دستک

دستک

 مشرقِ وسطیٰ کی صورتحال اور امتِ مسلمہ کی ذمہ داری:

مشرقِ وسطیٰ میں امن و امان کی صورتحال گزشتہ کئی عشروں سے متزلزل ہے-بارہا مرتبہ ان دگرگوں حالات سے نمٹنے کیلئے مسلم دنیا کے حکمران اکٹھے بھی ہوئے اور  مسائل کے حل کیلئے مختلف لائحہ عمل ترتیب دئے گئے،مختلف حلقوں کی جانب سے مختلف حل بھی تجویز کئے گئے تاہم صورتحال روز بروز ابتر ہوتی جا رہی ہےاور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بے بہا خون بہنے اور مشرق وسطیٰ کے سلگنے کے باوجود تنازعات میں الجھے اور اپنے ذاتی مفادات کے پیچھے بھاگتے مسلم دنیا کے حکمرانوں  کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی-

المیہ یہی نہیں ہے کہ ہم گزشتہ عشروں میں ان حالات سے کچھ سیکھ نہیں پائے بلکہ  ہم اپنے ماضی سے بھی کسی قسم کا سبق لینے کو تیار نہیں ہیں-قرآن کریم نے گزشتہ امتوں کے تذکرے اور ان میں سے کئی کی تباہی و بربادی کے واقعات کے ذریعے ہمیں اس بات کا علم بخشا کہ جب قومیں اجتماعی طور پر اپنی ذمہ داریوں سے منہ موڑ لیں تو انہیں کس قسم کے حالات اور امتحانات کا سامناکرنا پڑ سکتا ہے ؟ امتِ مسلمہ اپنے خمیر میں باقی قوموں میں منفرد حیثیت رکھتی ہے اور اس کے اجزائے ترکیبی مختلف ہیں-۱۴۰۰سالہ تاریخ بھی اس بات کی گواہ ہے کہ جب جب ہم نے اپنی اجتماعی حیثیت میں احکاماتِ الٰہی سے منہ موڑا، اپنے اپنے ذاتی مفادات کو امت کے مفادات پر فوقیت دی اور کوتاہیوں اور غلطیوں سے سبق سیکھنے کی بجائے ہٹ دھرمی برقرار رکھی ، تب تب ہمیں رسوائی کا سامنا کرنا پڑا، چاہے وہ تاتاریوں کے ہاتھوں تباہی ہو ، ہسپانیہ میں عظیم مسلم تہذیب کے کسی نام لیوا کے نہ رہ جانے کی صورت میں ہو یا مغربی نو آبادیاتی نظام کی صورت میں غلامی کا دور ہو-ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ اپنے مستقبل کی پیش گوئی اور سبق حاصل کرنے کے لئے تاریخ حصولِ علم  کا ایک اہم ذریعہ ہے-علامہ اقبال ؒ اپنے خطبہ مسلم ثقافت کی رُوح میں اسی حقیقت کی جانب اشارہ فرماتے ہیں :

’’باطنی تجربہ انسانی علم کا محض ایک ذریعہ ہے-قرآن حکیم کے مطابق علم کے دو دیگر ذرائع بھی موجود ہیں:فطرت اور تاریخ-ان دو ذرائع علم سے استفادہ کی بناء پر ہی اسلام کی روح اپنے اعلیٰ مقام پر دکھائی دیتی رہی ہے‘‘-

بدقسمتی یہ ہے کہ تمام تر تاریخی حقائق اپنے سامنے ہونے کے باوجود امت مسلمہ آج پھر  وہی غلطیاں دہرا رہی ہے-بالخصوص مسلم دنیا کی لیڈرشپ فہم و فراست کا مظاہرہ نہیں کر رہی-سب ڈھٹائی کے ساتھ اپنے اپنے جنگ جویانہ موقف پر قائم ہیں اور فرقہ وارانہ، نسلی،لسانی،جغرافیائی اور دیگر ذاتی مفادات کو ہی سامنے رکھے ہوئے ہیں چہ جائیکہ اس سے اپنا دامن ہی کیوں نہ نظرِ آتش ہو رہا ہو-اسی فراست کی عدم موجودگی میں مشرقِ وسطیٰ اور اس کے نواح میں ایک  تسلسل کے ساتھ بدترین بحران کی جانب آیا ہے-دوسری جنگِ عظیم کے بعد سے فلسطین کا تنازعہ مشرقِ وسطیٰ میں تمام مسلم اُمہ کیلئے اہمیت کا حامل تھا مگر وقت کے ساتھ مختلف ممالک نے اس سے نظریں چرانی شروع کیں-(OIC) کا قیام حالات میں بہتری کیلئے امید کی ایک کرن کے طور پرنظر آیا تاہم ایران-عراق جنگ کی صورت میں بحران نے مسلم دنیا کو تقسیم کی جانب دھکیلا-اس کے بعد سے  فرقہ وارانہ تقسیم مختلف علاقوں میں پھیل گئی-پہلی اور دوسری خلیج کی جنگ نے مشرقِ وسطیٰ کو بدترین عدمِ توازن کا شکار کیا-عرب بہار کے ردِ عمل  میں تیونس،لیبیا،مصر اور شام کی صورتحال نے رہی سہی کسر نکال دی-بالخصوص شام کے مسئلہ نےفرقہ واریت اور لسانیت کی آگ کو مزید بھڑکایا-سالہا سال کی کوششوں اور مل بیٹھنے کے باوجود اس مسئلہ پر امتِ مسلمہ کسی  حل پر متفق نہیں ہو سکی اور نہ ہی کسی طرح خون خرابے کو کنٹرول کر سکی ہے-(OIC) کی حالت بھی محض ایک تقریری پلیٹ فارم کی سی ہو کر رہ گئی ہے-ان تمام مسائل کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ مل بیٹھنے والوں  نے اپنے ذاتی مفادات  کو امتِ مسلمہ کے مفادات پر ترجیح دی اور اسی ڈھٹائی کے سبب  جمیعت پس پشت چلی گئی  جس کے  نتیجے میں تباہی و بربادی ہمارا مقدر بنی-  بقول علامہ اقبال(رحمتہ اللہ علیہ):

آبرو باقی تری ملت کی جمعیت سے تھی

 

جب یہ جمعیت گئی، دنیا میں رسوا تو ہوا[1]

اس جمیعت کو کھونے کے بعد ہم دین و دنیا دونوں کو اپنے ہاتھ سے کھو رہے ہیں -جیسا کہ علامہ اقبال (رحمتہ اللہ علیہ)نے یہی مدعا  پیغمبر دو عالم (ﷺ)کی بارگاہ میں پیش کیا:

اے بادِ صبا! کملی والےؐ سے جا کہیو پیغام مرا

 

قبضے سے امت بیچاری کے دیں بھی گیا، دنیا بھی گئی[2]

حال ہی میں پیدا ہونے والا قطر کا موجودہ بحران بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے-اس وقت جب مسلم امہ کو اختلافات ختم کرنے اور مل بیٹھنے کی اشد ضرورت ہے مزید تقسیم در تقسیم کا ایسا سلسلہ چل نکلا ہے کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا-حتیٰ کہ ایسی کاوشیں جو امت کے اجتماعی مفاد میں کی جاتی ہیں انہیں پذیرائی نہیں ملتی-اس امر کا افسوس زیادہ ہے کہ اب کاروانِ ملت کے دل سے احساسِ زیاں بھی جاتا رہا ہے اور اپنے رویے کو درست کرنے کی بجائے پے در پے غلطیاں دہرانے میں لگے ہیں-وقت ہمارے ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے-اب کی بار ہمیں غیروں کو مورد الزام ٹھہرانے سے قبل اپنے گریبان میں جھانکنا ہے اور یہ تبھی ممکن ہے جب ہم اپنے آپ اور اس امت سے سنجیدگی کے ساتھ مخلصانہ رویہ اختیار کریں اور امت کے اجتماعی مفادات میں تضادات کو پسِ پشت ڈال کر اخوت اختیار کریں-خدا کا فیصلہ اس امتِ مسلمہ کیلئے موجود ہے کہ جب جب یہ اپنے خمیر یعنی اتحاد و یگانگی سے دوری اختیار کرے گی، تب تب اس کے ہاتھ سے دین و دنیا دونوں چیزیں چلی جائیں گی-یہ وقت اس امت سے تقاضا کرتا ہے کہ اس سے پہلے کہ گھر کا بچا کھچا سامان بھی نظرِ آتش ہو جائے، تمام تر فروعی اختلافات سے بلند ہو کر اتحادِ اُمت کی جانب رجوع کیا جائے-


[1](بانگِ درا)

[2](ایضاً)

 مشرقِ وسطیٰ کی صورتحال اور امتِ مسلمہ کی ذمہ داری

مشرقِ وسطیٰ میں امن و امان کی صورتحال گزشتہ کئی عشروں سے متزلزل ہے-بارہا مرتبہ ان دگرگوں حالات سے نمٹنے کیلئے مسلم دنیا کے حکمران اکٹھے بھی ہوئے اور  مسائل کے حل کیلئے مختلف لائحہ عمل ترتیب دئے گئے،مختلف حلقوں کی جانب سے مختلف حل بھی تجویز کئے گئے تاہم صورتحال روز بروز ابتر ہوتی جا رہی ہےاور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بے بہا خون بہنے اور مشرق وسطیٰ کے سلگنے کے باوجود تنازعات میں الجھے اور اپنے ذاتی مفادات کے پیچھے بھاگتے مسلم دنیا کے حکمرانوں  کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی-

المیہ یہی نہیں ہے کہ ہم گزشتہ عشروں میں ان حالات سے کچھ سیکھ نہیں پائے بلکہ  ہم اپنے ماضی سے بھی کسی قسم کا سبق لینے کو تیار نہیں ہیں-قرآن کریم نے گزشتہ امتوں کے تذکرے اور ان میں سے کئی کی تباہی و بربادی کے واقعات کے ذریعے ہمیں اس بات کا علم بخشا کہ جب قومیں اجتماعی طور پر اپنی ذمہ داریوں سے منہ موڑ لیں تو انہیں کس قسم کے حالات اور امتحانات کا سامناکرنا پڑ سکتا ہے ؟ امتِ مسلمہ اپنے خمیر میں باقی قوموں میں منفرد حیثیت رکھتی ہے اور اس کے اجزائے ترکیبی مختلف ہیں-۱۴۰۰سالہ تاریخ بھی اس بات کی گواہ ہے کہ جب جب ہم نے اپنی اجتماعی حیثیت میں احکاماتِ الٰہی سے منہ موڑا، اپنے اپنے ذاتی مفادات کو امت کے مفادات پر فوقیت دی اور کوتاہیوں اور غلطیوں سے سبق سیکھنے کی بجائے ہٹ دھرمی برقرار رکھی ، تب تب ہمیں رسوائی کا سامنا کرنا پڑا، چاہے وہ تاتاریوں کے ہاتھوں تباہی ہو ، ہسپانیہ میں عظیم مسلم تہذیب کے کسی نام لیوا کے نہ رہ جانے کی صورت میں ہو یا مغربی نو آبادیاتی نظام کی صورت میں غلامی کا دور ہو-ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ اپنے مستقبل کی پیش گوئی اور سبق حاصل کرنے کے لئے تاریخ حصولِ علم  کا ایک اہم ذریعہ ہے-علامہ اقبال(﷫)اپنے خطبہ مسلم ثقافت کی رُوح میں اسی حقیقت کی جانب اشارہ فرماتے ہیں :

’’باطنی تجربہ انسانی علم کا محض ایک ذریعہ ہے-قرآن حکیم کے مطابق علم کے دو دیگر ذرائع بھی موجود ہیں:فطرت اور تاریخ-ان دو ذرائع علم سے استفادہ کی بناء پر ہی اسلام کی روح اپنے اعلیٰ مقام پر دکھائی دیتی رہی ہے‘‘-

بدقسمتی یہ ہے کہ تمام تر تاریخی حقائق اپنے سامنے ہونے کے باوجود امت مسلمہ آج پھر  وہی غلطیاں دہرا رہی ہے-بالخصوص مسلم دنیا کی لیڈرشپ فہم و فراست کا مظاہرہ نہیں کر رہی-سب ڈھٹائی کے ساتھ اپنے اپنے جنگ جویانہ موقف پر قائم ہیں اور فرقہ وارانہ، نسلی،لسانی،جغرافیائی اور دیگر ذاتی مفادات کو ہی سامنے رکھے ہوئے ہیں چہ جائیکہ اس سے اپنا دامن ہی کیوں نہ نظرِ آتش ہو رہا ہو-اسی فراست کی عدم موجودگی میں مشرقِ وسطیٰ اور اس کے نواح میں ایک  تسلسل کے ساتھ بدترین بحران کی جانب آیا ہے-دوسری جنگِ عظیم کے بعد سے فلسطین کا تنازعہ مشرقِ وسطیٰ میں تمام مسلم اُمہ کیلئے اہمیت کا حامل تھا مگر وقت کے ساتھ مختلف ممالک نے اس سے نظریں چرانی شروع کیں-(OIC) کا قیام حالات میں بہتری کیلئے امید کی ایک کرن کے طور پرنظر آیا تاہم ایران-عراق جنگ کی صورت میں بحران نے مسلم دنیا کو تقسیم کی جانب دھکیلا-اس کے بعد سے  فرقہ وارانہ تقسیم مختلف علاقوں میں پھیل گئی-پہلی اور دوسری خلیج کی جنگ نے مشرقِ وسطیٰ کو بدترین عدمِ توازن کا شکار کیا-عرب بہار کے ردِ عمل  میں تیونس،لیبیا،مصر اور شام کی صورتحال نے رہی سہی کسر نکال دی-بالخصوص شام کے مسئلہ نےفرقہ واریت اور لسانیت کی آگ کو مزید بھڑکایا-سالہا سال کی کوششوں اور مل بیٹھنے کے باوجود اس مسئلہ پر امتِ مسلمہ کسی  حل پر متفق نہیں ہو سکی اور نہ ہی کسی طرح خون خرابے کو کنٹرول کر سکی ہے-(OIC) کی حالت بھی محض ایک تقریری پلیٹ فارم کی سی ہو کر رہ گئی ہے-ان تمام مسائل کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ مل بیٹھنے والوں  نے اپنے ذاتی مفادات  کو امتِ مسلمہ کے مفادات پر ترجیح دی اور اسی ڈھٹائی کے سبب  جمیعت پس پشت چلی گئی  جس کے  نتیجے میں تباہی و بربادی ہمارا مقدر بنی-  بقول علامہ اقبال(﷫):

آبرو باقی تری ملت کی جمعیت سے تھی

 

جب یہ جمعیت گئی، دنیا میں رسوا تو ہوا[1]

اس جمیعت کو کھونے کے بعد ہم دین و دنیا دونوں کو اپنے ہاتھ سے کھو رہے ہیں -جیسا کہ علامہ اقبال (﷫)نے یہی مدعا  پیغمبر دو عالم (ﷺ)کی بارگاہ میں پیش کیا:

اے بادِ صبا! کملی والےؐ سے جا کہیو پیغام مرا

 

قبضے سے امت بیچاری کے دیں بھی گیا، دنیا بھی گئی[2]

حال ہی میں پیدا ہونے والا قطر کا موجودہ بحران بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے-اس وقت جب مسلم امہ کو اختلافات ختم کرنے اور مل بیٹھنے کی اشد ضرورت ہے مزید تقسیم در تقسیم کا ایسا سلسلہ چل نکلا ہے کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا-حتیٰ کہ ایسی کاوشیں جو امت کے اجتماعی مفاد میں کی جاتی ہیں انہیں پذیرائی نہیں ملتی-اس امر کا افسوس زیادہ ہے کہ اب کاروانِ ملت کے دل سے احساسِ زیاں بھی جاتا رہا ہے اور اپنے رویے کو درست کرنے کی بجائے پے در پے غلطیاں دہرانے میں لگے ہیں-وقت ہمارے ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے-اب کی بار ہمیں غیروں کو مورد الزام ٹھہرانے سے قبل اپنے گریبان میں جھانکنا ہے اور یہ تبھی ممکن ہے جب ہم اپنے آپ اور اس امت سے سنجیدگی کے ساتھ مخلصانہ رویہ اختیار کریں اور امت کے اجتماعی مفادات میں تضادات کو پسِ پشت ڈال کر اخوت اختیار کریں-خدا کا فیصلہ اس امتِ مسلمہ کیلئے موجود ہے کہ جب جب یہ اپنے خمیر یعنی اتحاد و یگانگی سے دوری اختیار کرے گی، تب تب اس کے ہاتھ سے دین و دنیا دونوں چیزیں چلی جائیں گی-یہ وقت اس امت سے تقاضا کرتا ہے کہ اس سے پہلے کہ گھر کا بچا کھچا سامان بھی نظرِ آتش ہو جائے، تمام تر فروعی اختلافات سے بلند ہو کر اتحادِ اُمت کی جانب رجوع کیا جائے-



[1](بانگِ درا)

[2](ایضاً)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر