دستک

دستک

 سماجی کام کیا ہوتا ہے اور نام نہاد سماجی کارکنان  کیا کر رہے ہیں؟

اسلام انسانیت کی خدمت کا درس دیتا ہے اس لئےحقیقی مسلمان ازلی ابدی سماجی کارکن ہے-سماجی کاموں کو پوری دنیا میں سراہا جاتا ہے-’’سماج کے معانی معاشرے کے ہیں‘‘،معاشرے کے متعلقہ معاشی، فلاحی، انفرادی، اصلاحی، اورتحقیقی پہلوسے وابستہ انسانیت کی خدمت  و ترقی کے امور کو سماجی کام کہا جاتا ہے- معاشرے میں فرد واحد کی حیثیت نمایاں اکائی کی ہے جس کے بغیر معاشرے یعنی سماج کی تشکیل ممکن نہیں ہے-سماجی کاموں کا تعلق روح اور عمرانیات کے فلسفہ سے پنہاں ہے- اگر تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھا جائے تو کائنات کی تخلیق سے ہی فلاحی سماجی کاموں کا آغاز ہوگیا تھا-پہلے ادوار میں خلا فت اور بادشاہت کا نظام ریاستوں میں قائم تھا-ریاست کی ذمہ داری میں شامل ہے کہ وہ اس میں بسنے والے افراد کی فلاح و بہبود کے لئے بہترین پلاننگ وپالیسی مرتب کرتے ہوئے عملی جامہ پہنائے - موجودہ دور میں بڑھتی ہوئی آبادی کے تناسب سے سماجی کاموں میں عملی تیزی نظر نہیں آرہی- عالمی اقتصادی فورم کے سروے کے مطابق  2030ء تک دنیا کی آبادی بڑھ کر8 ارب50 کروڑتک پہنچنے کی امید ہے-پاکستان دنیا میں معیشت کی ترقی میں 52 نمبر پر ہے-  پاکستان میں روزگار کی شرح’’51.7% ‘‘اور غربت کی شرح 36.9%”‘‘ہے- مزدورزبوں حالی کا شکار ہیں ،تعلیم کا نظام طبقاتی تقسیم کے ساتھ تباہی کے دہانے پرکھڑا ہے اور اخلاقی تربیت کا فقدان بھی نمایاں نظر آتا ہے-ان سب کی بنیادی وجہ صاحب اقتدار کی عدم دلچسپی ، حصول خدمت سے دوری اور نام نہاد سماجی کارکنوں ، تنظیموں میں ذاتی مفاد ات کی جنگ ہے- 2030ء تک انسانوں کی بلا تفریق ضروریات پوری کرنے کے لئے موجودہ خوراک کے نظام میں تبدیلیاں کرنی ہونگی-کیونکہ خوراک کا نظام صحت مند اور پائدار اشیاء کی فراہمی کے قابل نہیں ہے -دو ارب سے زیادہ افراد ’’مائیکرونیو ٹریشن‘‘ کی کمی کا شکار ہیں اور یہ کمی بیماریوں میں اضافے اور ترقی کے لئے چیلنجز  بنی ہوئی ہے-دریں اثنا پہلے ہی دو ارب لوگ موٹاپے کا شکار تھےاور اب مختلف اقسام کی بیماریوں میں مبتلا ہیں-

 سماجی علمی طریقہ کار اور ربط کی حدیں وسیع ہو رہی ہیں- موجودہ دور کی ایجادات میں سوشل میڈیا کو بھی ایک خاص حیثیت حاصل ہے سماجی رابطوں کا سب سے آسان اور تیز ترین ذریعہ بھی سوشل میڈیا ہی ہے جس میں ایک وقت میں لاکھوں کروڑوں افراد رابطہ میں رہتے ہیں -بلکہ دنیا میں،سفارت خانوں میں بھی سماجی رابطوں کی ویب سائٹس متعارف کروادی ہے جن سے عوام ان ممالک کے متعلق  معلومات حاصل کر سکتے ہیں-زیادہ تر  سماجی تنظیمیں اور سماجی کارکن سوشل میڈیا کا سہارا لیتے ہیں-بلکہ نام نہاد سماجی ادارے اور ان سے وابستہ افراد اپنے گھناؤنے ،ناپاک عزائم حاصل کرنے کے لئے بھی سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہیں-سوشل میڈیا کے ذریعہ فرقہ واریت کو فروغ دینا، سماجی بلاگرزکا بلاگ لکھ کر سادہ لوح انسانوں کو گمراہ کرنا،مختلف قسم کی جعلی اسکیموں کا اجراء، جعلی سوشل میڈیا پر اکاونٹ اور نام نہاد ویب پیج بناکر بنی نوع انسان کے درمیان نفاق پیدا کرتے ہیں-ہر ادارہ سماجی کارکن اپنے آپ کو عقلِ کُل کا مصداق سمجھ کر سماجی کام کا آغاز کر دیتا ہے- نوجوان یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ تعلیمی اداروں میں بھی طلباء کی تنظیمیں بھی سماجی کاموں کی آڑ میں اپنے مقاصد حاصل کرتی ہیں-ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے نام نہاد سماجی ادارے بنا کرلوٹ مارکابازار گرم کر رکھاہے-سماجی کاموں میں سرمایہ دار ،تاجر برادری نمایاں نظر آتی ہیں-

سماجی امور کی ادائیگی کے لئے فنڈز کا ہونا اشد ضروری ہے کیونکہ فنڈ زسماجی کاموں کی روح ہے- دنیا میں سماجی فلاحی اداروں کی لاکھوں شاخیں دنیا بھر میں موجود ہیں - جومختلف شعبوں میں اپنی خدمات سرانجام دے رہی ہیں- ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کی ’’مانیٹرنگ‘‘کے نظام کو مربوط و فعال بنایا جائے ورنہ زیادہ تر ادارے تو ترقی اور خوشحالی کے راگ الاپتے ’’نشستن، گفتن، برخاستن‘‘ کے فارمولے پر عمل پیرا نظر آتے ہیں- کام صرف کاغذی جمع خر چ کے مترادف ہے، سالانہ رپورٹس کی اشاعت اور شاندار ہوٹلوں میں نمائشی سیمینارز کی حد تک محدود ہوتا ہے-مسلم اُمّہ کا پہلے ہی شیرازہ بکھیرا ہوا ہےاور اس میں ان سماجی تنظیموں نے بھی کاری ضرب لگائی ہے-انہی سماجی کارکنوں نے ہی اپنا اپنا ایجنڈا اور ’’ویسٹ منسٹرڈ‘‘ سوچ کو پھیلانے کے لئے ’’این جی اوز‘‘ اور سوشل میڈیا کا سہارا بھی لیاہے- انسانی حقوق کی بالادستی کے لئے آواز بلند کر نے والے سماجی کارکن بعض اوقات اسلامی تعلیمات اور ملکی سالمیت کی پالیسیوں سے بھی ٹکراتے ہوئے نظر آتے ہیں-

دنیا میں ہر شخص خدمت خلق، نمود نمائش، وسائل و اختیارات کی دوڑ میں سرگرداں نظر آتا ہے-وہ شخص اپنے آپ کو وقت اور مقام کے مطابق  سیاسی ، فلاحی،سماجی،کارکن کہتے نظر آتے ہیں- انسانیت سے پیوست ہر پہلو کی اصلاح ،فلاح اوررہنمائی کے لئے جو بھی راستہ چنا جائے گا وہ سماجی خدمت کے زمرے میں آئے گا-انسان کی اخلاقی و روحانی اصلاح کے لئے مثالی خانقاہی نظام اور تصوّف کی تعلیم موجود ہے- قرآنی ودینی تعلیم کے لئے درس گاہیں بھی موجود ہ ہیں-علاج ومعالجہ کے لئے ہسپتال ، طب کے دواخانے،کھیل کود کے میدان، ریسرچ کے لئے تحقیقی ادارے بھی موجود ہیں لیکن ان کو کامیابی سے ہمکنار ہونے میں  حکومتِ وقت کی تائید کا اہم کردار ہوتا ہے- سماجی کاموں میں عوام بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے کیونکہ سماجی کام عوام کے لئے ہی ہوتے ہیں-جس طرح ہر کام  میں کامیابی کے لئے نیت کی پاکیزگی  کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح خدمت خلق کے ہر شعبے میں نیک نیتی ضروری ہے- ملکی سطح پر ہم دیکھتے ہیں ، ایمبولینس سروسز،فری ہسپتال،پولیو مہم،غریبوں کو فری کھانا کھلانے کا انتظام،بے سہارہ بچوں کے لئے ’’سویٹ ہومز‘‘ کا قیام اورتعلیمی درسگاہیں،موجود ہیں -اس کے باوجود عوام بنیادی سہولیات سے محروم ہے- اس کے لئے سب سے پہلے عوام کو سماجی شعور سے آگاہی و بیداری انتہائی ناگزیر ہے-سماجی کارکنان کی ذمہ داری ہے کہ وہ انفرادی طور پر بھی مَثبت و تعمیری سوچ کو پھیلائیں اور مفادِ عامہ کے مسائل کے حل کے لئے سماجی تقاضوں کے تحت کوششیں کریں کیونکہ وہ خود بھی اس سماج کی بنیادی اکائی ہیں، اس ملک کواپنا گھر سمجھتے ہوئے اس کی تعمیر و ترقی و حفاظت میں بھی بھر پور حصہ لیں-

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر