کلاسیکی اُردو اَدب میں مناقبِ گیلانیہ

کلاسیکی اُردو اَدب  میں مناقبِ گیلانیہ

کلاسیکی اُردو اَدب میں مناقبِ گیلانیہ

مصنف: پروفیسر ڈاکٹر ساجد محمود نومبر 2023

غوث پاک،پیرانِ پیر،پیر دستگیر،شیخ الشیوخ،سردار اولیا، محبوب سبحانی، قندیل لا مکانی، امام الاولیا، زعیم العلما، قطب بغداد،السید السند ،شاہِ میراں ، قطب ربانی جیسے القاب آپؒ کی شان کے مظہر ہیں -آپؒ کی ولادت سے چھ سال پہلے حضرت شیخ ابو احمد عبداللہ بن علی بن موسیٰ ؒ نے فرما دیا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ جلد ہی ایک ایسی ہستی آنے والی ہے جس کا فرمان ہو گا:

’’قدمیٰ ھذا علی رقبۃ کل ولی اللہ‘‘[1]

’’میرا قدم تمام اولیاء اللہ کی گردن پر ہے‘‘-

تمام اولیاء و علماء اس بات پر متفق ہیں کہ آپؒ پیدائشی طور پر ولی ہیں اور آپؒ کی تمام تصانیف جن میں ’’جلا الخاطر، غنیتہ الطالبین،سرالاسرار فی ما یحتاج الیہ الا برار اور فتوح الغیب‘‘ شامل ہیں-سب میں انسانیت کے لیےاللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل اور عمل صالحہ کی پیروی کےعمل کی تلقین کا حکم ہے-اللہ پاک اپنے مقرب بندوں پر خصوصی کرم جب فرماتا ہے تو ان کی زبان مقدس سے نکلا کلام برکت الٰہی کا ظہور ہوتا ہے-صاحب ہدایت شعراء سے متعلق  حضرت سلطان باھو (رح)کی کتاب میں یوں تحریر ملتی ہے:

’’بے شک عرش الٰہی کے نیچے ایک خزانہ ہے اس کی چابی شعراء کی زبان ہے‘‘-[2]

اسی بات کی تائید میں علامہ اقبال کا یہ شعر بھی خصوصیت کا حامل ہے:

سینہء شاعر تجلی زار حسن
خیزد از سینائی او انوار حسن

’’شاعر کا سینہ جلوہ گاہ ِ حسن(حقیقی)ہے-اس (طور) سینا سے حسن(حقیقی)کے انوار پھوٹتے ہیں‘‘-[3]

غوث الاقطاب سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانیؒ نے اپنے اوپر فضلِ خداوندی، تحدیث ِ نعمت اور فقر کے اعلیٰ مرتبے کا ذکر ’’قصیدہ غوثیہ‘‘ میں فرمایا- یہ قصیدہ طالب مولیٰ کیلیے نہایت اکسیر اور برکات سے مزین ہے-شعراء قدیم نے حمد باری تعالیٰ، نعت رسول مقبول(ﷺ) اور مناقب اہل بیت و  صحابہ (رض) اور مشائخ طریقت(رح) سے اپنی عقیدت کو ظاہر کرنے سے شاعری کا آغاز کیا-اسی وجہ سےنظم کی صنف منقبت کا بڑا ذخیرہ اردو شاعری کی زینت ہے- منقبت کا مادہ (ن-ق-ب) جس کی جمع مناقبت اور مناقب جو اولیاء اللہ کے تذکرہ سے خالی نہیں- اس مادہ کی تین صورتیں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجیدکی سورہ ق،مائدہ اور کہف میں ظاہر فرمائیں-منقبت کے معنی خوبیاں، اوصاف حمیدہ، جوہر اور شان و شوکت کے ہیں- صاحب غوث اللغات اس کی معنوی کیفیت کو ’’اوصاف حمیدہ‘‘ بیان کرتے ہیں-اسم امروہوی اس کے معنی ’’بزرگان دین کی مدد کرنا‘‘خیال کرتے ہیں -درج ذیل لغات میں اس کی تعریف یوں ہے:

فیروز الغات:

’’مناقب: اہل بیت اور اصحاب کبار (رض) کی مدح‘‘[4]

New Millennium Composite Dictionary:

“1. diginity, 2. praise, 3. eulogy (of the holy Prophet’s companions or relations.”[5]

عطاالرحمان نوری منقبت کے حوالے سے لکھتے ہیں:

’’منقبت حضرت علی کرم اللہ وجہ الکریم کی تعریف میں لکھےہوئے اشعارکو کہا جاتا ہے-مگر عرف عام میں اشعار کے ذریعےکسی بزرگ ولی یا برگزیدہ شخصیت کی تعریف کرنے کو منقبت کہتے ہیں‘‘-[6]

اردو شاعری کی مختلف اصناف میں مقدس اور برگزیدہ شخصیات کے مناقب کو اس لیے برتا گیا تاکہ نئی نسل ان ہی بزرگوں کو اپنا آئیڈیل بنا کر زندگی کے پُرپیچ راستوں سے بغیر گھبرائے گزرے اور ایک عظیم مقصد کو پائے- یعنی صراط مستقیم پر رہے- قران مجید میں اس روایت کی اہمیت کو اجاگر کرنے اور نئی نسل کی ہدایت کے لیےدرج ذیل آیات کا نزول اس ضمن میں افادیت کا حامل ہے:

’’اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللہُ وَ رَسُوْلُہٗ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوا الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَہُمْ رٰکِعُوْنَ ‘‘[7]

’’تمہارا دوست صرف اللہ ہے اور اس کا رسول ہے اور ایمان والے ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور زکوۃ دیتے ہیں اور وہ اللہ کے سامنے (عاجزی سے) جھکنے والے ہیں‘‘-

’’اِنَّمَا یُرِیْدُ اللہُ  لِیُـذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَہْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیْرًا ‘‘[8]

’’اللہ نے اہل بیت سے رجس کو دور رکھا-اور انہیں پاک اور صاف کیا ‘‘-

’’قُلْ لَّآ اَسْـَٔلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبٰی‘‘[9]

’’فرما دیجئے: میں اِس (تبلیغ رسالت) پر تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا سوائے (میرے) قرابت والوں کی محبت کے‘‘-

’’وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّشْرِىْ نَفْسَهُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ‌ط وَاللہُ  رَءُوْفٌۢ بِالْعِبَادِ ‘‘[10]

 

 

’’اور لوگوں میں سے ایک شخص ایسا ہے جو اللہ کی رضا جوئی کے بدلہ میں اپنی جان کو فروخت کردیتا ہے اور اللہ بندوں پر بہت مہربان ہے‘‘-

ان آیات مبارکہ کی رو سےاہل بیت اور اولیاء اللہ سے محبت حکم خداوندی ہے-اسی حکم کی بجا آوری کیلئے مناقب کی روایت بھی تاریخ کے ادبی اوراق کی زینت ہے اور ہر زمانے میں رہی اور رہے گی- اس کی روایت عہد غزنوی سے شروع ہوتی ہےپھراردو میں پہلے دکن، پھر دہلی اور لکھنو سے ہوتی ہوئی اب تک کے اردو ادب میں موجود ہے- جبکہ مناقب گیلانیہ کا آغازآپؒ کی ولادت سے 6 سال پہلے حضرت شیخ ابو احمد عبداللہ بن علی بن موسیٰ ؒ کے درج بالا حوالے سے ثابت ہے-

تاریخ ادب اس بات کی گواہ ہے کہ ابتدائی دور کے شعراء نے منقبت کا لفظ امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے لیے مختص کیا- عربی میں منقبت شاعری کا باقاعدہ آغاز تو فرزدق (641ء)سے ہوتا ہے جنہوں نےامام زین العابدین (رض) کی شان میں ’’قصیدہ صمعیہ‘‘ لکھا-اس کے بعد امام جعفر صادق (رض)کے زمانہ (699ءتا 765ء)کا

 

شاعر کسمیت اسدی نے ائمہ اہل بیت کی شان میں ایسے نادر مناقب لکھے کہ اہل عرب کے تمام شعراء کا کلام مانند پڑھ گیا-مولیٰ علی کی منقبت دولت سامانیہ (874ء)کے شاعر کسالی نے تحریر کی- ناصر خسرو (المتوفی:184ھ)،شیخ سعدی، حافظ شیرازی نے تو روحانی، انقلابی،حقیقی اور اخلاقی کلام منقبت کی خوشبو سے صحرائے شاعری کو گلشن نور معطر میں تبدیل کردیا-لکھنو کے میر انیس اور دبیر نے اس میدان کے لیے اپنی زندگیاں وقف کر دیں- قلی قطب شاہ، نصرتی، عراقی، خواصی اور وجہی نے دکنی، فارسی، ہندی کے امتزاج سے نئی زبان اردو میں زور و شور سے صنف منقبت کے میدان میں برق رفتار گھوڑے دوڑائے-یوں جب اردو شاعری کا دہلی میں ڈنکا بجا تو مرزا رفیع الدین سودا جیسا شاعر یوں غوث پاک کی بارگاہ میں نذرانہ عقیدت پیش کرتا ہوا دکھائی دیا:

ہزار افسوس اے دل ہم نہ تھے اس وقت دنیا میں
وگرنہ کرتے یہ آنکھیں، جمال اس کے سے نورانی
نہ ہونے سے جدا سایہ کے اس قامت سے پیدا ہے
قیامت ہووے گا دلچسپ وہ محبوب سبحانیؒ
جسے یہ صورت و سیرت کرامت حق نے کی ہووے
بجا ہے کہیے ایسے کو اگر اب یوسف ثانی
کدھر اب فہم ناقص لے گیا مجھ کو نہ یہ سمجھا
کہ وہ مہر الوہیت ہے یہ ہے ماہ کنعانی[11]

اردو کلاسیکی ادب میں متوسطین کے دور اول کے شعرا میرزا مظہر جان جاناں جو قادریہ سلسلہ میں بیعت بھی تھے-ان کے ہاں منقبت کے اشعار ملتے ہیں-میر تقی میر کی منقبت نگاری میں قصیدہ تمہیدیہ اور خطابیہ دونوں انداز پائے جاتےہیں-متوسطین کے تینوں ادوار میں پچاس شعراء کے ہاں منقبت کے اشعار کی روایت موجود ہے-نصیر الدین ہاشمی کی کتاب ’’دکن میں اردو‘‘ کے مطابق چوبیس شعراء اس کے علاوہ دکن میں اس صنف کے اشعار کے ساتھ اپنی شاعری کو سجا گئے-[12] جوثقیل اردو یا فارسی آمیز دکنی کے ملاپ سے دکنی شاعری کی یاد کا ایک دریچہ ہیں-کلاسیکی اردو شاعری اپنے ادبی،شعوری طریق انداز اور شعری ہیئت کے اعتبار سے خاص مزاج کی حامل ہے-عربی، فارسی اور ہندی روایت کی چھاپ اردو کلاسیکی شاعری میں عموماً اور منقبت میں خصوصاً نمایاں ہے،جو ایک کہکشانی سلسلے کو قائم کرتے ہوئے جدید اردو کے عہدسے آ ملتی ہے-اس دور کے شعراء نےبھی انسان کی بے پناہ اہمیت اور اس کےجوہر ذات کی لامحدود استعدادپر اظہارِ فکر کیا تو اس سے انسانی خودی کی حقیقت کو نئے خیال انگیز اور انقلابی رنگ میں سامنے لے آئے-انہی شعراء میں ایک نام داغ دہلوی کا ہےجن کے تعارف کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ علامہ محمد اقبال ؒ شاعری میں ان سے تلمذ لیتے تھے یوں یہ اقبال کے شاعری میں استاد سمجھے جاتے ہیں-داغ نے پانچ دیوان جن میں 1028 غزلیں اردو کلاسیکی ادب کی زینت بنائیں-داغ کی شاعری کے موضوعات کا تنوع صرف ایک محور پر گھومتا نظر آتا ہے اور وہ ہے ’’عشق‘‘-غوث پاک سے انتہا درجے عشق کی مظہر منقبت، جس میں جذبہ کی فراوانی،زبان کی عمدگی اور مشاہدے کی کثرت نمایاں ہے-داغ دہلوی کی منقبت در شان غوث پاک شیخ عبدالقادر جیلانیؒ:

یہ دل محبوب سبحانی کے صدقے
محی الدین جیلانی کے صدقے
نثارِ قبہ انوارِ مہ و مہر
فرشتے قبرِ نورانی کے صدقے
تمہاری ذات سے ہے نظمِ عالم
جہانبانی کے سلطانی کے صدقے
میرے دل پر چلے وہ خنجرِ عشق
ملک ہوں جس کی قربانی کے صدقے
یہ دل ہو اور موجِ قُلزمِ عشق
یہ کشتی موجِ طوفانی کے صدقے
یہ زیبا ہے جو ہوں لوح و قلم بھی
تمارے اسمِ لاثانی کے صدقے
فدائے شمع پروانہ ہو اے داغ
ہم اپنے قطب ربانی کے صدقے[13]

’’بے خود کیے دیتے ہیں انداز حجابانہ‘‘ اس نعت کے شاعر سراج الدین جن کا تخلص ان کے مرشد سے نسبت کی بنا پر ’’بیدم وارثی‘‘ ہوا-1876ء میں اٹا وہ، بھارت میں پیدا ہوئے-مثالی درویشانہ زندگی گذاری ’’لسان الشعرا اور لسان الطریقت‘‘کے القابات سے دنیائے ادب نے انہیں نوازا-’’ارمغان بیدم ‘‘ اور ’’مصحف بیدم‘‘ جیسے فن پاروں کے علاوہ ایک اردو نعتیہ دیوان بھی لکھا-1936ء میں ان کا وصال ہوا-کلاسیکی اردو ادب میں منقبت کے حوالے سے ان کے مناقب ایسے موتیوں کی مانند ہیں جن کو اگر چھوڑ دیا جائے تو اردو کلاسیکی ادب میں مناقب گیلانیہ کی مالہ کا ارتقا مکمل نہیں ہو سکتی:

یاد آتی ہے مجھے جس دم ادائے غوث پاک
چونک اٹھتا ہوں میں کہہ کر شکوہ ہائے غوث پاک
ہر شجر ہے وجد میں مست ادائے غوث پاک
بلبلیں ہیں باغ میں نغمہ سرائے غوث پاک
آپ کی الفت میں میری جان بھی جائے تو کیا
میں بھی راضی ہوں اسی میں جو رضائے غوث پاک[14]

وطن حیدر آبادی جن کا پورا نام افتخار علی گولکنڈہ، تلنگانہ، بھارت کے رہنے والے تھے-ان کی شاعری کی بنت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان کاقلم تیغ برُاں جبکہ ان کی طبیعت صالح صفات کی حامل تھی-شریعت و طریقت پر گہری نظر ان کے کلام کی ترجمان ہے:

نظر میں دل میں سینے میں ہے جلوہ غوث اعظم کا
سراپا ہے مرا آئینہ خانہ غوث اعظم کا
تماشا دیدنی ہو گا عدالت گاہ محشر میں
جو میرے ہاتھ میں دامن رہے گا غوث اعظم کا
یہ وہ آئینہ ہے شان خدا ہے آئینہ جس میں
کوئی دیکھے خدارا روئے والا غوث اعظم کا
خدا کو اس نے دیکھا اور رسول اللہ کو دیکھا
جسے مرشد نے دکھلایا ہے چہرہ غوث اعظم کا[15]

انیسویں صدی کے آخری اور بیسویں صدی عیسوی کی پہلی دہائیوں میں منقبت کی روایت میں حسرت موہانی کی صدا قم کی حیثیت اس لیے رکھتی ہے کہ ان کا رنگ تغزل اس صنف میں بھی صدق و خلوص کی شعریت کو نکھارتا نظر آتا ہےاور مناقب گیلانیہ میں نشاۃ الثانیہ پیدا کررہا ہے:

برکتیں سب ہیں عیاں دولت روحانی کی
واہ کیا بات ہے اس چہرہ نورانی کی
رہ گیا جل کے تری بزم میں پروانہ جو رات
کھینچ گئی شکل مری سوختہ سامانی کی
رشک شاہی ہو نہ کیوں اپنی فقیری حسرت
کب سے کرتے ہیں غلامی شہ جیلانی کی[16]

درج ذیل منقبت کے اشعار میں بھی حسرت نے اہل بیت اطہار کی صفات کا جامع اور عکس جمیل غوث پاک کو پایا تو شریں تحریر یوں ظاہر ہوئی:

دستگیری کا طلب گار ہوں شیاً اللہ
پیر بغداد میں لاچار ہوں شیاً اللہ
آپ ہی سنئے کہ اب اور کہوں کس سے
بستہ دامن سرکار ہوں شیاً اللہ
غوث اعظم سے جو مانگو گے ملے گا حسرت
پس کہو حاضر دربار ہوں شیاً اللہ[17]

اولیاء کاملین کی شان میں اور ان کے کارہائے نمایاں کے حوالے سے کچھ کہنے اور پڑھنے یا سننے سے کردار میں وسعت در آتی ہے- ان سے محبت ہمیں رسول کریم (ﷺ) کی طرف لے جاتی ہے جو جذبے کو جلا بخشتی اور فکر میں گہرائی اورگیرائی کے امتزاج سے شخصیت میں اجتماعیت کے زیور فیض سے آشنا کرتی ہے- روحانی تربیت کی انکساری کے سبب رفیق القلب شعراءکی فہرست میں ایک نام مولانا احمد رضا خان کا بھی ہے جنہوں نے سرکار بغداد کی عظمت اور اپنی ان سے والہانہ الفت کا اظہار یوں کیا:

واہ کیا مرتبہ اے غوث ہے بالا تیرا
اونچے اُونچوں کے سَروں سے قدم اعلیٰ تیرا
سر بھلا کیا کوئی جانے کہ ہے کیسا تیرا
اولیاء ملتے ہیں آنکھیں وہ ہے تلوا تیرا
بحر وبر شہر و قریٰ سہل وحُزن دشت و چمن
کون سے چَک پہ پہنچتا نہیں دعویٰ تیرا[18]

صاحب صدق ہی عاشق صادق کہلانے کے لائق ہوتےہیں-کیونکہ صاحب صدق صرف محبوب سے ہی نہیں بلکہ محبوب سے منسوب ہرشےسے عقیدت کا دم بھرتے ہیں، تب الفاظ قادرانہ منظرکشی کے ساتھ وقت کی لہروں سے ہم آہنگ ہو کر کرشماتی فضاکےمظاہربکھیرتے ہیں- عارف لکھنوی کا مجموعہ نعت’’رحمت اللعالمین’’ اس نوعیت کا شاہکار ہے،اس میں منقبت گیلانیہ کی بہار اپنے جوبن پر ہے:

وہ غوث پاک رُشد و ہدایت کے آفتاب
کردار بے مثال تو گفتار لاجواب
جن کے رہِ سلوک سے ہر شخص فیضیاب
وہ ذات جو کہ دیدۂ عالم میں انتخاب[19]

موجودہ دور میں بھی اس روایت کے اَمین شعراء میں وحید جامی، محمد اسماعیل عاقل، محمد جان عاطف،واثق ذائقی، مولانا جامی بدایوانی، انور فیروز پوری، صبیع رحمانی، معین الدین احمد اور قمر انجم کے نام قابل ذکر ہیں-مناقب گیلانیہ اردو کلاسیکی ادب کا ضمیر ہے،جہاں کلاسیکی شعراء کی عقیدت میں خلوص، سادگی اور انکساری کے ڈیرے ہیں- جذب صادق اور لہجہ شریں کا امتزاج اس صنف کو حقیقی ادب سے جا ملاتا ہے-ایقان کی تہہ داری نظم کی مختلف اصناف میں تو کبھی اپنے منفرد نام ’’منقبت’’کے پیکر میں ظاہر ہوتی ہے-لیکن ایک بات جو قابل دید ہے کہ شعراء کرام میں عشق رسول (ﷺ) کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے-اسی عشق کی نسبت سےصحابہ کرام ،اہل بیت (رض)اورخصوصاًغوث پاک ؒ سے عشق ،منزل فنافی العشق تک پہنچا ہوا نظر آتا ہے- مذکورہ شعراً کے کلام کے مطالعے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ یہ سارے شعراً فنافی الشیخ ہونے میں فخر محسوس کرتے ہیں- دعا ہے کہ مالک ہمیں بھی اس وصف سے ہمکنار کرے-آمین!

٭٭٭



[1](وحید الحق ہاشمی،معصومین فن منقبت نگاری،رحمان پبلیشرز،لاہور،2007 ،ص:7)

[2](محک الفقر:195)

[3](ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی،شرح اسرار و رموز،سنگ میل پبلیکیشنز، لاہور، 2011، ص:74)

[4](فیروز اللغات، ص:1289،ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس، دہلی سال اشاعت:1994)

[5](Bashir A.Qurehi,part,2,Kitabistan pub, co.april,2004, page:653)

[6](عطاالرحمان نوری،اصناف ادب،رحمان  پبلیشرز،انڈیا، 2012، ص:14)

[7](المائدہ:55)

[8](الاحزاب:33)

[9](الشوریٰ:23)

[10](البقرہ:207)

[11](مرزا محمد رفیع سودا،قصائد سودا،مسلم یونی ورسٹی،علی گڑھ،1976، ص:122)

[12](طفیل احمد، میرتقی میر کی منقبت نگاری )

accessed on 15-09-2023,

(http://www.mushaidrazvi.com)

[13](داغ دہلوی،کلیات داغ،کتابی دنیا ،دہلی2004، ص:766)

[14](کرشمہ وارثی،دیوان بیدم،صدیق بک ڈپو،لکھنو،س ن م،ص:24-25)

[15](وطن حیدرآبادی،دیوان وطن،اعظم پریس ،حیدرآباد،1903، ص:4)

[16](سید محمداصغرکاظمی،مولانا حسرت موہانی کی حمدونعت اور منقبت گوئی،حسرت موہانی ٹرسٹ،کراچی،2003،ص:138)

[17]ایضاً، ص:142)

[18](حدائق بخشش، حصہ اول:وصل دوم،ص:19)

[19](عارف لکھنوی، رحمت اللعالمین، انور راحت یوسف زئی پرنٹر، کراچی، 1994، ص:152)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر