طالبانِ دنیا، عقبی و مولیٰ : تعلیمات غوثیہ کی روشنی میں

طالبانِ دنیا، عقبی و مولیٰ : تعلیمات غوثیہ کی روشنی میں

طالبانِ دنیا، عقبی و مولیٰ : تعلیمات غوثیہ کی روشنی میں

مصنف: لئیق احمد دسمبر 2020

دِل میں کسی خاص شے کے حصول کی خواہش یا ارادہ کا نام طلب ہے؛ اور اس خاص شے کی طلب یا ارادہ رکھنے والے کو اس شے کا طالب کہا جاتا ہے-

صوفیاء کرام کی تعلیمات کے مطابق راہ سلوک و تصوف میں تین طرح کے طالب ہوتے ہیں:

1-طالبِ دنیا

2- طالبِ عقبیٰ

3- طالبِ مولیٰ

جس شخص کی زندگی کا مقصد صرف مال و دولت اور اس دنیا کی عزت و شہرت ہوتی ہے اور وہ دنیا کو ہی اپنا مطلوب و مقصود و محبوب بنا کر رکھتا ہے، صوفیاء کرام ایسے شخص کو طالبِ دنیا کہتے ہیں- ان کے وجود میں طلب دنیا اس قدر راسخ ہو جاتی ہے کہ ان کا ذکر، فکر ، عبادات و ریاضت ، چلہ کشی، ورد و وظائف کا مقصد بھی دنیاوی مال ومتاع کا حصول یا اس میں اضافہ ہی ہوتا ہے- ایسے لوگوں کے بارے میں قرآن مجید میں اللہ‎ پاک فرماتا ہے-

’’وَمَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَآ اِلَّامَتَاعُ الْغُرُوْرِo ‘‘[1]

’’اور دنیا کی زندگی دھوکے کے مال کے سوا کچھ بھی نہیں‘‘-

حضرت علی المرتضیٰ (رضی اللہ عنہ)اہل دنیا کی حقیقت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’دنیا اس خوش نما سانپ کی طرح ہے جو دیکھنے میں حسین و جمیل، چھونے میں نرم و ملائم، مگر اس کا زہر قاتل ہے- بظاہر اس میں سرور مگر باطن میں شرور ہے یعنی بظاہر خوشی ہے مگر بباطن اس میں شراور فساد ہے‘‘- [2]

دوسرا گروہ وہ ہے جن کی عبادات زہد و تقویٰ، نوافل، ذکر و اذکار کا مقصود فقط آخرت کو بہتر بنانا ہوتا ہے- ان کے نزدیک نارِ جہنم سے بچنا اور بہشت، حورو قصور اور نعمت ہائے بہشت کا حصول ہی اصل کامیابی ہے- اس گروہ کے متعلق صوفیاء کرام اپنی کتب میں متعدد احادیث و اقوال کو پیش کرتے ہیں- جس سے اس بات کو واضح کرتے ہیں کہ جنّت مومن کا انعام ضرور ہے لیکن اس کی منزل نہیں ہے- اس لئے طالب حق مرد مذکر ہوتا ہے اور طلب عقبی کو اختیار نہیں کرتا- جیسا کہ قولِ مبارکہ ہے:

’’طَاْلِبُ الْدُّنْیَا مُخَنَّثٌ وَ طَاْلِبُ الْعُقْبٰی مُؤَنَّثٌ وَ طَاْلِبُ الْمُولٰی مُذَکِّرٌ‘‘[3]

’’طالب دنیا مخنث ہے،طالب عقبیٰ مونث ہےاور طالب مولیٰ مذکر ہے‘‘-

’’مَنْ طَلَبَ الدُّنْیَا فَلَہٗ طَلَبَ الدُّنْیَاوَمَنْ طَلَبَ الْعُقْبیٰ فَلَہٗ الْعُقْبیٰ وَمَنْ طَلَبَ الْمَولیٰ فَلَہٗ اْلکُلُّ‘‘[4]

’’جو دنیا طلب کرتا ہے اُسے دنیا مِلتی ہے جو عقبیٰ (آخرت) کا طلب گار ہوتا ہے اُسے عقبیٰ ملتی ہے اور جو مولیٰ کی طلب کرتا اُسے سب کچھ ملتا ہے‘‘-

’’الدُّنْیَاحَرَامٌ عَلٰی اَھُلِ العُقْبیٰ وَالعُقْبیٰ حَرَامٌ عَلیٰ اَھُلِ الدُّنْیَاوَالدُّنْیَا وَالعُقْبیٰ حَرَامٌ عَلیٰ طَالِبُ المُوْلیٰo مَنْ لَّہٗ الْمُوْلٰی فَلَہٗ الْکُلُّ ‘‘[5]

’’دنیا اہلِ عقبیٰ پر حرام ہے- عقبیٰ اہلِ دنیا پر حرام ہے اور طالبِ مولیٰ پر دنیا و عقبیٰ دونوں حرام ہیں جسے مولیٰ مل گیا سب کچھ اسی کا ہوگیا‘‘-

اس لئے راہ تصوف میں سالک حق جنّت کا نہیں جنّت والے کا طالب ہوتا ہے-

تیسرا گروہ وہ ہے جن کی عبادات، زہد و ریاضت کا مقصود و مطلوب صرف اللہ‎ پاک کی رضا و خوشنودی، اس  کے انوار و تجلیات کا مشاہدہ اور اللہ‎ رب العزت کا قُرب و وصال ہوتا ہے- یہ نہ تو دنیائے پلید کے طالب ہوتے ہیں اور نہ ہی جنّت کی نعمتوں کے خوائش مند- یہ ہر وقت اللہ پاک کی ملاقات کے متمنی و مشتاق رہتے ہیں-

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے طلبِ مولیٰ کے بارے میں فرما یا ہے:

’’مَنْ طَلَبَ شَئْیئً فَلَا تَجِدْہُ خَیْرًا وَّمَنْ طَلَبَ الْمُولٰی فَلَہُ الْکُلّ ‘‘[6]

’’جو شخص کسی چیز کی طلب کرتا ہے وہ اس میں کبھی بھلائی نہیں پاتا اور جو شخص مولیٰ کی طلب کرتا ہے اُس کے لئے سب کچھ ہے‘‘-

حضرت سلطان باھُو (رضی اللہ عنہ)اس مقام پر فرماتے ہیں:

باجھ وصال اللہ دے باهو سب کہانیاں قصے ھو

طالبانِ دنیا، عقبی و مولیٰ تعلیمات غوثیہ کی روشنی میں:

اہل تصوف و طریقت میں سیدی مرشدی محی الدین پیرانِ پیر شیخ عبد القادر الجیلانی البغدادی (رضی اللہ عنہ) کی شخصیت نمایاں حیثیت رکھتی ہے- مقامِ ولایت میں آپ کی حیثیت مثلِ آفتاب ہے-آپ(رضی اللہ عنہ) سے بکثرت سلاسلِ تصوف نے اکتساب فیض کیا-

پؓ نے اپنی تعلیمات میں ہمیشہ طالبِ مولیٰ بننے کی تلقین فرمائی ہے-آپؓ کی تعلیمات میں کثرت سے تین گروہوں کا ذکر ملتا ہے جس میں اہل دنیا و اہل آخرت کو آپ ہدفِ تنقید بناتے ہیں اور طالبان مولیٰ کو ہی کامیاب گروہ قرار دیتے ہیں- زیرِ نظر مضمون میں ناچیز نے اس موضوع کے پیشِ نظر صرف سید شیخ عبدالقادر جیلانی (رضی اللہ عنہ) کے مواعظ پر مبنی مجموعہ تصنیف مبارکہ ’’الفتح الربانی‘‘ کے اقتباسات کو جمع کیا ہے، جو پیش خدمت ہیں-

’’دنیا ایک قوم کیلیے ہے اور آخرت ایک قوم کیلیے ہے اور حق عزوجل ایک قوم کے لیے‘‘-[7]

’’دنیا و آخرت کا طالب نہیں ہو ں، مَیں دنیا و آخرت اور ما سوى اللہ کی بندگی و عبادت نہیں کرتا ہوں مَیں تو سوا اللہ تعالیٰ کے جو کہ خالق یکتا و یگانہ قدیم ہے کسی کی عبادت نہیں کرتا‘‘-[8]

’’اے بیٹےدنیا و آخرت کو ملا کر تو ان دونوں کو ایک جگہ کر دے اور تو دنیا و آخرت سے خالی ہو کر اپنے مولیٰ عزوجل کے ساتھ تنہائی اختیار کر اور خلوت گزیں بن -اللہ کی طرف بغیر اُس کے کہ تو اُس کے ماسوا سے علیحدہ ہو جائے متوجہ نہ ہو- خالق سے بے پرواہ ہو کر مخلوق میں گرفتار نہ ہو جا ان سب اسباب سے قطع تعلق کر لے اور ان سب ارباب کو چھوڑ دے- پس جب تو اس پر قُدرت پا لے، پس دنیا کو اپنے نفس کے لیے اور آخرت کے لیے اپنے قلب کو اور مولا تعالیٰ کو اپنے باطن کے لیے اختیار کرلے‘‘-[9]

’’اپنے اعمال کا بدلہ مت مانگ- فی الجملہ بہ مقابلہ مولیٰ تعالیٰ کے دنیا و آخرت اور ماسوا اللہ کیا چیز ہے سب ہیچ ہے کچھ بھی نہیں تو منعم کو طلب کر - نعمت کی خواہش نہ کر‘‘-[10]

’’ہر وہ دل جس میں دنیا کی محبت ہے وہ الله سے محجوب ہے اور ہر قلب جس میں آخرت کی محبت ہے پس وہ الله کے قرب سے محجوب ہے جس قدر تجھے دنیا میں رغبت ہو گی اُسی قدر آخرت میں تیری رغبت کم ہوجائے گی اور جس قدر تیری رغبت آخرت میں ہوگی اُسی اندازہ سے تیری محبت حق عزوجل کے ساتھ کم ہو جائے گی‘‘[11]

’’پس جب غیرت الٰہی آتی ہےتو غیرت الٰہی ان لوگوں اور آخرت کے درمیان حائل ہو جاتی ہے اور تکوین آخرت کے قائم مقام کر دی جاتی ہے - پس اس مقام پر پہنچ کر یہ طالبانِ حق نہ دنیا کے حاجت مند رہتے ہیں نہ آخرت کے‘‘-[12]

’’اہل اللہ اللہ عزّوجل سے دنیا میں افلاس کے ساتھ راضی ہوگئے اور آخرت میں ان کی رضا مندی قربِ الٰہی کے ساتھ ہوگی وہ اللہ عزّوجل سے سوا کسی کو طلب نہیں کرتے انہوں نے یہ جان لیا ہے کہ دنیا تقسیم کی جا چکی ہے لہٰذا انہوں نے دنیا کی طلب کو چھوڑ دیا اور انہوں نے جان لیا کہ درجات آخرت کے اور جنت کی نعمتیں بھی تقسیم کی جاچکی ہیں لہٰذا انہوں نے اس کی طلب اور اس کے لئے عمل کو بھی چھوڑ دیا ہے وہ خدا کی ذات کے سوا کسی چیز کو نہیں چاہتے‘‘-[13]

’’اولياء اللہ کی جنت قرب الٰہی ہے اور ان کی دوزخ خدا سے دوری ہے وہ سوائے اس جنت کے کسی شے کی امیدواری نہیں کرتے اور نہ وہ اس دوزخ کے سوا کسی آگ سے ڈرتے ہیں ہر وقت وہ قربِ الٰہی کے طالب رہتے ہیں، ان کے پاس کھوٹ ہی کیا ہے جو دوزخ سے ڈریں دوزخ تو خود مومن سے فریاد رسی کرتی ہے اور اس سے بھاگتی ہے پھر بھلا وہ محبین مقریبین و مخلصین سے کیسے نہ بھاگے گی‘‘-[14]

’’لہٰذا مسلمان دنیا کو نہ اپنے قلب کا قرار و ٹھہراؤ بناتا ہے اور نہ گھر زاں بعد وہ مرد مومن ایک درجہ اور ترقی کرتا ہے اور اس کی مضبوطی قوت پکڑتی ہے پس وہ اپنے حق عزوجل کو پہچان لیتا ہے- پس وہ آخرت کو بھی اپنے قلب کا قرار و ٹھہراؤ نہیں بناتا بلکہ وہ دنیا و آخرت میں صرف خدا کے قرب کو اپنے لئے ٹھہراؤ دیتا ہے‘‘-[15]

 پھر آخرت کو طلب کر پھر آخرت کو چھوڑ اور قرب مولیٰ کی طلب کر اور خلق کو چھوڑ پھر خالق کی طرف لوٹ-[16]

’’اگر دنیا مطلوب ہے قلب سے آخرت کو نکال دے اور اگر آخرت مطلوب ہے تو قلب سے دنیا کو نکال ڈال اور اگر مولیٰ تعالیٰ تیرا مقصود ہے پس تو دنیا و آخرت کو ماسویٰ اللہ سب کو اپنے قلب سے نکال دے کیونکہ جب تک تیرے قلب میں ایک ذرہ بھی ماسوائے اللہ کا ہوگا تو اپنے پاس قرب الٰہی کو نہ دیکھ سکے گا‘‘-[17]

’’ہر وہ کلمہ جو میں بولتا ہوں اس سے میرا مقصود اللہ عزوجل ہی ہوتا ہے- مجھے دنیا و آخرت و اس چیز سے جو کہ ان دونوں میں ہے کچھ غرض نہیں- اللہ عزوجل میری سچائی کو جانتا ہے کیونکہ وہ تمام غیبوں کا جاننے والا ہے میری طرف بڑھو آؤ- میں کسوٹی ہوں‘‘-[18]

’’تجھ پر افسوس ہے آخرت اس کے ساتھ جمع نہیں ہو سکتی کیونکہ آخرت دنیا کو جو کہ خادمہ کی مانند ہے پسند نہیں کرتی ہے تو دنیا کو اپنے قلب سے نکال دے پھر دیکھ کے تجھے آخرت کیسے ملتی ہے تیری طرف کیسے آتی ہے اور کیسے تیرے قلب پر غلبہ کرتی ہے پس جب تیری حالت ایسی ہوجائے گی تجھے قربِ الٰہی آواز دے گا- پس اس وقت تو آخرت کو چھوڑ دینا اور مولیٰ کو طلب کرنا وہیں پر تیرے قلب کی تندرستی اور باطن کی صفائی کامل ہوجائے گی- اللہم ارزقنا‘‘-[19]

’’مسلمان دنیا میں غریب ہے اور زاہد آخرت میں اور عارف زاہد ماسوی اللہ میں مسلمان دنیا میں ایک قیدی ہے اگرچہ دنیا میں اس کو وسعت رزق وفراخی مکان و کثرت اہل ہواہے- اہل و عیال اس کے مال و مرتبہ میں ہر طرح اکڑتے پھرتے خوش ہوتے ہیں اور اس کے اردگرد ہنستے پھرتے ہیں لیکن وہ باطنی قیدخانہ میں رہتا  ہے اس کی بشاشت و خوشی محض چیرہ پر ہوتی ہے اور غم اس کے قلب میں رہتا ہے اس کی حقیقت کو پہچان کر دنیا کو اپنے قلب سے طلاق دے دی ہے-اولا اس نے دنیا کو ایک طلاق رجعی دی کیونکہ اس کو خوف تھا کہ کہیں اغیار ارادہ کو پلٹ نہ دیں پس اس حال میں تھا کہ آخرت نے اس پر اپنا دروازہ کھول دیا اور اس کے چہرہ کی چمک دمک کی بجلی اس پر ظاہر ہوئی اس وقت اس نے دنیا کو دوسری طلاق دے دی بعدہ آخرت اس کے پاس آ کر اس کے گلے سے لپٹ گئی اس نے دنیا کو تیسری طلاق دے دی اور کلیة اس نے آخرت کا ساتھ پکڑ لیا بعده وہ اسی حالت میں تھا کہ ناگاه اس پر قرب الٰہی کی بجلی چمکی قرب مولیٰ کا لون چمکا پس اس نے آخرت کو بھی طلاق دے دی، قرب الٰہی کے مزے لوٹنے لگا دنیا نے سوال کیا تم نے مجھے کیوں طلاق دی؟ جواب دیا کہ میں نے تجھ سے اچھی چیز دیکھ لی تھی؟ پھر آخرت نے طلاق کی وجہ دریافت کی؟ جواب دیا کیونکہ تو تو پیدا ہی خدا کی بنائی ہوئی صورت  پہ ہے، تیرا وجود اسی سے ہے لیکن  تُو جب غیر خدا حادث ہے بس تجھے کیسے طلاق نہ دے دیتا پس اس وقت بندہ مومن کو معرفت الٰہی متحقق ہو گئی اور وہ ماسوی اللہ سے آزاد اور دنیا و آخرت میں غریب ہو گیا اور ہر ایک سے غائب اور ہر چیز سے محو و فنا ہو گیا‘‘-[20]

 ’’پس تو منصوعات سے منہ پھیر کر اسی طرف مشغول ہوجائے گا تو اسی کی راہ ڈھونڈ اور اسی کو طلب کر اور دنیا و آخرت کو چھوڑ دے جو کچھ ان دونوں سے تیرے لیے مقدر ہوچکا ہے وہ تجھے ملے گا اور ضائع نہ ہوگا تیرا ماسوی اللہ کو چھوڑ دینا تیرے قلب کو کدورتوں سے صاف کر دے گا‘‘-[21]

’’ کیا تو یہ نہیں جانتا کہ تیرا مقصود وہ ہے جو تجھے غم میں ڈالتا ہے اور تحقیق تو اس کا بندہ ہے جس کے ہاتھ میں تیری لگام ہے- بس اگر تیری لگام دنیا کے ہاتھ میں ہو تو اس کا بندہ ہے اور اگر تیری لگام آخرت کے ہاتھ میں ہو تو توُ اس کا بندہ ہے اور اگر تیری لگام خدا کے ہاتھ میں ہو پس تو اس کا بندہ ہے‘‘-[22]

’’جب تو خلق کے لئے علم سیکھے گا تو تیرا عمل خلق کے لئے ہوگا اور جب تو علم اللہ کے واسطے سیکھے گا تو تیرا عمل خدا کے لئے ہوگا- جب تو علم دنیا کے لئے سیکھے گا تو تیرا عمل دنیا کے لئے ہوگا اور جب تو علم آخرت کے لئے سیکھے گا تو تیرا عمل آخرت کے لئے ہوگا- شاخوں کی بنیاد جڑوں پر ہوا کرتی ہیں- جیسا تو کرے گا ویسا بدلا پائے گا- ہر برتن سے وہی ٹپکے گا جو کہ اس کے اندر ہوگا‘‘-[23]

’’اللہ تعالیٰ نے ان سے یوں نہ فرمایا کہ تم دنیا طلب کرو اور نہ یہ فرمایا کہ تم آخرت طلب کرو گویا ہر مرتبہ یہی ارشاد ہوتا تھا کہ میں تم کو اپنی اطاعت کرنے اور نافرمانی کے چھوڑ دینے کی وصیت کرتا ہوں میں اپنے قرب کے طلب کرنے کی اور اپنی توحید اور اپنے لئے عمل کرنے کی تم کو وصیت کرتا ہوں اور میں تم کو اپنے ماسوا سے روگردانی کی وصیت کرتا ہوں- جب قلب صحیح ہوجاتا ہے اور وہ حق عزوجل کو پہچان لیتا ہے تو وہ غیر اللہ کو برا سمجھتا ہے اس کے ساتھ انس پکڑ لیتا ہے اور غیر اللہ سے متوحش ہوجاتا ہے اور خدا کی معیت میں راحت پاتا ہے اور اس کے غیر کی معیت میں تکلیف اٹھاتا ہے- اے اللہ تو میرا گواہ رہ کہ میں تیرے بندوں کی نصیحت کرنے میں مبالغہ کرنے میں ان کی اصلاح و بھلائی میں کوشش کرنے والا ہوں‘‘-[24]

’’جب تک کہ تو خلق کے ساتھ رہے گا خالق کو نہیں دیکھ سکے گا- جب تک کہ تو دنیا کے ساتھ رہے گا،آخرت کو نہ دیکھ سکے گا جب تک کہ تو آخرت کے ساتھ رہے گا تو دنیا و آخرت کے رب کو نہ دیکھ سکے گا‘‘-[25]

’’جو اللہ عزوجل کو پہچان لیتا ہے اس کے قلب سے دنیا و آخرت اور ما سوائے اللہ سب غائب ہو جاتے ہیں‘‘-[26]

محبوبان الٰہی نہ دنیا میں کھاتے ہیں اور نہ آخرت میں کھائیں گے ان کا کھانا اور پینا پروردگار عالم جل جلالہ سے ان کا قرب و انس اور اسی کی طرف دیکھتے رہنا ہے- انہوں نے دنیا کو آخرت کے بدلے بعدہ آخرت کو قرب رب تعالیٰ سے جو کہ دنیا و آخرت کا مالک ہے فروخت کردیا ہے جو لوگ محبت الٰہی میں سچے ہیں انہوں نے دنیا و آخرت کو خدا کے واسطے فروخت کردیاہے- اور اسی کو چاہتے ہیں ، غیر سے انہیں تعلق ہی نہیں-[27]

’’تیرا باطن كلية خالى ہو جائے- محض بر ہنر بغیر دنیا و بلا آخرت اور بغیر ما سوائے اللہ کے ہو جاوے اس میں اللہ کے سوا کجھ بھی نہ رہے اور یہی راستہ اگلے انبیاء و مرسلین (علیھم السلام) کا اور اولیاء و صالحین (رحمتہ اللہ علیھم) کا رہا ہے‘‘-[28]

تعلیماتِ غوثیہ (رضی اللہ عنہ)اس پُر فتن دور میں متلاشیانِ حق کیلئے تاریک رات میں ایک جگمگاتی شمع کی مثل ہے اور انہیں حق تعالیٰ کی بارگاہ کی معیت عطا کرتی ہے جو سیدی غوث الاعظم (رضی اللہ عنہ)کو میراں مانتے ہیں، ان کی ذمہ داری ہے کہ تعلیماتِ غوثیہ کا مطالعہ کریں اور اپنی طلب، خواہش اور آرزو کو قرآن و سنت کے عین مطابق ڈھالیں-

اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو طلبِ صدق اور صدقِ طلب عطا فرمائے- آمین!

٭٭٭


[1](آلِ عمران:185)

[2](تفسیر نعیمی ، ج: 4، ص:395)

[3]( عین الفقر)

[4](اسرارِ القادری)

[5](شمس العارفین)

[6]( عین الفقر)

[7]( الفتح الربانی ،ص:129)

[8](ایضاً،ص:131)

[9](ایضاً، ص: 84)

[10](ایضاً، ص: 114)

[11](ایضاً، ص: 149)

[12](ایضاً، ص: 87)

[13](ایضاً، ص: 235)

[14](ایضاً، ص: 259-260)

[15](ایضاً، ص: 319-320)

[16](ایضاً، ص: 338)

[17](ایضاً)

[18](ایضاً، ص: 340)

[19](ایضاً، ص: 344-345)

[20](ایضاً، ص: 396)

[21](ایضاً، ص: 302)

[22](ایضاً، ص: 462)

[23](ایضاً، ص: 583)

[24](ایضاً، ص: 565)

[25](ایضاً، ص: 581)

[26](ایضاً، ص: 498)

[27](ایضاً، ص: 480)

[28](ایضاً، ص: 497)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر