علم کیا ہےاورجہالت کیاہے؟(علامت قیامت کی احادیث مبارکہ سے ایک مطالعہ)

علم کیا ہےاورجہالت کیاہے؟(علامت قیامت کی احادیث مبارکہ سے ایک مطالعہ)

علم کیا ہےاورجہالت کیاہے؟(علامت قیامت کی احادیث مبارکہ سے ایک مطالعہ)

مصنف: صاحبزادہ سلطان احمد علی نومبر 2020

اس وقت دنیا میں جہاں بھی مسلمان بستے ہیں وہ چار چیزوں کا سامنا کر رہے ہیں -

(1) ایک تو اُن میں اجتماعی سوچ رفتہ رفتہ ختم ہوتی گئی ، اور اب یہ عالَم ہے کہ نہ یکجہتی ہے نہ اتحاد ہے اور نہ ہی بطور ایک امت کے کوئی مشترکہ مقاصد کو اہمیت دیتا ہے- بلکہ مشترکہ مقاصد کو مضحکہ خیز انداز میں پیش کیا جانے لگا ہے اور اس پہ ذاتی اور چھوٹے چھوٹے گروہی مفادات نے سبقت لے لی ہے-

(2) اس پہلے سبب سے دوسرا مسئلہ جڑا ہے کہ مسلمان جہاں بھی ہیں بطور ایک امت کے مظلوم ہیں مثلاً فلسطین ہو یا کشمیر، افغانستان ہو یا شام، یمن ہو یا برماجہاں بھی قابض طاقتوں کا سامنا ہے، ظلم کا شکار ہیں- انصاف کی ضد ظلم ہے اور عالمِ اسلام میں عدل و انصاف کا نظام انتہائی کمزور ہو چکا ہے جس وجہ سے مسلم اکثریتی ممالک کے مسلمان بھی ظلم سے آزاد نہیں  ہیں-

(3) تیسرا یہ کہ مسلمان جہاں بھی ہیں ان میں اضطراب بہت زیادہ ہے اس کی ایک وجہ تو یہ ظلم ہے اور اس کے ساتھ ساتھ دنیائے اسلام سے علم کا اٹھ جانا بھی ان کے اضطراب میں مزید اضافہ کر رہا ہے-

(4) چوتھی چیز ہمارا اخلاقی انحطاط و اخلاقیات کا زوال ہے- اخلاقیات کے وہ بنیادی پیمانے جن پہ ہماری معاشرت کی بنیاد تھی ، ہمارے درمیان سے مفقود ہو گئے ہیں - جس وجہ سے ہمارے سیاسی، عمرانی، عسکری، تمدنی اور معاشی توازن بری طرح لڑکھڑا رہے ہیں جس سے دنیائے اسلام میں ایک مسلسل افراتفری کا عالَم جنم لے رہا ہے -

بطور مذہبی اقلیت کے ہم کہیں بس رہے ہیں یا  چاہے مسلم اکثریتی ملک میں ہیں،مسلمانوں میں یہ اضطراب اور افراتفری بالکل واضح طور دیکھی جا سکتی ہے- کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے کہ شاید کسی کو کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ بطورِ امت ، ہماری اس کیفیت کا اختتام اور انجام کیا ہوگا- اِس لئے عالمِ اسلام کے مسائل کو قربِ قیامت کی احادیث مبارکہ کی روشنی میں ایک نئے تناظر سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں- جس میں علم اور جہالت کی تعریف (Definition) کو سمجھنے کی کوشش کریں گے اور ساتھ ہی ساتھ دنیائے اسلام میں فی الوقت غالب تہذیب سے جنم لینے والے اخلاقی انحطاط کا بھی جائزہ لیں گے-

میرے دوستو!جہاں ہماری نظرسیاسی و سماجی حالات پہ جاتی ہے وہیں حضور خاتم النبیین رحمۃ اللعالمین (ﷺ) کے فرامین اور بشارتوں کی صورت میں ایک روشن و تاباں باب کھلتا ہے جو ہمیں یہ احساس دلاتا ہے کہ شاید ہم قرب قیامت کے زمانے میں آن پہنچے ہیں- جیسا کہ رسول اللہ (ﷺ) کی حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ جیسے جیسے زمانہ قیامت کے قریب جائے گا یہ علامات جو میں بیان کررہا ہوں یہ ایک ایک کر کے واضح ہوتی جائیں گی-جس کی تشبیہ یوں دی کہ جیسے دھاگے میں پرویا ہوا ہار ہوتا ہے- جب وہ دھاگہ کٹتا ہے تو ایک کے پیچھے دوسرا، دوسرے کے پیچھے تیسرا اور اسی طرح وہ سارے دانے اس دھاگے سے کٹ کے ایک ایک کر کے باہر آجاتے ہیں- اس لئے فرمایا گیا کہ تمہاری ہدایت و رہنمائی کے لیےقربِ قیامت کی جو علامات مَیں بیان کر رہا ہوں، ایک ایک کر کے اس دھاگے کے ٹوٹنے سے دانے باہر آجانے کی طرح یہ تمام علامات ایک ایک کر کے ظہورپذیر ہوتی چلی جائیں گی-

اللہ تعالیٰ کے اس فرمان پرمسلمان یقین رکھتا ہے کہ:

’’اِنَّ السَّاعَۃَ لَاٰتِیَۃٌ لَّا رَیْبَ فِیْہَاز وَلٰـکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یُؤْمِنُوْنَ‘‘[1]

’’بے شک قیامت ضرور آنے والی ہے، اس میں کوئی شک نہیں- لیکن اکثر لوگ یقین نہیں رکھتے‘‘-

یعنی فقط وہ لوگ اس قیامت کا انکار کرتے ہیں جن کے اندر ایمان کی پختگی نہیں ہےمثلاً جو مشرکین کا طریق تھا یا جس طریق سےامت کے وجود میں آنے کے بعد امت میں الحاد کی مختلف صورتیں وقوع پذیر ہوتی رہیں یا آج جسے آپ ملحدین کے نام سے جانتے ہیں وہ قیامت کا انکار کرتے ہیں- قرآن مجید ان کے اس گمراہ عقیدے کو رد کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ قیامت کے آنے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے- قیامت پہ یقین شرطِ ایمان ہے -

ہمارے ہاں علمی و دینی روایت میں فقط رسول اللہ (ﷺ) سے سیدنا آدم(علیہ السلام) ابوالبشرتک کا زمانہ شمار کیا جاتا تھا حالانکہ اس سے پہلےبھی کائنات کی ایک طویل زندگی کا وجود تھا-لیکن جیسے جیسے علوم میں ارتقاء ہوا، سائنس ہمیں لاکھوں کروڑوں سال پہلے کی زندگی کی طرف لے جاتی ہے؛تو یہ جتنی بھی زندگی ہے اس کے متعلق رسول اللہ (ﷺ) کی احادیث مبارکہ اسلام کے تصور قیامت کو بڑے انوکھے اور شاندار انداز میں واضح کرتی ہے-

صحیح بخاری میں حضرت سَهْل (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا :

’’بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَةُ هَكَذَا وَيُشِيْرُ بِإِصْبَعَيْهِ فَيَمُدُّ بِهِمَا‘‘[2]

مجھے اور قیامت کو اس طرح بھیجا گیا ہے اور آپ (ﷺ) نے اپنی دونوں انگلیوں سے اشارہ کیا اور ان کو کھینچا ‘‘-

آقا کریم (ﷺ) کے فرمان کا مقصود یہ ہے کہ میرے بعد قیامت میں زیادہ فاصلہ نہیں ہوگا اس لیے جو زمانہ آخر ہے میرے بعد قریب ہوگا-اسی طرح آپ (ﷺ) نے قیامت سے متعلق ہرچیز بیان فرمائی-مثلاً امام بیہقیؒ کی روایت ہے کہ آپ (ﷺ)نے قیامت کے متعلق بتایا کہ :

’’قیامت محرم الحرام کےمہینہ میں جمعہ کے دن عصر اور مغرب کے درمیان آئے گی‘‘-[3]

 لیکن آپ (ﷺ)نے سال /برس کا تعیُّن بیان نہیں فرمایا کہ کس سال آئے گی - اس لیے قرآن کریم میں ہے کہ :

’’فَيَأْتِيَهُمْ بَغْتَةً وَهُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ ‘‘[4]

’’اُن کے سروں پر قیامت اچانک آئے گی اور اُن کو اس کا شعور بھی نہ ہو گا‘‘-

آقاکریم (ﷺ) کا قیامت کا سال نہ بتانے کی حکمت مفسرین کرام نے یہ بیان کی کہ اگر آپ (ﷺ) قیامت کا وقت بتا دیتے کہ قیامت اس برس آئے گی تو قیامت کا اچانک پن نہ رہتا جسے قرآن کہتا ہے کہ قیامت اچانک آئے گی- چونکہ حضور (ﷺ) نبی ہیں اور نبی وحی کا مصدق ہوتا ہے اس لئے آقا کریم (ﷺ) کا قیامت کا برس متعین نہ کرنا آپ (ﷺ) کےتصدیقِ وحی کی علامت ہے-

آقا کریم (ﷺ) نے اس کے علاوہ قیامت کی جو نشانیاں بیان فرمائیں ان میں سے چند منتخب احادیث مبارکہ بیان کرنا چاہوں گا جس  سےیہ اندازہ ہوگا کہ ہم کس زمانے میں اور کس وقت میں رہ رہے ہیں-

متفق علیہ حدیث ہے سیدنا انس (رضی اللہ عنہ) نے روایت فرمایا ہے کہ آقا دو عالم(ﷺ)نے ارشادفرمایا کہ:

’’إِنَّ مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ ‘‘-[5]

علامات قیامت میں سے یہ ہے کہ:

1)      ’’أَنْ يُرْفَعَ الْعِلْمُ ‘‘ علم اُٹھ جائے گا

2)      ’’وَيَثْبُتَ الْجَهْلُ ‘‘ اور جہالت پھیل جائے گی

3)      ’’وَيُشْرَبَ الْخَمْرُ ‘‘اور (علانیہ) شراب پی جائے گی

4)      ’’ وَيَظْهَرَ الزِّنَا ‘‘اور بدکاری پھیل جائے گی-

آپ (ﷺ) کے فرمان ’’علم اٹھ جائے گا اور جہالت پھیل جائے گی‘‘پہ ایک جدید سوال وارِد کیا جاتا ہے کہ ذرائعِ علم تو عام ہو گئے ہیں- مثلاً پہلے علم حاصل کرنے کیلیے کسی کتب خانے میں جانا پڑتا تھا، مطالعے کیلیے گھر میں ایک کمرہ مخصوص کر کے اس میں شیلفیں بنوا کے کثیر خرچہ کر کے آپ کو کتب رکھنی پڑتی تھیں- اگر آپ نے سفر پہ جانا ہے تو جیسے ہم آئمہ کرام کی کتب میں پڑھتے ہیں کہ امام شافعی چلتے تو ان کے ساتھ سترہ اونٹ کتابوں کے لدے ہوئے چلتے تھے اور بعض نے تو ستر اونٹوں کا شمار کیا ہے- اب تو انسانوں کو اونٹ لادنے اور کمرہ مختص کرکے شیلفیں بنانے کی بھی ضرورت نہیں ہے-اب تو اتنی آسانی ہے کہ اپنے موبائل میں ایک ایپ ڈاون لوڈ کر لیں اس میں تیس ہزار کتب آپ کو مل جاتی ہیں- اگرآپ کے پاس زیادہ کیپسٹی کا میموری کارڈ ہے تو لاکھوں فری کتابیں آپ ڈاون لوڈ کر کے اپنے موبائل فون میں رکھ سکتے ہیں- اس لئے معترض کہتا ہے کہ علم اٹھنے کی بجائے پھیل چکا ہے اور علم کے پھیلنے کا مطلب جہالت اٹھ جانا ہے لیکن آپ (ﷺ) نے فرمایا کہ جہالت پھیل جائے گی-

 میرے دوستو! یہ بڑی ایک لطیف بات ہے کہ اس حدیثِ مبارک میں علم سے مراد کیا ہے اور باقی احادیثِ مبارکہ جو اسی بات پہ وارد ہوئیں وہ علم اور جہالت کی وضاحت کیسے کرتی ہیں- اگر آپ مذہبی علمیات (religious epistemology)  کو جانتے ہیں تو آپ کے علم میں ہوگا کہ علم کے بارے میں یہ قول کیا جاتا ہے کہ ضروری نہیں کہ علم سطروں میں ملے بعض دفعہ علم صدر (یعنی سینوں میں) پنہاں ہوتا ہے-سطر لکیر کو کہتے ہیں اور صدر سینے کو کہتے ہیں- بعض دفعہ علم سطر کی بجائے سینے میں محفوظ ہوتا ہے- یہ بھی رسول اللہ (ﷺ) کی ان احادیث مبارکہ کی حکمت ہے جو آگے پیش کی جائے گی - اس لئے بابِ قیامت کی ذیل میں اس بڑے سوال کے جواب کے طور پر چند احادیث کا انتخاب کیا گیا ہے جس سے یہ واضح ہو جائے کہ جسے رسول اللہ (ﷺ)نے علم فرمایا اس علم سے مراد کیا ہے؟ اور جسے رسول اللہ(ﷺ)نے جہالت فرمایا اس جہالت سے مراد کیا ہے؟

امام طبرانیؒ نے حضرت عبد اللہ بن عمر (رضی اللہ عنہ) سے روایت کیا ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا قیامت کی علامات میں سے یہ بھی ہے کہ:

1)       أَنْ تَعْزُبَ العُقُولُ

عقلیں غائب ہوجائیں گیں-(عقلیں کم ہوجائیں گی، چلی جائیں گی)

2)      وَتَنْقُصَ الْأَحْلَا مُ

اور حلم و بردباری کم ہوجائے گی

3)      وَيَكْثُرَ الْقَتْلُ

اور قتل کی کثرت ہوجائے گی

4)      وَتُرْفَعَ عَلَامَاتُ الخَيْرِ

اور بھلائی کی علامات ختم ہوجائیں گی

5)      وتَظْهَرَ الْفِتَنُ‘‘[6]

اور فتنے ظاہر ہوجائیں گے‘‘-

امام بخاریؒ نے حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت کیا کہ ایک شخص نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ (ﷺ)! قیامت کب آئے گی؟ آپ (ﷺ) نے ارشادفرمایا کہ:

’’فَإِذَا ضُيِّعَتِ الْأَمَانَةُ فَانْتَظِرِ السَّاعَةَ. قَالَ كَيْفَ إِضَاعَتُهَا يَا رَسُوْلَ اللهِ (ﷺ) قَالَ: إِذَا وُسِّدَ الْأَمْرُ إِلَى غَيْرِ أَهْلِهٖ فَانْتَظِرِ السَّاعَةَ ‘‘[7]

’’جب امانت کو ضائع کر دیا جائے تو تم قیامت کا انتظار کرو-عرض کی یا رسول اللہ(ﷺ)! امانت کس طرح ضائع کی جائے گی؟ فرمایا: جب کوئی منصب نااہل کے سپرد کر دیا جائےتو قیامت کا انتظار کرنا‘‘-

امام ترمذیؒ نے حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (ﷺ)نے ارشاد فرمایا کہ:

1)       إِذَا اتُّخِذَ الْفَىْءُ دُوَلًا

جب مال غنیمت کو ذاتی دولت سمجھا جائے

2)       وَالْأَمَانَةُ مَغْنَمًا

اور امانت مال غنیمت بن جائے گی

3)       وَالزَّكَاةُ مَغْرَمًا

اور زکوة کو تاوان (جرمانہ) سمجھا جانے لگے گا

4)       وَتُعَلَّمُ لِغَيْرِ الدِّيْنِ

اورعلم کا حصول غیر دین کیلئے ہو گا (دین کیلئے نہ ہو گا)

5)       وَأَطَاعَ الرَّجُلُ اِمْرَأَتَهٗ وَعَقَّ أُمَّهٗ

اور شوہر اپنی بیوی کا مطیع اور ماں کا نافرمان ہو جائے گا

6)       وَأَدْنٰى صَدِيْقُهٗ وَأَقْصَى أَبَاهُ

اور دوست کو قریب اور باپ کو دور رکھے گا

7)       وَظَهَرَتِ الْأَصْوَاتُ فِى الْمَسَاجِدِ

مساجد میں آوازیں بلند ہونے لگیں گی

8)       وَسَادَ الْقَبِيْلَةَ فَاسِقُهُمْ

قبیلے کی سرداری فاسقوں کے ہاتھ میں آجائے گی

9)       وَكَانَ زَعِيْمُ الْقَوْمِ أَرْذَلَهُمْ

اور ذلیل شخص قوم کا رہبر بن جائے گا

10)    وَأُكْرِمَ الرَّجُلُ مَخَافَةَ شَرِّهِ

اور آدمی کے شر کے خوف سے اس کی عزت کی جائے گی

11)    وَظَهَرَتِ الْقَيْنَاتُ وَالْمَعَازِفُ

گانے بجانے والی لڑکیاں اور گانے کے آلات عام ہو جائیں گے

12)    وَلَعَنَ آخِرُ هَذِهِ الْأُمَّةِ أَوَّلَهَا

امت کے آخری لوگ پہلوں پر لعن طعن کریں گے

فَلْيَرْتَقِبُوْا عِنْدَ ذَلِكَ رِيْحًا حَمْرَاءَ وَزَلْزَلَةً وَ خَسْفًا وَ مَسْخًا وَقَذْفًا وَآيَاتٍ تَتَابَعُ كَنِظَامٍ بَالٍ قُطِعَ سِلْكُهُ فَتَتَابَعَ ‘‘[8]

پس اس وقت سرخ آندھی اور زلزے اور زمین میں دھنسنے اور چہروں کے بدلنے اور پتھروں کی بارش اور کئی دوسری نشانیوں کا انتظار کرناجس طرح ہار کا پرانا دھاگہ ٹوٹنے کی وجہ سے موتی ، سلسلہ وار جھڑ پڑیں -(یعنی پھر دیگر نشانیوں کے ظہور کا تسلسل شروع ہوجائےگا)‘‘-

میرے دوستو! ان میں سے کوئی بھی بات ہمارے لیے اجنبی نہیں ہونی چاہیے- جیسا کہ آج بھی صحابہ کرام و اہلِ بیتِ اطہار(رضی اللہ عنھم) پہ تبرا (طعن و تشنیع) کیا جاتا ہے- آئمہ اجتہاد سیدنا امام اعظم ابوحنیفہ، امام مالک ، امام شافعی اور امام احمد ابن حنبلؒ پہ بھی دشنام اور اولیاءِ صالحین کی تکفیر کی جاتی ہے-

یہاں ایک سادہ سی بات بیان کرنا چاہوں گا کہ اس قوم کا بیٹا ہو یا بیٹی جس نے انگلش میڈیم میں پڑھا، میٹرک میں 85 فیصد نمبر لیے، اس کے بعدFSC میں بھی 85فیصد نمبر حاصل کیے- مجھے بتائیں کہ اس کی پہلی دوسری، تیسری، چوتھی، پانچویں یا کسی نمبر کی ترجیح میں یہ شامل ہے کہ وہ علم دین حاصل کرے؟؟؟افسوس! کہ اس کی کسی معمولی ترجیح میں بھی یہ شامل نہیں ہے کہ وہ علم دین کی طرف راغب ہے یا دینی علم حاصل کرے- کیونکہ بطور باپ اور بھائی کے، اورہم میں سے ہر ایک نے اس کے ذہن میں یہ بٹھایا ہے کہ ڈاکٹر، انجینئر، وکیل، بیوروکریٹ، فوجی افسر، تاجر ہونا عزت کا پیشہ ہے لیکن ہم میں سے کسی نے بھی ان کے ذہن میں یہ نہیں ڈالا کہ عالم دین ہونا بھی عزت کی بات ہے- ہم جس کا کلمہ پڑھتے ہیں، جس سے اپنے ماں باپ، بیوی بچوں، بہن بھائیوں، مالِ تجارت اور بڑے مکانوں سے حتٰی کہ اپنی جان سے بھی بڑھ کے محبت کرتے ہیں، اس کے دین کا علم سیکھنا یہ نہ ہماری زندگی کی ترجیح میں ہے اور نہ یہ ہمارے نزدیک ذریعۂ عزت رہا- ہم بڑے فخر سے بتاتے ہیں کہ میرا بیٹا یا بیٹی ڈاکٹر، انجیئر اور وکیل ہے وغیرہ وغیرہ- لیکن اگر کوئی بیٹا علم دین سیکھ بھی لے، اول تو بتائیں گے نہیں اور اگر کوئی کہنے کی ہمت کرتا ہے تو فقط یہ کہتا ہے کہ یہ جی پڑھائی میں نالائق تھا تو مولوی بن گیا ہے- لیکن اگر کسی میں ماں باپ کی دعا اور کسی بزرگ کی صحبت سے یہ فخرآبھی جائے اور وہ فخر سے بتائے کہ میں نے اپنے بیٹے کو علم دین سکھایا ہے تو فوراً اس سے یہ سوال کیا جاتا ہے کہ مولوی بنا کے کیاکرو گے؟حالانکہ تاریخ میں ہمارے معاشرے کے ذہین ترین لوگ علماءِ دین ہوتے تھے-اس لئے ہم سب اس کے ذمہ دارہیں کہ آج ہمارے ہاں علمِ دین فروغ نہیں پا رہا-

امام طبرانی ’’المعجم الکبیر اور المعجم الاوسط‘‘ میں روایت بیان کرتے ہیں:

’’حضرت عُتَی سَعْدِی(رضی اللہ عنہ)فرماتے ہیں کہ مَیں علم کی تلاش میں نکلا یہاں تک کہ کوفہ پہنچا- اس وقت حضرت عبد اللہ ابن مسعود (رضی اللہ عنہ) کوفہ میں تھے- المختصر! آپ کے پاس پہنچا ، آپ نے پوچھا کہ آپ کون ہیں؟ عرض کیا کہ قبیلہ بنی سعد سے ہوں، مزید بات چیت کے بعد آپ (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا:

سَلْ يَا سَعْدِيُّ               اے سعدی سوال کر

میں نے عرض کیا اے ابو عبدالرحمن !

’’هَلْ لِلسَّاعَةِ مِنْ عِلْمٍ تُعْرَفُ بِهِ السَّاعَةُ؟ وَكَانَ مُتَّكِئًا فَاسْتَوَى جَالِسًا‘‘

’’کیا قیامت کی کوئی نشانی ہے جس سے قیامت پہچانی جائے -آپ ٹیک لگائے ہوئے بیٹھے تھے ،تو سیدھے ہو کر بیٹھ گئے‘‘-

فرمایا اے سعدی آپ نے مجھ سے اس کے بارے میں سوال کیا ہے جس کے بارے میں مَیں نے رسول اللہ (ﷺ) سے سوال کیا تھا ،میں نے عرض کیا :

يَا رَسُوْلَ اللهِ، هَلْ لِلسَّاعَةِ مِنْ عِلْمٍ تُعْرَفُ بِهِ السَّاعَةُ؟

یارسول اللہ (ﷺ) کیا قیامت کی کوئی نشانی ہے،جس سے قیامت کی پہچان ہو جائے -

تو حضور نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا: اے ابن مسعود! بیشک قیامت کیلئے کچھ علامات اور نشانیاں ہیں :

أَلَا وَإِنَّ مِنْ أَعْلَامِ السَّاعَةِ وَأَشْرَاطِهَا

خبر دار (غور سے سنو ) قیامت کی علامات اور نشانیوں میں سے (یہ ہیں )

1)      أَنْ يَكُوْنَ الْوَلَدُ غَيْظًا

اولاد غصے والی ہو گی

2)       وَأَنْ يَكُوْنَ الْمَطَرُ قَيْظًا

بارش سخت گرم ہو گی، بارش گرمی والی ہوگی، ( یعنی اس قدر کم ہو گی کہ گرمی اپنے زور پر رہے گی )

3)       وَأَنْ تَفِيْضَ الْأَشْرَارُ فَيْضًا

اور شریر لوگوں کو نوازا جائے گا

حالیہ تاریخ دیکھیں تو بآسانی معلوم ہو جائے گا کہ جو بندوق کے زورپہ بدمعاشی وقتل کرتے، عزتیں لوٹتے ہیں ہماری حکومتیں انہی کو نوازتی رہی ہیں اور آج بھی نوازتی ہیں-آج بھی چار اوچھے اُوباش اکٹھے دنگہ فساد کریں تو ان کو مراعات ملنا شروع ہو جاتی ہیں- اس لیے کہ لوگ ان سے خائف ہو کر ان کے شرکے سامنے کلمہ حق کہنے سے ڈرتے ہیں-

4)       أَنْ يُصَدَّقَ الْكَاذِبُ، وَأَنْ يُكَذَّبَ الصَّادِقُ

جھوٹے آدمی کی تصدیق ہو گی اور سچے کی تکذیب کی جائےگی-

رات8سے12 کوئی بھی نیوز چینل لگا کر دیکھیں رسول اللہ (ﷺ) کی خبر کی تصدیق خود بخود ہو جائے گی کہ جھوٹے آدمی کی تصدیق ہو گی اور سچے کی تکذیب کی جائے گی-

5)       أَنْ يُؤْتَمَنَ الْخَائِنُ، وَأَنْ يُخَوَّنَ الْأَمِيْنُ

خیانت کرنے والے کو امانت دی جائے گی اور امانت دار کو خائن بنا دیا جائے گا -

6)       أَنْ تُوَاصَلَ الْأَطْبَاقُ، وَأَنْ تُقَاطَعَ الْأَرْحَامُ

مطابقت والوں سے دوستی ہو گی ( یعنی یاروں سے) اور رشتوں کو کاٹ دیاجائےگا

آپ (ﷺ) کے اس فرمان مبارک کو پڑھنے کے بعد میرے ذہن میں جو عام عصری مفہوم پیدا ہوا اُس کو بیان کرنے میں حیا کا پہلو بھی درپیش ہے لیکن شرع میں شرم نہیں؛ مقصود مسئلہ سمجھنا ہوتا ہے- مثلاً وہ مفہوم ہمارے ملک کے بڑے شہروں میں ایلیٹ لائف سٹائل سے پیدا ہونے والی اس خرابی کا ہے جو مغرب میں اپنے بامِ عروج پہ ہے کہ جہاں دوستی کو فروغ دیا جاتا ہے اور رشتوں کو کاٹا جاتا ہے-حتیٰ کہ اس بات کی حوصلہ افزائی بھی کی جاتی ہے کہ بغیر شادی کے محض دوستی کی بنیاد پہ زندگی بسر کی جائے-جسے عرفِ عام میں کہا جاتا ہے کہ گرل فرینڈ اور بوائے فرینڈ بن کے رہیں- بجائے اس کے کہ وہ خاوند اور بیوی بن کر رشتے میں جڑکر رہیں- حالانکہ عیسائیت میں بھی شادی اور نکاح کا ملتا جلتا یہی تصور ہے جو ہمارے ہاں ہے- ان کے ہاں بھی عام طور پہ شادیوں کی تقریبات چرچ میں ہوا کرتی ہیں-لیکن اب وہ اس کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ایک جھنجٹ ہے خود کو آزاد کرو اور جس سے ذہنی مطابقت ہے بس اسی کو اختیار کر لو کافی ہے- ہمارے ہاں انٹرٹینمنٹ اور سوشل میڈیا کے تراشے ہوئے سمبلز کے ذریعے ہمارے بڑے شہروں میں یہ نجاست اور خباثت عام ہو چکی ہے- سینکڑوں مثالیں موجود ہیں جہاں لوگ کنوارے رہنے کو محض اس لئے ترجیح دیتے ہیں کہ وہ اس رشتے میں جڑنا اپنے لیے باعثِ آزار سمجھتے ہیں-

7)       أَنْ تُزَخْرَفَ الْمَسَاجِدُ، وَأَنْ تُخَرَّبَ الْقُلُوبُ

 مساجد کو مزین کیا جائے گا اور دل برباد ہو جائیں گے-

بزبان حکیم الامت علامہ اقبالؒ:

مسجد توبنادی شب بھرمیں ایماں کی حرارت والوں نے
من اپنا پرانا پاپی ہے برسوں میں نمازی بن نہ سکا

مساجد خوبصورت و مزین کی جائیں گی- لیکن دل اجاڑ دیے جائیں گے، دلوں میں نفاق و بغض بھرا جائے گا-

8)      أَنْ يَكُوْنَ الْمُؤْمِنُ فِي الْقَبِيْلَةِ أَذَلَّ مِنَ النَّقْدِ

مومن اپنے قبیلے میں ٹوٹے ہوئے سینگ سے بھی زیادہ ذلیل ہو گا -

یعنی ایمان دار کی قدر ختم ہوجائے گی، سچ اور حق بولنے والوں کو دنیاوی لالچوں اور حسد کی راہ میں رکاوٹ سمجھ کر ذلیل تصور کیا جائے گا اور بستیوں، قصبوں، قبیلوں میں ان کی تکذیب اور بے حرمتی کی جائے گی-

9)       أَنْ يَكْتَفِيَ الرِّجَالُ بِالرِّجَالِ وَالنِّسَاءُ بِالنِّسَاءِ،

ایک مرد دوسرے مرد پر اکتفاء کرے گا (یعنی مرد مرد سے زنا کرے گا) اور ایک عورت دوسری عورت پر اکتفاء کرے گی (یعنی عورت،عورت کے ساتھ زنا کرے گی)

ہم جنس پرستی کے پھیل جانے کی خبر حضور نبی کریم (ﷺ) نے آج سے 1400 سال پہلے دے دی تھی اور آج یہ فتنہ بھی ظاہر ہو چکا ہے- یہ بات بالکل عیاں ہے کہ پاکستان میں کئی انٹرنیشنل این جی اوز کیوں بین ہوئیں؟ وہ کس چیز کو فروغ دیتی تھیں؟اور کس بات پر لابنگ اور فنڈنگ کرتی تھیں ؟ بہت سے دیگر ایجنڈوں کے ساتھ یقیناً ہم جنس پرستی کے فروغ کے لئے کہ اگر کوئی عورت عورت کے ساتھ اور کوئی مرد مرد کے ساتھ رہنا چاہے تو ان کی شادیوں کی اجازت ہونی چاہیے- یہ ٹاپ پرارٹی ایجنڈا ہے بڑے بڑے بین الاقوامی اداروں کا -

مغرب میں زوالِ مذہب دیکھیں کہ رومن کیتھولک پاپ نے اس کی اجازت دی ہے کہ ہم جنس پرست شادیاں ٹھیک ہیں-سوال پیدا ہوتا ہے کہ عیسائیت میں یہ تصور کہاں سے اخذ کیا گیا؟ سیدنا عیسٰی، سیدنا سلیمان وداو، سیدنا یعقوب و اسحاق (علیھم السلام) کی تعلیمات میں کس جگہ یہ تصور ثابت ہے جو بنی اسرائیل یا عیسائی اخذ کرتے ہیں؟ اور ہم میں کہاں سے اخذ کر کے پھیلاتے ہیں؟  جبکہ مذہبی نقطۂ نگاہ سے تینوں ابراہیمی مذاہب میں بالاتفاق یہ فعل حرام ہے -

رسول اللہ (ﷺ) نے اسے قربِ قیامت کی علامات میں سے فرمایا کہ ہم جنس پرستی عام ہو جائے گی-ہمارا اخلاقی زوال دیکھیں کہ ہم جنس پرستی کے حق میں بولنا علم اور خلاف بولنا جہالت کی دلیل سمجھا جاتا ہے- آج اگر کوئی ہم جنس پرستی کی تائید کرے تو سمجھا جاتا ہےکہ پڑھا لکھا، جدید ذہن کا مالک ہے، قانون و عالمی حالات کو جانتا ہے اور اعتدال کی بات کرتا ہے- اسی کے برعکس اگر کوئی کہے کہ یہ عمل حرام ہے، قوم لوط کو اس پہ سزا ہوئی، یہ قربِ قیامت کی علامات میں سے ہے، یہ فعل شیطانی ہے، تو جواب ملتا ہے کہ یہ مذہبی سوچ ہماری راہ میں رکاوٹ ہے اور کبھی ہمیں آگے نہیں بڑھنے دے گی-

 یاد رکھیں! انبیا ء کرام (علیھم السلام)کی دعوت عامۃ الناس کے لیے ہوتی ہے جو ان کی دعوت کو قبول کرتے ہیں ایمان والے ہوتےہیں- اہل حق اپنی تکبیربلند کرتے ہیں، اپنی آذان دیتے ہیں، جیسے مؤذن آذان دیتا ہے خوش نصیب ہی ہوتا ہے جومسجد میں جاتا ہے، آذان پہ سعادت مند ہی لبیک کہتے ہیں- میرے بھائیو اور بہنو! حق بات آذان ہوتی ہے اور حق بات پہ صرف سعادت مند ہی لبیک کہتے ہیں-

10)  أَنْ تَكْثُفَ الْمَسَاجِدُ وَأَنْ تَعْلُوَ الْمَنَابِرُ

مسجدیں زیادہ ہوں گی اور منبر بلند ہوں گے

11)  أَنْ يُعْمَرَ خَرَابُ الدُّنْيَا، وَيُخْرَبَ عُمْرَانُهَا،

دنیا کے خرابے کو آباد کریں گے اور اس سے آباد ہونے والی آخرت کو خراب کر لیں گے

12)  أَنْ تَظْهَرَ الْمَعَازِفُ، وَتُشْرَبَ الْخُمُورُ

آلاتِ لہو ولعب عام ہوں گے اور شراب عام پی جائے گی

13)  أَنْ يَكْثُرَ أَوْلَادُ الزِّنَى

زیادہ اولاد زنا سے ہو گی -

مغرب کے بہت سے ممالک میں یہ قانون ہے کہ اولاد کا تعارف باپ کی بجائے ماں سے لکھا جاتا ہے کیونکہ باپ کی تصدیق نہیں ہوتی کہ باپ کون ہے؛ اور جو باپ بنے بیٹھے ہیں ان کی تصدیق ہو بھی سہی تو وہ کسی حقِ نکاح کے بغیر زندگی بسر کرتے ہیں- جو کہ حضور نبی کریم (ﷺ) کے فرمان مبارک کی تصدیق ہے کہ بکثرت دنیا میں زنا سے اولادیں پیدا ہوں گی-

 قُلْتُ: أَبَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ، وَهُمْ مُسْلِمُونَ؟ قَالَ: نَعَمْ، قُلْتُ: أَبَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ، وَالْقُرْآنُ بَيْنَ ظَهْرَانِيْهِمْ؟ قَالَ: «نَعَمْ، قُلْتُ: أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَأَنَّى ذَاكَ؟ قَالَ: «يَأْتِيْ عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ يُطَلِّقُ الرَّجُلُ الْمَرْأَةَ، ثُمَّ يَجْحَدُ طَلَاقَهَا فَيُقِيْمُ عَلَى فَرْجِهَا فَهُمَا زَانِيَانِ مَا أَقَامَا‘‘[9]

حضرت عُتَی سَعْدِی(رضی اللہ عنہ) نے عرض کیا کہ اے ابو عبدالرحمٰن کیا وہ لوگ مسلمان ہونگے- آپ نے فرمایا ہاں مسلمان ہونگے، میں نے عرض کیا کہ اے ابو عبد الرحمن کیا قرآن ان کے پاس ہو گا آپ (رضی اللہ عنہ)نے فرمایا: ہاں،میں نے عرض کیا کہ اے ابو عبدالرحمن یہ کیسے ہو جائے گا ؟آپ نے فرمایا کہ لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آجائے گا کہ آدمی اپنی بیوی کو طلاق دے گا پھر اس کی طلاق کے بارے میں جھگڑا کرنے لگ جائے گا مگروہ اس کے ساتھ مباشرت پر قائم رہے گا جب تک وہ (دونوں) اس (بدکاری )پرقائم رہیں گے تو زانی رہیں گے ‘‘-

امام احمد ابن حنبل کی روایت میں حضرت ابن مسعود (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ:

v     ’’أَنْ يُسَلِّمَ الرَّجُلُ عَلَى الرَّجُلِ لَا يُسَلِّمُ عَلَيْهِ إِلَّا لِلْمَعْرِفَةِ ‘‘[10]

ایک آدمی دوسرے آدمی کو سلام صرف اپنی پہچان کیلئے کرے گا -

لوگ سلام کوحکمِ شرعی، سنتِ مصطفےٰ(ﷺ) اور پیغامِ دین سمجھ کر نہیں کریں گے بلکہ محض اپنی شناخت کے لئے کریں گے- یعنی لوگوں کے دلوں میں دینی احکام کی قدر نہیں ہوگی- لوگ صرف خاص لوگوں کو سلام کیا کریں گے جن سے طمع و لالچ ہوگا اور عامۃ الناس کا سلام کہ ان پہ سلامتی بھیجنا ختم ہو جائے گا -

امام بخاری حدیث پاک نقل فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم  (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

1)       بَيْنَ يَدَيِ السَّاعَةِ تَسْلِيمُ الْخَاصَّةِ

قیامت سےپہلے سلام خاص لوگوں کو کیا جائے گا

2)       وَفُشُوُّ الْقَلَمِ

قلم شہرت پالے گا(کتابیں زیادہ لکھی جائیں گیں)

3)       وَظُهُوْرُ الشَّهَادَةِ بِالزُّوْرِ

 جھوٹی شہادت ظاہر ہوگی

4)       وَكِتْمَانُ شَهَادَةِ الْحَقِّ [11]

اور حق کی شہادت چھپائی جائےگی-

امام حاکمؒ نے مستدرک میں سندِ صحیح کے ساتھ ایک کلیجہ چیردینے والی حدیث نقل فرمائی ہےکہ حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا کہ قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی:

1)       لَا تَقُوْمُ السَّاعَةُ حَتَّى لَا يَبْقَى عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ أَحَدٌ لِلهِ فِيْهِ حَاجَةٌ

قیامت تب تک قائم نہ ہوگی جب تک اللہ کی رضا چاہنے والا ایک بھی بندہ موجود ہوگا

2)       وَحَتَّى تُوْجَدَ الْمَرْأَةُ نَهَارًا جِهَارًا تُنْكَحُ وَسْطَ الطَّرِيْقِ،

اورعورت دن دہاڑے بیچ چوراہے میں زنا کروائے گی

3)       لَا يُنْكِرُ ذَلِكَ أَحَدٌ

اس کو کوئی روکنے والا نہیں ہوگا

4)       وَلَا يُغَيِّرُهٗ

بلکہ اس کو کوئی برا جاننے والا بھی نہیں ہوگا

فَيَكُوْنُ أَمْثَلَهُمْ يَوْمَئِذٍ الَّذِيْ يَقُوْلُ لَوْ نَحَّيْتَهَا عَنِ الطَّرِيْقِ قَلِيْلًا فَذَاكَ فِيْهِمْ مِثْلُ أَبِيْ بَكْرٍ وَعُمَرَ فِيْكُمْ‘‘[12]

بلکہ جو بہت نیک ہوگا وہ ان کو صرف اتنا کہے گا کہ تمہیں راستے سے ہٹ کر ایک طر ف ہوکر یہ کام کرنا چاہیے تھا اور اس زمانے میں اتنی بات کہنے کی جرأت کرنے والا شخص ایسا ہی ہوگا جیسے آج تمہارے درمیان ابو بکر اور عمر (رضی اللہ عنھم) ہیں-

میرے دوستو! میں اس وقت کو یوں دیکھتا ہوں یہاں کہا جاتا ہے کہ اگر کسی سے کوئی جنسی تعلق رکھتا ہے تو اس کی مرضی ہے- ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ میں اسے چوراہے پہ لے جاؤں یا سڑک پہ ، کسی پلازے کی چھت پہ لے جاؤں یا کسی مکان کے اندر،کون مجھ سے سوال کرسکتا ہے- آقا کریم (ﷺ)نے فرمایا کہ اس برائی کو برائی سمجھنے والا نیک سمجھا جائے گا اور جو اس سے بڑھ کر فقط یہ کہہ دے گا کہ چوراہے سے ہٹ کر یہ برائی کر لیتے تو وہ اُس وقت اُس قوم میں ایسے ہوگا جیسے آج میری قوم میں ابوبکر و عمر (رضی اللہ عنھم)ہیں - یعنی برائی اس قدر عام ہوجائے گی-

امام ابن مردویہ اور دیلمیؒ نے حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) سے حدیث بیان کی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا کہ قیامت کی علامات میں سے ہےکہ:

1)       وَأَنْ يُّعَطِّلَ السَّيْفُ مِنَ الْجِهَادِ

جہاد سے تلواروں کا رک جانا،

2)       وَأَنْ يُّنْتَحِلَ الدُّنْيَا بِالدِّيْنِ

      اور دین کے سبب دنیا کو اختیار کرنا‘‘-

امام جلال الدین سیوطی اور امام ابو نُعیم الاصبہانیؒ نے حضرت حذیفہ بن یمان سے یہ روایت بیان کی ہے کہ آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے قریب بہتّر (72) قسم کی خصلتیں اور عادات عام ہوں گی جن میں سے چند ایک کو ذکر کیا جاتا ہے-آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا جب تم لوگوں کو دیکھو کہ:

1)      أَمَاتُوا الصَّلَاةَ وہ نمازترک کریں گے

2)      وَأَضَاعُوا الْأَمَانَةَ              اور امانت ضائع کریں گے

3)      وَأَكَلُوا الرِّبَا   اورسود عام کھا ئیں گے

4)      وَاسْتَخَفُّوا الدِّمَاءَ           

اورخون بہانے کو حقیر سمجھیں گے

5)      وَبَاعُوا الدِّينَ بِالدُّنْيَا

 اور دین کو دنیاکے بدلے بیچیں گے

6)      وَيَكُوْنُ الْحُكْمُ ضَعْفًا

اورحکمران کمزور ہوجائیں گے

7)      وَظَهَرَ الْجَوْرُ

 اور ظلم و زیادتی عام ہوجائے گی

8)      وَكَثُرَ الطَّلَاقُ               

اورطلاق کثرت سے واقع ہونے لگے گی

9)      وَغَاضَ الْكِرَامُ غَيْضًا

 اور عزت و تکریم والے لوگ کم ہوجائے

10)  وَخُرِّبَتِ الْقُلُوْبُ              اوردلوں کو اجاڑدیا جائے گا

11)    وَعُطِّلَتِ الْحُدُوْدُ

 اور حدود معطل کردی جائیں گی

12)    وَشُرِبَتِ الْخُمُوْرُ فِي الطُّرُقِ

 اور شراب راستوں میں پی جانے لگے گی

13)  وَاتُّخِذَ الظُّلْمُ فَخْرًا             ظلم کو فخر قرار دیا جائے گا

14)  وَبِيْعَ الْحُكْمُ     فیصلے کو بیچا جائے گا

15)  وَكَثُرَتِ الشُّرَطُ              

شرطیں کثرت سے لگائی جائیں گی

تو ایسے حالات میں لوگوں کو چاہیے کہ

’’وہ سرخ ہوا زلزلہ ، زمین میں دھنسنا، شکلیں بگڑنا، پتھروں کی بارش اور دیگر علامات کا انتظاکریں‘‘-[13]

امیرالمومنین سیدنا علی ابنِ ابی طالب (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا کہ:

1)       يُوْشِكُ أَنْ يَأْتِيَ عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ لَا يَبْقَى مِنَ الْإِسْلَامِ إِلَّا اسْمُهٗ

لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ اسلام میں سے کچھ باقی نہ رہے گا سوائے اسلام کے نام کے(یعنی لوگ نام کے مسلمان رہ جائیں گے)

2)       وَلَا يَبْقَى مِنَ الْقُرْآنِ إِلَّا رَسْمُهٗ

اور قرآن میں سے کچھ باقی نہ رہے گا سوائے اس کے خط کے(یعنی لوگوں کا صرف قرآن کے ساتھ رسمی تعلق رہ جائے گا)

3)       مَسَاجِدُهُمْ عَامِرَةٌ وَهِيَ خَرَابٌ مِنَ الْهُدٰى‘‘[14]

لوگ مساجد کو تعمیر کریں گے اور یہ اللہ کے ذکر سے خالی ہوں گی

میرے دوستو! یہ چند احادیث مبارکہ جو اس حدیث پاک کے بعد بیان کیں کہ جس میں رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا کہ جہالت عام ہوجائے گی اور علم اٹھا لیا جائے گا- اب ہمیں نتائج پہ توجہ کرنی ہے کہ ان احادیث پاک کے مطالعہ سے معلوم ہوا کہ جہالت کیا ہے ؟ اور علم کیا ہے ؟

جہالت کیا ہے؟

جہالت محض قلم چلانے کا ہنر نہ آنے کا نام نہیں ہے، صرف گنتی پہاڑے نہ رٹ سکنے کا نام جہالت نہیں، صرف حروفِ تہجی کو شناخت نہ کر سکنا یا ان کے جوڑ نہ نکال سکنا ہی جہالت نہیں - آدابِ گفتگو سے واقف نہ ہونا ہی جہالت نہیں، استقرائی و استخراجی منطق سے لا علمی ہی جہالت کی دلیل نہیں، سیاست قانون یا معیشت کا علم نہ ہونا جہالت نہیں- جہالت محض برطانوی لہجے میں انگریزی نہ بول سکنے کا نام بھی نہیں ہے- بلکہ درج بالا احادیث مبارکہ کی روشنی میں :

امانتوں کا ضائع کرنا، منصب یا عہدہ نااہل کے سپرد کرنا، شریر لوگوں کو ان کے شر کے خوف سے نوازنا اور ان کے سامنے خیر کا اعلان نہ کرنا، حکومتی خزانے کوباپ کی جاگیر سمجھ کے لوٹنا اور لوٹانا، زکوۃ سے اجتناب، طلاق کی کثرت، علم دین سے کنارہ کش ہو کر دینی علم پہ علوم دنیوی کو زیادہ باعث شرف و عزت سمجھنا، ماں باپ پہ دوسرے رشتوں کو ترجیح دینا،  غصے اور غضب سے بھری ہوئی اولادیں ہونا، مساجد میں جھگڑا کرنا، فاسق کو سردار بنانا، فحاشی، عریانی ،گانا بجانے والیوں اور آلاتِ لہو ولعب کا عام ہونا، اسلافِ امت، متقدمینِ امت اور اکابرینِ امت پہ دشنام طرازی کا دروازہ کھولنا اور ان کی تکفیر کرنا، سچے کو جھوٹا اور جھوٹے کو سچا ثابت کرنا، اللہ اور اس کے رسول (ﷺ)  کے احکام کے مطابق خاوند اور بیوی کے رشتے پہ گرل فرینڈ اور بوائے فرینڈ کے رشتے کو ترجیح دینا، ایمان داری اور دیانت کی وقعت ختم ہو جانا ، آخرت کی کمائی برباد کر کے دنیا کی کمائی پہ توجہ مرکوز کرنا،بدکاری اور زنا کا عام ہوجانا، شراب، منشیات اور جوئے کا معاشرے میں عام ہوجانا، بغیر نکاح کے اولاد پیدا کرنا، جھوٹی گواہی دینا، عدالتوں ، فیصلوں اور انصاف کو بیچنا، حلم و بردباری، حوصلےاور برداشت کا ختم ہو جانا، جہاد فی سبیل اللہ سے رک جانا، ذکر اللہ سے غافل ہوجانا، قتل و غارت کا عام ہوجانا جہالت ہے-

علم کیا ہے؟

علم ڈگری کی دُم لگوا لینے کا نام نہیں ہے، علم محض انگریزی یا فرانسیسی یا چائنی زبان سیکھ لینے کا نام نہیں ہے - مغربی وضع قطع بنا لینے کا نام علم نہیں- فصاحت و بلاغت، معیشت و سیاست، شعر و ادب، تنقید و تجزیہ کا جان لینا ہی علم نہیں ہے- بلکہ درج بالا احادیث مبارکہ کی روشنی میں علم کی تعبیر اس سے کہیں زیادہ بلند ہے- علم جہالت کا متضاد ہے- نور آتا ہے تو تاریکی ختم ہوجاتی ہے-اس لئے امانتوں کو قائم کرنا، منصب پہ اہل کو لانا، قوم کی سرداری پہ عادل اور راست گو کو لانا، شر پسندوں کے شر کے سامنے حق کہنا،  دنیا پہ آخرت کو مقدم جاننا، زنا کی بجائے نکاح کو عام کرنا، اسلاف اور اکابرین امت کے بارے میں قلبی محبت و حسنِ ظن رکھنا اور ان پہ طعن و تبرا سے اپنی زبان روک لینا ، جھوٹی گواہی نہ دینا، جھوٹی گواہی کی حوصلہ شکنی کرنا، سچ کو ظاہر کرنا، عدالتوں کو نہ بیچنا، اپنے اندر بردباری اور برداشت پیدا کرنا، اخلاق و آداب کو حاصل کرنا، حسنِ معاشرت پیدا کرنے کی سعی کرنا، علم دنیا پہ علم دین کو فوقیت دینا،  اللہ کی راہ میں جد و جہد کرنا، غفلت ترک کر کے ذکر اللہ اختیار کرنا  علم ہے -

صرف اپنے سمارٹ فون میں کتابوں کی ایک ایپلی کیشن ڈاؤن لوڈ کر کے اپنی ای لائبریری بنا لینے کا نام علم نہیں ہے- وٹس ایپ پہ لمبے لمبے میسج پڑھنا اور دن برباد کرنا،رٹے لگا کے پرچے پاس کر لینا،کسی یونیورسٹی سے ماسٹر، ایم فل یا پی ایچ ڈی کی ڈگری لے لینا علم نہیں ہے- یہ علم کی جانب اقدام ضرور ہیں لیکن فی نفسہٖ علم ان تمام چیزوں سے بہت آگے کی شئے ہے جس کا حصول علم کی ذیل میں بیان شدہ تمام خواص اور صفات جمع کرنے سے ممکن ہوتا ہے- جو فقط پڑھنا لکھنا جانتا ہو اس پہ قوم کے لٹریٹ یا اِل لٹریٹ ہونے کا فیصلہ نہیں کیا جا سکتا- اکابرین امت میں سینکڑوں مثالیں ایسی ہیں جن کے شیوخ اُمی تھے لیکن جب وہ کسی روحانی مسائل میں الجھ جاتے تو ان سے رہنمائی لیتے-

ایک دن امام احمد ابن حنبلؒ نے امام شافعیؒ کو کہا یہ تم جو زاہدوں (صوفیوں) سے محبت رکھتے ہو میں اس کی اصلاح کرنا چاہتا ہوں- امام شافعی نے فرمایا احمد یوں نہ کر، امام احمد نے فرمایا: نہیں استادِ محترم مجھے ان کی اصلاح کر لینے دیں-  شیبان الرائی آئے جو امام شافعی کے شیخ تھے صوفی تھے مگر اُمی تھے (یعنی بظاہر پڑھے لکھے نہ تھے ) - تو امام احمد بن حنبلؒ نے ان سے سوال کیا کہ شیخ ایک آدمی کی ایک نماز قضا ہوگئی، اس نے نیت باندھی کہ مَیں فلاں وقت میں اس کو پڑھ لوں گا، لیکن اس مقررہ وقت پہ اس کو یاد نہیں آرہا کہ اس کی کونسی نماز قضا ہوگئی تھی، مثلاً فجر ، عصر، مغرب - اب ظاہر ہے کہ مغرب کی قضا کے فرض مختلف ہیں اورعصر کے مختلف ہیں فجر کے مختلف ہیں- امام احمد نے پوچھا کہ اس آدمی کو کیا کرنا چاہیے- اب بظاہر وہ اُمی تھے جنہیں ہم اَن پڑھ کہتے ہیں لیکن شیبان الرائیؒ نے اس کا جواب دیا کہ اس نے اپنے محبوب و معبود سے غفلت برتی ہے اور اس نے ایک نماز چھوڑ دی ہے- احمد اس کو ایسی ایسی سزا دو کے اس کے بعد وہ محبوب و مطلوب کو بھولنے کی جرات نہ کرے-  دوستو ! یہ تقویٰ و زہد کی ذرا اگلے درجے کی بات ہے ایسی بات سننے اور سمجھنے کے لئے ذوق کی ضرورت ہوتی ہے- امام احمد بن حنبل نے جب جواب سنا تو بے ہوش ہو گئے، امام احمد بن حنبل کے شاگرد اور امام شافعی ان کو ہوش میں لاتے رہے، جب ہوش آیا تو امام شافعی فرمانے لگے

’’میں نے کہا نہیں تھا کہ اس کے ساتھ ایسا مت کرو‘‘-

کیونکہ یہ وہاں سے جانتے ہیں جہاں علما و حکما کے علم کی حد ختم ہوتی ہے، جب باطن کھل جاتا ہے، جب یہ خواص جمع ہو جاتے ہیں جو خواص اخلاقِ انبیاء نے اختیار کیے، کوئی آدمی اسے حسنِ عقیدہ سے اختیار کر لے تو اس کے اوپر علمِ لدُنّی کے دروازے منکشف ہوجاتے ہیں، علم سینے سے طلوع ہونا شروع ہو جاتا ہے-

امام احمد بن حنبلؒ پھر خود سیدنا بشرحافی سے رہنمائی لیتے رہے- سلطان العارفین حضرت سلطان باھوؒ بظاہر آپ کسی مدرسے یا کسی مکتب میں نہیں گئے لیکن 140 تصانیف تصوف اورروحانیت کی دقیق ترین منازل اور علوم کے اوپر آپؒ نے لکھی ہیں- اس لئے علم ایک نور ہے جو بندے کے وجود میں محبت،زہد و خوفِ الٰہی اور محبت و اطاعتِ مصطفےٰ کریم (ﷺ) سے پختہ ہوتا ہے -

میرے دوستو! ہمیں اپنے آپ کی شناخت، اپنی منزل کا تعین اور اپنے عہد پہ غور کرنا چاہیے- اپنے آپ کو اس آنے والی گھڑی (قیامت) کے لیے تیار کریں کہ جس کا وعدہ اللہ جل شانہ نے فرمایا ہے -

صحیح بخاری میں حضرت انس بن مالکؒ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے حضور نبی کریم (ﷺ) سے پوچھا:

’’یا رسول اللہ (ﷺ)! قیامت کب قائم ہو گی؟آپ (ﷺ) نے دریافت فرمایا تم نے اس کے لئے کیا تیاری کی ہے ؟انہوں نے عرض کیا کہ میں نے اس کیلئے بہت ساری نمازیں، روزے اور صدقے نہیں تیار کر رکھے ہیں،(صحابہ کے عمل سے بڑھ کر امت میں کس کا عمل ہوگا لیکن وہ اپنے عمل پر ایک دوسری بات کو ترجیح دے رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ )لیکن میں اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہوں -آپ (ﷺ) نے فرمایا کہ تم اس کے ساتھ ہوگے جس سے تم محبت رکھتے ہو‘‘-[15]

امام احمد ابن حنبلؒ کی روایت میں اس حدیث پاک کے الفاظ میں یہ اضافہ ہےکہ:

’’قَالَ أَنَسٌ فَمَا رَأَيْتُ الْمُسْلِمِيْنَ فَرِحُوْا بِشَىْءٍ بَعْدَ الْإِسْلَامِ أَشَدُّ مَا فَرِحُوْا يَوْمَئِذٍ‘‘

’’حضرت انس (رضی اللہ عنہ)فرماتے ہیں کہ میں نےکبھی کسی بات پر مسلمانوں کو اس سے زیادہ خوش نہیں دیکھا جتنا اس دن (آپ(ﷺ) کی یہ حدیث پاک سن کر) خوش دیکھا ‘‘-

یعنی اسلام کے بعد حضورنبی کریم (ﷺ) کی قربت اور صحبت میں ہمیں سب سے زیادہ خوشی اس دن ہوئی جس دن آقا کریم (ﷺ)نے فرمایا کہ قیامت کے دن اسی کے ساتھ اٹھو گے دنیا میں جس سے محبت کرتے تھے-اس لئے دنیا میں جو حضور نبی کریم (ﷺ)سے محبت کرتا ہے،آپ (ﷺ)کے دیدار کا طالب رہتا ہے،آپ (ﷺ) کے عشق و محبت میں تڑپتا رہتا ہے، آپ (ﷺ)کا ذکر کثرت سے کرتا ہے، اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی رضا کیلیے بہتر سے بہتر عمل کرنے میں کوشاں رہتا ہے قیامت کے دن اسے آپ (ﷺ) کے پرچم کے نیچے جمع کر کے آپ (ﷺ) کی شفاعت سے مالا مال کیا جائے گا -

میرے دوستو! آخرت کی تیاری یہی ہےکہ ہم اس گھڑی کے بارے فکر مند ہو کر اس کی تیاری کریں جس کا اللہ نے قرآن میں وعدہ کیا ہے اور اس کے آنے میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے اور رسول اللہ (ﷺ) نے  جس کی کثرت  سے علامات بیان فرمائی ہیں- جیسے کوئی مسافر راہ چلنے لگتا ہے تو وہ سب سے پہلے دیکھتا ہے میرے پاس زادِ راہ ہے، اگر ہے تو پھر وہ چلتا ہے اگر نہیں ہے تو وہ پہلے زادِراہ پورا کرتا ہے-جیسے جہاز کے اڑان بھرنے سے پہلے پوری تسلی کے ساتھ انسپکشن کی جاتی ہے کہ وہ اڑان بھرنے کے قابل ہے کہ نہیں-اگر قابل ہے تو پھر اسے رن وے پہ اڑنے کے لیے چھوڑا جاتا ہے- اس لئے کوئی بھی سفر ہے اس سفر کی تیاری کی جاتی ہے- آخرت بھی ایک سفر ہے جس کی ہم نے تیاری کرنی ہے اور وہ خوش نصیب ہیں جو اس کی تیاری کر کے جاتے ہیں- حضورنبی کریم (ﷺ)  کی محبت، اعمالِ صالحہ کے ساتھ ہے یعنی اعمال ترک کر کے حبِ مصطفٰے کا دعویٰ نہیں کیا جاسکتا، حضور نبی کریم (ﷺ) کے دین و شریعت کی پاسداری کر کے حضور سے محبت کی جائے- دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم میں سے ہر ایک کو موت سے قبل حضور نبی کریم (ﷺ)کے رُخِ زیبا کی زیارت نصیب فرمائے، قبر میں حضور نبی کریم (ﷺ)کے رُخِ زیبا کی معرفت نصیب فرمائے،حشر میں حضور نبی کریم (ﷺ) کی شفاعت سے مالا مال فرمائے اور حوضِ کوثر پہ حضور نبی کریم (ﷺ) کے دستِ مبارک سے جام نصیب فرمائے- یہی ہماری اخروی کامیابی ہے -

اس لئے اصلاحی جماعت وعالمی تنظیم العارفین کے پلیٹ فارم سے اپنے تمام نوجوان ساتھیوں کو یہ دعوت دینا چاہوں گا کہ فتنوں کے اس دور میں اس قافلہ حق کا حصہ بنیں اور اس پیغام کو قولاً عملاً آگے پھیلانے کیلیے اس جدوجہد میں برابر کے شریک ہوں- اللہ تعالیٰ ہم سب کی مساعی کو قبول فرمائے- آمین

٭٭٭


[1](المومن:59)

[2](صحيح البخارى ، کتاب الرقاق)

[3](الاسماء والصفات للبیہقی)

[4]( الشعراء: 202)

[5](صحیح بخاری و مسلم، کتاب العلم)

[6](المُعْجَمُ الكَبِير للطبرانی)

[7](صحیح بخاری، کتاب العلم)

[8](سنن الترمذى ، ابواب الفتن)

[9](المعجم الکبیر/ المعجم الاوسط للطبرانی)

[10](مسند احمد ابن حنبل)

[11]( الأدب المفرد)

[12](المستدرك على الصحيحين ،كِتَابُ الْفِتَنِ وَالْمَلَاحِمِ)

[13](تفسیر درِ منثور/ حلیۃ الاولیاء)

[14]( خلق أفعال العباد للبخاری/ شعب الإيمان للبیہقی)

[15](صحيح البخارى، کتاب الأدب)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر