برصغیر کے گیارہ قادری صوفی

برصغیر کے گیارہ قادری صوفی

برصغیر کے گیارہ قادری صوفی

مصنف: مدثر ایوب نومبر 2023

برصغیر پاک و ہند میں اسلام کا تعارف و ابلاغ صوفیائے کرام کی کاوشوں کا نتیجہ ہے جو کہ بلا تخصیص سلسلہ و طریقہ اول زمانے سے آج تک جاری و ساری ہے- چار سلاسلِ تصوف نے یہاں پہ بطورِ خاص وسیع اثر چھوڑا ہے ؛ سلسلہ عالیہ قادریہ ، سلسلہ عالیہ چشتیہ ،سلسلہ عالیہ نقشبندیہ، سلسلہ عالیہ سہروردیہ-ان چاروں سلاسل کے صوفیاء کرام اہلِ اسلام حتی کہ غیر مسلموں کی نظر میں بھی انتہائی ادب و تحسین کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں -یہ عظیم المرتبت اولیاء اللہ بلا شک و شبہ امن و محبت کا استعارہ ، ایثار و اخوت کی تشبیہِ بے نظیر اور خُلقِ محمدی (ﷺ) و خدمتِ خلق کی جیتی جاگتی تصویر ہیں - گوکہ ان عالی مرتبت صوفیاء کے تذکروں سے ہمارے ادب و تحقیق کا دامن لبریز ہے ، مگر یہ ایسی دلکشا و نُور افزاء سیرتیں ہیں جن کا بار بار مطالعہ ہمارے اخلاق و اخلاص میں وسعتیں، علم و فضل میں تبحراور ایمان و ایقان میں استحکام پیدا کرتا ہے -زیرِ نظر مقالہ کے عنوان کے مطابق گوکہ ہم ایک حد کو اختیار کر رہے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ تمام سلاسلِ طریقت کی (بالعموم) اور سلسلہ قادریہ کی برصغیر پاک و ہند میں خدمات (بالخصوص) ایک مقالے میں سمیٹی نہیں جا سکتیں-یہ تو ایک عظیم ’’انسائیکلو پیڈیا‘‘ کا موضوع ہے - اس لئے گیارہ قادری صوفیائے کرام کے اسماء کا انتخاب تو مشکل امر نہ تھا البتہ جو اسمائے مبارکہ اس مقالے میں شامل نہیں ہیں اس بات کے مصداق کہ ’’ہر خواہش پہ دَم نکلے‘‘ ان کو شامل نہ کرنا نہایت ہی مشکل امر تھا - جو اسمائے مبارکہ شامل ہیں اور جو شامل نہیں ہیں، بطور طالبِ علم اور سالکِ راہ ہم ان سب کی عظمتوں اور رفعتوں کے معترف، ان کے فیوض و برکات کے متمنی و متلاشی ، ان کی زیارتوں کے مشتاق ، اُن کی تعلیم و تلقین کے خوشہ چین اور اُن کے طریقِ زندگی کے پیرَو ہیں-

1-لال شہباز قلندرؒ (1177ء - 1274ء)

حضرت لعل شہباز قلندرؒ کی ولادت باسعادت مشہور قول کےمطابق 538ھ میں آذربائیجان کے قصبہ ’’مَروَند‘‘ میں ہوئی-[1] اسی مناسبت سے آپ کومروندی کہا جاتا ہے-آپؒ کانام محمد عثمان ہےجبکہ ”لعل او ر شہباز“ آپ کے القاب ہیں- آپؒ کاسلسلہ نسب سیدمحمدعثمان بن سید کبیر بن سید شمس الدین بن سیدنورشاہ بن سیدمحمودشاہ ہے جو گیارہ واسطوں سے حضرت امام جعفر صادق (رح)سے جاملتا ہے- [2]

ابتدائی تعلیم:

حضرت لعل شہباز قلندر ؒ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد گرامی سید کبیرالدین ؒ کے زیر سایہ حاصل کی- آپ نے 7 برس کی عمر میں قرآن پاک حفظ کرلیا اور بہت جلد مروجہ علوم و فنون میں بھی مہارت حاصل کرلى- [3]

بشارتِ غوثیہ:

بارگاہ غوثیہ میں حاضری کے دوران ایک مرتبہ حضور غوث اعظم ؒ خواب میں تشریف لائے اور آپ کو سینے سے لگایا اور خوشی کا اظہار کرتے ہوئےفرمایا: عثمان تم قلندر ہو- تمہیں فیوض و برکات دے دئیے گئے ہیں، اب تم یہاں سے مکہ مکرمہ جاؤ اور بیت اللہ کی قربت کی سعادت حاصل کرو -[4]

بیعت و خلافت:

حضرت عثمان مروندی حضرت امام موسىٰ کاظم (رح) کی اولاد سے حضرت شىخ ابو اسحاق سید ابراہىم قادری ؒ کے دست اقدس پر بیعت ہوئے[5] آپؒ کا تعلق سلسلہ عالیہ قادریہ سے تھا[6] اس کے علاوہ بعض محققین کے مطابق آپؒ نے حضرت بہاءالدین زکریا ملتانیؒ سے بھی اکتساب فیض کیاہے-

سندھ میں آمد:

آپؒ کی عادت کریمہ تھی کہ ایک جگہ قیام پذیر نہ رہتے بلکہ اکثر سفر پر رہتے- چنانچہ آپؒ نے ملتان اور پھر ہندوستان کے دیگر شہر گرنار،گجرات، جونا گڑھ، پانی پت،سندھ وغیرہ کا سفر اختیار فرمایا اور خوب نیکی کی دعوت کی دھومیں مچائیں- [7]

علمی مقام اور تدریس:

آپؒ زبردست عالمِ دین تھے -لِسانیات اور صرف و نحو میں آپ کو یدِ طولیٰ حاصل تھا-فارسى اور عربى پر کامل دسترس رکھتے تھے نیز آپؒ زبردست شاعربھی تھے-آپؒ نے کچھ مضامىن پر کتابىں بھى لکھى جن میں سے صرف صغیر قسم دوئم- اجناس اور میزان الصرف کےبارے میں کہا جاتا ہے کہ اُس دورکے مدارس کے نصاب میں بھی شامل تھىں- [8]

آپؒ حضرت غوث بہاؤالدین زکریا ملتانی سہروردیؒ کی صحبت میں مدرسہ بہاؤ الدىن میں فارسى اور عربى میں تدریس کے فرائض بھی انجام دیتے رہے - [9]

سیہون آمد:

حضرت لعل شہباز قلندر ؒ کی آمد سے قبل سیہون برائیوں اور بدکاریوں کا گڑھ تھا- آپ کے مبارک قدموں کے طفیل سیہون کی نگری سندھ اسلامی تہذیب کے مراکز میں شمار ہونے لگی -

وصالِ باکمال:21شعبان المعظم650 ھ[10]

2- حضرت مخدوم سیدنا محمد الحسنی القادری البغدادی (1408ء-1534ء)

ولادت، تعلیم، تبلیغ اسلام:

سید الہند سیدنا محمد قادری بغدادی (رح) كی ولادت مباركہ 25 رمضان المبارك 810ھ بروز جمعہ بمقام بغداد میں ہوئی- آپ كا اصل نام محمد ہے- آپ سیدنا كے لقب سے مشہور ہوئے- آپ کے والد محترم کا نام پاک حضرت مولانا سیّد السّادات ابو محمد شمس الدین درویش قادری بغدادی (رح) ہے- آپؒ محبوب سبحانی قطب لاثانی سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی(رح)كے فرزندوں میں سے سیدنا شاہ عبد الرزاق قادری جیلانی كی اولاد میں سیدنا سید محمد قادری بغدادی (رح)پیدا ہوئے- آپ کے والد محترم بغداد شریف میں اپنے آبائی خانقاہ قادریہ کے زیب سجّادہ بھی تھے- آپ غوث وقت اور شیخ زمانہ تھے[11] آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد سے حاصل كی اور پھر آپ نے بغداد كے ایك مدرسے میں داخلہ لیا اور اس مدرسے میں حفظ و قرأت كی تعلیم مكمل كی - ادب، فقہ، اصولِ فقہ، حدیث كا علم حضرت علامہ ابو اسحاق كوفی سے حاصل كیا - والد ماجد نے حضرت سیدنا كو 27 برس كی عمر میں شرف بیعت سے مشرف فرمایا اور سلسلہ قادریہ كی خلافت سے بھی نوازا-

حضرت سیدنا كو رسولِ پاك كی بشارت خواب میں نصیب ہوئی - رسول پاك (ﷺ)نے ارشاد فرمایا كہ :’’سید محمد قادری، تم كو اسلام پھیلانے ہندستان جانا ہے‘‘-[12]اس حكم كے مطابق 846ھ میں حضرت سیدنا نے 40 خلفاء كے ساتھ بغداد مقدس سے كوچ كیا- [13]

حضرت كے دست حق پر ہزاروں كی تعداد میں لوگ مشرف بہ اسلام ہوئے - والی بہار بھی حضرت کامرید ہو گیا -

3- حضرت موسٰی پاک شہید (رح) (1546ء-1602ء):

مدینۃ الاولیاء ملتان میں سادات حسینیہ جیلانیہ قادریہ کے موسس ِ اعلیٰ حضرت سید موسی بخش شہید تھے جیسا کہ منشی عبد الرحمٰن لکھتے ہیں مدینۃ الاولیہ ملتان میں سادات حسینیہ قادریہ کے بنیاد 985 ھ میں مخدوم حافظ سید ابو الحسن جمال الدین موسی الگیلانی المعروف موسی پاک شہید (رح)نے رکھی جن کا شجرہ نسب اور سلسلہ طریقت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی کے توسط سے نواسہ رسول (ﷺ) حضرت سیدنا امام حسن مجتبی بن علی المرتضی کرم اللہ وجہہ سے جا ملتا ہے -

حضرت ابو الحسن جمال الدین قدس سرہ العزیز نے علوم ظاہر کی تعلیم اپنے والد ماجد شیخ سید حامد گنج بخش سے حاصل کی جو علوم ظاہری و باطنی کے مجموع البحرین تھے- اور انہی کے دست حق پر بیعت کا شرف حاصل ہوا-

صاحب خزینۃ الاصفیا تحریر کرتے ہیں کہ حضرت موسی بخش شہید حالت بیداری میں حضور نبی کریم (ﷺ) کے جمال جہاں آرا سے بھی مشرف ہوتے تھے حضرت کو سردار اولیاء سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی (رض) کی بارگاہ سے خاص محبت اور روحانی تعلق کی دولت حاصل تھی-

مصنف تاریخ ملتان نور احمد فریدی نے لکھا ہے کہ آپ ؒ عہدِ مغلیہ میں ناظم ملتان رہے -[14]

4-علامہ جلال الدین نعمت اللہ شاہ قادری فیروزپوری(رح):

بنگال میں قادریہ سلسلے کے بزرگوں میں غیر معمولی شہرت و عظمت حاصل کی وہ عالم کبیر علامہ جلال الدین نعمت اللہ شاہ بن عطااللہ نارنولی ثم فیروزپوری ہیں - وہ نار نول میں پیدا ہوئےآپ کی تاریخ پیدائش کے حوالےسے کوئی مصدقہ روایت نہیں ملتی-حصول تعلیم کیلئے انہوں نے مختلف شہروں کے سفر کیے-[15] علم حدیث کی تعلیم انہوں نے شیخ محمد افضل عثمانی جونپوری سے حاصل کی شیخ محمد افصل جونپوری شیخ عثمان ہارونی ؒ کی اولاد میں سے تھے اور استاد الملک کے لقب سے مشہور تھے[16] اوراس کے بعد شادی کر کے فیروزپور گوڑ میں مقیم ہو گئے- سیف خان نے انہیں 400 فدا دین خراجی زمین فیروزپور گوڑ میں دے دی تھی-

بیعت:

 شاہ نعمت اللہ (رح) نے سلسلہ عالیہ قادریہ میں خرقہ خلافت شیخ شمس الدین ابو الفتحؒ [17]سے حاصل کیا-مغل شہزادہ شاہ شجاع جب اپنے والد کی طرف سے بنگال کا گورنر تھا تو اس نے علامہ جلال الدین نعمت اللہ شاہ قادری فیروزپوری کے دست حق پرست پر بیعت کی جس کی وجہ سے انہیں غیر معمولی حسن قبول اور وجاہت حاصل ہوئی-

علامہ جلال الدین نعمت اللہ شاہ قادری فیروزپوری صاحب تصنیف تھے ان کی تصانیف میں تفسیر قران کریم جو انہوں نے تفسیر جلالین کے طرز پر لکھی تھی اور1070ھ - 1659 ء میں مکمل کی تھی اور ترجمہ قران کریم جو انہوں نے دہلی کے قیام کے زمانے میں کیا تھا مشہور ہے-

وفات: 1075ھ-1665 ء گوڑ کے نواہ فیروز پور[18]

5-سلطان العارفین سخی سلطان حق باھو (رح) (1629ء-1693ء):

حضرت سلطان باھو (﷫) شورکوٹ میں 1039ھ میں پیدا ہوئے- حضرت سلطان باھو مادر زاد ولی اللہ تھے- حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کی طرح حضرت سلطان باھوؒ بھی شیرخوارگی کے ایام میں رمضان المبارک میں اپنی والدہ کا دودھ نہیں پیتے تھے-بلکہ صرف سحری و افطاری کے وقت اپنی والدہ کا دودھ نوش فرماتے تھے- [19]

حضرت سلطان باھوؒ کا سلسلہ نسب اکتسویں پشت میں امیر المؤمنین حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم سے جا ملتا ہے-سلطان العارفین حضرت سلطان باھو (رح) کا تعلق قبیلہ اعوان اور سیدنا علی المرتضٰیؓ کی غیر فاطمی اولاد سے ہے-

آپؒ کے والدحضرت بازید محمدؒ ایک نیک اور صالح انسان تھے اور مغل بادشاہ شاہجہاں کے دور میں منصب دار تھے-حضرت سلطان باھوؒ کی والدہ ماجدہ حضرت بی بی راستیؒ کا شمار اپنے دور کی نہایت ہی عابدہ، شب بیدار خواتین میں ہوتا ہے-

روحانی بیعت:

حضرت سلطان باھو(رح) کاروحانی بیعت کا واقعہ صاحبِ مناقبِ سلطانی بیان کرتے ہیں کہ:

’’ ایک دن حضرت سلطان باھوؒ شورکوٹ کے نواح میں گھوم رہے تھےکہ اچانک ایک صاحبِ نور، صاحبِ حشمت اور بارعب سوار نمودار ہوا- جس نے آگاہ کیا کہ میں علی ابن طالبؓ ہوں- آپؒ نے مولا علیؓ کو دیکھا تو دُور نہ تھا کہ آپؒ خود کو نثار کردیتے لیکن حضرت علی (رض) نے آپؒ پر توجہ مرکوز کی اور فرمایا کہ فرزند! آج تم رسول اللہ (ﷺ)کی بارگاہ میں طلب کیے گئے ہو- آپؒ نے لمحے میں خود کو دربار رسالتِ مآب میں پایا- جہاں حضرت سیدنا ابوبکر صدیق، حضرت عمر فاروق اور حضرت عثمان بن عفان (رض) نے آپؒ سے ملاقات فرمائی اور آپ کو تلقین کی اور رخصت ہوئے- بعد ازیں رسالت مآب (ﷺ) نے دستِ بیعت فرمایا‘‘-[20]

 آپؒ نے اپنی تصنیف ’’رسالہ روحی شریف‘‘میں بیان فرمایاہے:

دست بیعت کرد مارا مصطفیٰ
فرزند خود خواند است مارا مجتبیٰ
شد اجازت باھو رااز مصطفیٰ
خلق را تلقین بکن بہر خدا
خاک پائیم از حسین و از حسن
معرفت گشتہ است بر من انجمن[21]

’’مجھے محمد مصطفےٰ (ﷺ) نے دست بیعت فرمایا، اپنا فرزند قرار دیااور خلقِ خدا کو تلقین کرنےکی ذمہ داری سونپی- میں حسن و حسین (رض) کی خاکِ پا ہوا اور معرفت میری انجمن بنی‘‘-

 بعد ازاں رسول اللہ (ﷺ)نے آپؒ کو جناب غوث الثقلین حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کے سپرد فرمایا- آپؒ فرماتے ہیں کہ حضرت پیر دستگیرؒ نے سرفرازی کے بعد مجھے خلقت کے ارشاد و تلقین کا حکم دیا-

ظاہری بیعت:

سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کے حکم پر آپؒ نےظاہری بیعت دہلی کے شیخ حضرت پیر سید عبدالرحمٰن گیلانی قادریؒ کے دست مبارک پر کی-[22]آپؒ نے فارسی زبان میں فقر و عرفان اور حقیقت انسانیہ پر140 کتب تصنیف فرمائی ہیں اس میں آپؒ کا شہرہ آفاق پنجابی/سرائیکی کلام بھی شامل ہے –

آپ اُن اولیاء کاملین میں شمار کئے جاتے ہیں جن کی کراماتِ مبارکہ کو بہت شہرہ ملا - حتیٰ کہ بعد از وفات بھی آپ کی کرامات اور آپ کا فیض جاری و ساری ہے

وصال:یکم جمادی الثانی بروز جمعرات 1102ھ  

6-تاج العارفین شاہ محمد مجیب اللہ قادری(رح) (1687ء-1777ء)

آپ کی ولادت بروز جمعۃ المبارک بوقت صبح صادق 1098ھ بمطابق 1687ء کو ہوئی جو کہ مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کی حکمرانی کا آخری سال تھا-آپ کی ولادت با سعادت پھلواری شریف، پٹنہ ، بہار میں ہوئی-

آپ کے والد کا نام حضرت شاہ ظہور اللہ قادریؒ تھا - جب آپؒ کی عمر قریباً 6 برس کے قریب تھی تو آپ کے والد فوت ہوگئے اور آپ کی پرورش کی ذمہ داری آپؒ کے والدکے عزیز مخدوم برہان الدین قدس اللہ سرہ نے اٹھالی-

آپ بنارس میں حضرت سید محمد وارث رسولنما کے پاس باقی علوم کی تحصیل کے لیے بھیج دیئے گئے - [23]حضرت سید محمد وارث رسولنما کی علمی شہرت تو پورے ہندوستان میں تھی ہی لیکن اس کے ساتھ ساتھ آپ کو بارگاہ رسالت مآب (ﷺ) میں خصوصی توجہ اور کرم نوازی حاصل تھی - جب تاج العارفین شاہ محمد مجیب اللہ قادری کو اپنے استاد کے روحانی مقام و مرتبے کا ادراک ہوا تو انہوں نے اپنے مخدوم صاحب کی اجازت سے اپنے استاد کو اپنے مرشد کی حیثیت سے بھی تسلیم کیا اور ان سے روحانی منازل و اسباق طے کرنے شروع کردیے اور7 برس تک علوم ظاہری اور باطنی دونوں میں کمال حاصل کر لیا- حضرت سید وارث رسولنما کی باطنی توجہ اور روحانی کمالات سے آپ کو بارگاہ رسالت (ﷺ) کی زیارت کا شرف بھی نصیب ہوگیا- [24] آپؒ نے اپنی ظاہری بیعت سلسلہ قادریہ میں خواجہ قلندر مخدوم عماد الدین ؒسے کی- [25]

وصال: 1191ھ بمطابق 1777ء- پٹنہ /بہار -

7-حضرت میر محمد ہاشم القادری (رح):

آپؒ 1125 ھ میں کشمیر میں تشریف فرما ہوئے،[26] آپؒ حسنی سادات میں سے تھے اور آپؒ کی آبائی نسبت حضور سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ سے ملتی ہے-آپؒ کی تاریخ پیدائش کے حوالے سے مؤرخین میں اختلاف پایا جاتا ہے-خاندانِ غوثیت کی رزاقی شاخ کے چشم و چراغ، عابد و زاہد اور مُتَّبِعِ شریعت تھے- [27]

سلسلہ نسب:

آپؒ میر سید محمد گیلانی (رح) کے فرزند اور مرید تھے جو ابن میر سید عبداللہؒ ابن میر سید احمد ؒ ابن میر سید عمر ؒ ابن میر سید ابراہیمؒ ابن میر سید حسین ؒ ابن میر سید محمد جرمونیؒ ابن میر سید یوسف ؒ ابن میر سید عبدالرزاق ؒ ابن میر سید میمون ؒ ابن میر سید مسعود ؒ ابن میر سید محمد ؒ ابن میر سید حسین ؒ ابن میر سید محمد صالحؒ ابن جناب حضرت غوث الاعظم سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانیؒ تھے-وہ معارف کے بحر بیکراں اور اطاعت کے ایک کوہ مستقیم تھے شب و روز میں دو اور کبھی کبھی تین ختم قران کرتے تھے اس کے علاوہ نماز میں بھی ایک ختم کرتے تھے -اس طرح لوگوں کی آمد و رفت سے بالکل فارغ تھے لوگوں کے نیک و بد کی طرف ہرگز دل نہ لگاتے تھے- نمازِ فجر کے بعد اشراق تک عصر کے بعد مغرب تک بلکہ کبھی کبھی آخر شب تک اور جمعۃ المبارک کو ذکر جہر میں سرگرم رہتے تھے انہوں نے اپنی بارگاہ میں آنے والے لوگوں پر طریقہ قادریہ کے خاص عنایات فرماتے-انہوں نے صوری و معنوی نسبت انہی حضرات عالی درجات سے پائی تھی-آپؒ صاحب کرامت بزرگ تھے اور آپؒ سے بہت سی کرامات کا اظہار ہوا جو ثمرۃ الاشجار میں درج ہیں-[28] انہوں نے تلاوت کو سرعت سے کرنے کی عادت کو ڈالا اس کے بغیر ان کو اور کوئی کام نہ ہوتا تھا-[29] خاص کر زندگی کے آخری روز جبکہ بڑی ہی سرعت میں تھے گویا آخرت کا قصد کیا ہوا تھا، رحلت کے وقت اسم ذات پوری قوت کے ساتھ ان کے سینہ مبارکہ سے سنا گیا -[30]

آخر 27 شوال کو ہزاروں برکتوں اور جلال اور قوت حال کے ساتھ 1238ھ-1823ء کو وصال فرمایا [31] درویشوں میں ایک بزرگ جو غسل دینے میں شامل تھے انہوں نے کہا کہ اس رات میں نے خواب دیکھا کہ میں حضرت اعظم (رح) کے جسدِ مبارک کو غسل دے رہا ہوں آپؒ کا مزار پرانوار کشمیر میں موضع حول میں مرجع خلائق ہے -[32]

8-حضرت مولانا عبد الغفور اخوند قادری (المعروف سیدو بابا) (1794ء-1878ء):

اخوند صاحبِ سوات کا اصل نام عبدالغفور اور والد کا نام عبدالواحد تھا- آپ سوات کے علاقے شامیزئی میں جبڑی کے مقام پر 1794ء میں پیدا ہوئے- آپ افغان قوم کے مہمند قبیلے صافی سے تعلق رکھتے تھے - اخوند صاحبِ سوات کو نہ صرف سوات بلکہ پورے خیبر پختونخوا میں”سیدو بابا ‘‘ کے نام سے جانا پہچانا جاتا ہے-[33]

حصولِ علم اور تلاشِ حق کے لیے صوبہ خیبر پختونخوا کے فاضل علماء اور خدارسیدہ مشایخ کے پاس زانوئے تلمذ تِہ کرتے رہے- آپ شیخ المشایخ محمد شعیب ساکن تورڈھیری کی خدمت میں پہنچے اور سلسلہ عالیہ قادریہ میں ان کے دست حق پر بیعت ہوئے اور وہاں ایک جھونپڑی میں رہ کر 12 برس تک مجاہدہ اور ریاضت کرتے رہے-[34] سیدو بابا تمام قبائل میں مذہبی طور پر ایک بلند پایہ حیثیت کے حامل انسان تھے- ریاست سوات کے والی صاحبان حضرت سیدو بابا قادری کے خاندان کے چشم و چراغ تھے -

وفات: 12 جنوری 1878ء ، سوات -[35]

9-غوث زماں خواجہ عبد الرحمٰنؒ چھوہروی (1846ء-1924ء)

غوث زماں قدوۃ الاولیاء حضرت خواجہ عبد الرحمٰن قادری کی ولادت 1262ھ بمطابق 1846ء میں موضع چھوہر (ضلع ہری پور) میں ہوئی- اسی نسبت سے آپ کو ’’چھوہروی‘‘ کہا جاتا ہے -

غوث زماں کااسم گرامی خواجہ عبدالرحمٰن، والد کا نام خواجہ خضری صاحب ہے- آپ کا نسب شریف علوی ہے - حضرت عبد الرحمٰن چھوہروی کی عمر ابھی 8 برس کی تھی کہ آپ کے والدکا وصال ہو گیا-

آپ کے اخلاق خاتم النبیین آقا دو جہاں (ﷺ) کے ارشادات عالیہ کے عین مطابق تھے- آپ علماء، فقراء و سادات کا انتہائی ادب و احترام کرتے-

تحصیل علم :

آپ شیبان الراعی اور سخی سلطان باھُو کی طرح ایسے گروہِ صوفیہ سے ہیں جو بظاہر ’’اُمی‘‘ تھے یعنی ظاہری تعلیم نہ رکھتے تھے لیکن فیضان الٰہی سے آپ کو علوم و معارف کے خزائن حاصل ہو گئے- آپ کو اللہ تعالیٰ نے علم لدنی عطا فرمایا تھا آپ نے متعدد کتابیں لکھیں جن میں ’’مجموعہ صلوات الرسول (ﷺ)‘‘ نہایت اہم ہے ، اس کے تیس پارے ہیں اور ہر پارہ قرآن مجید کے پارے سے تقریباً دو گنا بڑا ہے- ہر پارے میں حضور نبی اکرم (ﷺ) کے ایک ایک وصف کا کتاب وسنت کے مطابق بیان ہے، آپ نے عظیم الشان کتاب12سال 8ماہ میں مکمل فرمائی- [36] حیرت کی بات یہ ہے کہ آپ نے بظاہر لغتِ عربیہ و علومِ لسان و بیان کو نہ پڑھا تھا مگر عربی زبان میں ایسی محیر العقول کتاب تصنیف فرمائی جو مقبولِ اُمت ہوگئی -

بیعت و خلافت:

آپ ؒ نے حضرت شیخ یعقوب شاہ گن ؒ چھتروی قدس اللہ سرہ کشمیر سے سلسلہ عالیہ قادریہ میں بیعت ہوکر خصوصی نظر عنایت سے بہرہ ور ہوئے- [37]آپ کا سلسلہء فیض پاکستان ، ہندوستان ، برما اور بنگلہ دیش تک پھیلا ہوا ہے -آپ نے عامۃ الناس کی رہنمائی کیلئے نہایت مفید تصانیف رقم فرمائیں -

آپ کی عمر تقریباً80 برس تھی جب آپ کا وصال یکم ذو الحج 1342ھ ، 1924ءمیں ہوا-

10-اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری حنفی (رح) (1856ء-1921ء):

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری حنفی (رح)کی نابغۂ روزگار شخصیت نے تنہا وہ کام سر انجام دئیے جو ایک تحریک انجام نہيں دے سکتی-آپؒ نامور محدث، فقیہہ اور عارف با اللہ تھے - آپ کے القاب میں امام اہلسنت (اپنے وقت میں اہلسنت و جماعۃ کے سب سے بڑے امام ، جس کے گواہ ہزاروں علمائے عرب و عجم) مجددِ دین و ملت (حضرت مجدد الف ثانی اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے بعددین و ملت کی تجدید کا سب سے بڑا کام) حامی السنن (سنتِ رسول کی عقلاً و نقلاً حفاظت او ترویج) ماحی الفتن (خوارج و روافض ، گستاخانِ مصطفےٰ (ﷺ)، منکرینِ ختمِ نبوت اور فرقہ پرست انتہا پسند فتنوں کی سرکوبی) جیسے عظیم القاب شامل ہیں -

وِلاد ت باسعادت:

آپ (رح) کی ولادت باسعادت بریلی شریف کے محلہ جَسولی میں 10 شوال اکمکرم 1272ھ بروز ہفتہ بوقتِ ظہر مطابِق 14 جون 1856 کو ہوئی- [38]آپ کا نسبی سلسلہ افغانستان کے مشہور و معروف قبیلہ بڑہیچ سے ہے -[39]

تعلیم و تربیت:

آپؒ کی تعلیم و تربیت بچپن ہی سے آپ کے والد نقی علی خان کے زیر نگرانی میں ہوئی- نیز اس زمانے کے علماء کرام سے بھی ظاہری و باطنی علوم سے آراستہ و پیراستہ ہوئے-6سال کی عمر میں قرآن کریم کا ختم کیا-8سال کی عمر میں ھدایۃ النحو کی شرح لکھی جو آپ کی پہلی شرح تھی اور 10سال کی عمر میں اصولِ فقہ حنفی کی مشکل کتاب مُسلم الثبوت پر حاشیہ تحریر فرمایا-آپ نے یوپی (ہندوستان )میں عظیم قادری خانقاہ مارہرہ شریف کے خاتم الاکابر قطبِ دوراں حضرت سید شاہ آل رسول احمدؒ سے شرفِ بیعت حاصل کیا -

آپ کی تصانیف کی تعداد1000سے زائد ہے جو کہ مختلف علوم و فنون پر مشتمل ہے- گو کہ امام احمد رضا خان قادری کی عمومی شناخت آپ کی علمی جلالت ہے مگر یاد رہے کہ آپ میدانِ طریقت و معرفت کے بھی ایسے شہسوار تھے جنہیں بارہا مرتبہ عالمِ بیداری میں سید الانبیا (ﷺ) کی زیارت کا شرف حاصل ہوا - بیت اللہ شریف میں آپ کو حالتِ بیداری میں سیدنا علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور سیدنا غوث الاعظم ؒ کی زیارت کا شرف حاصل ہوا - یہ آپؒ کے فیض روحانی ہی کی تاثیر ہے کہ قادریہ ، چشتیہ ، نقشبندیہ ، سہروردیہ اور دیگر تمام معروف و غیر معروف سلاسل کے مشائخ نے آپؒ کو اپنا مقتدا و پیشوا بنایا -

وصال:

 بروز جمعۃ المبارک 25صفرالمظفر 1340ھ، بمطابق 28 اکتوبر 1921ء بروز جمعۃ المبارک کو ہوئی - آپ کا مزارِ پُر انوار بریلی شریف (انڈیا) میں مرجعِ خلائق ہے-

11-سلطان الفقر حضرت سلطان محمد اصغر علی (رح)(1947ء-2003ء):

14 اگست 1947ء بمطابق 27 رمضان المبارک 1366ھ بروز جمعۃ المبارک کےدن خانوادہ سلطان العارفین حضرت سلطان باھوؒ میں ایک روحانی شخصیت کا ظہور ہوا جنہیں دنیا سلطان الفقر سلطان محمد اصغر علی صاحب کے اسمِ گرامی سے جانتی ہے- حضرت سلطان محمد اصغر علی صاحبؒ کا بچپن اور جوانی پاکیزگی میں اپنی مثال آپ تھی، آپ خوبصورت، تندرست و توانا، خوش اخلاق اور منزہ سیرت کے مالک تھے- ابتدائی عمر میں ہی آپ فہم و فراست اور قابلیت میں یگانہ روزگار تھے- والد گرامی(ولیٔ کامل) کی صحبت میں رہ کر بطور طالبِ مولیٰ اپنے مرشد کی خدمت شروع کر دی-آپ نے بطور ایک کارکن اور طالبِ مولیٰ مستعدی اور دلجمعی کے ساتھ اپنے والد و مرشد سے دین و دنیا اور فقر و معرفت کے تمام رموز سے واقفیت حاصل کی-

1979ء میں حضرت سخی سلطان عبد العزیز صاحب (قدس اللہ سرّہٗ) نے حضرت سلطان محمد اصغر علی صاحبؒ کو بیعت فرمایا اور تلقین و ارشاد کی اجازت مرحمت فرمائی-

اصلاحی جماعت:

آپ نے 1987ء میں چند احباب کو اپنی صحبت میں رکھ کر ان کی ظاہری و باطنی تربیت فرمائی اور تین جماعتیں دعوت و تبلیغ اور عوام کی باطنی اصلاح کیلئے روانہ فرمائیں-اس جماعت کو ’’اصلاحی جماعت‘‘کا نام دیا-

عالمی تنظیم العارفین:

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب آپ نے جماعتی بنیادوں پر ملتِ اسلامیہ کا جائزہ لیا اور 1999ء کے اواخر میں ایک اور شعبہ ’’عالمی تنظیم العارفین‘‘ کی بنیاد رکھی جس کا مقصد دنیا میں پستے ہوئے مسلمانوں کے حقوق کی آواز اٹھانا اور سعی پیہم کےذریعے ملت اسلامیہ کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا ہے-بانیٔ اصلاحی جماعتؒ نے اپنے مریدین کو صرف روایتی مرید کی بجائے ایک متحرک کارکن بنایا اور جمود و تنزل کی بجائے جہدو تحرک کو ان کارکنان کی زندگی کا شعار بنایا -[40]

تربیتِ روحانی:

آپ نے عہدِ جدید کی ضروریات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے روحانی تربیت کا نصاب مرتب فرمای اور اپنی صحبت میں آنے والے ہزاروں نوجوانوں کی منہجِ غوثیہ قادریہ پہ تربیت فرمائی-آپؒ نے تعلیماتِ حضرت سلطان العارفین کا عملی احیاء فرمایا آج آپ کی مساعی کی بدولت ملک بھر میں اور بیرونِ ممالک بھی روزانہ کی بنیاد پر سخی سلطان حق باھُو کی تصانیف کا درس ہوتا ہے اور ذکرِ الٰہی کی مجالس برپا کی جاتی ہیں- آپؒ کے قائم کردہ مدارس سے ہزاروں علمائے کرام قال اللہ اور قال رسول اللہ (ﷺ) سے سینے روشن کر رہے ہیں - آپ ؒ کی تحریک و تربیت کی بدولت لاکھوں لوگ فتنوں اور فتنہ گروں کی آگ کا ایندھن بننے سے محفوظ ہوئے- آپؒ کے جانشین حضرت صاحبزادہ سلطان محمد علی صاحب تلقین و تربیت کے اس کاروان کو آگے لے کے چل رہے ہیں -

آپؒ کا وصال 26دسمبر 2003ء بروز جمعۃ المبارک صبح صادق کے وقت ہوا- [41]

اختتامیہ:

یہ بات تاریخی و تجربی اعتبار سے اظہر من الشمس ہے کہ سرسبحانی، محی الدین شیخ عبد القادر الجیلانی الحسنی (رح) کا فیضان باکمال لاکھوں کروڑوں لوگوں کے سینے روشن کیے ہوئے ہے - آپؒ کی تعلیمات و فیضان کے سیاسی و سماجی اور معاشی و معاشرتی اثرات کا مطالعہ کیا جائے تو انسان حیران رہ جاتا ہے کہ کوئی شخصیت اتنی نابغہ روزگار بھی ہو سکتی ہے کہ جس کی شخصیت و فیضان کا یہ عالم ہے کہ آپؒ کے فیض یافتہ لوگ ہمیں تاریخ کا دھارہ بدلتے ہوئے نظر آتے ہیں ان بزرگوں کے کمالات اور خدمات اس کی ایک چھوٹی سی جھلک ہے-آپ عرب و عجم کے مرشد و مربی ہیں اور آپ کے روشن کردہ چراغ آج تک دنیاکی راہبری کررہے ہیں اور قیامت تک کرتے رہیں گے- آپ کے ترتیب دیے ہوئے علمی و تربیتی نصاب میں اتنی وسعت اور کمال ہے کہ دور جدید کے تمام انسانی اور معاشرتی ظاہر اور باطنی تمام مسائل کا حل تلاش کیا جاسکتاہے - آج کے دور میں تعلیمات ِ غوثیہ کو پڑھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے-

٭٭٭



[1](اللہ کے خاص بندے، عبدہ،ص:523)

[2]( شان قلندر،ص:264)

[3]( شان قلندر،ص:268)

[4](سیرتِ حضرت لعل شہباز قلندر،ص:84)

[5](شان قلندر،ص:270)

[6] (تاريخ ادبيات مسلمانان پاکستان و هند ،ص: 99)

[7](اللہ کے خاص بندے، عبدہ،ص:529)

[8]( سیرت پاک حضرت لعل شہبازقلندر وغیرہ، ص:24 بتغیر، وغیرہ)

[9]( شہبازِ ولایت، ص:25)

[10](اللہ کے خاص بندے، عبدہ،ص:523)

[11]( سید محمد سلمان چشتی، خانقاہ چشتیہ چھوٹا شیخ پورہ نوادہ)

[12]( صوفی ازم ان بہار، از پروفیسر حسن عسكری، مناقب محمدیہ ،ص:66)

[13]( مناقب محمدیہ قلمی، ص:81)

[14](فریدی، مولانا نور احمد، تاریخ ملتان، ج:2، (ملتان، قصر الادب، 1977ء)،ص: 135)

[15]( قدوسی، محمد اعجاز الحق،تذکرہ صوفیاء بنگال، لاھور، 1965، ص:386-)

[16](نزہتہ الخواطر، ج: 4، ص:359)

[17](نیازی، اے کے، مرآۃ العارفین (سپیشل ایڈیشن) لاہور: العارفین پبلیکیشنز، 2008ء، ص:40)

[18](قدوسی، محمد اعجاز الحق، تذکرہ صوفیاء بنگال،لاھور، 1965ء، ص: 419)

[19](سلطان،حامدعلی،مناقبِ سلطانی، (لاھور: شبیر برادرز،2007)،ص:27)

[20](ایضاً،ص:31-32)

[21](سلطان، حضرت باھوؒ، رسالہ روحی شریف، (لاہور:العارفین پبلیکیشنز،)، ص: 27)

[22](سلطان، حامد علی، مناقب سلطانی، ص: 58)

[23]( نفحتہ الطیب، ص: 39)

[24]( نقل مکتوب از مولانا محمد حسین پھلواروی)

[25]( تذکرۃالکرام ، ص-663)

[26](تذکرہ اولیائے کشمیر: اسرار الاخیار، کشمیر: فاروق اینڈ کو، 1989، ص:72)

[27]https://www.dawateislami.net/magazine/ur/apne-buzurgo-ko-yaad-rakhiye/shawwal-ul-mukarram-mein-urs#_ftn5

[28](اعظمی، ثمرۃ الاشجار)

[29]https://www.scholars.pk/ur/scholar/meer-muhammad-hashim

[30](تذکرہ اولیائے کشمیر: اسرار الاخیار، کشمیر: فاروق اینڈ کو، 1989، ص:72)

[31]( طاہری، پیرزادہ عبدالخالق، تاریخ بزرگانِ کشمیر،سرینگر: ، ص:660)

[32](احمد، سید امام الدین، تذکرۃالانساب، مہاراسٹرا، 2016،ص:133)

[33]( راہیؔ، فضل ربی سوات سیاحوں کی جنت، ص:166)

[34]( گیلانی، محمد امیر شاہ قادری، تذکرہ علماء و مشائخ سرحد،پشاور: ص: 150)

[35]( یوسفی، اللہ بخش، تاریخ ریاست سوات، ص :75)

[36]https://www.scholars.pk/ur/scholar/hazrat-khwaja-muhammad-abdul-rehman

[37]( گیلانی، محمد امیر شاہ قادری، تذکرہ علماء و مشائخ سرحد،پشاور: 2002، ص:150)

[38](حیاتِ اعلیٰ حضرت ، ج:1، ص:58، مکتبۃ المدینہ بابُ المدینہ کراچی)

[39](شاہ احمد رضا خان بڑیچ افغانی از قلم محمد اکبر اعوان مطبوعہ کراچی ص :35)

[40](ایضاً، ص: 08)

[41](ماہانہ مرآۃالعارفین انٹرنیشنل، شمارہ اکتوبر 2014،(لاہور: العارفین پبلیکیشنز، 2014)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر