دستک : قرآن فہمی : اُمت مسلمہ کا اعجاز

دستک : قرآن فہمی : اُمت مسلمہ کا اعجاز

دستک : قرآن فہمی : اُمت مسلمہ کا اعجاز

مصنف: مئی 2018

قرآن فہمی: امتِ مسلمہ کا اعجاز

دینِ اسلام کے ممتاز اوصاف میں ایک اہم وصف قرآن مجید ہے- کسی بھی مذہب میں اتنا مربوط و کلی نظام اس کی بنیادی دستاویزات و احکامات میں موجود نہیں جس طرح قرآن پاک مکمل طورپرحیاتِ انسانی کا احاطہ کیے ہوئے ہے یعنی اسلام کے علاوہ کوئی بھی ایسا مذہب یا نظریہ نہیں جس کی بنیادیں ایسی کتاب یا کلام پر ہوں جو اپنے آپ میں کامل، جامع و نور الہدیٰ ہو-تمام الہامی مذاہب میں اللہ رب العزت نےاسلام کو انفرادیت نبی آخر الزمان حضور اکرم(ﷺ) اور آپ(ﷺ) پر نازل ہونے والی لاریب کتاب سے عطا کی-قرآن کریم کو چودہ صدیاں گزرنے کے باوجود تاریخی، لسانی،نظریاتی، قانونی، سائنسی یا کسی بھی دیگر تناظر میں کوئی بھی چیلنج نہیں کر سکا-یہ آفاقی کلام عالمگیریت میں اپنی مثال آپ ہے اور اللہ تعالی نے اس میں اکملیت اور جامعیت رکھی ہے-یہی عظیم کلامِ الٰہی اسلام کی ہمہ گیریت و عالمگیریت کی بنیاد ہے جو مسلم تہذیب کی نہ صرف اساس ہے بلکہ باقی محدود نظریات کی حامل تہذیبوں سے اسے ممتاز و منفرد کرتا ہے-قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے اپنے اس کلام کے حق میں جتنے بھی دلائل اور کھلے چیلنجز پیش کئے ہیں آج تک ان کاکوئی جواب نہیں دے سکا اور یہی اس کے حقانیت کی واضح دلیل اور اپنی مثال آپ ہے-

اسلامی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ مختلف ادوار میں جب جب اسے چیلنجز کا سامنا ہوا عظیم مسلم دانشور اس کا دفاع کرنے میں اُسی وقت کامیاب ہوئے جب اُنہوں نے اپنی راہ قرآن کریم کی روشنی میں متعین کی-مسلمان حکماء، اطباء، فلاسفہ اور دیگر علوم کے ماہرین نے تجزیہ و مطالعہ کیلئے نورِ ہدایت قرآن کریم سےطلب کیا-اسی طرح قوانین اسلامی، اصولِ فقہ، تفاسیر، علمِ حدیث، تصوف اور دیگر تمام علوم اوران کا فلسفہ قرآن کریم کی روشنی میں بیان فرمایا-قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے گزرے ہوئے وقت سے لے کر آنے والے وقت تک کائنات کے ہر مظہر اور منظر کوبیان کر دیاہے حتیٰ کہ ان سر بستہ رازوں سے بھی اس وقت پردہ اُٹھایا جس وقت آج کے جدید علوم کاوہم وگمان تک نہ تھا-اسی لئے صدی در صدی علم کے وسیع ہونے اور انسان کےنجی علوم کی دریافت اور افزائش کی روشنی میں بھی جدید ماہرینِ علم مسلمانوں کے پیدا کردہ بنیادی علوم کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں- یہ کلامِ الٰہی اپنے سے رہنمائی طلب کرنے والے کو کسی بھی اعتبار سے ادھورا نہیں چھوڑتا-

علامہ اقبالؒ مسلمانوں کو بار بار پکارتے ہیں کہ قرآن مجید میں سینکڑوں جہاں پوشیدہ ہیں ابھی تک ان اسرار و رموز نے واضح ہونا ہے - یہ امت مسلہ کی ذمہ داری ہے کہ قرآن سے استفادہ کریں اور جوجہان اس میں پوشیدہ ہیں انہیں دنیا کے سامنے عیاں کرنے کی کوشش کریں- بجائےا س کے کہ عالمی نظام میں موجود نظاموں کو اس بنیاد پر اپنایا جائے کہ ان میں سے کونسا دوسرے سے نسبتاً بہتر ہے، ہمیں کتاب اللہ اور سنتِ رسول اکرم(ﷺ) کی روشنی میں اپنی سوچ کو ارتقاء دیتے ہوئے اسی طرح جدید اسلامی نظام ترتیب دینا چاہیے جس طرح کئی صدیوں تک ہمارے آباء ترتیب دیتے رہے اور دنیا میں ان کے نام اور ان کے بنائے گئے اصولوں اور قوانین کا ڈنکا بجتا رہا-

قرآن کی حقانیت جب تک اس امت کے سینےمیں روشن رہی اور اس امت کا واسطہ قرآن کے دامن سے جڑا رہا اس وقت تک یہ امت دنیا کاہر وہ کارنامہ سر انجام دیتی رہی جو اہل حق کی ذمہ داری ہے کیونکہ مسلمان قرآن میں غور و فکر کر کے عصر حاضر کے اور قریب ہو جاتا ہے اور تقاضوں کو سمجھنے اور ان کا تجزیہ کرنے میں کسی مغالطہ کا شکار نہیں ہوتا-

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ قرآن مجید سے جیسے جیسے مسلمانوں کا رشتہ منقطع ہوتا گیا ویسے ویسے علوم و فنون،معاشرت، تہذیب اور دیگر معاملات میں امت پر زوال کی کیفیت طاری ہوتی چلی گئی-انیسویں صدی کا آغاز مسلمانوں کے پُر آشوب زوال سے ہوا-مسلم اُمہ کے مجموعی زوال میں ایک بہت بڑی وجہ قرآن کریم سے دوری ہے- جب روایتی علوم کو عصرِ جدید کے تقاضوں کے مطابق نورِ ہدایت کی شمع میں پرکھنے اور ارتقاء بخشنے کی بجائے جوں کا توں استعمال کیا جانے لگا تو امت جمود و تنزلی کا شکار ہوئی اور پھر دوبارہ اپنی اوج ثریا کی منہج نہ پا سکی- اسی اثنا میں ہمیں امید کی کرن اسی کلام اللہ سے نظر آتی ہے جو اس تاریکی میں بھی روشنی عطا کرتا ہے اور اس بات کی نوید سناتا ہے کہ اسے پکڑنے والا کبھی گمراہ نہیں ہو سکتا اور نہ ہی نظریاتی، فلسفیانہ یا روحانی میدان میں شکست کھا سکتا ہے- یہ قرآن کریم سے قریبی تعلق ہی تھا جس کی بنیاد پر زوال اور جمود و تعطل کے دور میں علامہ اقبال جیسا عظیم مفکر پیدا ہوا- اسی لئے علامہ اقبالؒ مسلمانوں کی ذلت کے سبب کی حقیقت کا پردہ چاک کرتے ہوئے زوال پذیری سے نکلنےکاحل قران سے وابستگی بتاتے ہیں کہ:

خوار از مہجوری قرآن شدی

 

شکوہ سنجِ گردشِ دوراں شدی[1]

’’جانتا ہے کہ تو ذلیل کیوں ہوا؟ تیری ذلت کا اصل سبب یہ ہے کہ تو نے قرآن کو چھوڑ دیا اور زمانے کی گردش کے شکوے کرنے لگا‘‘-

اس زندہ و جاوید کتاب کو استقامت اور تقویٰ کے ساتھ تھامنے والا کبھی گمراہ نہیں ہو سکتا اور نہ ہی وہ زمانے کے شکوے کرتا نظر آتا ہے کیونکہ اس سے وہ بینائی نصیب ہوتی ہے جو انسان کو عالمگیر سطح پر حق و باطل کے مابین تفریق کر دکھاتی ہے اور پھر انسان اپنے آپ کو اُسی عالمگیر مشن کے ساتھ منسلک پاتا ہے جو ہر زمانے میں اپنا راستہ خود پیدا کرتا ہے-قرآن فہمی انسان کو زمان و مکان سے اعجاز بخشتی ہے اور اسی کے ذریعے ہمارے درمیان پھیلے فروعی و فرقہ وارانہ اختلافات کا حل ممکن ہے-ہم سب پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ خود بھی قرآن سیکھیں اور آنے والی نسلوں کیلئے بھی اس کا اہتمام کریں-


[1](رموزِ بے خودی)

قرآن فہمی: امتِ مسلمہ کا اعجاز

دینِ اسلام کے ممتاز اوصاف میں ایک اہم وصف قرآن مجید ہے- کسی بھی مذہب میں اتنا مربوط و کلی نظام اس کی بنیادی دستاویزات و احکامات میں موجود نہیں جس طرح قرآن پاک مکمل طورپرحیاتِ انسانی کا احاطہ کیے ہوئے ہے یعنی اسلام کے علاوہ کوئی بھی ایسا مذہب یا نظریہ نہیں جس کی بنیادیں ایسی کتاب یا کلام پر ہوں جو اپنے آپ میں کامل، جامع و نور الہدیٰ ہو-تمام الہامی مذاہب میں اللہ رب العزت نےاسلام کو انفرادیت نبی آخر الزمان حضور اکرم(ﷺ) اور آپ(ﷺ) پر نازل ہونے والی لاریب کتاب سے عطا کی-قرآن کریم کو چودہ صدیاں گزرنے کے باوجود تاریخی، لسانی،نظریاتی، قانونی، سائنسی یا کسی بھی دیگر تناظر میں کوئی بھی چیلنج نہیں کر سکا-یہ آفاقی کلام عالمگیریت میں اپنی مثال آپ ہے اور اللہ تعالی نے اس میں اکملیت اور جامعیت رکھی ہے-یہی عظیم کلامِ الٰہی اسلام کی ہمہ گیریت و عالمگیریت کی بنیاد ہے جو مسلم تہذیب کی نہ صرف اساس ہے بلکہ باقی محدود نظریات کی حامل تہذیبوں سے اسے ممتاز و منفرد کرتا ہے-قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے اپنے اس کلام کے حق میں جتنے بھی دلائل اور کھلے چیلنجز پیش کئے ہیں آج تک ان کاکوئی جواب نہیں دے سکا اور یہی اس کے حقانیت کی واضح دلیل اور اپنی مثال آپ ہے-

اسلامی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ مختلف ادوار میں جب جب اسے چیلنجز کا سامنا ہوا عظیم مسلم دانشور اس کا دفاع کرنے میں اُسی وقت کامیاب ہوئے جب اُنہوں نے اپنی راہ قرآن کریم کی روشنی میں متعین کی-مسلمان حکماء، اطباء، فلاسفہ اور دیگر علوم کے ماہرین نے تجزیہ و مطالعہ کیلئے نورِ ہدایت قرآن کریم سےطلب کیا-اسی طرح قوانین اسلامی، اصولِ فقہ، تفاسیر، علمِ حدیث، تصوف اور دیگر تمام علوم اوران کا فلسفہ قرآن کریم کی روشنی میں بیان فرمایا-قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے گزرے ہوئے وقت سے لے کر آنے والے وقت تک کائنات کے ہر مظہر اور منظر کوبیان کر دیاہے حتیٰ کہ ان سر بستہ رازوں سے بھی اس وقت پردہ اُٹھایا جس وقت آج کے جدید علوم کاوہم وگمان تک نہ تھا-اسی لئے صدی در صدی علم کے وسیع ہونے اور انسان کےنجی علوم کی دریافت اور افزائش کی روشنی میں بھی جدید ماہرینِ علم مسلمانوں کے پیدا کردہ بنیادی علوم کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں- یہ کلامِ الٰہی اپنے سے رہنمائی طلب کرنے والے کو کسی بھی اعتبار سے ادھورا نہیں چھوڑتا-

علامہ اقبال(﷫) مسلمانوں کو بار بار پکارتے ہیں کہ قرآن مجید میں سینکڑوں جہاں پوشیدہ ہیں ابھی تک ان اسرار و رموز نے واضح ہونا ہے - یہ امت مسلہ کی ذمہ داری ہے کہ قرآن سے استفادہ کریں اور جوجہان اس میں پوشیدہ ہیں انہیں دنیا کے سامنے عیاں کرنے کی کوشش کریں- بجائےا س کے کہ عالمی نظام میں موجود نظاموں کو اس بنیاد پر اپنایا جائے کہ ان میں سے کونسا دوسرے سے نسبتاً بہتر ہے، ہمیں کتاب اللہ اور سنتِ رسول اکرم(ﷺ) کی روشنی میں اپنی سوچ کو ارتقاء دیتے ہوئے اسی طرح جدید اسلامی نظام ترتیب دینا چاہیے جس طرح کئی صدیوں تک ہمارے آباء ترتیب دیتے رہے اور دنیا میں ان کے نام اور ان کے بنائے گئے اصولوں اور قوانین کا ڈنکا بجتا رہا-

قرآن کی حقانیت جب تک اس امت کے سینےمیں روشن رہی اور اس امت کا واسطہ قرآن کے دامن سے جڑا رہا اس وقت تک یہ امت دنیا کاہر وہ کارنامہ سر انجام دیتی رہی جو اہل حق کی ذمہ داری ہے کیونکہ مسلمان قرآن میں غور و فکر کر کے عصر حاضر کے اور قریب ہو جاتا ہے اور تقاضوں کو سمجھنے اور ان کا تجزیہ کرنے میں کسی مغالطہ کا شکار نہیں ہوتا-

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ قرآن مجید سے جیسے جیسے مسلمانوں کا رشتہ منقطع ہوتا گیا ویسے ویسے علوم و فنون،معاشرت، تہذیب اور دیگر معاملات میں امت پر زوال کی کیفیت طاری ہوتی چلی گئی-انیسویں صدی کا آغاز مسلمانوں کے پُر آشوب زوال سے ہوا-مسلم اُمہ کے مجموعی زوال میں ایک بہت بڑی وجہ قرآن کریم سے دوری ہے- جب روایتی علوم کو عصرِ جدید کے تقاضوں کے مطابق نورِ ہدایت کی شمع میں پرکھنے اور ارتقاء بخشنے کی بجائے جوں کا توں استعمال کیا جانے لگا تو امت جمود و تنزلی کا شکار ہوئی اور پھر دوبارہ اپنی اوج ثریا کی منہج نہ پا سکی- اسی اثنا میں ہمیں امید کی کرن اسی کلام اللہ سے نظر آتی ہے جو اس تاریکی میں بھی روشنی عطا کرتا ہے اور اس بات کی نوید سناتا ہے کہ اسے پکڑنے والا کبھی گمراہ نہیں ہو سکتا اور نہ ہی نظریاتی، فلسفیانہ یا روحانی میدان میں شکست کھا سکتا ہے- یہ قرآن کریم سے قریبی تعلق ہی تھا جس کی بنیاد پر زوال اور جمود و تعطل کے دور میں علامہ اقبال جیسا عظیم مفکر پیدا ہوا- اسی لئے علامہ اقبال(﷫) مسلمانوں کی ذلت کے سبب کی حقیقت کا پردہ چاک کرتے ہوئے زوال پذیری سے نکلنےکاحل قران سے وابستگی بتاتے ہیں کہ:

خوار از مہجوری قرآن شدی

 

شکوہ سنجِ گردشِ دوراں شدی[1]

’’جانتا ہے کہ تو ذلیل کیوں ہوا؟ تیری ذلت کا اصل سبب یہ ہے کہ تو نے قرآن کو چھوڑ دیا اور زمانے کی گردش کے شکوے کرنے لگا‘‘-

اس زندہ و جاوید کتاب کو استقامت اور تقویٰ کے ساتھ تھامنے والا کبھی گمراہ نہیں ہو سکتا اور نہ ہی وہ زمانے کے شکوے کرتا نظر آتا ہے کیونکہ اس سے وہ بینائی نصیب ہوتی ہے جو انسان کو عالمگیر سطح پر حق و باطل کے مابین تفریق کر دکھاتی ہے اور پھر انسان اپنے آپ کو اُسی عالمگیر مشن کے ساتھ منسلک پاتا ہے جو ہر زمانے میں اپنا راستہ خود پیدا کرتا ہے-قرآن فہمی انسان کو زمان و مکان سے اعجاز بخشتی ہے اور اسی کے ذریعے ہمارے درمیان پھیلے فروعی و فرقہ وارانہ اختلافات کا حل ممکن ہے-ہم سب پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ خود بھی قرآن سیکھیں اور آنے والی نسلوں کیلئے بھی اس کا اہتمام کریں-



[1](رموزِ بے خودی)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر