ تنقید کرنا اپنا فرض ِ منصبی سمجھتے ہیں،انہیں چاہیے کہ شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کی یہ عبارت ہمیشہ اپنے پیشِ نظر رکھیں-حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ متوفی 1180ھ فرماتے ہیں :

’’اگر ان بزرگوں کی کتب میں کوئی ایسی بات جو قرآن و حدیث کے موافق نہ ہو تو دفعۃً ان کی بزرگی کے بستر سے اعتقاد کا مہرہ نہ چننا چاہیے بلکہ بزرگوں کی خطا پکڑنا عین خطا ہے بلکہ ان کے کلام کی تاویل کر کے قرآن و حدیث کی موافقت کرنی چاہیے یا بےخودی اور حق تعالیٰ کی محبت پر محمول کریں ‘‘-[43]

من گھڑت تاویلات کا شرعی حکم:

تاویل کے جواز کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہرکوئی فرقہ باطنیہ کی طرح کی اپنے من پسندمطالب نکال کر اپنی خواہشات کی تکمیل کرتا رہے بلکہ یہ ایک نازک موضوع ہے اوراس کی اجازت ’’راسخون فی العلم‘‘ کو ہے اور’’راسخون فی العلم‘‘ کے بارے میں سیدی رسول اللہ (ﷺ)کی بارگاہِ اقدس میں عرض کیا گیا تو آپ (ﷺ)نے ارشاد فرمایا:

’’هو من برت يمينه وصدق لسانه وعف فرجه وبطنه فذاك الراسخ في العلم‘‘[44]

’’جس کی قسم پوری ہو،جس کی زبان نے سچ بولاہو،اس کا دل مستقیم ہو،جس کی بطن اور شرمگاہ عفت مآب ہو، وہ ’’راسخ فی العلم ‘‘ہے‘‘-

قاضی ثناء اللہ پانی پتیؒ نے ’’تفسیر مظہری‘‘ میں ’’راسخون فی العلم‘‘کی تعریف میں صوفیاء کا قول نقل کرتے ہوئے فرمایا:

’’یہ وہ لوگ ہیں جودل،نفس،عناصر کو فناء کرنے کے بعد خواہش نفس سے مطلقاً الگ تھلگ ہو چکے ہیں تجلیات ِ ذاتیہ سے فیض یاب ہو رہے ہیں،انہیں کسی قسم کا شبہ لاحق نہیں ہوتا‘‘-[45]

تاویل کرنے کا صرف اس کو حق حاصل ہے ،جوا س کا اہل ہے اس لیے قرآن کی تفسیر چاہے جس صنف (صوفیانہ، صرفی، نحوی، فقہی، سائنسی وغیرہ) کی ہو اس کی اصل قرآن و حدیث ہے ،کوئی تفسیر جب بھی اسلامی اصول کے مآخذ سے ٹکرائے گی اس کو رد کر دیا جائیگا جہاں تک قرآن پاک کی من مانی تاویلات کا تعلق ہے جیساکہ فریب دینے والے گمراہ فرقوں کا طریق ہے کہ وہ نہ صرف ظاہر کا انکار کرتے ہیں بلکہ آیات مبارکہ کی اپنی طرف سے ایسی تاویلات کرتے ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا-

سانحات :

تاویل کے اقرار و انکار کے بارے دو انتہائیں ہیں جنہوں نے صورتحال مکدّر کر رکھی ہے ، ایک تو ایسے گمراہ فرقے تھے جنہوں نے تاویل کا سہارا لےکر گمراہ عقائد و نظریات کو فروغ دیا- دوسری انتہا وہ لوگ ہیں جو سرے سے تاویل کا انکار کرتے ہیں ، تاویل کا مطلقاً انکار بھی ایک طرح کی گمراہی ہے - در اصل جو لوگ قرآن مجید کے بارےمیں کسی درست رائے کوبھی اہمیت نہیں دیتے ،شاید وہ یہ چاہتے ہیں کہ ہماری نئی نسل علوم جدیدہ بالخصوص سائنس وغیرہ کی رہنمائی صرف یورپ سے حاصل کرے اور علومِ جدیدہ کا بنیادی ذریعہ مغرب کو قرار دے- یا سیدنا عبد اللہ ابن ِ عباس (رضی اللہ عنہ) کی سنت پہ عمل پیرا ہو کر تما م چیزوں کو قرآن مجیدسے اخذ کرے جیسا کہ حضرت عبد اللہ ابن ِ عباس (رضی اللہ عنہ)فرمایا کرتے تھے:

’’لو ضاع لى عقال بعير لوجدته فى كتاب الله تعالىٰ‘‘[46]

’’اگر میرے لئے کسی اونٹ کی رسی (بھی )گم ہوجائے تومیں اسے کتاب اللہ میں پالوں گا‘‘-

یہ ایک حقیقت ہے ہمارے پاس اسلاف کی طرح زرخیز دماغ نہ رہے، جوسود و زیاں سے بڑھ کر سوچتے ہوں اور نہ وہ روشن قلوب رہے جن میں ہمہ وقت عشقِ مصطفٰے (ﷺ)کی شمع جگمگاتی ہو(الاماشاءاللہ)؛ اور ہم نے اپنے قلوب و اذہان کو اس نہج پہ تیار ہی نہیں کیا کہ اس کے ظاہری و باطنی علوم کو اپنے اندر سمو سکیں- جیسا کہ حضرت عبد اللہ ابن عباس (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے:

’’ جميعُ العلم في القرآن لكن تَقَاصر عنه أفهامُ الرجال‘‘[47]

’’تما م علوم قرآن میں موجودہیں لیکن لوگوں کی سمجھ کی ان تک رسائی نہیں ‘‘-

خلاصہ کلام :

قرآن و سنت کا مسلمہ اصول ہے کہ جب قرآن و احادیث مبارکہ دو اقوال اگر بظاہر متعارض آرہے ہوں تو ان میں تطبیق پیدا کی جائیگی تو یہاں بھی وہی اصول کار فرما ہوگا کہ تاویل کا مطلق انکار نہیں کیا جائیگا بلکہ جن روایات سے یہ ثبوت ملتا ہے کہ تاویل جائز نہیں اس سے مراد وہ تاویل جو اپنی رائے پہ مشتمل اور قرآن و سنت کے مخالف ہوگی- ایسی تاویل جو قرآن وسنت کی روشنی میں کی جائے وہ برحق ہے اور جو قرآن و سنت کے مخالف ہوگی اس کو ترک کردیاجائے جیساکہ اکابرینِ اُمّت کا فتوٰی موجودہے :

’’فأما التأويل المخالف للآية والشرع فمحظور لأنه تأويل الجاهلين مثل تأويل الروافض‘‘[48]

’’پس وہ تاویل جو آیت مبارک یاشرع کے مخالف ہوپس وہ ممنوع ہے کیونکہ جاہلوں کی تاویل روافض کی تاویل کی طرح ہے‘‘-

آخر میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب قرآن پاک میں ہر چیز کا بیان ہے اور ہر قسم کا علم ہے تو ہم اس سے کیوں محروم ہیں، اور ہمیں اس سے وہ موتی کیوں نہیں ملتے جن سے ہمارے اسلاف اپنے دامن کو بھرتے تھے، اس کی ایک وجہ ہمارے قلوب کا عشقِ مصطفٰے (ﷺ)سے خالی ہونا اور دوسری وجہ تدبرِ قرآن کو ترک کرنا ہے- اگر آج بھی ہم اپنے قلوب میں عشقِ مصطفٰے (ﷺ) کا چراغ جلاکر صحیح معنوں میں قرآن پاک میں غور و فکر اور تدبر شروع کر دیں تو اب بھی ہمیں ہرقسم کے مسائل کا حل اور فولادی کردار کی وہ دولت مل سکتی ہے جس کے سامنے دنیاکی جبر و استبداد کی ہرقوت سرنگوں ہوسکتی ہے- بقول علامہ محمد اقبالؒ:

قرآں میں ہو غوطہ زن ہو اے مردِ مسلماں
اللہ کرے تجھ کو عطا جدت ِ کردار [49]

اللہ پا ک ہم سب کو قرآن کی صحیح فہم عطا فرمائے اور اس کے ظاہری و باطنی فیوض و برکات سے مالا مال فرمائے-آمین!

٭٭٭


[1](غريب القرآن للأصفهانی)

[2]( کتاب التعریفات، ص:22، مطبوعہ المطبعۃ الخیریۃ، مصر)

[3](تفسیر بغوی ،مقدمہ)

[4]( تاج العروس ج :7، ص:215)

[5](الاتقان، النوع الثامن والسبعون)

[6](ایضاً)

[7](العمران:7)

[8]( الاعراف: 33)

[9](سنن النسائی، كتاب فضائل القرآن)

[10](جامع الأحاديث لجلال الدين السيوطیؒ، مسند حذيفة بن اليمان)

[11](النحل:89)

[12](الانعام،59)

[13](سنن الترمذی ،کتاب:فضائل القرآن)

[14](جامع الترمذی،کتاب:فضائل القرآن)

[15]( الاتقان فی علوم القرآن، النوع الثامن والسبعون)

[16](شرح السنة للبغوی، کتاب العلم، باب الخصومة فی القرآن)

[17]( الاتقان فی علوم القرآن، النوع الخامس والستون)

[18](الاخلاص:1-2)

[19](الذاریات:50)

[20]( الاسراء:72)

[21](التوبہ:123)

[22]( محمد(ﷺ):24)

[23](ص:29)

[24]( الکہف:78)

[25]( الکہف:82)

[26]( مستدرک حاکم ،مسنداحمد)

[27](روح المعانی ،سورہ االعمران ،زیرِ آیت:7)

[28](شرح السنہ،کتاب العلم)

[29]( صحیح بخاری ،کتاب فضائل الصحابۃ(﷢))

[30]( لسان العرب ،جلد:11،ص:33)

[31](تفسیر ابن کثیر،سورہ العمران، زیرِ آیت:7)

[32](تفسیرالقرطبی، سورہ العمران ،زیرآیت:7)

[33](تفسیرروح المعانی، سورہ العمران، زیرِ آیت: 7)

[34](روح البیان ، سورۃ البقرۃ ، زیرِآیت:30)

[35]( قران اور روحانی علوم ،حجۃ الاسلام امام غزالی ؒ)

[36]( سرالاسرار)

[37]( روح المعانی ،سورۃ العنکبوت ،زیرآیت :69)

[38]( زبدۃ الاسرار،شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ)

[39]( قلائد الجواہر ،علامہ محمد بن یحیٰ تاذفیؒ)

[40](الاتقان، جلد دوم)

[41](البحرالرائق شرح کنزالدقائق)

[42](ردالمحتار،مقدمہ)

[43]( تحفۃ الموحدین ،ص:14،سعید اینڈ سنز تاجران کتب قرآن محل کراچی)

[44]( مجع الزوائد للھیثمی،کتاب التفسیر)

[45]( تفسیر مظہری ،سورۃ العمران زیرِآیت: 7)

[46](التفسیروالمفسرون للذھبی،باب: الفصل السابع: تفسير الفقهاء، الاتقان)

[47](مرقاة المفاتيح ،باب مناقب أهل بيت النبیؐ)

[48](البرھان فی علوم القرآن للزرکشی)

[49]( ضربِ کلیم)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر