اسلامی معاشرت کی روح: محبت و عشق مصطفےٰﷺ(حصہ دوم)

اسلامی معاشرت کی روح: محبت و عشق مصطفےٰﷺ(حصہ دوم)

اسلامی معاشرت کی روح: محبت و عشق مصطفےٰﷺ(حصہ دوم)

مصنف: صاحبزادہ سلطان احمد علی دسمبر 2019

اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین دنیا بھر میں محبت و امن، عفوو در گزر،سخاوت اور رحم و کرم کے حصول و فروغ کے لئے اصلاحی اور تربیتی نوعیت کے اصلاحی پروگرام تشکیل دیتی ہے- جس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو مسلسل ایک تربیت اور اصلاح کے عمل سے گزارتے رہیں تا کہ ہمیں یہ فہم نصیب ہو کہ یہ دین دینِ رحمت ہے، یہ کتاب __ جو پیغمبرِ اسلام خیر الانام محمد مصطفےٰ(ﷺ) پہ نازل ہوئی __ کتابِ رحمت ہے- اسی طرح آپ (ﷺ) کی یہ امت جو تمام امتوں کی اعلیٰ صفات اور جمالیاتی مظاہر کی آئینہ دار ہے یہ بھی امتِ رحمت ہے- کیونکہ اس امت سے قبل جتنی بھی برحق امتیں گزریں ان کے بہترین اوصاف اللہ تعالیٰ نے اس امت میں جمع فرمادیے ہیں اور ہر وہ وصف جس کا تعلق کمال، جمال اور جلال سے ہے اللہ تعالیٰ نے ان تمام اوصاف و کمالات کو یکجا کر کے اس امت میں سمو دیا ہے-اس لئے اس امت کا ہر قد م جانب رحمت ہے کیونکہ جو سب سے شدید احکامات ہیں جن میں عریاں شمشیروں سے میدانِ کار زار میں اترنا ہے یہ قتال اور جہاد بھی اس امت میں حصول رحمت کے لئے کیا جاتا ہے نہ کہ کشور کشائی یا مالِ غنیمت کے لئے- یہی وجہ ہے کہ اس امت کا شدید ترین عمل بھی باعثِ رحمت ہے بشرطیکہ امت کو اس کی تکمیل میسر ہو اور اس کی تفہیم نصیب ہو-

اللہ تعالیٰ نے اس امت کو کل تخلیق کردہ مخلوقات کے لئے رحمت کا ذریعہ بنادیا ہے-لہٰذا جو بھی اس امت میں داخل ہو کر خاتم النبیین (ﷺ) کے عشق و محبت اور غلامی کا دَم بھرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے وجود سے رحمت کے چشمے ظاہر کر دیتا ہے-بقول حکیم الامت:

رنگِ او برکن مثالِ او شوی
در جہاں عکسِ جمالِ او شوی[1]

اس لئے مسلمان کی عظمت یہ ہے کہ وہ اس دنیا میں رہ کر اپنے حبیب مکرم (ﷺ) کی سنت کو اختیار کرتے ہوئے آپ (ﷺ)کے جمال کا عکس بن جائے-کیونکہ سرکارِ دو عالم (ﷺ) کو اللہ تعالیٰ نے تمام عالم کے لئے سراپا رحمت بناکر مبعوث فرمایا ہے پھر وہ عالَم چاہے انسان کےفہم و وہم میں ہوں یا مارواء ہوں -جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

’’وَمَآ اَرْسَلْنٰـکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ‘‘[2]

’’ اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کیلئے‘‘-

اسی طرح سرکارِ دو عالم (ﷺ)کا فرمانِ مبارک ہے:

’’حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ رسو ل اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایاکہ:

’’أُرْسِلْتُ إِلَى الْخَلْقِ كَافَّةً وَخُتِمَ بِىَ النَّبِيُّوْنَ‘‘[3]

’’مجھے تمام مخلوق کی طر ف مبعوث کیا گیا اور مجھ پر تمام انبیاء کرام (رضی اللہ عنھم) کی نبوت اختتام پذیر ہوئی‘‘-

ہماری گفتگو کا زیادہ موضوع تو ’’إِلَى الْخَلْقِ كَافَّةً‘‘ کی طرف ہوگا لیکن ضمناً عرض کرتا چلوں کہ سورہ الانبیاء کی اس آیت اور صحیح مسلم شریف کی اس حدیث کے مطابق آقا کریم (ﷺ) کے دونوں مناصب ’’رحمت اللعالمین‘‘ اور ’’خاتم النبیین‘‘ کا آپس میں گہرا اور مضبوط تعلق ہے-

’’صحیح بخاری‘‘کی ایک طویل حدیثِ شفاعت ہے کہ:

’’حضور نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا کہ روزِ محشر جتنا بھی ہجومِ محشر ہوگا وہ جس بھی نبی کے پاس جائیں گے اس نبی کے ان معجزات کے وسیلہ سے شفاعت طلب کریں گے جو اللہ تعالیٰ نے ان کو عطا کیے ہوں گے- سب سے پہلے حضرت آدم (علیہ السلام) کو عرض کریں گے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کا جسدِ اقدس تیار کر کے روح کو پھونکا، آپ کو ابو البشر اور مسجودِ ملائک بنایا آپ ہماری شفاعت کریں؟ وہ فرمائیں گے کہ حضرت نوح (علیہ السلام)کی طرف جاؤ ، اہلِ محشر حضرت نوح (علیہ السلام) کے پاس جائیں گے تو عرض کریں گے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو زمین پہ نجات عطا فرمائی، آپ کو پہلا نبی بنا کر بھیجا، ہماری شفاعت فرمائیں؟ وہ فرمائیں گے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس جاؤ- اہلِ محشر حضرت ابراہیم (علیہ السلام)کی اعلیٰ صفات کا ذکر کریں گے اور عرض کریں گے ہماری شفاعت کریں؟حضرت ابراہیم (علیہ السلام) فرمائیں گے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ - پھر وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام)کی اعلیٰ صفات و معجزات کا ذکر کرتے ہوئے شفاعت طلب کریں گے تو وہ فرمائیں گے کہ حضرت عیسیٰ روح اللہ(علیہ السلم) کی طرف جاؤ- پھر اسی طرح تمام ہجومِ محشر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جائے گا اور ان کے بغیر والد کے پیدا ہونے، پنگھوڑے میں کلام کرنے اور دیگر معجزات کے وسیلہ سے شفاعت طلب کریں گے تو پھر حضرت عیسیٰ (﷤) فرمائیں گے اگر تم نجات چاہتے ہو تو حضرت محمد رسول اللہ (ﷺ) کی بارگاہ میں جاؤ پھر جب حضور نبی کریم (ﷺ) کی بارگاہ اقدس میں ہجوم محشر جمع ہو گا تو ہجوم محشر حضور نبی کریم (ﷺ) کے دیگر معجزات کا ذکر بعد میں کرے گا سب سے پہلے یہ عرض کرے گا کہ یا رسول اللہ (ﷺ)آپ خاتم النبیین ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ کی عدالت میں ہماری شفاعت فرمائیں- پھر آپ (ﷺ) ان کی شفاعت فرمائیں گے‘‘-

یعنی روزِ قیامت حضور نبی کریم (ﷺ) کے خاتم النبیین کا وسیلہ ہماری شفاعت کا وسیلہ ہے اور ’’صحیح مسلم‘‘ کی پہلے بیان ہونے والی حدیث مبارکہ سے سرکارِ دو عالم (ﷺ) کا منصبِ رحمت اللعالمین ہونا بھی منصبِ خاتم النبیین سے جدا نہیں ہے-اس لئے حضور نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا کہ جتنی بھی مخلوق اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمائی مجھے ان تمام مخلوقات کی طرف مبعوث فرمایا-

ملا علی قاریؒ  ’’مرقاۃ شرح مشکوٰۃ‘‘ میں ’’وَ أُرْسِلْتُ إِلَى الْخَلْقِ كَافَّةً‘‘کی وضاحت میں فرماتے ہیں کہ:

’’أَيْ: إِلَى الْمَوْجُوْدَاتِ بِأَسْرِهَا عَامَّةً مِّنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ الْمَلَكِ وَالْحَيَوَانَاتِ وَالْجَمَادَاتِ‘‘[4]

’’یعنی کہ تمام موجودات کی طرف چاہے وہ جن و انس، فرشتے اورحیوانات و جمادات میں سے ہوں‘‘-

اس سے مراد یہ ہے کہ تمام کائنات میں جوکچھ بھی ظاہر ہے یا پوشیدہ؛ اللہ تعالیٰ نے کل مخلوقات اور موجودات کیلئے حضور نبی کریم (ﷺ) کو مبعوث فرمایا- اس لئے کائنات کی ہر ایک چیز محمد مصطفےٰ (ﷺ) کی نبوت و رسالت کی گواہی دیتی ہے-بقول علامہ اقبالؒ:

ہر کجا ہنگامۂ عالم بود
رحمۃ للعالمینے ہم بود![5]

’’جہاں کہیں بھی زندگی کے آثار ہوں گے وہاں رحمۃ اللعالمین (ﷺ) کی شانِ رحمت بھی جلوہ گر ہوگی ‘‘-

اس لئے عشاق کا یہ نظریہ ہے کہ:

خدا کی خدائی کی وُسعت جہاں تک
محمد (ﷺ) کی ہے شانِ رحمت وہاں تک

ملا علی قاری کا بیان ہونے والا قول اِس حدیث پاک کے عین موافق ہے جسے امام دارمیؒ ’’سنن الدارمی‘‘ میں ، امام طبرانیؒ ’’المعجم الکبیر‘‘ میں ، امام ہیثمی ’’مجمع الزوائد‘‘ میں، امام جلال الدین سیوطیؒ ’’الجامع الصغیر‘‘ میں اور امام احمد ابن حنبلؒ ’’مسند احمد ‘‘ میں نقل فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’إِنَّهُ لَيْسَ شَيْءٌ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ، إِلَّا يَعْلَمُ أَنِّيْ رَسُوْلُ اللهِ‘‘

’’زمین و آسمان کے درمیان جو چیز بھی ہے اسے معلوم ہے کہ بے شک میں اللہ پاک کارسول ہوں‘‘-

یعنی اس کائنا ت میں اللہ تعالیٰ نے جتنی بھی مخلوق پیدا کی ہے وہ حضور نبی کریم (ﷺ) کی نبوت و رسالت کی گواہی دیتی ہے- مثال کے طور پر اس زمین کی ہیئت کو دیکھیں، اس زمین میں مٹی و ریت بھی ہے، گھاس، پتھر اور تنکے بھی ہیں، پانی بھی پھوٹتا ہے، لاوے بھی ابلتے ہیں، آتش فشاں بھی پھٹتے ہیں، زمیں سے نباتات، پھول، پتے،شاخیں، تنے بھی نکلتے ہیں، زمین کے اوپر ہزار ہا انواع و اقسام کے حشرات الارض، حیوانات اور انسان پائے جاتے ہیں، انسانوں میں ہر ضمیر، ہر شعور و رنگ کا انسان پایا جاتا ہے، جہاں تک زمین کی کشش ثقل ہے اس کے درمیان ہزار ہا اقسام کے ذرات ملتے ہیں، روشنی ملتی ہے، زمین کی ’’گریویٹیشنل فورس‘‘ ہے، آسمان کے درمیان اتنی وسیع کائنات ہے کہ بقول سائنس یہ آسمان تو محض رنگ کی ایک چادر معلوم ہوتی ہے، آسمان میں اربوں سیارے و کواکب ہیں جن میں مختلف قسم کی مخلوقات ہیں سرکارِدو عالم (ﷺ) نے فرمایا کہ یہ جتنی ان گنت اور بے شمار مخلوقات زمین و آسمان کے درمیان نظر آتی ہیں یہ سبھی جانتی ہیں کہ خاتم الانبیا محمد مصطفےٰ احمد مجتبےٰ (ﷺ) اللہ تعالیٰ کے سچے رسول ہیں - مزید اس کی کئی امثال اور ہزار ہا روایت ہیں کہ جن و انس اور ملائکہ کے علاوہ دیگر مخلوقات جن کو ہم بے شعور و بے زبان سمجھتے ہیں ان اشیاء اور موجودات نے بھی محمد الرسول اللہ (ﷺ) کی نبوت و رسالت کی گواہی دی ہے-

جس طرح کائنات کی ہر مخلوق یہ جانتی ہے کہ یہ محمد مصطفےٰ (ﷺ) ہیں اسی طرح حضور نبی کریم (ﷺ) بھی یہ جانتے ہیں کہ ان موجودات اور مخلوقات میں کون کون سی چیز میری نبوت و رسالت کی گواہی دیتی ہے-اسی طرح بے شمار احادیث مبارکہ ہیں کہ جس میں پتھروں نےسرکارِ دو عالم (ﷺ) کی ذاتِ گرامی پہ کلمہ پڑھا، حجر و شجر نے یہ گواہیاں دیں کہ یہ رسول اللہ ہیں اور حضور نبی کریم (ﷺ) بھی یہ جانتے ہیں کہ یہ پہاڑ مجھ سے محبت کرتا ہے؛حالانکہ یہ بے جان و بے زبان ہے لیکن حضور جانتے ہیں کہ کون مجھ سے محبت کرتا ہے اور کون (معاذ اللہ) مجھ سے بغض رکھتا ہے-

ابو المعانی میرزا عبدالقادر بیدل دہلوی نے ’’مثنوی سنگ و شرر‘‘ میں یہ نکتہ کھولا کہ پتھروں میں بھی جان ہے اور ان احادیث مبارکہ کی سمجھ آئی کہ پتھر بھی جان اور زندگی رکھتے ہیں لیکن ان کی زندگی ہماری زندگی سے مختلف ہے - یہ بات سن کر اور پڑھ کر ایک مرتبہ انسان کی پیشانی پہ بل ضرور آتے ہیں-کیونکہ یہ بات انسان کی عقل سے ماوراء محسوس ہوتی ہے-اس کے جواب میں میرزا بیدل نے جو دلیل پیش کی ہے اس کا مفہوم یہ ہے کہ ایک بے جان سے کوئی چیز برآمد نہیں ہوتی جب کہ پتھر سے شرر برآمد ہوتا ہے جو پتھر میں زندگی کی علامت کو ظاہر کرتا ہے-ا گر یہ بے جان ہوتا تو بے جان سے کوئی دوسری چیز برآمد نہیں ہوسکتی-اسی دلیل کو متصوفانہ فکر میں انسان پر بھی منطبق کرتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ دیکھنے میں جسدِ انسانی بھی اربع عناصر کا پنجرہ نظر آتا ہے اگر اس پتھر کو بھی عشق کی رگڑ مل جائے تو اس سے بھی شعلہ پھوٹ سکتا ہے-

اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں آپ (ﷺ) کی ذات گرامی کو اشرف المخلوقات کے سب سے افضل و اشرف طبقہ انبیاء کرام (علیھم السلم) میں سب سے افضل و اشرف پیدا فرمایا اور جتنے اوصاف و کمالات کسی وجود میں جمع کیے جا سکتے تھے اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے وہ تمام اوصاف و کمالات اپنے حبیب مکرم (ﷺ)کے وجود اقدس میں جمع فرما دیے-اس لئے حضور نبی کریم (ﷺ) سے مسلمانوں کا جو تعلق اور رشتہ ہے وہ ان کے اپنے نصیب کے مطابق ہے کیونکہ دریا تو بَہ رہا ہے اور یہ پیاسے کی پیاس اور تشنگی پر منحصر ہے کہ وہ اس دریا سے کتنا پانی حاصل کرتا ہے، سمندر کا سینہ تو خزائن سے بھرا ہوا ہے لیکن یہ غواص کی اپنی قسمت اور صلاحیت ہے کہ وہ سمندر کے سینے سے کتنے موتی چن سکتا ہے-

اللہ تعالیٰ نے سرکارِ دو عالم (ﷺ) کو اوصاف و کمالات میں جو جامعیت اور محاسن عطا فرما دیے ہیں انسان کے بس میں ہی نہیں ہے کہ وہ اس کا شمار کر سکے-لیکن جن کو معرفتِ مقامِ مصطفےٰ (ﷺ)نصیب ہوئی، آپ (ﷺ) کی شان و عظمت کا ادراک نصیب ہوا انہوں نے اپنی محبت کو حبیب مکرم (ﷺ) کی ذات گرامی کے کسی ایک پہلو پر محدود نہیں کیا بلکہ انہوں نے سرکارِ دو عالم (ﷺ) کی ذاتِ گرامی کی ہر جہت اور ہر وصف و کمال سے محبت کی ہے- اس کی عمدہ ترین مثال آپ (ﷺ) کے صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) ہیں جنہوں نےاپنی محبت کو فقط آپ (ﷺ) کےظاہری اوصاف و کمالات اورمنصبِ نبوت تک ہی محدود نہیں کیا بلکہ انہوں نے حضور نبی کریم (ﷺ) کو زِرہ پہنے دیکھا، تیر اٹھائے دیکھا، لشکر اسلامی کی قیادت کرتے دیکھا، منبر پر خطبہ دیتے ہوئے بھی دیکھا، قبائل کے صلح و تصفیہ کرواتے دیکھا،معجزات دیکھے، حکمت کے فیصلے دیکھے، وہ امتیازی فضائل دیکھے جو اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے مابین آپ (ﷺ) کو عطا فرمائے جن میں حضور نبی کریم (ﷺ) کو حُسنِ وجود عطا ہوا، اعضاء مبارکہ کے مختلف کمالات عطا ہوئے، آپ (ﷺ) کے دہن شریف کو اللہ تعالیٰ نے جو معجزات عطا کیے ہیں اگر فقط دہن مبارک کے معجزات و کمالات کو بیان کیا جائے تو ایک دو نہیں بلکہ سینکڑوں نشستیں بھی اس کو بیان کرنے کے لئے ناکافی ہو جائیں؛اسی طرح حضور نبی کریم (ﷺ) کے خونِ مبارک، سانس مبارک اور پیشانی مبارک کو جو کمال عطا ہوئے، گردن آپ کی بھی ہے گردن میری بھی ہے مگر جو گردنِ مصطفےٰ (ﷺ) کو کمال عطا ہوا اس کی شان کا ادراک ہی نہیں ہو سکتا،اسی طرح صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) نے آپ (ﷺ) کی حیاتِ مبارکہ کے کسی ایک سیاسی و سماجی، معاشرتی ومعاشی پہلو سے محبت نہیں کی بلکہ صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) نے سرکارِ دو عالم (ﷺ) کے ان فضائل و شمائل سے بھی محبت کی جو اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ) کو اس کائنات کی تخلیق اور آپ (ﷺ) کی بعثت سے قبل عطا فرمائے، بوقتِ ولادت عطا فرمائے، اعلانِ نبوت سے قبل اور بعد از وصال عطا فرمائے-لہٰذا آپ (ﷺ) سے اگر محبت ہے تو اس محبت کا تقاضا یہ ہے کہ یہ محبت ہماری فکر کی محدودیت کے مطابق نہیں بلکہ آقا کریم (ﷺ) کی عظمت کی لامحدودیت کے مطابق ہونی چاہیے-

مسلمانو ! غلامی کی گزشتہ دو اڑھائی صدیوں میں امت میں جو زوال اور انحطاط آیا اس کی علامات میں سے یہ ہے کہ ہم نے سرکارِ دو عالم (ﷺ) سے محبت کرنے کیلئے ترازو لگا دیے کہ پہلے اس میں محبت کو تولو پھر محبت کرو-جس سے یہ محبت کم ہوتے ہوتے اس نہج پہ پہنچ چکی ہےکہ سیرت نگاری کی جدید کتب کا مطالعہ کریں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ مسلمان اسلام کا صرف ایک سیاسی پیروکار ہے اور اس کا اسلام سےصرف ریاست و سیاست کا تعلق ہے اور رسول اللہ (ﷺ) سے محض قیادت و سیادت کا تعلق رہ گیا ہے -

قیادت و سیادتِ مصطفےٰ (ﷺ) سے کلمہ گو کیلئے انکار ممکن ہی نہیں لیکن یاد رکھیں! کہ سرکارِ دو عالم (ﷺ) سے تعلق فقط سیاست، سماج، معیشت کی بنیاد پراستوار نہیں کیا جا سکتا بلکہ آپ (ﷺ) سے محبت کے اور بھی تناظرات ہیں- اس لئے آپ (ﷺ) سے محبت کرتے ہوئے یہ ذہن میں رکھیں کہ آج فقط آپ (ﷺ) کے ظاہری فیصلوں کو سامنے رکھتے ہوئے فقط یہ کہنا کہ میرے لئے اتنا ماننا ہی کافی ہے کہ آپ (ﷺ) سب سے اچھے والد، شوہر، پڑوسی اور سالار تھے-یہ تمام باتیں درست ہیں کہ حضور نبی کریم (ﷺ) جیسا والد، شوہر، پڑوسی اور سالار کسی کو نصیب ہو سکتا ہی نہیں اور نہ ہی اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش ہے-اگر اس میں کوئی وسوسہ بھی آئے وہ وسوسۂ شیطانی کہلائے گا-لیکن دین کو فرقہ وارانہ سیاست کیلئے استعمال کرنے والوں کی طرف سے ان ظاہری اوصاف سے یہ تعبیر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اس کے علاوہ جتنے بھی اوصاف و کمالات، خصائص و شمائل و فضائل اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے آقا کریم (ﷺ) کو عطا فرمائے ہیں اُن کا انکار کر دیا جائے (معاذ اللہ) - مشرق و مغرب میں جدید سیرت نگاروں،جن میں مستشرقین، بعض یہودی، عیسائی اور بعض دیگر مذاہب سے ہیں- حالانکہ بعض ’’atheist‘‘ جو خدا، پیغمبر اور کسی کتاب کو نہیں مانتے انہوں نے بھی سیرت پہ کتب لکھیں ہیں جن کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ سب بھی حضور نبی کریم (ﷺ) کے ظاہری اوصاف کا اعتراف بخوبی کرتے ہیں، مگر وہ سرکارِ دو عالم (ﷺ) کے فضائل و شمائل روحانیہ کے قائل نہیں ہیں-یعنی بظاہر شخصیت کا اعتراف تو کفار بھی کرتے ہیں جیسا کہ جب آپ (ﷺ) نے چوٹی پہ کھڑے ہو کر کفار سے پوچھا تھا کہ اس 40 سال میں تم لوگوں نے مجھے کیسا پایا تو انہوں نے کہا کہ ہم نے آپ (ﷺ) کو صادق و امین پایا ہے-اسی طرح جوامانتیں آپ (ﷺ)نے شبِ ہجرت حضرت علی المرتضیٰ شیرِ خُدا (رضی اللہ عنہ) کو عطا فرمائیں ان میں اکثر امانتیں ان کی تھیں جو آپ (ﷺ) کے دین کو جھٹلاتے تھے-آپ (ﷺ) کو دیکھا تو ابوجہل نے بھی اسی ظاہری آنکھ سے ہی تھا مگر اس کی نظر صرف ظاہر پر تھی وہ ان باطنی خصائص و فضائل کا منکر تھا جن سے اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ) کواس کائنات میں منفرد اور ممتاز بنایا تھا-اس لئے اگر ہم بھی کفار و مستشرقین والی وہی روش و رَوایت اختیار کر لیں تو گھٹتے گھٹتے ہمارا تعلق بھی آپ (ﷺ) سے فقط سماجیات، سیاسیات اور معاشیات کا رہ جائے گا جبکہ مسلمان کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اپنی عقل کو عظمت و شانِ مصطفےٰ ماپنے کا پیمانہ سمجھ لے ، اِس لئے شیخِ رومیؒ نے نصیحت فرمائی کہ :

عقل قُرباں کُن بہ پیشِ مُصطفٰےؐ

’’حضور (ﷺ) کی سرو قامتی کے سامنے عقل کا بونا پن قُربان کر کے ہی بات بنے گی ‘‘-

یہ تو ضمناً چند ایک باتیں تھیں جو عرض کرنا ضروری سمجھا تا کہ نفس کی طرح عقل کو بھی تزکیّہ نصیب ہو، قلب کی طرح عقل بھی وسوسہ و شک سے پاک ہو جائے-

میرے بھائیو اور بزرگو! اصل موضوع جس پہ آج چند گزارشات پیش کرنا چاہتا ہوں وہ صحیح مسلم شریف والی اس حدیث کے ایک حصہ پہ مشتمل ہے جو ہم نے ابتداء میں پیش کی کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا کہ مجھے رسول بنایا گیا ہے ’’ إِلَى الْخَلْقِ كَافَّةً‘‘ تمام مخلوقات کی طرف تو جہاں ملائکہ نے، انسانوں نے اور جنّات نے آقا پاک (ﷺ) کی نبوت کی گواہی دی ہے وہیں حیوانات ، نباتات اور جمادات نے بھی میرے آقا (ﷺ) کی نبوت کی گواہی دی ہے -

بطور تبرک چند احادیث مبارکہ یہاں ذکر کرنا چاہوں گا کہ بشر تو بشر اللہ تعالیٰ نے سرکارِ دو عالم (ﷺ) کی نبوت و رسالت اور آپ (ﷺ) کی عظمت کا ادراک جانوروں کو بھی عطا فرمایا ہے-

امام ابو نُعیم اصبہانیؒ (المتوفى:430ھ) ’’دلائل النبوة‘‘ میں، امام بیہقیؒ (المتوفى:458ھ)’’دلائل النبوۃ للبیہقی‘‘ میں اور امام ابن کثیرؒ (المتوفى: 774ھ)’’البدایہ و النہایہ‘‘میں فرماتے ہیں کہ :

’’حضرت یعلیٰ بن مُرہ ثقفی (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ جب ہم ایک اونٹ کے پاس سے گزرے پس آپ (ﷺ) نے اس اونٹ کو دیکھااس پر سختی کی جارہی تھی- آپ (ﷺ) نے فرمایا کہ اس اونٹ کا مالک کہاں ہے، پس جب وہ آیا تو آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا کہ اس اونٹ کو بیچ دو- ا س نے عرض کی نہیں (یا رسول اللہ (ﷺ) میں آپ (ﷺ) کو ہبہ کر وں گا، پھر آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا کہ نہیں تم اس کو بیچ دو، اس نے عرض کی نہیں، بلکہ (یارسول اللہ (ﷺ) میں آپ (ﷺ) کو ہبہ کر وں گا کیونکہ ہمارے گھر کی اس کے علاوہ کوئی روزی کا ذریعہ نہیں ہے تو آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا کیا تو نے وہ سنا جو ا س نے اپنا معاملہ ذکر کیا ہے :

’’فَإِنَّهُ شَكَى كَثْرَةَ الْعَمَلِ وَقِلَّةَ الْعَلَفِ فَأَحْسِنُوْا إِلَيْهِ‘‘

’’پس یہ اپنے کثرت ِ عمل اور چارے کی کمی کی شکایت کر رہا ہے پس تم اس کے ساتھ حسن سلوک کرو‘‘-

’’الشفاءبتعریف حقوق المصطفٰے (ﷺ)‘‘ میں یہ بھی روایت کیا گیا ہے کہ:

’’آپ(ﷺ) نے ان سے فرمایا کہ اونٹ نے بچپن سے سخت سے سخت کام لینے کے بعد اب ذبح کرنے کی شکایت کی ہے-تو انہوں نے عرض کی ہاں (یارسول اللہ( ﷺ) ، (ایسا ہی ہے ) بچپن سے اونٹ کو پالا تھا جب وہ بوڑھا ہوگیا تو انہوں نے شکوہ کیا کہ اب اس کو گھر میں ذبح کر دیتےہیں لیکن یہ بات اونٹ کو منظور نہیں تھی اس لئے اونٹ نے آپ (ﷺ) سے شکایت کی‘‘-

یعنی حضور (ﷺ)کا اس مقام سے گزر ہوا تو اللہ تعالیٰ نے اس مخلوق کو بھی جو بظاہر بے جان ہے اس قدر آپ (ﷺ) کی شان کا ادراک عطا فرمایا کہ سرکارِ دو عالم (ﷺ) کی ذاتِ گرامی کو دیکھتے ہی وہ اونٹ سمجھ گیا کہ یہ وہ ذاتِ نُورِ مجسم ہے جس کا وجودِ اقدس اللہ تعالیٰ نے سراپا رحمت بنادیا ہے اور یہی وہ درگاہ ہے جہاں سے میری مشکل کشائی ہوسکتی ہے-

امام ابو داؤدؒ ’’سنن ابو داؤد، کتاب المناسک‘‘ میں، امام خزیمہؒ ’’صحیح ابن خزیمہ‘‘ میں، امام طبرانیؒ ’’معجم الکبیر‘‘ میں اور امام حاکم’’المستدرک علی الصحیحین‘‘ میں لکھتے ہیں کہ:

’’حضرت عبداللہ بن قُرْط (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے عظمت والے ایام یوم نحر (دس ذوالحجہ)پھر يَوْمُ الْقَر (یعنی اگلاروز ہے )- پھر فرماتے ہیں کہ:

’’وَقُرِّبَ لِرَسُوْلِ اللهِ (ﷺ) بَدَنَاتٌ خَمْسٌ أَوْ سِتٌّ فَطَفِقْنَ يَزْدَلِفْنَ إِلَيْهِ بِأَيَّتِهِنَّ يَبْدَأ‘‘

’’رسول اللہ (ﷺ) کی بارگاہِ اقدس میں پانچ یا چھ اونٹ (قربانی کیلئے)پیش کیے گئے پس ہر اونٹ دوسروں سے (پہلے ) آپ (ﷺ) کے نزدیک تر ہوتا جاتا ، تاکہ (قُربانی کی ) اِبتداء اس سے فرمائی جائے‘‘-

یعنی یوم قربانی پہ اہل اسلام کے ہاتھوں سنت ابراہیمی کے لئے ذبح ہونا اونٹوں کے لئےسعادت تو تھی مگر وہ یہ جانتے تھے کہ اس سے بڑی سعادت نہیں ہوسکتی کہ قربان کرنے والےخود محمد مصطفےٰ (ﷺ) ہوں-اس لئے اونٹ دوڑ دوڑ کرآپ (ﷺ) کی طرف آتے ہیں کہ پہلے مجھے قربان کریں- اس واقعہ پہ حضرت امیر خسرو ؒ کا ایک مصرعہ میں ترمیم سے پڑھا کرتا ہوں :

ہمہ ’’اُشترانِ صحرا‘‘ سرِ خود نہادہ بر کف
بامیدِ آں کہ روزے بہ شکار خواہی آمد

اس لئے ناچیز عموماً اپنے تمام احباب اور مسلمانوں کو گزارش کرتا ہے کہ کم از کم ان اونٹوں جتنا جذبہ تو اپنے اندر پیدا کیا جائے کہ جس طرح وہ سرکار (ﷺ) کی قربت کیلئے ایک دوسرے سے سبقت لے جاتے ہیں اسی طرح مسلمانوں کو بھی چاہیے کہ وہ بھی حضور نبی کریم (ﷺ) کی قربت کے لئے ایک دوسرے سے سبقت لے جایا کریں-

دین قربِ مصطفےٰ (ﷺ)، عشق و محبتِ مصطفےٰ، ادب و تعظیمِ مصطفےٰ (ﷺ) اور حضور نبی کریم (ﷺ) کی شان و عظمت کی معرفت کا نام ہے- اگر ادب و محبت مصطفےٰ (ﷺ) دل سے نکل جائے تو پھر دین میں رسومات کے علاوہ کچھ نہیں رہ جاتا-جس طرح بدن کا تقویٰ نماز، روزہ ، زکوٰۃ اور حج میں ہے اور از روئے قرآن دلوں کا تقویٰ ادبِ مصطفےٰ (ﷺ) میں ہے-جیسا کہ فرمانِ باریٰ تعالیٰ ہے:

’’اِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَہُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللہِ اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللہُ قُلُوْبَہُمْ لِلتَّقْوٰیط لَہُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّاَجْرٌ عَظِیْمٌo ‘‘[6]

’’ بے شک جو لوگ رسول اﷲ (ﷺ) کی بارگاہ میں (ادب و نیاز کے باعث) اپنی آوازوں کو پست رکھتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو اﷲ نے تقویٰ کے لیے چُن کر خالص کر لیا ہے-ان ہی کے لیے بخشش ہے اور اجرِ عظیم ہے‘‘-

جنہوں نے فقط اتنا عمل کیا کہ حبیب مکرم (ﷺ) کے ادب کے لئے انہوں نے اپنی آوازوں کو پست کرلیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو تقویٰ کیلئے خالص فرما دیا-گویا ادبِ مصطفےٰ (ﷺ) ہی دلوں کا تقویٰ ہے اور آپ (ﷺ) کی بارگاہِ اقدس میں پہنچنا ہی روحِ ایمان ہے جس کی خبر نباتات و جمادات اور حیوانات کو بھی ہے-

قاضی عیاض مالکی اندلسیؒ ایک حدیث پاک نقل فرماتے ہیں کہ:

’’حضور نبی کریم (ﷺ) کی اونٹنی مبارک آپ (ﷺ) سے اپنا حالِ دل بیان کرتی ہوئی عرض کرتی ہے، یا رسول اللہ (ﷺ) چرنے میں اس کی طرف دوسرے جانور جلدی کرتے ہیں :

’’وَنِدَائِهِمْ لَهَا إِنَّكَ لِمُحَمَّدٍ (ﷺ )‘‘

(یارسول اللہ (ﷺ)اور وحشی جانور کنارہ کش ہو کر کہتے ہیں کہ تُو حضور نبی کریم (ﷺ) کی اونٹنی ہے-

’’وَأنَّهَا لَمْ تَأْكُلْ وَلَمْ تَشْرَبْ بَعْدَ مَوْتِهٖ حَتَّى مَاتَتْ‘‘[7]

اس اونٹنی نے حضور نبی کریم (ﷺ) کے وصال کے بعد کھانا پینا چھوڑ دیا یہاں تک کہ(آپ(ﷺ) کے غم میں) اس نے جان دے دی‘‘-

یعنی وحشی جانور ایک دوسرے کو کہتے ہیں کہ اس کو نقصان نہیں پہنچانا، اس کے آگے سے چارہ اٹھا کرنہیں کھانا اس لئے کہ یہ محمدِ مصطفےٰ (ﷺ) کی اونٹنی ہے؛ اور یہی وہ اونٹنی ہے کہ جب آپ (ﷺ) نے پردہ فرمایا تو یہ اونٹنی فاقہ کش ہوگئی نہ کچھ کھاتی تھی نہ پیتی- اس لئے کہ وہ سرکارِ دو عالم (ﷺ) سے اس قدرمانوس تھی کہ جب اسے آپ (ﷺ) کے قرب کا قرار نہ ملا تو اس نےکھانا پینا چھوڑ دیا- حتیٰ کہ آپ (ﷺ) کے ہجر و فراق میں اس نے اپنی جان دے دی-

جسے سرکارِ دو عالم (ﷺ) کی بارگاہ نصیب ہو تو اس کے قرار اور اطمینان کی اہمیت کیا ہے؟اس کی اہمیت ایک اور بے زبان سے جانتے ہیں-امام احمدابن حنبلؒ ’’مسند احمد ‘‘ میں، امام ہیثمیؒ ’’مجمع الزائد‘‘ میں، امام ابو نعیم الاصبہانیؒ ’’دلائل النبوۃ‘‘ میں، حافظ ابن کثیرؒ ’’البدایہ و النہایہ‘‘ میں ، امام ابن عساکرؒ ’’تاریخ دمشق‘‘ میں اور امام ابو یعلیٰ الموصلیؒ ’’مسند ابی یعلیٰ ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ:

’’اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہا) فرماتی ہیں کہ ہمارے پاس ایک بکری تھی جس وقت ہمارے ہاں آقا کریم (ﷺ) تشریف فرما ہوتے :

قَرَّ وَثَبَتَ مَكَانَهٗ فَلَمْ يَجِئْ وَلَمْ يَذْهَبْ‘‘

’’وہ سکون کے ساتھ اپنی جگہ پر ٹھہری رہتی نہ آتی نہ جاتی‘‘

’’وَإِذَا خَرَجَ رَسُوْلُ اللهِ (ﷺ) جَاءَ وَذَهَبَ، وَفِیْ رَوَایَۃٍ (وَأَقْبَلَ وَأَدْبَرَ)‘‘

اور جب آپ (ﷺ) باہر تشریف لے جاتے وہ آتی اور جاتی- ایک روایت میں ہے کہ وہ آتی اور پھر چلی جاتی‘‘-

یعنی جب آپ(ﷺ)گھر میں جلوہ فرما ہوتے تو وہ بکری ایک ہی مقام پہ ٹھہر کہ حضور نبی کریم (ﷺ) کی زیارت کرتی رہتی اور جیسے آپ (ﷺ) کسی کام سے گھر سے روانہ ہوتے تو وہ بے قرار ہو کرکبھی اندر آتی اور کبھی باہر جاتی-یہ وہ قرار تھا جو انسان تو انسان بلکہ جانورو ں کو بھی آپ (ﷺ) کے رخِ زیبا کی زیارت سے نصیب ہوتا تھا-

اسی طرح ہرنی کے متعلق ایک مشہور و معروف حدیث مبارکہ ہے جسے حافظ ابن کثیرؒ ’’البدایہ و النہایہ میں بھی اور معجزات النبی(ﷺ) ‘‘میں بھی ، امام ابو نعیم الاصبہانیؒ ’’دلائل النبوۃ‘‘ میں، امام قاضی عیاض مالکی اندلسیؒ ’’الشفا بتعريف حقوق المصطفٰے(ﷺ)‘‘ میں، امام سیوطیؒ ’’الخصائص الکبری‘‘ میں، حافظ شہاب الدین القسطلانیؒ ’’المواہب اللدنیہ‘‘ میں اور امام محمد الزرقانیؒ ’’شرح علی المواہب‘‘ میں نقل فرماتے ہیں کہ:

’’اُم المؤمنین حضرت اُم سَلمہ (رضی اللہ عنہا) سے منقول ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ) ایک صحراء میں تشریف فرما تھے تو ایک ہرنی نے آپ (ﷺ) کو ندا دی کہ یا رسول اللہ (ﷺ)!آقا کریم (ﷺ) نے اس کی طرف توجہ فرمائی اور آپ (ﷺ) نے فرمایا کہ:

 مَا حَاجَتُكِ ؟             

 کیا بات ہے ؟ اے ہرنی کیا کام ہے ؟ بتا

اس نے کہا ایک اعرابی نے مجھ کو شکار کر لیا ہے حالانکہ میرے اس پہاڑ میں دو بچے ہیں (بھوکھے ہوں گے، منتظر ہوں گے ) تو ہرنی نے عرض کی : آپ (ﷺ) مجھے آزاد کر دیجئے ، تاکہ جاکر دودھ پلا آؤں- آپ (ﷺ) نے فرمایا :

أوَ تَفْعَلِيْنَ؟  

 کیا تو ایسا کرے گی ؟ (یعنی تو واپس آجائے گی )

امام محمد الزرقانی لکھتے ہیں کہ آپ (ﷺ) نے اس ہرنی کو ارشاد فرمایا :

إِنْ تَرَكْتُكِ تَرْجَعِيْنَ؟ قَالَتْ: نَعَمْ، وَإِلَّا عَذَّبَنِيْ اللهُ عَذَابًا أَلِيْمًا، فَذَهَبَتْ وَرَجَعتْ

اگر میں تجھ کو چھوڑدوں تو کیا تو لوٹ آئی گی؟ ہرنی نے عرض کی: ہاں یارسول (ﷺ) (میں دودھ پلا کر واپس آجاؤں گی) ورنہ (اگر میں ایسا نہ کروں) تو اللہ پاک مجھے درد ناک عذاب دےتو آپ (ﷺ) نے اسے چھوڑ دیا تو وہ گئی اور دودھ پلا کر واپس آگئی -

جب وہ واپس آئی تو آ پ (ﷺ) نے اسے باندھ دیا تو اِتنے میں اعرابی جاگ گیا، اس اعرابی نے عرض کی یا رسول اللہ (ﷺ) کیا آپ(ﷺ) کو اس کی ضرورت ہے ؟ آپ(ﷺ) نے ارشاد فرمایا کہ اس ہرنی کو چھوڑ دو، تو اس نے چھوڑ دیا- وہ ہرنی دوڑتی ہوئی جنگل میں چلی گئی اور وہ دوڑتی جا رہی تھی اور کہتی جارہی تھی :

أَشْهَدُ أنْ لَا إِلهَ إلَّا اللهُ وَأَنَّكَ رَسُوْلُ اللهِ(ﷺ)

امام زَرقانی لکھتے ہیں :

تَجْرِيْ جَرْيًا شَدِيْدًا فَرْحًا وَهِيَ تَضْرِبُ بِرِجْلَيْهَا الْأَرْضَ

پس وہ( صحراء) میں خوشی سے تیز تیز چل رہی تھی اوراپنے پاؤں زمین پہ ماررہی تھی (گویا رقص کرتی جارہی تھی) اور کَہ رہی تھی:

أَشْهَدُ أنْ لَا إِلهَ إلَّا اللهُ وَأَنَّكَ رَسُوْلُ اللهِ (ﷺ)

حضرت زید بن ارقم (رضی اللہ عنہ)فرماتے ہیں کہ اللہ کی قسم !

 رَأْيْتُهَا تُسَبِّحُ فِي الْبَرِيَّةِ

 میں نے اسے صحرامیں اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتے ہوئے دیکھا-اوروہ کہ رہی تھی:

 لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللهِ‘‘-

آپ (ﷺ) کی ختم نبوت، عظمتِ رسالت و شان کی گواہی اللہ تعالیٰ نےجن و بشر، ملائکہ اور حیوانات سے بھی دلوائی اور ان کو بھی یہ علم عطا فرمایا کہ آپ (ﷺ) کا وجود اقدس سراپا رحمت ہے جو آپ (ﷺ) کی بارگاہ میں آگیا وہ امن میں آگیا- اس لئے کہ جب آپ (ﷺ) کی عنایت ہوتی ہے تو بندے کے وجود سے غم و الم رخصت ہو جاتے ہیں-

سلطان العارفین حضرت سلطان باھوؒ فرماتے ہیں کہ:

ہر کہ بیند روئے من شد اولیا
روئے من با روئے رحمت مصطفےٰؐ

یعنی جو میرے چہرے کی زیارت کرتا ہے وہ سرکار دو عالم (ﷺ) کا کلمہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھنے والا ہوجاتا ہے-اور میرے چہرے میں یہ برکت، جمال اور کشش سرکارِ دو عالم (ﷺ) کے فیض سے ہے-

حضرت سلطان باھو (قدس اللہ سرّہٗ)کی ذات سے منسوب بہت ہی مشہور و معروف واقعہ بیان کرنا چاہوں گا کہ:

’’حضرت سلطان باھو (قدس اللہ سرّہٗ) جب ایام طفولیّت میں تھے تو آپؒ کا اعجاز تھا کہ آپ کے خُدّام جب آپ کو لے کر قلعہ شورکورٹ میں نکلتے؛ تو جس ہندو اور سکھ کی نظر آپؒ کے چہرہ انور پر پڑتی تو وہ کلمہ طیب پڑھ کر مسلمان ہو جاتا- ہندوؤں کا پورا ایک وَفد آپ کے والد گرامی حضرت حافظ بازید محمدؒ کے پاس آیا اور عرض کی کہ حضرت ہمارے ہاں بہت زیادہ اضطراب ہے اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ ہم یہاں رہیں تو آپ اپنے بیٹے کو باہر نکالنے سے پہلے ایک منادی کروا دیا کریں تاکہ جو آدمی اپنا مذہب نہیں چھوڑنا چاہتا وہ بچ جائے- جب آپ کے خادم آپؒ کو باہر لے کر آتے تھےتو پہلے قلعہ میں منادی کروائی جاتی تھی-اسی دوران ایک مرتبہ آپؒ بیمار ہوگئے تو اس وقت ایک سکھ حکیم علاج میں بڑا مشہور تھا- آپؒ کے والد گرامی کے خدام اس کے پاس گئے تو انہوں نے کہا کہ ہمارے قلعہ دار کا بیٹا بیمار ہے آکر اس کا علاج کریں- اس حکیم نے کہا کہ اچھا وہی جس کو دیکھ کر لوگ کلمہ پڑھ لیتے ہیں اوراپنا مذہب چھوڑ دیتے ہیں-اس لئے میں اس بچے کو دیکھنے میں نہیں آسکتا-البتہ تم اس کا قمیض یا کرتا لے آؤ تو مَیں اس کو سونگھ کر بتادوں گا کہ اس کو کیا بیماری ہے- وہ خدام گئے اور حضرت سلطان باھو (قدس اللہ سرّہٗ)کا کرتا جب حکیم کے پاس لایا گیا تو حکیم بہت خوش ہوا کہ میں مذہب چھوڑنے سے بچ گیا لیکن جیسے ہی اس نے اس کرتےکو سونگھا تو اس کرتے میں فیضِ یوسف علیہ السلام کی وہ برکت تھی کہ جیسےہی ناک پہ کرتا لگایا اللہ تعالیٰ نے اس کی زبان پر کلمہ طیبہ کو جاری فرما دیا‘‘-

اس لئے آپؒ فرماتے ہیں کہ یہ تو کفار کی بات تھی کہ جو بھی میرے چہرے کو دیکھتا تھا وہ کلمہ پڑھ لیتا تھا اگر کوئی طالب صادق از روئے ایمان میرے چہرے کو دیکھتا اللہ تعالیٰ اس کو ولایت کا منصب عطا کردیتا-یعنی یہ تو حضورنبی کریم (ﷺ) کےامتیوں کی شان ہے کہ ان کے چہرے سراپا رحمت و محبت ہوتے ہیں حضور کریم (ﷺ) کے اپنے چہرۂ مبارک کی زیارت کی کیا برکت ہو گی (سبحان اللہ) اللہ پاک ہر مسلمان کو موت سے قبل رُخِ مُصطفٰے (ﷺ) کی زیارت نصیب فرمائے -

قاضی عیاض مالکی اندلسی کی تصنیف ’’الشفاء بتعریف حقوق المصطفےٰ (ﷺ)‘‘ کے متعلق بہت ہی دلچسپ بات آپ سے شیئر کرتا چلوں کہ قاضی عیاضؒ اندلس کے عظیم المرتبت فقیہ اورمحدث تھے-جیسے ہی آپ نے سیرت النبی (ﷺ) پہ یہ کتاب لکھی تو اسے بہت شہرت ملی اور لوگوں نے آپ کی اس کتاب کے کئی نسخے فوراً تیار کر دیئے، اس وقت کے بڑے بڑے آئمہ علماء نے اس کو پڑھا - جو آدمی بھی پڑھتا جاتا وہ یہ کہتا کہ یہ کتاب نہیں بلکہ شفاء ہے جو دلوں کے وسوسے، وہم اور غلط فہمیوں کو نکال دیتی ہے اور حضور نبی کریم (ﷺ) کی محبت دلوں میں جاگزیں کردیتی ہے-اس لئے اسے محض کتاب نہ کہو اسے ’’شفاء‘‘ کہو- آئمہءِ وقت نے اس کا نام ’’الشفاء‘‘ رکھا ہے- اس لئے سیرتِ رسول (ﷺ) میں اگر کوئی محفوظ ترین منہج ہے تو وہ قاضی عیاض مالکی ہیں- اگر نوجوان ساتھیوں میں کوئی سیرت النبی (ﷺ) کا مطالعہ کرنا چاہے تو یاد رکھیں کہ عہد غلامی میں لکھی گئی بہت سی کتبِ سیرت ایسی ہیں جو سیرت کا محفوظ منہج نہیں ہیں اس لئے اگر کوئی سیرت کے مطالعہ کا ذوق و شوق رکھتا ہے تو قاضی عیاض مالکیؒ کی ’’الشفاء‘‘، شاہ عبد الحق محدث دہلویؒ کی ’’مدارج النبوۃ‘‘ اور ’’جذب القلوب‘‘، امام جامیؒ  کی ’’شواہد النبوۃ‘‘، امام بیہقیؒ کی ’’دلائل النبوۃ‘‘پڑھے جس سے یہ معلوم ہوگا کہ جس مصطفےٰ کریم (ﷺ) سے ہم محبت کرتے ہیں اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ) کو کیا کیا عظمتیں و رفعتیں عطا فرمائی ہیں-

قاضی عیاض مالکیؒ ’’الشفاء بتعریف حقوق المصطفےٰ (ﷺ)‘‘، امام حاکمؒ ’’المستدرک علی الصحیحین‘‘، امام ابو بکر بیہقیؒ ’’دلائل النبوۃ‘‘، حافظ ابن کثیرؒ ’’البدایہ و النہایہ‘‘اور امام سیوطیؒ ’’خصائص الکبریٰ‘‘ میں حدیث پاک نقل فرماتےہیں کہ:

’’حضرت ابن مسعود (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ ہم حضور نبی کریم (ﷺ) کے ساتھ ایک سفر میں تھے- ہم ایک درخت کے قریب گئے تو اس میں حُمَّرَة (چڑیا کی مانند چھوٹا سا پرندہ ہے) کا گھونسلہ تھا- ہم نے اس کے دونوں بچے پکڑ لیے،(تو پھر ہم نے دیکھا ) کہ :

قَالَ: فَجَاءَتِ الْحُمَّرَةُ إِلَى النَّبِيِّ (ﷺ) وَهِيَ تُعَرِّضُ،

تو چڑیا آپ (ﷺ) کی خدمت میں بار بار آتی اور کچھ بولتی، (عرض کرتی )

حضور نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا کہ:

مَنْ فَجَعَ هَذِهِ بِفَرْخَيْهَا؟

 کس شخص نے اس کے دونوں بچے پکڑ کر اسے دکھ پہنچایا ہے ؟

ہم نے عرض کی کہ ہم نے پکڑے ہیں-آپ (ﷺ) نے فرمایا کہ انہیں اس کے گھونسلے میں رکھ دو تو ہم نے انہیں اس کی جگہ پر رکھ دیے‘‘-

سوچئے! کئی لوگ تھے، کئی انسان تھےجن کے لباس ایک جیسے تھے، وضع قطع سب کی ایک طرح کی، مگر عبد اللہ ابن مسعود (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ وہ چڑیا سارے قافلے کو چھوڑ کر صرف آقا کریم (ﷺ) کے گرد منڈلا رہی تھی اس لئے کہ:

نِگاہ عاشِق کی دیکھ لیتی ہے پردۂ میم کو اُٹھا کر
وُہ بزمِ یثرب میں آکے بیٹھیں ہزار مُنہ کو چھُپا چھُپا کر

یعنی عاشق پہچان لیتے ہیں کہ محبوب کون ہے :

کیا حُسن ہے، جمال ہے، کیا رنگ و روپ ہے
وُہ بھیڑ میں بھی جائے تو تنہا دِکھائی دے

لوگوں کے جھرمٹ میں بھی جب پرندے آتے ہیں تو پہچان لیتے ہیں کہ نبوت کی خوشبو کس بدن سے مہک رہی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ پرندوں کو بھی اللہ تعالیٰ نے آقا کریم (ﷺ)کی معرفت و پہچان عطا فرمائی ہے-

قاضی عیاض مالکی اندلسیؒ ’’الشفاء بتعریف حقوق المصطفےٰ (ﷺ)‘‘، امام ابو بکر بیہقیؒ ’’دلائل النبوۃ‘‘ اور امام سیوطیؒ ’’خصائص الکبریٰ‘‘ میں فرماتےہیں کہ:

’’ابن وہب (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ فتح مکہ کے دن مکہ مکرمہ کے کبوتروں نے آپ (ﷺ) پر سایہ کیا تھا آپ (ﷺ) نے ان کو دعائے برکت دی تھی‘‘-

وہ کبوتربھی جانتے تھےکہ یہی وہ ذات ِ گرامی ہے جس نے کعبۃ اللہ کی حرمت کوقائم کرنا ہے اور اسے بتوں اور شرک سے پاک فرمانا ہے-اس لئے سرکارِ دو عالم (ﷺ) سے جو پرندوں اور جانوروں کی محبت تھی وہ ہزار ہا لوگوں کے ایمان لانے کا باعث بنی -

جیسا کہ پہلے اس کا ذکر کرچکا ہوں کہ جب تک آپ (ﷺ) کے فضل و کمال کا اعتراف و ادراک نہ کیا جائے حضور نبی کریم (ﷺ) سے والہانہ محبت انسان کے وجود میں جاگزین نہیں ہوسکتی-کیونکہ حضور نبی کریم (ﷺ) کے فضائل و شمائل میں آپ (ﷺ) کے معجزات بھی شامل ہیں-آپ (ﷺ) کے معجزات میں سے ایک خوبصورت معجزہ بیان کرنا چاہوں گا جسے متعددآئمہ کرام نے روایت کیا ہے جو کہ ایک گوہ کے متعلق ہے کہ ایک گوہ کو بھی آقا کریم (ﷺ) کی معرفت بخشی گئی ہے-

 امام ابو بکر بیہقیؒ ’’دلائل النبوة ‘‘، حافظ ابن کثیرؒ ’’البدایہ و النہایۃ‘‘، امام ابن عساکرؒ ’’تاریخ دمشق‘‘، امام ہیثمیؒ ’’مجمع الزوائد‘‘، امام ابو نعیم الاصبہانی ’’دلائل النبوة ‘‘، قاضی عیاض مالکیؒ ’’الشفا بتعریف حقوق المصطفےٰ (ﷺ) اور امام سیوطیؒ ’’الخصائص الكبرى‘‘ میں اس حدیث پاک کو نقل فرمایا ہے جبکہ امام طبرانیؒ نے اس حدیث پاک پر پوری کتاب لکھی ہے جس کا نام ’’حَدِيْثُ الضَّبِّ الَّذِیْ تَكَلَّمَ بَيْنَ يَدَیِ النَّبِيِّ(ﷺ) لِلطِّبْرَانِيْ‘‘ہے؛لکھتے ہیں کہ:

’’حضرت عمرؒ سے روایت ہے کہ آقا پاک (ﷺ) اپنے صحابہ کرام (رضی اللہ عنہ) کی مجلس میں تشریف فرما تھے کہ اچانک ایک اعرابی گوہ کا شکار لے کر آیا؛ اور اس نے آپ (ﷺ) کے بارے میں پوچھا کہ آپ میں سے نبی کون ہے؟ ( صحابہ کرام (رضی اللہ عنہ) نے آپ (ﷺ) کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ) فرمایا کہ:یہ ہیں اللہ کے نبی(ﷺ ) - تو اس نے کہا قسم ہے لات و عزٰی کی ، میں آپ (ﷺ) پر ایمان نہیں لایا، یا نہیں لاؤں گا مگر یہ گوہ ایمان لے آئے اور اس گوہ کو آپ (ﷺ) کے سامنے پھینک دیا-

فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ (ﷺ): يَا ضَبُّ!

تب آقا کریم (ﷺ) نے فرمایا: اے گوہ! (یعنی اے گوہ ، گواہی دے )

فَأَجَابَهٗ اَلضَّبُّ بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُبِيْنٍ يَسْمَعُهُ الْقَوْمُ جَمِيْعًا: لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ يَا زَيْنَ مَنْ وَافَى الْقِيَامَةَ

پس اس نے ’’واضح عربی زبان‘‘ میں آپ (ﷺ) کو جواب دیا اور تمام لوگوں نے اس کو سنا- (اُس نے عرض کی)یعنی میں حاضر ہوں موجود ہوں اے زینت ان لوگوں کی جو قیامت کی طرف آنے والے ہیں -

آپ (ﷺ) نے فرمایا :

مَنْ تَعْبُدُ يَا ضَبُّ؟

اے گوہ!کیا تو کسی کو پوجتی ہے ؟ کس کی عبادت کرتی ہے؟

گوہ نے عرض کیا :

اَلَّذِيْ فِيْ السَّمَاءِ عَرْشِهٖ وَفِي الْأَرْضِ سُلْطَانِهٖ وَفِي الْبَحْرِ سَبِيلِهٖ وَفِي الْجَنَّةِ رَحْمَتِهٖ وَفِيْ النَّارِ عِقَابِهٖ

اُس ذات کو جس کا عرش آسمان میں ہے اور جس کی سلطنت زمین میں ہے اورجس کا راستہ سمندر میں ہے اور جس کی رحمت جنت میں ہے اور جس کا عذاب دوزخ میں ہے-

آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا :

فَمَنْ أَنَا يَا ضَبُّ؟

 اے گوہ یہ بتا مَیں کون ہوں ؟ گوہ نے عرض کیا :

رَسُوْلُ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، وَخَاتَمُ النَّبِيِّينَ، وَ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ صَدَّقَكَ،وَقَدْ خَابَ مَنْ كَذَّبَكَ،

آپ (ﷺ) رب العالمین کے رسول ہیں اور آپ خاتم النبیین(ﷺ) ہیں-پس تحقیق وہ کامیاب ہو ا جس نے آپ (ﷺ) کی تصدیق کی- پس تحقیق وہ نامراد ہوا جس نے آپ (ﷺ) کی تکذیب کی-

اعرابی نے کہا یا رسول اللہ (ﷺ)!اب سے پہلے آپ (ﷺ) سے بڑھ کر اس روئے زمین پر میرا دشمن کوئی نہیں تھا لیکن آج آپ (ﷺ)میرے والدین اور میری ذات سے بھی بڑھ کر محبوب ہیں اور میں آپ (ﷺ) سےظاہری اور باطنی اعلانیہ اور پوشیدہ محبت کرتا ہوں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ:

أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَإِنَّكَ رَسُوْلُ اللهِ،

تو رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

اَلْحَمْدُ لِلهِ الَّذِيْ هَدَاكَ بِيْ

 اللہ تعالیٰ کا شکر ہے جس نے میری وجہ سے آپ کو ہدایت عطا فرمائی‘‘-

شیر کو جنگل کا بادشاہ کہا جاتا ہے اور درندوں میں شمار ہوتا ہے ، شیر کے متعلق کئی مختلف احادیث مبارکہ ہیں اُن میں سے صرف ایک روایت پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتا ہوں جسے امام طبرانیؒ ’’المعجم الکبیر‘‘، امام حاکمؒ ’’المستدرک علی الصحیحین‘‘، امام ابو بکر بیہقیؒ ’’دلائل النبوۃ‘‘ اور حافظ ابن کثیر ؒ ’’السیرۃ النبویہ‘‘ میں رقم فرماتے ہیں کہ:

’’حضرت سفینہ (رضی اللہ عنہا) فرماتے ہیں کہ میں سمندر میں کشتی پہ سوار ہوا پس وہ ٹوٹ گئی تو میں اس کے ایک تختے پہ سوار ہو گیا اور اس نے مجھے جنگل میں ڈال دیا جس میں شیر تھا، مجھے اس سے ڈر نہیں لگا-میں نے ا س سے کہا:

«يَا أَبَا الْحَارِثِ، أَنَا مَوْلَى رَسُوْلِ اللّهِ (ﷺ) فَطَأْطَأَ رَأْسَهٗ، وَغَمَزَ بِمَنْكِبِهٖ

اے ابو حارث!مَیں رسول اللہ (ﷺ) کا غلام ہوں تو اس نے اپناسر جھکا دیا اور کندھوں سے اشارہ کیا -

وہ مجھے اشارہ کرتا رہا اور راستے کی طرف رہنمائی کرتا رہا، یہاں تک کہ اس نے مجھے راستے تک پہنچا دیا،پس جب اس نے مجھےراستے پہ پہنچادیا ، تو وہ کچھ بولا،

فَظَنَنْتُ أَنَّهٗ يُوَدِّعُنِيْ

میرے گمان کے مطابق وہ مجھے الوداع کہ رہاتھا-

امام حاکمؒ اس حدیت پا ک کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الْإِسْنَادِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ

’السيرة النبویۃ لابن کثیر‘کی روایت کے آخر ی الفاظ یہ ہیں:

فَظَنَنْتُ أَنَّهُ السَّلَامُ.

میرے گمان کے مطابق وہ شیر مجھے سلام کر رہاتھا-

اسی طرح حضور نبی کریم (ﷺ) کا ایک گدھا مبارک تھا جس کو آئمہ و محدثین کرام نے ادباً ’’حمار مبارک‘‘ کَہ کر بیان کیا ہے، بعض لوگ بڑے سیخ پا ہوتے ہیں ادب و تکریم کی اِس لغت پہ-اسی سیخ پائی میں اہلِ محبت و ادب کو غلو کا الزام دیتے ہیں حالانکہ آئمہ کرام کا ایک طرح کا اجماع ہے اس بات پہ کہ ادب و تکریمِ رسول (ﷺ) میں جتنا آگے جا سکتے ہو جاؤ ، اِس لئے کہ شانِ حبیب (ﷺ) ہے ہی اتنی ارفع و اعلیٰ کہ اس کے لائق ادب و تکریم کی کیسے جا سکتی ہے-جب شان کثرت سے ملی ہے تو ادب بھی کثرت سے کیا جائے گا، تعظیم و تکریم بھی کثرت سے کی جائے گی-حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سواری میں رہنے والے گدھے کو ’’حمارِ مبارک‘‘ کہنا عین طریقِ ادب ہے، یاد رکھیں ایسا ادب کرنا طریقِ صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) سے ثابت ہے -

’’صحیح بخاری، کتاب الصلح ‘‘اور ’’صحیح مسلم، کتاب الجہاد‘‘ کی متفق علیہ حدیث مبارک ہے کہ:

جب ایک گستاخ منافق نے سرکارِ دو عالم (ﷺ) کو مخاطب کر کے کہا کہ(لقَدْ آذَانِي نَتْنُ حِمَارِكَ) آپ کے گدھے کی بو ہمیں تکلیف دیتی ہے- جس پر صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) نے اپنے عقیدہ کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ (وَاللهِ، لَحِمَارُ رَسولِ اللهِ (ﷺ) أَطْيَبُ رِيحًا مِنْكَ)

’’اللہ کی قسم ! رسول اللہ (ﷺ) کے گدھے کی خوشبو تیری بدبو سے بہتر ہے‘‘ -

حالانکہ انسان اشرف المخلوقات ہے اور گدھا انسانوں کے نزدیک ایک حقیر مخلوق ہے - چونکہ اُس گدھے کی نسبت سرکار دو عالم (ﷺ)کی سواری ہونے کی طرف تھی تو صحابہ کرام کا عقیدہ تھا کہ (۱) جو چیز بھی حضور نبی کریم (ﷺ) سے منسوب ہوجائے وہ اپنی خوشبو میں کسی منافق یا کسی گستاخ کی بدبو سے زیادہ بہتر ہوتی ہے- (۲) حضور (ﷺ) کی عظمت و شان سے بے بہرہ انسان سے گدھا زیادہ بہتر ہے-(۳) جو چیز بھی حضور نبی کریم رؤف الرحیم (ﷺ) سے منسوب ہو جائے اُس کو ادب سے پکارا جائے چاہے وہ بے زبان حیوان ہی کیوں نہ ہو-

جو روایت بیان کرنے جارہا ہوں یہ مختلف الفاظ کے ساتھ مندرجہ ذیل کتب میں موجود ہے- گوکہ بعض محققین نے اس کی سند پر کلام کیا ہے تاہم سلف صالحین نے اس کو بیان کیا ہے اور آپ (ﷺ) کے معجزات میں اس کو شامل فرمایا ہے-جیسا کہ حافظ ابن کثیرؒ  نے ’’البدایہ والنہایہ‘‘ میں بھی ذکر کیا ہے اور الگ سے ’’معجزات النبی (ﷺ)‘‘کے نام سے کتاب بھی لکھی ہے اور اس میں اس روایت کو درج بھی کیا ہے اور ہم نے اس روایت کی تفصیل بیان کرنے کیلئے اسی کتاب کی روایت کو لیا ہے-باقی رہا جانوروں کا آ پ (ﷺ) سے کلام فرمانا یہ آپ (ﷺ)کے معجزات میں سے ہے، اس میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو شریعت سے ٹکراتی ہو اور آپ (ﷺ) کی شان اس سے بہت بلند ہے -

تخریجِ روایت :

  1. قاضی عياض المالکی (المتوفى: 544ھ) نے ’’الشفاء بتعریف حقوق المصطفٰے(ﷺ)میں ؛
  2. علامہ ابو محمد عفيف الدين سليمان اليافعی (المتوفى: 768ھ) نے ’’مِرَآةُ الْجَنَانِ وَعِبْرَةُ الْيَقْظَانِ فِيْ مَعْرِفَةِ مَا يُعْتَبَرُ مِنْ حَوَادِثِ الزَّمَانِ‘‘ میں؛
  3. علامہ ابو القاسم ابن عساكر (المتوفى: 571ھ) نے ’’تاريخ دمشق‘‘ میں؛
  4. امام ذہبی (المتوفى: 748ھ)نے’’ميزان الاعتدال فی نقد الرجال ‘‘ میں؛
  5. حافظ ابن کثیر (المتوفى: 774ھ) نے ’’البدایہ والنہایہ‘‘ میں؛
  6. حافظ ابن کثیر (المتوفى: 774ھ) نے ’’معجزات النبی (ﷺ)‘‘ میں؛
  7. امام محمد الزرقانی المالکی(المتوفى: 1122ھ) نے’’شرح الزرقانی على المواهب اللدنیۃ‘‘میں؛
  8. ابو الفضل ابن حجر العسقلانی (المتوفى: 852ھ) نے ’’ لسان الميزان‘‘ میں؛
  9. امام سیوطی(المتوفى: 911ھ) نے ’’الخصائص الكبرى‘‘ میں؛
  10. امام قسطلانی (المتوفى: 923ھ)نے ’’المواهب اللدنیۃ بالمنح المحمدیہ‘‘ میں

11.  ملا علی قاری(المتوفى: 1014ھ) نے ’’شرح الشفا‘‘ میں نقل فرمایا ہے-

بالفاظ ’’معجزات النبی()‘‘:

’’ابن منظور سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ جب خیبر کا قلعہ فتح ہو گیا حضور نبی کریم (ﷺ) نے گدھے سے کلام فرمایا اور گدھے نے بھی آپ (ﷺ) سے کلام کیا -

آپ (ﷺ) نے اس سےپوچھا !

مَا اِسْمُكَ                       تیرا کیا نام ہے ؟

اس نے کہا :

يَزِيْدُ ابْنُ شِهَابٍ،            یزید بن شہاب -

نام بتا کر پھر بات کو لمبا کرتے ہوئے کہنے لگا :

 أَخْرَجَ اللهُ مِنْ نَسْلِ جَدِّيْ سِتِّيْنَ حُمَارَا

اللہ تعالیٰ نے میری نسل میں ساٹھ گدھے پیدا فرمائے ہیں-

حافظ ابن کثیر ’’الفصول في السِيرَةِ الرَّسُوْل (ﷺ)‘‘ میں لکھتے ہیں :

إِنَّهٗ مِنْ نَسْلٍ سَبْعِيْنَ حِمَارًا كُلُّ مِّنْهَا رَكِبَهٗ نَبِيٌّ(ﷺ)

’’اور اس گدھے نے کہا کہ (اللہ تعالیٰ نے میری) نسل سے 70 گدھے پیدا فرمائے ہیں اور ہر ایک پر کسی نہ کسی نبی نے سواری فرمائی ہے‘‘-

 علامہ زَرقانی ’’شرح الزَرقانی عَلَى الْمَواهِبِ اللَّدُّنْيَة‘‘ میں فرماتے ہیں:

وَقَدْ كَانَ فِيْ آبَائِيْ سِتّوْنَ حِمَارًا كُلّهُمْ رَكِبَهٗ نَبِيٌّ

’’اور میرے آباء میں 60 گدھے تھے جن پر کسی نہ کسی نبی (علیہ السلام) نے سواری فرمائی تھی‘‘-

یعنی اس نے اپنے ماضی کی خبردی ، اگر ایک گدھے کی عمر کا اندازہ لگا کر ’’ 60‘‘سے ضرب دی جائے تو اس نے اتنے سال پرانی خبر دی ہے- اسی مقام پر علامہ زَرقانی ’’شرح علی المواھب ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ:

’’وَيُؤَيِّدُهٗ أَنَّ فِيْ لَفْظٍ ’’كَانَ فِيْ آبَائِيْ سِتّوْنَ‘‘ وَكَاَنَّهٗ أَلْهَمَ ذٰلِكَ، فَنَطَقَ بِهٖ عَلَى حَدٍّ:

’’اور اس کی تائید اس کے ان الفاظ’’اور میرے آباء میں 60 گدھے تھے‘‘سے ہے گویا کہ یہ الفاظ اس کی طرف الہام کیے گئے اور اس نے اسی طرح بول دیا-(اور اس کی تائید اللہ پاک کا فرمان بھی ہے جیسا کہ اللہ پاک نے فرمایا):

’’وَأَوْحَى رَبُّكَ إِلَى النَّحْلِ‘‘[8]

اور تیرے رب نے شہد کی مکھی کی طرف وحی فرمائی(یعنی الہام کیا، اس کے دل میں بات ڈالی دی کہ)

كُلُّهُمْ لَمْ يَرْكَبْهُمْ إِلَّا نَبِىٌّ

ان تمام پر کسی نہ کسی نبی (علیہ السلام) نے سواری فرمائی‘‘-

 علامہ زَرقانی فرماتےہیں کہ :

’’لَوَصَفَهُمْ بِقَوْلِهٖ: كُلُّهُمْ لَمْ يَرْكَبْهُمْ إِلَّا نَبِىٌّ لَمْ يَبْقَ مِنْ نَسَلِ جَدِّيْ غَيْرِيْ ‘‘[9]

’’اس نے ان کا وصف اپنے اس قول کے ساتھ بیان کیا ہے کہ وہ سب گدھے تھے جن پر کسی نبی (علیہ السلام) نے ضرور سواری فرمائی تھی اور اب میری نسل میں میرے علاوہ کوئی باقی نہیں رہا ‘‘-

اس روایت سے ہمیں یہ سبق بھی ملتا ہے کہ ہمیں بھی اپنے خاندان اور حسب و نسب سے متعلق علم ہونا چاہیے-مگر افسوس! کہ ہمارے معاشرے میں ان نوجوانوں کی کثیر تعداد ہے جنہیں اپنی دو نسلوں سے آگے کا شجرہ نسب معلوم نہیں-لیکن اس حمار کو تو اپنی 60 نسلوں کا علم تھا - عرب معاشرہ میں جو ’’علم ِ انساب‘‘ کا ماہر ہوتا تھا اس کو معاشرے میں باعثِ افتخار سمجھا جاتا تھا - حالانکہ علماء و محققین کرام نے اس موضوع پر بڑی ضخیم کتب تصنیف فرمائی ہیں لیکن افسوس ہمیں سمارٹ فون کی سکرین سے فرصت ہی نہیں ملتی کہ ہم اپنے شجرہ نسب کی اہمیت معلوم کر سکیں-چند مشہور و معروف کتب درج ذیل ہیں:

        I.            ’’نسب قريش ‘‘از ابو عبد الله اَلزُّبَيْرِیْ (المتوفى: 236ھ)

      II.            13 جلدوں پر محیط’’جَمَلٌ مِّنْ أَنْسَابِ الْأَشْرَافِ‘‘از علامہ أحمد بن يحیٰ بن جابر بن داود البَلَاذُری (المتوفى: 279ھ)

   III.            ’’جمهرة أنساب العرب‘‘ از ابو محمد علی بن احمد بن سعيد بن حزم الاندلسی القرطبی الظاهری (المتوفى: 456ھ)

   IV.            ’’الأنساب‘‘ از عبد الكريم بن محمد بن منصور التميمی السمعانی المروزی ابو سعد (المتوفى: 562ھ)

     V.            ’’اَللُّبَابْ فِیْ تَهْذِيْبُ الْأَنساب‘‘ از ابن الاثير الجزری (المتوفى: 630ھ)

دراز گوش مزید عرض کرتا ہے کہ:

وَلَا مِنَ الْأَنْبِيَاءِ غَيْرُكَ

’’اور (یا رسول اللہ (ﷺ) نہ آپ (ﷺ) کے علاوہ انبیاء (علیھم السلام) میں سے کوئی باقی رہا ہے-(یعنی آپ (ﷺ) اللہ تعالیٰ کے آخری رسول (ﷺ) اور خاتم النبیین (ﷺ) ہیں)‘‘-

یعنی حضور نبی کریم (ﷺ) کا آخری نبی ہونا یہ تو گدھا بھی مانتا تھا - مگر افسوس!نام نہاد مفکر اور دانشوروں کی سمجھ میں آقا کریم (ﷺ) کے مقام و معرفت کا علم جاگزین نہ ہوسکا-

پھر اس دراز گوش نے اپنی دیرینہ اُمید اور آس ظاہر کرتے ہوئے عرض کی :

 قَدْ كُنْتُ أَتَوَقَعُكَ أَنْ تَرْكَبَنِيْ

 (یا رسول اللہ (ﷺ) میں امید کرتا ہوں کہ آپ (ﷺ) مجھ پر سواری فرمائیں گے-

دراز گوش بات لمبی کرتا گیا ، پھر اُس نے اپنے ماضی کے دُکھڑے سنانے شروع کئے -امام زرقانی میں لکھتے ہیں کہ :

وَقَدْ زَادَ فِي الْجَوَابِ عَلىَ السُّؤَالِ اِلْتِذَاذًا بِخِطَابِ الرَّسُوْلِ(ﷺ) نَظِيْرُ قَوْلِهٖ: {قَالَ ہِیَ عَصَایَج اَتَوَکَّؤُا عَلَیْہَا وَاَہُشُّ بِہَا عَلٰی غَنَمِیْ وَلِیَ فِیْہَا مَاٰرِبُ اُخْرٰی}[طہ:18] فَإِنَّهٗ يُطَالُ الْكَلَا مُ مَعَ الْأَحِبَّةِ تَلَذُّذًا

’’اور تحقیق اس نے رسول اللہ (ﷺ) سے کلام میں لذت و چاشنی کی وجہ سے سوال کے جواب کو لمبا کیااس کی مثال اللہ تعالیٰ کا وہ قول ہے کہ (اے موسیٰ (علیہ السلام)!تیرے دائیں ہاتھ میں کیا ہے؟ تو قرآن کہتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جواباً عرض کیا)-انہوں نے کہا یہ میری لاٹھی ہے میں اس پر ٹیک لگاتا ہوں اور میں اس سے اپنی بکریوں کے لیے پتے جھاڑتا ہوں اور اس میں میرے لیے کئی اور فائدے بھی ہیں‘‘-کیونکہ اپنے محبوبوں سے کلام کو (قلبی) تسکین و چاشنی کی بناء پر لمبا کیا جاتا ہے-

قربان جائیں آقاکریم(ﷺ) کی ذات پر ، ہمارے پاس انسان تو انسان اپنے بال بچوں کے مسائل سننے کا وقت نہیں ہے-جبکہ آقا کریم (ﷺ) جانوروں کے دکھ بڑی فراخ دلی سے سن رہے ہیں -

پھر اُس دراز گوش نے اپنی ماضی کی داستان سنانی شروع کی:

قَدْ كُنْتُ قَبْلَكَ لِرَجُلٍ يَهُودِيٍّ، وَكُنْتُ أُعْثِرُ بِهٖ عَمْدًا،

’’آپ (ﷺ) سے پہلے میں ایک یہودی آدمی کی ملکیت میں تھااور میں اسے جان بوجھ کر گرا دیتا تھا‘‘-

چونکہ یہودی شانِ مُصطفٰے (ﷺ) کو برداشت نہیں کر سکتا، اس لئے میرے خیال کے مطابق جب کبھی آقا کریم (ﷺ) کا ذکر مبارک ہوتا ہو گا، تو بے ادبی سے کرتا ہوگا، آپ(ﷺ) کے نام مبارک کے آنے کی وجہ سے اُس یہودی کے منہ اور ماتھے کے تیور سے گدھا جان لیتا ہوگا کہ میرے آقا کریم (ﷺ) کا ذکر آیا ہے ، اس کو وہ دل میں رکھ لیتا اور جب وہ سوار ہوتا، اس کا بدلہ وہ اس صورت میں لیتا کہ اُسے گرا دیتا  اور اپنے سینے کو ٹھنڈا کرتا–

دراز گوش مزید عرض کرتا ہے کہ یا رسول اللہ(ﷺ)!

وَكَانَ يُجِيْعُ بَطْنِيْ وَيَضْرِبُ ظَهْرِيْ

اور) وہ مجھے بھوکا رکھتا تھا اور میری پیٹھ پر مارتا تھا-

پھررسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

سَمَّيْتُكَ يَعْفُوْرَ، يَا يَعْفُوْرُ قَالَ: لَبَّيْكَ فَكَانَ النَّبِيُّ (ﷺ) يَرْكَبُهٗ لِحَاجَتِهٖ، فَإِذَا نَزَلَ عَنْهُ بَعَثَ بِهٖ إِلَى بَابِ الرَّجُلِ فَيَأْتِي الْبَابَ فَيَقْرَعُهٗ بِرَأْسِهٖ فَإِذَا خَرَجَ إِلَيْهِ صَاحِبُ الدَّارِ أَوْمَأَ إِلَيْهِ أَنْ أَجِبْ رَسُوْلُ اللّهِ (ﷺ)

’’اے یعفور! میں نے تیرا نام ’’یعفعور‘‘ رکھ دیا ہےاور اس نے عرض کی لبیک یا رسول اللہ (ﷺ)پس جب حضور نبی کریم (ﷺ) اس پر کسی کام کیلئے سواری فرماتے تھے پس جب آپ (ﷺ) اس سے نیچے اترتے تو اس کو کسی آدمی (کو بلانے کیلئے اس ) کے دروازے پر بھیج دیتے پس وہ اس دروازے پر آتا (جس پر آپ (ﷺ) جانے کا حکم مبارک فرماتے) اور وہ اپنے سر سے اس دروزے پر دستک دیتا پس جب گھر کا مالک اس کے پاس آتا تو وہ اسے اشارہ کرتا کہ سیدی رسول اللہ (ﷺ) تمہیں یاد فرما رہے ہیں‘‘-

علامہ قاضی عیاض مالکی اندلسی لکھتے ہیں کہ:

’’وَ أَنَّهُ كَانَ يُوَجِّهُهٗ إِلَى دُوَرِ أَصْحَابِهٖ‘‘

ان الفاظ مبارک کی وضاحت ملا علی القاری ’’ شرح شفاء‘‘ میں یوں لکھتے ہیں کہ:

(وَأَنَّهٗ) أَيْ اَلنَّبِيُّ (ﷺ)(كَانَ يُوَجِّهُهٗ) أَيْ يُرْسِلُهٗ (إِلَى دُوَرِ أَصْحَابِهٖ) أَيْ بُيُوْتِهِمْ فَيَضْرِبُ عَلَيْهِمُ الْبَابَ بِرَأْسِهٖ وَيَسْتَدْعِيْهِمْ أَيْ يَطْلُبُ مِنْهُمْ إِجَابَةَ الدَّعْوَةِ إِلَيْهِ(ﷺ)

’’اور یہ کہ حضور نبی کریم (ﷺ) اسے صحابہ کرام (رضی اللہ عنہ) کے گھروں میں بھیجتے- پس وہ ان کے دروازوں پر اپنا سر مارتا اور ان سے جواب طلب کرتا یعنی ان سے اس دعوت مبارک کا جواب طلب کرتا جو آپ (ﷺ) نے بھیجی تھی‘‘-

مقام ِ حیرت :

ایک ایک نام کے کئی کئی صحابہ تھے، مثلاً: عبد الرحمٰن، عثمان، سلمہ، سہل، سہیل، اسی طرح عبداللہ نام کےبھی کئی صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) تھے: مثلاً

(1) حضرت عبداللہ بن ارقم (رضی اللہ عنہ) (2) حضرت عبداللہ بن ابی اوفیؒ (3) حضرت عبد اللہ بن انیس (رضی اللہ عنہ) (4) حضرت عبد اللہ بن بسر (رضی اللہ عنہ) (5) حضرت عبد اللہ بن ابوبکر (رضی اللہ عنہ) (6) حضرت عبد اللہ بن ثعلبہ (رضی اللہ عنہ) (7) حضرت عبداللہ بن جعفر (رضی اللہ عنہ) (8) حضرت عبداللہ بن جزء (رضی اللہ عنہ) (9) حضرت عبداللہ بن ابی الحدرد (رضی اللہ عنہ) (10) حضرت عبد اللہ بن حنظلہ (رضی اللہ عنہ) (11) حضرت عبداللہ بن حوالہ (رضی اللہ عنہ) (12) حضرت عبداللہ بن رواحہ (رضی اللہ عنہ) (13) حضرت عبداللہ بن زبیر (رضی اللہ عنہ) (14) حضرت عبداللہ بن زید (رضی اللہ عنہ) (15) حضرت عبداللہ بن زید بن عاصم (رضی اللہ عنہ) (16) حضرت عبداللہ بن سائب (رضی اللہ عنہ) (17) حضرت عبداللہ بن سلام (رضی اللہ عنہ) (18) حضرت عبداللہ بن عامر (رضی اللہ عنہ) (19) حضرت عبداللہ بن عباس (رضی اللہ عنہ) (20) حضرت عبداللہ بن عمر (رضی اللہ عنہ) (21) حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص (رضی اللہ عنہ) (22) حضرت عبداللہ بن مسعود (رضی اللہ عنہ) (23) حضرت عبد اللہ بن قرط (رضی اللہ عنہ) (24) حضرت عبداللہ بن مغفلی (رضی اللہ عنہ) -

لیکن اتنے سارے ہمنام لوگوں کے باوجود جس کا حضور (ﷺ) چاہتے وہ اُسی کو بلا کر لے آتا- وہ کبھی بھولا نہیں ، کبھی غلط بلا کر نہیں لایا جس کو حضور پاک (ﷺ) چاہتے اُسی کو بلا کر لے آتا- آخر اس کی وجہ کیا تھی؟علامہ محمد بن عبد الباقی الزرقانی المصری الازھری المالکی’’ شرح علی المواھب ‘‘ میں اس وجہ کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’وَفَهِمَ مُرَادَ الْمُصْطَفٰے(ﷺ) بِإِلْهَامٍ مِّنَ اللهِ، فَهُوَ مُعْجِزَةٌ؛ إِذْ سُخِّرَلَهٗ وَفَهِمَ مُرَادَهٗ

اور وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہام کی وجہ سے رسول اللہ (ﷺ) کی مراد کو سمجھ جاتاپس یہ آپ (ﷺ) کا معجزہ تھا کہ آپ (ﷺ) کے لئے اسے مسخر کردیا گیا اور وہ آپ (ﷺ) کی مراد کو سمجھ جاتا-

حضور نبی کریم (ﷺ) کے وصال فرمانے کے بعد یعفور اپنے آقا و مولا (ﷺ) کا ہجر برداشت نہ کر سکا ، یعفور کی موت کے متعلق علامہ زرقانی نے لکھا ہے کہ :

فَلَمَّا قُبِضَ النَّبِيُّ (ﷺ) جَاءَ إِلٰى بِئْرٍ كَانَ لِاَبِى الْهَيْثَمِ بْنِ النَّبْهَانِ فَتَرَدَّى فِيْهَا فَصَارَتْ قَبْرَهٗ جَزَعًا مِنْهٗ عَلَى رَسُوْلِ اللهِ(ﷺ)‘‘

پس جب حضور نبی کریم (ﷺ) نے وصال مبارک فرمایاتو وہ یعفور ابو ہیثم بن نبہان کے کنویں پر آیااور اس میں گر کر جان دے دی پس رسول اللہ (ﷺ) کا غم و حزن اس کی موت کا سبب بن گیا-

علامہ جمال الدين ابن حديدة انصاری، صاحبِ المصباح المضی (المتوفى: 783ھ) کے یہ الفاظ مبارک سونے کے پانی سے لکھنے کے قابل ہیں فرماتے ہیں:

’’ وَهَذَا عَلَمٌ مِّنْ أَعْلَامِ نَبُوَّتِهٖ(ﷺ)

’’ یہ حضور نبی کریم (ﷺ) کی نبوت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے -

فَلَيْتَنِيْ كُنْتُ شَعْرَةً فِيْ جِلْدِ هَذَا الْحِمَارِ الْمُبَارَكِ الَّذِيْ كَانَ فِيْ كُلِّ وَقْتٍ يُّلَامِسُ جِلْدُهٗ جِلْدَ سَيِّدِ الْبَشَرِ وَيَسْمَعُ لَهٗ وَ يُطِيْعُهٗ وَيُخَاطِبُهٗ وَيَفْهَمُ عَنْهُ وَنَاهِيْكَ بِهٖ مُعْجِزَةٌ مِّنْ بَعْضِ مُعْجِزَاتِهٖ (ﷺ)‘‘[10]

کاش کہ میں اس مبارک دراز گوش کی جلد کا ایک بال ہوتا جو ہر وقت سید البشررسول اللہ (ﷺ) کی جلد مبارک سے مَس ہوتی اور آپ (ﷺ) کی باتیں سنتا اور آپ (ﷺ) کی اطاعت کرتا اور آپ (ﷺ) سے مخاطب ہوتا اور آپ (ﷺ) کا کلام مبارک سمجھتا پس تیرے لیے حضور نبی کریم (ﷺ) کے بعض معجزات میں سے یہ ایک معجزہ ہی کافی ہے‘‘-

میرے بھائیو اور بزرگو! شجر و حجر ہوں، نباتات و جمادات ہوں، آسمانی یا زمینی مخلوق ہو، جو کوئی بھی جس بھی جہاں کا ہے اللہ تعالیٰ نے اس کوآپ (ﷺ) کی رسالت و نبوت کا شعور عطا کیا اور ہر ایک نے اپنی اپنی بساط میں آپ (ﷺ) کی نبوت و رسالت کی گواہی دی ہے حتی کہ جانوروں نے بھی-ہزار ہا ایسی روایات ہیں جو طوالت وقت کے باعث یہاں بیان نہ ہوسکیں اس لئے ان میں سے چند منتخب شدہ بیان کی ہیں-ہمارے لئے اس سے بڑھ کر دکھ کا مقام اور نہیں ہوسکتا کہ چرند پرند نباتات و جمادات اور حیوانات آقا کریم (ﷺ)کو جانتے ہوں مگر آپ (ﷺ) کے اُمتی کا دل اپنےنبی کریم (ﷺ)کی محبت و معرفت سے خالی ہو-بقول علامہ اقبالؒ اس زمانے کا سانحہ یہی ہےکہ:

عصرما مارا ز ما بیگانہ کرد
از جمالِ مصطفےٰ بیگانہ کرد[11]

’’اس دور نے ہمیں اپنے آپ سے بےگانہ کردیا ہے اس نے ہمیں جمالِ مصطفےٰ (ﷺ) سے ہی نا آشنا کردیا ہے‘‘-

چرند پرند، اونٹ اور بکریاں سب ہی اپنے محبوب کریم (ﷺ) کی ذات گرامی کے ساتھ محبت رکھتے ہیں- یہاں سوال یہ ہے کہ جسے اونٹ، بکریاں، ہرن، چڑیاں، کبوتر، گھوڑے، گدھے، گوہ، شیر الغرض! ہر جانور پہچانے لیکن امتی نہ پہچانے تو پھر کیا ایسا شخص ’’اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ‘‘ ہوگا یا ’’اَسْفَلَ سٰفِلِیْنَ‘‘ ہوگا؟ قرآن پاک نے بھی دل، دل کی آنکھوں اور دل کے کانوں سے غافل شخص کو ’’جانوروں کی مثل بلکہ ان سے بھی بد تر‘‘ کہا ہے[12] اور ایسے لوگوں کا ٹھکانہ جہنم بتایا ہے-اہلِ نظر کے نزدیک بھی قرآنی منہج مقبول ہے کہ ڈھور ڈنگر عشقِ مصطفٰے (ﷺ) سے محروم شخص سے زیادہ بہتر ہیں-بقول رُومی ءِ کشمیر حضرت میاں محمد بخشؒ :

جس دل اندر عشق نہ رچیا، کتے اُس تھیں چنگے

سُلطان العارفین حضرت سُلطان باھُو قدس اللہ سرہٗ نے بھی ایسے لوگوں کو اِسی طرح کیٹاگرائز کیا ہے :

جس دل عشق خرید نہ کیتا سو دل درد نہ جانے ھُو
خُسرے خنثے ہر کوئی آکھے، کون آکھے مردانے ھُو

گلیاں وچ پھرن ہر ویلے، جیویں ڈنگر ڈھور ویرانے ھُو

قرآن مجید کے فلسفہ ’’اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ‘‘اور ’’اَسْفَلَ سٰفِلِیْنَ‘‘ کے متعلق شیوخ عظام فرماتے ہیں کہ ’’اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ‘‘وہ ہے جس کے دل کو معرفتِ عظمتِ مصطفےٰ (ﷺ) نصیب ہو اور ’’اَسْفَلَ سٰفِلِیْنَ‘‘وہ لوگ ہیں جن کے دل معرفتِ عظمتِ مصطفےٰ (ﷺ) سے محروم ہیں-

دوستو! اگر آپ (ﷺ) کی ذات گرامی سے محبت عقیدت و عشق کا دعویٰ ہے تو وہ صرف سماجی، معاشی اور سیاسی پہلو تک محدود نہیں ہوسکتا بلکہ محبت تو محبوب کے ہر وصفِ حُسن ، ہر ہر پہلو، جمال و عظمت و شان کے ہر ہر تناظر سے کی جاتی ہے- اس لئے آپ (ﷺ) کے فضائل و شمائل و معجزات جس قدر بھی اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائے وہ چاہے خلقتِ کائنات سے قبل ہوں یا بعد، خلقتِ آدم سےقبل ہوں یا بعد ، حضور نبی کریم (ﷺ) کی ولادت سے قبل ہوں یا بعد از بعثت؛ اس پر ایمان لانا اور تسلیم کرنا از حد ضروری ہے-اس کے ساتھ ساتھ مومن پر لازم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ) کی امت کو جو فضیلتیں اور عظمتیں عطا فرمائیں ہیں ان کا شعور و ادراک بھی رکھے اور اس کے اعتراف کے اوپر رب کے حضور شاکر ہوکر دعا گو ہوجائے کہ اے میرےمولا! تیری عطا و کرم ہے کہ تو نے اپنے حبیب مکرم (ﷺ) کی محبت سے مالا مال فرمادیا-

علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ حضور (ﷺ) کے عشق کے بغیر دین بُت کدۂ تصورات رہ جاتا ہے- یہ بت کدہ تصورات کے کرشمات تھےکہ جب عشق مصطفےٰ و افضلیت مصطفےٰ (ﷺ) سے دل محروم و خالی ہوجائے اور ایک بات پہ اٹک جائے تو پھر وجود سے رحمت نکل جاتی ہے -وجود سے فیضانِ امن و استحکام اور مثبت پہلو نکل جاتاہے-پھر وجود میں شدت و تعصب اور نفرت پیدا ہوتی اوریہ وجود زمین میں امن واستحکام اور رحمت لانے کے بجائے بد امنی، جنگ و قتال، فتنہ و فساد کی طرف راغب ہوتا ہے- جس دل میں عشقِ مصطفےٰ (ﷺ) ہو تو اس دل کی سب سے بڑی نشانی یہ ہوتی ہے کہ وہ کل عالم و جہان کےلئے آپ (ﷺ) کی سنت کو اپناتے ہوئے آپ (ﷺ) کے حسن و جمال کا عکس بن کر سراپا رحمت بن جاتا ہے-

اس لئے ہمیں پہچان حاصل کرنی چاہیے کہ آج عرب و عجم، شرق و غرب میں محبت و برداشت کا پرچم کن کے ہاتھوں میں ہے اور اس خطہ میں دہشتگردی کے خلاف عزم و استقلال کا پرچم کس کے ہاتھ میں ہے- یہ فرق صرف و صرف محبت مصطفےٰ اور اعترافِ عظمتِ مصطفےٰ (ﷺ) سے پیدا ہوتا ہے- لہٰذا زمین پر امن و استحکام کو قائم و دائم کرنے کیلئے ہمیں بھی چرند پرند، نباتات و جمادات اور حیوانات کی طرح مقامِ مصطفےٰ (ﷺ) کی عظمت و معرفت کو اپنے سینوں میں بھرنا ہوگا-

آخر میں تمام نوجوان بھائیوں اور دوستوں کو دعوت دینا چاہوں گا کہ ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ اسی پیغامِ محبت و امن کو عام کرنے کے لئے اپنی کاوشیں کررہی ہے تاکہ دلوں میں عشقِ مصطفےٰ (ﷺ) پیدا ہو، آپ (ﷺ) کی عظمت و شان کی معرفت نصیب ہو اور گنبد خضریٰ کے ساتھ اپنی قلبی طاقت کو جوڑا جائے-کیونکہ پاکستان کے پرچم میں سبز رنگ ہے ہی اس لئے کہ یہ گنبد خضریٰ کا فیضان ہے-آئیں! اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین میں شامل ہو کر شانہ بشانہ اس پیغام کو عام کریں تاکہ امت میں سے اس ظلم و جبر کو ختم کر کے گنبد خضریٰ کے فیضان سے یہاں بھی خوشحالی و امن کو اجاگرکیا جائے-بقول سلطان العارفین (قدس اللہ سرّہٗ):

حَدوں بے حد درُود نبیؐ نوں جَیندا اَیڈ پَسارا ھو
مَیں قُربان تِنہاں توں باھوؒ جنہاں مِلیا نَبیؐ سوہارا ھو

٭٭٭


[1](رموزِ بے خودی)

[2](الانبیاء:107)

[3](صحیح مُسلم، کتاب المساجد)

[4](مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح)

[5](جاوید نامہ)

[6](الحجرات:1-3)

[7](الشفا بتعريف حقوق المصطفےٰ (ﷺ))

[8](النحل:68)

[9]( شرح زَرقانی علی المواھب)

[10](اَلْمِصْبَاحُ الْمُضِیْ فِیْ كِتَابِ النَّبِیِّ الْأُمِّیِّ وَرُسُلِهٖ إِلٰى مُلُوْكِ الْأَرْضِ مِنْ عَرْبِیٍّ وَعَجَمِیِّ)

[11](پس چہ باید کرد، فقر)

[12](الاعراف: 179)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر