دستک

دستک

 پاکستان کا وجود اور پاکستان کے موجودہ علمی تناظر میںعلم فلسفہ کی ضرورت

آج جب ہم پاکستان کے ستر سالاہ جشنِ آزادی کا اہتمام کر رہے ہیں تو ہمیں ایک نظر انداز شُدہ مسئلہ کو یاد کرنا چاہیے اور اس پہ سنجیدگی سے سوچنا چاہئے-مملکتِ خداداد پاکستان کی سب سے بنیادی دستاویز علامہ اقبال کا خطبہ الٰہ آباد ہے جس نے پاکستان کے وجود  کو سب سے پہلا جواز فراہم کیا-اس میں علامہ اقبال کی ، کی گئی بحث گو کہ کچھ معروضی حالات اور اُس وقت کی ہندوستان کی سیاسی صورتحال پر تجزیہ کی صورت میں تھی،لیکن اس خطبہ کا  بڑا حصہ فلسفیانہ مباحث پر مبنی ہے-اس خطبہ میں خاص طور پر انہوں نے  مادہ اور روح کی ثنویت سے اسلام کے سیاسی نظام کو واضح کر کے پاکستان کے وجود کے لیے  استدلال کیا ہے جو کہ خالصتاً ایک فلسفیانہ مسئلہ ہے یعنی  مادہ   اور روح کی ثنویت کی فلسفیانہ بحث سے انہوں نے ریاست اور مذہب کے اتصال  کا جواز اخذ کیا ہے اور اس میں زور دیا ہے کہ اپنا مستقبل تعمیر کرتے ہوئے کسی بھی قوم کو واضح ہونا چاہیے کہ وہ کیا کرنے جا رہی ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب کسی بھی نئے عمل کے پیچھے مضبوط فلسفہ کار فرما ہو-اس طرح کے دیگر فلسفیانہ مباحث بھی اس خطبہ میں موجود ہیں-علامہ اقبال چونکہ  فلسفہ کے زبردست عالم اور بذاتِ خود بھی ایک فلسفی تھے چنانچہ خطبہ الٰہ آباد کے بعد بھی علامہ اقبال کی مسلمانوں کے مسائل کے حل اور الگ ریاست کے حصول کی جانب جتنی توجہ رہی ہے اس  میں انہوں نے سارا استدلال علمِ فلسفہ سے کیا ہے-

قائد اعظم محمد علی جناح،علامہ اقبال کے فلسفہ کے ہنر  کے معترف بھی تھے، قائل بھی تھے اور اس سے متاثر بھی تھے-انہوں نے علامہ اقبال کے فلسفیانہ افکار سے بہت کچھ سیکھا اور تحریکِ پاکستان کے لئے ان کا کردار اس کا منہ بولتا ثبوت ہے-یہ فلسفیانہ دلائل ہی کی طاقت تھی جنہوں نے گاندھی اور انگریز سامراج کو دلائل اور مکالمہ کے ذریعے شکست سے دوچار کر کے پاکستان کا حصول ممکن بنایا-

علامہ اقبال (رحمتہ اللہ علیہ)کی اکثر شاعری بھی اُن کے سیاسی فلسفوں پر مرتب ہوئی ہے چاہے وہ سرمایہ داری سے متعلق فلسفہ تھا  یا اشتراکیت کا فلسفہ تھا  اور اسی وجہ سے لوگوں کو اس میں بہت جاذبیت محسوس ہوتی ہے-کیونکہ  تاریخ شاہد ہے کہ سیاسی مسائل اور افکار عموماً علمِ فلسفہ سے ہی آگے بڑھتے رہے ہیں کیونکہ ہر مسئلہ کے پیچھے  کوئی نہ کوئی فلسفہ کار فرما ہوتا ہے-اس لئے کامیاب سیاسی افکار علمِ فلسفہ سے پروان چڑھے ہیں مثلاً زمانہ قدیم سے سمجھے جانے والے علمِ سیاست کے بڑے بڑے علماء جن میں سقراط، فیثہ غورثیہ،سقراط کے شاگرد افلاطون اور ارسطو،مسلمانوں کی تاریخ میں قاضی ابن الرشد، امام غزالی، امام ابن خلدون اور دیگر تمام لوگ وہ ہیں جن کا علم فلسفہ سے ایک گہرا تعلق تھااور یہ فلاسفہ اور مناطقہ شمار کیے جاتے تھے-ان کے نظریات کو مقبولیت اسی لئے ملی کہ وہ ان کی بنیاد فلسفہ پر رکھتے تھے حتیٰ کہ  ان کی پولیٹکل تھیوریز کو دنیا بھر میں آج بھی ڈسکس کیا جاتا ہے اور ان کو سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے- جدید دور میں موجود سیاسی، معاشی و معاشرتی نظریات بھی فلسفہ پر ہی مرتب ہو رہے ہیں- پاکستان ایک ایسا ملک ہے  جو خالصتاً سیاسی فلسفہ کی بنیاد پر معرضِ وجود میں آیا لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ علمِ فلسفہ کو پاکستان میں ایک طفلِ یتیم کی طرح چھوڑ دیا گیا ہے-علم کی اس اہم شاخ کا کوئی والی وارث اور خیال کرنے والا نہیں ہے-جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ جدید مسائل کا حل فلسفیانہ افکار سے نہیں دیا گیا-ایسے میں لوگوں کی فلسفیانہ ضرورت پوری نہیں ہو رہی اور ایک  خلاء سا بن گیا ہے اور یہ باعثِ تشویش ہے کہ ہمارے ہاں یہ خلاء الحادی فلسفہ سے پورا ہو رہا ہے-  وقت کا تقاضا ہے کہ ہم اپنی کھوئی ہوئی اُس علمی میراث کی جانب لوٹ آئیں جس نے ہمیں ماضی میں کامیابی دی اور مستقبل میں بھی کامیابی کی نوید اسی سے ممکن ہے-

دہشت گردی کی جنگ جس میں پاکستا ن نے بہت قربانیاں دی ہیں اور ہزاروں لوگ اس میں شہید ہوئے ہیں افواج پاکستان نے اس کا بہت عزم و استقلال سے مقابلہ کیا ہے اور کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کیا- مگر فکر کے میدان میں اس معاملہ کو بھی ہم نے کبھی فلسفیانہ نقطہ نظر سے دیکھنے کی کوشش نہیں کی اور دہشت گردی کی جنگ کا فلسفیانہ مطالعہ نہیں کیا-پھر جس طرح جدید دہشت گردی سے پاکستان گزرا ہے اس کا عصرِ حاضر  کی معروف فلسفیانہ ڈیبیٹ ’’پوسٹ ماڈرن ازم‘‘کے تناظر میں تجزیہ نہیں کیا گیا کہ آخر موجودہ دور میں کون کون سی وجوہات ہیں جو اس شدت پسندی کو بلاواسطہ یا بالواسطہ پروان چڑھانے میں شامل ہو سکتی ہیں؟ صرف دہشت گردی ہی نہیں،پاکستان کے دیگر معاشی اور معاشرتی مسائل پر بھی  فلسفیانہ ڈیبیٹ نہیں ہوئی-دوسرے لفظوں میں ہم نے آج تک اپنی معاشرتی لائنز ہی واضح نہیں کیں کہ ہم آگے کیسے بڑھیں-

قارئین محترم! پاکستان کی تحریک تو ایک فلسفیانہ تحریک تھی اور پاکستان کا وجود بھی ایک فلسفہ پر قائم ہے تو بھلا یہ  تصور کیسے کیا جا سکتا ہے کہ اس علم کی آبیاری کے بغیر ہم پاکستان کے سیاسی نصب العین کا صحیح تصور کرسکتےہیں؟ اس کے لئے ضروری ہے کہ اس شعبہ کی جانب سنجیدگی سے توجہ دی جائے اور ایسے نوجوان تیار کیے جائیں جو علمِ فلسفہ پر مہارت رکھتے ہوں اور اسلام کی  فلسفیانہ روایت  سے بھی آشنا و آگاہ ہوں جو ان معاملات کو ان کے صحیح تناظر میں دیکھیں اور آگے بڑھیں-یعنی نوجوانوں  کے نظریات، ضابطہ حیات فلسفہ پر تشکیل ہوں تاکہ وہ دورِ جدید کے مسائل کو سمجھ  سکیں اور ان کا علمی، فکری اور عملی میدان میں بھی مقابلہ کر سکیں-ہماری یونیورسٹیز میں علمِ فلسفہ کے احیاء کی ضرورت ہے  اور ایسے ماحول کی ضرورت ہے جہاں فکر و خرد کی پرورش ہو اور طلباء کو نِت نئے تصورات تشکیل دینے کا موقع ملے جن سے نئے جہان کی تعمیر ممکن ہو سکے-چنانچہ ہمیں  علم ِفلسفہ کی باضابطہ سر پرستی کی ضرورت ہے تاکہ یہ علم اور اس سے وابستہ لوگ اپنے آپ کو یتیم محسوس نہ کریں-اسی طرح حکومتی و نجی سطح پر ایسے مباحث کو فروغ دینے کی ضرورت ہےجو سنجیدہ نوعیت کے ہوں اور نئی سوچ اور نئی فکر کی تخلیق کر سکیں-

 اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی بد قسمتی کی بات ہے کہ ہمارے ہا ں  دینی مدارس میں پہلے پہل علم فلسفہ اور علم منطق پڑھایا جاتا تھا لیکن طلبہ یا اساتذہ کی تساہل پسندی کی وجہ سے وہ علوم و فنون مدارس سے ختم کر دیے گئے ہیں-اسے پتا نہیں بد بختی،علمی سستی یا کوئی  علمی سازش کہا جاسکتا ہے کہ ہمارے پیدا ہونے والے نئے نوجوان علماء کرام اسلام کی فلسفیانہ روایت سے قطعاً بے خبر ہیں-ان کو کلام،منطق اور فلسفہ کے مسائل سے نہ تو کوئی دلچسپی ہے اور نہ ہی  اس کی اہمیت سے آگاہ ہیں بلکہ یہ بات بھی درست ہے کہ انہیں اس کی خبر ہی نہیں ہے-جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ عصرِ حاضر کے چیلنجز ایک طرف، وہ اپنی تاریخ کو بھی صحیح طرح سمجھ نہیں پا رہے-مدارس کا ہمارے معاشرے میں ایک اہم کردار ہے  اور جس طرح یونیورسٹیز،کالجز اور سرکاری سطح پر نوجوانوں میں علمِ منطق و فلسفہ کے فروغ کی ضرورت ہے اسی طرح مدارس کی سطح پر بھی اسے فروغ دینا چاہیے کیونکہ یہ  وہ علم ہے جس کی سر پرستی امام ابوالحسن اشعری سے  امام غزالی(رحمتہ اللہ علیہ)تک اور امام ابن عربی سے شیخ مجدد الف ثانی(رحمتہ اللہ علیہ) تک عظیم شخصیات نے کی اور ماضی قریب  یعنی بیسویں صدی عیسوی کے آغاز تک یہ علم یہاں  مروج رہا ہے لیکن چونکہ اب یہ علم اٹھتا جارہا ہے اس لیے وہ علمی اور فنی قابلیت بھی علمائے کرام میں ختم ہوتی جارہی ہے-ایسے میں ضروری ہے کہ علماء کرام بھی اس علم کا احیاء کریں، اس کی سرپرستی کریں  اور اپنے طلباء کو ’’عذابِ دانشِ حاضر‘‘ سے آگاہ  کریں-

اسی طرح اگر شعبہ قانون کو دیکھاجائےتو لاء مکمل طور پر علم فلسفہ کی ایک برانچ کے طور پر وجود میں آتا ہے گو کہ وہ پولیٹیکل سائنس کے زمرے میں آتا ہے لیکن پولیٹیکل سائنس میں اصولِ قانون(jurisprudence)   مکمل طور پر فلسفیانہ  بحث کرتی ہے اور ترقی پاتی ہے-اس لئے قانون سازی میں علمِ فلسفہ کا بہت بڑا عمل دخل ہے- ہماری تاریخ میں جتنے بھی علماء گزرے ہیں   جن کے بڑے فیصلہ اور جن کی بڑی عدالتیں رہی ہیں وہ اپنے اصولِ قانون میں علمِ  فلسفہ کے استعمال سے اپنے مفروضوں کو ثابت کیا کرتے تھے اور عوام  الناس کو صحیح انصاف فراہم کیا کرتے تھے-مگر آج اسلامی دُنیا کی  عدالتوں میں ہونے والے فیصلوں میں  فلسفیانہ گہرائی  نظر نہیں آتی جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہماری دستور سازی اور قوانین میں بہت زیادہ سقم باقی رہ  جاتے ہیں-چنانچہ قانون سازی کرنے والےاربابِ اختیار، جج صاحبان اور وکلاء کےطبقہ کو بھی اس فن سے آشنا ہونے کی ضرورت ہے تاکہ دستور سازی اور قانون سازی کو بہتر کیا جا سکے اور انصاف کی فراہمی یقینی ہو-ہمارے  منصفین  کے لئے بھی یہ چیز ضروری ہے کہ وہ علمِ فلسفہ سے آشنا ہوں اور اس سے آگاہی رکھتے ہوں کیونکہ قانون اور فلسفہ کا آپس میں چولی اور دامن کا ساتھ ہے-

یہ وہ چند بنیادی امور  ہیں جن کے اشتراک سے ہم قائد اعظم اور علامہ اقبال کے ترقی یافتہ اور فلاحی پاکستان کا خواب شرمندہ تعبیر کر سکتے ہیں کیونکہ  تاریخ شاہد ہے کہ  وہی قومیں ترقی کرتی ہیں جو علم کی مختلف شاخوں سے اپنے تعلق کو مضبوط کرتی ہیں اور تمام علوم میں فلسفہ ہمیشہ ہی سے بہت اہمیت کا حامل رہا ہے-موجودہ حالات کے تناظر میں اختلافات اور منافرت کو کنٹرول کرنے میں بھی فلسفہ کی ترویج ایک اہم پیش رفت ثابت ہو سکتی ہے-کیونکہ جہاں ایک جانب فلسفہ انسان کو سوچنے و سمجھنے کی دعوت دیتا ہے وہیں اپنے نقطہ نظر کو دلائل اور ڈیبیٹ سے ثابت کرنے پر آمادہ کرتا ہے جس سے معاشرے میں ایک مثبت مکالمہ کو فروغ دیا جا سکتا ہے جو شدت پسندی میں خاطر خواہ کمی کا باعث بن سکتا ہے-ملک و ملت کی ترقی و استحکام کے لئے ضروری ہے کہ ان کی تعمیر مضبوط علمی و فلسفیانہ بنیادوں پر ہو جس کے ذریعے خواص کے ساتھ ساتھ عام لوگوں کی سوچ میں بھی ایک وسعت اور گہرائی لائی جا سکے جو علمی و فلسفیانہ ترقی میں اپنا اپنا کردار ادا کریں-اسی اعتبار سے ہم پاکستان  کو مضبوط بھی کرسکتےہیں اور مستحکم بھی کر سکتے ہیں-

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر