پسِ حادثہ کربلا

پسِ حادثہ کربلا

آج کا دن ہمیں ایسے تاریخی واقعہ کی یاد دلاتا ہے جو اسلام کے نظمِ اجتماعی میں ایک فیصلہ کن معرکے کا دن ہے- کیونکہ اس دن اہل حق اور اہل باطل کے اصول کے درمیان ایک لکیر کھینچ دی گئی تھی- آج کی شب اس معرکے کی آخری شب کہی جاتی ہے جو معرکہ نبی پاک شاہِ لولاک (ﷺ)کے نواسے، سیدۃ النساء سیدہ طیبہ طاہرہ سیدہ فاطمہ الزہرہ (رضی اللہ عنہا) کے اور امیرالمومنین، امیرالمشارق و المغارب ، اسداللہ الغالب سیّدنا علی ابن ابی طالب (رضی اللہ عنہ) کے شہزادے سیدِ شباب اہل جنت، سید الشہداء سیدنا امام حسین (رضی اللہ عنہ) نے اپنے نانا کریم کا دین بچانے، غاصبوں کے غصب کا پردہ چاک کرنے، ظالموں کو قیامت تلک ظلم و جبر کا نشان بنا دینے، ظلم کے حامیوں اور ظلم کے سامنے جھک کر اہل حق سے اپنے وعدے توڑ دینے والوں کو بے نقاب کرنے کے لیے اپنی بھی قربانی دی اور اپنے کنبے کی بھی-

آج کا دن سلطان العارفین حضرت سلطان باھوؒ کی خانقاہ پہ صدیوں سے منایا جاتا ہے ؛ اور یہ بات بھی پوشیدہ نہیں ہے کہ حضرت سلطان العارفینؒ کا خانوادہ و سلسلہ فقہ میں، فقۂ حنفی پہ ہے، عقیدہ میں امام ابو منصور ماتریدیؒ کے عقیدہ پہ اور امام ابو الحسن اشعریؒ کے عقیدہ پہ ماتریدی اشعری عقیدہ ہے-طریقت میں محبوبِ سبحانی قطبِ ربانی شہبازِ لامکانی محی الدین غوث الاعظم ابومحمد عبد القادر الجیلانیؒ کی طریقت پہ قائم ہیں اور آپؒ کا عرس مبارک جمادی الثانی کی پہلی جمعرات کو ہوتا ہے - یکم محرم الحرام سے لے کے دس محرم الحرام تک امام پاک سیدنا امام حسین (رضی اللہ عنہ) کے ختمِ پاک کی محفل منعقد ہوتی ہے- اسی وجہ سے میں ہمیشہ رفقاء کو اپنے ساتھیوں کو یاد دلاتا ہوں کہ فقر، عرفان، تصوف، ولایت، معرفت، طریقت، حقیقت، غوثیت، قطبیت کی جتنی بھی منازل اور جتنے بھی مدارج ہیں ان میں اعلیٰ مقام تو اعلیٰ رہے، کوئی ایک ادنٰیٰ سے ادنٰیٰ رتبے کی پہلی سیڑھی بھی محبتِ اہلِ بیت کرام (رضی اللہ عنھم) اور ادب واحترام صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کے بغیر طے نہیں کی جاسکتی - اعلیٰ مراتب تو عطا ہی ان کی مُہرِ تصدیق سے ہوتے ہیں اور ان کے دامانِ غلامی سے وابستہ ہونے سے نصیب ہوتے ہیں -اس لیے سلطان العارفین حضرت سلطان باھوؒ کی اہلِ بیتِ اطہار سے لازوال و باکمال محبت ہے- اسی طرح دنیا بھر میں آپؒ کے مریدین، متوسلین اور معتقدین کی بھی اہل ِبیت اطہار سے عقیدت و محبت لازوال ہے، ادب و احترام با کمال ہے - بالخصوص یہ دن جس دن کنبہءِ مصطفٰے (ﷺ) نے مصطفٰے کریم (ﷺ) کا دین بچانے کیلئے جرأت اور استقامت کا مظاہرہ کیا ان کی بارگاہ میں نذرانۂ عقیدت پیش کرنے کیلئے اس پورے عشرے میں یہاں تقریبات منعقد ہوتی ہیں-

نہ صرف واقعۂ کربلا سے، بلکہ خود رسول اللہ (ﷺ) کی اپنی حیاتِ مبارکہ میں اہلِ بیت اطہار (رضی اللہ عنھم) کو اسلام کی صداقت و حقانیت کی دلیل بنا کے پیش کیا گیا -

عام الوفود میں نجران کے عیسائیوں کا ایک وفد مدینہ منورہ میں سیدِ دوعالم (ﷺ) کی بارگاہ میں حاضر ہوا -

جب نجران کے عیسائی سرکارِ دو عالم (ﷺ) کی بارگاہِ اقدس میں حاضر ہوئے، آقا دوعالم (ﷺ) نے ان کے ساتھ مکالمہ کیا مگر وہ دعوتِ حق کو ماننے پہ آمادہ نہ ہوئے اور بات مباہلے تک جا پہنچی- مباہلے کا جو اصول نجران کے عیسائیوں سے طے ہوا قرآنِ مجید اسے یوں بیان فرماتا ہے:

’’فَمَنْ حَآجَّکَ فِیْہِ مِنْم بَعْدِ مَا جَآئَ کَ مِنَ الْعِلمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآئَ نَا وَاَبْنَآئَ کُمْ وَنِسَآئَ ناَ وَنِسَآئَ کُمْ وَاَنْفُسَنَا وَاَنْفُسَکُمْقف ثُمَّ نَبْتَہِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللہِ عَلَی الْکٰذِبِیْنَ‘‘[1]

’’پس آپ کے پاس علم آ جانے کے بعد جو شخص عیسیٰ (علیہ السلام) کے معاملے میں آپ سے جھگڑا کرے تو آپ فرما دیں کہ آجاؤ ہم (مل کر) اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں کو اور اپنی عورتوں کو اور تمہاری عورتوں کو اور اپنے آپ کو بھی اور تمہیں بھی (ایک جگہ پر) بلا لیتے ہیں، پھر ہم مباہلہ (یعنی گڑ گڑا کر دعا) کرتے ہیں اور جھوٹوں پر اﷲ کی لعنت بھیجتے ہیں‘‘-

حضور نبی کریم (ﷺ)نے انہیں مباہلے کی دعوت دی، وقت کا تعین ہوا، اب نجران کے عیسائیوں نے اپنے بیٹوں، اپنی عورتوں اور اپنے آپ کو لے کر مقامِ مباہلہ پہ آنا تھا تو سید الانبیاء خاتم الانبیاء (ﷺ) نے مباہلے کے لئے اپنے بازوئے مبارک پہ سیدنا امام حسین (رضی اللہ عنہ)کو اٹھایا ہوا ہے، سیدنا امام حسن (رضی اللہ عنہ) انگلی مبارک پکڑ کر ساتھ چل رہے ہیں اور جگر گوشۂ مصطفٰے سیدہ فاطمۃ الزہرہ (رضی اللہ عنہا) اور امیر المومنین حضرت علی ابنِ ابی طالب (رضی اللہ عنہ) آپ (ﷺ) کے ساتھ میدان میں آ رہے ہیں- یہ منظر بصارتِ عالم میں تصویرِ حقانیت بن کے گھوم رہا تھا اور سماعتِ عالم میں ندائے صداقت بن کے گونج رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے خانوادۂ مصطفےٰ (ﷺ) کو حقانیت و صداقتِ اسلام کی دلیل بنایا ہے -

اسی طرح حضورنبی کریم (ﷺ) کے اصحاب بھی حقانیت و صداقتِ اسلام کی دلیل ہیں کہ جس وقت میدانِ بدر میں آقا کریم (ﷺ) اپنے صحابہ کی مختصر جماعت کے ساتھ جلوہ فرما ہو کر پروردگار کی بارگاہ میں ہاتھ اٹھاکر دعا کرتے ہیں کہ :

’’اَللَّھُمَّ اِنْ تُھْلِکْ ھٰذِہِ الْعِصَابَۃَ مِنْ اَھْلِ الْاِسْلَامِ لَا تُعْبَدْ فِی الْاَرْضِ‘‘[2]

’’اے اللہ! اہل اسلام کی یہ چھوٹی سی جماعت اگر ہلاک ہو گئی تو روئے زمین پر تیری عبادت نہیں کی جائے گی‘‘-

اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ کیا تھا کہ میرے حبیب مکرم (ﷺ) ہم کفار کے ایک لشکر میں سے ایک لشکر پرآپ کو فتح عطا فرمائیں گے تو اللہ تعالیٰ نے میدانِ بدر میں مسلمانوں کے لشکر، جو صحابۂ کرام پہ مشتمل تھا ، کو فتح مبین عطا فرمائی-

روایت بیان کرنے کا مقصد یہ تھا کہ چاہے حضور نبی کریم (ﷺ)اور آپ(ﷺ) کے اہلِ بیت اطہار یا اصحاب کرام ہوں جیسے اللہ تعالیٰ نے انہیں حق و صدق کی دلیل بنایا تھا، جہاں جہاں قربانی دینے کی باری آئی ہے وہاں وہاں انہوں نے اپنے خون کا نذرانہ دے کر حضور نبی کریم (ﷺ) کے دین کی حفاظت کی ہے - کیونکہ یہی اہل حق کی روایت ہےجہاں سر دینا پڑتا ہے، جان دینی پڑتی ہے، قربانی دینی پڑتی ہے، اپنی ترجیحات طے کرنی پڑتی ہیں تو ان ترجیحات میں مال وزر، جاہ و اقتدار اور مناصب وعہدوں کو اپنی جوتی کی ٹھوکر پہ اڑا کر حق کا ساتھ دیتے ہیں - اولاد قربان کرنا پڑے ، کنبے لٹانے پڑیں ، سر کٹوانے پڑیں ظلم کے مقابلے میں حق کا پرچم اکیلے بازو پہ تھامنا پڑے حق و صداقت کے پیکر کبھی پیچھے نہیں ہٹے -

یہی روایت نواسۂ رسول(ﷺ)ٍ کو صحرائے کرب و بلا میں لے جاتی ہے ، کہ جب باطل حق مٹانے پہ تُل جائے تو اللہ تعالیٰ غلبۂ حق کیلئے اپنے بندوں کو ایسی نشانی بنا دیتا ہے جو قیامت تک قائم رہتی ہے - شہدائے کربلا کے نفوسِ قدسیہ کی بدولت آج بھی اس امت میں بناءِ لا الہٰ قائم ہے -جیسا کہ فرمانِ مبارک ہے کہ:

’’لِكُلِّ شَيْءٍ أَسَاسٌ وَ أَسَاسُ الْإِسْلَامِ حُبُّ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللهِ (ﷺ) وَحُبُّ أَهْلِ بَيْتِهٖ‘‘[3]

’’ہر ایک شئے کی بنیاد ہوتی ہے اور اسلام کی بنیاد حضور نبی کریم (ﷺ) کے صحابہ کی محبت اور آپ (ﷺ) کے اہل بیت کی محبت پر ہے‘‘-

میرے بھائیو اور بہنو ! اس لیے جو آج ہم اہل بیت اطہار اور صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) سے اظہارِ محبت و عقیدت کرتے ہیں یہ ہمارے ایمان اور استقامت کی ضروریات میں سے ہے- اگر یہ پیکرِ مثال ہمارے سامنے موجود نہ ہوں تو ہمیں معلوم ہی نہ ہو سکے کہ استقامت اور حق کے لیے قربانی کس کو کہتے ہیں؟ یہی وجہ ہے کہ ہم خود کو اور اپنے اہل خانہ کویادِ امام حسین (رضی اللہ عنہ)سے تازہ رکھتے ہیں اور اسی معرکہ کی یاد کو اپنی آئندہ نسلوں کے سینوں میں بھی منتقل کرتے ہیں تاکہ انہیں معلوم ہو کہ جب حق کے لیے قربانی دینے کا وقت آئے تو کیسے لڑا جاتا ہے، حق کی خاطر اٹھنے کا وقت آئے تو مال و زر، لالچوں اور بڑے بڑے عہدوں و مناصب کو کس طریقے سے جوتی کی نوک پہ ٹھکرا دیا جاتا ہے-یادِ حسین آئندہ نسل کا مستقل سبق اس لئے بھی بنانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے ذہنوں کو اس بات سے مزین کر لیں کہ عزت مناصب یا تختِ اقتدار پہ بیٹھنے سے نہیں ملتی- بلکہ انسان کی عزت اس کے اصولوں پہ قائم رہنے، اللہ کی خاطر کھڑے ہونے اور حق کی پہریداری کے ساتھ قائم ہوتی ہے- کیونکہ اگر عزت اشرفیوں سے ملتی تو اشرفیاں یزید کے پاس بھی تھیں ،اگر عزت تختِ اقتدار سے ملتی تو کوفہ کا گورنر ابنِ زیاد تھا - مگر وہ دونوں معزز نہ ہو سکے-

مگر امام حسین (رضی اللہ عنہ) کا نام اُن کے کام کی طرح تابندہ و درخشندہ اور ان کے مقام کی طرح زندہ و پائندہ ہے - اِس لئے کہ آپ (رضی اللہ عنہ) نے نہ تو عہدے اور مناصب کو خاطر میں رکھا نہ ہی دنیائے دُوں کو اہمیت دی - بلکہ ان کا مقصد تو ظلم و جبر کا پھریرا سَرنگوں کر کے صدق و حق کا سویرا طلوع کرنا تھا -

علامہ محمد اقبالؒ لکھتے ہیں کہ اگر سیدالشہداء سیدنا امام حسین (رضی اللہ عنہ) کا مقصد کسی عہدے یا سلطنت کا حصول ہوتا تو:

مدعایش سلطنت بودے اگر
 خود نکردے با چنین سامان سفر

’’اگر ان کا مقصد سلطنت حاصل کرنا ہوتا تو اتنے تھوڑے سازو سامان کے ساتھ یہ سفر اختیار نہ کرتے‘‘-

ایک بات یہ بھی کہی جاتی ہے کہ یزید تو ان کو نہیں مارنا چاہتا تھا، ابن زیاد اور شمر نے خانوادہ و نواسۂ رسول (ﷺ) کے ساتھ یہ ظلم کیا-اِس مؤقف کے حامی در اصل حق ناشناس ہیں، اس طرح کے دلائل تراش کروہ اس ظلمِ عظیم اور خانوادۂ اہلبیت کی بے حرمتی سے یزید کو بری الذمہ کروانا چاہتے ہیں- لیکن اے اہلِ اسلام! ظالموں اور غاصبوں کو کٹہروں سے بھاگنے نہ دیں گے ، اگر خانوادہ و نواسۂ رسول (ﷺ) سے محبت ہے تو اپنے ایمان کی حفاظت کریں اور ظالم کو ظالم کہیں، جابر کو جابر کہیں، غاصب کو غاصب کہیں، قاتل کو قاتل کہیں -

علمِ سیاسیات میں گورنینس کے بالکل بنیادی قواعد کا یہ حصہ ہے کہ کام کی نوعیت کے اعتبار سے موزوں ترین شخص کا انتخاب کیا جاتا ہے - کسی صوبہ یا علاقہ وغیرہ میں گورنر یا ریاستی منتظم کا تقرر حکمران اپنے مفاد کے صحیح محافظ کا کرتا ہے اور علاقے کے حالات کے مطابق اسے اختیارات سونپ کے بھیجتا ہے -

اگر سیرت النبی (ﷺ) کا بالکل سطحی سا مطالعہ بھی کیا ہو تو کئی ایسے حوالے مل جاتے ہیں کہ حضورنبی کریم (ﷺ) جب اپنے صحابہ کو کسی علاقے یا خطے کا عامل بنا کے بھیجتے تھے تو اس علاقے کی ڈیمانڈ کے مطابق صحابی کا تقرر کرتے تھے کہ یہ اُس علاقے میں میری نمائندگی کرے گا- مثلاً بیعتِ عقبیٰ اولیٰ کے موقعہ پہ اہلِ مدینہ کے ساتھ بہترین مبلغ حضرت مصعب بن عمیر (رضی اللہ عنہ) کو روانہ کیا جو مطلوبہ علاقہ میں کام کی مناسبت سے موزوں ترین انتخاب تھے- قیامِ ریاست کے بعد بھی جہاں آپ(ﷺ) کو معلوم ہوتا کہ یہاں پہ فقہی مسائل پیدا ہونگے تو وہاں آپ فقہی اور اجتہاد کی صلاحیت رکھنے والے صحابہ کو بھیجتے- جہاں آپ (ﷺ) کو معلوم ہوتا اس علاقے میں دعوت و تبلیغ کا کام زیادہ ہو گا وہاں آپ اپنے مبلغ اور زُھّاد صحابہ کو بھیجتے- جہاں معلوم ہوتا یہاں سفارت کاری اور اگلے کو اپنے مؤقف پہ قائل کرنے کیلئے ہنرِ گفتگو کی ضرورت زیادہ ہوگی تو وہاں سیاست و سفارت کا فہم و ادراک رکھنے والے صحابی کو مقرر کیا جاتا - غزوات پہ تشریف لے جاتے تو شہرِ مدینہ کسی انتہائی باصلاحیت صحابی کے سپرد فرما جاتے جو آپ (ﷺ) کی غیر موجودگی میں امور و انتظام برقرار رکھ سکے -یہی طریق سیدنا ابو بکر صدیق، سیدنا فاروق اعظم (رضی اللہ عنہ) کا تھا - تاریخ میں گزرے دنیا کے دیگر بڑے حکمرانوں میں بھی یہی طریقہ نظرآتا ہے کہ موقعہ و محل اور حالات کی مناسبت سے موزوں ترین شخص کا انتخاب کرتے -

جدید دنیا میں بھی جب بڑی معاشی و عسکری طاقتیں کوئی سفیر مقرر کرتی ہیں تو ہمیں یہ ہی طریقہ و اصول  نظرآتا ہے- ان میں بھی مزید ہر پارٹی کی اپنی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں برسرِ اقتدار آنے والی پارٹیاں اُن سُفَراء کا انتخاب کرتی ہیں جو اُن کی خارجہ پالیسی کے نقطہ نظر سے مماثلت رکھتے ہوں- مشرق وسطیٰ میں بھیجے جانے والی امریکی سفیر کا کم سے کم معیار یہ ہے کہ وہ خطے کی زبان، ثقافت اور سیاسی منظرنامے سے واقف ہو، اسرائیل کے بارے نرم گوشہ رکھتا ہو، تیل کی سیاست کا اچھا مطالعہ رکھتا ہو- مزید برآں ایک امریکی سفیر نئے صدارتی دورانیہ کے آغاز پہ رسماً مستعفی ہو جاتا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ سُفَراء کے انتخاب میں ہمیشہ یہ پہلو مدنظر رکھا جاتا ہے کے وہ نو منتخب صدر اور اس کی پارٹی سے مکمل ہم آہنگی رکھتا ہو- جن ممالک میں بڑی معاشی و عسکری طاقتیں جنگوں میں شریک ہوتی ہیں وہاں کے سفیر کا تقرر اور بھی زیادہ ’’محتاط‘‘ ہو جاتا ہے- اقوام متحدہ کیلیے مستقل مند و بین کا انتخاب بھی اسی طرز پہ کیا جاتا ہے کہ وہ نئی انتظامیہ اور قائدین کے سیاسی اہداف کی اقوام متحدہ کے فورم پہ درست نمایندگی کر سکے - پاکستانی سیاست سے بھی اس کی کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں، مثلاً وفاق میں حکومت بنانے والی جماعت، جن صوبوں میں حکومت نہ بنا سکے وہاں ایسے موزوں ترین شخص کو گورنر (وفاق کا نمایندہ ) مقرر کرتی ہے جو صوبائی حکومت پہ اچھی طرح نظر رکھ سکے اور اپنی جماعت کا مفاد محفوظ بنا سکے -

اب غور فرمائیے کہ ابنِ زیاد کوفہ کا گورنر کیوں مقرر کیا گیا؟

یزید کے سامنے خطرہ یہ تھا کہ سیدالشہدا نواسۂ رسول (ﷺ) امام عالی مقام حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ)اپنے کنبے کے ساتھ حجاز سے کوفہ کی طرف سفر کر کے آ رہے ہیں اور اگر آپؓ کوفہ میں آجاتے ہیں تو کوفہ اس کے ہاتھ سے نکل جائے گا- اگرچہ وہ اپنی سلطنت کا اعلان کریں یا نہ کریں کوفہ حسین ابن علی (رضی اللہ عنہ) کے ہاتھ میں ہوگا - اس سیاسی جہت کے تحت اس نے ایک ایسے شخص کا انتخاب کرنا چاہا جو طبعاً ظالم ، سفاک اور بے رحم درندہ ہو - اسلام اور کلمۂ طیبہ کی بجائے جاہ و حشمت اور درہم و دینار کو عزیز رکھنے والا ہو - رسول اللہ (ﷺ) کی ذاتِ گرامی کہ جن کی محبت کا کائنات کی ہر اک شئے سے بڑھ کے ہونا شرطِ ایمان ہے، اُن کی ذاتِ گرامی کی بجائے حکمرانِ وقت کی حُبداری کا دَم بھرتا ہو- اہلبیتِ اطہار بالخصوص اولادِ خلیفۂ چہارم سیدنا علی المرتضیٰ (رضی اللہ عنہ) کا ذہنی و قلبی مخالف اور دُشمن ہو اور دل و دماغ سے کسی بھی طرح نہ صرف اہلِ بیت کا احترام نہ کرتا ہو بلکہ اُن کے وہ فضائل جو اُنہیں رسول اللہ (ﷺ) کی نسبت سے عطا ہیں اُن کا منکر ہو اور نسبتِ سرورِ دو جہان (ﷺ) کا لحاظ نہ کرنے والا ہو (معاذ اللہ) - کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ سامنے جلوہ فرما امام حسین (رضی اللہ عنہ) ہوں اور وہاں رسول کریم (ﷺ) کا ادب و تعظیم اور آپ (ﷺ) کے نام پر اپنی جان نچھاور کرنے والا ہوتا اور اسے یہ معلوم ہوتا کہ میرے سامنے وہ فرزند موجود ہے جو گردن پہ آ جائے تو نبوت کے سجدے طویل ہو جاتے ہیں، جسے مصطفٰے کریم (ﷺ) اپنے دوشِ عزت پہ بٹھاتے ہیں تو صحابہ عرض گزار ہوتے ہیں کہ یا حضور (ﷺ)! کیا خوب سواری ہے اور آپ (ﷺ) فرماتے ہیں کہ کیا خوب سوار ہے ، تو کیا ایسا شخص امام حسین (رضی اللہ عنہ) کی فوج کے کسی ایک بھی سپاہی پر، آپؓ کے بیٹے ، بھتیجے، غلام ، خیموں اور آپ کی خواتین پر تلوار و تیر اٹھانا تو دور ترچھی نگاہ بھی اٹھانے کی جرأت کیسے کر سکتا ہے-

یزید ایسے درندے اور ظالم کا انتخاب چاہتا تھا کہ جس کے دل میں ادبِ مصطفٰے (ﷺ)، اہل بیت اطہار، صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) اور حبِ قرآن نہ ہو - اس لئے اس کی نظر میں کوفہ کی گورنری کے لئے ابن زیاد سے زیادہ موزوں کوئی آدمی نہ تھا -

یہاں ایک واقعہ بیان کرنا چاہوں گا کہ:

’’میرے دادا مرشد، شہبازِ عارفاں حضرت سلطان محمد عبد العزیزؒ نے ایک زین بنوائی جسے ہم تلہ کہتے ہیں - سنہرے گوٹے کی بہت خوبصورت زین تھی -ایک شخص نے آکر کہا کہ حضور میں سید ہوں تو مجھے یہ زین چاہیے- آپ نے خلیفہ کو بُلا کر فرمایا کہ یہ زین ان کو اٹھا دو - اب وہ خلیفہ آہستہ سے آپ کے کان میں عرض کرتا ہے کہ حضور میں اس بندے کو جانتا ہوں، یہ سید نہیں ہے بلکہ فلاں بستی اور فلاں قوم سے تعلق رکھتا ہے - آپ نے فرمایا کہ میرے نزدیک یہ بات معنیٰ نہیں رکھتی کہ وہ کس ذات اور کس بستی سے تعلق رکھتا ہے بلکہ یہ بات معنیٰ رکھتی ہے کہ وہ کس نسبت سے مجھ سے زین مانگ رہا ہے‘‘-

اسی طرح سید الطائفہ امام جنید بغدادیؒ کا معروف واقعہ ہے :

’’سیدنا جنید بغدادیؒ فقیہ بھی تھےاور پہلوان بھی- ایک مرتبہ ایک انتہائی نحیف اور دُبلے آدمی نے بادشاہ کے سامنے شرط رکھی کہ مَیں بڑے سے بڑے پہلوان جنید کو شکست دے دوں گا- کیونکہ غربت تھی اور غربت مٹانا تھا- جب کُشتی شروع ہوئی دونوں پہلوان آپس میں لڑنے لگے تو وہ دُبلا آدمی حضرت جنیدؒ کے کان میں کہتا ہے کہ جنید میں آلِ نبی ہوں اگر تُو گِر جائے گا تو تیری پہلوانی تو نہیں جائے گی البتہ میری کچھ مشکلات کم ہو جائیں گی- جنید بغدادیؒ نے جیسے ہی یہ سنا کہ یہ سید ہے تو ایک دو داؤ اس کے سامنے ہار ے اورپھر اس نے ایک داؤ لگایا تو آپ جان بوجھ کر گر گئے-

میرے حضور مرشد کریم نے فرمایا کہ روحانی طور پر شیخ جنید بغدادیؒ کی پشت ابھی زمین پہ نہیں لگی تھی کہ ولایت کا رتبہ پہلے عطا ہوگیا تھا - فقط اس وجہ سے کہ انہوں نے آلِ مصطفٰے(ﷺ) کا احترام کیا -

خواتین و حضرات ! جہاں یہ عجز و محبت ہوتی ہے وہاں کوئی فوج سامنے کھڑی نہیں کرسکتا-

یزید کے کوفہ کی گورنری کیلئے ابنِ زیاد کے انتخاب کے بارے پولیٹیکل انیلیسز میں ایک اور چیز جو سامنے آتی ہے وہ ابن زیاد کی اہل بیت سے متعلق ’’برین واشنگ‘‘ تھی - یعنی ذہنی طور پہ اس کو اہل بیت کے اتنا خلاف کیا گیا تھا کہ وہ واقعتاً یہ سمجھتا تھا کہ یہ لوگ قابل انتقام ہیں ؛اور یہ چیز اس کی کئی باتوں سے ثابت ہوتی ہے -کیونکہ تاریخی، نفسیاتی اور سیاسی طور پر اتنا بڑا اقدام اٹھانا کہ ایک پورے کنبے کی نسل کشی کر دینا ایک غیر معمولی اور انتہائی اقدام ہے - اس کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں ایک رنگ ونسل کے تعصب میں برین واش اور دوسرا مذہبی یا سیاسی نظریے کے انتقام میں برین واش - یزید اور ابن زیاد میں یہ دونوں تھے، ایک تو وہ نسبِ علی المرتضیٰؓ سے نفرت رکھتے تھے- دوسرا وہ اہلبیت کے فضائل کے نہ صرف منکر تھے بلکہ اسے ’’گھڑی ہوئی کہانیاں‘‘ کہتے تھے -

مثال کے طور پہ دنیا کی بڑی بڑی نسل کشیوں کی تاریخ دیکھیں :

  1. 1994ء میں اپریل سے جولائی تک بڑا مشہور ایک سیاسی واقعہ روانڈا کی نسل کشی (Rwandan genocide) کا ہے جس میں پانچ لاکھ سے دس لاکھ لوگوں کا قتل ہوا-ہوتو ’’Hutu‘‘نے رنگ و نسل کی بنیاد پر توتسی (Tutsi)  کی نسل کشی کی- تمام پولیٹیکل سائنٹسٹ اِسے نسلی بنیادوں پہ برین واشنگ کا نتیجہ کہتے ہیں -
  2. اسی طرح بوسنیا میں جوسربوں نے بوسنیئن مسلمانوں کا جینوسائیڈ کیا ، ان مسلمانوں کا قتل عام دو وجوہات پہ ہوا- ایک ان کے درمیان رنگ و نسل کے مسائل تھے اور دوسرا ان کو مسلمانوں سے مذہبی نفرت بھی تھی- جب یہ دو باتیں جمع ہوئی تو اتنی بڑی تعداد میں بوسنیا کے مسلمانوں کا قتل عام ہوا-
  3. اسی طرح جنگِ عظیم دوئم میں جرمنی کا جو نازی ہولو کاسٹ تھا وہ بھی یہودیوں سے انہی دواختلافات کی بنیاد پہ ہوا- ایک ان کی سیاسی معاشی حکمت عملی کی وجہ سے اور دوسرا ہٹلر اور اس کے حواریوں کو یہودیوں سے رنگ و نسل کے مسائل تھے-جب یہ دو وجوہات مل گئیں اور برین واش جرنیل بھی مل گئے تو وہاں اتنا بڑا قتل عام ہوا-
  4. میرے بھائیو اور بہنو! اس کے علاوہ برصغیرپاک وہند کی تاریخ میں دیکھیں تو یہ بات سمجھنی مشکل نہیں رہتی کہ تقسیم ہند کے وقت سکھوں نے مسلمانوں کو کیوں چن چن کے قتل کیا- ٹرینیں لاشوں سے بھری ہوئی آتی ہیں، لوگ کٹے ہوئے آتے ہیں، خواتین اور بچوں کے ساتھ جو درندگی انہوں نے کی، تاریخ نے وہ درندگی نہ کبھی دیکھی نہ سنی-عموماً کہا جاتا ہے کہ بارہ لاکھ مسلمان اس ہجرت کے دوران شہید ہوئے اور کہیں اس سے زیادہ بھی شمار کیا جاتا ہے-اِن واقعات کے پیچھے محرک نفرت اور برین واشنگ تھی-
  5. اِسی طرح بھارتی گجرات میں 2002ء میں جو واقعہ پیش آیا جس میں ہزاروں مسلمانوں کو شہید کیا گیا ، اور ہر طرح کا جانی و مالی نُقصان پہنچایا گیا - اس کے پیچھے بھی کارفرما ذہنیت نسلی و مذہبی بنیادوں پہ مسلمانوں سے نفرت والی تھی  جو مکمل طور پہ برین واش تھی - آج بھی وہی فاشسٹ ہندو دہشت گرد لوگ بھارتی اقتدار پہ قابض ہیں اور کشمیر کو ویسی ہی صورتحال سے گزار رہے ہیں -
  6. میانمار (برما) کے روہنگیا مسلمانوں پہ گزشتہ چار عشروں میں ظلم و ستم کے جو پہاڑ توڑے گئے ہیں اور ان کا جس بے رحمی سے جینو سائیڈ جاری ہے اس کے پیچھے بھی برین واش بدھسٹ دہشتگرد ہیں جو مسلمانوں سے مذہبی طور پہ بھی اور نسلی طور پہ بھی نفرت کرتے ہیں-
  7. ایک تازہ مثال پاکستان میں لڑی جانے والی جنگِ دہشت گردی ہے - دیکھیں کہ دہشت گردوں نے کس طرح افواجِ پاکستان، عسکری مقامات، کم سن بچوں کے سکول اور دیگر عوامی مقامات کو نشانہ بنایا ، کس طرح مساجد، خانقاہوں، امام بارگاہوں، اجتماعاتِ جمعہ و عیدین، شہدأ کے جنازوں، محافلِ میلادِ مصطفےٰ (ﷺ) اور علما و مشائخ کو نشانہ بنایا - دہشت گردی کی بنیاد پر جتنے بم بلاسٹ ہوئے ان سب کے پیچھے برین واشنگ کارفرما تھی جو بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے ایجنٹ علماء کا روپ دھار کر مختلف مقامات کے ٹریننگ کیمپوں میں کرتے تھے -

چونکہ کربلا بھی ایک ’’قتلِ عام‘‘ تھا، اس لئے اس سے مماثلت رکھنے والے ان مذکورہ بڑے واقعات کو سامنے رکھ کر ابنِ زیاد کی ذہنیت کا مطالعہ کیا جائے تو یہی بات سامنے آتی ہے کہ وہ اپنے زمانے کا دہشتگرد تھا جس کو اہلِ بیت اطہار کےخلاف برین واش کیا گیا تھا، اُس کی یہی برین واشنگ گورنر کوفہ بننے کا میرٹ تھا-

اِس میں کوئی شک نہیں رہ جاتا کہ یزید اپنے زمانے کا دہشتگرد، ہٹلر ، سرب اور نریندرمودی تھا اور ابن زیاد اس کے ظلم کا آلہ تھا - اس ظلم کی ذمہ داری آلۂ ظلم پہ تو ہو گی ہی، مگر اصل ذمہ داری تو پسِ پردہ کارفرما ذہنیّت پہ عائد ہوتی ہے جو کہ یزید تھا - آج جو کچھ کشمیر میں ہو رہا ہے اور جو کچھ ہندوستان کے مسلمانوں سے ہو رہا ہے اس میں یہ واضح ہے کہ بل چاہے امیت شا پیش کرے یا احکامات بظاہر راج ناتھ کی وزارت سے جاری ہوں مگر اصل ذمہ دار تو پسِ پردہ کارفرما ذہنیت ہے جو نریندر مودی ہے - نازی ہولوکاسٹ سے بھی یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ یہودیوں کو بظاہر قتل کرنے والا ہنریخ لوٹپولڈ ہملر ہو یا رینہارڈ ٹرسٹن ہو ، یا وہ ہرمین ویلئم گورنگ ہو مگر اصل ذمہ دار تو پسِ پردہ کارفرما ذہنیت ہی تھی جو کہ اڈولف ہٹلر تھا -

یزید اور ابنِ زیاد کا سیاسی نظریہ، اسلام اور رسول اللہ (ﷺ) کی تعلیمات سے براہِ راست متصادم تھا- عدل اور اصولوں کی حکمرانی کےبجائے یزید اور اس کے آلہءِ کار ابنِ زیاد نے میکاویلی (Machiavelli) طرز کی، خوفناک جبر اور دہشت سے حکمرانی کی-

یزید اور ابن زیاد کی پولیٹیکل سائیکی اور ان کی ’’ہم خیالی‘‘ سمجھنے کیلئے وہ مکالمے بڑی اہمیت رکھتے ہیں جو کوفہ اور دمشق میں ہوئے - جن میں استبداد و ظلم کی طرف سے ابن زیاد و یزید نمائندگی کرتے ہیں اور حق کی طرف سے سیدہ زینب بنت علی (رضی اللہ عنہا) اور سیدنا امام علی بن حسین المعروف امام زین العابدین (رضی اللہ عنہ) نمائندگی فرماتے ہیں - ان مکالموں کو تاریخِ اسلام کے مستند ترین مؤرخین مثلاً حافظ ابنِ عساکر، ابنِ اثیر الجزری ، حافظ ابنِ کثیرالدمشقی اور ابنِ جریر طبری جیسے مورخین (رحمتہ اللہ علیھم) نے مستند حوالوں کے ساتھ ان مکالموں کو نقل کیاہے -

انسان غرقِ حیرت ہو جاتا ہے کہ دُنیا و درمِ دنیا ایسی خبیث و نجس چیز ہے جو کلمہ گوؤں کو سیدہ زہرہ (رضی اللہ عنہا) کی لختِ جگر سے اس درجہ حقارت و نفرت سے بات کرنے پہ اُکساتی ہے - شاید ایسے ہی واقعات ہیں جو حضرت سُلطان باھُوؒ کی زبان سے یہ جاری کرواتے ہیں :

اَدھی لَعنت دُنیاں تائیں تے ساری دُنیاں دَاراں ھو

’’آدھی لعنت دنیا پہ اور ساری لعنت دنیاداروں پہ‘‘-

ایک اور مقام پہ آپؒ کا فرمان ہے :

قہر پَوے تینوں رہزن دنیا توں تَاں حق دا رَاہ مَریندی ھو

’’اے لوٹ لینے والی دنیا ، تجھ پہ خدا کا قہر نازل ہو کیونکہ تو اللہ کی راہ سے بھٹکا دیتی ہے ‘‘-

ابیاتِ باھُو کے ان دونوں مصرعوں کا واقعہءِ کربلا کے ذمہ داروں پہ اطلاق اس لئے بھی مناسب ہے کہ اِسی سے ملتا جلتا ایک قول حضرت سلطان باھُوؒ کا فارسی تصنیف عین الفقر میں ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ ’’سید الشہدأ حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) کا قتل درمِ دنیا نے ہی کیا ہے کیونکہ اگر یزید مفلس ہوتا تو امامِ عالی مقام (رضی اللہ عنہ) کا قتل نہ کرتا بلکہ ان کا تابعدار ہوتا کیونکہ حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) نبی پاک (ﷺ) اور سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کے نورِ چشم تھے‘‘ -

اہلِ علم جانتے ہیں کہ مکالمہ ایسی دستاویز ہوتا ہے جو بیان کئے گئے نقطۂ نظر کو باآسانی قابل فہم بنا دیتا ہے-کیونکہ اس میں الفاظ اور لب و لہجہ سے بیان کرنے والے کے افکار و خیالات کی مکمل شناخت ہو جاتی ہے - آگے ہم مستند تاریخی حوالوں سے یزید اور ابنِ زیاد کے الفاظ کو بھی دیکھیں گے اور کوفہ و دمشق میں اہلبیت سے ہونے والے ان کے مکالموں سے ان کی ذہنیت سمجھنے کی کوشش کریں گے- لیکن - پہلے ہم بنتِ شیرِ خدا سیدہ زینب (رضی اللہ عنہا) کے چند کلمات دیکھیں گے- جب ہم سیدہ زینب (رضی اللہ عنہا) کی گفتگو پڑھیں گے تو اندازہ ہوگا کہ تاریخ میں آپ (رضی اللہ عنہا) جتنی جرأت و بے نیازی کسی خاتون میں پیدا نہیں ہوئی-کیونکہ جس وقت آپ (رضی اللہ عنہا)نے ابن زیاد کے دربار میں کوفی لوگوں سے خطاب شروع فرمایا تو سیّدنا حضرت امیرمعاویہ (رضی اللہ عنہ) کے گروہ میں سے ایک آدمی جس کا نام خزیمۃ الاسدی تھا ، نے کہا کہ :

’’وَنَظَرْتُ إِلٰى زَيْنَبَ بِنْتِ عَلِيٍّ (رضی اللہ عنہا) يَوْمَئِذٍ وَلَمْ أَرَ حَفْرَةً قَطُّ أَفْصَحُ مِنْهَا كَاَنَّهَا تَنْطِقُ عَن لِّسَانِ أَمِيْرِ الْمُؤْمِنِيْنَ عَلِيِّ بْنِ أَبِيْ طَالِبٍ (رضی اللہ عنہ)

’’اس دن سیدہ زینب بنت علی (رضی اللہ عنہا) سے زیادہ میں نے کوئی فصیح و بلیغ شخص نہیں دیکھا ایسے لگتا تھا کہ زبانِ علی (رضی اللہ عنہ)سے کلام کررہی ہوں‘‘-(گویا کہ ان کے منہ میں زبانِ علی(رضی اللہ عنہ) آ گئی ہو)

اس لیے جس وقت اس مکالمے کو پڑھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ خانوادۂ اہل بیت کی ہمت اور جرأت کس چیز کا نام ہے – گویا کہ :

حدیث عشق دو باب است کربلا و دمشق
یکے حُسینؓ رقم کرد و دیگرے زينبؓ

’’عشقِ حق کی داستان میں دو باب ہیں کربلا اور دمشق-بابِ کربلا امام حسین(رضی اللہ عنہ) نے لکھا اور بابِ دمشق سیدہ زینب (رضی اللہ عنہا) نے‘‘-

سیدہ زینب بنت شیرِ خدا (رضی اللہ عنہا)ایک عبرت انگیز خطبہ کا آغاز اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا سے شروع کرتی ہیں :

’’ثُمَّ قَالَتْ: اَلْحَمْدُ لِلهِ وَصَلَوَاتِهِ عَلَى أَبِيْ مُحَمَّدٍ رَّسُوْلِ اللهِ وَعَلَى آِلهِ الطَّاهِرِيْنَ الْأَخْيَارِ، أَمَّا بَعْدُ!

يَا أَهْلَ الْكُوْفَةِ! يَا أَهْلَ الْخَتْلِ وَالْخَذْلِ! أَتَبْكُوْنَ فَلَا رَقَتَ لَكُمْ دَمْعَةٌ‘‘

’’اے کوفہ والو اے فریب کارو ، (اے عہد شکنو،اے اپنی زبان سے پھر جانے والو) اے دوکھے بازو!اب تم کیا رو رہے ہو ؟پس تمہارے آنسو خشک نہ ہوں ‘‘-

فصاحت و بلاغت سے شغف رکھنے والے جانتے ہیں کہ علم فصاحت و بلاغت میں سب سے اہم ترین چیز تشبیہ و مثال سے اپنی بات کو ظاہر کرنا ہوتا ہے-اب مثال ملاحظہ فرمائیں!

’’إِنَّمَا مَثَلُكُمْ كَمَثَلِ الَّتِيْ نَقَضَتْ غَزْلَهَا مِنْ بَعْدِ قُوَّةٍ أَنْكَاثًا‘‘

’’تمہاری مثال اس عورت کی سی ہے جس نے اپنا سوت مضبوطی کے بعد ریزہ ریزہ کر کے توڑ دیا (یعنی سوت کاتتی رہتی ہے مسلسل محنت کرتی ہے اور پھر اسے ادھیڑ ڈالتی ہے ریزہ ریزہ کرڈالتی ہے) سجھانا مقصود یہ تھا کہ جو کچھ کیا تھا سب ضائع کر دیا ہے ‘‘-

ظالمو! پہلے تم نے خانوادۂ مصطفٰے (ﷺ) کو خطوط لکھے، اُن کو مدعو کیا میزبان بنے اور جب خانوادہ مصطفٰے(ﷺ) نے تمہاری دعوت کو قبول کر کے تمہیں شرف بخشا، حجاز اور اپنے نانا کریم (ﷺ) کا دربار چھوڑ کر وہ یہاں چل کر آئے تو یہاں تم نے اسی خانوادے کے سامنے تلواریں نکال لیں-

پھر سیدہ زینب (رضی اللہ عنہا) نے سورہ المائدہ کی ایک آیت مبارکہ سے کوفیوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:

’’لَبِئْسَ مَا قَدَّمَتْ لَہُمْ اَنۡفُسُہُمْ اَنْ سَخِطَ اللہُ عَلَیْہِمْ وَفِی الْعَذَابِ ہُمْ خٰلِدُوْنَ ‘‘[4]

’’یاد رکھو جو کچھ تم نے اپنے لیے آگے بھیجا ہے وہ بہت برا ہےتم پر خدا کا غیظ و غضب ہے اور تم عذاب میں ہمیشہ رہو گے-(یعنی تم اس کے قہر میں مبتلا ہو گے )

أَتَبْكُوْنَ وَتَنْتَحِبُوْنَ! أَيْ وَاللهِ فَابْكُوْا كَثِيْرًا وَاضْحَكُوْا قَلِيْلًا أَلَا سَاءَ مَا تَزِرُوْنَ وَبُعْدَا لَّكُمْ وَسُحُقًا!

’’اے مکار کوفیو ! اب تم میرے بھائی پر گریہ اور نوحہ کیوں کر رہے ہو ؟ہاں خدا کی قسم پس رؤو اور خوب رؤو اور کم ہنسو اور زیادہ رؤو خبردار (جان لو) ! کتنا بُرا ہے وہ بوجھ جس کو تم نے اٹھایا ہے اور وہ چیز تم کو بڑی دور کرنے والی ہے یعنی (جنت سے، خداسے)‘‘-

یہ تشبیہ بھی ہے اور دعاءِ ضرر بھی- گوکہ یہ موضوع تو نہیں مگر یہ نکتہ ذہن نشین کر لیں کہ بد دعا اور دعاءِ ضرر میں فرق ہوتا ہے- اولیاء کرام، اہل بیت اطہار (رضی اللہ عنھم) اور بالخصوص سرکارِ دو عالم (ﷺ) کی زبان اقدس سے جو دعاءِ ضرر نکلے اس کو بد دعا نہیں کہا جاتا-کیونکہ بدی کا لفظی معنی برا ہے اور بدی کی اطاعت نہیں کی جاسکتی نہ ہی بدی و برائی پہ آمین کہا جا سکتا ہے - اس لئے حضور نبی کریم (ﷺ)، اہل بیت اطہار (رضی اللہ عنھم) اور اولیاء کاملین (رحمتہ اللہ علیھم) دعاءِ بد نہیں فرماتے بلکہ دعائے ضرر فرماتے ہیں-

پھر سیدہ زینب(رضی اللہ عنہا) نے فرمایا :

’’فَلَقَدْ خَابَ السَّعْيُ، وَتَبَّت ِالْأَيْدِيُّ‘‘

’’پس تمہاری کوشش خسارے میں گئی اور (تمہارے) ہاتھ ٹوٹ گئے‘‘-

سیدہ زینب (رضی اللہ عنہا) کی پوری گفتگو قرآن کے الفاظ سے مستعار گفتگو ہے-جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

’’تَبَّتْ یَدَآ اَبِیْ لَھَبٍ وَّتَبَّ‘‘[5]

’’ابو لہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ جائیں اور وہ تباہ ہو جائے (اس نے ہمارے حبیب (ﷺ) پر ہاتھ اٹھانے کی کوشش کی ہے)‘‘-

سیدہ زینب (رضی اللہ عنہا) رسول کریم (ﷺ) کی ترجمانی کرتے ہوئے فرماتی ہیں کہ کوفے والو! خدا کرے تمہارے ہاتھ ٹوٹیں جنہوں نے حسینؓ پہ ہاتھ اٹھایا- مسند امام احمد ابن حنبلؒ اور سنن ابنِ ماجہ میں حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) سے مروی فرمانِ رسول (ﷺ) ہے کہ ’’جس نے حسن اور حسین (رضی اللہ عنھم) سے محبت کی تو بے شک اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان دونوں سے بغض رکھا تو بے شک اس نے مجھ سے بغض رکھا ‘‘-

میرا یہ یقینِ کامل ہے اور دلائل و براہین سے اس کو ثابت کیا جاسکتا ہے کہ جنہوں نے امام حسین (رضی اللہ عنہ)کے ساتھ یہ معاملہ کیا اگر یہ لوگ حضور نبی کریم (ﷺ)کے زمانے میں ہوتے اور اس طرح کی صورتِ حال ہوتی تو یہ بدبخت حکمران آپ (ﷺ) پر بھی تلوار اٹھانے سے پیچھے نہ ہٹتے کیونکہ دنیاوی حرص و لالچ نے انہیں ذہنی اور فکری طور پر فالج زدہ بنا دیا تھا-تبھی تو حضرت سُلطان باھُوؒ نے فرمایا:

جے کجھ مُلاحظہ سرورؐ دا کردے تاں خیمے تمبو کیوں سڑدے ھو

اگر ان میں سرور دوجہاں (ﷺ)کی غیرت ہوتی اور آقا کریم (ﷺ) کی عزت کا پاس ہوتا تو کیا یہ آپ (ﷺ)کی آل کے تمبو اور خیمے جلاتے؟؟؟ آپ کی بیٹیوں اور نواسیوں کو یوں سرِ بازار رسوا کرتے؟؟؟

پھر سیدہ زینب(رضی اللہ عنہا) نے فرمایا:

’’وَخَسِرَتِ الصَّفَقَةُ، وَتَوَلَّيْتُمْ بِغَضَبِ اللهِ، وَضُرِبْتُ عَلَيْكُمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ

’’اور (تمہارا) سودا خسارے میں چلا گیااور تم اللہ کے غضب کے ساتھ لوٹے اور تم پر ذلت اور تنگی مسلط کر دی گئی‘‘-

’’أَتَدْرُوْنَ وَيْلَكُمْ يَا أَهْلَ الْكُوْفَةِ! أَيُّ كَبَدٍ (کَبِدَ) لِرَسُوْلِ اللهِ (ﷺ)؟ فَرَأيْتُمْ وَأَيُّ دَمٍ لَهُ سَفَكْتُمْ وَأَيُّ حَرِيْمٍ لَهٗ وَرَثْتُمْ! وَ أَيُّ حُرْمَةِ لَّهٗ اِنْتَهَكْتُمْ ‘‘

اے کوفہ والو ! تمہاری بربادی ہو، کیا تمہیں معلوم ہے؟ تم نے رسول اللہ (ﷺ) کے کون سے جگر گوشے کا خون کیا ہے ؟پس تم دیکھو کہ وہ کونسا خون ہے جو تم نے بہایا ہے ؟اور وہ کونسا حرم ہے جس کے تم وارث بنے؟ وہ کونسی بیٹی ہے جس کی تم نے بے حرمتی کی ہے ؟

اس کے بعد سیدہ زینب (رضی اللہ عنہا)نے سورت مریم کی یہ آیات مبارکہ تلاوت فرمائیں:

’’لَقَدْ جِئْتُمْ شَيْئاً إِدًّا تَكادُ السَّماوَاتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَتَنْشَقُّ الْأَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبالُ هَدًّا‘‘

(اے کافرو!) بے شک تم بہت ہی سخت اور عجیب بات (زبان پر) لائے ہو - کچھ بعید نہیں کہ اس (بہتان) سے آسمان پھٹ پڑیں اور زمین شق ہو جائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر گر جائیں -

أَفَعَجِبْتُمْ إِنْ اَمْطَرَتِ السِّمَاءُ دَمًا! وَلْعَذَابُ الْآخِرِةِ أَخْزٰى وَ أَنْتُمْ لَا تُنْصَرُوْنَ.فَلَا يَسْتَخِفَّنَّكُمُ الْمُهِلُّ

کیا تم تعجب کرو گے کہ آسمان تم پر خون کی بارش برسائے اور یاد رکھو کہ آخرت کا عذاب رسوا کن ہےاور تمہاری مدد نہ کی جائے گی اور نہ تمہارے عذاب کو مہلت (وقفہ، وقت کا گزرنا) ہلکا کرے گی -

پھر آپ نے یہ آیت مبارکہ پڑھی :

’’إِنَّ رَبَّكَ لَبِالْمِرْصادِ ‘‘

’’بے شک تمہارے رب کی نظر سے کچھ غیب نہیں‘‘-

خزیمۃ الاسدی بیان کرتے ہیں کہ :

فَوَ اللهِ! لَقَدْ رَأَيْتُ النَّاسَ يَوْمَئِذٍ حِيَارٰى قَدْ رَدُّ وْا أَيْدِيَهُمْ فِيْ أَفْوَاهِهِمْ

’’اللہ تعالی کی قسم اس دن میں نے دیکھا کہ لوگوں کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ لوگوں نے اپنی انگلیاں اپنے مونہوں میں ڈال دیں ‘‘-

راوی کہتا ہے کہ:

میں نے اہل مکہ میں سے ایک کو دیکھا جوعرب کے مشہور فصحا میں سے ایک عمر رسیدہ بزرگ تھے جب سیدہ زینب (رضی اللہ عنہا) نے خطبہ ختم فرمایا) تو وہ رو رہا تھا اور ان کی داڑھی آنسوؤں سے تر تھی (ہاتھ آسمان کی طرف بلند تھے ) اور وہ کہہ رہے تھے :

كُهُوْلُهُمْ خَيْرُ كُهُوْلٍ، وَشَبَابُهُمْ خَيْرُ شَبَابٍ إِذَا نَطَقُوْا نَطَقَ سُبْحَانٍ -

میرے ماں باپ آپ پر قربان آپ کے بزرگ سب بزرگوں سے بہتر آپ کے جوان سب جوانوں سے بہتر -جب کلا م کیا تو سبحان اللہ -

جب ابنِ زیاد کی فوج نے حکم دیا کہ خواتین اور جتنے زندہ لوگ بچ گئے ہیں ان کو گرفتار کر کے پہلے کوفہ اور پھر دمشق لے جایا جائے-حالانکہ جب اونٹوں پہ ساز و سامان لادنا ہو تو اونٹوں پہ کجاوے رکھے جاتے ہیں لیکن مورخین لکھتے ہیں کہ اونٹوں کی ننگی پشتوں پہ خانوادۂ مصطفٰے (ﷺ) کو باندھا گیا جس طریقے سے مجرموں اور قیدیوں کو باندھا جاتا ہے- (معاذ اللہ!) اسی طرح آپ (رضی اللہ عنہ) نے کربلا سے روانگی کے وقت ایک خطبہ ارشاد فرمایا-

میدانِ کربلا میں لاشے بے گور و کفن پڑے ہیں، کوئی تجہیز وتکفین نہیں، کوئی جنازہ و تدفین نہیں- جب سیدہ زینب(رضی اللہ عنہا) حسین جیسے بھائی، عون و محمد جیسے بیٹوں، قاسم ، علی اکبر اور علی اصغر جیسے بھتیجوں (رضی اللہ عنہم) ، غلاموں اور پیاروں کی بکھری لاشوں کا یہ درد انگیز منظر دیکھتی ہوئی قافلے میں ایک قیدی کی طرح وہاں سے رخصت ہوتی ہیں تواپنا روئے زیبا مدینہ منورہ کی طرف کرکے اپنے نانا جان (ﷺ) کو مخاطب کر کے فرماتی ہیں :

’’يَا مُحَمَّدَاهُ، يَا مُحَمَّدَاهُ،

صَلَّى عَلَيْكَ مَلَائِكَةُ السَّمَاءِ،

هَذَا حُسَيْنٌ بِالْعَرَاءِ،

مُزَمَّلٌ بِالدِّمَاءِ، مُقَطَّعُ الْأَعْضَاءِ،

يَا مُحَمَّدَاهُ، وَبَنَاتُكَ سَبَايَا،

وَذُرِّيَّتُكَ مُقَتَّلَةٌ تَسْفِيْ عَلَيْهَا الصَّبَا‘‘

’’یا محمد، یا محمد! (اے نانا جان، اے نانا جان!) آسمانی فرشتوں کا آپ پر درود و سلام ہو - ( نانا جان دیکھئے ) یہ وہی حسین ہیں جو کھلے میدان میں خون میں لت پت پڑے ہوئے ہیں- مقطوع الاعضاء پڑے ہیں (یعنی اعضاء ٹکڑے ٹکڑے کر دیے گئے ہیں )اے نانا جان! آپ کی بیٹیاں قید کر دی گئی ہیں آپ کی ذُرِیّت شہید کر دی گئی ہے اور ہَوا اِن پر خاک اڑا رہی ہے ‘‘-

روای کہتا ہے کہ سیدہ زینب (رضی اللہ عنہا)کے یہ پرسوز اور کرب انگیز کلمات سننے کے بعد:

 فَأَبْكَتْ وَاللّهِ كُلُّ عَدُوٍّ وَصَدِيْقٍ

’’ اللہ کی قسم سنگدل ظالموں کے بھی جگر موم ہو گئے اور سب دوست دشمن رونے لگے‘‘-

قافلہ مسلسل چلتا رہا

حَتَّى دَخَلُوا الْكُوْفَةَ[6]

یہاں تک کہ قافلہ کوفہ میں داخل ہوا ‘‘-

اب آئیں! اس مرکزی نقطہ پہ کہ جو قاتلینِ حسینؓ کا دفاع کرتے ہیں مجھے یوں نظر آتا ہے کہ سیدہ زینب (رضی اللہ عنہا) کے یہ الفاظ ان کا گریبان پکڑ کے یہ پوچھتے ہیں کہ بتاؤ ابنِ زیاد کو مقرر کس نے کیا اور کیوں کیا؟

درج بالا میں جیسے بیان ہوا کہ چاہے روانڈا، بوسنیہ، روہنگیا، میانمار کی نسلی کشیاں ہوں، چاہے یہودیوں کا ہولو کاسٹ ہو، چاہے گجرات میں مسلمانوں کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ ہو، چاہے کربلا میں نواسۂ رسول (ﷺ) کے ساتھ ایسا سلوک روا رکھا جائے اس کے پیچھے یہی برین واش فاشسٹ ذہنیت کارفرما ہے- ابنِ زیاد نہ صرف سیاسی اعتبار سے بلکہ فکری اور نظری اعتبار سے اہل بیت سے یہی مخاصمت رکھتا تھا - جیسا کہ مشہور مؤرخین حافظ ابن کثیر الدمشقی، امام طبری اور حافظ ابن اثیرؒ اس واقعہ کو نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :

’’حضرت سیدہ زینب (رضی اللہ عنہا) اپنے سادہ ترین کپڑوں میں داخل ہوئیں آپ غم سے نڈحال ہوچکی تھیں اور کنیزوں نے آپ کو گھیرا ہوا تھا آ کر آپ بیٹھ گئیں - تو ابن زیاد نے پوچھا

’’مَنْ هَذِهِ الْجَالِسَةُ؟ فَلَمْ تُكَلِّمْهُ فَقَالَ ذَلِكَ ثَلَاثًا وَهِيَ لَا تُكَلِّمُهُ‘‘

’’یہ عورت کون ہے جو بیٹھی ہے؟ آپ نے اس سے بات نہ کی-تین دفعہ اُس نے کہا لیکن آپ نے اس سے کوئی کلام نہ فرمایا‘‘-

 کسی کنیز نے کہا کہ :

 هَذِهِ زَيْنَبُ بِنْتُ فَاطِمَةَ

 یہ زینب بنت فاطمہ (رضی اللہ عنہا)ہیں -

ابن زیاد نے کہا:

’’اَلْحَمْدُ لِلّهِ الَّذِيْ فَضَحَكُمْ وَقَتَلَكُمْ وَأَكْذَبَ أُحْدُوْثَتَكُمْ! ‘‘

اس خدا کا شکر ہے جس نےتم لوگوں کو رسوا کیا اور قتل کیا اور تمہاری کہانیوں کوجھوٹا کر دیا -

اگر کوئی تھوڑا سا بھی سیاسی شعور رکھتاہو، سیاسی مکالمے یا مذاکرے دیکھتا اور پڑھتا ہو تو وہ اس بات کو بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ ابن زیاد کے الفاظ کا چناؤ اتفاقیہ طورپہ ایک واقعہ رونما ہو جانے والے نہیں ہیں- ایک عام انسان بھی اگر سوچے تو کیا کسی علاقے کے گورنر کےالفاظ کا انتخاب ایسا ہوسکتا ہے کہ اُس خدا کا شکرہے جس نے تمہیں رسوا کیا، تمہارے کنبے کو قتل کروایا اور تمہاری کہانیوں کو جھوٹا کر دیا؟؟؟نہیں! بلکہ اس کے پیچھے وہ نظریاتی بغض تھا جو اہل بیت سے خوارج و منافقین کے اندر پایا جاتا تھا اور آج تک پایا جاتا ہے- یعنی اہل بیت کے فضائل اور مناقب کو قصے کہانیاں کہنا ابنِ زیاد کا رویہ ہے-

ابن زیاد کے غرور اور گھمنڈ کو توڑتے ہوئے سیدہ زینب (رضی اللہ عنہا) نے جواباً ارشاد فرمایا :

اَلْحَمْدُ لِلهِ الَّذِيْ أَكْرَمَنَا بِمُحَمَّدٍ وَطَهَّرَنَا تَطْهِيْرًا، لَا كَمَا تَقُوْلُ وَإِنَّمَا يُفْتَضَحُ الْفَاسِقُ وَيُكَذَّبُ الْفَاجِرُ

’’بلکہ اُس خدا کا شکر ہے جس نے مُحمد (ﷺ)کے سبب سے ہم کو عزت دی اور ہم کو طیب اور طاہر کیا جو تو نے کہا ایسا نہیں ہے اور صرف فاسق کی رسوائی ہوتی ہےاور فاجر کی تکذیب ہوتی ہے‘‘-

اس کلام میں بنیادی طورپر تین باتوں کا ذکر ہے-پہلی بات ابنِ زیاد نے کہا تھا کہ اس اللہ کا شکر ہے جس نے تمہیں رسوا کیا جس کے جواب میں آپ (رضی اللہ عنہا)نے فرمایا کہ ابنِ زیاد یہ تیرا خیالِ ملعون ہے، مَیں اس اللہ کا شکر ادا کرتی ہوں جس نے مجھے میرے نانا کریم محمدمصطفےٰ(ﷺ) کے صدقے عزت بخشی- دوسری بات ابنِ زیاد نے کہاتھا کہ تمہیں رسوا کیا تو آپ (رضی اللہ عنہا)نے فرمایا نہیں رسوائی فاسق کی ہوتی ہے یعنی تم اور یزید جس کے تم غلام ہو، فاسق ہیں اور تم لوگوں کی رسوائی ہوگی- تیسری بات ابن زیاد نے کہا تھا کہ تمہاری کہانیاں جھوٹی ہوئیں تو آپ (رضی اللہ عنہا) نے فرمایا فاسقوں کی تکذیب ہوتی ہے مصطفٰے کریم (ﷺ) والوں کی تکذیب نہیں ہوتی -

پھر ابن زیاد نے کہا :

فَكَيْفَ رَأَيْت صُنْعَ اللهِ بِأَهْلِ بَيْتِكِ؟

’’تم نے اپنے اہل بیت کے ساتھ اللہ کے سلوک کو کیسا پایا؟ (یعنی تم نے دیکھ لیا کہ تمہارے اہل خانہ کے ساتھ خدا نے کیسا سلوک کیا  )‘‘-

تعجب کی بات دیکھئے! کہ یہ نا روا اور ظالمانہ سلوک یزید، ابنِ زیاد اور شمر کی فوج نے کیا؛لیکن اپنے اس ظلم کو چھپانے کے لئے تقدیرِ الٰہی کی اوٹ لی جارہی ہے وہی حکیم الامت والی بات کہ (عمل سے غافل ہوا مسلماں بنا کے تقدیر کا بہانہ)، فلسفۂ اقبال کے مطابق جو لوگ اپنی بد اعمالیوں اور سیاہ کرتوتوں کی ذمہ داری قبول کرنے کی بجائے ان کو تقدیر کی اوٹ میں چھپاتے ہیں وہ ابلیس کے پیرو ہوتے ہیں - جیسے ابلیس نے بارگاہِ ایزدی میں کہا:

حرفِ استکبار تیرے سامنے ممکن نہ تھا
ہاں! مگر تیری مشیت میں نہ تھا میرا سجود

یعنی فکرِ حکیم الامت کی رو سے تاریخِ اسلام میں غلطی کر کے اپنی غلطی کو ابلیس کی طرح مشیتِ الٰہی کہنا سب سے پہلے یزید نے کہا- جیسے حضرت آدم (علیہ السلام) بھی تو شجرِ ممنوعہ کا ثمر چکھ بیٹھے اور ابلیس نے بھی غلطی کی-لیکن شیطان نے اپنی غلطی کو اللہ کی مشیت پہ لوٹایا جبکہ سیدنا آدم (علیہ السلام) نے اپنے عمل کی ذمہ داری قبول کی اور اسے اپنے نفس کی طرف لوٹایا اور اللہ کے حضور اپنی توبہ پیش کی،عرض گزار ہوئے کہ میرے پروردگار! ہم نے اپنی جانوں پہ ظلم کیا ہے ہم تو تیری مغفرت اور رحم کے قابل ہیں- ابنِ زیاد کا عمل عین بعین ابلیسی عمل تھا -

سیدہ زینب (رضی اللہ عنہا) نے ابن زیاد کی اس بیہودگی کا جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا :

’’كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقَتْلُ فَبَرَزُوْا إِلَى مَضَاجِعِهِمْ وَ سَيَجْمَعُ اللهُ بَيْنَكَ وَبَيْنَهُمْ فَتَخْتَصِمُوْنَ عِنْدَهُ‘‘

’’ان کے مقدر میں شہید ہونا فرض کیا گیا تھاپس وہ اپنے مقتل کی طرف چلے گئےاور عنقریب اللہ تعالیٰ تجھے اور انہیں اکٹھا کر دے گا اور وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں تم سے جھگڑا کریں گے‘‘-

آنے والی سطور میں ایک بار پھر ابن زیاد کے الفاظ کے انتخاب کے پیچھے کارفرما نفسیات کی طرف توجہ دلوانا چاہوں گا- سیدہ پاک کی یہ بات سُن کے ابن زیاد غُصے سے آگ بگولا ہو گیا اور کہنےلگا :

’’قَدْ شَفَى اللهُ غَيْظِيْ مِنْ طَاغِيَتِكِ وَالْعُصَاةِ الْمَرَدَةِ مِنْ أَهْلِ بَيْتِكِ ‘‘

’’تمہارے اوپر ظلم و جبر سے اور تمہارے خاندان کے نافرمانوں اور سرکشوں کےقتل سے اللہ تعالیٰ نے میرے دل کو سکون بخشا ‘‘-

’’فَبَكَتْ وَقَالَتْ: لَعَمْرِيْ لَقَدْ قَتَلْتَ كَهْلِي، وَأَبْرَزْتَ أَهْلِيْ، وَقَطَعْتَ فَرْعِيْ، وَاجْتَثَثْتَ أَصْلِيْ فَإِنْ يَشْفِكَ هَذَا فَقَدِ اشْتَفَيْتَ.

’’یہ سن کر آپ رونے لگیں اور فرمایا: واللہ تم نے میرے ادھیڑ عمر(بھائی) کو قتل کر ڈالا، میرے خاندان والوں کو تباہ و برباد کر ڈالا میری شاخ کاٹ ڈالی اور میری جڑ اکھاڑ پھینکی،اگر اسی سے تمہیں سکون ملتا ہے تو یقینا تمہیں سکون مل گیا‘‘ -

ابن زیاد یہ سن کر کہنے پہ مجبور ہو گیا اس نے کہا :

’’هَذِهِ شُجَاعَةٌ، لَعَمْرِيْ لَقَدْ كَانَ أَبُوْكِ شُجَاعًا‘‘

’’یہ بڑی بہادر عورت ہے ، واللہ تمہارا باپ بڑا بہادر آدمی تھا‘‘

اس کے بعد ابن زیاد نے جب حضرت امام زین العابدین (رضی اللہ عنہ) کو دیکھا تو آپ کے شہید کرنے کا حکم دے دیا - سیدہ زینب (رضی اللہ عنہا) ابن زیاد کا ظالمانہ حکم سننے کے بعد بے چین ہو گئیں:

’’وَ تَعَلَّقَتْ بِهِ زَيْنَبُ‘‘

’’اور سیدہ زینب (رضی اللہ عنہا)اپنے بھتیجے کے ساتھ لپٹ گئیں‘‘-

درد بھرے لہجے میں فرمایا :

’’يَا اِبْنَ زِيَادٍ حَسْبُكَ مِنَّا‘‘

’’اے ابن زیاد جو کچھ تو نے ہمارے ساتھ کیا ہے وہی تجھے کافی ہے ‘‘-

پھر آپ نے فرمایا:کیا ہم لوگوں کے خون بہانے سے ابھی تک تو سیر نہیں ہوا-

’’وَ هَلْ أَبْقَيْتَ مِنَّا أَحَدًا! وَاعْتَنَقَتْهُ وَقَالَتْ أَسْأَلُكَ بِاللهِ إِنْ كُنْتَ مُؤْمِنًا إِنْ قَتَلْتَهُ لَمَّا قَتَلْتَنِي مَعَهُ!‘‘

’’اور تو نے ہم میں سے کسی کو زندہ رہنے دیا ہے - (یہ کہہ کر آپ نے اپنے بھتیجے کے گلے میں باہیں ڈال دیں اور کہا اے ابن زیاد اگر تو مسلمان ہے (یعنی اگر تو خود کو مسلمان سمجھتا ہے ) تو میں تجھے اللہ کو گواہ بنا کے کہتی ہوں کہ اگر تو اس کو شہید کرے گا تو اس کے ساتھ مجھے بھی شہید کرنا ‘‘-

قابلِ غور بات ہے کہ سیدہ زینب(رضی اللہ عنہا) نے دربارِ ظلم میں ایک ظالمانہ فیصلے پہ ظالم کی منت سماجت نہیں کی، رحم کی درخواست نہیں کی بلکہ اس کے سامنے ’’فی الفور‘‘ اپنا جرأت مندانہ فیصلہ سنایا - آپ (رضی اللہ عنہا) کے اس عمل میں نہ صرف بھتیجے کی ہمدردی تھی بلکہ غم و اندوہ کی اس کیفیت میں بھی آپ کی عرب تمدن و روایات پہ مہارت ، ہنگامی حالات میں دشمن کے فیصلے کاؤنٹر کرنے کی تدبیر و صلاحیت اور بھر پور سیاسی بصیرت کا منہ بولتا ثبوت تھا - سیدہ پاک (رضی اللہ عنہا) نے اپنی زبان اقدس سے ایسا کردار ادا کیا جس کے بارے کہا جاتا ہے کہ مومن کی زبان خدا کی تلوار ہوتی ہے-جیسے قلعۂ خیبر کے در و دیوار علی المرتضیٰ (رضی اللہ عنہ) کی للکار سے لرزتے رہے ویسے ہی کوفہ اور دمشق کے محلات کو سیدہ زینب بنتِ علی المرتضیٰ (رضی اللہ عنہ)کی للکار نے لرزا دیا -

سیدہ زینب (رضی اللہ عنہا) کی یہ گفتگو زندہ مثال ہے کہ اہل حق کی گردن کبھی نہیں جھکتی، ہزار ہا مسائل و مشکلات ہوں ہزار گنا دشمن طاقت ور و ظالم ہو اہلِ حق کا شیوہ نہیں ہے کہ اس کے سامنے دست بستہ ہو کر زندگی کی خیرات مانگیں بلکہ اہلِ حق سیدہ زینب(رضی اللہ عنہا) کی طرح اپنے پائے اِستقلال میں لغزش نہیں آنے دیتے- جیسا میرزا بیدل ؒ فرماتے ہیں کہ اہلِ حق کی استقامت شمع کی طرح ہوتی ہے جو خود پگھل جاتے ہیں مگراپنی جگہ سے نہیں ہٹتے-

پھراس کے بعد اگر کوئی یہ کہے کہ یہ ابنِ زیاد کا انفرادی عمل تھا اور اس کی ذہنیت و جارحیت و بربریت کا یزید کو علم نہ تھا تو حافظ ابنِ کثیرؒ، ابن الاثیرالجزریؒ , امام طبریؒ، امام ابن عساکرؒ اور دیگر مستند مؤرخینِ اسلام (رحمتہ اللہ علیھم) کی کتبِ تاریخ کا مطالعہ کریں تو اس واقعہ کو ملاحظہ کریں کہ جب سیدہ زینب (رضی اللہ عنہا) یزید کے دربار میں گئیں یا جس وقت سیدنا امام حسین (رضی اللہ عنہا) کا سرِ اقدس دربار میں لایا گیا تو یزید کا نقطۂ نظر کیا تھا؟؟؟ واللہ با خدا! کتبِ تاریخ کے مطابق ا ہل بیت کے متعلق یزید کا بھی وہی نفرت و تعصب سے بھرپور نقطۂ نظر تھا جو ابنِ زیاد کاتھا بلکہ اس سے بھی سخت تر تھا- حافظ ابن کثیرؒ نے اپنی تاریخ البدایہ والنہایہ میں نقل کیا ہے کہ یزید حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) کے سر مبارک کو سامنے رکھ کر آپ کے مبارک لبوں پہ اپنی ناپاک چھڑی مارتا رہا اور غزوۂ بدر کے مقتولین کے بدلے اور انتقام کی بات دُہراتا رہا - جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ابنِ زیاد کا تقرر و انتخاب اسی نفسیات اور ذہنیت کے ساتھ یزید نے کیا تھا کہ اہلِ بیت اطہار کا قتلِ عام (Genocide) کیا جائے - اس لیے یزید اس قتل میں برابر کا مجرم اور شریک ہے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ہے -

یزید کے رویہ کو سیاسیات کی کئی تھیوریز سے سٹڈی کیا جا سکتا ہے ،بالخصوص ’’اسکیما‘‘ (Schema) کے ذریعے بھی سمجھا جا سکتا ہے - ویسے تو اسکیما کو سائیکالوجی میں پڑھا اور پڑھایا جاتا ہے مگر یہ سوشل سائنسز کے دیگر علوم میں بھی شامل ہے خاص کر پولیٹیکل سائنس میں- اسکیما ہمیں یہ روشناس کراتا ہے کہ تمام انسانوں کا ایک عقیدہ ہوتا ہے جو ان کے سوچ اور عمومی رویہ پہ اثر انداز ہوتا ہے- دنیا میں آج بھی جتنے فاشسٹ لیڈر یا جنگی جنونی ہوتے ہیں انہیں زیادہ تر اسکیما کے تحت ہی اینالائز کیا جاتا ہے- ایسے سیاسی لیڈر جو شدت پسند اسکیما کے اسیر ہوتے ہیں، جیسا کہ یزید تھا ، وہ ایسے تمام درست اور برحق شواہد اور معلومات کو جھٹلا دیتے ہیں جو ان کے عقائد و رُجحانات سے میل نہ کھاتے ہوں- کوفہ اور دمشق میں ہونے والے مکلالمے اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ یزید اور ابنِ زیاد جس بات پہ خود یقین رکھتے تھے یا یوں کہئے کہ جس بات پہ خود ’’برین واش‘‘ تھے اس کےعلاوہ انہوں نے ہر بات کو ماننے سے انکار کر دیا - اور اپنے گھناؤنے فعل کو اس طرح درست ثابت کرنے پہ اڑے رہے جیسا کہ انہوں نے کوئی غلطی ہی نہ کی ہو -

یزید نے جو پہلا مکالمہ سیدنا امام زین العابدین (رضی اللہ عنہ) سے کیا اس کو حافظ ابنِ کثیرؒ اور دیگر مؤرخین نے نقل کیا ہے- ملاحظہ فرمائیں!

’’فَقَالَ يَزِيْدُ لِعَلِىٍّ يَا عَلِىُّ أَبُوْكَ الَّذِىْ قَطَعَ رَحْمِىْ وَجَهِلَ حَقِّىْ وَنَازَعَنِيْ سُلْطَانِيْ فَصَنَعَ اللهُ بَهٖ مَا قَدْ رَأَيْتَ ‘‘

’’یزید نے کہا اے علی (حضرت امام زین العابدین کا اسم مبارک علی بن حسین تھا)- تمہارے باپ نے میرے ساتھ قطع رحمی کی، میرے حق کو ضائع کیا، میری بادشاہت کو چھیننا چاہا اور تم نے دیکھا جو کچھ اللہ نے تمہارے باپ کے ساتھ کیا‘‘

آخری جملے پہ غور کریں کہ یزید بھی وہی ابلیسی فکر دُہرا رہا ہے کہ اپنی خطا کو مَشِیّتِ ایزدی کی طرف لوٹایا اور اپنے عمل کی ذمہ داری کو قبول نہیں کیا - اس کے ذہن میں بھی وہی تعصب اور وہی نفرت تھی جو ابنِ زیاد کے ذہن میں اہل بیت اطہار کے متعلق تھی بلکہ جو اس نے ابن زیاد کے ذہن میں ڈالی تھی -

پھر جب سیدہ زینب (رضی اللہ عنہا) نے امام حسین (رضی اللہ عنہ) کا مقدمہ پیش کیا تو :

’’فَغَضِبَ يَزِيْدُ وَاسْتَطَارَ ثُمَّ قَالَ إِيَّاىَ تَسْتَقْبِلِيْنَ بِهٰذَا إِنَّمَا خَرَجَ مِنَ الدِّيْنِ أَبُوْكِ وَ أَخُوْكِ‘‘

’’یزید بھڑک اٹھا اورچلانے لگا کہ تیری اتنی جرأت کہ تو میرے سامنے اٹھ کے بات کرے- بلکہ تیرا باپ (یعنی چوتھے خلیفۂ راشد سیدنا علی (رضی اللہ عنہ) اور تیرا بھائی (یعنی رسول اللہ (ﷺ) کے دوشِ عزت کے سوار سیدنا حسین (رضی اللہ عنہ) بھی دین سے نکل گیا تھا‘‘-(معاذ اللہ!)

اس فاشسٹ ذہنیت کے الفاظ دیکھیں جس کے نزدیک مسلمانوں کے چوتھے خلیفۂ راشد بھی دین سے خارج تھے- (معاذ اللہ استغفر اللہ)  یزید جب امام زین العابدین (رضی اللہ عنہ) سے بات کر رہا تھا تو بڑی عیاری و مکاری سے کہ تمہارے والد نے میرا حق چھیننا چاہا، میری سلطانی چھیننا چاہی، میرے خلاف کھڑے ہوگئے، میرے سے تعلق توڑ دیا -لیکن جب شیرخدا فاتحِ خیبر (رضی اللہ عنہ)کی شہزادی کی للکار سنی تو اندر کا بغض باہر آگیا- اس کے جواب میں سیدہ (رضی اللہ عنہا) نے فرمایا :

’’فَقَالَتْ زَيْنَبُ بِدِيْنِ اللهِ وَ دِيْنِ أَبِىْ وَدِيْنِ أَخِىْ وَجَدِّىْ اِهْتَدَيْتَ أَنْتَ وَ أَبُوْكَ وَجَدُّكَ ‘‘

’’اللہ کے دین، میرے والد، میرے بھائی اور میرے نانا کریم (ﷺ) کے دین کی وجہ سے تمہیں، تمہارے باپ اور دادا کو ہدایت ملی‘‘-

یعنی تم جس دین کا کلمہ پڑھتے ہووہ دین میرے والد حضرت علی (رضی اللہ عنہ)، میرے بھائی امام حسین (رضی اللہ عنہ) اور میرے نانا کریم خاتم الانبیاء محمد مصطفےٰ (ﷺ) کاہے؛جبکہ تو مجھے کہہ رہا ہے کہ تمہارے والد اور بھائی دین سے نکل گئے-(معاذ اللہ!)حقیقت تو یہ ہے کہ:

’’أَنْتَ أَمِيْرٌ مُسَلَّطٌ تَشْتِمُ ظَالِمًا وَتَقْهَرُ بِسُلْطَانِكَ ‘‘

’’یزید تُو ایک مسلط شدہ امیر ہے، تُو ظلم کے سہارے (مجھے) دشنام طرازی کر رہا ہے اور اقتدار کی وجہ سے (مجھ) پہ ظلم کر رہا ہے ‘‘-

میرے بھائیو اور بہنو! ہمارے سامنے رول ماڈل امام زین العابدین اور سیدہ زینب (رضی اللہ عنہا) کی ذات گرامی کا ہونا چاہیے جن سے ہمارے ایمان کو تقویت و حرارت ملتی ہے- کلماتِ زینب (رضی اللہ عنہا)آج تک فضاؤں میں گونجتے ہیں کہ شیرِ خدا کی شہزادی کسی جابر کی طاقت یا ظالم کی دہشت سے مرعوب نہیں ہوئی ، بلکہ ظلم و جبر کے تخت کو تخت کے سامنے کھڑے ہو کر للکارا- تاکہ قیامِ قیامت تک لوگ حق کو حسین سے اور باطل کو یزید سے پہچانیں -

اختتام کی طرف آتے ہوئے دو باتیں کہنا چاہوں گا کہ جیسے آج مسئلہ کشمیر ایک بہت درد ناک مرحلے سے گزر رہا ہے اور جس طرح وزیر اعظم صاحب نے اپنا نقطہ نظر بیان کرتے ہوئے بتایا کہ اس مسئلہ کے پیچھے ایک برین واش فاشسٹ آدمی بیٹھا ہوا ہے- کشمیر میں جو کچھ ہو رہا ہے، چاہے اس ظلم کا سہارا بھارتی پارلیمنٹ بنے یا بھارتی فوج لیکن اس ظلم و بربریت کے پیچھے اکیسویں صدی کے ہٹلر نریندر مودی کی ذہنیت ہے جو ایک موذی کی طرح ہمارے امن کے درپے اور اس پورے خطے کے ڈیڑھ ارب انسانوں کی جانوں کے در پے ہے- بالکل ان لوگوں کی طرح کہ جیسے وہ خانوادۂ اہل بیت کے پیچھے پڑے تھے-لیکن یاد رکھیں! یہ تخت واقتدار کسی کے پاس نہیں رہتا -

یہ وقت کس کی رعونت پہ خاک ڈال گیا
یہ کون بول رہا تھا خدا کے لہجے میں

کیونکہ المتکبر اللہ ہی کی ذات ہے اس کے بغیر بڑائی اور کبریائی کبھی کسی کو نہیں جچی -

آخری بات یہ ذہن نشین کروانا چاہوں گا کہ آپ ایک عارفِ کامل بلکہ عارفوں کے سلطان حضرت سلطان باھُوؒ کی درگاہِ شریف پہ موجود ہیں تو یہ یاد رکھیں کہ معرفت و عرفان کے فیوض اور خزائن، درجات و مقامات دین میں مکمل طور پہ داخل ہونے کے ساتھ محبت و ادبِ اہلِ بیت سے نصیب ہوتے ہیں - جو دِل اور سینہ محبت و ادبِ اہلِ بیت سے خالی ہے وہ کبھی بھی معرفت و عرفان کی کسی منزل کو نہیں پا سکتا- اس لئے ہمیں اپنے دلوں کو بغض و کینہ سے پاک کرنا چاہیے اور حضور نبی کریم (ﷺ)  کی محبت کے ساتھ آپ کے اصحاب اور اہل بیت سے بھی بے پناہ محبت کرنی چاہیے- جو بھی صحابہ یا اہل بیت سے بغض رکھتا ہے وہ شقی و بدبخت ہے-کیونکہ متفق علیہ احادیث سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ جبرئیل (علیہ السلام) کے ذریعے منادی کرواتا ہے کہ جو شخص میرے ولی سے دشمنی رکھتا ہے تو یاد رکھو پروردگار ایسے شخص سے دشمنی رکھتا ہے- اللہ تعالیٰ نے دو لوگوں کیلئے اعلانِ جنگ کیا ایک سُود خور کیلئے اور دوسرا اپنے ولی سے دشمنی رکھنے والے کے لیے-اس لئے ہم اپنے اندر یہ فکر و سعی پیدا کریں کہ ہمارے دلوں میں پاکانِ امت سے کسی کے لیے بغض نہ ہو-

طریقتِ قادریّہ کے حوالے سے آپ کو معلوم ہوگا کہ حضور پیرانِ پیر شیخ عبد القادر جیلانیؒ کے شیوخ کے شیوخ میں امام جنید بغدادی اور امام سری سقطیؒ  ہیں-شیخ سری سقطی کے شیوخ میں سیدنا امام معروف کرخیؒ  ہیں جن کی دو نسبتیں تھیں-

ایک نسبت داؤد طائیؒ سے حبیب عجمیؒ ان سے امام حسن البصریؒ اور ان سے سُلطانِ ولایت حضرت علی (رضی اللہ عنہ) سے اور حضرت علی (رضی اللہ عنہ) سے سیدنا سردار الانبیاء (ﷺ) سے تھی-

شیخ معروف کرخیؒ کی دوسری نسبت سیدنا امام علی الرضاؒ سے تھی، ان کی اپنے والدِ گرامی سیدنا امام موسیٰ کاظمؒ  سے تھی- ان کی نسبت اپنے والد امام جعفرصادق (رضی اللہ عنہ) سے تھی-ان کی نسبت اپنے والد امام محمد الباقر (رضی اللہ عنہ) سے تھی- ان کی نسبت اپنے والد امام زین العابدین (رضی اللہ عنہ)سے تھی- ان کی نسبت اپنے والد سید الشہداء حضرت امام حسین  (رضی اللہ عنہ) سے تھی اور ان کی نسبت اپنے والد امیر المؤمنین چوتھے خلیفۂ راشد سیدنا علی المرتضیٰ (رضی اللہ عنہ) سے تھی اور ان کی نسبت خاتم الانبیاء محمد رسول اللہ (ﷺ) سے ہے - اس لئے سیّدنا غوث الاعظم عبد القادر جیلانیؒ کا سلسلۂ قادریہ امام علی الرضاؒ کی نسبت سے بھی یعنی اہلبیت کی نسبت سے سرکارِ دو عالم (ﷺ) تک مکمل ہوتا ہے - محدثین کرام اس سند کو ’’سلسلۃ الذہب‘‘ بھی کہتے ہیں اور اس کے وسیلے سے اللہ کی بارگاہ سے شفاء بھی طلب کرتے ہیں-

اللہ تعالیٰ ہمیں اہلِ بیت اطہار کے راستے پہ چلنے کی توفیق عطا فرمائے- جو استقامت ہمیں کربلا میں امام عالی مقام (رضی اللہ عنہ) نے دیکھائی اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس استقامت کی خیرات عطا فرمائے- جو ثابت قدمی سیدہ زینب(رضی اللہ عنہا) نے کوفہ و دمشق میں دیکھائی اللہ ہمیں اور ہماری بیٹیوں بہنو آئندہ نسلوں کو اس ثابت قدمی کی خیرات عطا فرمائے- ہم اس کے دین پہ ثابت قدم رہ کر مستقیم رہ کر پہرہ دینے والے ہوں- ظلم کے خلاف اور حق کے ساتھ کھڑے ہوں-آمین!

٭٭٭


[1](آل عمران:61)

[2](صحیح مسلم، کتاب الجہاد)

[3](کشف الخفاء/تفسیر درِ منثور)

[4](المائدہ:79)

[5](المسد:1)

[6]( ابن کثیر / تاریخ طبری)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر