اقتباس

اقتباس

اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

’’وَالْعَصْرِo اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍo اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِo‘‘ (سورۃ العصر)

’’اس زمانۂ محبو ب کی قسم بے شک آدمی ضرور نقصان میں ہے-مگر وہ جو ایمان لائے اور اچھے عمل کئے اور ایک دوسرے کو حق کی تاکید کی اور ایک دوسرے کو صبر کی وصیت کی‘‘-

رسول کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:

ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بن عوف روایت کرتے ہیں:

’’مَیں نے حسان بن ثابت انصاریؓ سے سنا، وہ ابوہریرہؓ کو قسم دے کر کہہ رہے تھے؛میں تمہیں اﷲ کی قسم دیتا ہوں! یہ (بتاؤ) کیا تم نے نبی (ﷺ) سے یہ سنا ہے کہ آپ(ﷺ)(مجھ سے) فرمایا کرتے تھے کہ ’’اے حسان! اﷲ کے رسول(ﷺ) کی طرف سے (دشمنوں کو) جواب دو، اے اﷲ! حسان کی روح القدس کے ذریعے مدد فرما‘‘-حضرت ابوہریرہؓ نے فرمایا: ہاں! (مَیں نے سنا ہے)‘‘-(صحیح بخاری ، کتاب الادب، باب ہجا المشرکین)

فرمان سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی (رحمتہ اللہ علیہ):

’’رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:’’مومن کی بشاشت چہرہ پرہوتی ہے اور اس کا حزن دل میں‘‘-کسی سے شکوہ مت کر کیونکہ اگر تو اللہ تعالیٰ کا شکوہ کرے گا تو اس کی نظروں سے گر جائے گا اور جس مصیبت کی تو نے شکایت کی تھی وہ بھی تجھ سے زائل نہیں ہوگی اور اپنے کسی عمل پر مغرور مت ہو کیونکہ مغرور ہونا عمل کو فاسد اور تباہ کردیتا ہے جس شخص کی نظر اللہ عزوجل کی توفیق پر ہوتی ہے اس سے عمل پر غرور ہونا جاتا رہتا ہے- اپنا سارا قصداللہ تعالیٰ کی طرف کر کہ وہ تیرے لئے اپنی رحمت تجویز فرمائے گا اور اپنے تک پہنچنے کے اسباب تیرے لئے مہیا کردےگا-تو اس کو اپنا مقصود کیوں قرار دے سکتا ہے جبکہ تو اپنےاقوال و افعال سب ہی میں جھوٹا،مخلوق کی حمد کا طالب اور ان کی مذمت سے خائف ہے-اللہ تعالیٰ کا راستہ توسر اپا سچائی ہے، اللہ والوں کے لئے صدق ہی صدق ہے بغیر کذب کے اور صدق ہے بلا ظہور کے، کہ ان کے افعال بہ نسبت اقوال کے بکثرت ہیں (کہ کہتے کم ہیں اور کرتے ہیں زیادہ)وہ خدا کی مخلوق میں خدا کے نائب اور خلیفہ ہیں‘‘-(فتح الربانی)

فرمان سلطان العارفین حضرت سلطان باھوؒ:

عشق دی بھاہ ہڈاں دا بالن عاشق بیہہ سکیندے ھو
گھت کے جان جگر وچ آرا ویکھ کباب تلیندے ھو
سر گردان پھرن ہر ویلے خون جگر دا پیندے ھو
ہوئے ہزاراں عاشق باھو پر عشق نصیب کہیندے ھو
(ابیات باھو)

فرمان قائداعظم محمد علی جناح ؒ :

ایمان ، اتحاد، تنطیم

علامہ اقبال میرے ذاتی دوست تھے اور ان کا شمار دنیا کے عظیم شعراء میں ہوتا ہے-وہ اس وقت تک زندہ رہیں گے جب تک اسلام زندہ رہے گا- ان کی شاعری ہمارے لئے اور ہماری آئندہ نسلوں کیلئے مشعل راہ کا کام دے گی- (26 دسمبر 1938ء ، پٹنہ میں لیگ اجلاس سے خطاب)

فرمان علامہ محمد اقبالؒ:

میں خود بھی نہیں اپنی حقیقت کا شناسا
گہرا ہے مرے بحرِ خیالات کا پانی
مجھ کو بھی تمنّا ہے کہ اقبال کو دیکھوں
کی اُس کی جدائی میں بہت اشک فشانی  (ارمغانِ حجاز)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر