رمضان اور عام آدمی

رمضان اور عام آدمی

روزہ اگرچہ ایک بدنی عبادت ہے لیکن حقیقت میں اس کے کئی انفرادی و اجتماعی پہلو ہیں- ایک اس کا معاشرتی پہلو ہے، ایک معاشی، ایک ثقافتی اور ایک انفرادی و روحانی پہلو ہے- جب ہم روزے کے معاشرتی پہلوئوں کا جائزہ لیتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ روزہ دار اگر صاحبِ حیثیت آدمی ہے تو اسے بھی اس ماہ روزہ رکھنے سے بھوک پیاس کی شدت کا احساس ہوتا ہے جو ایک غریب آدمی کو سارا سال محسوس ہوتی رہتی ہے- یوں ماہِ رمضان کی ایک معاشرتی برکت تو یہ سامنے آتی ہے کہ صاحبِ حیثیت آدمی کو بھی غریب کے دکھ درد کا احساس ہوتا ہے شاید اسی لیے امرائ اس ماہ میں زیادہ سے زیادہ صدقہ و خیرات کرنے کی طرف مائل ہوتے ہیں کیونکہ وہ اس کرب کو اپنے وجود میں قریب سے محسوس کر رہے ہوتے ہیں جو کسی غریب کو روٹی یا پانی نہ ملنے کی وجہ سے عمر بھر محسوس ہوتا رہتا ہے-

اس کے برعکس اگر روزہ دار غریب آدمی ہے تو غریب کی ایک نفسیاتی کمزوری ہے کہ وہ غربت کی انتہائ کو چھونے کی وجہ سے مایوسیوں کی دلدل میں گھِر کر ایسے سنگین جرائم کی طرف مائل ہو جاتا ہے جو معاشرے کی بربادی کا باعث بھی بنتے ہیں- آپ جتنے بھی چور ، ڈاکو اور جسم فروشوں کی زندگیوں کو کھنگالیں تو اکثریت انتہائی غربت کے مارے ہوئے نکلیں گے - اسی لیے اسلام نظامِ زکوٰۃ کے ذریعے معاشرتی معاشی توازن پیدا کرتا ہے تاکہ غریب آدمی احساسِ کمتری کا شکار نہ ہو اسی طرح رمضان شریف کی بھی ایک برکت تو یہ دکھائی دیتی ہے کہ وہ غریب آدمی میں بھی برداشت ، حوصلہ اور صبر پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے- روزہ اس غریب آدمی کی قوتِ مدافعت میں اضافہ کرتے ہوئے اسے معاشرتی برائیوں سے باز رکھنے کی کوشش کرتا ہے- اسی لیے روزہ کو گناہوں کی ڈھال قرار دیا گیا ہے جس کے ذریعے روزہ دار خود بھی گناہوں سے بچتا ہے اور معاشرے کو بھی اپنے شَر سے محفوظ رکھنے کی کوشش کرتا ہے-

ماہِ رمضان کا ایک معاشی پہلو بھی ہے کہ اس ماہ میں رزق میں برکت ہو جاتی ہے ، کاروبار میں تیزی آجاتی ہے ، صدقہ و فطرانہ عام ہونے سے دولت اپنے ارتکاز سے نکل کر گردش میں آجاتی ہے جس کی برکت سے چاروں طرف خوشحالی پھیل جاتی ہے اور ایک عام آدمی کی قوتِ خرید میں اضافہ ہو جاتا ہے تبھی تو ہم دیکھتے ہیں کہ ماہِ رمضان میں اکثر مہنگائی بڑھ جاتی ہے اس کی وجہ بھی طلب میں اضافہ ہو تا ہے اور چیزیں مہنگی ہونے کے باوجود کثرت سے فروخت ہوتی ہیں-

ماہِ رمضان کا ایک ثقافتی پہلو بھی ہے کہ اکثر لوگ ماہِ رمضان میں اجتماعی عبادات کا اہتمام کرتے ہیں جیسے اجتماعی سحری و افطاری کا اہتمام، تراویح و صلاۃ التسبیح ، طاق راتوں کی عبادات اور اعتکاف وغیرہ اور جمعہ کا اجتماع تو انتہائی قابلِ دید ہوتا ہے بالخصوص الوداعی جمعہ تو عید کی طرح گذرتا ہے اور پھر اس کے بعد عید کا اجتماع، یہ سب وہ مذہبی ثقافتی پہلو ہیں جو صرف ماہِ رمضان کی ہی خاصیت ہیں جس میں ہر شخص خوبصورت لباس پہننے کی کوشش کرتا ہے ، خوشبوئیں لگاتا ہے اور مسکراہٹیں اور خوشیوں کے ذریعے ایک دوسرے کے دکھ درد کوختم کرنے کی کوشش کرتا ہے-

اگر ماہِ رمضان کے روحانی یا انفرادی پہلو کو بھی دیکھیں تو یہ مہینہ ہر روزہ دار کے وجود میں ضبطِ نفس، ایثار، قربانی، اطاعت و فرمانبرداری، خشوع و خضوع، کثرتِ عبادت کی لگن، خوفِ خدا، تقویٰ، تنہائی میں بھی اطاعتِ الٰہی، صبر اور توکل علی اللہ جیسی اعلیٰ صفات پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے- روزہ قربِ الٰہی کا ذریعہ ہے کیونکہ اس میں دن کے مخصوص وقت میں روزہ دار اللہ تعالیٰ کی بعض صفات اختیار کرتا ہے جن میں ایک نمایاں صفت یہ کہ چونکہ اللہ تعالیٰ کھانے پینے اور جسمانی لذات سے پاک ہے تو روزہ دار بھی قدرت ہونے کے باوجود کھانے پینے اور جسمانی لذات سے رک جاتا ہے- اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا ہوں-

ماہِ رمضان کا ایک طبی پہلو بھی ہے کہ ایک ماہ تک معدہ کو آرام دینے سے اس کی صلاحیت میں اضافہ ہو جاتا ہے اور یہ پہلے سے بہتر کام کرنا شروع کر دیتا ہے- معدے کو خالی رکھنے، بھوکا رہنے کی اہمیت اس قدر ہے کہ یہ دنیا کے تقریباً ہر مذہب میں کسی نہ کسی صورت میں موجود ہے- لیکن اسلام میں جو روزہ کی صورت ہے وہ بلا مبالغہ ایک بہترین اور فطرت کے قریب ترین ہے-

ماہِ رمضان کے روزوں کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صومِ دائودی کو بہترین روزہ کی صورت قرار دیا ہے جس میں ایک دن روزہ ہوتا ہے اور ایک دن افطاری- حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ بھی روزہ کی بہت ہی لطیف تشریح فرماتے ہیں کہ:-

’’آدمی کے وجود میں دس چیزیں پائی جاتی ہیں جن میں نو ﴿۹﴾ ایک طرف ہیں اور دسویں ایک طرف ہے- چنانچہ دو ہاتھ، دو پائوں، دو آنکھیں، دو کان اور ایک زبان ﴿یہ نو﴾ ایک طرف ہیں اور پیٹ ایک طرف ہے- جب پیٹ بھوکا ہو تو یہ نو ﴿۹﴾ سیر شکم ہوتی ہیں اور پیٹ طعام سے پُر ہو تو یہ نو ﴿۹﴾ بھوکی ہوتی ہیں‘‘- ﴿عین الفقر﴾

یعنی ان میں حرص اور ہوس کی بھوک اور پیاس بڑھ جاتی ہے- یہ تو خواص کی باتیں ہیں جو خواص ہی بہتر جانتے ہیں- ماہِ رمضان کو ایک عام آدمی سے جو نسبت ہے اس اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ مہینہ اسلام کی طرف سے عام مسلمانوں کے لیے ایک تربیتی ورکشاپ ہے جس کا پہلا عشرہ رحمت کا ، دوسرا عشرہ مغفرت کا اور تیسرا عشرہ جہنم سے آزادی کا ہوتا ہے- ماہِ رمضان کے فضائل پر بے شمار احادیث مبارکہ موجود ہیں لیکن مَیں یہاں اس کا ایک عبرت آموز پہلو بھی ذکر کرنا چاہتا ہوں-

ماہِ رمضان کا ایک سبق آموز پہلو یہ ہے کہ اس مہینے کی پہلی رات کو ہی شیاطین اور سرکش جنّات جکڑ دیئے جاتے ہیں جو انسان کو گیارہ ماہ تک برائیوں پر اُکساتے رہتے ہیں- یہ پہلو ایک خاص پیرائے میں درس آموز ہے کہ پہلے گیارہ ماہ تو ہم اپنے گناہوں کا بوجھ شیاطین اور سرکش جنّات پر ڈال کر خود کو بری الذمہ سمجھتے رہتے ہیں اس ماہ میں چونکہ وہ قید میں چلے جاتے ہیں اس لیے اب اس ماہ میں جو بھی گناہ ہوگا، جو بھی برائی سرزد ہوگی وہ خالصتاً آدمی کا ذاتی فعل ہوگا اس میں شیطان کا کوئی عمل دخل نہیں ہوگا اس لیے اس ماہ ہمیں اپنا یہ محاسبہ بھی کرنا ہے کہ کون کون سے افعالِ بد ہمارے ذاتی ہیں جو اس ماہ بھی ہم سے سرزد ہو رہے ہیں-

اس بابرکت ماہ میں بھی گناہوں کے سرزد ہونے کی ایک علّت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ جو انسان گیارہ ماہ تک نفس و شیطان کی صحبت میں رہتا ہو اس کے لیے ایک ماہ اگر شیاطین قید بھی کر دیئے جائیں تو اس کو کیا فرق پڑے گا کیونکہ اس کے وجود میں صحبتِ شیاطین کی تاثیر تو اسی طرح جاری ہے- شاید اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٰ وسلم نے فرمایا تھا کہ کچھ روزہ دار ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں روزے سے سوائے بھوک اور پیاس کے کچھ نہیں ملتا- گویا ایک روزہ دار اس ماہ میں بھوک اور پیاس کے علاوہ بھی بہت کچھ حاصل کر سکتا ہے- یعنی روزہ کا اصل مقصود صرف بھوکا پیاسا رہنا ہی نہیں ہے اور صرف بھوک اور پیاس ہی اصل عبادت نہیں ہے بلکہ یہ بھوک اور پیاس اس وقت عبادت کا درجہ اختیار کرتی ہے جب یہ دونوں عمل اللہ تبارک و تعالیٰ کے حکم کے تابع ہوں-

دیکھیں ہم باقی گیارہ ماہ تک اللہ کے حکم سے حرام اور ممنوعہ اشیائ سے باز رہتے ہیں اب اس ایک ماہ میں اُسی کے حکم سے حلال اشیائ اور جائز کاموں سے بھی رک جانا در اصل اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور اتباع کی معراج ہے- جسے اطاعت و اتباع کی اس معراج کا شعور نہیں اس کا یہ مہینہ بھی باقی گیارہ ماہ کی طرح ہی گزرتا ہے جو اس کی زندگی میں چند جسمانی فوائد کے علاوہ کوئی خاص تبدیلی نہیں لاتا- یہی وجہ ہے کہ جیسے ہی شوال کا چاند نظر آتا ہے تو ہماری یہ کیفیت ہو جاتی ہے کہ ہم سب نے الا ماشائ اللہ ماہِ رمضان سے کچھ سیکھا ہی نہیں- ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس پورے ماہ کی تربیت کے اثرات اگلے گیارہ ماہ تک ہمارے ظاہر و باطن پر بھی رہتے اور ہماری روحوں پر بھی لیکن ماہِ رمضان کے بعد ان اثرات کا قائم نہ رہنے کا یہی مطلب ہوگا کہ ہم اس ایک ماہ کی تربیت میں ناکام رہے ہیں-

اللہ تعالیٰ ہمیں اس بابرکت ماہ سے کما حقہ استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے ﴿اٰمین ثم اٰمین﴾

 

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر