زبدۃ الاسرار ( از: شیخ محقق شاہ عبدالحق محدثِ دہلوی) قسط 06

زبدۃ الاسرار ( از: شیخ محقق شاہ عبدالحق محدثِ دہلوی) قسط 06

زبدۃ الاسرار ( از: شیخ محقق شاہ عبدالحق محدثِ دہلوی) قسط 06

مصنف: مترجم : ایس ایچ قادری جنوری 2016

سیّدنا شیخ غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نسَب اور اَوصاف کا تذکرہ    :

آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ غوث الاعظم، شیخ شیوخ العالَم، سیّد السادات، شیخ الاسلام، الشیخ محی الدین ابو محمد عبد القادر بن ابو صالح موسیٰ بن ابو عبد اللہ بن یحییٰ الزاھد بن محمد بن دائود بن موسیٰ بن عبد اللہ بن موسیٰ الجون بن عبد اللہ المحض، جنہیں المجل بھی کہا گیا، بن الحسن المثنیٰ بن الحسن بن علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین، حضرت ابو عبد اللہ الصومعی الزاہد کے نواسے ہیں- ﴿۱

انہی ﴿حضرت ابو عبد اللہ الصومعی رحمۃ اللہ علیہ﴾ کی وجہ سے جیلان بھی معروف تھا-

شیخ غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ﴿جِیْل﴾ کی طرف منسوب ہیں- ﴿اس لفظ کے﴾ جیم کے نیچے زیر ہے اور یائ ساکن ہے- یہ طبرستان سے قریب مختلف شہروں پر مشتمل علاقہ ہے اسی کے ایک قصبہ ﴿نیف﴾ میں آپ کی وِلادت با سعادت ہوئی- اس علاقہ کو ﴿جیلان﴾ اور ﴿گیلان﴾ بھی کہا جاتا ہے - بغداد سے ایک دن کی مسافت پر درمیانی راستے کے جو علاقے ہیں ان میں سے دجلہ کے کنارے ﴿گیل﴾ نامی بستی بھی ہے- اس کو ﴿جیل العجم﴾ بھی کہا جاتا ہے- یہی وجہ ہے کہ ﴿گیل العجم﴾ اور ﴿گیل العراق﴾ کہا جاتا ہے- مدائن میں بھی ﴿الجیل﴾ نامی بستی ہے-

یہ بھی روایت ہے کہ جیلانی ﴿کا لقب﴾ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نانا ﴿کے علاقے﴾ جیلان کی طرف منسوب ہے- ابو عبد اللہ الصومعی رحمۃ اللہ علیہ جیلان کے بزرگ مشائخ اور ان کے سردار زاہدین میں سے تھے- ان کے احوال و کرامات عالی شان اور بلند مرتبہ تھیں- انہوں نے عراق العجم کے کئی عظیم مشائخ سے ملاقات کی- ان کی ہر دعا قبول ہوتی تھی اور کسی بھی معاملہ کے واقع ہونے سے پہلے اس کی خبر دے دیتے اور وہ ﴿معاملہ﴾ اسی طرح وقوع پذیر ہوتا تھا جیسا آپ بتاتے - بعض مشائخ نے ان کی کئی حکایات روایت کی ہیں-

آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی والدہ محترمہ ام الخیر ، امۃ الجبار حضرت فاطمہ بنت ابو عبد اللہ الصومعی ﴿رحمۃ اللہ علیہما﴾ ہیں جو بہت باعثِ خیر و نیکی تھیں- صاحبِ شرف شیخ ابو محمد عبد اللطیف بن شیخ القدوۃ ابو النجیب عبد القاہر السہروردی نے مشائخ سے روایت کرتے ہوئے خبر دی ہے، انہوں نے فرمایا:-

’’شیخ عبد القادر ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کی والدہ محترمہ ام الخیر، امۃ الجبار حضرت فاطمہ ﴿رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہا﴾ کو اس معاملہ ﴿وِلایت﴾ میں اوّلیت حاصل تھی- ہم آپ رحمۃ اللہ علیہا کو کئی بار یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب میں نے اپنے بیٹے عبد القادر کو جَنا تو ﴿ماہِ﴾ رمضان کے دنوں میں یہ دودھ نہیں پیتا تھا- ﴿ایک مرتبہ﴾ لوگوں کو رمضان کے چاند میں شک پڑ گیا تو وہ میرے پاس ﴿تصدیق کے لیے﴾ آئے اور اس کے بارے مجھ سے پوچھا، میں نے انہیں کہا کہ اس ﴿میرے لختِ جگر عبد القادر﴾ نے آج دودھ نہیں پیا- پس واضح ہوگیا کہ یہ دن رمضان کا پہلا دن تھا- اس دور میں ہمارے شہروں میں یہ مشہور ہو گیا کہ معززین کے ہاں ایک ایسا بچہ پیدا ہوا ہے جو رمضان کے دنوں میں دودھ نہیں پیتا- ‘‘

آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بھائی ابو احمد عبد اللہ عمر میں آپ سے چھوٹے تھے- انہوں نے ﴿بھی﴾ علم و بھلائی میں بڑی اچھی پرورش پائی- وہ جوانی میں ہی جیلان میں وفات پا گئے- آپ کی پھوپھی الشیخہ الصالحہ اُمِّ محمد، حضرت عائشہ ﴿رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہا﴾ ظاہری کرامات والی تھیں- روایت کیا گیا ہے کہ

’’ایک مرتبہ جیلان میں خشک سالی آگئی اور لوگوں نے بارش کی دعائیں مانگیں لیکن بارش نہ ہوئی تو مشائخ حضرت شیخ عبد القادر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پھوپھی الشیخۃ اُمِّ محمد حضرت عائشہ ﴿رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہا﴾ کے پاس حاضر ہوئے اور ان سے بارش کی التجا کی- آپ اپنے گھر کے صحن میں تشریف فرما ہوئیں اور زمین پر جھاڑو دیا اور عرض گذار ہوئیں کہ ﴿یَا رَبِّ اَنَا کَنَسْتُ فَرْشَ اَنْتَ﴾ ’’اے میرے رب! میں نے تیرے فرش پر جھاڑو دے دیا ہے- ‘‘ تھوڑی ہی دیر گزری کہ آسمان سے بارش ہونے لگی اور مشکوں کے مونہہ بھر گئے وہ سب پانی میںبھیگ کر اپنے گھروں کو لوٹے- ‘‘

انہوں نے بھی بڑی عمر پائی اور جیلان میں ان کا وصال ہوا-

﴿آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے﴾ سابقہ نسب میں ﴿اَلْجَوْن﴾ کا لفظ حضرت موسیٰ کا لقب ہے- یہ ﴿لفظ﴾ اسمائے اضداد میں سے ہے جو سفید پر بھی بولا جاتا ہے اور سیاہ پر بھی- اس ﴿لفظ﴾ کا بہت زیادہ استعمال ہے اور یہاں یہی مراد ہے کیونکہ حضرت موسیٰ ﴿رحمۃ اللہ علیہ﴾ کا رنگ گندمی تھا- آپ کی والدہ نے ساٹھ سال کی عمر میں آپ کو جنا- کہا جاتا ہے کہ ساٹھ سال کی عمر میں کوئی قریشی عورت ہی بچہ جَن سکتی ہے اور پچاس سال کی عمر میں کوئی عربی خاتون-

نسب میں ﴿اَلْمَحْض﴾ حضرت عبد اللہ کا لقب ہے اور اس کا مطلب ہر چیز سے خالص ہے- حضرت عبد اللہ کا لقب ﴿المحض﴾ اس لیے رکھا گیا کہ آپ کے والد الحسن بن الحسن بن علی اور آپ کی والدہ فاطمہ بنت الحسین بن علی ہے پس آپ کا نسب اپنے والد اور والدہ ﴿دونوں﴾ کی جانب سے کسی ﴿غیر سیّد﴾ کی شرکت نہ ہونے کی وجہ سے خالص ہے اور اس کی انتہائ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم تک ہے- جس نے آپ کا لقب ﴿اَلْمُجَل﴾ رکھا ہے تو یہ ﴿اَلْاِجْلَالْ﴾ سے اسمِ مفعول کا لفظ ہے ﴿جس کا مطلب عیبوں سے پاک ، صاحب عظمت ہے﴾- اس نسب میں حضرت الحسن کا لقب ﴿اَلْمُثَنّٰی﴾ اس وجہ سے ہے کہ آپ حسن بن الحسن ﴿بن علی المرتضیٰ﴾ ہیں- یہ اسم ﴿تَثْنِیَہْ﴾ سے اسم مفعول ہے گویا آپ حَسنِ ثانی ہیں- رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین-

راویوں نے کہا کہ شیخ عبد القادر رضی اللہ تعالیٰ عنہ علمائ کرام والا لباس پہنتے اور طیلسان ﴿۲﴾ اوڑھتے تھے، خچر پر سواری فرماتے تھے- آپ کے سامنے پردہ لٹکایا جاتا تھا- آپ ایک بلند کرسی پر ﴿لوگوں سے﴾ مخاطب ہوتے تھے- آپ کی آواز میں تیزی اور بلندی تھی- جب آپ گفتگو فرماتے تو خاموشی ہو جاتی اور جب آپ حکم دیتے تو اس حکم کی فورا تعمیل ہوتی- جب کوئی سخت دل آپ کی زیارت کرتا تو عاجز ہو جاتا- جب آپ زیارت کے لیے تشریف لاتے تو تمام لوگ دیدار کرتے- جب آپ جامع مسجد تشریف لے جاتے تو لوگ گلیوں میں کھڑے ہو جاتے اور آپ کے وسیلہ سے اللہ تعالیٰ سے اپنی ضروریات طلب کرتے- آپ کی شہرتِ عظیمہ ہر سمت پھیلی ہوئی تھی-

’’﴿ایک مرتبہ﴾ جمعہ کے دن جامع مسجد میں آپ کو چھینک آئی تو لوگوں نے آپ کی چھینک کا جواب دیا یہاں تک کہ ایک شور اٹھا جس میں لوگ کہہ رہے تھے کہ ﴿یَرْحَمُکَ اللّٰہُ وَ یَرْحَمُ بِکَ﴾ اللہ تعالیٰ آپ پر ﴿اپنی﴾ رحمت ﴿مزید﴾ نازل فرمائے اور آپ کے سبب ﴿ہم پر﴾ رحمت فرمائے- ﴿اس وقت کا﴾ خلیفہ المستنجد باللہ مسجد کے احاطہ میں موجود تھا اس نے پوچھا یہ کیسا شور ہے؟ اسے بتایا گیا کہ شیخ عبد القادر کو چھینک آئی ہے- اس بات نے اسے خوفزدہ کر دیا-‘‘ ﴿۳

آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہت زیادہ رُعبدار تھے- جب آپ کسی پر نظر ڈالتے تو وہ آپ کی ہیبت سے کانپنے کے قریب ہو جاتا اور بعض اوقات کانپنے لگ جاتا- جب آپ تشریف فرما ہوتے تو مریدین آپ کے گرد ایسے حلقہ بنا کر بیٹھتے گویا کہ وہ شیر کو دیکھ کر اس کی ہیبت سے سہمے ہوئے بیٹھے ہیں- ان سے زیادہ آپ کے حکم کی فرمانبرداری میں جلدی کرنے والا کسی کو نہیں دیکھا گیا اور آسانی سے آپ کی تابعداری کرنے والا بھی ان سے زیادہ کوئی نہ تھا-

سیّدنا شیخ غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا حُلیہ مبارک:-

آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جسم مبارک نحیف تھا، قد درمیانہ ، چوڑا سینہ، گھنی داڑھی جس کی لمبائی سیدھی تھی، ابرو ملے ہوئے- آپ کی آواز بلند، آپ کی ہیئت انتہائی خوبصورت تھی- آپ بلند وقار اور وسیع علم والے تھے- آپ کی لوگوں سے وعظ کرنے کی مدت چالیس سال ہے- آپ تینتیس سال صدر مدرس اور صدر مفتی رہے-

سیّدنا شیخ غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اِبتدائی اَحوال:-

آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وِلادت ﴿با سعادت﴾ ۰۷۴ھ یا ۱۷۴ھ میں جیلان میں ہوئی اور وفات ۱۶۵ھ میں ﴿۰۹ یا ۱۹ سال کی عمر میں﴾ ہوئی- آپ بغداد میں ۸۸۴ھ میں تشریف لائے ﴿اس وقت﴾ آپ کی عمر ﴿مبارک﴾ اٹھارہ سال تھی- آپ نے ابتدائ و انتہائ کے ﴿تمام﴾ علوم کی تحصیل میں انتہائی سخت جد وجہد فرمائی- آپ نے بزرگ مشائخ ﴿اور﴾ ہدایت کے پرچم، اُمّت کے علمائ کی طرف ﴿حصولِ علم کی خاطر﴾ تشریف لے گئے- قرآن عظیم میں اس قدر مشغول ہوئے کہ اسے اچھی طرح سمجھ لیا اور اس کے ظاہری و باطنی تمام علوم تک رسائی حاصل کی- آپ نے فقہ کے مسالک اور اختلافی مسائل کے ساتھ ساتھ اس کی فروعات و اصول سیکھے- نامور محدثین سے حدیث کی سماعت فرمائی- تمام علوم کو اکٹھا کیا یہاں تک کہ سب میں فوقیت حاصل کر گئے-

پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مخلوق ﴿کی بھلائی﴾ کے لیے ظاہر ﴿ہونے کا حکم﴾ فرمایا اور ہر خاص و عام میں آپ کی بہت بڑی مقبولیت رکھی- اللہ تعالیٰ نے آپ کے دل کی حکمت کو آپ کی زبان پر ظاہر فرمایا- اللہ تعالیٰ کی جانب سے آپ کی قدرت کی علامات ، آپ کی وِلایت کی نشانیاں عیاں ہوگئیں- مجاہدہ میں راسخ قدم، ہوا و ہوس کے اسباب سے خالص پاکیزگی، مخلوق سے دائمی ﴿قلبی﴾ قطع تعلقی، اللہ تعالیٰ کی طلب میں مصائب و آلام پر صبرِ جمیل کے ساتھ آپ کی تخصیص کے شواہد منظرِ عام پر آگئے-

سیّدنا شیخ غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مشاغل:-

آج جو مدرسہ آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾کی طرف منسوب ہے اس میں فتویٰ نویسی اور تدریس کی صدارت فرمائی اور اس میں وعظ فرمایا- آپ نے زیارات بھی فرمائیں اور نذریں بھی پوری کیں- علمائ ، فقہائ اور صالحین کا ایک جمِ غفیر آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کی خدمت میں جمع ہو گیا جنہوں نے آپ کے کلام اور آپ کی صحبت سے فائدہ اٹھایا- کتنا اچھا وہ صحبت اختیار کرنے والا ہے اور کتنا اچھا وہ جس کی صحبت میں بیٹھا گیا ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾- پورے آفاق سے علم کے متلاشی آپ کے پاس حاضر ہوئے- عراق میں مریدین کی انتہائی توبہ ﴿رجوع الی اللہ﴾ کا ذریعہ آپ کی بارگاہ تھی- آپ کے پاس علوم کی اس قدر کثرت تھی کہ آپ کا طالبِ علم کسی اور کی طرف جانے کا ارادہ ہی نہیں کرتا تھا- ﴿۴

آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ اپنے مدرسہ میں تفسیر کا درس ارشاد فرماتے، علومِ حدیث پڑھاتے، فقہی مسالک اور اختلافی مسائل بھی سکھاتے تھے- صبح شام آپ کو تفسیر، علومِ حدیث، فقہی مسالک، اختلافی مسائل، علمِ اُصول ﴿اُصولِ تفسیر، اُصولِ حدیث، اُصولِ فقہ﴾ اور علم النحو ﴿عربی گرائمر﴾ پڑھ کر سنائے جاتے- ظہر کے بعد آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ قرآن پاک کا قرات ﴿تجوید﴾ کے ساتھ درس دیتے تھے- حقائق کی کنجیاں آپ کو عطا کی گئیں- علومِ معرفت کی تمام ڈوریاں آپ کے سپرد کی گئیں- بطورِ علم و حلم آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ ﴾ کو ان علوم کی سرداری عطا ہوئی- پس آپ علمی اور حکمی طور پر وقت کے قطب ﴿الاقطاب﴾ ہو گئے- آپ نے اصل و فروعات میں علم کی بنیاد پر دلیل قائم فرمائی، عقلی اور روایتی علوم کو واضح کیا- آپ حق کے لیے قولی اور عملی طور پر مدد کرنے میں کامیاب و کامران ہوئے-

آپ نے مفید کتابیں لکھیں، منفرد فائدہ مند باتیں لکھوائیں- آپ کی شہرت آفاق میں پھیل گئی، ﴿لوگوں کی﴾ گردنیں آپ کی جانب جھک گئیں، آنکھوں نے آپ کی مجلس کے باغوں میں سیر و تفریح کی اور زبانوں نے آپ کے منفرد و بے مثال اَوصاف کا طرح طرح سے اظہارِ خیال کیا- کوئی وصف کرنے والا وہ ہے جس کے لیے آپ دو بیان اور دو زبانیں بولنے والے ہیں ﴿یعنی فارسی و عربی﴾، کوئی تعریف کرنے والا وہ ہے جس کے لیے آپ دو عمدہ کنارے اور دو اطراف والے ہیں ﴿یعنی ظاہر و باطن﴾، کوئی لقب دینے والا وہ ہے جس کے لیے آپ دو دلیلیں اور دو حجتیں رکھنے والے ہیں ﴿یعنی علمِ ظاہر کی بھی اور علمِ باطن کی بھی﴾، کوئی دعوت دینے والا وہ ہے جس کے لیے آپ دو فریقوں اور دو طریقوں کے امام ہیں ﴿یعنی مقتدیانِ ظاہری و باطنی﴾ اور کوئی نام دینے والا وہ ہے جس کے لیے آپ مشرق و مغرب کے قطب اور جن و انس کے غوث ﴿مددگار﴾ ہیں- یہی وجہ ہے کہ بے حد و بے شمار علمائ ﴿کرام﴾ اور اَولیائ ﴿عظام﴾ کی آپ سے نسبت قائم ہوئی اور انہوں نے آپ کی شاگردی اختیار کی-

’’بہجۃ الاسرار‘‘ کے مصنف نے مشائخ، علمائ، فقہائ اور اَولیائ کی بہت بڑی تعداد کا ذکر کیا ہے اور فرمایا کہ وہ تمام قادری ہیں جو آپ ﴿شیخ غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کی شان کی تعظیم کرتے ہیں، آپ کی بلند قدر و منزلت اور کامل فیض کا اقرار کرتے ہیں - وہ ﴿تمام﴾ آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کا شدت سے آداب بجا لانے والے، آپ کی عظمت کا یقین رکھنے والے، آپ کی محبت کو اپنے سینوں میں پالنے والے، آپ کے مناقب کو ظاہر کرنے والے اور طریقت میں آپ کی اتباع کو ﴿اپنے اوپر﴾ لازم کرنے والے ہیں-

بہت بڑے فقیہ و قاری اور ولی ٔکامل حضرت شیخ امام ابو محمد ابراھیم بن محمود البطائحی سے ﴿ایک روایت﴾ منقول ہے کہ انہوں نے مشائخ کے تذکرے کے دوران فرمایا:-

’’اللہ کے رسولﷺ اور آپ کے صحابہ کے بعد میرے شیخ ، اللہ عزوجل کی طرف ﴿رجوع میں﴾ میرے پیشوا اور آئیڈیل الشیخ محی الدین عبد القادر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں-‘‘

 

شیخ و رہبر ابو الفرح عبد الملک بن الشیخ الامام ابو عبد الملک ذیّال بن ابو المعالی ’یہ ﴿بھی﴾ زاہدین، محدثین اور فقہائ کے امام تھے-‘ سے روایت کرتے ہوئے خبر دی:-

’’ایک دن وہ علمائ کرام سے بھری مجلس میں تشریف فرما تھے- محفل میں الشیخ و رہنما حضرت شہاب الدین عمر سہروردی ، قاضی القضاۃ ﴿چیف جسٹس﴾ جمال الدین ابو الحسن یوسف بن رافع بنی تمیم بھی تشریف فرما تھے- مشائخ کا ذکر ہو رہا تھا، یہ ﴿راوی﴾ فرماتے ہیں کہ میرے والد محترم نے مجھے شیخ عبد القادر کی طریقت کی پیروی کرنے، ان کی محبت کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کی وصیت فرمائی اور فرمایا کہ میں بھی اسی پر عمل پیرا ہوں-‘‘

قادری مشائخ جب کسی سے عہد لیتے تو ﴿ایک دوسرے کو﴾ یوں کہتے :-

﴿شَیْخُنَا وَ شَیْخُکَ الشَّیْخُ عَبْدُ الْقَادِرِ وَ قُدْوَتُنَا وَ قُدْوَتُکَ الشَّیْخُ مُحْیِ الدِّیْنِ عَبْدُ الْقَادِرِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ﴾

’’ ہمارے شیخ اور آپ کے شیخ، الشیخ عبد القادر ، ہمارے پیشوا اور آپ کے پیشوا الشیخ محی الدین عبد القادر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ﴿کو گواہ بنا کر ہم یہ عہد کرتے ہیں﴾-‘‘

سیّدنا شیخ غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اَولاد کا تذکرہ:-

کتاب ’’بہجۃ الاسرار‘‘ میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد، ﴿پھر آگے﴾ ان کے خانوادوں اور ان کے علاوہ آپ سے علم حاصل کرنے والے شاگردوں،اور ﴿دیگر﴾ مشاہیر کا کثیر تعداد میں تذکرہ کیا گیا ہے لیکن ہم ﴿اس کتاب ’زبدۃ الاسرار‘ میں﴾ ان عظیم صاحبزادگان کے تذکرے پر انحصار کرتے ہیں جنہوں نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے علم فقہ سیکھا اور آپ سے ﴿حدیث پاک کی﴾ سماعت کی- وہ آزاد، فاضلِ جلیل، صاحبِ عظمت تھے، انہیں عقلِ رضامندی، بہت بڑا تقویٰ اور واضح فضل نصیب تھا-

۱- امام سیف الدین ابو عبد الوہاب:-

ان میں سے شیخ امام سیف الدین ابو عبد الوہاب ﴿رحمۃ اللہ علیہ﴾، اسلام کے حسن و جمال، علمائ کے راہبر، متکلمین کے فخر، جنہوں نے اپنے والد ﴿شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ سے فقہ کا علم حاصل کیا اور آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ سے اور ﴿دیگر﴾ عظیم ائمہ کرام کی ایک بہت بڑی تعداد سے ﴿حدیث کی﴾ سماعت کی- علم کی جستجو میں عجم کے شہر گھومے، اپنے والد ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کے بعد مدرسہ میں پڑھایا، حدیث بیان کی، وعظ فرمایا اور فتوی لکھا- بے شمار علمائ و مشائخ ان سے فیض یافتہ ہوئے- انہوں نے ۳۹۵ھ میں شوال کی پانچویں شب بغداد میں وفات فرمائی ’ان کی ولادت ۲۲۵ھ میں ماہِ شعبان میں ہوئی تھی‘ اگلے دن روضۂ غوث الاعظم (رض) میں ان کی تدفین ہوئی- رضی اللہ تعالیٰ عنہ

۲- امام شرف الدین ابو محمد عیسیٰ:-

امامِ بے مثال، شیخ شرف الدین ابو محمد ، جن کی کنیت ابو عبد الرحمن بھی ہے، عیسیٰ ﴿رحمۃ اللہ علیہ﴾ جو شرف الاسلام، جلال العلمائ، عراق و مصر کے سراج، دو زبانوں اور دو بیانوں والے، لسان المتکلمین ہیں- انہوں نے اپنے والد ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ سے فقہ حاصل کیا- آپ سے اور علمائ کی ایک کثیر تعداد سے ﴿حدیث پاک﴾ کی سماعت کی- انہوں نے تدریس کی، حدیث بیان فرمائی، وعظ فرمایا، فتویٰ نویسی کی اور صوفیائ کے علوم پر مشتمل ’’جواہر الاسرار و لطائف الانوار‘‘ کتاب لکھی جس میں حقائق کو صراحت سے بیان کیا- مصر بھی تشریف لے گئے اور وہاں حدیث پاک پڑھائی، وعظ فرمایا- کئی علمائ و مشائخ نے ان سے تربیت حاصل کی- مصر میں ۳۷۵ھ میں ان کا وصال ہوا- یہ ﴿بھی﴾ وسیع علم والے، بے حد صاحبِ فضل، کامل العقل اور عظیم قدر و منزلت کے باوجود تواضع پسند تھے-

۳- شیخ شمس الدین ابو محمد:-

امام الجلیل، شیخ شمس الدین ابو محمد ﴿رحمۃ اللہ علیہ﴾، جن کی ابو عبد العزیز کنیت بھی ہے، عراق کے حسن و جمال اور فخر العلمائ، انہوں نے بھی اپنے والد ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ سے فقہ حاصل کی- آپ سے اور علمائ کی ایک جماعت سے ﴿حدیث پاک کی﴾ سماعت کی- انہوں نے حدیث پاک پڑھائی، وعظ فرمایا اور تدریس بھی فرمائی- ان سے بھی بہت بڑی تعداد نے تربیت حاصل کی- یہ ﴿ بھی﴾ بہت پاکیزہ اور نہایت ہی حسن و جمال والے تھے- علم میں ثقہ ﴿قابلِ اعتماد﴾، وافر عقل والے، بہت زیادہ علم والے، عاجزی پسند اور حسنِ اخلاق کے مالک تھے-

۴- شیخ عبد الجبار ابو عبد الرحمن:-

شیخ الامام، جمال الدین ابو عبد الرحمن عبد الجبار ﴿رحمۃ اللہ علیہ﴾ کی کنیت ابو الفرح بھی بیان کی جاتی ہے- یہ بھی سراج العلمائ اور عراق کے مفتی تھے- اپنے والد ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ سے فقہ حاصل کی اور آپ سے اور دیگر علمائ سے سماعت کی- حدیث پاک پڑھائی، وعظ فرمایا اور تدریس بھی کی- یہ بھی حسین قد و قامت کے مالک، وسیع الصدر، اصحابِ فضل سے محبت کرنے والے تھے- علم میں یدِ بیضا ﴿ تصرّف﴾ رکھتے تھے-

۵- الشیخ الامام حافظ تاج الدین ابو بکر عبد الرزاق ﴿سلطان الفقر چہارم﴾:-

امام بے مثال، الحافظ تاج الدین ابو بکر عبد الرزاق ﴿رحمۃ اللہ علیہ﴾، عراق کے چراغ، ائمہ کے حسن و جمال، فخر الحفاظ، شرف الاسلام ، قُدوۃ الاولیائ نے بھی اپنے والد ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ سے فقہ حاصل کی- آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دیگر علمائ سے سماعتِ حدیث کی- بے شمار ﴿علمائ و مشائخ﴾ ان سے فیض یافتہ ہوئے- آپ لوگوں میں بہت ہی اچھے اخلاق کے مالک اور ان سب سے زیادہ پاک صاف سینہ رکھنے والے تھے- آپ ہمیشہ تفکر میں اور اکثر خاموش رہتے تھے- حقیقی زاہد ﴿عارفِ کامل اکمل﴾، کثیر علم والے، اپنی روایت میں اعلیٰ کی جستجو رکھنے والے اور اپنے افعال و کردار میں انصاف کرنے والے تھے- آپ کے بارے بیان کیا جاتا ہے کہ آپ نے اللہ تعالیٰ سے حیا کرتے ہوئے تیس سال اپنے سر کو آسمان کی طرف نہ اُٹھایا ﴿۵-

چھ ﴿۶﴾ شوال، ۳۰۶ھ میں بغداد میں آپ کا وصال ہوا- آپ کی وِلادت ذی القعدہ، ۸۲۵ھ میں ہوئی- ﴿آپ کی عمر مبارک ۵۷ سال تھی﴾

۶- شیخ ابو اسحاق ابراھیم:-

فقہائ کی زینت ، مفسرین کے حسن و جمال ، شیخ الجلیل ابو اسحاق ابراھیم ﴿رحمۃ اللہ علیہ﴾ نے اپنے والد ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ سے فقہ حاصل کیااور آپ سے اور دیگر علمائ سے سماعت کی- یہ علم میں ثقہ، عاجزی پسند، عمدہ اخلاق والے تھے- انہوں نے ﴿واسط﴾ کی طرف کوچ فرمایا اور وہیں ۲۹۵ھ میں وصال فرمایا-

۷- شیخ ابو الفضل محمد:-

رئیس الاصحاب ، جمال المسندین، شیخ العالم و الفاضل ، ابو الفضل محمد ﴿رحمۃ اللہ علیہ﴾ نے بھی اپنے والد ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ سے فقہ حاصل کی- آپ سے اور دیگر علمائ سے سماعتِ حدیث کی- یہ بھی علم میں ثقہ اور پاکدامن تھے- ۵۲ ذی القعدہ ، ۰۰۶ھ میں بغداد میں وفات پائی اور روضۂ غوث الاعظم (رض) میں مدفون ہوئے-

۸- شیخ ابو عبد الرحمن عبد اللہ:-

عمدہ رائے رکھنے والے، اسلاف کے نمائندے شیخ ابو عبد الرحمن عبد اللہ ﴿رحمۃ اللہ علیہ﴾ نے اپنے والد ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ سے سماعتِ حدیث کی، بچپن میں ہی آپ سے استفادہ کیا- دیگر علمائ سے بھی سماعت کی- کہا جاتا ہے کہ انہوں نے بھی حدیث کا درس دیا ہے- ۷۲ صفر، ۹۸۵ھ میں بغداد میں وفات پائی- ان کی ولادت ۸۰۵ھ میں ہوئی یہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سب سے بڑے صاحبزادے تھے-

۹- شیخ ابو زکریا یحییٰ:-

عالم الجلیل، فقیہ ، الشیخ الفاضل ابو زکریا یحییٰ ﴿رحمۃ اللہ علیہ﴾ نے اپنے والد ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ سے فقہ حاصل کی- آپ سے اور دیگر علمائ سے سماعت کی- یہ مصر تشریف لے گئے- یہ فقیہ عالم تھے، نہایت عمدہ اخلاق والے، خوبصورت چہرے والے، علم پر توجہ کرنے اور اس کی اہلیت رکھنے والے تھے- شعبان کی نصف رات، ۰۰۶ھ میں بغداد میں وفات پائی اور اپنے بھائی ابو عبد اللہ عبد الوہاب کے قریب مدفون ہوئے- ان کی وِلادت چھ ربیع الاوّل، ۰۵۵ھ میں ہوئی اور یہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سب سے چھوٹے صاحبزادے تھے-

۱۰- شیخ ضیائ الدین ابو نصر موسیٰ:-

سراج الفقہائ، محدثین کی زینت، اسلاف کے برگزیدہ، الشیخ الامام العالم ضیائ الدین ابو نصر موسیٰ ﴿رحمۃ اللہ علیہ﴾ نے بھی اپنے والد ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ سے فقہ حاصل کی- یہ ادیب، پرہیزگار اور نیک سیرت تھے- انہوں نے دمشق وغیرہ میں حدیث کا درس دیا- ان سے بہت استفادہ کیا گیا- مصر بھی تشریف لے گئے- یہ فاضل و ادیب تھے- دمشق کو اپنی قیام گاہ بنایا اور اسی شہر میں ۲۱۶ھ میں جمادی الثانی کی چاند رات کو وفات پائی- آپ کو ﴿جبل قاسون / قاسیون﴾ میں دفن کیا گیا- ان کی وِلادت ربیع الثانی کے آخر میں ۹۳۵ھ میں ہوئی- یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ۷۳۵ ھ میں ہوئی- یہ شیخ غوث الاعظم کی اولاد میں سے سب سے آخر میں فوت ہوئے- رضی اللہ تعالیٰ عنہ و عنہم اجمعین-

کتاب ’’بہجۃ الاسرار‘‘ میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد میں سے کچھ بیٹوں کے ساتھ ساتھ بیٹیوں کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے- شاید مصنفِ ’’بہجۃ الاسرار‘‘ کی ان کے احوال و فضائل اور کرامات کے بیان میں کوئی دوسری کتاب ہو- ان میں کچھ کے مناقب اس میں نقل کرنے سے یہی سمجھ آتی ہے-

سیّدنا شیخ غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اَوصاف:-

شیخ بزرگ ابو محمد یوسف بن الامام الازجی عبد الرحیم بن علی النحوزی نے خبر دیتے ہوئے کہا :-

’’مجھے حافظ ابو العباس احمد نے بتایا کہ ایک دن مَیں تمہارے والد ﴿الامام الازجی عبد الرحیم﴾ کے ساتھ شیخ عبد القادر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مجلس میں حاضر تھا- ﴿محفل میں موجود﴾ ایک قاری نے ﴿قرآن پاک کی﴾ ایک آیت پڑھی جس کی تفسیر میں آپ ﴿غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے ایک توجیہہ بیان فرمائی- مَیں نے تمہارے والد سے پوچھا کہ کیا آپ تفسیر کی اس توجیہہ کو جانتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ہاں جانتا ہوں- پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ﴿اس آیت کی﴾ ایک اور توجیہہ بیان فرمائی- میں نے ﴿تمہارے والد سے پھر﴾ پوچھا کہ کیا اس توجیہہ کو بھی جانتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ جی ہاں- ﴿حتی کہ﴾ شیخ ﴿عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے اس آیت کی گیارہ توجیہات بیان فرمائیں - اور میں تمہارے والد سے ﴿ہر بار﴾ پوچھتا کہ کیا تم اس توجیہہ کو جانتے ہو؟ تو وہ کہتے کہ جی ہاں- پھر شیخ ﴿عبد القادر الجیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے ایک اور ﴿بارہویں﴾ توجیہہ بیان فرمائی- میں نے تمہارے والد سے پوچھا کہ آپ اس توجیہہ کو بھی جانتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ نہیں ﴿یعنی گیارہ توجیہات ان کے علم میں تھیں لیکن یہ بارہویں توجیہہ ان کے علم میں نہیں تھی﴾- یہاں تک کہ آپ ﴿شیخ غوث الاعظم﴾ نے اس آیت کی مکمل چالیس توجیہات ذکر فرمائیں اور ہر توجیہہ کو بیان کرنے والے ﴿راوی، مفسر﴾ کا بھی بتایا- تمہارا والد ﴿مسلسل﴾ کہتا رہا کہ میں اس توجیہہ کو بھی نہیں جانتا اور شیخ ﴿غوث الاعظم﴾ کے علم پر انتہائی حیرت میں مبتلا ہو گیا- پھر شیخ ﴿ رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے ﴿چالیس توجیہات ذکر کرنے کے بعد﴾ فرمایا کہ اب ہم قال ﴿علمِ ظاہر﴾ کو ﴿یہیں پر﴾ چھوڑتے ہیں اور ﴿اس آیت کے﴾ حال ﴿علمِ باطن﴾ کی طرف لوٹتے ہیں ﴿لا الہ الا اللّٰہ محمد الرسول اللّٰہ﴾- پس ﴿یہ فرمانا تھا کہ﴾ لوگ انتہائی وجد میں آگئے اور تمہارے والد نے ﴿اس درجہ جلالیتِ علم سے﴾ اپنے کپڑے پھاڑ ڈالے-‘‘

یہ آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کے ظاہری علم کا حال تھا- جہاں تک علمِ لدنّی کی بات ہے تو اس کی خوبیوں کی کوئی انتہائ نہیں ہے ﴿لیکن﴾ ہم ایک روایت ذکر کرتے ہیں- مشائخ نے شیخ الکمیمانی اور شیخ البزاز سے روایت کرتے ہوئے خبر دی، ان دونوں نے فرمایا:-

﴿اِنَّا حَضَرْنَا عِنْدَ الشَّیْخِ مُحْیِ الدِّیْنِ عَبْدِ الْقَادِرِ الْجَیْلِیِ وَ ھُوَ یَأْکُلُ لَبَنًا فَسَھٰی سَھْوَۃً طَوِیْلَۃً ثُمَّ قَالَ قَدْ فُتِحَ لِقَلْبِیِ الْاٰنَ سَبْعُوْنَ بَابًا مِنْ اَبْوَابِ عِلْمِ اللَّدُنِّیْ سَعَۃُ کُلٍّ مِّنْھَا کَسَعَۃِ مَا بَیْنَ السَّمَآئِ وَ الْاَرْضِ ثُمَّ تَکَلَّمَ فِیْ مَعَارِفِ اَھْلِ الْخُصُوْصِ کَلَامَا نِ ادَّھَشَ لَہُ الْحَاضِرُوْنَ ﴾

’’ہم شیخ محی الدین عبد القادر الجیلانی کی بارگاہ میں حاضر تھے- آپ دودھ نوش فرما رہے تھے کہ اچانک آپ نے ایک طویل مراقبہ فرمایا- پھر آپ نے فرمایا: ابھی میرے دل میں علمِ اللدنی کے ستر ﴿۰۷﴾ دروازے کھولے گئے ہیں ہر دروازے کی وسعت زمین و آسمان جتنی ہے پھر خاص الخاص کی معرفت کی ایسی باتیں بیان فرمائیں کہ حاضرین میں سے ہر ایک حیران رہ گیا-‘‘

عنقریب اس طرح کی روائتیں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وعظ کے تذکرے میں آئیں گی-

مشائخ فرماتے ہیں کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس عراق اور دیگر علاقوں سے فتاویٰ آتے تھے، ہم نے نہیں دیکھا کہ کوئی فتویٰ آپ کے پاس مطالعہ کے لیے یا اس میں غور و فکر کرنے کے لیے پڑا رہا ہو بلکہ جیسے ہی آپ اس کو پڑھتے اسی وقت اس کا جواب لکھ دیتے تھے- آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ شافعی اور امام احمد بن حنبل کی فقہ کے مطابق فتویٰ لکھتے تھے- آپ کے لکھے ہوئے فتاویٰ عراق کے علمائ کے سامنے پیش کیے جاتے وہ اس کے درست ہونے پر اتنا تعجب کا اظہار نہیں فرماتے تھے جتنا اس کے فوراً جواب لکھنے پر حیران ہوتے تھے-

روایت کیا گیا ہے کہ عجم سے ایک ایسا فتویٰ بغداد میں آیا جس کو حل کرنا عراق العجم اور عراق العرب کے علمائ پر دشوار ہو گیا تھا- اس کے بارے میں ان میں سے کسی سے اس کا مناسب جواب واضح نہ ہو سکا- اس فتویٰ کی صورت کچھ یوں تھی:-

’’علمائے کرام اس شخص کے بارے میں کیا فرماتے ہیں جس نے قسم اٹھائی کہ وہ ضرور اللہ عز و جل کی ایسی عبادت کرے گا جس وقت وہ اس عبادت میں مصروف ہو تو تمام لوگوں کے علاوہ صرف وہی اکیلا عبادت کر رہا ہو ﴿یعنی جس وقت وہ عبادت کر رہا ہو دنیا کا کوئی فرد اس عبادت میں مصروف نہ ہو﴾ نہیں تو اس کی بیوی کو تین طلاقیں- پس وہ عبادات میں سے کونسی ایسی عبادت کرے ﴿تاکہ اس کی بیوی کو طلاق واقع نہ ہوسکے﴾؟‘‘

جب یہ فتویٰ آپ ﴿شیخ غوث الاعظم﴾ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بارگاہ میں پیش کیا گیا تو آپ نے فورا اس کا جواب لکھا کہ

’’ وہ شخص مکۃ المکرمہ جائے اس کے لیے مطاف کو خالی کیا جائے اور وہ اکیلا اس کے سات چکر لگائے اس کی قسم پوری ہو جائے گی- ‘‘

﴿یہ جواب پڑھ کر﴾ فتویٰ پوچھنے والے نے بغداد میں رات تک نہیں گزاری ﴿اور فورا روانہ ہوگیا﴾-                ﴿جاری ہے---

توضیحی یادداشت از مترجم؛

﴿۱﴾ ﴿حضرت عبد اللہ الصومعی رحمۃ اللہ علیہ کا سلسلۂ نسَب حضرت امام الحسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جا ملتا ہے اس اعتبار سے آپ والد کی طرف سے حضرت امام الحسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد میں سے ہیں اور والدہ کی طرف سے حضرت امام الحسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد میں سے ہیں اسی اعتبار سے آپ کو سیّد الطرفَین اور الحسنی و الحسینی بھی کہا جاتا ہے ﴾

﴿۲﴾ ﴿طیلسان ایک سبز رنگ کی اون کی بنی ہوئی مخصوص چادر ہے جسے اس وقت خاص علمائ و مشائخ ہی پہنتے تھے جیسے آجکل عدلیہ اور یونیورسٹیز کے سربراہان ایک مخصوص قسم کا گائون پہنتے ہیں تاکہ دوسروں سے منفرد نظر آئیں-

﴿۳﴾ ﴿اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ شیخ غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے خلیفہ وقت المستنجد باللّٰہ کو کوئی پروٹوکول نہیں دیا گیا ورنہ وہ پہلی صف سے دور مسجد کے احاطہ میں بیٹھا آپ کی چھینک سے بے خبر نہ ہوتا-

﴿۴﴾ ﴿یعنی جس کی جو خواہش ہوتی وہ آپ کی بارگاہ میں ہی پوری ہوتی- یہی وہ بات جس کی طرف حضرت سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ یوں اشارہ فرماتے ہیں کہ ’اتنا ڈٹھیاں صبر نہ آوے ہور کتے وَل بھجاں ھو‘ کہ آپ کو دیکھنے سے ہی میرا جی نہیں بھر رہا میں اور کسی کی طرف کیا لینے جائوں گا-

 

﴿۵﴾ ﴿حضرت سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ’’رسالہ روحی‘‘ شریف میں سیّدنا غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس صاحبزادہ سیّدنا عبد الرزاق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آپ کے فقر کا وارث قرار دیا ہے اور ہفت سلاطینِ الفقر میں سے سلطان الفقر چہارم شمار کیا ہے-

 

سیّدنا شیخ غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نسَب اور اَوصاف کا تذکرہ:

آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ غوث الاعظم، شیخ شیوخ العالَم، سیّد السادات، شیخ الاسلام، الشیخ محی الدین ابو محمد عبد القادر بن ابو صالح موسیٰ بن ابو عبد اللہ بن یحییٰ الزاھد بن محمد بن دائود بن موسیٰ بن عبد اللہ بن موسیٰ الجون بن عبد اللہ المحض، جنہیں المجل بھی کہا گیا، بن الحسن المثنیٰ بن الحسن بن علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین، حضرت ابو عبد اللہ الصومعی الزاہد کے نواسے ہیں- ﴿۱

انہی ﴿حضرت ابو عبد اللہ الصومعی رحمۃ اللہ علیہ﴾ کی وجہ سے جیلان بھی معروف تھا-

شیخ غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ﴿جِیْل﴾ کی طرف منسوب ہیں- ﴿اس لفظ کے﴾ جیم کے نیچے زیر ہے اور یائ ساکن ہے- یہ طبرستان سے قریب مختلف شہروں پر مشتمل علاقہ ہے اسی کے ایک قصبہ ﴿نیف﴾ میں آپ کی وِلادت با سعادت ہوئی- اس علاقہ کو ﴿جیلان﴾ اور ﴿گیلان﴾ بھی کہا جاتا ہے - بغداد سے ایک دن کی مسافت پر درمیانی راستے کے جو علاقے ہیں ان میں سے دجلہ کے کنارے ﴿گیل﴾ نامی بستی بھی ہے- اس کو ﴿جیل العجم﴾ بھی کہا جاتا ہے- یہی وجہ ہے کہ ﴿گیل العجم﴾ اور ﴿گیل العراق﴾ کہا جاتا ہے- مدائن میں بھی ﴿الجیل﴾ نامی بستی ہے-

یہ بھی روایت ہے کہ جیلانی ﴿کا لقب﴾ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نانا ﴿کے علاقے﴾ جیلان کی طرف منسوب ہے- ابو عبد اللہ الصومعی رحمۃ اللہ علیہ جیلان کے بزرگ مشائخ اور ان کے سردار زاہدین میں سے تھے- ان کے احوال و کرامات عالی شان اور بلند مرتبہ تھیں- انہوں نے عراق العجم کے کئی عظیم مشائخ سے ملاقات کی- ان کی ہر دعا قبول ہوتی تھی اور کسی بھی معاملہ کے واقع ہونے سے پہلے اس کی خبر دے دیتے اور وہ ﴿معاملہ﴾ اسی طرح وقوع پذیر ہوتا تھا جیسا آپ بتاتے - بعض مشائخ نے ان کی کئی حکایات روایت کی ہیں-

آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی والدہ محترمہ ام الخیر ، امۃ الجبار حضرت فاطمہ بنت ابو عبد اللہ الصومعی ﴿رحمۃ اللہ علیہما﴾ ہیں جو بہت باعثِ خیر و نیکی تھیں- صاحبِ شرف شیخ ابو محمد عبد اللطیف بن شیخ القدوۃ ابو النجیب عبد القاہر السہروردی نے مشائخ سے روایت کرتے ہوئے خبر دی ہے، انہوں نے فرمایا:-

’’شیخ عبد القادر ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کی والدہ محترمہ ام الخیر، امۃ الجبار حضرت فاطمہ ﴿رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہا﴾ کو اس معاملہ ﴿وِلایت﴾ میں اوّلیت حاصل تھی- ہم آپ رحمۃ اللہ علیہا کو کئی بار یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب میں نے اپنے بیٹے عبد القادر کو جَنا تو ﴿ماہِ﴾ رمضان کے دنوں میں یہ دودھ نہیں پیتا تھا- ﴿ایک مرتبہ﴾ لوگوں کو رمضان کے چاند میں شک پڑ گیا تو وہ میرے پاس ﴿تصدیق کے لیے﴾ آئے اور اس کے بارے مجھ سے پوچھا، میں نے انہیں کہا کہ اس ﴿میرے لختِ جگر عبد القادر﴾ نے آج دودھ نہیں پیا- پس واضح ہوگیا کہ یہ دن رمضان کا پہلا دن تھا- اس دور میں ہمارے شہروں میں یہ مشہور ہو گیا کہ معززین کے ہاں ایک ایسا بچہ پیدا ہوا ہے جو رمضان کے دنوں میں دودھ نہیں پیتا- ‘‘

آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بھائی ابو احمد عبد اللہ عمر میں آپ سے چھوٹے تھے- انہوں نے ﴿بھی﴾ علم و بھلائی میں بڑی اچھی پرورش پائی- وہ جوانی میں ہی جیلان میں وفات پا گئے- آپ کی پھوپھی الشیخہ الصالحہ اُمِّ محمد، حضرت عائشہ ﴿رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہا﴾ ظاہری کرامات والی تھیں- روایت کیا گیا ہے کہ

’’ایک مرتبہ جیلان میں خشک سالی آگئی اور لوگوں نے بارش کی دعائیں مانگیں لیکن بارش نہ ہوئی تو مشائخ حضرت شیخ عبد القادر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پھوپھی الشیخۃ اُمِّ محمد حضرت عائشہ ﴿رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہا﴾ کے پاس حاضر ہوئے اور ان سے بارش کی التجا کی- آپ اپنے گھر کے صحن میں تشریف فرما ہوئیں اور زمین پر جھاڑو دیا اور عرض گذار ہوئیں کہ ﴿یَا رَبِّ اَنَا کَنَسْتُ فَرْشَ اَنْتَ﴾ ’’اے میرے رب! میں نے تیرے فرش پر جھاڑو دے دیا ہے- ‘‘ تھوڑی ہی دیر گزری کہ آسمان سے بارش ہونے لگی اور مشکوں کے مونہہ بھر گئے وہ سب پانی میںبھیگ کر اپنے گھروں کو لوٹے- ‘‘

انہوں نے بھی بڑی عمر پائی اور جیلان میں ان کا وصال ہوا-

﴿آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے﴾ سابقہ نسب میں ﴿اَلْجَوْن﴾ کا لفظ حضرت موسیٰ کا لقب ہے- یہ ﴿لفظ﴾ اسمائے اضداد میں سے ہے جو سفید پر بھی بولا جاتا ہے اور سیاہ پر بھی- اس ﴿لفظ﴾ کا بہت زیادہ استعمال ہے اور یہاں یہی مراد ہے کیونکہ حضرت موسیٰ ﴿رحمۃ اللہ علیہ﴾ کا رنگ گندمی تھا- آپ کی والدہ نے ساٹھ سال کی عمر میں آپ کو جنا- کہا جاتا ہے کہ ساٹھ سال کی عمر میں کوئی قریشی عورت ہی بچہ جَن سکتی ہے اور پچاس سال کی عمر میں کوئی عربی خاتون-

نسب میں ﴿اَلْمَحْض﴾ حضرت عبد اللہ کا لقب ہے اور اس کا مطلب ہر چیز سے خالص ہے- حضرت عبد اللہ کا لقب ﴿المحض﴾ اس لیے رکھا گیا کہ آپ کے والد الحسن بن الحسن بن علی اور آپ کی والدہ فاطمہ بنت الحسین بن علی ہے پس آپ کا نسب اپنے والد اور والدہ ﴿دونوں﴾ کی جانب سے کسی ﴿غیر سیّد﴾ کی شرکت نہ ہونے کی وجہ سے خالص ہے اور اس کی انتہائ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم تک ہے- جس نے آپ کا لقب ﴿اَلْمُجَل﴾ رکھا ہے تو یہ ﴿اَلْاِجْلَالْ﴾ سے اسمِ مفعول کا لفظ ہے ﴿جس کا مطلب عیبوں سے پاک ، صاحب عظمت ہے﴾- اس نسب میں حضرت الحسن کا لقب ﴿اَلْمُثَنّٰی﴾ اس وجہ سے ہے کہ آپ حسن بن الحسن ﴿بن علی المرتضیٰ﴾ ہیں- یہ اسم ﴿تَثْنِیَہْ﴾ سے اسم مفعول ہے گویا آپ حَسنِ ثانی ہیں- رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین-

راویوں نے کہا کہ شیخ عبد القادر رضی اللہ تعالیٰ عنہ علمائ کرام والا لباس پہنتے اور طیلسان ﴿۲﴾ اوڑھتے تھے، خچر پر سواری فرماتے تھے- آپ کے سامنے پردہ لٹکایا جاتا تھا- آپ ایک بلند کرسی پر ﴿لوگوں سے﴾ مخاطب ہوتے تھے- آپ کی آواز میں تیزی اور بلندی تھی- جب آپ گفتگو فرماتے تو خاموشی ہو جاتی اور جب آپ حکم دیتے تو اس حکم کی فورا تعمیل ہوتی- جب کوئی سخت دل آپ کی زیارت کرتا تو عاجز ہو جاتا- جب آپ زیارت کے لیے تشریف لاتے تو تمام لوگ دیدار کرتے- جب آپ جامع مسجد تشریف لے جاتے تو لوگ گلیوں میں کھڑے ہو جاتے اور آپ کے وسیلہ سے اللہ تعالیٰ سے اپنی ضروریات طلب کرتے- آپ کی شہرتِ عظیمہ ہر سمت پھیلی ہوئی تھی-

’’﴿ایک مرتبہ﴾ جمعہ کے دن جامع مسجد میں آپ کو چھینک آئی تو لوگوں نے آپ کی چھینک کا جواب دیا یہاں تک کہ ایک شور اٹھا جس میں لوگ کہہ رہے تھے کہ ﴿یَرْحَمُکَ اللّٰہُ وَ یَرْحَمُ بِکَ﴾ اللہ تعالیٰ آپ پر ﴿اپنی﴾ رحمت ﴿مزید﴾ نازل فرمائے اور آپ کے سبب ﴿ہم پر﴾ رحمت فرمائے- ﴿اس وقت کا﴾ خلیفہ المستنجد باللہ مسجد کے احاطہ میں موجود تھا اس نے پوچھا یہ کیسا شور ہے؟ اسے بتایا گیا کہ شیخ عبد القادر کو چھینک آئی ہے- اس بات نے اسے خوفزدہ کر دیا-‘‘ ﴿۳

آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہت زیادہ رُعبدار تھے- جب آپ کسی پر نظر ڈالتے تو وہ آپ کی ہیبت سے کانپنے کے قریب ہو جاتا اور بعض اوقات کانپنے لگ جاتا- جب آپ تشریف فرما ہوتے تو مریدین آپ کے گرد ایسے حلقہ بنا کر بیٹھتے گویا کہ وہ شیر کو دیکھ کر اس کی ہیبت سے سہمے ہوئے بیٹھے ہیں- ان سے زیادہ آپ کے حکم کی فرمانبرداری میں جلدی کرنے والا کسی کو نہیں دیکھا گیا اور آسانی سے آپ کی تابعداری کرنے والا بھی ان سے زیادہ کوئی نہ تھا-

سیّدنا شیخ غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا حُلیہ مبارک:-

آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جسم مبارک نحیف تھا، قد درمیانہ ، چوڑا سینہ، گھنی داڑھی جس کی لمبائی سیدھی تھی، ابرو ملے ہوئے- آپ کی آواز بلند، آپ کی ہیئت انتہائی خوبصورت تھی- آپ بلند وقار اور وسیع علم والے تھے- آپ کی لوگوں سے وعظ کرنے کی مدت چالیس سال ہے- آپ تینتیس سال صدر مدرس اور صدر مفتی رہے-

سیّدنا شیخ غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اِبتدائی اَحوال:-

آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وِلادت ﴿با سعادت﴾ ۰۷۴ھ یا ۱۷۴ھ میں جیلان میں ہوئی اور وفات ۱۶۵ھ میں ﴿۰۹ یا ۱۹ سال کی عمر میں﴾ ہوئی- آپ بغداد میں ۸۸۴ھ میں تشریف لائے ﴿اس وقت﴾ آپ کی عمر ﴿مبارک﴾ اٹھارہ سال تھی- آپ نے ابتدائ و انتہائ کے ﴿تمام﴾ علوم کی تحصیل میں انتہائی سخت جد وجہد فرمائی- آپ نے بزرگ مشائخ ﴿اور﴾ ہدایت کے پرچم، اُمّت کے علمائ کی طرف ﴿حصولِ علم کی خاطر﴾ تشریف لے گئے- قرآن عظیم میں اس قدر مشغول ہوئے کہ اسے اچھی طرح سمجھ لیا اور اس کے ظاہری و باطنی تمام علوم تک رسائی حاصل کی- آپ نے فقہ کے مسالک اور اختلافی مسائل کے ساتھ ساتھ اس کی فروعات و اصول سیکھے- نامور محدثین سے حدیث کی سماعت فرمائی- تمام علوم کو اکٹھا کیا یہاں تک کہ سب میں فوقیت حاصل کر گئے-

پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مخلوق ﴿کی بھلائی﴾ کے لیے ظاہر ﴿ہونے کا حکم﴾ فرمایا اور ہر خاص و عام میں آپ کی بہت بڑی مقبولیت رکھی- اللہ تعالیٰ نے آپ کے دل کی حکمت کو آپ کی زبان پر ظاہر فرمایا- اللہ تعالیٰ کی جانب سے آپ کی قدرت کی علامات ، آپ کی وِلایت کی نشانیاں عیاں ہوگئیں- مجاہدہ میں راسخ قدم، ہوا و ہوس کے اسباب سے خالص پاکیزگی، مخلوق سے دائمی ﴿قلبی﴾ قطع تعلقی، اللہ تعالیٰ کی طلب میں مصائب و آلام پر صبرِ جمیل کے ساتھ آپ کی تخصیص کے شواہد منظرِ عام پر آگئے-

سیّدنا شیخ غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مشاغل:-

آج جو مدرسہ آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾کی طرف منسوب ہے اس میں فتویٰ نویسی اور تدریس کی صدارت فرمائی اور اس میں وعظ فرمایا- آپ نے زیارات بھی فرمائیں اور نذریں بھی پوری کیں- علمائ ، فقہائ اور صالحین کا ایک جمِ غفیر آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کی خدمت میں جمع ہو گیا جنہوں نے آپ کے کلام اور آپ کی صحبت سے فائدہ اٹھایا- کتنا اچھا وہ صحبت اختیار کرنے والا ہے اور کتنا اچھا وہ جس کی صحبت میں بیٹھا گیا ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾- پورے آفاق سے علم کے متلاشی آپ کے پاس حاضر ہوئے- عراق میں مریدین کی انتہائی توبہ ﴿رجوع الی اللہ﴾ کا ذریعہ آپ کی بارگاہ تھی- آپ کے پاس علوم کی اس قدر کثرت تھی کہ آپ کا طالبِ علم کسی اور کی طرف جانے کا ارادہ ہی نہیں کرتا تھا- ﴿۴

آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ اپنے مدرسہ میں تفسیر کا درس ارشاد فرماتے، علومِ حدیث پڑھاتے، فقہی مسالک اور اختلافی مسائل بھی سکھاتے تھے- صبح شام آپ کو تفسیر، علومِ حدیث، فقہی مسالک، اختل

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر