اسلامی معاشرے کی رُوح : رضائے رسولﷺ کی تمنا

اسلامی معاشرے کی رُوح : رضائے رسولﷺ کی تمنا

اسلامی معاشرے کی رُوح : رضائے رسولﷺ کی تمنا

مصنف: صاحبزادہ سلطان احمد علی فروری 2019

انسان کامعاشرتی اور قومی زندگی میں غور و فکر کا بنیادی مقصد اپنے اقوال و افعال اور گفتار و کردار کی اصلاح ہے-اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین بھی اسی مشن و پیغام کو لے کر آگے بڑھ رہی ہے- اگر انسان اپنی انفرادی سوچ و فکر میں واضح نہ ہو تو اس کی اجتماعی فکر میں تشدد اور بھٹک جانے کا عُنصربہت زیادہ غالب آجاتا ہے-جو انسان کی انفرادی تربیت ہے وہ انسان کی اجتماعی معاشرت کی بنیاد کی پہلی اینٹ ہوتی ہے- اگر وہ خشتِ اول ہی ٹیڑھی رکھ دی جائےا س کے اوپر جتنی عمارت تعمیر ہوگی وہ ساری کی ساری عمارت ٹیڑھے پن کے اوپر استوار ہوگی ، مجھے اس پہ صائب تبریزی کا شعر یاد آرہا ہے:

چو گذارد خشتِ اوّل بر زمیں معمار کج
گررساند بر فلک، باشد ہماں دیوار کج

’’جب معمار زمین پہ پہلی اینٹ ہی ٹیڑھی رکھ دے تو چاہے دیوار کو آسمان تک بلند کر دیا جائے وہ ٹیڑھی رہے گی ‘‘-

لہٰذا فکر کی پہلی اینٹ کی فکر کرنی چاہئے ، اس طرح ہماری روحانی زندگی جس کا تعلق ہماری شخصیت اور شخصی خیالات و تصورات سے ہے ان کی اصلاح بھی ہر وقت ہمارے پیش نظر رہنی چاہیے-

خاص کر جس وقت ہم کوئی اجتماعی کام کرتے ہیں وہ بنیادی طور پر ہم اپنی ذاتی حیثیت میں کر رہے ہوتے ہیں اور اس میں اہم ترین چیز یہ ہوتی ہے کہ ہم وہ کام کس کی خوشنودی ورضا کے لئے کر رہے ہیں؟ اور اس کا مقصد کیا ہے؟ جہاں تک ایک مسلمان کی بات ہے وہ چاہے ایک سادہ لوح مسلمان ہی کیوں نہ ہو جو دن بھر کاشت کاری کرتا ہے، ریڑھی لگاتا ہے،اپنے کنبہ کا پیٹ پالنے کیلئے دن بھر کام و مشقت کرتا ہے اس کی بھی ہزاروں خواہشیں و تمنائیں ہو سکتی ہیں- لیکن ہر مسلمان وہ چاہے کسی بھی طبقہ سے تعلق رکھتا ہو اس کی ایک سادہ ترین سی خواہش یہی ہوتی ہے کہ مجھے حالتِ ایمان پر موت نصیب ہو- جب مَیں وقتِ نرع کو پہنچوں تو اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی رضا کو حاصل کرچکا ہوں اور میری زبان پراللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کے رسول (ﷺ) کی رسالت کا کلمہ’’لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘جاری ہو- اس لئے قرآن کریم ہمیں اس جانب دعوت دیتا ہے کہ:

’’یَحْلِفُوْنَ بِااللہِ لَکُمْ لِیُرْضُوْکُمْ وَاللہُ وَ رَسُوْلُہٗٓ اَحَقُّ اَنْ یُّرْضُوْہُ اِنْ کَانُوْا مُؤْمِنِیْنَ‘‘[1]

’’مسلمانو! (یہ منافقین) تمہارے سامنے اللہ کی قسمیں کھاتے ہیں تاکہ تمہیں راضی رکھیں حالاں کہ اللہ اور اس کا رسول (ﷺ) زیادہ حقدار ہے کہ وہ اسے راضی کریں اگر یہ لوگ ایمان والے ہوتے ‘‘-

اپنی سماجی اور معاشرتی زندگی کو بہتر بنانے کے لئے ہماری جتنی بھی کاوشیں ہیں ان کا مطمع نظر یہ ہونا چاہیے کہ مَیں یہ کام اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی رضاکیلئے کر رہا ہوں کیونکہ یہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ ’’اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) تم پر زیادہ حق رکھتے ہیں کہ تم اس کو راضی کرو‘‘-

اس میں سب سے زیادہ غور و فکر اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ’’ وَاللہُ وَرَسُوْلُہٗٓ‘‘ یہاں دو ہستیوں کا ذکر ہے اللہ اور اس کے رسول (ﷺ)- ’’ اَحَقُّ‘‘تم پر زیادہ حق رکھتے ہیں؛’’ اَنْ یُّرْضُوْہُ ‘‘کہ تم اس کی رضا حاصل کرو-تو عربی زبان میں’’ہُ‘‘ ضمیر غائب ہے اور واحد کا صیغہ ہے-’’ھُمَا‘‘اور ’’ھُمْ‘‘ تثنیہ و جمع کے صیغے ہیں؛’’ھُمَا‘‘دو لوگوں کیلئے استعمال ہوتا ہے اور ’’ھُمْ‘‘ دو سے زائد کے لئے- قرآن یہ فرماتا ہے کہ:

’’ وَاللہُ وَرَسُوْلُہٗٓ اَحَقُّ اَنْ یُّرْضُوْہُ‘‘

’’اللہ اور اس کا رسول اس بات کے زیادہ حقدار ہیں کہ تم اس کی رضا کو حاصل کرو‘‘-

اب چاہیے تو یہ تھا کہ جب اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) دو ہستیوں کی بات ہو رہی ہے تو یہاں پر ’’ اَنْ یُّرْضُوْہُمَا‘‘ آتا کہ ’’تم ان دونو ں کی الگ الگ رضا حاصل کرو‘‘- یعنی اللہ کو الگ سے راضی کرو اور اس کے رسول (ﷺ) کو الگ سے-اللہ تعالیٰ نے ضمیر واحد ’’ اَنْ یُّرْضُوْہُ‘‘ فرما کر یہ وضاحت فرما دی ہے کہ اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی رضا الگ نہیں ہوتی بلکہ مصطفےٰ کریم (ﷺ) کا راضی ہو جانا خدا کا راضی ہوجانا ہے اور خدا کا راضی ہوجانا مصطفےٰ کریم (ﷺ) کا راضی ہوجانا ہے-

مزید اللہ تعالیٰ نےفرمایا کہ:  ’’اِنْ کَانُوْا مُؤْمِنِیْنَ‘‘ ، ’’اگر وہ اہل ایمان ہوتے‘‘-

یعنی اگر ان کے دل میں ایک رَتی اور ذرہ برابر بھی ایمان کا نور ہوتا تو وہ جان جاتے کہ اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی رضا ایک ہی رضا ہے-مثلاًجب آپ’’Mr. A‘‘ کے آنےکا کہتے ہیں تو آپ کہیں گے کہ ’’Mr. A‘‘ آرہا ہے-اسی طرح آپ ’’Mr. B‘‘ کا کہتے ہیں کہ ’’Mr. B‘‘ آرہا ہے- اس لئے کہ وہ دونوں الگ الگ ہیں اور اس کے برعکس جب وہ دونوں اکٹھے ہو کر کسی مجلس میں آرہے ہوں تو آپ کہیں گے مسڑ A اور مسڑ B آرہے ہیں-اگر کوئی یہ کہے کہ مسڑ A اور مسڑ B آرہا ہے تو آپ کہیں گے یہ گرائمر اور لغت کے اعتبار سے غلط ہے؛ ’’آرہا ہے‘‘ کی بجائے ’’آرہےہیں‘‘ ہوگا کیونکہ وہ دو ہیں-

مگر قرآن رضائے باری تعالیٰ اور رضائے رسول اللہ (ﷺ) کو دو الگ الگ رضائیں نہیں کہتا بلکہ ایک ہی رضا قرار دیتا ہے ۔ اسی طرح اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی اطاعت بھی ایک ہی ہےکیونکہ رسول (ﷺ) کی اطاعت کے بغیر اللہ کی اطاعت ممکن نہیں ہے اور آقا کریم (ﷺ) کی رضا کے بغیر اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ممکن نہیں ہے-اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ اوراس کا رسول (ﷺ)یہ زیادہ حق رکھتے ہیں کہ تم ان کی رضا کو حاصل کرو-

رسول اللہ (ﷺ) کی رضا کو طلب کرنا صرف بندے کا ہی عمل نہیں ہے بلکہ حضور نبی کریم (ﷺ) کو راضی کرناسُنّتِ الٰہی بھی ہے- کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے کہ:

’’وَلَسَوْفَ یُعْطِیْکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰی‘‘[2]

’’(اے حبیب (ﷺ)!اور آپ کا رب عنقریب آپ کو (اتنا کچھ) عطا فرمائے گا کہ آپ راضی ہو جائیں گے‘‘-

جب یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی، جس میں آپ (ﷺ) کو راضی کرنے کی بات  ہوئی تو آقا کریم (ﷺ) نے اپنی رضا کواپنی گناہگار امت کی بخشش کے ساتھ منسوب کیا:

’’اِذَنْ وَاللہِ لَا اَرْضٰی وَ وَاحِدٌ مِّنْ اُمَّتِیْ فِی النَّارِ‘‘[3]

’’میں تب تک راضی نہیں ہوں گا جب تک میری امت کا ایک کلمہ گو بھی دوزخ میں رہے گا‘‘-

حضور نبی کریم (ﷺ) کوعلم تھا کہ اِس اُمّت میں جہاں صالحین و ابرار لوگوں کی کمی نہیں ہو گی وہیں گناہگار اور خطا کار بھی ہونگے ، تو اُمّت کے ابرار کے درجات تو اعلیٰ ہونگے لیکن امت کے خطا کاروں پہ سایۂ رحمت دراز کرتے ہوئے کریمی کی اور فرمایا کہ جب تک میرا ایک کلمہ گو بھی نارِ نار جہنم کا ایندھن ہےمَیں اس وقت تک راضی نہیں ہوں گا -

امام ابن عطيہ الاندلسی المحاربی (المتوفى: 542ھ) ’’تفسیر: المُحَرِّرُ الوَجِيز فی تفسير الكتاب العزيز‘‘ اور امام قرطبی (المتوفى : 671ھ)’’الجامع لأحكام القرآن ، تفسير القرطبی‘‘ میں لکھتے ہیں کہ:

’’بعض (علماء) نے کہا ہے کہ کتاب اللہ میں سب سے امید افزاء آیت’’ وَلَسَوْفَ يُعْطِيْكَ رَبُّكَ فَتَرْضٰى ‘‘ہے -

وَذَلِكَ أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ () لَا يَرْضَى بِبَقَاءِ أَحَدٍ مِّنْ أُمَّتِهٖ فِي النَّارِ

’’اوراس کی وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ () اپنی امت میں سے کسی ایک کے بھی جہنم میں رہنے پر راضی نہ ہوں گے‘‘-

امیر المؤمنین حضرت علی المرتضیٰ (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ()نے ارشاد فرمایا کہ:

«أَشْفَعُ لِأُمَّتِيْ حَتَّى يُنَادِيَنِيْ رَبِّيْ عَزَّ وَجَلَّ، فَيَقُوْلُ: أَرَضِيْتَ يَا مُحَمَّدُ؟ فَأَقُوْلُ: نَعَمْ، رَضِيْتُ»

میں اپنی امت کے لیے شفاعت کروں گا یہاں تک کہ اللہ پاک ندافرمائے گا اورارشادفرمائے گا: اے محمد( )! کیا آپ () راضی ہوگئے ؟تو میں عرض کروں گا ہاں (یااللہ عزوجل) میں راضی ہوگیا -[4]

پہلے سجدے پہ روز ازل سے درود
یادگاریِ اُمت پر لاکھوں سلام
امتی امتی لب پہ جاری رہا
امتی تیری قسمت پہ لاکھوں سلام

جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ہم حضور نبی کریم (ﷺ) کے کلمہ گو ہیں تو ہمیں یہ فخر و مسرت ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک ایسے آقا کریم (ﷺ) سے منسوب کیا ہے کہ ہم ابھی اس دنیا میں آئے ہی نہیں اور وہ اپنی رضا کو ہماری مغفرت سے منسوب فرما رہے ہیں-اس لئے جہاں آقا کریم (ﷺ) کی رضا ہے وہاں اللہ تعالیٰ کی رضا شامل ہے اور اللہ تعالیٰ اسی بات پر راضی ہے جس بات پر حضور نبی کریم (ﷺ) راضی ہیں-

اسی طرح تمام فضیلتیں، برکتیں اور رحمتیں اسی جانب ہوتیں ہیں جس جانب حضور نبی کریم (ﷺ) کی ذات اقدس اپنا رخِ انور پھیر لے- ناچیز کے نزدیک واقعۂ ہجرت کا ایک پہلو بڑا ہی اہم ہے جب آقا کریم (ﷺ) نے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت فرمائی-یہ بہت دلچسپ اور اہم موضوع ہے لیکن افسوس! ہمارے ہاں اس پربہت کم بات ہوتی ہے-جب آقا کریم (ﷺ) ہجرت فرما کر مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ تشریف لے جاتے ہیں تو رب ذالجلال کی بارگاہ میں مدینہ کی برکت کے لئےیہ دعا کرتے ہیں-

’’سیدنا انس ابن مالک(رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے یہ دعا فرمائی:

’اَللَّهُمَّ اجْعَلْ بِالْمَدِيْنَةِ ضِعْفَيْ مَا جَعَلْتَ بِمَكَّةَ مِنَ الْبَرَكَةِ‘‘[5]

’’ اے اللہ ! جتنی مکہ میں برکت عطا فرمائی ہے ، مدینہ میں اس سے دگنی برکت عطا فرما‘‘-

اس کی وجہ یہ تھی کہ ہجرت سے قبل حضور نبی کریم (ﷺ) مکہ مکرمہ میں جلوہ افروز تھے تو اللہ تعالیٰ کی ساری برکتیں مکہ معظمہ میں تھیں اور اب حضور نبی کریم (ﷺ) مدینہ منورہ میں جلوہ افروز ہیں اور بارگاہِ الٰہی میں دعا کرتے ہیں کہ یا اللہ! اپنی ساری برکتیں، فضیلتیں شہرِ مدینہ پر نازل فرما اور اس شہر کو بھی دیارِ نور بنادے-کیونکہ مکہ مکرمہ کی فضیلت و برکت خود ربِ ذوالجلال نے قرآن مجید میں ارشاد فرمائی ہے:

’’ لَآ اُقْسِمُ بِہٰذَا الْبَلَدِo وَ اَنْتَ حِلٌّم بِہٰذَا الْبَلَدِo[6]

’’میں اس شہر (مکہ) کی قَسم کھاتا ہوں(اے حبیبِ مکرّم!) اس لیے کہ آپ (ﷺ)اس شہر میں تشریف فرما ہیں ‘‘-

یعنی یہ آقا کریم (ﷺ) کی ذاتِ اقدس کا تقدس ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے حبیب مکرم (ﷺ) کے لئے شہر مکہ کی قسم کھاتے ہیں-کیونکہ شہر مکہ کا نور آپ (ﷺ) کے نور مبارک سے ہے- شہر مکہ کی فضیلت و برکت حضور نبی کریم (ﷺ) کی فضیلت و برکت سے ہے-

آپ اندازہ لگائیں! آقا کریم (ﷺ) جس شہر میں جلوہ فرما ہوں جس شہر کو اپنی ہجرت کے لئے پسند فرمائیں اس شہر سے آقا کریم (ﷺ) کی محبت کا عالم کیا ہوگا؟لیکن افسوس! اسلامیان عالم اور پوری دنیا میں بسنے والے مسلمان قابلِ شکوہ ہیں کیونکہ مدینہ منورہ وہ شہرِ مقدس ہے کہ اُس شہر کے باسیوں کے متعلق اور اس شہر کی حرمت و تقدس کے متعلق آقا کریم (ﷺ) کے واضح احکامات ہوئے بھی شہر مدینہ میں دہشت گردی کی بد ترین جسارت ہوتی ہے اور اُمت کےکانوں پر جوں تک نہیں رینگتی-یہ امت اپنے سینہ پر کوئی اضطراب، کوئی بے چینی اور کوئی غم تک محسوس ہی نہیں کرتی-مثلاًگزشتہ رمضان المبارک کے آواخر میں حرمِ نبوی (ﷺ) میں دہشت گردی کی بدترین کاروائی کی گئی- جہاں وہ کاروائی اہل مذمت وقابل ہزار ہا افسوس تھی وہیں اس سے بھی بڑھ کر اِس اُمت کی پُر اسرار خاموشی قابل افسوس تھی-حالانکہ جس نے بھی مدینہ میں کوئی فتنہ کا کام کیا، کوئی ظلم کیا، کسی مجرم کو پناہ دی،یہاں تک کہ جس نے بُرا کرنے کا ارادہ بھی کیا تو آقا کریم (ﷺ) نے ان سب پرعذاب کی وعید سنائی ہے- لیکن افسوس اِس اُمت کی ناقابلِ فہم خاموشی پہ!

 اُمّ المؤمنین سیّدہ عائشہ صدّیقہ (رضی اللہ عنہا)روایت فرماتی ہیں کہ آقا کریم () نے بارگاہِ رب العزت میں دُعا کی :

’’اَللّٰھُمَّ حَبِّبْ اِلَیْنَا اْلمَدِیْنَۃَ کَمَا حَبَّبْتَ مَکَّۃَ اَوْ اَشَدَّ وَ صَحِّحْھَا‘‘[7]

’’ اے اللہ ! جس طرح تونے ہمارے نزدیک مکہ کو محبوب کیا ہے مدینہ کو بھی اسی طرح محبوب کردے بلکہ اس سے بھی زیادہ محبوب کردے اور مدینہ کو صحت کی جگہ بنا دے‘‘-

آقا کریم (ﷺ) کے اس دعا فرمانے میں ہمارے لئے غور و فکر اور مقصد کی بات یہ ہے کہ جس جانب آقا کریم (ﷺ) کی ذات اقدس کا رخِ انور ہو جائے تو اللہ پاک کی تمام برکتیں اور رحمتیں بھی اسی جانب ہوجاتی ہیں-مثلاً ان شہروں کی عظمت و فضیلت کیاہے اس پرمحدثین نے ایک بہت لطیف بحث کی ہے -

امام شہاب الدین الخفاجی نے’’نسیم الریاض شرح الشفاء للقاضی عیاض‘‘ میں اس بحث کو لیا جو لوگوں میں فضائل مکہ اور فضائل مدینہ کو لے کر ہوتی ہے- لو گ یہ سوال کرتے ہیں کہ فضیلت و عظمت مکہ کی ہے یا مدینہ کی؟امام خفاجی ؒفرماتے ہیں کہ شہروں کی مٹی اور عمارات کی، ان کے مقدس مقامات کی، ان میں مدفون انبیاء کرام(علیہم السلام) کی نشانیوں اور آثار کی فضیلت اپنی جگہ لیکن میرے نزدیک فضیلت حضور نبی کریم (ﷺ) کے وجودِ اقدس کی ہے کیونکہ جب حضور نبی کریم (ﷺ) مکہ میں ہیں تو مکہ افضل ہےاور جب آپ (ﷺ) مدینہ میں جلوہ افروز ہیں تو مدینہ افضل ہے- کیونکہ جس مقام پر حضور نبی کریم (ﷺ) کا وجودِ اقدس موجود ہو اس مقام کو اللہ تعالیٰ تمام رحمتوں اور برکتوں کا مرکز قرار دیتا ہے- تبھی تو سیّدی و شیخی اعلیٰ حضرتؒ فرما تے ہیں :

نعمتیں بانٹا ’’جس سمت‘‘ وہ ذیشان گیا
ساتھ ہی مُنشیٔ رحمت کا قلمدان گیا

اسی طرح جب حضور نبی کریم (ﷺ) کا چہرہ انور مسجدِ اقصٰی کی طرف  تھا تو ہمارا قبلہ بیت المقدس  تھا اور جب آپ   (ﷺ) کا رخِ انور مسجد الحرام کی جانب  ہوتا ہے تو ہمارا قبلہ بیت المقدس کی بجائے خانہ کعبہ بن جاتا ہے-اس لئے کہ تبدیلیٔ قبلہ  میں بھی   بنیادی طور پر رضائے مصطفےٰ کریم (ﷺ) کا تعلق ہے-جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ’’سورۃ البقرہ‘‘ میں اس واقعہ کو بیان فرمایا ہے:

قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِيْ السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضٰهَا فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ[8]

’’(اے حبیب!) ہم بار بار آپ کے رُخِ انور کا آسمان کی طرف پلٹنا دیکھ رہے ہیں، سو ہم ضرور بالضرور آپ کو اسی قبلہ کی طرف پھیر دیں گے جس پر آپ راضی ہیں، پس آپ اپنا رخ ابھی مسجدِ حرام کی طرف پھیر لیجیے‘‘-

امام طبری ’’تفسیر طبری‘‘ میں اسی آیت کی شرح میں لکھتے ہیں کہ:

’’حضرت سدی نے فرمایا؛ کہ مسلمان بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے تھے، جب نبی اکرم (ﷺ) کی ہجرت کو اٹھارہ ماہ (یعنی ڈیڑھ سال) کا وقت گزرا تو آپ نماز پڑھتے ہوئے بار بار آسمان کی طرف دیکھنے لگے کہ کیا حکم آتا ہے۔ آپ اس وقت بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے تھے ، کعبہ نے اس قبلہ کو منسوخ کر دیا‘‘

فَكَانَ النَّبِيُّ (ﷺ) يُحِبُّ أَنْ يُّصَلِّيَ قِبَلَ الْكَعْبَةِ، فَأَنْزَلَ اللهُ جَلَّ ثَنَآؤُهٗ:قَدْ نَرٰى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَآءِ اَلْآيَةَ

’’پس نبی اکرم ( )نے چاہا کہ کعبہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھیں تو اللہ عزوجل نے یہ ’’ قَدْ نَرٰى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَآءِ ‘‘آیت نازل فرما دی‘‘-

قابل غور بات یہ ہے کہ ابھی آپ (ﷺ)نے اپنی زبانِ اقدس سے اس بات کا اظہار نہیں فرمایا یہ صرف ابھی ارادہ تھا کہ اللہ پاک نے اس  آیت کو نازل فرما دیا-

آقا کریم (ﷺ) کے چہرۂ انور کا بار بار آسمان کی جانب اٹھنا اس لیے ہے کہ اے میرے رب! میں تو تیرا محبوب ہوں، تیری طرف سے بھیجا گیا نبی اور رسول ہوں، میری امت کو تو نے یہ شرف عطا کررکھا ہے  جیسا کہ تو حدیث قدسی میں ارشاد ہے کہ:

’’وَمَا يَزَالُ عَبْدِي يَتَقَرَّبُ إِلَيَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّى أُحِبَّهٗ فَإِذَا أَحْبَبْتُهٗ كُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِي يَسْمَعُ بِهٖ وَبَصَرَهُ الَّذِيْ يُبْصِرُ بِهٖ وَيَدَهُ الَّتِيْ يَبْطِشُ بِهَا، وَرِجْلَهُ الَّتِيْ يَمْشِيْ بِهَا وَإِنْ سَأَلَنِيْ لَأُعْطِيَنَّهُ، [9]

’’اورمیرا بندہ نوافل کے ذریعے میرا ایسا قرب حاصل کر لیتا ہے کہ میں اسے اپنا محبوب بنا لیتا ہوں پھر جب وہ میرا محبوب بن جاتا ہےتومیں اس کے کان ہوجاتا ہوں جن سے وہ سنتا ہےاور میں اس کی آنکھیں ہوجاتا ہوں جن سے وہ دیکھتا ہےاور میں اس کے ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہےاور میں اس کے پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہےاور اگر وہ مجھ سے سوال کرے تو میں اسے ضرور بہ ضرور عطا کرتا ہوں ‘‘-

اس لئے سوال پر عطا کرنا سوال چاہے خفیہ طریقے سے مانگا جائے یا زبان سے مانگ کر کیا جائے- اےمیرے رب! تو دلوں کے حال جانتا ہے اور تو نے میری امت کویہ شرف عطا کردیا کہ جب میرا امتی تجھ سے کچھ مانگے گا تو عطا کرے گا؛ اور بار بار میرے دل میں یہ دلیل ہے کہ تو عطا فرما اور اپنےحکم کے ذریعے جبرائیل کو نازل فرما کہ مَیں مسجد اقصیٰ کی بجائے مسجد حرام کی جانب اپنی روئے زیبا کو پھیر لوں  کیونکہ یا اللہ تیرا وعدہ ہے کہ’’وَلَسَوْفَ یُعْطِیْکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰی‘‘(اے حبیب (ﷺ)! اور آپ کا رب عنقریب آپ کو (اتنا کچھ) عطا فرمائے گا کہ آپ راضی ہو جائیں گے‘‘- یا اللہ! پھر عطا فرما کہ میں مسجد اقصیٰ کی جانب اپنا رخ پھیر لوں- اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ’’فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضٰهَا ‘‘، ’’ سو ہم ضرور بالضرور آپ کو اسی قبلہ کی طرف پھیر دیں گے ‘‘-

اس لئے جو قبلہ کی تبدیلی ہے وہ از روئے قرآن ’فَتَرْضٰی‘ آپ (ﷺ) کو راضی کرنے کے لئے تھا- ’’ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ ‘‘ میں جو ’’ن‘‘ ہے یہ تاکید ثقیلہ کی ہے کہ ’’ضرور بہ ضرور‘‘ جس طریقے سے آپ کہیں گے-گویا یہ امکان ہی نہیں ہے کہ آپ (ﷺ) کی بات کو رد کر دیا جائے- کیونکہ اے میرے محبوب (ﷺ)! ہماری رضا آپ (ﷺ) کو راضی کرنا ہے-اگر آپ (ﷺ) مسجد اقصیٰ پر راضی ہیں تو مسجد اقصیٰ بیت اللہ رہے گا اگر آپ مسجد حرام پر راضی ہیں تو مسجد حرام بیت اللہ ہو گا- پھر مزید فرمایا کہ ’’ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ‘‘ اے حبیب (ﷺ) اگر آپ اس پر راضی ہیں تو اپنے چہرہ انور کو مسجد الحرام کی طرف پھیر لیجئے‘‘- جب آقا کریم (ﷺ) نے اپنےچہرہ انورکو مسجد الحرام کی طرف پھیر لیا تو فرمایا کہ:

’’وَحَیْثُ مَا کُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْہَکُمْ شَطْرَہٗ‘‘[10]

’’اور (اے مسلمانو!) تم جہاں کہیں بھی ہو پس اپنے چہرے اسی کی طرف پھیر لو‘‘-

یعنی جس جانب میرے حبیب (ﷺ) نے اپنے چہرہ انور کو پھیر لیا ہے اےمسلمانو! تم بھی اپنے چہروں کو اسی جانب پھیر لو اس لئے کہ میں نے حبیب کو راضی کردیا ہے اب تم بھی اپنے حبیب (ﷺ) کو راضی کردو-

بیت المقدس  کی بجائے بیت اللہ  شریف مسلمانانِ عالم اور اہل ایمان کا مرکزِ عبادت ہونا اس  کا مقصد از روئے قرآن ’’تَرْضٰهَا‘‘ حضور نبی کریم (ﷺ)کی رضا ہے-کیونکہ حدیثِ قُدسی میں فرمانِ باری تعالیٰ ہے کہ:

’’لَوْ لَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَفْلَاک‘‘

’’اگر آپ نہ ہوتے تو افلاق کو پیدا نہ کرتے‘‘-

’’لَوْلَاکَ لَمَا اَظْہَرْتُ رَبُوْبِیَّہ‘‘

’’اے حبیب مکرم (ﷺ) اگر آپ نہ ہوتے تو ہم اپنا رب ہونا بھی ظاہر نہ فرماتے‘‘-

اگر آپ قبلہ کی تبدیلی پر راضی ہوں گے تو ہم اس قبلہ کو تبدیل کردیں گے کیونکہ  اے محبوب (ﷺ) جب یہ کائنات ہم نے بنائی ہی آپ (ﷺ) کےلیے ہے تو قبلہ بھی تو آپ (ﷺ) کی رضا پر بنایا جائے گا-

کائنات کی تمام رونقیں و گہما گہمیاں، زندگی کی تپش و حرارت،  رمق و دمق، رونق و چمک، کلیوں کی چٹک، پھولوں کی مہک یہ سب آقا کریم (ﷺ) کے قدموں کے طفیل ہیں -اس لئے کائنات کے ہر عمل کی، ہر خیر و نیکی کی، مسلمان کی ہر عبادت وذکر کی اور ہر کاوش و جہد کی مقصدیت یہ ہونی چاہیے کہ میں اس سے اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی رضا کو حاصل کرلوں کیونکہ آقا کریم (ﷺ) کو راضی کرنا سنتِ الٰہی ہے-

انہی آیات کےضمن میں جو تبدیلی قبلہ کی جانب وارد ہوئیں اس پر علمائے اسلام، مفسرین و محدثین اور خاص کر عرفاء نے جو لطیف و باریک تفاسیر فرمائی ہیں کہ آدمی دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے کہ آقا کریم (ﷺ) کی ہماری نسبت و محبت کی بنیاد کیا ہونی چاہیے-مثلاًابو القاسم قشیریؒ جن کا رسالہ ’’قشریہ‘‘ ادب عربی اور ادبِ تصوف میں ایک عظیم ترین مقام رکھتا ہے -ہر عہد کے علماء و فقہاء ، عرفاء اور اولیاء نے اس سے استفادہ کیا ہے؛ اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ:

’’آقا کریم (ﷺ) نے آداب کا خیال رکھتے ہوئے زبانی سوال سے خاموش رہے اور قبلہ کے معاملہ کی دل سے تمنا کی-آسمان کی طرف اس لئے دیکھا کہ وہ حضرت جبریل علیہ السلام کے اترنے کا راستہ تھا-پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت ’’ قَدْ نَرٰى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَآءِ ‘‘ نازل فرما کر بتایا کہ ہم تمہارے اس سوال کو جانتے ہیں  جو آپ (ﷺ)  کی زبان مبارک پر نہیں آیا؛

’’فَلَقَدْ غَيَّرْنَا الْقِبْلَةَ لِأَجْلِكَ، وَ هٰذِهٖ غَايَةُ مَا يَفْعَلُ الْحَبِيْبُ لِأَجْلِ الْحَبِيْبِ كُلُّ الْعَبِيْدِ يَجْتَهِدُوْنَ فِىْ طَلَبِ رِضَآئِىْ وَأَنَا أَطْلُبُ رِضَاكَ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضٰهَا»[11]

’’پس ہم نے صرف آپ کے لئے قبلہ کو تبدیل فرما دیا ہے، یہ اس کام کی انتہاء ہے جو ایک حبیب ،اپنے حبیب کے لئے کرتا ہے -ہر بندہ میری رضا کی طلب میں جدوجہد کرتا ہے اور میں تیری رضا چاہتا ہوں پس ہم نے تجھے اسی قبلہ کی طرف پھیر دیا ہے جو تمہیں پسند ہے‘‘-

خدا کی رضا چاہتے ہیں دو عالَم
خدا چاہتا ہے رضائے محمد

یعنی یہ آقا کریم (ﷺ) کی رضا کا وہ امتیاز ہے جس کو علمائے کرام فرماتے ہیں کہ نہ صرف یہ سنتِ الٰہی ہے بلکہ آقا کریم (ﷺ) کی رضا کا از روئے قرآن اللہ تبارک وتعالیٰ کی ہی رضا ہے کہ  جس پر آقا کریم (ﷺ) راضی ہوگئے تو سمجھ لو کہ اس پر اللہ تعالیٰ بھی راضی ہوگیا-

مزید  اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ:

’’وَ لِكُلٍّ وِّجْهَةٌ هُوَ مُوَلِّيْهَا‘‘[12]

’’اور ہر ایک کے لیے توجہ کی ایک سمت (مقرر) ہے‘‘-

اس آیت کی تفسیر میں مفتی بغداد ابو الفضل علامہ محمود احمد آلوسیؒ حضور نبی کریم (ﷺ) کی شان و نسبت کو بیان فرماتے ہوئے  ایک بہت لطیف بات فرماتے ہیں کہ:

’’اَلْمُرَادُ بِهَا أَنَّ لِكُلِّ أَحَدٍ قِبْلَةٌ فَقِبْلَةُ الْمُقَرَّبِيْنَ الْعَرْشُ وَ الرُّوْحَانِيِّيْنَ الْكُرْسِيُّ وَالْكُرُوْبِيِّنَ الْبَيْتُ الْمَعْمُوْرِ وَالْأَنْبِيَاءِ قَبْلَكَ بَيْتُ الْمُقَدَّسِ وَقِبْلَتُكَ اَلْكَعْبَةُ وَهِيَ قِبْلَةُ جَسَدِكَ وَأَمَّا قِبْلَةُ رُوْحِكَ فَاَنَا وَقِبْلَتِيْ أَنْتَ‘‘[13]

’’ اس  سے مراد یہ ہے کہ ہر کسی کا کوئی نہ کوئی قبلہ ہے پس مقربین کا قبلہ عرش ہے اور روحانیین کا قبلہ کرسی ہے اور کروبیین کا قبلہ بیت العمور ہے اور آپ (ﷺ) سے پہلے انبیاء کرام (علیہم السلام) کا قبلہ بیت المقدس ہے اور آپ (ﷺ) کا قبلہ کعبہ ہے اور وہ (کعبہ) آپ (ﷺ) کے جسم اطہر کا قبلہ ہے اور آپ (ﷺ) کے روح  انور کا قبلہ میری ذات ہے اور میرا قبلہ آپ (ﷺ) کی ذات گرامی ہے‘‘-

یعنی کائنات کی ہر چیز کا ایک قبلہ ہے جس کی جانب وہ متوجہ ہوتے ہیں لیکن  جب اللہ اور اس کے رسول (ﷺ)کی سمت و قبلہ کی بات کی جائے تو وہ دونوں ایک دوسرے میں ہیں-یعنی حضورنبی کریم (ﷺ) کے جسدِ مبارک کی توجہ کا مرکز خابہ کعبہ ہے اور آپ (ﷺ) کی روح انور کی توجہ کا مرکز اللہ تعالیٰ کی ذات کے  انوار و تجلیات ہیں -اسی طرح اللہ تعالیٰ کی ذات حضور نبی کریم (ﷺ) کی ذات  اقدس کی جانب متوجہ  ہے-

مزید حضور نبی کریم (ﷺ)  کی شان و عظمت کا بیان قرآن مجید کے اس واقعہ سے بھی ملتا ہے جہاں پر حضور نبی کریم (ﷺ) کی حفاظت کا ذکرہے-یعنی ہر ایک اپنے مال وجان کی حفاظت کے لئے محافظ تعینات کرتا ہے لیکن اللہ پاک فرماتا ہے اے محبوب  کریم (ﷺ)! آپ (ﷺ) کو مخالفین سے حفاظت کے لئے کسی مادی سبب کی ضرورت نہیں  ہے بلکہ آپ (ﷺ) کی حفاظت ہم خود فرمانے والے ہیں جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

’’وَاللہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ‘‘[14]

’’اور اﷲ (مخالف) لوگوں سے آپ (کی جان) کی (خود) حفاظت فرمائے گا ‘‘-

کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر لمحہ و لحظہ حضور نبی کریم (ﷺ) کی جانب متوجہ ہے-اس لئے جب یہ فیصلہ ہوگیا کہ آقا کریم (ﷺ) کو تمام قبائل کے منتخب شدہ نوجوانوں کا ایک لشکر شہید کر دے گا (معاذ اللہ) اور شبِ ہجرت آقا کریم (ﷺ) کے گھر مبارک کا محاصرہ کر لیا گیا تو فرمایا کہ حبیب مکرم (ﷺ) ان آیات کی تلاوت فرماتے جائیے اور کنکریاں اٹھا کر ان پر پھینک دیجیے ان کی بینائی ضبط کر لی جائے گی-کیونکہ بینائی عطا کرنے والا ان کی بینائی کو مفقود کر دے گا-

اسی طرح  غارِ ثور کا واقعہ دیکھیں کہ جب حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) حضور نبی کریم (ﷺ) کے ساتھ غارِ ثور میں  ہوتے ہیں تو دشمن غارِ ثور تک پہنچ آتا ہے لیکن پروردگار کے حکم سے مکڑی جالا بُن دیتی ہے اور  فاختہ اپنے انڈے دے دیتی ہیں-پھر جب کفار اپنے جاسوس لےکر محاصرہ میں پہنچ جاتے ہیں اور حضرت ابو بکر صدیق (رضی اللہ عنہ) آپ (ﷺ) کی حفاظت کے لئے پریشان ہوتے ہیں تو آپ (ﷺ) فرماتے ہیں کہ :

’’لَا تَخْزَن‘‘                  پریشان نہ ہوئیے-

حضرت ابو بکر صدیق (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ یا رسول اللہ (ﷺ)! دشمن سر پر تلواریں اور نیزے تانے کھڑے ہیں کہ نعوذ باللہ آپ (ﷺ)کو دیکھتے ہی شہید کر دیا جائے گا-آقا کریم (ﷺ) نے فرمایا کہ پریشان نہ ہو ہمارا اللہ ہمارے ساتھ ہے- کیونکہ اللہ تعالیٰ کا حضور نبی کریم (ﷺ) سے یہ وعدہ ہے کہ آپ (ﷺ) کی حفاظت آپ (ﷺ) کا رب فرمائے گا-

آپ پورے قرآن کی تشریح دیکھ لیں، آقا کریم (ﷺ)  سجدہ فرماتے ہیں، قیام فرماتے ہیں،  کفار کی جانب کنکریاں پھینکتے ہیں،صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم)سے بیعت لیتے ہیں یعنی آقا کریم (ﷺ)  جو قول و فعل فرماتے ہیں اس کا حکم  آقا کریم (ﷺ) کو  اللہ تعالیٰ کی طرف سے بذریعہ جبرائیل علیہ السلام کیا جاتا ہے-اس کا مطلب یہ ہے کہ آقا کریم (ﷺ) کے ہر قول و فعل اور آپ (ﷺ) کی مجلس میں ہونے والی ہر ایک بات پر اللہ تعالیٰ کی توجہ ہے-اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے حبیب (ﷺ)ہر کوئی اپنی اپنی سمت  متوجہ ہے لیکن ہم آپ (ﷺ)  کی جانب متوجہ رہتے ہیں-

جس طرح آقا کریم (ﷺ) کی ذات کی جانب  اپنے دل اور اپنی سوچ و فکر مائل کئے رکھنا یہ سنت الٰہی ہے- اسی طرح آقا کریم (ﷺ) کی ذات اقدس پر درود بھیجنا بھی سنت الٰہی ہے –جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:

’’اِنَّ اﷲَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّط یٰٓـاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا‘‘[15]

’’بے شک اللہ اور اس کے (سب) فرشتے نبیِّ (مکرمّ (ﷺ) پر درود بھیجتے رہتے ہیں، اے ایمان والو! تم (بھی)  اُن پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کرو‘‘-

اس لئے کائنات کی کل برکات، رحمتوں اور خیر کثیر کا مرکز آقا کریم (ﷺ) کی ذات اقدس ہے-اسی طرح جن چیزوں کی نسبت آقا کریم (ﷺ) سے ہوجائے وہ چیز عمومیت سے خصوصیت میں تبدیل ہوجاتی ہے-

امام مسلمؒ ’’صحیح مسلم‘‘ میں حدیث پاک نقل کرتے ہیں جس میں حضرت عابس بن ربیعہ(رضی اللہ عنہ) روایت فرماتے ہیں کہ :

رَأَيْتُ عُمَرَ يُقَبِّلُ الْحَجَرَ، وَ يَقُوْلُ: «إِنِّيْ لأُقَبِّلُكَ وَ أَعْلَمُ أَنَّكَ حَجَرٌ، وَ لَوْلَا أَنِّيْ رَأَيْتُ رَسُوْلَ اللهِ () يُقَبِّلُكَ لَمْ أُقَبِّلْكَ»[16]

’’میں نے حضرت عمر بن خطاب (رضی اللہ عنہ) کو دیکھا کہ وہ حجر اَسود کو بوسہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں بے شک میں تجھے بوسہ دے رہا ہوں حالانکہ میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے اور اگر مَیں نے رسول اللہ ()کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو مَیں تجھے (کبھی)بوسہ نہ دیتا‘‘-

جس پتھر کی نسبت آقا کریم (ﷺ) سے ہوجائے صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم)کے نزدیک وہ پتھر عزیز ہو جاتاہے-

حضرت انس بن مالکؒ سے روایت ہے  کہ:

أَنَّ رَسُوْلَ اللّهِ صَلَّى (ﷺ) طَلَعَ لَهُ أُحُدٌ فَقَالَ: «هَذَا جَبَلٌ يُحِبُّنَا وَ نُحِبُّهُ،

’’جب رسول اللہ کو جبلِ اُحد دکھائی دیا تو آپ نے فرمایا کہ یہ پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں‘‘-

جب کبھی صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم)آقا کریم (ﷺ) کی یاد میں اداس ہوجاتے تو آقا کریم (ﷺ) کے تبرکات کی زیارت کے لئے چلے جاتے -اُحد پہاڑ کی زیارت کے لئے چل نکلتے کیونکہ آقا کریم (ﷺ) نے اس پہاڑ سے محبت فرمائی ہے ورنہ ہے تو وہ پہاڑ ہی- دنیا میں جتنے بھی پہاڑ ہیں ہر پہاڑ کی زیارت ضروری نہیں اس لیے کے ہر پہاڑ کی نسبت کے بارے میں حضور نبی کریم (ﷺ) نے ایسا نہیں فرمایا جیسا اُحد پہاڑ کے بارے میں فرمایا ہے-

اسی طرح وہ زمانہ جو آقا کریم (ﷺ) سے منسوب ہوگیا وہ مقدس ہوگیا  جیسا کہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’خَيْرُ النَّاسِ قَرْنِيْ، ثُمَّ الَّذِيْنَ يَلُوْنَهُمْ، ثُمَّ الَّذِيْنَ يَلُوْنَهُمْ‘‘[17]

’’لوگوں میں سے بہترین زمانہ میرا ہے، پھر اس کے بعد کے لوگوں کا ، پھر اس کے بعد کے لوگوں کا‘‘-

یعنی ہر وہ زمانہ چاہے وہ آپ (ﷺ) کے زمانے سے قبل ہو یا بعید ہو ان میں سب سے افضل زمانہ وہ ہے جس میں حضور  نبی کریم (ﷺ) کو مبعوث فرمایا گیا ہے-پھر اس کے بعد صحابہ کا پھر تابعین کا پھر تبع تابعین کا-

صوفیاء کرام میں یہ طریق بطور خاص رہا ہے کہ وہ اپنی زیادہ تر باسی روٹیوں کوتناول کرتے تھے-یعنی گھر والوں سے ہمسائیوں  سے  پوچھتے ہوتے کہ کیا کل کی روٹی پڑی ہے؟جب لوگ اس کی وجہ پوچھتے تو کہتے کہ آج کا دن اور دو د ن پہلے جو گزرے ہیں وہ  آقا کریم (ﷺ) کے زمانے سے زیادہ قریب ہیں-اس لئے دو دن پہلے کی روٹی کی فضیلت آج کے دن کی روٹی سے زیادہ ہے-

اسی طرح صحابی کا کیا مقام ہے؟ صحابی ہونے کیلئے کثرت عبادت افضل ہے لیکن شرط نہیں ہے-جس نے کوئی عبادت نہیں کی، پوری زندگی قتل و غارت اور نفسانی خواہشات کی تکمیل کرنے اور بتوں کو پوجتے ہوئے گزار دی- لیکن اپنی موت سے چند لمحے پہلے وہ حضور نبی کریم (ﷺ) کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کی  کہ حضور نبی کریم (ﷺ) کی رسالت اور نبوت کی گواہی دینا چاہتا ہوں اور  آقا کریم (ﷺ) کے دستِ اقدس پر کلمہ پڑھ کر عہدِ اِسلام کر کے حالتِ ایمان میں حضور نبی کریم (ﷺ) کی زیارت کر لی اور فوراً شہید/ فوت ہو گیا - تو دنیا بھر کے اولیاء اور صاحبانِ زُہد و تقویٰ کے مقام اکٹھے کر لیے جائیں مگر وہ میرے آقا (ﷺ) کے صحابی کے رُتبے کو نہیں پہنچ سکتے-زندگی بھر کی عبادت و  ریاضت ایک طرف اور زندگی میں حالتِ ایمان میں آقا کریم (ﷺ) کو ایک نظر دیکھنا دنیا جہان کی تمام عبادات سے افضل ہے-کیونکہ کہ اس نظر  کو آقا کریم (ﷺ)  کی زیارت و نسبت نصیب ہوگئی ہے-

حضرت ابو سعید خدری (رضی اللہ عنہ)سے روایت ہے کہ رسول  اللہ (ﷺ) نے  ارشاد فرمایا:

«لَا تَسُبُّوْا أَصْحَابِيْ، فَوَ الَّذِيْ نَفْسِيْ بِيَدِهِ لَوْ أَنْفَقَ أَحَدُكُمْ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَ لَا نَصِيْفَهُ»[18]

’’میرے کسی صحابی کو بُرانہ   کہو-اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ جتنا سونا بھی خرچ کر دے ، ان کے ایک مٹھی یا اس کے نصف تک بھی نہیں پہنچ سکتا ‘‘-

لوگوں نے عمر بھر کی کمائی  راہِ خدا میں خرچ کردی لیکن وہ اجسام و روحیں جو آقا کریم (ﷺ)  سے منسوب ہوگئیں ان سے مقدم اور مقدس کوئی اُمتی نہیں ہوسکتا-آقا کریم (ﷺ) اہل بیت کی توقیر بھی اس لئے ہے کہ وہ حضور نبی کریم (ﷺ) کے ساتھ منسوب ہیں-اس لئے اللہ پاک فرماتا ہے کہ:

’’قُلْ لّٓا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبٰی‘‘[19]

’’ اے حبیب (ﷺ)!فرما دیجیے: میں اِس (تبلیغِ رسالت) پر تم سے کوئی اُجرت نہیں مانگتا مگر (میری) قرابت (اور اﷲ کی قربت) سے محبت (چاہتا ہوں)‘‘-

اے حبیب (ﷺ)! اپنے امتیوں کو بتادیجئے کہ میں نے جو تمہیں دولتِ ایمان اور کامیابی دی ہے اس پر میں تم سے کوئی اُجرت طلب نہیں کرتا- مگر میں اپنے اہل بیت کی محبت تم سے مانگتا ہوں اس لئے کہ وہ اہل بیت آقا کریم (ﷺ) سے منسوب ہیں-اس لئے ابو المعانی میرزا عبد القادر بیدل دہلویؒ فرماتے ہیں کہ:

اگر نظارۂ گل می تواں کرد
وطن در چشم بلبل می تواں کرد

’’اگر پھول کا نظارہ کرنے کے لائق ہو گئے ہو تو بلبل کی آنکھ میں گھر کرنے کے بھی لائق ہو جاو گے‘‘-

یعنی اگر پھول کا نظار ہ کرنا ہو تو بلبل کی آنکھ سے کرو چمکادر،چیل اور کوےکی آنکھ میں بیٹھ کر تمہیں پھول کا حسن  کبھی نظر نہیں آئے گا-اسی طرح اگر آقا کریم (ﷺ) کی ذات اقدس کو دیکھنا چاہتے ہو تو قرآن کی آنکھ میں بسیرا کرو تاکہ تمہیں اندازہ ہو سکے کہ حضور نبی کریم (ﷺ)  کی شان و عظمت اور رضا کیا ہے؟ آقا کریم (ﷺ) پر درود پڑھنا کیسا ہے؟ آقا کریم (ﷺ)کے نام پر اپنے آپ کو منسوب کردینا کیسا ہے؟

اسی طرح وہ گھر جو آقا کریم (ﷺ) کی ذات اقدس سے منسوب ہوجائے  وہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ  بن جاتا ہے-حضرت عبد اللہ بن زید المازنی (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ:

أَنَّ رَسُوْلَ اللّهِ (ﷺ)قَالَ: «مَا بَيْنَ بَيْتِيْ وَمِنْبَرِيْ رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ»

’’رسول اللہ نے فرمایا؛’’میرے گھر اور میرے منبر کا درمیان جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے‘‘-

یعنی حضور نبی کریم (ﷺ) کا گھر جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے اور حضور نبی کریم (ﷺ) کا منبر مبارک آپ (ﷺ)کے حوضِ کوثر پر قائم کیا گیا ہے-وہ گھر اور منبر جو آقا کریم (ﷺ) سے منسوب ہوجائے وہ عام نہیں ہے-

اسی طرح جس  مسجد میں حضور قیام فرمائیں  اللہ تعالیٰ اس کی فضیلت کو بڑھا دیتا ہے-حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ)سے روایت کہ نبی اکرم () نے فرمایا:

’’صَلَاةٌ فِيْ مَسْجِدِيْ هَذَا أَفْضَلُ مِنْ أَلْفِ صَلَاةٍ فِيْمَا سِوَاهُ، إِلَّا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ‘‘[20]

’’میری اس مسجد میں نماز ادا کرنا دوسری مسجدوں میں ہزار درجہ افضل ہے ، سوائے مسجد الحرام کے‘‘-

اسی طرح  جو فعل بھی آقا کریم (ﷺ) کی ذات  اقدس سے نسبت حاصل کرلے وہ فعل صحابہ  کرام (رضی اللہ عنہ) کے لئے فعلِ خیر بن جاتا ہے-جیسا کہ امیر المؤمنین حضرت عمر بن خطاب (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ:

«شَيْءٌ صَنَعَهُ النَّبِيُّ (ﷺ) فَلَا نُحِبُّ أَنْ نَتْرُكَهُ»[21]

’’جس چیز کو نبی اکرم () نے کیا ہوتا ہم اسے چھوڑنا پسند نہ کرتے ‘‘-

اسی طرح جو آقا کریم (ﷺ) کو خوش کرے وہ خوشی عام خوشی نہیں ہے، جو نعوذ باللہ آقا کریم (ﷺ) کو ناراض کرے وہ ناراضگی عام ناراضگی نہیں ہے، جو بے ادبی کرے وہ بے ادبی عام بے ادبی نہیں  ہے-جو آقا کریم (ﷺ) کی بارگاہ میں اونچی آواز نکالے اس کے لئے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ:

’’یٰـٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْہَرُوْا لَہٗ بِالْقَوْلِ کَجَہْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُکُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ‘‘[22]

’’اے ایمان والو! تم اپنی آوازوں کو نبئ مکرّم () کی آواز سے بلند مت کیا کرو اور اُن کے ساتھ اِس طرح بلند آواز سے بات (بھی) نہ کیا کرو جیسے تم ایک دوسرے سے بلند آواز کے ساتھ کرتے ہو (ایسا نہ ہو) کہ تمہارے سارے اعمال ہی (ایمان سمیت) غارت ہوجائیں اور تمہیں (ایمان اور اعمال کے برباد ہوجانے کا) شعور تک بھی نہ ہو‘‘-

حضرت عمر فاروق (رضی اللہ عنہ) کا فتوی اس پر موجود ہے کہ طائف سے کچھ لوگ آئے اور اونچی آواز سے بات کرنے لگے - سیدنا عمر بن خطاب (رضی اللہ عنہ) نے پوچھا کہ کہاں سے ہو؟ جواب ملا طائف سے ہیں- آپ (رضی اللہ عنہ)فرمایا کہ اگر تم مدینہ سے ہوتے تو میں تمہیں مار مار کر سزا دیتا اس لئے کہ مسجد نبوی(ﷺ) کا ادب آج بھی اسی طرح لازم ہے کہ جس طرح حضور نبی کریم (ﷺ) کے وصال فرمانے سے پہلے تھا-اس لئے حضور نبی کریم (ﷺ) کی بارگاہ میں اپنی آوازوں کو پست رکھو-جنہوں نے اپنی آوازوں کو پست کیا ان کو اللہ تعالیٰ نے خوشخبری یہ دی کہ ان کے دلوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنے تقوی کے لئے خالص کر لیا ہے اور جنہوں نے اپنی آوازوں کو پست نہ کیا اور آپ (ﷺ) کو حجروں کے باہر سے آوازیں لگاتے رہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ تو بے عقل لوگ ہیں ان کو معلوم ہی نہیں ہے کہ میرے محبوب (ﷺ)کی بارگاہ کونسی بارگاہ ہے-

ادب گاہیست زیر آسماں از عرش نازک تر
نفس گم کردہ می آید جنید و ب?

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں