ذہنی دباو سے بچاو : تعلیمات ِ قرآن کی روشنی میں

ذہنی دباو سے بچاو  :  تعلیمات ِ قرآن کی روشنی میں

ذہنی دباو سے بچاو : تعلیمات ِ قرآن کی روشنی میں

مصنف: ڈاکٹر مصباح صغیر مارچ 2023

ابتدائیہ:

ذہنی دباؤ(Depression) دنیا کی تیزی سے پھیلتی ہوئی ایک خطرناک بیماری ہے جو ہر سال دنیا بھر میں تقریباً 280 ملین افراد کو متاثر کرتی ہے-[1] ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) کے مطابق دنیا کی 3.8فیصدآبادی اس بیماری سے متاثر ہوتی ہے جن میں 5.0فیصد بالغ اور 5.7فیصد 60 سال سے زیادہ عمر کے افراد شامل ہیں- ہر سال 7 لاکھ سے زیادہ افراد ذہنی دباؤ کی وجہ سے جان کی بازی ہار جاتے ہیں اور اسی وجہ سے کئی لوگ بالخصوص نوجوان لڑکے لڑکیاں خود کشی کرتے ہیں جو کہ 29-15 سال کے نوجوانوں کی اموات کی چوتھی بڑی وجہ ہے- 2008ء میں ذہنی دباؤ کو تیسری بڑی بیماری قرار دیا گیا تھا اور اس کی بڑھتی ہوئی شرح سے یہ اندازہ لگایا کہ 2030ء تک یہ دنیا کی پہلی بڑی بیماری بن جائے گی - [2]

ذہنی دباؤ کا تصور :

امریکن سائیکیٹرک ایسوسی ایشن (APA) ذہنی دباؤ کی تعریف کچھ اس طرح کرتا ہےکہ:

“Depression is a common and serious medical illness that negatively affects how you feel, the way you think and how you act. Depression causes feelings of sadness and/or a loss of interest in activities you once enjoyed. It can lead to a variety of emotional and physical problems and can decrease your ability to function at work and at home”.[3]

’’ذہنی دباؤ (Depression)ایک عام اور سنگین طبی بیماری ہے جوآپ کے محسوسات، آپ کے خیالات اور کام کرنے کے طریقہ کار کو منفی طور پر متاثر کرتی ہے - ذہنی دباؤ اداسی کے احساسات یا ان سرگرمیوں میں دلچسپی کے خاتمے کا سبب بنتی ہے جس سے آپ کبھی انتہائی لطف اندوز ہوتے تھے- یہ مختلف قسم کے جذباتی اور جسمانی مسائل کا باعث بھی بن سکتی ہے اور کاروباری اور دیگر گھریلو کام کرنے کی آپ کی صلاحیت کو کم کر سکتی ہے‘‘-

یہ ایک نفسیاتی کیفیت ہے جس میں انسان بے حد اداس،  مضمحل (anxious) اور ناامید(hopeless) ہو جاتا ہے-ماہرینِ نفسیات نے ذہنی دباؤ کی نشاندہی کے لئے کچھ علامات بتائی ہیں ضروری نہیں ہر شخص میں ساری علامات موجود ہوں- کم از کم چار علامات دو ہفتوں تک موجود ہوں اور ان کی وجہ سے معمولاتِ زندگی متاثر ہو رہے ہوں تو فرد کو ذہنی دباؤ کا مسئلہ ہے-علامات میں ہر وقت یا زیادہ تر اداس اور افسردہ رہنا، بھوک نہ لگنا، نیند نہ آنا، جسمانی یا ذہنی کمزوری و تھکن ہونا،کسی کام میں دل نہ لگنا،خود کو کم تر سمجھنا اور خود اعتمادی ختم ہونا، ماضی میں ہوئی غلطی کا خود کو مورد الزام ٹھہرانا اور خود کشی کا سوچنا اور عمل کی کو شش کرنا، شامل ہیں- خواہ مؤجب ِ بیماری کچھ بھی ہو مثلاً کسی قریب و عزیز کا انتقال، نا قابل تلافی نقصان ہونا، طلاق ہونا یا گھریلو ناچاقی ، غیر ضروری خواہشات و توقعات کا پورا نہ ہونا  یا اس قسم کے کوئی بھی تجربات کیوں نہ ہوئے ہوں- مندرجہ بالا حادثات میں دکھ، غم یا اداسی کا ہونا ایک فطری اور قدرتی ردعمل ہے ، لیکن ہر وقت ہی یاسیت اور غم میں مبتلا رہنا اور معمولات زندگی متاثر ہونا ذہنی دباؤ کو ظاہر کرتا ہے -

علمِ نفسیات میں ذہنی دباؤ کی وجوہات:

ذہنی دباؤ کی وجوہات بیان کی جائیں تو پہلی وجہ آپ کی شخصیت ہے، اگر آپ کی شخصیت کچھ اس طرح کی بن چکی ہے کہ آپ چھوٹی چھوٹی باتوں پر حد سے زیادہ پریشان ہوتے ہیں، منفی باتوں پر بہت زیادہ غور کرتے ہیں اور آپ کی خود اعتمادی بتدریج کم ہورہی ہے تو آپ بہت آسانی سے ذہنی دباؤ کا شکار ہو سکتے ہیں-

 دوسری وجہ ماحولیاتی عناصر ہیں کہ مسلسل جسمانی یا جنسی تشدد کا شکار ہونا، گھریلو ماحول کا خراب ہونا، مسلسل ناکامیاں، کسی بہت ہی عزیز شخص کی جدائی، والدین یا اپنوں کی غفلت اور معاشی مسائل بھی ذہنی دباؤ کا باعث ہوسکتے ہیں-

تیسری وجہ کیمیائی تبدیلی ہے یعنی آپ کے دماغ کے اہم حصے میں موجود نیورو ٹرانسمیٹرز (Neurotransmitters) میں بگاڑ آجانا ہے جو آپ کے موڈ کو متوازن رکھ رہے ہوتے ہیں-

چوتھی وجہ جینیاتی / موروثی ہے یعنی اگر آپ کے خاندان میں کسی کو ذہنی دباؤ ہو تو پھر آئندہ یا موجودہ نسل میں بھی وراثتی طور پر پایا جاسکتا ہے-مزید برآں اگر کوئی شخص کسی جسمانی سرگرمی میں حصہ نہیں لیتا تو وہ ذہنی دباؤ کا شکار ہو سکتا ہے-

قرآن اور ذہنی دباؤ کے اسباب:

  • ·        روحانی کمزوری

انسان کو دو بنیادی لازمی حصوں یعنی روح اور جسم کے مرکب کے طور پر پیدا کیا گیا ہےجس میں سے روحانی پہلو انسان کی زندگی میں بہت اہمیت کا حامل ہے، جس کے ذریعے سے انسان کا اپنے خالق و مالک سے رابطہ قائم ہوتا ہے اور وہ اس کی معرفت کے ذریعے اس کا عبدِ کامل بننے کی کوشش کرتا ہے- اگر کوئی شخص اپنے خالق کو جانتا ہے اور اپنی زندگی اللہ کی رضا کے مطابق گزارتا ہے،ایسا شخص خوف، اضطراب اور افسردگی سے مغلوب نہیں ہوگا - اگر وہ غفلت کرتا ہے اور روح کے تقاضوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی مالک کی منشا کو پورا نہیں کرتا تو وہ اندرونی بے چینی، اضطراب اور کشمکش کا شکار رہے گا جس کے نتیجے میں ذہنی دباؤ جنم لے سکتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ:

’’جو میری ہدایت کی پیروی کریں گے ان کو نہ کچھ خوف ہو گا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ‘‘-[4]

  • ·        آزمائشیں اور مصیبتیں

اسلامی نقطہ نظر سے زندگی دراصل آزمائشوں اور مصیبتوں سے نبرد آزما ہونے کا نام ہے- یہاں ہر ایک کو مختلف نوعیت کی آزمائش میں ڈالا جاتا ہے- شیطان کا کام انسانی دماغ کو وسوسوں اور گوناگوں اندیشوں سے بھرنا ہے اور اللہ کی رحمت سے دور و نا امید کرنا ہے- جب انسان کی روحانی طاقت کمزور پڑتی ہے تو شیطان کا وار اور آسان ہو جاتا ہے- وہ ہمیں ہر طرح سے خوف و ناامیدی میں مبتلا کرنے کی کوشش کرتا ہے قرآن کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’شیطان تمہیں مفلسی کا خوف دلاتا ہے اور بے حیائی کاحکم دیتا ہے اور اللہ تم سے اپنی طرف سے بخشش اور فضل کاوعدہ فرماتا ہے اور اللہ وسعت و الا، علم والا ہے‘‘-[5]

جبکہ اس کےبرعکس اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو یقین کامل،  ایمان بااللہ، توکل باللہ اور خود اعتمادی کی طرف بلاتا ہے تا کہ انسان روز مرہ کے مسائل سے چھٹکارا پائے اور اعلیٰ مقاصد کے مطابق زندگی بسر کرے-اسی لیے قرآن کریم میں حضور نبی کریم (ﷺ) کی آمد کا مقصدِ عظیم اس طرح بیان فرمایا ہے کہ:

’’ بیشک اللہ نے ایمان والوں پر بڑا احسان فرمایا جب ان میں ایک رسول مَبعوث فرمایا جو انہی میں سے ہے - وہ ان کے سامنے اللہ کی آیتیں تلاوت فرماتا ہے اورانہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے اگرچہ یہ لوگ اس سے پہلے یقیناًکھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے‘‘-[6]

لہٰذا! یہ ثابت ہوا کہ قرآن کریم کے مطابق انسانی زندگی کا مقصد ایک عظیم اور روحانی مقصد ہے جس کے لئے اللہ تعالیٰ انسان کو مختلف آزمائشوں اور مصیبتوں سے گزار کر اسے اس عظیم مقصد کو پورا کرنے کیلئے تیار فرماتا ہے جیسا کہ حضرت سعد (رضی اللہ عنہ) روایت کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا :

’’یا رسول اللہ(ﷺ)! لوگوں میں سب سے زیادہ سخت آزمائش کس کی ہوتی ہے؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا : انبیاء کرام ؑ کی، پھر درجہ بدرجہ مقربین کی- آدمی کی آزمائش اس کے دینی مقام کے مطابق ہوتی ہے- اگر دین میں مضبوط ہو تو سخت آزمائش ہوتی ہے- اگر دین میں کمزور ہو تو حسبِ دین آزمائش کی جاتی ہے- بندے کے ساتھ یہ آزمائشیں ہمیشہ رہتی ہیں حتیٰ کہ (مصائب پرصبر کی وجہ سے) وہ زمین پر اس طرح چلتا ہے کہ اس پر کوئی گناہ نہیں ہوتا ‘‘-[7]

 قرآن کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’ کیا اس گمان میں ہو کہ جنت میں چلے جاؤ گے اور ابھی تم پر اگلوں کی سی حالت نہ آئی پہنچی وہ سختی اور شدت سے ہلا ڈالے گئے یہاں تک کہ کہہ اٹھا رسول اور اس کے ساتھ ایمان والے، کب آئے گی اللہ کی مدد- سن لو بیشک اللہ کی مدد قریب ہے‘‘-[8]

ان مصائب اور اذیتوں کے بعد انسانی رویے مختلف حصوں میں تقسیم ہو جاتے ہیں-ان میں سے کچھ لوگ ان مصائب سے تنگ آ جاتے ہیں اور خوف و حزن کا شکار ہو جاتے ہیں - اس پر شیطانی وساوس جلتی پر تیل کا کام کرتے ہیں اور آہستہ آہستہ انسان منفی اور بے وجہ کی سوچوں میں گھِر جاتا ہے جو بالآخر ذہنی دباؤ (Depression)کی صورت اختیار کر لیتی ہے-

قرآنی تعلیم کی روشنی میں ذہنی دباؤ سے بچاؤ کا حل:

قرآن کریم ذہنی دباؤ اور اس جیسے دیگر ذہنی و نفسیاتی امراض سے نمٹنے کیلئے ایک منفرد علاج بتاتا ہے جو کہ دو مراحل پر مشتمل ہے- پہلے مرحلے میں ایک فرد میں یقینِ با اللہ پیدا کرنے کیلیے قرآن کریم ایک عام اور خاص دونوں قسم کے انسانوں کیلئے مختلف قسم کی نصیحتیں بیان فرماتا ہے جو کہ نفسیاتی، جذباتی اور عقلی طور پر انسان کو ذہنی دباؤ کے خلاف ایک مضبوط بنیاد فراہم کرتی ہیں اور اسے علاج کے دوسرے مرحلے کیلئے تیار کرتے ہیں جس میں انسان تلاشِ حق میں اسلام کے طریقہ عبادت کے مطابق عملی عبادات کرتا ہے جس سے انسان کا ذہن، قلب اور روح تینوں کی توجہ کا مرکز ذاتِ حق تعالیٰ اس کی خوشنودی بن جاتا ہے اور انسان مصائب اور اذیتوں کو ذہن پر سوار کرنے کی بجائے مردانہ وار ان کا مقابلہ کرتا ہے اور اللہ کی رضا پر راضی رہتا ہے-

ذہنی دباؤ سے بچاؤ کیلئے قرآنی نصائح :

قرآن میں جگہ جگہ ایسے ان گنت واقعات اور نصیحتیں پڑھنے کو ملتی ہیں جو انسان کو بلند حوصلہ اور ہمت فراہم کرتی ہیں- قرآنی فلسفے کا بنیادی منہج جو کہ اللہ تعالیٰ کا ایک انسان سے بنیادی تقاضا بھی ہے، کو قرآنِ کریم میں یوں بیان کیا گیا ہے :

’’اور تم ہمت نہ ہارو اور غم نہ کھاؤ، اگر تم ایمان والے ہو تو تم ہی غالب آؤ گے‘‘-[9]

’’جان لو! کہ جو اللہ کے دوست ہیں ان کو نہ کچھ خوف ہے اور نہ کوئی غم ہے‘‘-[10]

جب لگ رہا ہو کہ ہمارے لئےکچھ نہیں اس دنیا میں، ہمارا کوئی نہیں جس کو ہماری فکر ہو، جسے ہم سے محبت ہو تو جان لیں ایک عظیم ہستی ایسی بھی ہے جو ہمیں کبھی نہیں بھولتی، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

’’اور تمہارا رب( تمہیں) کبھی بھولنے والا نہیں ‘‘-[11]

قرآن کریم کے نزدیک خوف و پریشانی ایک فطری عمل ہے جسے اللہ تعالیٰ اپنی ذات پر یقین پیدا کرنے کیلئے استعمال کرتا ہے- انبیاء (علیھم السلام)بھی کچھ وقت کیلئے خوف و پریشانی سے نبرد آزما رہے ہیں حتی کہ ان کو اللہ تعالیٰ پر یقینِ کامل نصیب ہو گیا- جب حضرت موسیٰ اور حضرت  ہارون ؑ کو اللہ تعالیٰ نے فرعون کی طرف دعوتِ حق دے کر بھیجا تو انھوں نے کہا کہ:

’’اے ہمارے رب! بیشک ہم ڈرتے ہیں کہ وہ ہم پر زیادتی کرے یا شرارت سے پیش آئے‘‘-[12]

اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو اس انجانے خوف سے دور کرنے اور اپنی ذات پر یقین پیدا کرنے کیلئے فرمایا :

’’ ڈرو نہیں میں تمہارے ساتھ ہوں (اور میں) سنتا اور دیکھتا ہوں‘‘-[13]

ایک انسان کو بنیادی طور پر درج ذیل چیزوں کا خوف و پریشانی لاحق ہوتی ہے جس وجہ سے وہ ذہنی دباؤ جیسے امراض کا شکار ہو جاتا ہے-

غربت و افلاس کا خوف:

مشہور بین الاقوامی جریدہ ’’سائنس(Science)‘‘ کی حالیہ تحقیق کے مطابق دنیا میں بڑھتی ہوئی غربت اور غذائی قلت، جو کہ کورونا وائرس کے اثرات کے بعد مزید بڑھ رہی ہے، انسان کی ذہنی صحت کو بری طرح متاثر کرنے میں پیش پیش ہے-جس کی وجہ سے لوگوں میں ذہنی دباؤ جیسے امراض کا حیران کن حد تک اضافہ ہو رہا ہے- [14]  غذائی قلت، غربت و افلاس واقعی مسَلّم حقائق ہیں جن سے پردہ پوشی کرنا نا صرف نا ممکن ہے بلکہ مزید پریشانیوں کا با عث بھی بنتا ہے- یہ مسائل انسان کی قوتِ عمل اور قوتِ فکر دونوں کو بروئے کار لانے سے حل ہوتے ہیں - اگر ایک شخص فقط سوچتا رہے کہ ان نامساعد حالات میں وہ کہاں سے کھائے گا اور کس سے مدد طلب کرے گا تو یقیناً ایسی سوچیں اسے عملی اور ذہنی طور پر مفلوج کر دیں گی جس کا نتیجہ ذہنی دباؤ ہے- اسی لیے قرآن کریم انسان کے غربت و افلاس کے خوف دور کرنے کیلئے سب سے پہلے اس میں یقین باللہ پیدا کرتا ہے کہ:

’’ زمین میں چلنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں ہے جس کا رزق اللہ کے ذمے نہ ہو اور جس کے متعلق وہ نہ جانتا ہو کہ کہاں وہ رہتا ہے اور کہاں وہ سونپا جاتا ہے، سب کچھ ایک صاف دفتر میں درج ہے‘‘-[15]

 مزید ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ:

’’اپنی اولاد کو افلاس کے اندیشے سے قتل نہ کرو ہم انہیں بھی رزق دیں گے اور تمہیں بھی در حقیقت اُن کا قتل ایک بڑی خطا ہے‘‘-[16]

قرآن کریم کا یہ انداز درحقیقت بالکل نفسیاتی اور تجزیاتی ہے جو کہ انسان کی شخصیت کی گہرائیوں میں ہونے والے معاملات کی احسن طریقہ سےنشاندہی کرتا ہے اور اسے ان بے جا سوچوں کے بھنور سے نکالنے کیلئے اس کی فطرت کو اکساتا ہے کہ وہ اللہ پر یقینِ کامل رکھے- جب ایک انسان کو یہ یقین ہوتا ہے کہ اس کی روزی کا ذمہ اس بارگاہِ کامل میں ہے جو کہ کیڑوں کو پتھروں میں رزق دے رہا ہے تو اسے حوصلہ نصیب ہوتا ہے- ایسے شخص کو قرآن پھر قوتِ عمل سے نوازتا ہے جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ:

’’وہ (اللہ)کسی نعمت کو جو اس نے کسی قوم کو عطا کی ہو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ وہ قوم خود اپنے طرزِ عمل کو نہیں بدل دیتی اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے‘‘-[17]

اس طرح سے ایک انسان اپنی دونوں قوتوں کو ان کی صحیح سمت میں لاتا ہے اور بھرپور محنت کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے مزید حوصلہ عطا فرماتا ہے کہ:

’’اور جنہوں نے ہماری راہ میں کوشش کی ضرور ہم انہیں اپنے راستے دکھادیں گے اور بیشک اللہ نیکوں کے ساتھ ہے‘‘-[18]

’’اس سب کے بدلے ان کے لیے نیک عمل لکھا جاتا ہے بیشک اللہ نیکوں کا اجر ضائع نہیں کرتا‘‘-[19]

جان کا خوف:

ہر دور میں انسان اپنی جان کے تحفظ کیلئے ان گنت کوششیں کرتا چلا آرہا ہے اس کی حفاظت کیلئے انسان بڑے بڑے محفوظ قلعوں اور محلات سے لے کر نت نئے حفاظتی ہتھیار بھی بنا رہا ہے تا کہ دنیا میں کوئی بھی اس کی جان کو نقصان نہ پہنچا سکے- اسی طرح بعض لوگ جان کے تحفظ کو ذہن پر اتنا سوار کر لیتے ہیں کہ وہ موت کے خیال سے ڈرنے لگ جاتے ہیں جسے نفسیات میں Death Anxiety یا Thanatophobia کہا جاتا ہے-امریکی تحقیقی ادارے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ کی تحقیق کے مطابق، Death Anxiety بھی ذہنی دباؤ اور دیگر ذہنی امراض کی ایک اہم وجہ ہے-[20] موت و حیات کی اس کشمکش کو قرآن کریم میں مختلف مقامات پر بڑے منفر د انداز میں پیش کیا گیا ہے جس کا بنیادی مقصد انسان کو موت کے خوف سے نکال کر اس ذاتِ حفیظ کی پنا ہ میں لانا ہے جو خود موت و فنا سے پاک و منزہ ہے جسے نہ نیند آتی ہے اور نہ اونگھ آتی ہے- قرآنِ کریم اس ہستی لا زوال کا تعارف کچھ اس طرح سے کرواتا ہے :

’’وہ ذات با برکت ہے جس کے ہاتھ میں سب حکومت ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے- جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمائيں کہ تم میں کس کے کام اچھے ہیں اور وہ غالب بخشنے والا ہے‘‘-[21]

’’اللہ، وہ زندہ جاوید ہستی، جو تمام کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے، اُس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے وہ نہ سوتا ہے اور نہ اُسے اونگھ لگتی ہے زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے، اُسی کا ہے‘‘-[22]

اسی طرح قرآن کریم فلسفہ موت و حیات کو اس طرح پیش کرتا ہے کہ انسان کی اس جہان کی زندگی عارضی ہے جبکہ حقیقی زندگی اخروی زندگی ہے جس کیلئے انسان کو اس جہان میں تیار کیا جا رہا ہے- اسی طرح یہاں کی موت بھی عارضی ہے- یہاں موت کا مطلب ہمیشہ کی موت نہیں بلکہ اس عارضی جہان سے ایک ایسے لازوال جہان میں انتقال ہے جہاں موت کو بھی موت آجائے گی اور انسان کو بقا نصیب ہو جائے گی- لہٰذا ہر ذی رُوح کو اس جہاں میں موت کا ذائقہ لازمی چکھنا ہے اس لیے وہ موت سے ڈرنے کی بجائے بہادری اور اعلیٰ ہمت سے اپنی زندگی گزارے اور جب موت آئے تو مردانگی سے اس کا سامنا کرے- قرآنِ کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

’’ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے اور تمہیں قیامت کے دن پورے پورے بدلے ملیں گے پھر جو کوئی دوزخ سے دور رکھا گیا اور بہشت میں داخل کیا گیا سو وہ پورا کامیاب ہوا اور دنیا کی زندگی سوائے دھوکے کے سامان کے اور کچھ نہیں‘‘-[23]

اسی طرح موت کے اٹل اور حتمی ہونے کے بارے میں قرآنِ کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

’’تم جہاں کہیں ہو موت تمہیں آلے گی اگرچہ مضبوط قلعوں میں ہو‘‘-[24]

قرآن کریم نے موت کو کوئی ناگہانی حادثہ یا اتفاقی قدرتی عمل نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا طے کردہ نظام بتایا ہے تا کہ انسان کو یقین ہو کہ وہ مرنے کے بعد اپنی پروردگار کی بارگاہ میں جائے گا جو کہ رحیم و کریم ذات ہے- لہٰذااسے اللہ سے ملنے کی خوشی ہو نا کہ انجانی موت کا غم اسے پل پل کھاتا رہے اور وہ زندگی کی نعمت سے بھی لطف اندوز نہ ہو سکے- ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

’’اپنے بندوں پر وہ پوری قدرت رکھتا ہے اور تم پر نگرانی کرنے والے مقرر کر کے بھیجتا ہے، یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آ جاتا ہے تو اس کے بھیجے ہوئے فرشتے اس کی جان نکال لیتے ہیں اور اپنا فرض انجام دینے میں ذرا کوتاہی نہیں کرتے- پھر سب کے سب اللہ، اپنے حقیقی آقا کی طرف واپس لائے جاتے ہیں‘‘-[25]

موت و حیات کی اس کشمکش کو مفکر قرآن علامہ اقبال یوں بیان کرتے ہیں:

موت کو سمجھے ہیں غافل اختتامِ زندگی
ہے یہ شامِ زندگی، صبحِ دوامِ زندگی

مال اور اولاد کا غم:

جان کے تحفظ کے بعد انسان کو سب سے زیادہ اپنی زیرِ ملک اولاد اور اپنے جمع کیے ہوئے مال کی فکر پریشان رکھتی ہے- وہ جان کے ساتھ ساتھ اپنی اولاد اور اپنے مال کے تحفظ کیلئے بھی کئی حفاظتی اقدامات کرتا ہے اس لیے مال اور اولاد سے متعلق منفی خیالات جن میں ان کے چھِن جانے یا کسی نقصان کا اندیشہ شامل ہوتا ہے انسان پر حاوی ہونا شروع ہو جاتے ہیں- اولاد کی حفاظت میں نا صرف ان کی کسی نقصان سے حفاظت بلکہ ان کی اچھی تعلیم، پرورش وغیرہ کی فکر بھی والدین کو لاحق رہتی ہے جس وجہ سے کئی لوگ زیادہ سوچنے اور پریشان رہنے کی وجہ سے ذہنی دباؤ (Depression)کا شکار ہو جاتے ہیں اور اس کا اثر ان کی اولاد پر بھی ہوتا ہے جس وجہ سے یہ بیماری موروثی طور پر اگلی نسل میں بھی منتقل ہوتی ہے-  [26]

جبکہ قرآن کریم کے مطابق، اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی مال و اولاد سے متعلق نفسیاتی اور جذباتی بوجھ سے آزا د کرنے کیلئے ان دونوں کو ایک آزمائش کے طور پر پیش کیا ہے- تا کہ انسان ان کو اپنی زندگی کا مقصد سمجھ کر صرف ان کیلے ہی فکر مند نہ رہے بلکہ وہ اپنی صلاحیتوں اور اپنے مال اور اولاد کو بھی راہِ خد امیں استعمال کرے - کیونکہ قرآنی تعلیمات کے مطابق، ہر شے کا خالق و مالک اللہ تعالیٰ ہے - قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’تمہارے مال اور تمہاری اولاد تو ایک آزمائش ہیں اور اللہ ہی ہے جس کے پاس بڑا اجر ہے‘‘-[27]

بلکہ ایمان والوں کو مخاطب کر کے اشاد فرمایا:

’’اِن کے (کفار و منافقین کے) مال و دولت اور ان کی کثرت اولاد کو دیکھ کر دھوکہ نہ کھاؤ، اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ اِنہی چیزوں کے ذریعہ سے ان کو دنیا کی زندگی میں بھی مبتلائے عذاب کرے اور یہ جان بھی دیں تو انکار حق (ذاتِ حق تعالیٰ) ہی کی حالت میں دیں‘‘-[28]

قرآن کریم کے مطابق، مال اور اولاد کے بارے میں طریق ابراہیمی یہ ہے کہ جیسے ابراہیم ؑ نے اللہ پاک سے دعا فرمائی:

’’اور مجھے اس دن رسوا نہ کر جبکہ سب لوگ زندہ کر کے اٹھائے جائیں گے-جس دن مال اور اولاد نفع نہیں دے گی- بجز اس کے کہ کوئی شخص قلب سلیم لیے ہوئے اللہ کے حضور حاضر ہو‘‘-[29]

جبکہ وہ لوگ جو مال اور اولاد کا اللہ پاک کی امانت سمجھتے ہیں ان کا رویہ بیان کرتے ہوئے اللہ پاک نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے کہ:

’’وہ لوگ کہ جب انہیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو کہتے ہیں ہم (ہمارا مال، اولاد سب کچھ) تو الله کے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں‘‘-[30]

دراصل ایسے لوگ وہ ہیں جو ہر قسم کے رنج، پریشانی اور خوف سے آزاد ہیں یعنی ہر قسم کی ذہنی اذیت اور ذہنی دباؤ سے دور اور پر سکون ہیں-

’’جو لوگ اپنے مال الله کی راہ میں خرچ کرتے ہیں پھر خرچ کرنے کے بعد نہ احسان رکھتے ہیں اور نہ ستاتے ہیں انہیں کے لیے اپنے رب کے ہاں ثواب ہے اوران پر نہ کوئی ڈر ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے‘‘-[31]

ذہنی دباؤ سے بچاؤ کیلئے قرآنی اعمال :

جب ایک انسان کو اس بات کا کما حقٰہ علم حاصل ہو جائے کہ اس کی جان، مال، اولاد سب کچھ کا مالک اللہ تعالیٰ ہے کائنات کی کوئی شے یا طاقت اللہ کی اجازت کے بغیر اسے نفع و نقصان نہیں پہنچا سکتی ہے اور اگر اسے کوئی مصیبت پہنچتی بھی ہے تو وہ یا اس کے اعمالِ بد کا نتیجہ ہوتا ہے یا پھر اللہ کی طرف سے آزمائش ہوتی ہے تو اس کی طبیعت میں ایک ٹھہراؤ آجاتا ہے اور وہ اللہ کے مزید قریب ہونے کیلئے اس کے بتائے ہوئے طریقوں پر عمل شروع کرتا ہے جس سے نا صرف اسے ذہنی سکون بلکہ قلبی اطمینان نصیب ہوتا ہے- ان اعمال میں سب سے اہم درج ذیل ہیں:

 اسلامی عبادات:

اسلامی نظامِ عبادت ان اعمال پر مشتمل ہے جن پر عمل کر کے انسان اللہ کا برگزیدہ بندہ اور مخلوق کیلئے باعث خیر و نفع بن جاتا ہے - ان پر عمل کرنے سے انسان کی توجہ زندگی کے گو نا گوں مسائل کی بجائے رضائے الٰہی کی طرف گامزن ہو جاتی ہے اور توجہ کا یہی رُجحان ذہنی دباؤ کے علاج کا مرکزی نکتہ ہے جسے ماہر نفسیات کئی قسم کی تھیراپی ایکسرسائزز کروا کر حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں- نماز اور زکوٰۃ کی ترغیب و افادیت بیان کرتے ہوئے قرآن کریم میں فرامینِ حق تعالیٰ ہیں:

’’جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کیے اور نماز کو قائم رکھا اور زکواةٰ دیتے رہے تو ان کے رب کے ہاں ان کااجر ہے اور ان پر کوئی خوف نہ ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے‘‘-[32]

’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، صبر اور نماز سے مدد لو اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘-[33]

’’ اور نماز قائم کرو، یقیناً نماز فحش اور بُرے کاموں سے روکتی ہے اور اللہ کا ذکر اس سے بھی زیادہ بڑی چیز ہے اللہ جانتا ہے جو کچھ تم لوگ کرتے ہو‘‘-[34]

ذکراللہ :(Meditation)

اگر ہم قرآنی تعلیمات کی روشنی میں جائزہ لیں تو قرآن نے آج سے 1400 سال قبل ذہنی دباؤ کے خاتمہ اور قلبی سکون کا حل بتا دیا ، جس کے تحت ذکراللہ وہ واحد حل ہے جس سے انسان پرسکون رہ سکتا ہے- قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے کثیر مقامات پر ذکر کرنے کا حکم فرمایا ہے تاکہ جسم،عقل، دل اور روح کا محور و مرکز ایک بن جائے اور انسان ہمیشہ اطمینان میں رہے- فرمان باری تعالیٰ ہے:

’’جو لوگ ایمان لائے ان کے دل اللہ کے ذکر سے مطمئن ہو گئے اور خبردار اللہ کے ذکر سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے‘‘-[35]

یوں تو ذکر کرنے کے بہت سے طریق ہیں مگر قرآن نے اس کا خوبصورت طریقہ بیان فرمایا ہے- سورۃ الاعراف میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا :

’’ذکر کرو اپنے رب کا سانسوں کے ساتھ عاجزی سے خفیہ طریقے سے اور بغیر آواز نکالے صبح شام ذکر کرو اور غافلین میں سے مت بنو‘‘-[36]

اس آیت کریمہ میں سانسوں سے ذکر کرنے کے حکم مبارک کی حکمت کو اگر ہم سمجھیں تو یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ سانسوں کا تعلق براہِ راست دل اورروح کے ساتھ ہے -

ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

’’شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ وہ تمہیں شراب اور جوئے میں لگا کر آپس میں لڑائے جھگڑائے، اور تمہیں نماز اور ذکراللہ سے روکتا ہے‘‘-[37]

سانس کے ساتھ ذکر کرتے ہوئے جب انسان اپنی توجہ اللہ رب العزت کے اسم مبارک پہ مرکوز رکھ کر ذکراللہ میں سانس لیتا ہے تو دماغ میں موجود تمام خلفشار ختم ہونے لگتے ہیں اور جب دل تک اس کی تاثیر پہنچتی ہے تو دل میں یقین کامل کی کیفیت بیدار ہوجاتی ہے- یہی وہ طریقہ ہے جس کی انتہا پہ انسان کو اپنے خالقِ حقیقی کا وصال نصیب ہو جاتا ہے اور اس کی زندگی کی کشتی اپنے کنارے پر جا پہنچتی ہے-

حرفِ آخر:

ذہنی دباؤ (Depression)اس وقت دنیا میں تیزی سے بڑھتا ہوا مرض ہے جس کی وجہ سے انسان ذہنی اور نفسیاتی طور پر مفلوج ہوتے جا رہے ہیں- ماہر نفسیات اور ماہرین طب اس مرض سے نبرد آزما ہونے کے لیے دَوا (Medication) اور دُعا (Meditation)  دونوں طریقوں کا استعمال کر رہے ہیں- جبکہ قرآن کریم اس مسئلے کو اس کی جڑ سے پکڑتا ہے اور انسان کے باطن میں اتر کر اس کی روح کو اثر انداز کرتا ہے-قرآن اللہ تعالیٰ کے ہر شے کے مالک اور ہر شے پر قادر مطلق ہونے کا یقین دلاتا ہے تو وہ انسان اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لیے اس کی عبادت کرتا ہے اور قرآنی طریقہ میڈیٹیشن یعنی ذکر اللہ اور نماز سے مدد لیتے ہوئے اپنے خالقِ حقیقی کی تلاش کرتا ہے- جب اسے اللہ تعالیٰ کی ذات مل جاتی ہے تو وہ دنیا کے تمام مسائل سے چھٹکارا حاصل کر لیتا ہے- لہٰذا قرآن کریم ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ اس پرفتن دور جس میں جسمانی، ذہنی، قلبی اور روحانی سکون تباہ ہو چکا ہے، ہم قرآن کریم کی تعلیمات کو توجہ سے پڑھیں، سمجھیں اور ان پر عمل کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے اپنا تعلق روحانی استوار کریں- و ما توفیقی الا اللہ

٭٭٭


[1]https://www.washingtonpost.com/health/2022/02/27/depression-worldwide

[2]https://www.who.int/news-room/fact-sheets/detail/depression

[3]https://www.psychiatry.org/patients-families/depression/what-is-depression

[4](البقرۃ:38)

[5](البقرۃ: 268)

[6](آلِ عمران: 164)

[7](الترمذی فی السنن، باب : ما جاء فی الصبر علی البلاء،)

[8](البقرۃ: 214)

[9](آلِ عمران: 139)

[10](یونس :62)

[11](المریم: 64)

[12](طٰہ: 45)

[13](طٰہ: 46)

[14]https://www.science.org/doi/10.1126/science.aay0214

[15](ھود: 6)

[16](الاسراء: 31)

[17](الانفال: 53)

[18](العنکبوت: 69)

[19](التوبہ: 120)

[20]https://pubmed.ncbi.nlm.nih.gov/31318066/

[21](المک: 2-1)

[22]( البقرۃ: 255)

[23](العمران: 185)

[24](النساء: 78)

[25](الانعام: 62-61)

[26]https://bmcpsychology.biomedcentral.com/articles/10.1186/s40359-021-00568-9

[27](التغابن: 15)

[28](التوبہ: 55)

[29](الشعراء: 89-87)

[30](البقرۃ: 156)

[31](البقرۃ: 262)

[32](البقرۃ: 277)

[33](البقرۃ: 153)

[34](العنکبوت: 45)

[35](الرعد: 28)

[36](الاعراف: 205)

[37](المائدہ: 91)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر