تلبیسِ شیطان (زِنا)

تلبیسِ شیطان (زِنا)

نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ وَنُسَلِّمُ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِo اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ o  بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ o

یٰٓـاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃً وَّلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِط اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌo (البقرہ:۲۰۸)

 اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ یَاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہٖ وَسَلِّمُوْا  تَسْلِیْمًا،اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا سَیِّدِیْ یَا حَبِیْبَ اللّٰہِ ،

 وَ عَلٰی اَلِکَ وَاَصْحَابِکَ یَا سَیِّدِیْ یَا مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللّٰہ ،صَلَی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَ اَصْحَابِہٖ وَاَزْوَاجِہٖ وَبَارِکْ وَسَلِّمْo

واجب الا حترام، معز ز و محترم ، بھائیو،بزرگو اورساتھیوں السلام وعلیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ٗ!

آپ جانتے ہیں کہ دُنیا بھر میں آستانہ عالیہ حضرت سلطان باھُو صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے چلائی گئی اس تحریک’’ اصلاحی جماعت وعالمی تنظیم العارفین‘‘ قرآن وسنت کے ،احکامات الٰہی اور احکاماتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اس آفاقی پیغام کو عام کررہی ہے کہ جس آفاقی اور عالمگیر پیغام کو اللہ تعالیٰ نے اپنا دین اوردین ِامن وسلامتی قرار دیااور اُسے فرد کی نجی و ذاتی زندگی کا اور معاشرے کی اجتماعی زندگی کا ایک جزنہیں بنایا بلکہ اُسے فرد کی ذاتی زندگی سے لیکر معاشرے کی اجتماعی زندگی تک اللہ تعالیٰ نے اُس دین کوہر ایک چیزکا کُل بنادیا اور یہ بتایا کہ کوئی بھی چیز ،کوئی بھی حکم ،کوئی بھی اَمر اور کوئی بھی پہلو چاہے وہ تمہاری ذاتی زندگی کاہے یا تمہاری اجتماعی زندگی کاہے مَیں نے اپنے دین کو اس کے لیے صادر اور لاگو فرمادیا ہے اور اگر تم ہدایت پررہنا چاہتے ہو،اگر تم فلاح یافتہ اور بقاء پانے والے اور سلامتی پاجانے والے لوگوں میں رہنا چاہتے ہو تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا کہ

{یٰٓـاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃً }

اسلام میں پورے کے پورے شامل ہوجائو-

{ وَّلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ}

اور شیطان کی پیروی نہ کرو اور شیطان کی اتباع مت کرو-

شیطان کا کہا مت مانو ،شیطان تمہیں جس کام پراُکساتاہے، شیطان تمہیں جس طرف وَرغلاتاہے اُسکی رغبت میں مت آئو،اُس کے اغوا کرنے میں تم اُس کے مغوی نہ بن جائو،بھکٹے ہوئے مت بن جائو -

اور اُس کی یہ وجہ ہے کہ

 { اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌo}(۱)(البقرہ:۲۰۸)

’’اس لیے کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے-‘‘

 اور اگر دشمن کا کہامانوگے، دشمن کی بتائی ہوئی باتوں پر عمل کروگے اور دُشمن کے بتائے ہوئے اُصولوں پر چلو گے، دُشمن کے بنائے ہوئے قانون کو اپنا قانون قراردے دوگے تو پھر اللہ تعالیٰ نے قرآن میں جگہ جگہ یہی بتایاہے کہ دُشمن کے بتائے ہوئے ا ُصولوں پرجو شخص چلے گا تو وہ نہ دُنیا میں کامیاب ہوگااور نہ ہی آخرت میں فلاح یافتہ ہو سکتاہے- اگر دُنیا یا آخرت میں فلاح پانی ہے تو اس کا راستہ تمہارے پاس یہ ہے کہ تم اللہ کے دین میں پورے داخل ہوجائو،شیطان کی پیروی مت کرواور جب دین میں داخل ہوجائوگے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہیںپھر دولتِ ایمان نصیب ہوجائے گی-

 ایمان کیاہے ؟ ایمان کی ایک تشریح یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے انبیاء کوماننا،اُس کی کتابوں کوماننااور اُس کے ملائکہ کو ماننا،یومِ آخرت پر اور غیب پر ایمان لانااوراُس کی تقدیرپراُس کی قضاء وقدر پر ایمان لانا- دوسری ایمان کی یہ تشریح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اور اُس کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو احکامات اِرشاد فرمائے اُن احکامات پہ مکمل عمل پیراہونا،اُن احکامات کو دل وجان سے قبول کرلینا،آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اللہ پاک کی اطاعت کرنا ،جن کاموں سے اللہ تعالیٰ اور اُ س کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منع فرمایاہے اُن کاموں سے رک جانا، اُن کاموں سے باز آجانایہ بھی اس کی اطاعت اور ایمان میں آتاہے- مثال کے طور پہ قرآنِ کریم ہمیں یہ بتاتاہے کہ آقا علیہ السلام کی بارگاہ میں جب کچھ لوگ آئے تو اللہ تعالیٰ نے جبریل امین کو بھیجا کہ جا کر میرے محبوب کو یہ وحی دوکہ اے میرے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم آپ ان لوگوں کو فرمادیں!

{ قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّاط قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَلٰـکِنْ قُوْلُوْٓا اَسْلَمْنَا وَلَمَّا یَدْخُلِ الْاِیْمَانُ فِیْ قُلُوْبِکُمْط وَاِنْ تُطِیْعُوا اﷲَ وَرَسُوْلَہٗ لَا یَلِتْکُمْ مِّنْ اَعْمَالِکُمْ شَیْئًاط اِنَّ اﷲَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌo}(۲)(الحجرات:۱۴)

’’دیہاتی لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں، آپ فرما دیجیے، تم ایمان نہیں لائے، ہاں یہ کہو کہ ہم اسلام لائے ہیں اور ابھی ایمان تمہارے دلوں میں داخل ہی نہیں ہوا، اور اگر تم اﷲ اور اس کے رسول (ﷺ) کی اطاعت کرو تو وہ تمہارے اعمال (کے ثواب میں) سے کچھ بھی کم نہیں کرے گا، بے شک اﷲ بہت بخشنے والا بہت رحم فرمانے والا ہے-‘‘

{ قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّا}

’’اے محبوب !یہ آپ کوکہتے ہیں کہ ہم آپ پر ایمان لائے ہیں-‘‘

 {قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا}

’’ آپ فرمادیں کہ تم ابھی ایمان والے نہیں بنے-‘‘

 وہ اعرابی ،وہ دیہاتی ،وہ بدو یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں، اللہ اپنا قرآن بھیجتے ہیں،اپنی وحی بھیجتے ہیں کہ اے محبوب آپ فرمادیجئے کہ ابھی تم ایمان نہیں لائے اور ایمان کیسے لایا جاتاہے؟

{ وَلٰـکِنْ قُوْلُوْٓا اَسْلَمْنَا وَلَمَّا یَدْخُلِ الْاِیْمَانُ فِیْ قُلُوْبِکُم}

’’کہ ایمان ابھی تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا -‘‘

گویا ظاہر میں اس پر ایمان لے آنا، ظاہر میں اُس کو مان لینا،ظاہر میں اُسکی گواہی دے دینا، ظاہر میں اپنے آپ کو مسلمان کہلوانا یا کسی مسلمان کے گھر میں پیداہوجانایہ ایمان کی نشانی نہیں بلکہ ایمان کی نشانی یہ ہے کہ ایمان تمہارے دلوں میں داخل ہوجائے اور جب تک ایمان دلوں میں داخل نہیں ہوا اُس وقت تک تم مومن نہیں ہوسکتے-

 { وَاِنْ تُطِیْعُوا اﷲَ وَرَسُوْلَہٗ لَا یَلِتْکُمْ مِّنْ اَعْمَالِکُمْ شَیْئًا}

اگر تم اللہ کے اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کروگے، احکامات پر عمل کرو گے ، فرمانبرداری کروگے، جن کاموں کا انہوں نے حکم دیا ان کو دل وجان سے تسلیم کرکے ان پر عمل کروگے اور جن کاموں سے انہوں نے روکا ہے ان کاموںسے رُک جانے کو دل وجان سے تسلیم کرکے ان سے رک جائو گے، جب تم تسلیم و رضا کے پیکر بن جاؤ گے ، جب تم خوشی ورضا کے ساتھ جن کاموںکے کرنے کا حکم ہوا ہے وہ کرو گے اور جن سے منع کیا گیا ہے ان سے تم روک جائو گے تو یہ نشانی ہے کہ اب ایمان تمہارے دلوں میں داخل ہوگیاہے -اب تم یہ دعویٰ کرسکتے ہو کہ تم مومن ہو -

اور ایمان کے دل میں داخل ہونے کی نشانی کیابتائی ہے؟کہ جب تم اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو گے، گویا جب تک تم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت نہیں کرتے اور اس وقت تک ایمان تمھارے دلوں میں داخل نہیں ہوتا اس وقت جسے ہم اپنی عرف عام میں’’بے ایمان‘‘ کہتے ہیں ،بے ایمان ہوتاہی وہ ہے جو حضور کی اطاعت سے رُوگردانی کرے-

کسی دیے گئے حکم کو، جس کام کے کرنے کا حکم ہے جو وہ کام نہیں کرتاوہ بے ایمان ہے، بے اسلام نہیں ہے- وہ کلمہ پڑھتاہوگا ،گنہگار ضرور ہوگا مگر وہ دائرۂ اسلام سے خارج نہیں ہوگا - جس کام کا حکم کیا گیا ہو اور وہ نہیں کرتاوہ بے ایمان ہے، وہ مسلمان تو ہوگا لیکن مومن نہیں ہوگااگر جس کام سے روکنے کا حکم کیا گیا اور کوئی آدمی وہ کام کرتاہے یعنی حکم کے خلاف کرتاہے وہ بھی بے ایمان ہے مگر بے اسلام نہیں ہے- اسی طر ح آقا پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے چار احکامات اور ارشاد فرمائے جو کہ امام ابن شیبہ نے اُم المومنین سیدہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے اس روایت کو نقل کیااور ابن ابی حاتم نے اسے حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے اس کو روایت کیاحضر ت قتادہ ؓ نے یہ فرمایا کہ مَیں نے حضرت حسن ؓ کی زبان مبارک یہ سنا ہے کہ

 رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اِس آیت {وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنٰٓی اِنَّہُ کَانَ فَاحِشَۃً ط وَسَآئَ سَبِیْلاًo}کے ضمن میں اللہ نے جس میں یہ ارشاد فرمایا’’اور تم زنا (بدکاری) کے قریب بھی مت جانا بے شک یہ بے حیائی کا کام ہے، اور بہت ہی بری راہ ہے-‘‘

 اس آیت کے تحت آقا پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:

{ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کان یقول لایزد العبدحین یزنی وھو مومن}

’’کوئی بھی زانی حالت ایمان میں زنا نہیں کرتایعنی جب وہ زناکرتاہے تو وہ حالت ایمان میں نہیں رہتا ، ایمان سے خارج ہوجاتاہے -‘‘

 اور پھر فرمایا:

{ولا ینتھن حین ینتھن وھو مومن}

’’جب کوئی کسی کا مال چھینتا یامال پر غصب لگاتاہے، کوئی کسی کے مال پہ ڈاکہ زنی کرتاہے، کوئی کسی کے مال پر ناجائز طریقے سے قابض ہوجاتاہے اُس وقت وہ مومن نہیں رہتا-‘‘

{ولا یسرق حین یسرق و ھومومن}

’’کوئی چور جب چوری کرتاہے تو وہ حالت ایمان میں چوری نہیں کرتاوہ ایمان سے خارج ہوجاتاہے-‘‘

{ولایشرب الخمرحین یشربھا وھومومن}

’’کوئی بھی شخص جب کبھی وہ شراب پیتاہے تووہ حالتِ ایمان میں نہیں رہتاہے وہ ایمان سے خارج ہوجاتاہے -‘‘

صحابہ کرام عرض کرتے ہیں کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ و سلم!

{قیل یارسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم واللہ ان کن لنرا انہ یأتی ذلک وھومومن}

یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ و سلم کہ ہم جب دیکھیں کسی شخص کو کہ وہ مومن کہلاتاہے لیکن وہ اِن کاموں میں سے کوئی کام کررہاہے یاوہ زناکررہاہے یاوہ کسی مومن کا مال چھین رہاہے یاوہ چوری کررہاہے یاوہ شراب پی رہاہے لیکن وہ اپنے آپ کو مومن کہلوارہاہے تو اس کے بارے میں یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ و سلم آپ کیاارشاد فرمائیں گے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ و سلم نے ارشاد فرمایا

 {فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم  اذا فعل شیٔ من ذلک نزء الایمان من قلبہ}

’’جب کسی کویہ کام کرتے ہوئے دیکھوتویہ یقین کرلو کہ اللہ نے اس کے دل سے ایمان کو صلب کرلیاہے -‘‘

کوئی بھی شخص کتاب یا سُنّت سے اِنحراف کرتا ہے یا کتاب و سُنّت کی نافرمانی کرتا ہے تو اُس کے دؒ سے ایمان سلب کرلیا جاتا ہے - محوّلہ بالا حدیث پاک میں جن چار افعال سے منع کیا گیا ہے وہ چونکہ کتاب میں بھی منع ہے یعنی زنا ، مال غصب کرنا ، چوری کرنا یا شراب پینا ، اِن میں سے کسی بھی کام کے انجام دہندہ کے دِل سے اللہ تعالیٰ ایمان سلب فرما لیتے ہیں یعنی ایمان نکال لیا جاتا ہے - اور اس میں جو پہلاحکم آقا پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:

’’کوئی بھی زانی اس وقت تک زنا نہیں کرتا، جب وہ ایمان میں ہوتاہے، جب وہ حالت ایمان سے نکل جاتاہے تب وہ زنا کرتاہے یا جب وہ زنا کرتاہے تو اللہ تعالیٰ اس کے دل سے ایمان کو سلب کرلیتاہے-‘‘

 میرے بھائیو اور بزرگو! میرا یہاں پہ آج اس میلادمصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی محفل میں اپنے آپ سے اور آپ تمام حضرات اور تمام سننے والوں اور جہاں جہاں تک یہ آواز جارہی ہے اس تمام معاشرے سے جو اپنے آپ کو مسلمان یا مومن کہلاتے ہیں میراسوال یہ ہے کہ جب ہم آقاپاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذاتِ گرامی سے محبت کا دعویٰ کرتے ہیں،جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات گرامی سے عشق کا دعویٰ کرتے ہیں اور اپنے آپ کو بہت بڑاعاشقِ رسول اور محبِ رسول ظاہر کرتے ہیں اور حضور کی آمد کی خوشی میں اکٹھے بھی ہوجاتے ہیں ،میرا سوال فقط اتناہے کہ ہمارے پاس آقاپاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذاتِ گرامی سے نسبت اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے محبت کی دلیل کیاہے؟

محبت دلیل مانگتی ہے، دعویٰ دلیل مانگتاہے اور ہمارے پاس رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات گرامی سے محبت کی دلیل کیاہے؟ آج یہ الحاد،کفر اور یہ گناہ ہمارے معاشرے کا status symbleبن گئے ،ہمارے معاشرے کی ترقی کے ،پڑھے لکھے ہونے کے،صاحبِ شعو ر اور صاحب وقار ہونے کے یہ اعمال پہچان بن گئے ہیں تو اس حالت میں ہمیں کیا یہ حق پہنچتاہے کہ ہم اُ س طیب وطاہر ،جس کی پاکی کی گواہی اللہ پاک قرآنِ پاک میں اور جس کی پاکیزگی کی خود خُداگواہی دیتاہے ہم اُس پاک ،اُس طیب ،طاہر و مطہر ذات کے ساتھ عشق و محبت کا دعویٰ کرسکتے ہیں -اس سارے طوفانِ بدتمیزی کے ہوتے ہوئے اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے میلاد کی محفل ہے - مَیں شاید وہ کھل کے یہ باتیں نہ کہہ سکوں،میری زبان اَدب کی وجہ سے ،اس محفل کے تقدس کے اور اس محفل کے ادب کے وجہ سے استطاعت نہیں رکھتی وگرنہ جو کچھ ہماری گلیوں میں ،جوکچھ ہمارے محلوں اور ہمارے گھروں میں ہم خود اپنے آپ سے کررہے ہیں کیایہ ہمارے سامنے وہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ ہم عملی طور پر اسلام کو چھوڑ چکے ہیں اور عملی طور پر ایمان ہمارے سینوں سے نکل چکا ہے اور قرآن وسنت کو ہم نے زینتِ طاق بناکہ اسے اپنی شلفوں پہ سجا کے رکھ دیاہے کہ آنے والا یہ سمجھے گا کہ مسلمان کا گھر ہے، قرآن پڑاہے اگرمَیں غلط کہہ رہاہوں، اگر یہ بات جھوٹ ہے ،اگر یہ میری بدگمانی ہے، اگر یہ میر ی منفی سوچ کا نتیجہ ہے تو ہم قرآن وسنت کو اور اس معاشرے کو Compareکرلیں کہ قرآن کیاکہہ رہاہے ؟اور معاشرہ کیا کررہاہے، اور سنت نے کیا درس دیاہے؟ اگرمَیں غلط ہوں اور میری یہ بات بدگمانی پر مبنی ہے اگر میری یہ بات منفی سوچ پر مبنی ہے توقرآن بھی موجود ہے ،احادیث بھی موجود ہے، سنت بھی موجود ہے تو کوئی بھی اُٹھ کہ اس بات کا موازنہ کرلے کہ قرآن اور معاشرے میں فرق ہے یانہیں ہے؟ اگر فرق ہے تو ہم کیسے اس کو ایک اسلامی معاشرہ کہہ سکتے ہیں ؟ اور اگر ہم اپنے آپ کو ایک اسلامی معاشرہ نہیں کہہ سکتے توکیایہ ہماری ذمہ داری نہیں ہے کہ ہم اس اسلامی معاشرے کی جو کلمہ طیب اور کلمہ شہادت پڑھ لینے کے بعد ہماری اوّلین ذمہ داری ہے اور خاص کر یہ بیماری جوہمارے معاشرے میں پھیل چکی ہے تو اس کو اللہ تعالیٰ نے وضاحت سے کہہ دیااور کھول کر اس بات کو بیان فرمادیا:

{وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنٰٓی اِنَّہُ کَانَ فَاحِشَۃً ط وَسَآئَ سَبِیْلاًo}

’’او ر زنا کے قریب مت جائو یہ فحاشی ہے اور یہ بہت بُرا راستہ ہے -‘‘

اور بلکہ یہی نہیںصرف آقا پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صرف زنا سے منع ہی نہیںفرمایاکہ یہ بُرا فعل ہے بلکہ آدمی جب آقا کے فرامین کو دیکھتاہے اور آقا کی احادیث کو دیکھتاہے تو جسم کے بال کھڑے ہوجاتے ہیں کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہمیں آپ سے نسبت کا دعویٰ کیا ہے؟ آقاپاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے - امام ابن ابی الدُنیانے ،امام ہیثمی نے اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیھم نے ا س حدیث کو روایت فرمایاہے آقاپاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ

 {مامن ذنب بعد الشرک اعظم عن اللہ من نطفۃ وضعھا رجل فی رحم لا یحل لہ}

’’ شرک کے بعد اللہ کے نزدیک سب سے بڑا گناہ یہ ہے کوئی ایسا آدمی ایسے رحم میں اپنا نطفہ ٹھہرا دے جس رحم کو اللہ نے اس کے اوپر حرام کردیا ہے اللہ نے اس رحم کو اس کے اوپر حلال نہیں کیا-‘‘

 آقاپاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاکہ مَیں بتا دوں تمہیں کہ شرک کے بعد اللہ کے نزدیک سب سے بڑا گناہ کون ساہے؟ سب سے بڑھ کے اللہ کے نزدیک گناہ شرک کرناہے زمین اور آسمان کے تمام گناہوں کو اکٹھا کردیا جائے تو شرک سے بڑھ کہ کوئی اور گناہ نہیں ہو سکتا ، جو غیر اللہ کی عبادت کرتاہے جوغیراللہ کو سجدہ کرتاہے ،اس شخص سے بڑھ کے ظالم کوئی نہیںہوسکتاشرک سے بڑی اور کوئی خطا نہیں ہے اللہ تمام خطائوں کو معاف فرمادے گا لیکن شرک کو معاف نہیں کرے گا جس نے اللہ کے ساتھ کسی اور کو شریک ٹھہرایااور آقا پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمادیا کہ میں بتادوں کہ تمہیں کہ شرک کے بعد کونسا سب سے بڑا گناہ ہے جو اللہ کے ہاں ناپسندیدہ ہے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ ارشاد فرمائیں آقا پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ

’’ شرک کے بعد اللہ کے نزدیک سب سے بڑا گناہ یہ ہے کوئی ایسا آدمی ایسے رحم میں اپنا نطفہ ٹھہرا دے جس رحم کو اللہ نے اس کے اوپر حرام کردیا ہے اللہ نے اس رحم کو اس کے اوپر حلال نہیں کیا-‘‘

یعنی جو شخص زنا کرتاہے تو شرک کے بعد اللہ کے نزدیک زِنا سب سے بڑا گناہ ہے اور مشرک کے بعد خدا کی بارگاہ کا سب سے بڑا گنہگار زانی ہے اور مشرک دائرہ اسلام سے خارج ہے اور زانی دائرہ ایمان سے خارج ہے- آقاپاک صلی اللہ علیہ وسلم کایہ واضح فرمان ہے اس لیے اللہ پاک نے فرمایا کہ

{وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنٰٓی اِنَّہُ کَانَ فَاحِشَۃً ط وَسَآئَ سَبِیْلاًo} ’’او ر زنا کے قریب مت جائو یہ فحاشی ہے اور یہ بہت بُرا راستہ ہے -‘‘

 کہ زنا کے قریب مت جانا کہ یہ بہت بڑی فحاشی ہے اور بہت ہی بُرا ،بہت ہی بھٹکا ہوا،بہت ہی ظلمت بھرا اور بہت ہی سیاہ راستہ ہے- اس راستے پر پڑجانے کے بعد تمہاری نجات خطرے میں پڑ جائے گی اور اسی لیے ہمارے بزرگوں نے اور ہمارے اسلاف نے ہمیں اس راستے سے روکا کہ اس راستے پر مت چلنا کہ یہ راستہ تمہیں اللہ کی راہ سے دور کردے گااور آج ہم اگر بھٹکے ہوئے ہیں اور آج اگر یہ معاشرہ بھٹکا ہواہے تومیرے بھائیو اور بزرگو !اللہ نے اپنی توبہ کے دروازے بند نہیں کیے ہم جب بھی اس کی ذات کی طرف جاتے ہیں تو پورے قرآن میں اس نے جگہ جگہ اپنی رحمت کافرمایا کہ تمہیں اندازہ ہی نہیں کہ مَیں کتنا رحیم ہوں ،تمہیں اندازہ ہی نہیں کہ مَیں کتنا کریم ہوں -وہ کہتا ہے کہ اے میر ے بندے تومیری طرف آنے کا ارادہ کرتاہے تومَیں تیری طرف چل پڑتا ہوں اگر تو میرے طرف ایک بالشت چلتا ہے تومَیںز تیری طرف ایک قدم آتاہوں تو میری طرف ایک قدم چلتاہے میں تیری طرف دس قدم آتاہوں اور اگر تومیری طرف چل کے آتاہے تومیں تیری طرف دوڑ کر آتاہوں ،لیکن اُس کی طرف رجوع تواختیارکرو تو ہمیں اس لیے اس راہ سے روکاگیا کہ یہ راستہ تمہیں اللہ کے قرب سے دور کردے گا یہ تمہیں اللہ کے قہر اور غضب کا شکار کردے گااس لیے اللہ نے ہمیں روکا کہ اس راستے سے بعض آجائو،اس راستے سے رک جائو اس راستے کو اختیار نہ کرنا- آج یہ میری اور آپ سب کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم نے اس معاشرے کو اُن اِسلامی بنیادوں پر استوار کرنا ہے، اُن اقدار کے اُوپر قائم کرنا ہے جن اقدار پر جن بنیادوں کو اسلام نے ہمیں بتایاہے اور جو بنیادیں قرآن وسنت نے ہمارے سامنے رکھی ہیں، جو اللہ او ر اُس کے رسول ؒصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمارے سامنے رکھاہے -کنزالعمال میں سیدناشیرِخدا حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فرمان مبارک ہے :

{انمااخشی علیکم الاثنین طول الامل و اتباع الھوا}

’’مجھے تم پردو چیزوںکاخوف ہے( کون کون سی ؟) ایک تمہاری لمبی اُمیدوں کی اوردوسری خواہشِ نفس کی پیروی کی-‘‘

اور سوال ہوا کہ لمبی اُمیدوںاور خواہشِ نفس کی پیروی کاکیا نقصان ہے ؟لمبی اُمید سے کیاہوجاتاہے اور خواہشِ نفس میںکیا قباحت ہے ؟ کیاخرابی واقع ہوتی ہے؟ توحضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ

کہ لمبی اُؒمیدیں آدمی کے دل سے آخرت کا خوف ختم کردیتی ہیں، آدمی مادیت میں پڑ جاتاہے -ایک وہ چیز جو اُس کی دسترس میں نہیں ہے اُسے حاصل کرنے کیلئے جسے ہم اصطلاحِ عام میں راتوں رات کروڑ پتی ہوناکہتے ہیں،جو اِس طرح کے راستے اختیار کرتاہے ، اس طرح کی لمبی اُمیدیں وابستہ کر لیتاہے اور خداکی عبادت اپنی دُعاکے قبول ہوجانے کی شرط پرکرتاہے کہ میری یہ دُعاقبول ہوجائے گی تومَیں تیری بندگی کروں گا، حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ بندے کے دل سے آخرت کے خوف کو ختم کردیتی ہے اور دوسری بات کہ خواہشِ نفس کی پیروی کا کیا نقصان ہے؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ

 {وان اتباع الھوایصد عن الحق}

’’بے شک تمہیں خواہشِ نفس کی پیروی اللہ کے راستے سے بھٹکادیتی ہے -‘‘

 اور آج خواہشِ نفس کی پیروی کو ،خواہشِ نفس کی اتباع کو ،خواہشِ نفس پر عمل کرنے کو،خواہشِ نفس کے پیچھے بھاگے چلے جانے کو، خواہشِ نفس کی اقتدا میں سرپٹ دوڑنے کوہم نے اپنی منزلِ مقصو د بنا لیاہے اور ہم نے اپناتمام تر قصہ بنالیاہے - اور آقا پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بھی یہی فرمایا: مجمع الزوائدمیں اور مسند امام احمدبن حنبل میں یہ فرمان حضرت ابی برزہ رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ آقاپاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ

{ان مما اخشی علیکم شھوات الغیّ فی بطونکم و فروجکم و مضلات الھویٰ}

’’کہ بے شک مجھے تم پر اس بات کا خوف ہے کہ تم شہوات غیہ کا شکا ر ہوجائو گے اور جو تمھارے بطن میں، تمھارے پیٹ میں اور تمھارے فرج یعنی تمھاری شرم گاہوںمیںہے اور یہ تمہیں گمراہ کردینے والی خواہشات ہیں -‘‘

ایسی شہوت جو تمہارے پیٹ میں اور تمھاری شرم گاہوں میں پوشیدہ ہے آقاپاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ مجھے تم سے اس بات کا خوف ہے اور اسے آپ نے {شہوات الغنیہ} کہااور محدثین اور اکابرین نے شہوت الغیہ کا معنی کیاہے ؟ اس کی شرح کرتے ہوئے بیان فرمایا کہ

{الضلال الانہماک فی الشر}

’’شہوات ِ غیہ یہ ہے کہ جس میں شر اور گمراہی موجو دہوں-‘‘

یعنی آدمی کی شرم گاہ اور آدمی کا پیٹ اسکو شہوت پراُکسائے، اسے بدکاری پر اُکسائے- آقاپاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث مبارک ہے کہ

’’مجھے اپنی اُمت سے شرک کا خوف نہیں ہے ،مجھے یہ خوف نہیں ہے کہ میری اُمت ستاروں کی پرستش کرنے لگے گی ،مجھے یہ خوف نہیں ہے میری اُمت سورج کی پرستش کرنے لگے گی، مجھے یہ خوف نہیں ہے میری اُمت آگ کی پرستش شروع کردے گی، مجھے اپنی اُمت سے شرک خفی کا خوف ہے اور شرک خفی کیاہے ؟ریاہے اور خفیہ شہوتوں کی پیر وی کرنا شرک خفی ہے -‘‘

یہ حضور کا خوف تھا اپنی اُمت سے اگر کوئی چیز میری اُمت کو گمراہ کردے گی، اگر کوئی چیز میری اُمت کو اللہ کی راہ سے بھٹکادے گی، اگر کوئی چیز میری اُمت کو اللہ کے قرب سے دُور کردے گی تو وہ یہ ہے کہ میری اُمت برائی اور بے حیائی کی طرف مائل ہوگی-

سیدنا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آقاپاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک روایت نقل فرمائی ہے کہ آقاپاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاکہ

{انی اخوف مااخاف علیٰ امتی }

’’کہ مجھے اپنی اُمت سے یہ خوف ہے ‘‘ کہ جس اُمت کے بارے قرآنِ پاک نے یہ واضح فرمایاکہ:

{قُلْ ھُوَ اﷲُ اَحَدٌo} (اے نبی مکرّم!) آپ فرما دیجیے: وہ اﷲ ہے جو یکتا ہے-      

{اَﷲُ الصَّمَدُo}اﷲ سب سے بے نیاز، سب کی پناہ اور سب پر فائق ہے-

{لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْo} نہ اس سے کوئی پیدا ہوا ہے اور نہ ہی وہ پیدا کیا گیا ہے-

{وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدٌo}  اور نہ ہی اس کا کوئی ہمسر ہے-

وہ ایک ہے اوراس ایک کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے -یارسول اللہ ﷺ یہ کیسے گمراہ ہوجائے گی ؟کہ آپ کا اپنا فرمان ہے کہ میری اُمت اب سورج ،چاند،ستاروں اوربتوں کونہیں پوجے گی تو یارسول اللہ ﷺ اپنی اُمت سے کس گمراہی کاخوف ہے، کس شرکِ خفی کاخوف ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا

{النساء والخمر}

’’میری اُمت کے لئے عورت اورشراب گمراہی کے فتنہ بنیں گے -‘‘

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر