شرفِ انسانیت : فکری خطاب قسط3

شرفِ انسانیت : فکری خطاب قسط3

شرفِ انسانیت : فکری خطاب قسط3

مصنف: صاحبزادہ سلطان احمد علی ستمبر 2018

بارہواں شرف؛ انسان کی ایمانیات کے ساتھ منسلک ہے ، اس میں چار چیزیں بیان کی گئی ہیں :

1- عشق

2-معرفت کا ہونا

3-وحی کا انسان پر نازل ہونا

4-انسان کا اللہ تعالیٰ کے قرب کی منازل کو طے کرنا

ان میں سے ہر شرف جس کو بھی نصیب ہوا اس کی استطاعت کے مطابق نصیب ہوا، جس کو اللہ تعالیٰ نے جو صلاحیت بخشی اُس نے توفیقِ الٰہی سے وہی نصیبہ پایا-عشق تو انسان کی سرشت میں ڈال دیا گیا  جس نے جو ذوق پایا اور جس ماحول میں پرورش پائی اس کو اسی طرح کا عشق نصیب ہوا- یہاں عشق سے مُراد ذاتِ باری تعالیٰ اور سیّد الکونین شہِ لولاک حبیبِ پاک (ﷺ) کا عشق ہے کہ یہ انسان کا عظیم ترین شرف ہے کہ اِسے عشق جیسی دولتِ مُقدّسہ عطا ہوئی-

اُس کے بعد شیخ نے معرفت کے عطا ہونے کا ذکر کیا ہے کہ مخلوقات میں ایک انسان کو بھی اس قابل بنایا گیا ہے کہ یہ رب تعالیٰ کی معرفت (جتنی کہ وہ بخشنا چاہے) حاصل کر سکتاہے- معرفت  کی تفصیلات بیان کی جائیں تو سلسلۂ گفتگو بہت طویل ہو جائے گا، مختصراً یہ ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ جب معرفت کا لفظ آتا ہے تو اس میں کئی چیزیں شامل ہو جاتی ہیں جن میں اوّل چیز شعور ہے کیونکہ بغیر شعور کے معرفت ہو نہیں سکتی- معرفت میں انسان حِس کو بھی بروئے کار لاتا ہے اور حِس کے ذریعے بھی کچھ ادراک حاصل کرسکتا ہے؛فرقِ حق و باطل میں قابلیّت رکھنا بھی اس میں شامل و داخل ہے- یعنی معرفت کا نصیب ہونا اپنے اندر بذاتِ خود کئی عطاؤوں کو ساتھ لاتا ہے اِ س لئے معرفت ایک عظیم ترین شرفِ انسانی ہے-

تیسری چیز وحی بیان کی گئی ہےجو کہ انبیائے کرام (علیھم السلام)  کے ساتھ خاص ہے- انبیاء چونکہ بنی نوعِ انسان سے تعلُّق رکھتے ہیں اس لئے یہ بھی انسان کا شرفِ عظیم ہے کہ اتنی جلیل القدر ارواح اس انسان کی ہدایت کا فیض بن کر مبعوث ہوئیں-

چوتھی چیز قُربِ خُداوندی بیان ہوئی-اللہ پاک کے قرب کے قابل ہونا بھی انسان کا شرف ہے-اس میں کوئی شک و شُبہ نہیں کہ ملائکہ کرام مقربین ہیں، اُن کے درجاتِ قُرب عقل کی پیمائش اور الفاظ کے لباس سے بے حد وسیع ہیں- انسان اور مَلَک کے قُرب میں ایک فرق یہ ہے کہ ملائک کو وجود نُوری عطا کیا گیا ہے جس کی برکات کے سبب وہ لذّاتِ نفسانی سے پاک ہیں اور وسواسِ شیطانی کی قید میں نہیں آ سکتے اور بغیر کسی غفلت کے  ہر وقت تسبیح و عبادت و اطاعت میں مشغول ہیں-جبکہ بشری وجود کے ساتھ تقاضے مُختلف ہو جاتے ہیں، بشری وجود کے ساتھ خواہشاتِ نفسانی اور دامِ شیطانی بھی جُڑ جاتا ہے جس سے انسان کی آزمائش بڑھ جاتی ہے کہ کیا یہ ان حسین زندانوں کا قیدی بننا پسند کرتا ہے یا قربِ الٰہی کو ترجیح دیتے ہوئے منازلِ قرب کی طرف بڑھتا ہے؟ ایسے انسان جو اپنی بشریّت کو مغلوب کر کے اُس پہ اپنی فطرتِ رُوحانی کو غالب کر دیتے ہیں اُن کے نصیب میں قُربِ الٰہی ہوتا ہے، اِس لئے وہ لوگ شرفِ انسانی کی دلیل بن جاتے ہیں-

یہ چاروں باتیں جس ترتیب میں کہی گئی ہیں اس ترتیب کے مطابق اگر بات کو سمجھا جائے تو اسے یوں کہا جائے گا کہ:

’’جذبۂ عشق ہی ہے جو انسان کو معرفتِ الٰہی تک لے جاتا ہے؛ معرفت جب نصیب ہوتی ہے تو ’’وحی‘‘ کا صحیح معنیٰ و مفہوم پتہ چلتا ہے-جب وحی کے مطالب و مقاصد و معانی پہ انسان عمل پیرا ہو جاتا ہے تو منازل و درجاتِ قرب میں خود بخود اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے‘‘-

لہٰذا جو عظیم ترین شرف انسان کو بخشے گئے ہیں اُن میں اپنے خالق و رازق کی پہچان اور اُس کی وحی کی پیروی کرنا بھی ایک عظیم ترین شرف ہے-

قاضی بیضاویؒ اسی ضمن میں فرماتے ہیں کہ:

’’فَاِنَّ شَرْفَ الْإِنْسَانِ وَ كَرَامَتَهٗ بِالْمَعْرِفَةِ وَ الطَّاعَةِ‘‘[1]

’’پس بیشک انسان کا شرف اور اس کی کرامت معرفت اور اطاعت کی وجہ سے ہے‘‘-

یعنی جس طرح انسان بندگی سے لذت و حلاوت کو محسوس کر سکتا ہے اس طریق سے حیوانات اور دیگر اشیاء وہ لذت و حلاوت محسوس نہیں کرسکتیں- جبکہ شیخ بیضاوی علیہ الرحمہ کے اس قول کا دوسرا مفہُوم یہ ہوگا کہ انسان کا شرف در اصل معرفت و اطاعت کی وجہ سے ہے یعنی ترکِ غفلت کی وجہ سے-جیسا کہ سورہ الاعراف میں بیان کیا گیا ہے کہ اگر انسان غفلت شعار ہو جائے تو چو پایوں کی مثل ہے اور چوپایوں کی مثل ہونا شرف نہیں بلکہ ’’خود تذلیلی‘‘ کہلائے گا؛ اِس لئے اصل شرف نصیب ہی اطاعت و معرفت سے ہوتا ہے-

یہاں تک قاضی پانی پتی علیہ الرحمہ کے قول کی شرح تھی جو انہوں نے اس آیت (وَ لَقَدْ كَرَّمْنا بَنِيْ آدَمَ) کے تحت ارشاد فرمایا ، اب آئیں !کچھ اور صُوفیاء و عُرفاء کی لطافتِ فکر و خیال کے موتی سمیٹتے ہیں تاکہ خلیفۃ اللہ کی عظمت کے ادراک کا سفر طے کر سکیں- 

العارف الولی القطب المقرب الامام شیخ روز بہان بقلی شیرازیؒ اسی آیت کے تحت تفسیر عرائس البیان میں  لکھتے ہیں کہ:

’’وَ لَقَدْ كَرَّمْنا بَنِيْ آدَمَ بِالتَّقْرِیْبِ وَ مَعْرِفَۃِ التَّوْحِیْدِ، وَ حَمَلْنَا ھُمْ فِیْ بَرِّ عَالَمِ الْاَجْسَادِ وَ بَحْرِ عَالَمِ الْاَرْوَاحِ بَتَیْسِیْرَہِ فِیْھِمَا لِتَرْکِیْبِہٖ مِنْھُمَا، وَ اِرْقَآئِہٖ عَنْھُمَا فِیْ طَلَبِ الْکَمَالِ، وَ رَزَقْنَاھُمْ مِنْ طَیِّبَاتِ الْعُلُوْمِ وَ الْمَعَارِفِ، وَ فَضَّلْنَا ھُمْ عَلَی الْجَمِّ الْغَفِیْرِ مِمَّنْ خَلَقْنَا اَیْ: جَمِیْعِ الْمَخْلُوْقَاتِ عَلٰی اَنْ تَکُوْنَ مِنَ الْبَیَانِ‘‘[2]

’’اور تحقیق ہم نے اولادِ آدم کو قرب اور توحید کی معرفت کے ساتھ اکرام بخشا اور ہم نے ان (اولادِ آدم ) کو عالمِ اجساد کی خشکی اور عالم ِ ارواح کے سمندر دونوں میں آسانی پیدا فرماتے ہوئے اوپر اٹھایا تاکہ وہ ان دونوں (عالمِ اجساد اور عالم ارواح) پر سوار ہوسکے اور ان دونوں سے ترقی کر کے طلبِ کمال حاصل کرے اور ہم نے ان کو پاکیزہ علوم اور معارف عطا فرمائے اور ہم نے ان کو جمِ غفیر جو ہم نے تخلیق فرمائے پر فضیلت بخشی یعنی کے تمام مخلوق پر (فضیلت بخشی) اس حیثیت سے کہ اس کو بولنے کے لحاظ سے‘‘-

یعنی انسان کا یہ شرف ہے کہ وہ اپنی جستجو کے ذریعےخداکو راضی کرنے کے لئے اس سے قرب و محبت کا کلام کرتا ہے-امام روز بہان شیرازیؒ انسان کی اس عزت و تکریم کو دو حصوں میں تقسیم فرماتے ہیں- ایک انسان کی ظاہری کرامت ہے اور دوسری باطنی- اس کی تکریمِ ظاہری میں علامہ روز بہان البقلی الشیرازیؒ نے’’عرائس البیان‘‘میں گیارہ چیزیں گنوائی ہیں:

’’وَ لَھُمْ کَرَامَۃُ الظَّاہِرِ، وَ ھِیَ تَسْوِیَۃُ خَلْقِھِمْ، وَ ظَرَافَۃُ صُوْرَتِھِمْ، وَحُسْنُ فِطْرَتِہِمْ، وَجَمَالُ وُ جُوْہِہِمْ، حَیْثُ خَلَقَ فِیْھَا السَّمْعَ وَ الْاَبْصَارَ وَ الْاَلْسِنَۃَ، وَ اِسْتِوَاءَ الْقَامَۃِ، وَ حُسْنَ الْمَشْیَ وَالْبَطْشَ، وَ اسْتَمَاعَ الْکَلَامَ وَ التَّکَلُّمَ بِاللِّسَانِ، وَ الرُّؤْیَۃَ بِالْبَصَرِوَ جَمِیْعُ ذٰلِکَ مِیْرَاثُ فِطْرَۃِ آدَمَ الَّتِیْ صَدَرَتْ مِنْ حُسْنِ اصْطِنَاعِ صِفَتِہِ الَّذِیْ قَالَ: ’’خَلَقْتُ بِیَدَیَّ‘‘

’’ اور ان کے لئے ظاہری عزت بھی ہے یعنی ان کی تخلیق کا تسویہ اور ان کی صورتوں کی ظرافت، حسین فطرت اور ان کے چہروں کو جمال عطا فرمایا اس حیثیت سے کہ اس میں سماعت، بصارت، زبان اور صحیح قد و قامت تخلیق کی، چلنے اور پکڑنے کی خوبصورتی اور کلام کا سننا اور زبان سے کلام کرنا اور آنکھوں سے دیکھنا اس میں تخلیق فرمائے اور یہ تمام چیزیں فطرت آدم کی میراث ہیں اور یہ اللہ پاک کی صفتِ حُسنِ صنعت سے صادر ہوئی ہیں جو اللہ پاک نے ارشاد فرما یاہے(خَلَقْتُ بِیَدَیَّ) کہ مَیں نے اس کو اپنے ہاتھ سے پیدا فرمایا ‘‘-

پہلی چیز انسان کو ہر لحاظ سے معتدل بنانا، دوسری چیز انسان کی صورت کی ظرافت، تیسری چیز انسان کی فطرت کا حسن، چوتھی چیز انسان کے چہرے کا جمال-پانچویں چیز انسان کی جو قوت سماعت ہے جس اعتبار سے یہ چیزوں کو سنتا ہے، یہ سننے کی صلاحیت بھی اللہ تعالیٰ نے انسان کی عزت و کرامت کے لئے پیدا فرمائی-

چھٹی چیز بصارت کا عطا کرنا ہے-بصارت ظاہرکا دیکھنا ہے اور بصیرت باطن کا دیکھنا ہے اور اس سے جو ناچیز نے اخذ کیا ہے کہ جو انسان کی آنکھوں میں اللہ تعالیٰ نے نور و حسن رکھ دیا ہے یہ بھی تاجِ کرامتِ انسان کا ایک سبب ہے-ساتویں چیز؛آپ نے کبھی یہ نہیں سنا ہوگا کہ کوئی ہاتھی، چڑیا، زرافے کی آنکھوں پر فدا ہوگیا ہو آپ نے یہی سنا ہوگا کہ اس کو فلاں شخص سے اس لئے محبت تھی کہ اس کی آنکھوں سے جمال ٹپکتا تھا-اس لئے جو آنکھ کا حسن و جمال اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا ہے توبقول امام شیرازیؒ یہ آنکھیں بھی انسان کی عظمت وشرف پر دلالت کرتی ہیں-

آٹھویں چیز زبان کا عطا کرنا ہے-زبان ایک لفظ ہے ’’اَلْسِنَۃَ‘‘ زبانوں کی جمع بھی ہے اور اس کے معانی مختلف بولنےوالی  زبانیں بھی لئے جاتے ہیں-یہ جو زبانوں کا تنوع ہے کس طریق سے لفظ ایجاد ہوئے؛ جب کوئی لغت، ڈکشنری موجود نہیں تھی، اردو کی پہلی دوسری اور تیسری کتابیں نہ تھیں (اور ابن انشا کی اردو کی یک آخری کتاب بھی ہے) -انسان کو اللہ نے لفظوں پر قدرت عطا کی تو انسان نے اپنی ضرورت کے مطابق مختلف اشیاء کا مختلف نام رکھ دیا، اسی طرح انسان دنیا میں جس بھی مقام پر گیا اپنے ضرورت و ابلاغ کے مطابق اس نے زبانوں کوتشکیل کیا، اُن کو بولنے کی لغت و فصاحت کو پیدا کیا-اسی طرح یورپ، افریقہ اورعرب و عجم کی مختلف زبانیں ہیں یعنی انسان نے ہر بارہ کوس سے زبانوں کے لہجوں کو تبدیل کردیا ہے-اس لئے انسان کو زبانوں پر جو عبور عطا ہوا ہے وہ بھی اس کے شرف انسانیت پر دلالت کرتا ہے-

نویں چیز؛انسان کا کسی چیز کو خوبصورتی و نفاست سے پکڑنا ہے-جیسے کسی کا شعر ہے کہ:

اس نے جلتی ہوئی پیشانی پہ جب ہاتھ رکھا
روح تک آگئی تاثیر مسیحائی کی

انسان جتنی محبت سے جس کو چھوتا ہے، انسان کتنے وقار و جلال کے ساتھ چلتا ہے، انسان کی چال کا حسن بھی انسان کے شرف پر دلالت کرتا ہے-انسان کا قوت سماعت ایک الگ شرف ہے اور ’’استماع الکلام‘‘ایک الگ شرف ہے- ’’استماع الکلام‘‘کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسان ویرانوں میں رہتا ہے، وہ کسی چیز کے الفاظ نہیں سنتا تو وہ ’’استماع الکلام‘‘ کیسے کرےگا- انسان آگاہی اور شعور کو پانے اور کسی بھی چیز کی درست تفہیم کو سیکھنے کی خواہش سے کلام کا سننا بھی انسان کے شرف پر دلالت کرتاہے-

دسویں چیز؛ انسان اپنی زبان سے جو کلام کرکے کلام میں شیرینی اور رس گھولتا ہےیہ بھی انسان کی عزت و تکریم کی دلیل ہے- بقول رومیؒ :

بکشاے لب که قندِ فراوانم آرزوست
بنماے رخ که باغ و گلستانم آرزوست[3]

’’اپنے لب کھولیے کہ مجھے قندِ فراون کی آرزو ہے، اپنا چہرہ دکھائیے کہ میں باغ و گلستان دیکھنے کی آرزو رکھتاہوں‘‘-

گیارہویں چیز انسان کی جو دیکھنے کی صلاحیت ہے اس کو بھی انسان کے شرف و کرامت پر دلیل بنایا ہے-بقول علامہ اقبال :

ذوقِ حضور در جہاں رسمِ صنم گری نہاد
عشق فریب می دھد جانِ امید وار را![4]

’’ذوقِ دید نے رسم بت گری کی بنیاد رکھی، عشق اسی طرح دید کے خواہش مند کو فریب دیتا ہے‘‘-

مثلا رسم الخط ایک عام چیز ہے جو کچھ بھی کیسا بھی ہوسکتا ہے اس کے برعکس خطاطی ایک مختلف چیز ہے-اسلام میں بت پرستی قطعاً حرام و شر ک ہے لیکن بعض ایسے مذاہب ہیں جنہوں نے اپنی عبادت کی بجاآوری اور اپنے مذہب کی بعض تھیالوجی کو سمجھنے کے لئے انہوں نے بت بنائے- جس طرح مذہبِ عیسائیت میں بھی بت پرستی نہیں ہے لیکن سیدنا عیسی علیہ السلام اور سیدہ مریم (علیھا السلام)کے مجسمے ان کے مذہب میں مروج ہوئے جو کہ مذہبی طور پر ان کے ڈاکٹرائن کی نفی تھی-مسلمانوں میں چونکہ آقا کریم (ﷺ) جلوہ افروز ہوئے اور حضرت عمر فاروق (رضی اللہ عنہ) کا قول ہے کہ اسلام کے آنے کے بعد نبوت کے جھوٹے دعوے تو اٹھیں گے لیکن کوئی خدائی کا دعوی نہیں کرے گا-

چونکہ اسلام میں بت پرستی نہیں ہے اس لئے بعض وہ ’’تھیالوجی‘‘ اور تصور جن سے انسان ان پر غور و فکر کرنا چاہتا تھا اس نے اس کے لئے خطاطی کی طرف رغبت کی-جس طرح الرحمٰن اللہ تعالیٰ کی صفت ہے اس لئے مسلمان نے روز مرہ زندگی میں اللہ تعالیٰ کی اس صفت سے اپنا رشتہ مضبوط کرنے کے لئے اس کی خطاطی اور کتابت ایسی کردی جو کہ اس کے ذہن میں نقش ہو جاتی ہے جس کے لئے انسان نےرنگوں کا انتخاب بھی کیا-اس لئے اسلامی فنونِ لَطِیفہ میں خاص کر جو خطاطی ہے اس کا تعلق انسان کے روحانی پہلو سے ہے کیونکہ انہوں نے قرآنی آیات کی وضاحت میں ا ن پر اپنی غور و فکر کو پختہ و قوی بنانے کے لئے اس خطاطی کے رجحان کو بڑھاوا دیا-

 اسی طرح جو ’’تصور اسم اللہ‘‘ ہے جو کہ حضرت سلطان باھو (قدس اللہ سرّہٗ) کے طریقِ طریقت کا بُنیادی فلسفہ ہےجس کی جانب آپ قدس اللہ سرّہٗ اس قدر توجہ دلاتے ہیں تاکہ اس ذکر کے ذریعے انسان کے دلوں کو جلا بخشی جائے- وہ بھی بنیادی طور پر ایک ’’پیس آف آرٹ‘‘ہے مگر اس کو محض ایک خطاطی کہنا بھی زیادتی ہے-لیکن اس  تحریر کی خوشنمائی وحسن سے انسان کی آنکھوں کو جاذبیت اور سرور ملتا ہے-

بالکل ایسے جیسے قرآن پاک کی کوئی آیت بھی تلاوت کی جائے تو انسان کو روحانی لذّت و سرور نصیب ہوتا ہے اور زبان سے بے ساختہ ’’سبحان اللہ‘‘ کے کلمات جاری ہو جاتے ہیں- لیکن اگر ایک خوش الحان اور صاحبِ مشق و محبت قاری اس آیت کی تلاوت کرے تو شاید فقط زبان پہ ہی کلماتِ حمد و تسبیح جاری نہ ہوں بلکہ آنکھوں میں بھی آنسؤوں کی لڑی بندھ جائے، بھلے کسی کو آیات مبارکہ کا معنیٰ سمجھ نہ آ رہا ہو- جس طرح خوبصورت آواز سماعت میں رس گھولتی ہے اسی طرح خوبصورت تحریر اور اس میں  رنگ کا صحیح انتخاب و استعمال انسان کی آنکھوں میں رس گھول لیتاہے-انسان کا آنکھوں سے دیکھ کر چیزوں کی خوش نمائی کو اخذ کرنا، ان کے ذریعے اپنی بصارت میں اپنے میٹھے رس کو گھول لینا یہ بھی اللہ تعالیٰ نے انسان کا شرف اور اس کی تکریم کا باعث رکھا ہے -

امام روز بہان فرماتے ہیں کہ یہ تمام چیزیں فطرت آدم کی میراث ہے اور انسان کو حسن صنعت کی صفت، اللہ تعالیٰ کی صفتِ حسنِ صنعت سے عطا ہوئی ہے-اس لئے جو انسان کو اس قدر شرف و کمال عطا ہوا ہے اس کی وجہ ہی یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے انسان کو اپنے ہاتھوں سے پیدا فرمایا ہے-

(جاری ہے )

٭٭٭


[1](تفسیر بیضاوی)

[2](تفسیر عرائس البیان، جلد:2، ص:371)

[3](جاوید نامہ)

[4](ایضاً)

بارہواں شرف؛ انسان کی ایمانیات کے ساتھ منسلک ہے ، اس میں چار چیزیں بیان کی گئی ہیں :

1- عشق

2-معرفت کا ہونا

3-وحی کا انسان پر نازل ہونا

4-انسان کا اللہ تعالیٰ کے قرب کی منازل کو طے کرنا

ان میں سے ہر شرف جس کو بھی نصیب ہوا اس کی استطاعت کے مطابق نصیب ہوا، جس کو اللہ تعالیٰ نے جو صلاحیت بخشی اُس نے توفیقِ الٰہی سے وہی نصیبہ پایا-عشق تو انسان کی سرشت میں ڈال دیا گیا  جس نے جو ذوق پایا اور جس ماحول میں پرورش پائی اس کو اسی طرح کا عشق نصیب ہوا- یہاں عشق سے مُراد ذاتِ باری تعالیٰ اور سیّد الکونین شہِ لولاک حبیبِ پاک (ﷺ) کا عشق ہے کہ یہ انسان کا عظیم ترین شرف ہے کہ اِسے عشق جیسی دولتِ مُقدّسہ عطا ہوئی-

اُس کے بعد شیخ نے معرفت کے عطا ہونے کا ذکر کیا ہے کہ مخلوقات میں ایک انسان کو بھی اس قابل بنایا گیا ہے کہ یہ رب تعالیٰ کی معرفت (جتنی کہ وہ بخشنا چاہے) حاصل کر سکتاہے- معرفت  کی تفصیلات بیان کی جائیں تو سلسلۂ گفتگو بہت طویل ہو جائے گا، مختصراً یہ ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ جب معرفت کا لفظ آتا ہے تو اس میں کئی چیزیں شامل ہو جاتی ہیں جن میں اوّل چیز شعور ہے کیونکہ بغیر شعور کے معرفت ہو نہیں سکتی- معرفت میں انسان حِس کو بھی بروئے کار لاتا ہے اور حِس کے ذریعے بھی کچھ ادراک حاصل کرسکتا ہے؛فرقِ حق و باطل میں قابلیّت رکھنا بھی اس میں شامل و داخل ہے- یعنی معرفت کا نصیب ہونا اپنے اندر بذاتِ خود کئی عطاؤوں کو ساتھ لاتا ہے اِ س لئے معرفت ایک عظیم ترین شرفِ انسانی ہے-

تیسری چیز وحی بیان کی گئی ہےجو کہ انبیائے کرام (﷩)  کے ساتھ خاص ہے- انبیاء چونکہ بنی نوعِ انسان سے تعلُّق رکھتے ہیں اس لئے یہ بھی انسان کا شرفِ عظیم ہے کہ اتنی جلیل القدر ارواح اس انسان کی ہدایت کا فیض بن کر مبعوث ہوئیں-

چوتھی چیز قُربِ خُداوندی بیان ہوئی-اللہ پاک کے قرب کے قابل ہونا بھی انسان کا شرف ہے-اس میں کوئی شک و شُبہ نہیں کہ ملائکہ کرام مقربین ہیں، اُن کے درجاتِ قُرب عقل کی پیمائش اور الفاظ کے لباس سے بے حد وسیع ہیں- انسان اور مَلَک کے قُرب میں ایک فرق یہ ہے کہ ملائک کو وجود نُوری عطا کیا گیا ہے جس کی برکات کے سبب وہ لذّاتِ نفسانی سے پاک ہیں اور وسواسِ شیطانی کی قید میں نہیں آ سکتے اور بغیر کسی غفلت کے  ہر وقت تسبیح و عبادت و اطاعت میں مشغول ہیں-جبکہ بشری وجود کے ساتھ تقاضے مُختلف ہو جاتے ہیں، بشری وجود کے ساتھ خواہشاتِ نفسانی اور دامِ شیطانی بھی جُڑ جاتا ہے جس سے انسان کی آزمائش بڑھ جاتی ہے کہ کیا یہ ان حسین زندانوں کا قیدی بننا پسند کرتا ہے یا قربِ الٰہی کو ترجیح دیتے ہوئے منازلِ قرب کی طرف بڑھتا ہے؟ ایسے انسان جو اپنی بشریّت کو مغلوب کر کے اُس پہ اپنی فطرتِ رُوحانی کو غالب کر دیتے ہیں اُن کے نصیب میں قُربِ الٰہی ہوتا ہے، اِس لئے وہ لوگ شرفِ انسانی کی دلیل بن جاتے ہیں-

یہ چاروں باتیں جس ترتیب میں کہی گئی ہیں اس ترتیب کے مطابق اگر بات کو سمجھا جائے تو اسے یوں کہا جائے گا کہ:

’’جذبۂ عشق ہی ہے جو انسان کو معرفتِ الٰہی تک لے جاتا ہے؛ معرفت جب نصیب ہوتی ہے تو ’’وحی‘‘ کا صحیح معنیٰ و مفہوم پتہ چلتا ہے-جب وحی کے مطالب و مقاصد و معانی پہ انسان عمل پیرا ہو جاتا ہے تو منازل و درجاتِ قرب میں خود بخود اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے‘‘-

لہٰذا جو عظیم ترین شرف انسان کو بخشے گئے ہیں اُن میں اپنے خالق و رازق کی پہچان اور اُس کی وحی کی پیروی کرنا بھی ایک عظیم ترین شرف ہے-

قاضی بیضاوی(﷫) اسی ضمن میں فرماتے ہیں کہ:

’’فَاِنَّ شَرْفَ الْإِنْسَانِ وَ كَرَامَتَهٗ بِالْمَعْرِفَةِ وَ الطَّاعَةِ‘‘[1]

’’پس بیشک انسان کا شرف اور اس کی کرامت معرفت اور اطاعت کی وجہ سے ہے‘‘-

یعنی جس طرح انسان بندگی سے لذت و حلاوت کو محسوس کر سکتا ہے اس طریق سے حیوانات اور دیگر اشیاء وہ لذت و حلاوت محسوس نہیں کرسکتیں- جبکہ شیخ بیضاوی علیہ الرحمہ کے اس قول کا دوسرا مفہُوم یہ ہوگا کہ انسان کا شرف در اصل معرفت و اطاعت کی وجہ سے ہے یعنی ترکِ غفلت کی وجہ سے-جیسا کہ سورہ الاعراف میں بیان کیا گیا ہے کہ اگر انسان غفلت شعار ہو جائے تو چو پایوں کی مثل ہے اور چوپایوں کی مثل ہونا شرف نہیں بلکہ ’’خود تذلیلی‘‘ کہلائے گا؛ اِس لئے اصل شرف نصیب ہی اطاعت و معرفت سے ہوتا ہے-

یہاں تک قاضی پانی پتی علیہ الرحمہ کے قول کی شرح تھی جو انہوں نے اس آیت (وَ لَقَدْ كَرَّمْنا بَنِيْ آدَمَ) کے تحت ارشاد فرمایا ، اب آئیں !کچھ اور صُوفیاء و عُرفاء کی لطافتِ فکر و خیال کے موتی سمیٹتے ہیں تاکہ خلیفۃ اللہ کی عظمت کے ادراک کا سفر طے کر سکیں- 

العارف الولی القطب المقرب الامام شیخ روز بہان بقلی شیرازی (﷫) اسی آیت کے تحت تفسیر عرائس البیان میں  لکھتے ہیں کہ:

’’وَ لَقَدْ كَرَّمْنا بَنِيْ آدَمَ بِالتَّقْرِیْبِ وَ مَعْرِفَۃِ التَّوْحِیْدِ، وَ حَمَلْنَا ھُمْ فِیْ بَرِّ عَالَمِ الْاَجْسَادِ وَ بَحْرِ عَالَمِ الْاَرْوَاحِ بَتَیْسِیْرَہِ فِیْھِمَا لِتَرْکِیْبِہٖ مِنْھُمَا، وَ اِرْقَآئِہٖ عَنْھُمَا فِیْ طَلَبِ الْکَمَالِ، وَ رَزَقْنَاھُمْ مِنْ طَیِّبَاتِ الْعُلُوْمِ وَ الْمَعَارِفِ، وَ فَضَّلْنَا ھُمْ عَلَی الْجَمِّ الْغَفِیْرِ مِمَّنْ خَلَقْنَا اَیْ: جَمِیْعِ الْمَخْلُوْقَاتِ عَلٰی اَنْ تَکُوْنَ مِنَ الْبَیَانِ‘‘[2]

’’اور تحقیق ہم نے اولادِ آدم کو قرب اور توحید کی معرفت کے ساتھ اکرام بخشا اور ہم نے ان (اولادِ آدم ) کو عالمِ اجساد کی خشکی اور عالم ِ ارواح کے سمندر دونوں میں آسانی پیدا فرماتے ہوئے اوپر اٹھایا تاکہ وہ ان دونوں (عالمِ اجساد اور عالم ارواح) پر سوار ہوسکے اور ان دونوں سے ترقی کر کے طلبِ کمال حاصل کرے اور ہم نے ان کو پاکیزہ علوم اور معارف عطا فرمائے اور ہم نے ان کو جمِ غفیر جو ہم نے تخلیق فرمائے پر فضیلت بخشی یعنی کے تمام مخلوق پر (فضیلت بخشی) اس حیثیت سے کہ اس کو بولنے کے لحاظ سے‘‘-

یعنی انسان کا یہ شرف ہے کہ وہ اپنی جستجو کے ذریعےخداکو راضی کرنے کے لئے اس سے قرب و محبت کا کلام کرتا ہے-امام روز بہان شیرازی (﷫) انسان کی اس عزت و تکریم کو دو حصوں میں تقسیم فرماتے ہیں- ایک انسان کی ظاہری کرامت ہے اور دوسری باطنی- اس کی تکریمِ ظاہری میں علامہ روز بہان البقلی الشیرازی (﷫) نے’’عرائس البیان‘‘میں گیارہ چیزیں گنوائی ہیں:

’’وَ لَھُمْ کَرَامَۃُ الظَّاہِرِ، وَ ھِیَ تَسْوِیَۃُ خَلْقِھِمْ، وَ ظَرَافَۃُ صُوْرَتِھِمْ، وَحُسْنُ فِطْرَتِہِمْ، وَجَمَالُ وُ جُوْہِہِمْ، حَیْثُ خَلَقَ فِیْھَا السَّمْعَ وَ الْاَبْصَارَ وَ الْاَلْسِنَۃَ، وَ اِسْتِوَاءَ الْقَامَۃِ، وَ حُسْنَ الْمَشْیَ وَالْبَطْشَ، وَ اسْتَمَاعَ الْکَلَامَ وَ التَّکَلُّمَ بِاللِّسَانِ، وَ الرُّؤْیَۃَ بِالْبَصَرِوَ جَمِیْعُ ذٰلِکَ مِیْرَاثُ فِطْرَۃِ آدَمَ الَّتِیْ صَدَرَتْ مِنْ حُسْنِ اصْطِنَاعِ صِفَتِہِ الَّذِیْ قَالَ: ’’خَلَقْتُ بِیَدَیَّ‘‘

’’ اور ان کے لئے ظاہری عزت بھی ہے یعنی ان کی تخلیق کا تسویہ اور ان کی صورتوں کی ظرافت، حسین فطرت اور ان کے چہروں کو جمال عطا فرمایا اس حیثیت سے کہ اس میں سماعت، بصارت، زبان اور صحیح قد و قامت تخلیق کی، چلنے اور پکڑنے کی خوبصورتی اور کلام کا سننا اور زبان سے کلام کرنا اور آنکھوں سے دیکھنا اس میں تخلیق فرمائے اور یہ تمام چیزیں فطرت آدم کی میراث ہیں اور یہ اللہ پاک کی صفتِ حُسنِ صنعت سے صادر ہوئی ہیں جو اللہ پاک نے ارشاد فرما یاہے(خَلَقْتُ بِیَدَیَّ) کہ مَیں نے اس کو اپنے ہاتھ سے پیدا فرمایا ‘‘-

پہلی چیز انسان کو ہر لحاظ سے معتدل بنانا، دوسری چیز انسان کی صورت کی ظرافت، تیسری چیز انسان کی فطرت کا حسن، چوتھی چیز انسان کے چہرے کا جمال-پانچویں چیز انسان کی جو قوت سماعت ہے جس اعتبار سے یہ چیزوں کو سنتا ہے، یہ سننے کی صلاحیت بھی اللہ تعالیٰ نے انسان کی عزت و کرامت کے لئے پیدا فرمائی-

چھٹی چیز بصارت کا عطا کرنا ہے-بصارت ظاہرکا دیکھنا ہے اور بصیرت باطن کا دیکھنا ہے اور اس سے جو ناچیز نے اخذ کیا ہے کہ جو انسان کی آنکھوں میں اللہ تعالیٰ نے نور و حسن رکھ دیا ہے یہ بھی تاجِ کرامتِ انسان کا ایک سبب ہے-ساتویں چیز؛آپ نے کبھی یہ نہیں سنا ہوگا کہ کوئی ہاتھی، چڑیا، زرافے کی آنکھوں پر فدا ہوگیا ہو آپ نے یہی سنا ہوگا کہ اس کو فلاں شخص سے اس لئے محبت تھی کہ اس کی آنکھوں سے جمال ٹپکتا تھا-اس لئے جو آنکھ کا حسن و جمال اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا ہے توبقول امام شیرازی (﷫)یہ آنکھیں بھی انسان کی عظمت وشرف پر دلالت کرتی ہیں-

آٹھویں چیز زبان کا عطا کرنا ہے-زبان ایک لفظ ہے ’’اَلْسِنَۃَ‘‘ زبانوں کی جمع بھی ہے اور اس کے معانی مختلف بولنےوالی  زبانیں بھی لئے جاتے ہیں-یہ جو زبانوں کا تنوع ہے کس طریق سے لفظ ایجاد ہوئے؛ جب کوئی لغت، ڈکشنری موجود نہیں تھی، اردو کی پہلی دوسری اور تیسری کتابیں نہ تھیں (اور ابن انشا کی اردو کی یک آخری کتاب بھی ہے) -انسان کو اللہ نے لفظوں پر قدرت عطا کی تو انسان نے اپنی ضرورت کے مطابق مختلف اشیاء کا مختلف نام رکھ دیا، اسی طرح انسان دنیا میں جس بھی مقام پر گیا اپنے ضرورت و ابلاغ کے مطابق اس نے زبانوں کوتشکیل کیا، اُن کو بولنے کی لغت و فصاحت کو پیدا کیا-اسی طرح یورپ، افریقہ اورعرب و عجم کی مختلف زبانیں ہیں یعنی انسان نے ہر بارہ کوس سے زبانوں کے لہجوں کو تبدیل کردیا ہے-اس لئے انسان کو زبانوں پر جو عبور عطا ہوا ہے وہ بھی اس کے شرف انسانیت پر دلالت کرتا ہے-

نویں چیز؛انسان کا کسی چیز کو خوبصورتی و نفاست سے پکڑنا ہے-جیسے کسی کا شعر ہے کہ:

اس نے جلتی ہوئی پیشانی پہ جب ہاتھ رکھا
روح تک آگئی تاثیر مسیحائی کی

انسان جتنی محبت سے جس کو چھوتا ہے، انسان کتنے وقار و جلال کے ساتھ چلتا ہے، انسان کی چال کا حسن بھی انسان کے شرف پر دلالت کرتا ہے-انسان کا قوت سماعت ایک الگ شرف ہے اور ’’استماع الکلام‘‘ایک الگ شرف ہے- ’’استماع الکلام‘‘کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسان ویرانوں میں رہتا ہے، وہ کسی چیز کے الفاظ نہیں سنتا تو وہ ’’استماع الکلام‘‘ کیسے کرےگا- انسان آگاہی اور شعور کو پانے اور کسی بھی چیز کی درست تفہیم کو سیکھنے کی خواہش سے کلام کا سننا بھی انسان کے شرف پر دلالت کرتاہے-

دسویں چیز؛ انسان اپنی زبان سے جو کلام کرکے کلام میں شیرینی اور رس گھولتا ہےیہ بھی انسان کی عزت و تکریم کی دلیل ہے- بقول رومی (﷫):

بکشاے لب که قندِ فراوانم آرزوست
بنماے رخ که باغ و گلستانم آرزوست[3]

’’اپنے لب کھولیے کہ مجھے قندِ فراون کی آرزو ہے، اپنا چہرہ دکھائیے کہ میں باغ و گلستان دیکھنے کی آرزو رکھتاہوں‘‘-

گیارہویں چیز انسان کی جو دیکھنے کی صلاحیت ہے اس کو بھی انسان کے شرف و کرامت پر دلیل بنایا ہے-بقول علامہ اقبال :

ذوقِ حضور در جہاں رسمِ صنم گری نہاد
عشق فریب می دھد جانِ امید وار را![4]

’’ذوقِ دید نے رسم بت گری کی بنیاد رکھی، عشق اسی طرح دید کے خواہش مند کو فریب دیتا ہے‘‘-

مثلا رسم الخط ایک عام چیز ہے جو کچھ بھی کیسا بھی ہوسکتا ہے اس کے برعکس خطاطی ایک مختلف چیز ہے-اسلام میں بت پرستی قطعاً حرام و شر ک ہے لیکن بعض ایسے مذاہب ہیں جنہوں نے اپنی عبادت کی بجاآوری اور اپنے مذہب کی بعض تھیالوجی کو سمجھنے کے لئے انہوں نے بت بنائے- جس طرح مذہبِ عیسائیت میں بھی بت پرستی نہیں ہے لیکن سیدنا عیسی علیہ السلام اور سیدہ مریم (﷥)کے مجسمے ان کے مذہب میں مروج ہوئے جو کہ مذہبی طور پر ان کے ڈاکٹرائن کی نفی تھی-مسلمانوں میں چونکہ آقا کریم (ﷺ) جلوہ افروز ہوئے اور حضرت عمر فاروق (﷜) کا قول ہے کہ اسلام کے آنے کے بعد نبوت کے جھوٹے دعوے تو اٹھیں گے لیکن کوئی خدائی کا دعوی نہیں کرے گا-

چونکہ اسلام میں بت پرستی نہیں ہے اس لئے بعض وہ ’’تھیالوجی‘‘ اور تصور جن سے انسان ان پر غور و فکر کرنا چاہتا تھا اس نے اس کے لئے خطاطی کی طرف رغبت کی-جس طرح الرحمٰن اللہ تعالیٰ کی صفت ہے اس لئے مسلمان نے روز مرہ زندگی میں اللہ تعالیٰ کی اس صفت سے اپنا رشتہ مضبوط کرنے کے لئے اس کی خطاطی اور کتابت ایسی کردی جو کہ اس کے ذہن میں نقش ہو جاتی ہے جس کے لئے انسان نےرنگوں کا انتخاب بھی کیا-اس لئے اسلامی فنونِ لَطِیفہ میں خاص کر جو خطاطی ہے اس کا تعلق انسان کے روحانی پہلو سے ہے کیونکہ انہوں نے قرآنی آیات کی وضاحت میں ا ن پر اپنی غور و فکر کو پختہ و قوی بنانے کے لئے اس خطاطی کے رجحان کو بڑھاوا دیا-

 اسی طرح جو ’’تصور اسم اللہ‘‘ ہے جو کہ حضرت سلطان باھو (قدس اللہ سرّہٗ) کے طریقِ طریقت کا بُنیادی فلسفہ ہےجس کی جانب آپ قدس اللہ سرّہٗ اس قدر توجہ دلاتے ہیں تاکہ اس ذکر کے ذریعے انسان کے دلوں کو جلا بخشی جائے- وہ بھی بنیادی طور پر ایک ’’پیس آف آرٹ‘‘ہے مگر اس کو محض ایک خطاطی کہنا بھی زیادتی ہے-لیکن اس  تحریر کی خوشنمائی وحسن سے انسان کی آنکھوں کو جاذبیت اور سرور ملتا ہے-

بالکل ایسے جیسے قرآن پاک کی کوئی آیت بھی تلاوت کی جائے تو انسان کو روحانی لذّت و سرور نصیب ہوتا ہے اور زبان سے بے ساختہ ’’سبحان اللہ‘‘ کے کلمات جاری ہو جاتے ہیں- لیکن اگر ایک خوش الحان اور صاحبِ مشق و محبت قاری اس آیت کی تلاوت کرے تو شاید فقط زبان پہ ہی کلماتِ حمد و تسبیح جاری نہ ہوں بلکہ آنکھوں میں بھی آنسؤوں کی لڑی بندھ جائے، بھلے کسی کو آیات مبارکہ کا معنیٰ سمجھ نہ آ رہا ہو- جس طرح خوبصورت آواز سماعت میں رس گھولتی ہے اسی طرح خوبصورت تحریر اور اس میں  رنگ کا صحیح انتخاب و استعمال انسان کی آنکھوں میں رس گھول لیتاہے-انسان کا آنکھوں سے دیکھ کر چیزوں کی خوش نمائی کو اخذ کرنا، ان کے ذریعے اپنی بصارت میں اپنے میٹھے رس کو گھول لینا یہ بھی اللہ تعالیٰ نے انسان کا شرف اور اس کی تکریم کا باعث رکھا ہے -

امام روز بہان فرماتے ہیں کہ یہ تمام چیزیں فطرت آدم کی میراث ہے اور انسان کو حسن صنعت کی صفت، اللہ تعالیٰ کی صفتِ حسنِ صنعت سے عطا ہوئی ہے-اس لئے جو انسان کو اس قدر شرف و کمال عطا ہوا ہے اس کی وجہ ہی یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے انسان کو اپنے ہاتھوں سے پیدا فرمایا ہے-

(جاری ہے )

٭٭٭



[1](تفسیر بیضاوی)

[2](تفسیر عرائس البیان، جلد:2، ص:371)

[3](جاوید نامہ)

[4](ایضاً)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر