دستک

دستک

سعودیہ -ایران تعلقات 

گزشتہ دنوں چین کی ثالثی میں برادر اسلامی ممالک سعودی عرب اور ایران کے مابین سفارتی تعلقات کی بحالی کا سامنے آنے والا معاہدہ انتہائی اہم پیش رفت اور خوش آئند اقدام ہے- اخباری اطلاعات کے مطابق، چین کے شہر بیجنگ میں دونوں ممالک کے اعلیٰ حکام کے مابین 6 سے 10 مارچ کے دوران ہونے والے مذاکرات کے اختتام پر اس معاہدے کا اعلان کیا گیا- اس معاہدے کی رو سے یہ طے پایا ہے کہ دونوں ممالک ایک ماہ میں سفارتی تعلقات بحال کر لیں گے، ایک دوسرے کی خودمختاری کا احترام کریں گے اور اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے- مشترکہ اعلامیہ کے مطابق، اس معاہدے کا مقصد دونوں ممالک کے مابین ’’اچھے ہمسایہ تعلقات‘‘ کو فروغ دینا ہے اور پائے جانے والے اختلافات کو بات چیت اور سفارت کاری کے ذریعے حل کرنا ہے- اس پیش رفت کے بعد ، ایرانی حکام کی طرف سے یہ بیان جاری کیا گیا کہ سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبد العزیز نے ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کو سعودی عرب کا دورہ کرنے کی دعوت دی جس کا انہوں نے خیر مقدم کیا- اس کے علاوہ سعودی عرب نے ایک اور عرب ملک شام سے بھی اپنے سفارتی تعلقات کو بحال کرنے کا عندیہ دیا ہے-

بانیان پاکستان کے وژن کے مطابق اور اپنی خارجہ پالیسی کے بنیادوں اصولوں کے تحت پاکستان نے ہمیشہ امت مسلمہ کے درمیان تنازعات کو حل کرنے اور اتحاد کو فروغ دینے کے لئے اپنا اہم کردار ادا کیا ہے-حکومتِ پاکستان کے کئی سربراہانِ مملکت سمیت اعلیٰ سطحی وفود نے دونوں برادر اسلامی ممالک کے مابین کشیدگی کو کم کروانے کے لیے ذاتی دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے دونوں ممالک کے دورے بھی کئے- اس پہ کئی جہات سے ماہرین و محققین بات کرتے ہیں کہ عرب ایران کشیدگی سے متاثر ہونے والے ممالک میں پاکستان بھی ہے ، اس لئے اگر مشرقِ وسطیٰ کے برادر اسلامی ممالک میں سیاسی تناؤ میں کمی ہوتی ہے اور تعلقات غیر کشیدگی کی طرف جاتے ہیں تو پاکستان کیلئے داخلی سطح پر خوش آئند ہوگا-دونوں ممالک کے درمیان حالیہ پیش رفت پر پاکستان کے وزیر اعظم اور دفتر خارجہ نے چین کے مصالحتی کردار کو سراہتے ہوئے اس پیش رفت کا پرتپاک خیر مقدم کیا اور کہا کہ اس سفارتی اقدام سے علاقائی امن و استحکام کو بڑھانے میں مدد ملے گی- پاکستان کو پختہ یقین ہے کہ یہ اہم سفارتی پیش رفت خطے اور اس سے باہر امن و استحکام میں معاون ثابت ہوگی- پاکستانی دفتر خارجہ نے اس عزم کو دہراتے ہوئے کہا کہ دونوں برادر ممالک کے درمیان خلیج کو پر کرنے کے لیے مسلسل تعاون اور ہم آہنگی کی کوششوں کی تاریخ کے ساتھ، پاکستان مشرق وسطیٰ اور خطے میں تعمیری کردار ادا کرتا رہے گا-

یہاں یہ بات قابل ذکر رہے کہ دونوں ممالک سعودی عرب اور ایران مشرق وسطیٰ کے انتہائی اہم ممالک اور اسلامی دنیا میں اپنی ایک اہمیت رکھتے ہیں- اس لئے دونوں ممالک کے مابین تنازعات یا امن و امان کا اثر نہ صرف خطے کے اوپر بلکہ پوری اسلامی دنیا پر پڑتا ہے-

مشرق وسطٰی کا خطہ تنازعات، بلاک پالیٹکس، فرقہ ورانہ سیاست ، گروہ بندیوں اور جنگوں کی وجہ سے کئی دہائیوں سے سلگتا رہا ہے- یمن، شام ، عراق، لیبیا، قطر اور دیگر متعدد ممالک ان تنازعات کی وجہ سے متاثر ہوئے ہیں- سعودی عرب اور ایران کے مابین ہونے والی یہ پیش رفت نہ صرف خطے کی سلامتی اور استحکام کی راہ ہموار کرے گی بلکہ پوری اسلامی دنیا میں اتحاد و یگانگت کو بھی فروغ ملے گا- اسلامی دنیا خصوصاً او آئی سی کے دو اہم ممالک کے مابین اتحاد و یگانگت سے مسئلہ فلسطین کے پر امن حل کے لیے اہم پیش رفت ہو سکتی ہے- دونوں ممالک کا مسئلہ فلسطین پر اصولی مؤقف اس جانب راہ ہموار کرنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے- دونوں ممالک مسئلہ کشمیر پر بھی پاکستان کے مؤقف کی حمایت کرتے آئے ہیں-آج امت مسلمہ بطور امت کئی محاذ پر بے شمار چیلنجز اور مسائل کا سامنا کر رہی ہے- ان چیلنجز سے نمٹنے کے لئے امت کے مابین اتحاد و اتفاق اور یگانگت کو پروان چڑھانے کی ضرورت ہے-

پاکستان کے نظام صحت پر ایک جائزہ

کسی بھی ملک یا معاشرے کی ترقی اور خوشحالی کا انحصار جن بنیادی چیزوں کی فراہمی پر ہوتا ہے ان میں تعلیم، روزگار کے مواقع اور تحفظ کے ساتھ ساتھ صحت کی سہولیات کی فراہمی بھی شامل ہے- صحت کی سہولت، بنیادی انسانی حقوق میں سے ایک تصور کی جاتی ہے کیونکہ بنیادی صحت کا حق ہر فرد کو حاصل ہے- یہ ریاست ہی کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ شہریوں کو علاج معالجے کی سستی اور معیاری سہولیات فراہم کرے- پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 38 بھی یہ واضح کرتا ہے کہ مملکت اپنے تمام شہریوں کو بلا امتیاز مذہب، جنس، ذات، عقیدہ اور نسل، زندگی کی بنیادی ضرورتوں بشمول صحت اور علاج معالجہ کی سہولیات مہیا کرے- پاکستان بین الاقوامی سطح پر بھی صحت کی سہولیات کی فراہمی سے متعلق متعدد دستاویزات پر دستخط کر چکا ہے-

بدقسمتی سے پاکستان میں صحت کی سہولیات کی فراہمی نہ ہونے کے برابر اور شعبے کے بنیادی ڈھانچے میں کافی کمزوریاں پائی جاتی ہیں- جس کا اندازہ اس بات سے بآسانی لگایا جا سکتا ہے کہ صحت کی سہولیات کے حساب سے 195 ممالک میں پاکستان 154ویں نمبر پر آتا ہے- پاکستان ان ممالک میں سرِ فہرست ہے جو اپنے جی ڈی پی کا انتہائی قلیل حصہ صحت پر خرچ کرتے ہیں- ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق حکومتوں کو جی ڈی پی کا کم از کم 6 فیصد صحت پر خرچ کرنا ضروری ہے جبکہ پاکستان 1.4 فیصد خرچ کر رہا ہے جو کہ انتہائی کم ہے-

معروف جریدے ’دی لانسیٹ ‘کی تحقیق کے مطابق پاکستان کی کارکردگی تپ دق، اسہال کی بیماریوں، نوزائیدہ بچوں کی بیماریوں، رحم کے کینسر اور لیوکیمیا سمیت دیگر عام بیماریوں کو کنٹرول کرنے میں بری رہی ہے-صحت کی سہولیات عدم فراہمی کے باعث ہر سال مختلف عمر کے ہزاروں افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں- مثلاً یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق ہر سال ملک بھر میں تقریباً 91000 بچے نمونیا اور 53300 اسہال سے مر جاتے ہیں- یونیسیف کے مطابق، تقریباً ایک کروڑ پاکستانی بچے اسٹنٹنگ کا شکار ہیں- پاکستان میں ہر سال ٹی بی کے 6 لاکھ کیسز رپورٹ ہوتے ہیں جبکہ لگ بھگ 44000 لوگ انفیکشن سے مر جاتے ہیں-نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں اس وقت دو لاکھ 10 ہزار افراد ایچ آئی وی کا شکار ہیں، جن میں سے تقریباً 54 ہزار ملک میں قائم 51 ایڈز مراکز میں رجسٹرڈ ہیں- یو این ایڈز کے اعداد و شمار کے مطابق 2010 سے پاکستان میں ایڈز کے کیسز میں 84 فیصد اضافہ ہوا ہے-

دیگر بیماریوں کی طرح پاکستان بصارتی امراض کا بھی شکار ملک ہے جہاں بینائی سے متاثرہ افراد کی ساتویں بڑی تعداد رہائش پذیر ہے- ملک کی 11.8 فیصد آبادی کو بصارت کے مسائل درپیش ہیں- نابینا پن کے روک تھام کی بین الاقوامی ایجنسی( آئی اے پی بی) کے مطابق پاکستان کے 26.3 ملین افراد خراب بینائی کے ساتھ زندگی بسر کر رہے ہیں-

کورونا وباء کے دوران جہاں پوری دنیا میں صحت کے نظام میں پائی جانے والی خرابیاں اور کمزوریاں سامنے آئیں، وہیں پاکستان جیسے کم ترقی یافتہ ممالک میں اس وباء کو صحت کا شعبہ مکمل طور قابو نہیں پا سکا- اس میں کوئی شک نہیں کہ وباء کے دوران این سی او سی کا قیام اور حکومت کی سمارٹ لاک ڈاؤن کی پالیسی کافی حد تک کامیاب رہی جس سے بڑھتے ہوئے کورونا کیسز پر قابو پایا گیا- گزشتہ حکومت نے پاکستان کی پہلی مرتبہ قومی سلامتی پالیسی کا اجراء کیا جس میں صحت کے شعبے کےمتعلق خصوصاً ذکر کیا گیا ہے-اس پالیسی کے مطابق ریاست ایسے اقدامات اٹھائے گی جس سے معیاری صحت کی دیکھ بھال کو مزید سستا بنانے کے علاوہ بیماریوں کی روک تھام کے نظام کو مزید مضبوط کیا جائے گا- غذائی قلت اور سٹنٹنگ کو دور کرنے کی کوششوں کو مزید تیز کیا جائے گا- اس بات کا بھی اعادہ کیا گیا کہ ایک صحت مند اور متحرک پاکستان کیلئے وبائی امراض اور ان کے ردعمل کا طریقہ کار وضع کیا جائے گا-

پاکستان میں سرکاری سطح پر صحت کا شعبہ تباہی کے سنگین دہانے پر ہے جبکہ پرائیویٹ سیکٹر میں قدرے مہنگے لیکن علاج و معالجے کی بہتر سہولیات میسر ہیں- اگر حکومت اس طرف مکمل طور پر توجہ دے تو اس میں بہتری لائی جا سکتی ہے- جس کیلئے صحت پر خرچ ہونی والی رقم کو عالمی معیار کے مطابق لانا ضروری ہے- اس کے علاوہ درست طریقے سے پالیسیوں پر عمل درآمد کر کےاس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ڈاکٹرز اپنی ذمہ داریاں صحیح طریقے سے انجام دیں- اکثر اوقات سرکاری ڈاکٹرز مریضوں کا ہسپتال کی بجائے پرائیویٹ کلینک چیک اپ کو ترجیح دیتے ہیں-اس کے علاوہ ہسپتالوں میں صفائی ستھرائی کو یقینی بنایا جائے- ادویات کی قیمتوں میں بڑھتے ہوئے اضافے کو روکنے کی ضرورت ہے- پاکستان میں صحت کا شعبہ واقعی مسائل کا شکار ہے جو کہ صحت کے بین الاقوامی معیار پر پورا نہیں اترتا- حکومت کو صحت کے شعبے میں بہتری لانے اور اس شعبے میں درپیش تمام چیلنجز پر قابو پانے کے لیے مضبوط اقدام اٹھانے کی ضرورت ہے-

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر