قرآن اور روزہ کے باطنی پہلو

قرآن اور روزہ کے باطنی پہلو

قرآن اور روزہ کے باطنی پہلو

مصنف: علامہ محمد اسماعیل خان نیازی جون 2016

قرآن میں ہو غوطہ زن اے مردِ مسلماں

اللہ کرے تجھ کو عطائ جدتِ کردار

انسان کی حقیقی کامیابی کے لئے اِس کا حقیقت پسند ہونا نہایت ضروری ہے ورنہ انسان بعض اوقات خرافات میں کھو کر زندگی کے مقصدِ حقیقی سے کوسوں دُور چلا جاتا ہے کیونکہ کائنات کی ہر چیز کے دو پہلو ہیں ظاہر اور باطن- ظاہر کی مثال چھلکے کی اور باطن کی مثال مغز کی ہے اگر باطن ﴿مغز﴾ کو نظر انداز کردیا جائے ظاہر ﴿چھلکا﴾ بے معنی رہ جاتا ہے اور اِسی چیز کا درس حکیم الاُ مت ڈاکٹر علامہ اقبال نے ہمیں دیا ہے: -

الفاظ کے پیچوں میں اُلجھتے نہیں دانا

غواص کو مطلب ہے صدف سے کہ گُہر سے؟

اِسی تناظر میں جب ہم تعلیمات ِقرآن مجید کو دیکھتے ہیں تو یہی چیز سامنے آتی ہے کہ اِس کا ایک ایک لفظ اپنے ظاہر ی معنیٰ کے علاوہ اپنے اندر حقائق اور باطنی علوم کا سمندر لیے ہوئے ہے جیسا کہ آقا پاک صاحب لولاک حضرت محمدمصطفی اکا فرمان مبارک بھی ہے:-

 ﴿مَا نُزِّلَ مِنَ الْقُرْآنِ آیَۃٌ وَّ لَھَا ظَاہِرٌ وَ بَاطِنٌ وَّ لِکُلِّ حَرْفٍ حَدٌ وَّ لِکُلِّ حَدٍّ مَّطْلَع﴾

’’ قرآن مجید میں جو آیت نازل ہوئی ہے اس کا ظاہری معنی بھی ہے اور باطنی بھی اور ہر حرف کے لیے حد ہے اور ہر حرف کے لئے مطلع ﴿آغاز﴾ ہے‘‘- ﴿تفسیر ابن عربی ، جلد۱، ص۶

قرآن مجید کے کلام اللہ ہونے ہی میں اِس کی عظمت کا راز ہے اِس لئے کہ کلام متکلم کی صفت ہوتا ہے کلام میں متکلم کی پوری شخصیت ہویدا ہوتی ہے اِس اعتبار سے یہ کلام اللہ ﴿ قرآن مجید﴾ اللہ پاک کی جملہ صفات کا مظہر ہے بقول ڈاکٹر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ :

فاش گویم آنچہ در دل مضمر است

ایں کتابے نیست ، چیزے دیگر است

مثلِ حق پنہاں و ہم پیدا ست ایں

زندہ و پائندہ و گویا است ایں

’’جو بات میرے دل میں چھپی ہوئی ہے وہ میں صاف صاف کہہ دیتا ہوں یہ ﴿قرآن حکیم﴾ کتاب نہیں کوئی اور شئے ہے - چنانچہ یہ حق تعالیٰ کی ذات کی مانند پوشیدہ بھی ہے اور ظاہر بھی ہے- نیز یہ ہمیشہ زندہ اور باقی رہنے والا بھی ہے اور یہ کلام بھی کرتا ہے‘‘-

اور جب کوئی خوش قسمت کلام اللہ ﴿قرآن پاک﴾ ظاہر کے ساتھ اس کے باطن میں بھی جھانکتا ہے بقول ڈاکٹر علامہ محمد اقبال :-

چوں بجاں در رفت جاں دیگر شود

جاں چوں دیگر شد جہاں دیگر شود

’’یہ قرآن جب کسی کے باطن میں سرایت کر جاتا ہے تو اس کے اندر انقلاب برپا کر دیتا ہے اور جب کسی کی اندر کی دنیا بدل جاتی ہے تو اس کے لئے پوری دنیا ہی انقلاب کی زد میں آجاتی ہے ‘‘-

آقا پاک ا نے اپنے غلاموں کو نہ صرف قرآن پاک کے ظاہری مفاہیم سے آگاہ فرمایا بلکہ آپ ا نے اُن کو جملہ باطنی علوم کا بھی وارث بنایا یہی وجہ ہے کہ حضرت علی المرتضیٰ شیرخدا رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں

﴿اَقْدَرُاَنْ اَسْتَخْرِجَ وَقْرَبَعِیْرٍ مِّنَ الْعُلُوْمِ مِنْ مَّعْنَی الْبَآئِ﴾

’’میں چاہوں تو بسم اللہ کی بائ کے معنی سے اتنے علوم بیان کرسکتا ہو کہ ایک اونٹ کا بوجھ بنے ‘‘ -﴿عبدالوہاب شعرانی، الانوار لقدسیہ ،ص ۹۷، جلد :۱

اسی چیز کی عکاسی سید نا امام جعفر صادق(رض) کا قول مبارک ہے:

’’یقینا اللہ پاک اپنے کلام میں اپنے بندے کے لئے تجلی فرماتا ہے لیکن وہ دیکھتے نہیں‘‘- ﴿تفسیر ابن عربی ،جلد اول ،ص۶

قرآن مجید کلام کرنے والا ہے اور زندہ و جاوید کتاب ہے اس کا ثبوت سیّدنا امام جعفر صادق (رض) کے اِس واقعہ سے بھی ملتا ہے:-

’’ آپ (رض) کو نماز میں غش آگیا تو اس کی وجہ پوچھی گئی تو آپ(رض) نے فرمایا :میں جب تک ایک آیت کا جواب اس ذات سے نہ سن لوں جس سے ہم کلا م ہوں دوسری آیت نہیں پڑھتا‘‘ ﴿تفسیر ابن عربی ،جلد ا، ص۶

 مذکورہ بالا اقوال سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ قرآن پاک صر ف ظاہری الفاظ کا نام نہیں بلکہ حقائق کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہے جس میں غوطہ زن ہو کر ایک مرد مسلماں اپنے من کی دنیا کو تابندہ کر سکتا ہے بلکہ حقیقت بھی یہی ہے کہ جب تک وہ قرآن پاک کے اسرار ورموز کو اپنے باطن پر وارد نہیں کرتا تو حقیقت میں وہ کامیاب انسان نہیں کہلا سکتا او رنہ ہی دنیا کی کوئی یونیورسٹی یا کتاب اس کی تلافی کرسکتی- بقول ڈاکٹر علامہ محمد اقبال:-

تیرے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزول کتاب

 گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحب ِکشاف

اِسی طرح ’’الصوم‘‘ جس کا لغوی معنی الامساک ﴿رکنا﴾ ہے- اس کا ظاہر بھی ہے اور باطن بھی- ماہ رمضان کے جملہ فیوض سمیٹنے کے لئے ضروری ہے کہ روزہ کے ظاہری و باطنی دونوں تقاضے پورے کئے جائیں ورنہ بندہ بعض اوقات ﴿العیاذ باللہ﴾ آقا پاک ا کے اس فرمان کا مصداق بن جاتا ہے کہ

’’ کچھ روزہ دار ہیں جنہیں روزے سے بھوک پیاس کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا ‘‘-

صاحب روح البیان علامہ اسماعیل حقی رحمۃ اللہ علیہ روزے کے بارے میں رقم طراز ہیں:-

’’روزہ اہل شریعت کے نزدیک دن کے وقت ﴿کھانے، پینے اور جماع سے﴾ باز رہنے کا نام ہے لیکن شرط یہ ہے کہ اس میں نیت بھی روزہ کی ہو چونکہ ان اشیائ کو نفس خوب چاہتا ہے اِس لئے اس کی مخالفت کی بنا پر ان سے روکا گیا ہے یہ عوام کا روزہ ہے خواص کے نزدیک تمام منہیات ﴿ممنوعاتِ شریعت﴾ سے رکنے کا نام روزہ ہے-اخص الخواص کا روزہ ترک ما سوا اللہ کا نام ہے‘‘ ﴿تفسیر روح البیان جلد ا، ص۲۹۲

محبوب سبحانی ،قطب ربانی ،شہباز لامکانی حضرت الشیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ’’ الصیا م‘‘ کی تفسیر میں لکھتے ہیں:-

’’شریعت کی رو سے روزہ یہ ہے کہ ماہ معروف ﴿ماہ رمضان﴾میں فجر ثانی کے طلوع سے لے کر غروب آفتاب ﴿تک ہر قسم کے کھانے پینے اور نفسانی خواہشات کی تکمیل سے﴾ رک جانا ہے لیکن جو حق کی عقل رکھنے والے اہل یقین ہیں جن پر احکام دینیہ کے اسرارو رموز عیاں ہوجاتے ہیں اور وہ اپنی بساط بھر ان احکام کی حقیقت کو پا لیتے ہیں- تو ان کے نزدیک روزے کا معانی ہے ہرماسوی اللہ سے مطلقاً رُک جانا اور کلی طور پر اعراض کرنا‘‘- ﴿التفسیر الجیلانی، ص ۴۸۱،جلد اول﴾

حضرت شیخ عارف باللہ ابی محمد صدر الدین روزبہان ابی نصر البقلی رحمۃ اللہ علیہ ﴿کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ﴾کے تحت رقم طراز ہیں کہ:

’’اے اہل یقین! تم پر تمام دنیا سے اعراض فرض کیا گیا ہے کہ تم مشاہدہ ﴿حق﴾ کی طلب میں ہو، پس ﴿تم پر﴾ واجب ہے کہ تم مقام عبودیت میں طبیعی خواہشات ﴿کی تکمیل سے﴾ رک جائو جس طرح تم سے پہلے انبیائ و رسل﴿ علیہم الصلوۃ والسلام﴾ اور عارفین ومحبین پر روزے فرض کئے گئے تھے تاکہ تم بشریت کی نجاست سے خلاصی پائو اور مقام امن و قربت تک رسائی حاصل کرو ‘‘- ﴿تفسیر عرائس البیان، جلدا، ص۵۷

اِس کے ساتھ ساتھ اکثر یہ سوالات سننے کو ملتے ہیں کہ فلاں شخص نمازپڑھتا ہے ،روزے رکھتا ہے لیکن گناہوں سے باز نہیں آتا تو اس کا جواب یہ ہے کہ کہ اس نے ظاہر ی طور پر نماز پڑھی ،روزہ رکھا تلاوت قرآن مجید کی لیکن اس کے باطنی تقاضے پورے نہیں کئے صوفیا کرام کے نزدیک جب ارکان اسلام ﴿کلمہ،نماز ، روزہ ، حج ،زکوٰۃ﴾کے باطنی پہلو کو نظر انداز کردیا جائے تو ان کے فیوض وبرکات سے جیسا کہ حق ہے ویسا استفادہ ممکن نہیں اور نہ ہی کما حقّہ، اس کے اثرات قلب وروح پر مرتب ہوتے ہیں - اِس لئے ہم پہ لازم ہے عبادت کی ظاہری پابندی کی عادت اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ اُس کی باطنی لذّت و حلاوت کو بھی حاصل کریں تاکہ وہ ظاہراً باطناً مکمّل ہو جائے

قرآن میں ہو غوطہ زن اے مردِ مسلماں

اللہ کرے تجھ کو عطائ جدتِ کردار

انسان کی حقیقی کامیابی کے لئے اِس کا حقیقت پسند ہونا نہایت ضروری ہے ورنہ انسان بعض اوقات خرافات میں کھو کر زندگی کے مقصدِ حقیقی سے کوسوں دُور چلا جاتا ہے کیونکہ کائنات کی ہر چیز کے دو پہلو ہیں ظاہر اور باطن- ظاہر کی مثال چھلکے کی اور باطن کی مثال مغز کی ہے اگر باطن ﴿مغز﴾ کو نظر انداز کردیا جائے ظاہر ﴿چھلکا﴾ بے معنی رہ جاتا ہے اور اِسی چیز کا درس حکیم الاُ مت ڈاکٹر علامہ اقبال نے ہمیں دیا ہے: -

الفاظ کے پیچوں میں اُلجھتے نہیں دانا

غواص کو مطلب ہے صدف سے کہ گُہر سے؟

اِسی تناظر میں جب ہم تعلیمات ِقرآن مجید کو دیکھتے ہیں تو یہی چیز سامنے آتی ہے کہ اِس کا ایک ایک لفظ اپنے ظاہر ی معنیٰ کے علاوہ اپنے اندر حقائق اور باطنی علوم کا سمندر لیے ہوئے ہے جیسا کہ آقا پاک صاحب لولاک حضرت محمدمصطفی اکا فرمان مبارک بھی ہے:-

 ﴿مَا نُزِّلَ مِنَ الْقُرْآنِ آیَۃٌ وَّ لَھَا ظَاہِرٌ وَ بَاطِنٌ وَّ لِکُلِّ حَرْفٍ حَدٌ وَّ لِکُلِّ حَدٍّ مَّطْلَع﴾

’’ قرآن مجید میں جو آیت نازل ہوئی ہے اس کا ظاہری معنی بھی ہے اور باطنی بھی اور ہر حرف کے لیے حد ہے اور ہر حرف کے لئے مطلع ﴿آغاز﴾ ہے‘‘- ﴿تفسیر ابن عربی ، جلد۱، ص۶

قرآن مجید کے کلام اللہ ہونے ہی میں اِس کی عظمت کا راز ہے اِس لئے کہ کلام متکلم کی صفت ہوتا ہے کلام میں متکلم کی پوری شخصیت ہویدا ہوتی ہے اِس اعتبار سے یہ کلام اللہ ﴿ قرآن مجید﴾ اللہ پاک کی جملہ صفات کا مظہر ہے بقول ڈاکٹر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ :

فاش گویم آنچہ در دل مضمر است

ایں کتابے نیست ، چیزے دیگر است

مثلِ حق پنہاں و ہم پیدا ست ایں

زندہ و پائندہ و گویا است ایں

’’جو بات میرے دل میں چھپی ہوئی ہے وہ میں صاف صاف کہہ دیتا ہوں یہ ﴿قرآن حکیم﴾ کتاب نہیں کوئی اور شئے ہے - چنانچہ یہ حق تعالیٰ کی ذات کی مانند پوشیدہ بھی ہے اور ظاہر بھی ہے- نیز یہ ہمیشہ زندہ اور باقی رہنے والا بھی ہے اور یہ کلام بھی کرتا ہے‘‘-

اور جب کوئی خوش قسمت کلام اللہ ﴿قرآن پاک﴾ ظاہر کے ساتھ اس کے باطن میں بھی جھانکتا ہے بقول ڈاکٹر علامہ محمد اقبال :-

چوں بجاں در رفت جاں دیگر شود

جاں چوں دیگر شد جہاں دیگر شود

’’یہ قرآن جب کسی کے باطن میں سرایت کر جاتا ہے تو اس کے اندر انقلاب برپا کر دیتا ہے اور جب کسی کی اندر کی دنیا بدل جاتی ہے تو اس کے لئے پوری دنیا ہی انقلاب کی زد میں آجاتی ہے ‘‘-

آقا پاک ا نے اپنے غلاموں کو نہ صرف قرآن پاک کے ظاہری مفاہیم سے آگاہ فرمایا بلکہ آپ ا نے اُن کو جملہ باطنی علوم کا بھی وارث بنایا یہی وجہ ہے کہ حضرت علی المرتضیٰ شیرخدا رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں

﴿اَقْدَرُاَنْ اَسْتَخْرِجَ وَقْرَبَعِیْرٍ مِّنَ الْعُلُوْمِ مِنْ مَّعْنَی الْبَآئِ﴾

’’میں چاہوں تو بسم اللہ کی بائ کے معنی سے اتنے علوم بیان کرسکتا ہو کہ ایک اونٹ کا بوجھ بنے ‘‘ -﴿عبدالوہاب شعرانی، الانوار لقدسیہ ،ص ۹۷، جلد :۱

اسی چیز کی عکاسی سید نا امام جعفر صادق(رض) کا قول مبارک ہے:

’’یقینا اللہ پاک اپنے کلام میں اپنے بندے کے لئے تجلی فرماتا ہے لیکن وہ دیکھتے نہیں‘‘- ﴿تفسیر ابن عربی ،جلد اول ،ص۶

قرآن مجید کلام کرنے والا ہے اور زندہ و جاوید کتاب ہے اس کا ثبوت سیّدنا امام جعفر صادق (رض) کے اِس واقعہ سے بھی ملتا ہے:-

’’ آپ (رض) کو نماز میں غش آگیا تو اس کی وجہ پوچھی گئی تو آپ(رض) نے فرمایا :میں جب تک ایک آیت کا جواب اس ذات سے نہ سن لوں جس سے ہم کلا م ہوں دوسری آیت نہیں پڑھتا‘‘ ﴿تفسیر ابن عربی ،جلد ا، ص۶

 مذکورہ بالا اقوال سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ قرآن پاک صر ف ظاہری الفاظ کا نام نہیں بلکہ حقائق کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہے جس میں غوطہ زن ہو کر ایک مرد مسلماں اپنے من کی دنیا کو تابندہ کر سکتا ہے بلکہ حقیقت بھی یہی ہے کہ جب تک وہ قرآن پاک کے اسرار ورموز کو اپنے باطن پر وارد نہیں کرتا تو حقیقت میں وہ کامیاب انسان نہیں کہلا سکتا او رنہ ہی دنیا کی کوئی یونیورسٹی یا کتاب اس کی تلافی کرسکتی- بقول ڈاکٹر علامہ محمد اقبال:-

تیرے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزول کتاب

 گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحب ِکشاف

اِسی طرح ’’الصوم‘‘ جس کا لغوی معنی الامساک ﴿رکنا﴾ ہے- اس کا ظاہر بھی ہے اور باطن بھی- ماہ رمضان کے جملہ فیوض سمیٹنے کے لئے ضروری ہے کہ روزہ کے ظاہری و باطنی دونوں تقاضے پورے کئے جائیں ورنہ بندہ بعض اوقات ﴿العیاذ باللہ﴾ آقا پاک ا کے اس فرمان کا مصداق بن جاتا ہے کہ

’’ کچھ روزہ دار ہیں جنہیں روزے سے بھوک پیاس کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا ‘‘-

صاحب روح البیان علامہ اسماعیل حقی رحمۃ اللہ علیہ روزے کے بارے میں رقم طراز ہیں:-

’’روزہ اہل شریعت کے نزدیک دن کے وقت ﴿کھانے، پینے اور جماع سے﴾ باز رہنے کا نام ہے لیکن شرط یہ ہے کہ اس میں نیت بھی روزہ کی ہو چونکہ ان اشیائ کو نفس خوب چاہتا ہے اِس لئے اس کی مخالفت کی بنا پر ان سے روکا گیا ہے یہ عوام کا روزہ ہے خواص کے نزدیک تمام منہیات ﴿ممنوعاتِ شریعت﴾ سے رکنے کا نام روزہ ہے-اخص الخواص کا روزہ ترک ما سوا اللہ کا نام ہے‘‘ ﴿تفسیر روح البیان جلد ا، ص۲۹۲

محبوب سبحانی ،قطب ربانی ،شہباز لامکانی حضرت الشیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ’’ الصیا م‘‘ کی تفسیر میں لکھتے ہیں:-

’’شریعت کی رو سے روزہ یہ ہے کہ ماہ معروف ﴿ماہ رمضان﴾میں فجر ثانی کے طلوع سے لے کر غروب آفتاب ﴿تک ہر قسم کے کھانے پینے اور نفسانی خواہشات کی تکمیل سے﴾ رک جانا ہے لیکن جو حق کی عقل رکھنے والے اہل یقین ہیں جن پر احکام دینیہ کے اسرارو رموز عیاں ہوجاتے ہیں اور وہ اپنی بساط بھر ان احکام کی حقیقت کو پا لیتے ہیں- تو ان کے نزدیک روزے کا معانی ہے ہرماسوی اللہ سے مطلقاً رُک جانا اور کلی طور پر اعراض کرنا‘‘- ﴿التفسیر الجیلانی، ص ۴۸۱،جلد اول﴾

حضرت شیخ عارف باللہ ابی محمد صدر الدین روزبہان ابی نصر البقلی رحمۃ اللہ علیہ ﴿کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ﴾کے تحت رقم طراز ہیں کہ:

’’اے اہل یقین! تم پر تمام دنیا سے اعراض فرض کیا گیا ہے کہ تم مشاہدہ ﴿حق﴾ کی طلب میں ہو، پس ﴿تم پر﴾ واجب ہے کہ تم مقام عبودیت میں طبیعی خواہشات ﴿کی تکمیل سے﴾ رک جائو جس طرح تم سے پہلے انبیائ و رسل﴿ علیہم الصلوۃ والسلام﴾ اور عارفین ومحبین پر روزے فرض کئے گئے تھے تاکہ تم بشریت کی نجاست سے خلاصی پائو اور مقام امن و قربت تک رسائی حاصل کرو ‘‘- ﴿تفسیر عرائس البیان، جلدا، ص۵۷

اِس کے ساتھ ساتھ اکثر یہ سوالات سننے کو ملتے ہیں کہ فلاں شخص نمازپڑھتا ہے ،روزے رکھتا ہے لیکن گناہوں سے باز نہیں آتا تو اس کا جواب یہ ہے کہ کہ اس نے ظاہر ی طور پر نماز پڑھی ،روزہ رکھا تلاوت قرآن مجید کی لیکن اس کے باطنی تقاضے پورے نہیں کئے صوفیا کرام کے نزدیک جب ارکان اسلام ﴿کلمہ،نماز ، روزہ ، حج ،زکوٰۃ﴾کے باطنی پہلو کو نظر انداز کردیا جائے تو ان کے فیوض وبرکات سے جیسا کہ حق ہے ویسا استفادہ ممکن نہیں اور نہ ہی کما حقّہ، اس کے اثرات قلب وروح پر مرتب ہوتے ہیں - اِس لئے ہم پہ لازم ہے عبادت کی ظاہری پابندی کی عادت اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ اُس کی باطنی لذّت و حلاوت کو بھی حاصل کریں تاکہ وہ ظاہراً باطناً مکمّل ہو جائے

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر