تارکین قرآن

تارکین قرآن

 دور جدیدیت اور پس جدیدیت کا سب سے بڑا فتنہ نبی کریم(ﷺ)کی نبوت و رسالت اور آپ (ﷺ)پر نازل ہونے والے کلام کی جامعیت، کاملیت، خاتمیت، ابدیت و آفاقیت  کی تکذیب ہے-نبی کریم(ﷺ)نے اپنی حیات طیبہ میں ہی قرآن مجید کی قرأت،تلاوت، تعلیم، بیان و تبیین اور جمع کو مکمل فرمایا جو یقینی طور پر اسلام کا خاصہ ہے-پارسی مذہب کی اوستا،بدھ مت کی تری پتاکا،ہندو مت کی ویدوں،مسیحیت و یہودیت کی بائبل کسی کو یہ نسبت حاصل نہیں کہ موجودہ صورت میں پائی جانے والی ان مذہبی کتب کو ان مذاہب کی مقدس شخصیات نے اپنے دور میں اسی حالت میں سکھایا ہو-یہ فتن،ابلہ فریبی، دجل، تشویش، نظریاتی تخریب کاری اور’’disinformation‘‘کا دور ہے -ہر روز کسی نظریاتی دہشت گرد کی نئی بات سننے کو ملتی ہے - دوسری طرف مذہبی طبقوں میں بیانیوں کی بحث زور و شور سے جاری ہے-حالانکہ دین کا بیان و تبیین محمد رسول اللہ(ﷺ)فرما چکے ہیں-صحابہ کرام (رضی اللہ عنہ) کے ادوار میں اسلام روم،فارس،ہند ،افریقہ اور دیگر خطوں میں پہنچ چکا تھا-اس قدر عظیم اسلامی خلافت کے وارث ہونے کے باوجود انہوں نے قرآن و اسوۂ حسنہ کے نئے بیان و تعبیر کی ضرورت کو محسوس نہیں کیا-ایک طریقہ تو یہ ہے کہ ان افراد کے افکار پر داخلی اور خارجی تنقید کی جائےجس کی یقیناً ضروت بھی ہے تاہم یہ ایک قسم کی’’ entanglement ‘‘ ہے جس کے نتیجے میں امت کے بہترین دماغوں کی زیادہ تر صلاحیتیں انہی نظریاتی دہشت گردوں کو مخاطب کرنے میں صرف ہو رہی ہیں-

پہلے طریقہ کے علاوہ ان کو جواب دینے کا سب سے مؤثر طریقہ یہ ہے کہ ان کو مخاطب کئے بغیر قرآن و سنت کی صحیح تعلیم کو اُمت پر پیش کیا جائے-صحابہ کرام (رضی اللہ عنہ) اور دور خیریت کے اصحاب کی عملی زندگی کو بیان کیا جائے-ما قبل و ما بعد دور استعمار(۱۵۰۰ تا ۱۹۵۰) کی تاریخ اور ۱۱/۹کے ’’ False Flag Operation‘‘کےبعد دنیا میں نئے تصورات کے رواج کو واضح کرتے ہوئے مسلمانوں پر تمام دنیا میں ہونے والے مظالم کو بیان کیا جائے تاکہ دین کی مکمل اور درست تصویر انسانوں تک پہنچ سکے-ان گمراہ کن بیانیوں کا ذکر حضور نبی کریم (ﷺ)نے اہل علم کی ذمہ داریوں کو بیان  فرماتے ہوئے اس طرح سے اپنی حدیث مبارکہ میں فرمایا :

 ’’ يحمل هذا العلم من كل خلف عدوله ينفون عنه تحريف الغالين وانتحال المبطلين وتأويل الجاهلين‘‘[1]

’’ہر آنے والی جماعت میں سے اس کے نیک لوگ اس علم کے حامل ہوں گے  اور وہ لوگ اس (علم) کے ذریعہ حد سے گزرنے والوں کی تحریف کو،باطلوں کی افتراء پردازی کو اور جاہلوں کی تاویلات کو دور کریں گے‘‘-

اسباب زوال امت میں سے ایک اہم سبب ’’تارک قرآن‘‘ہونا ہے-قیامت کی ایک علامت یہ بھی بیان کی گئی کہ ’’ولا يبقى من القرآن إلا رسمه‘‘ قرآن مجید کا صرف رسم الخط باقی رہ جائے گا یعنی مسلمانوں کی توجہ کا مرکز کتاب اللہ کی خوبصورت کتابت نہیں ہو گی اور وہ اس کی ہدایت کو بھلا بیٹھیں گے-مسلمانوں نے اپنے علم کی ترتیب کو  الٹ دیا ہے-ہماری پوری عمر مذاہب فقہ کو ایک دوسرے پر ترجیح دینے،رواۃ حدیث کے اقوال کی صحت معلوم کرنے یا ان کی روایتوں میں علل کی تلاش میں گزر جاتی ہے جبکہ بعض افراد کی عمر علوم آلیہ کے سیکھنے اور سکھانے  اور اپنے فرقوں کے دفاع میں ہی تمام ہو جاتی ہے-قرآن مجید اللہ رب العزت کا کلام،کتاب ہدایت اور’’العلم‘‘ہے-اگر مسلمان قرآن مجید کے علوم پر اپنے تمام علوم کی بنیاد رکھتے اور اس کا علم سیکھنے اور سکھانے کو دیگر فنون پر ترجیح دیتے تو یقیناً حالیہ ذلت و رسوائی،محتاجی اور مسکنت کا کبھی شکار نہیں ہوتے-بین الاقوامی نظام کی بنیاداقوام متحدہ کے منشور،عالمی منشور برائے حقوق انسانی، بین الاقوامی قانون انسانیت اور بین الاقوامی ادارہ صحت پر ہے-۱۱/۹کے بعد سے تاحال پانچ (۵)ملین سے زائد مسلمانوں کا قتل عام ہو چکا ہے اور ہم اس بین الاقوامی نظام کا مقابلہ کسی فرقہ،سلسلہ ،مسلک،مخصوص شخصیات و نظریات کے ساتھ خول میں بند رہ کر نہیں کر سکتےہمیں تمام تر تعصبات سے بالا ہو کر قرآن مجید اور نبی کریم(ﷺ)کے اسوۂ حسنہ کی طرف پلٹنا ہو گا-کتاب اللہ قرآن حکیم اللہ رب العزت کا کلام اور تمام جن و انس کے لیے اس کا آخری پیغام ہے-جس طرح ہر مشین کے ساتھ ایک ہدایت نامہ ہوتا ہے اسی طرح اس انسان کے لیے اللہ نے جو ہدایت نامہ دیا ہے وہ قرآن مجید ہے-قرآن کریم عقل والوں کو اپنی آیات میں غور و فکر اور تدبر کی بار بار دعوت دیتا ہے-وہ اہل علم جو قرآن میں معتکف رہتے ہیں اور اس کی بیان کردہ نشانیوں میں تفکر و تدبر  سے کام لیتے ہیں اللہ رب العزت علوم کے نئے دروازے ان پر کھولتا ہے-قرآن مجید میں بار بار کہا  گیا : ’’افلا تعقلون؟افلا یتدبرون؟ أَفَلَا تَتَفَكَّرُونَ ؟‘‘اسی طرح اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بعض مخلوقات کی قسم کھا کر بھی ان میں غورو و فکر کی طرف اشارہ کیا ہے جیسے شمس،قمر،آسمان،زمین،سمند ر وغیرہ-اس کے علاوہ اگر آپ قرآن مجید کی سورتوں کے اسماء میں غور کریں تو وہ بھی ہمیں غور و فکر کی دعوت دے رہی ہیں جیسے:

‘‘ The Thunder, The Light, The Poet, The Ant, The Spider, The Originator, The Smoke, The Star, The Moon, The Iron, The Pen, The Human, The Dawn, The Sun, The Night, The Fig,The Clinging Clot, The Earthquake, The Time, The Elephant’’.

’’الرعد، النور،الشعراء،  النمل، العنکبوت، فاطر،الدخان، النجم، القمر، الحدید، القلم، الانسان، الفجر، الشمس، الیل،التین، العلق، الزلزلہ ، الدھر، الفیل‘‘-

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رحمتہ اللہ علیہ)نے الفوز الکبیر میں قرآن حکیم کے پانچ(۵) علوم بیان فرمائے ہیں:

1.       علم الاحکام:قرآن حکیم کی تقریباً  6666 میں سےکم و بیش 300  آیات قرآن مجید کے احکامات سے بحث کرتی ہیں-ان احکامات کا دائرہ  اتنا وسیع ہے کہ ایک بچہ جب ماں کے رحم میں ابتدائی حالت میں ہوتا ہے اس وقت سے لے کر دنیا میں آنے کے بعد سےقبر کی آغوش تک کے احکامات اس کا موضوع ہیں-ان احکامات میں زندگی کے انفرادی اور اجتماعی زندگی کے تمام شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے پہلوؤ ں کے بارے میں ہدایات دی  گئی ہیں-اس  علم کے بڑے موضوعا ت میں عبادات ، معاملات ،عائلہ ،معاشرہ،قضاء و قانون،ادب القضاء، جنایات ،قانون دولی وغیرہ شامل ہیں-

2.       علم المخاصمه: اس علم کو  جدید اصطلاح میں مقارنۃ الادیان بھی کہہ سکتے ہیں یعنی Comparative Study of Religions -اس کا موضوع باطل عقائد کا رد اور حق کا اثبات ہے-

3.       علم التذکیر بایام الله: اس علم سے مراد ان واقعات کا علم ہے  جن کو اللہ  تعالیٰ نے ایجاد فرمایا  جیسے کسی قوم کو کوئی نعمت عطا فرمائی یا کسی پر عذاب نازل فرمایا ہے-در حقیقت یہ انسانوں کے عروج و زوال کی تاریخ ہے-

4.       علم التذکیر بالاء الله:یعنی اللہ تعالیٰ کی صفات ِ کاملہ کا بیان اور اس کی  نعمتوں کا علم-آسمان کی رفعت،پہاڑوں کی صلابت، زمین کا بچھونا،دریاؤں کی روانی، سمندروں کی طغیانی ،ہواؤں کا چلنا وغیرہ غرض  یہ کہ تمام اس علم کا موضوع ہیں-

5.       علم التذکیر بالموت و ما بعد الموت:یعنی موت اور اس کے بعدکے احوال کا علم-

آسان لفظوں میں قرآن کے تمام علوم کے تین (۳)موضوع ہیں:

1.       خالق کی ذات و صفات

2.       کائنات

3.       انسان

راقم کی معلومات کے مطابق تا حال دنیا میں کوئی ایسا بین الاقوامی ادارہ قائم نہیں کیا گیا جہاں قرآن مجید کو روایات اور اپنے ذاتی بیانیوں کا پابند کیے بغیر ان علوم پر دیگر فنون کی مدد سے نظری اور عملی تحقیقات کی جائیں-مدارس اسلام کے قلعے ہیں جہاں دین کے محافظوں اور اسلام کی سپاہ کی تربیت کی جاتی ہے-تا ہم وہاں بھی زیادہ تر توجہ علم الاحکام میں سے چند ایک ابواب کی طرف کی جاتی ہے اور دین کو ایک مکمل ضابطۂ ہدایت کے طور پر پیش نہیں کیا جا تا -جس کے نتیجے میں قرآن کی آفاقی و ابدی تعلیم سے روشناس نہ ہونے کی وجہ سے نئی نسل قرآن کے پیغام کو بھی دیگر مذاہب کی طرح سے ایک مذہب سمجھتے ہوئے الحاد کا رخ کرنے کے بعد جنسی اور معاشی حیوان بنتی جا رہی ہے-گویا کہ قرآن ان کے لئے اس دور میں Irrelevant بن گیا ہے-امت مسلمہ کو ایسے ادارے کی اشد ترین ضرورت ہے جہاں علوم القرآن کی مدد سے اسوۂ رسول(ﷺ)کی روشنی میں قرآن مجید کو راویوں کے اقوال کے تابع بنائے بغیر سیکھتے اور سکھاتے ہوئے بحیثیت ’’عبد‘‘اللہ کی بندگی اور بحیثیت ’’خلیفۃ اللہ‘‘کائنات کی تسخیر کی جائے-روز قیامت شفاعت رسول(ﷺ)کی نعمت کے ساتھ مسلمانوں کے لئے اس وعید کو بھی یاد رکھنا ضروری ہے :

’’وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَٰذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا‘‘[2]

’’اور رسولِ اکرم (ﷺ)عرض کریں گے: اے رب! بیشک میری قوم نے اس قرآن کو بالکل ہی چھوڑ رکھا تھا‘‘-

٭٭٭


[1](مشکوٰۃ المصابیح :رقم الحدیث : ۲۴۸)

[2](الفرقان:۳۰)

 دور جدیدیت اور پس جدیدیت کا سب سے بڑا فتنہ نبی کریم(ﷺ)کی نبوت و رسالت اور آپ (ﷺ)پر نازل ہونے والے کلام کی جامعیت، کاملیت، خاتمیت، ابدیت و آفاقیت  کی تکذیب ہے-نبی کریم(ﷺ)نے اپنی حیات طیبہ میں ہی قرآن مجید کی قرأت،تلاوت، تعلیم، بیان و تبیین اور جمع کو مکمل فرمایا جو یقینی طور پر اسلام کا خاصہ ہے-پارسی مذہب کی اوستا،بدھ مت کی تری پتاکا،ہندو مت کی ویدوں،مسیحیت و یہودیت کی بائبل کسی کو یہ نسبت حاصل نہیں کہ موجودہ صورت میں پائی جانے والی ان مذہبی کتب کو ان مذاہب کی مقدس شخصیات نے اپنے دور میں اسی حالت میں سکھایا ہو-یہ فتن،ابلہ فریبی، دجل، تشویش، نظریاتی تخریب کاری اور’’disinformation‘‘کا دور ہے -ہر روز کسی نظریاتی دہشت گرد کی نئی بات سننے کو ملتی ہے - دوسری طرف مذہبی طبقوں میں بیانیوں کی بحث زور و شور سے جاری ہے-حالانکہ دین کا بیان و تبیین محمد رسول اللہ(ﷺ)فرما چکے ہیں-صحابہ کرام (﷢) کے ادوار میں اسلام روم،فارس،ہند ،افریقہ اور دیگر خطوں میں پہنچ چکا تھا-اس قدر عظیم اسلامی خلافت کے وارث ہونے کے باوجود انہوں نے قرآن و اسوۂ حسنہ کے نئے بیان و تعبیر کی ضرورت کو محسوس نہیں کیا-ایک طریقہ تو یہ ہے کہ ان افراد کے افکار پر داخلی اور خارجی تنقید کی جائےجس کی یقیناً ضروت بھی ہے تاہم یہ ایک قسم کی’’ entanglement ‘‘ ہے جس کے نتیجے میں امت کے بہترین دماغوں کی زیادہ تر صلاحیتیں انہی نظریاتی دہشت گردوں کو مخاطب کرنے میں صرف ہو رہی ہیں-

پہلے طریقہ کے علاوہ ان کو جواب دینے کا سب سے مؤثر طریقہ یہ ہے کہ ان کو مخاطب کئے بغیر قرآن و سنت کی صحیح تعلیم کو اُمت پر پیش کیا جائے-صحابہ کرام (﷢) اور دور خیریت کے اصحاب کی عملی زندگی کو بیان کیا جائے-ما قبل و ما بعد دور استعمار(۱۵۰۰ تا ۱۹۵۰) کی تاریخ اور ۱۱/۹کے ’’ False Flag Operation‘‘کےبعد دنیا میں نئے تصورات کے رواج کو واضح کرتے ہوئے مسلمانوں پر تمام دنیا میں ہونے والے مظالم کو بیان کیا جائے تاکہ دین کی مکمل اور درست تصویر انسانوں تک پہنچ سکے-ان گمراہ کن بیانیوں کا ذکر حضور نبی کریم (ﷺ)نے اہل علم کی ذمہ داریوں کو بیان  فرماتے ہوئے اس طرح سے اپنی حدیث مبارکہ میں فرمایا :

 ’’ يحمل هذا العلم من كل خلف عدوله ينفون عنه تحريف الغالين وانتحال المبطلين وتأويل الجاهلين‘‘[1]

’’ہر آنے والی جماعت میں سے اس کے نیک لوگ اس علم کے حامل ہوں گے  اور وہ لوگ اس (علم) کے ذریعہ حد سے گزرنے والوں کی تحریف کو،باطلوں کی افتراء پردازی کو اور جاہلوں کی تاویلات کو دور کریں گے‘‘-

اسباب زوال امت میں سے ایک اہم سبب ’’تارک قرآن‘‘ہونا ہے-قیامت کی ایک علامت یہ بھی بیان کی گئی کہ ’’ولا يبقى من القرآن إلا رسمه‘‘ قرآن مجید کا صرف رسم الخط باقی رہ جائے گا یعنی مسلمانوں کی توجہ کا مرکز کتاب اللہ کی خوبصورت کتابت نہیں ہو گی اور وہ اس کی ہدایت کو بھلا بیٹھیں گے-مسلمانوں نے اپنے علم کی ترتیب کو  الٹ دیا ہے-ہماری پوری عمر مذاہب فقہ کو ایک دوسرے پر ترجیح دینے،رواۃ حدیث کے اقوال کی صحت معلوم کرنے یا ان کی روایتوں میں علل کی تلاش میں گزر جاتی ہے جبکہ بعض افراد کی عمر علوم آلیہ کے سیکھنے اور سکھانے  اور اپنے فرقوں کے دفاع میں ہی تمام ہو جاتی ہے-قرآن مجید اللہ رب العزت کا کلام،کتاب ہدایت اور’’العلم‘‘ہے-اگر مسلمان قرآن مجید کے علوم پر اپنے تمام علوم کی بنیاد رکھتے اور اس کا علم سیکھنے اور سکھانے کو دیگر فنون پر ترجیح دیتے تو یقیناً حالیہ ذلت و رسوائی،محتاجی اور مسکنت کا کبھی شکار نہیں ہوتے-بین الاقوامی نظام کی بنیاداقوام متحدہ کے منشور،عالمی منشور برائے حقوق انسانی، بین الاقوامی قانون انسانیت اور بین الاقوامی ادارہ صحت پر ہے-۱۱/۹کے بعد سے تاحال پانچ (۵)ملین سے زائد مسلمانوں کا قتل عام ہو چکا ہے اور ہم اس بین الاقوامی نظام کا مقابلہ کسی فرقہ،سلسلہ ،مسلک،مخصوص شخصیات و نظریات کے ساتھ خول میں بند رہ کر نہیں کر سکتےہمیں تمام تر تعصبات سے بالا ہو کر قرآن مجید اور نبی کریم(ﷺ)کے اسوۂ حسنہ کی طرف پلٹنا ہو گا-کتاب اللہ قرآن حکیم اللہ رب العزت کا کلام اور تمام جن و انس کے لیے اس کا آخری پیغام ہے-جس طرح ہر مشین کے ساتھ ایک ہدایت نامہ ہوتا ہے اسی طرح اس انسان کے لیے اللہ نے جو ہدایت نامہ دیا ہے وہ قرآن مجید ہے-قرآن کریم عقل والوں کو اپنی آیات میں غور و فکر اور تدبر کی بار بار دعوت دیتا ہے-وہ اہل علم جو قرآن میں معتکف رہتے ہیں اور اس کی بیان کردہ نشانیوں میں تفکر و تدبر  سے کام لیتے ہیں اللہ رب العزت علوم کے نئے دروازے ان پر کھولتا ہے-قرآن مجید میں بار بار کہا  گیا : ’’افلا تعقلون؟افلا یتدبرون؟ أَفَلَا تَتَفَكَّرُونَ ؟‘‘اسی طرح اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بعض مخلوقات کی قسم کھا کر بھی ان میں غورو و فکر کی طرف اشارہ کیا ہے جیسے شمس،قمر،آسمان،زمین،سمند ر وغیرہ-اس کے علاوہ اگر آپ قرآن مجید کی سورتوں کے اسماء میں غور کریں تو وہ بھی ہمیں غور و فکر کی دعوت دے رہی ہیں جیسے:

‘‘ The Thunder, The Light, The Poet, The Ant, The Spider, The Originator, The Smoke, The Star, The Moon, The Iron, The Pen, The Human, The Dawn, The Sun, The Night, The Fig,The Clinging Clot, The Earthquake, The Time, The Elephant’’.

’’الرعد، النور،الشعراء،  النمل، العنکبوت، فاطر،الدخان، النجم، القمر، الحدید، القلم، الانسان، الفجر، الشمس، الیل،التین، العلق، الزلزلہ ، الدھر، الفیل‘‘-

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (﷫)نے الفوز الکبیر میں قرآن حکیم کے پانچ(۵) علوم بیان فرمائے ہیں:

1.       علم الاحکام:قرآن حکیم کی تقریباً  6666 میں سےکم و بیش 300  آیات قرآن مجید کے احکامات سے بحث کرتی ہیں-ان احکامات کا دائرہ  اتنا وسیع ہے کہ ایک بچہ جب ماں کے رحم میں ابتدائی حالت میں ہوتا ہے اس وقت سے لے کر دنیا میں آنے کے بعد سےقبر کی آغوش تک کے احکامات اس کا موضوع ہیں-ان احکامات میں زندگی کے انفرادی اور اجتماعی زندگی کے تمام شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے پہلوؤ ں کے بارے میں ہدایات دی  گئی ہیں-اس  علم کے بڑے موضوعا ت میں عبادات ، معاملات ،عائلہ ،معاشرہ،قضاء و قانون،ادب القضاء، جنایات ،قانون دولی وغیرہ شامل ہیں-

2.       علم المخاصمه: اس علم کو  جدید اصطلاح میں مقارنۃ الادیان بھی کہہ سکتے ہیں یعنی Comparative Study of Religions -اس کا موضوع باطل عقائد کا رد اور حق کا اثبات ہے-

3.       علم التذکیر بایام الله: اس علم سے مراد ان واقعات کا علم ہے  جن کو اللہ  تعالیٰ نے ایجاد فرمایا  جیسے کسی قوم کو کوئی نعمت عطا فرمائی یا کسی پر عذاب نازل فرمایا ہے-در حقیقت یہ انسانوں کے عروج و زوال کی تاریخ ہے-

4.       علم التذکیر بالاء الله:یعنی اللہ تعالیٰ کی صفات ِ کاملہ کا بیان اور اس کی  نعمتوں کا علم-آسمان کی رفعت،پہاڑوں کی صلابت، زمین کا بچھونا،دریاؤں کی روانی، سمندروں کی طغیانی ،ہواؤں کا چلنا وغیرہ غرض  یہ کہ تمام اس علم کا موضوع ہیں-

5.       علم التذکیر بالموت و ما بعد الموت:یعنی موت اور اس کے بعدکے احوال کا علم-

آسان لفظوں میں قرآن کے تمام علوم کے تین (۳)موضوع ہیں:

1.       خالق کی ذات و صفات

2.       کائنات

3.       انسان

راقم کی معلومات کے مطابق تا حال دنیا میں کوئی ایسا بین الاقوامی ادارہ قائم نہیں کیا گیا جہاں قرآن مجید کو روایات اور اپنے ذاتی بیانیوں کا پابند کیے بغیر ان علوم پر دیگر فنون کی مدد سے نظری اور عملی تحقیقات کی جائیں-مدارس اسلام کے قلعے ہیں جہاں دین کے محافظوں اور اسلام کی سپاہ کی تربیت کی جاتی ہے-تا ہم وہاں بھی زیادہ تر توجہ علم الاحکام میں سے چند ایک ابواب کی طرف کی جاتی ہے اور دین کو ایک مکمل ضابطۂ ہدایت کے طور پر پیش نہیں کیا جا تا -جس کے نتیجے میں قرآن کی آفاقی و ابدی تعلیم سے روشناس نہ ہونے کی وجہ سے نئی نسل قرآن کے پیغام کو بھی دیگر مذاہب کی طرح سے ایک مذہب سمجھتے ہوئے الحاد کا رخ کرنے کے بعد جنسی اور معاشی حیوان بنتی جا رہی ہے-گویا کہ قرآن ان کے لئے اس دور میں Irrelevant بن گیا ہے-امت مسلمہ کو ایسے ادارے کی اشد ترین ضرورت ہے جہاں علوم القرآن کی مدد سے اسوۂ رسول(ﷺ)کی روشنی میں قرآن مجید کو راویوں کے اقوال کے تابع بنائے بغیر سیکھتے اور سکھاتے ہوئے بحیثیت ’’عبد‘‘اللہ کی بندگی اور بحیثیت ’’خلیفۃ اللہ‘‘کائنات کی تسخیر کی جائے-روز قیامت شفاعت رسول(ﷺ)کی نعمت کے ساتھ مسلمانوں کے لئے اس وعید کو بھی یاد رکھنا ضروری ہے :

’’وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَٰذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا‘‘[2]

’’اور رسولِ اکرم (ﷺ)عرض کریں گے: اے رب! بیشک میری قوم نے اس قرآن کو بالکل ہی چھوڑ رکھا تھا‘‘-

٭٭٭



[1](مشکوٰۃ المصابیح :رقم الحدیث : ۲۴۸)

[2](الفرقان:۳۰)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر