قومی خدمت کا تصور اور نسلِ نو کی ترجیحات
قومی خدمت کا تصور، ایک ایسی سوچ و فکر اور عمل ہے جو بے لوث جدوجہد، کوشش، لگن، محنت اور خلوص کے ساتھ اپنی ذات سے ہٹ کر دوسروں کے لئے کچھ کر گزرنے کا نام ہے- بطور قوم ہمیں، یہی تصور اور اس عملی شکل تحریک پاکستان کے دوران بانیان پاکستان کی عملی زندگی میں واضح نظر آتا ہے- بطور قوم ہمارے لئے بانیان پاکستان کی زندگی مشعلِ راہ اور بہترین نمونہ ہے- تاریخ میں ہم جب دیکھتے ہیں تو ایک طرف ہمیں برصغیر پاک و ہند میں مسلمانوں کے دور حکومت کے اختتام کے بعد مسلمانوں کے خلاف ہونے والے انگریزی استعمارکی پالیسیوں سے برپا ہونےوالےمظالم اور ناانصافیوں کو دیکھتے ہیں اور دوسری طرف مسلمانوں میں جدوجہد آزادی کا جذبہ دیکھتے ہیں تو یہ واضح ہوتا ہے کہ ایک طویل جدو جہد کے بعد جب انہوں نے پاکستان حاصل کرنے کا تہیہ قرار دادِ پاکستان کی صورت میں کیا تو اسےمحض سات برس کے قلیل عرصے میں 1940ء سے 1947ءتک مسلمانوں نے مسلسل قومی خدمت کے جذبے سے مزین ہو کر اس خواب کو حقیقت میں بدل ڈالا-
جب ہم بانیان پاکستان کی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ واضح ہوتا ہے کہ انہوں نے ہمیشہ قوم کو اور قومی سوچ کو ترجیح دی اور بطور قوم سوچنے کی سوچ کو پروان چڑھایا- محض اپنی ذات، خاندان یا اپنی نسل کا نہیں سوچا بلکہ بطور اجتماعی انہوں نے قوم کی تربیت اور رہنمائی کی اور ساتھ میں انہوں نے نسل نو کو بھی ترجیح بنایا- انہوں نے فرد واحد کی تعلیم و تربیت، ان کی فکری رہنمائی، دین اسلام کی خدمت اور نظریہ پر کار بندی، اپنے کلچر اور شناخت کی حفاظت ، امن، جذبہ خدمت اور عوامی فلاح کے لئے مثبت سیاست اور لوگوں کو جوڑنے کی ہمیشہ تلقین کی-
قائد اعظم کی سوچ کے برعکس آج جب ہم تصویر کا دوسرا رخ دیکھتے ہیں تو دل دُکھتا ہے کہ ایک ایسی نوجوان قوم، جن کے سامنے ایک شاندار تاریخ اور آباؤ اجداد کےشاندار ماضی کی روایات موجود ہوں، وہ آج بغیر کسی رہنمائی اور تربیت کے زندگی گزارنے پہ مجبور کی گئی ہے - فرقہ واریت، گروہی شدتیں اور نسلی و لسانی تعصبات کا زہر نوجوان نسل کے باطن کو مسلسل کھوکھلا کئے جا رہا ہے - اکابر اور اسلاف پہ لعن طعن کے لئےایسے ایسے موضوعات تراشے گئے ہیں جو گزشتہ نسلوں میں کسی نے سوچے بھی نہیں ہونگے-نفرتوں کے تاجروں کا کاروبار عروج پہ ہے، گالم گلوچ، زہر افشانی و شعلہ لسانی سندِ فضیلت سمجھ لی گئی ہیں -آج نوجوان، قومی آبادی کاتقریباً 60 فیصد ہونے کے باوجود ناامیدی اور یاس کا شکار ہو چکا ہے- اس کی بنیاداقبال کے شعر سے واضح ہوتی ہے کہ:
تھے تو آبا وہ تمہارے ہی، مگر تُم کیا ہو؟ |
|
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہو! |
آج بطور قوم جن تکالیف اور مشکلات سے ہم دوچار ہیں اس کی بنیادی وجہ ہی یہی ہے کہ’’جذبہ قومی خدمت‘‘ کی روح ہمارے دلوں سے جاتی رہی جس کے باعث ہماری صفوں سے اتحاد و یگانگت بھی جاتا رہا- ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دے رہے ہیں- آج ہم مختلف چھوٹی چھوٹی شناختوں کو اپنا چکے ہیں قومی یکجہتی اور شناخت سے زیادہ ہمیں علاقائی اور لسانی شناخت پر فخر محسوس ہوتا ہے- بطور قوم خصوصاً نوجوان نسل کو آج دوبارہ اپنی ترجیحات پر نظر ثانی کی ضرورت ہے- کیونکہ آنے والے دنوں میں اسی نسل نے ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہے- اقبال نے کیا خوب کہا تھا کہ :
جہانِ تازہ کی افکارِ تازہ سے ہے نمود |
|
کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا |
آج کی نوجوان نسل ہر معاملے میں شارٹ کٹ کی اتنی عادی ہو چکی ہےکہ نہ توکوئی تعمیری سرگرمیاں سرانجام دیتی ہے اور نہ ہی مطالعہ کتب اور تحقیق کی طرف رجحان جاتا ہے ، علم کا انحصار لائیکس اور ویوز کمانے والے یوٹیوبرز کی چٹ پٹی مصالحہ دار ویڈیوز پہ ہے-مطالعہ اور تحقیق کا شوق تقریباً تقریباً مفقود ہو چکا ہے - یہ ایک حقیقت ہے زندہ قوموں کی کامیابی کا راز اس بات میں مضمر ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف اپنے ماضی کی شاندار روایات کے ساتھ مضبوط رشتہ استوار رکھتی ہیں بلکہ آنے والی نسلوں کو بھی اپنے آبا و اجداد کی قربانیوں کا سبق ازبر کرواتی ہیں تاکہ وہ کسی رہنمائی کے بغیر زندگی نہ جئیں- اپنی ماضی کی شاندار روایات سے یہی رابطہ قوموں کو وہ جذبہ اور استعداد دیتا ہے جس سے وہ اپنے قومی اہداف اور مقاصد کے حصول کو یقینی بناتی ہیں- آج بطور قوم ہمیں اس جذبہ عمل اور کردار کو اپنانے کی ضرورت ہے-