مشرق وسطیٰ: تاریخ، تباہی اور امت کی غفلت
مشرق وسطیٰ، دنیا کے نقشے پر ایک ایسا خطہ ہے جو صدیوں سے تاریخ، تہذیب و تمدن، معاشرت، مذاہب ، عسکری مہمات ، وسائل اور سیاست کا مرکز رہا ہے- اس خطے کی تبدیلی کی بنیاد گو کہ تقریباً ایک صدی پہلے رکھی جا چکی تھی جب مسلمان پوری دنیا میں زوال پذیر ہوئے لیکن اس میں تیزی 1945ء کے بعد سرد جنگ کے آغاز سے ہوئی ، نئی سیاسی جماعتوں نے جنم لیا جس کے نتیجے میں خطے کے سیاسی منظر نامہ میں تبدیلی ہونا شروع ہوئی – 1967ء میں ہونے والی چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ نے خطے کے جغرافیہ کو بدل دیا ، یہ جغرافیائی تبدیلی ، اسرائیل کے پھیلاؤ کی صورت میں آج تک ہو رہی ہے – 1970ء کی دہائی میں ایران عراق جنگ اور 1990ء کی دہائی میں کویت عراق جنگ، نائن الیون کے اثرات ،2003ء کی عراق جنگ نے خطے کو بری طرح نقصان پہنچایا- ان تمام عوامل کی وجہ سے خطے میں دہائیوں سے ایک سنگین بحران نے جنم لیا ہوا ہے-اسی اثناء میں عرب بہار کی آمد ہوئی جس کے دیر پا اثرات و نتائج میں آج شام، عراق، تیونس، لیبیا، سوڈان، مصراور لبنان وغیرہ اسی آگ میں سلگ رہے ہیں- موجودہ صورتحال یہ ہے کہ امت مسلمہ خصوصاً مشرقِ وسطیٰ میں کہیں خانہ جنگی ہے، کہیں فرقہ واریت، کہیں غیر ملکی مداخلت اور کہیں داخلی بدعنوانی-
اس خطے سے مختلف مذاہب کا جنم بھی ہوا ہے اور یہ ان کا مرکز رہا ہے جس کی وجہ سے اس خطے کی مذہبی اہمیت بھی مسلم ہے - دین اسلام کا ظہور بھی اسی خطے سے ہوا ہے- آج یہ خطہ کئی اسلامی ممالک پر مشتمل ہے، جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ قدرتی وسائل بالخصوص تیل کی دولت سے مالا مال ہیں- اتنی فراوانی ہونے کے باوجود افسوسناک امر یہ ہے کہ اس خطے میں امن و امان، اتحاد اور یگانگت ایک نایاب شے بن چکی ہے-
اسلامی ممالک میں خصوصاً ترکیہ کے اندرونی حالات روز بروز بگڑ رہے ہیں- ایران کو امریکہ سے حالیہ مزید خطرات اور دھمکیوں کا سامنا ہے- پاکستان اپنے اندرونی مسائل اور دہشت گردی سے نمٹنے میں مصروف ہے- مسلم ممالک کے درمیان تفریق اور تقسیم کی وجہ سے فلسطین اور خاص طور پر غزہ گزشتہ کئی دہائیوں سے اسرائیلی جارحیت، بریریت، محاصرے اور ظلم و ستم کا شکار ہے- صیہونی ریاست ایک پلان کے تحت اپنا حجم پھیلائے چلی جا رہی ہے اورمسلمانوں کی زندگیاں تنگ ہو رہی ہیں جن میں سب سے پہلے فلسطینی مسلمان ہیں- اس ناجائز ریاست کا فلسطین اور مسلم علاقوں پر قبضہ ایک منصوبہ کے تحت ہے جس کے نتیجے میں ہر چند سالوں بعد اس کی جانب سے نہتے فلسطینیوں پر فضائی بمباری کی جاتی ہے، اس سے نہ ہسپتال محفوظ ہیں نہ سکول امان میں ہیں اور نہ ہی مہاجر کیمپ و ریڈ کراس و میڈیا کے نمائندے، نتیجتاً معصوم بچے، خواتین اور بزرگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اور ایک بہت بڑی تعداد معذوری اور کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے- دنیا بارہا یہ مناظر دیکھ چکی ہے مگر عملی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں بلکہ اب تو محسوس ہوتا ہے کہ ان مناظر کو دیکھ کر عالمی برادری کا دل بھی نہیں دکھتا ہے اس کی بجائے اک بے حسی کی کیفیت کا گماں ہوتا ہے - اکتوبر 2023ء سے غزہ ایک بار پھر آگ و خون کی لپیٹ میں ہے- ہزاروں افراد شہید ہو چکے ہیں، اسپتال ملبے میں بدل چکے ہیں، سکول ملیا میٹ ہو چکے ہیں، اس علاقے میں انسانی زندگی ایک عذاب بن گئی ہے-بے دردی سے فلسطینیوں کے قتل محض تماشائی کی طرح دیکھنا پوری امت کے لئے مقام عبرت ہے- او آئی سی کے پلیٹ فارم پر محض تقاریر اور قراردوں کے پاس ہونے کے سوا کوئی عملی اقدامات اٹھتے نظر نہیں آرہے ہیں-ایک بھیانک صورتحال یہ ہے کہ امت مسلمہ ہی اس مسئلے پہ متحد نہیں ہے تو عالمی برداری اس میں کیا خاطر خواہ اقدامات کر سکتی ہے- آپس کی ناچاقی اور چپقلش کے باعث مشرق وسطی سلگ رہا ہے اور فلسطین آگ و خون کی لپیٹ میں ہے -جب تک امت مسلمہ میں بیداری پیدا نہیں ہوتی ہے ، ایک جسم کی مانند ردعمل نہیں دیتی اور مشترکہ اور قابلِ عمل لائحہ عمل اختیار نہیں کرتی، تب تک نہ صرف غزہ، بلکہ پورا مشرق وسطیٰ ظلم، خونریزی اور تباہی کا شکار رہے گا- عراق، شام، لیبیا اور یمن سمیت متعدد ممالک اسی تقسیم اور تفریق کی آگ میں جل چکے ہیں-آج امت مسلمہ کو ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے ورنہ ایک ایک کر کے سب اس آگ کی لپیٹ میں آ سکتے ہیں- بقول علامہ اقبال:
نہ سمجھو گے تو مِٹ جاؤ گے اے ہندوستاں والو! |
|
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں |