دستک : نسلِ نو اور مطالعہ سیرت

دستک : نسلِ نو اور مطالعہ سیرت

دستک : نسلِ نو اور مطالعہ سیرت

مصنف: دسمبر 2018

نسلِ نو اور مطالعۂ سیرت

حضور نبی کریم (ﷺ) کی ذات مقدسہ سےاسلام کا بنیادی اور حقیقی پیغام نصیب ہوتا ہے-آپ (ﷺ) سے رہنمائی اور ہدایت کے لئے جو مناہج بطور امتی ہمیں اپنانے چاہیں وہ آپ(ﷺ) کی سیرت طیبہ سے نصیب ہوتے ہیں- سیرت الرسول (ﷺ) کے ساتھ تعلق اور فہم کے لئے ہمیں آپ (ﷺ)کے متعلق قرآن پاک میں جو شان بیان ہوئی، آپ (ﷺ) کےفرامین مبارکہ، اقوال، ا فعال اور اس وقت پیش آنے والے حالات و واقعات سے پتہ چلتا ہے جن کا صحیح ادراک ہمیں ان تمام کے مطالعہ سے ہوتا ہے- اسی طرح عظیم آئمہ کرام، فقہا، محدثین اور صوفیائے کرام نے سیرت نبوی (ﷺ) کے متعلق جو کچھ تحریر کیا ہے، وہ ہمارے لئے بیش بہا قیمتی خزانہ ہے-

یہ حقیقت ہے کہ حضور نبی اکرم (ﷺ) کی ولادت اور بعثت ایک نئے دور کا آغاز اور تاریخ کی ایک نئی جہت کا تعین ہے- بلا شک وشبہ آپ(ﷺ) کی تشریف آوری سے انسانیت کلیتاً ایک نئےدور میں داخل ہوئی اور زمانے کو ایک نئی جہت نصیب ہوئی جس جہت نے زندگی کے تمام شعبہ جات، عقائد و معاملات میں رہنمائی فراہم کی-آپ(ﷺ) کی ذاتِ مقدسہ ذات و صفات میں ایسی ہستی کامل ہےکہ آپ(ﷺ) کی شخصیت مبارکہ سے حیات انسانی کے ہر شعبہ کے لیے رہنمائی ملتی ہے-حسن ہو یاحسنِ بیان، قانون ہو یا اخلاقیات، عدالت و فقاہت، سماج ہو، سیاست ہو یا ریاستی معاملات،جنگی تدابیر ہوں یا سفارتی تعلقات تمام میں آپ (ﷺ) کی ذات کامل نمونہ کے طورپر سامنے آتی ہے-تبھی تو مولانا عبدالرحمن جامی فرماتے ہیں؛

حسنِ یوسف، دمِ عیسٰی، یدِ بیضا داری

 

آنچہ خوباں ہمہ دارند، تو تنہا داری

بدقسمتی سےامت مسلمہ ایک ہزار سال تک زمانہ عروج کے بعد،جہاں منصبِ مقتدر سے زوال میں مبتلا ہوئی، سیاسی، معاشرتی اور معاشی میدانوں میں قلبی اور حقیقی عملی پیغامِ سیرت سےبھی دور چلی گئی، وہیں فکری میدان میں سیرت الرسول (ﷺ)کے حقیقی فہم سے بھی عاری ہوگئی- اسی مسلمانوں کے زوال زدہ دور میں، جہاں اسلام دشمن محققین نےبالعموم اسلام اور بالخصوص حضور نبی اکرم (ﷺ) کی ذات مبارکہ سےمتعلق غلط فہمیوں اور علمی مباحث کےنام پرآپ (ﷺ) کی عظمت و ادب اور آپ (ﷺ)کے فضائل و کمالات کا اِنکار کیا وہیں مقام نبوت، حقیقتِ نبوت اور وحی پر شکوک و شبہات پیدا کئے جانے لگے جس کے ذریعہ دعویٰ کیا گیا کہ موجود ہونے کے لئے محسوس ہونا لازم ہے اور یوں امت میں اہانتِ رسالت اور گستاخی نبوت جیسے فتنے برپا کئے گئے-اسلامی علوم میں تحقیق کے نام پر متعصب مستشرقین نے آپ (ﷺ) کی شخصیت اور سیرت کی مادیت کی روشنی میں تشریح کی اور آزادنہ فکرکے تحت ان زاویوں پرکتب تصنیف کیں کہ عقل انسانی میں رسول اکرم (ﷺ) کی ذات اور تعلیمات کے بارے میں طرح طرح کے شکوک و شبہات جنم لیں- مگر یہیں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ قریباً ان تمام امور پر مسلم مفکرین کا مرتب کردہ ادب تمام تر سوالات کا جواب دیتا ہے جسے عصرِ حاضر کے علمی و فکری ڈھانچے کے مطابق آگے بڑھانے کی ضرورت ہے-

آج یہ بطور مسلمان تمام مسلمانوں پر اور بالخصوص نوجوانوں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہےکہ آپ(ﷺ) کے فضائل، شمائل اور خصائل کے علاوہ سیرت البنی (ﷺ) کا جدید پہلوؤں سے مطالعہ کریں اور علمی، عملی،تحقیقی،تنقیدی، نقلی اور عقلی دلائل کی روشنی میں سیرت پر اٹھائے جانے والے سوالات کا جواب دیں- یہ تب ہی ممکن ہے جب ہم سیرت رسول (ﷺ) کا بنیادی اور مسلمہ ماخذ سے مطالعہ کریں اور پھر دور ِجدیدمیں عقل پرست طبقے کی جانب سے اٹھائے جانے والے سوالات کا بھی علم ہو- بحیثیتِ امتِ مسلمہ ہمیں اپنی انفرادی، اجتماعی، قومی اور بین الاقوامی زندگی میں کما حقہ فیض یاب ہونے کے لئے مطالعہ سیرت درکار ہے کیونکہ اسلام کا بنیادی پیغام فرد کے استحکام سے وابستہ ہے- یہ استحکام اسی وقت نصیب ہوتا ہے جب ظاہر و باطن دونوں حوالوں سے انسان حضور نبی کریم(ﷺ) کے پیغام پر عمل پیرا ہو جو اسی وقت ممکن ہے جب ہمیں آپ(ﷺ) کی سیرت مبارکہ کے مختلف پہلوؤں کا ادراک ہو اور اپنے عقائد و معاملات اسی کے مطابق ترتیب دے سکیں- چنانچہ سیرت مبارکہ کا مطالعہ جہاں انسان کے علم میں وسعت لاتا ہے وہیں اس کی وابستگی حضور اکرم(ﷺ) کی ذات گرامی سے گہری کرتا ہے- بقول علامہ اقبال ؛

ذِکر و فکر و علم و عرفانم توئی 

 

کشتی و دریا و طوفانم توئی

 ’’حضور آپ (ﷺ) کی ذات سے ذِکر و فکر اور علم و معرفتِ اِلٰہی کے سُوتے پھوٹتے ہیں- دریا اور اس کی طوفانی موجیں بھی آپ (ﷺ)ہیں اور ساحلِ مراد تک پہنچانے والی کشتی بھی آپ (ﷺ)ہیں‘‘-

بالفاظ دیگرحضرت علامہ محمد اقبال ؒ اپنے اردو کلام میں یوں فرماتے ہیں:

نگاہِ عشق و مستی میں وہی اَوّل، وہی آخر

 

وہی قرآں، وہی فرقاں، وہی یٰسیں، وہی طٰہٰ

چنانچہ ہمیں نہ صرف نوجوان نسل میں مطالعہ سیرت کو فروغ دینا چاہیے بلکہ سیرت النبی(ﷺ) کے اہم سماجی موضوعات کو نصاب میں شامل کرنا چاہیے تاکہ نوجوان نسل اس بات کا ادراک حاصل کرے کہ حضور نبی اکرم(ﷺ) کا پیغام زندگی کے ہر عملی و فکری شعبہ کیلئے بہترین نمونہ ہے اور ان کی وابستگی سیرت النبی (ﷺ) کے ساتھ روحانی، فکری اور عملی میدان میں یکجا طور پر قائم ہو-

٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر