قولِ سدید : انسانی معاشرے میں آدمی کے انفرادی کردار کا نصاب (آخری قسط)

قولِ سدید : انسانی معاشرے میں آدمی کے انفرادی کردار کا نصاب (آخری قسط)

قولِ سدید : انسانی معاشرے میں آدمی کے انفرادی کردار کا نصاب (آخری قسط)

مصنف: صاحبزادہ سلطان احمد علی فروری 2018

امام احمد بن حنبل ؒ نے ’’المسند‘‘ میں اورامام بیہقی ؒ  نے ’’شعب الایمان میں‘‘حدیث پاک بیان فرمائی ہے:

حضرت ابوذر غِفاریؒ فرماتے ہیں کہ  رسول اللہ () نے فرمایاکہ :

’’ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ أَخْلَصَ اللہُ قَلْبَهُ لِلْإِيْمَانِ، وَ جَعَلَ قَلْبَهُ سَلِيْماً وَ لِسَانَهُ صَادِقاً وَ نَفْسَهُ مُطْمَئِنَّةً وَ خَلِيْقَتَهُ مُسْتَقِيْمَةً وَجَعَلَ أُذُنَهُ مُسْتَمِعَةً وَ عَيْنَهُ نَاظِرَةً فَأَمَّا الْأُذُنُ فَقَمِعٌ وَ اَمَّا الْعَيْنُ فَمَقِرَةٌ لِمَا يُوْعِى الْقَلْبُ وَ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ جَعَلَ قَلْبَهُ وَاعِياً‘‘

’’کامیاب ہو گیا وہ جس نے اپنے دل کو ایمان کے لئے اللہ سے خالص کیا ہےاور اپنے دل کو سلامت رکھا اور اپنی زبان کو سچا، اپنے دل کو مطمئن اور اپنی طبیعت کو سیدھا رکھااور اپنے کان کو سننے والا،اپنی آنکھ کو دیکھنے والا بنایالیکن کان تو وہ چَین کی خبر ہے اور لیکن آنکھ تو  وہ اس  چیز کو قائم کرنے والی بنے جسے دل کی حفاظت کرتا ہے، کامیاب ہوگیا-وہ جس نےاپنے دل کو حفاظت کرنے والا بنایا‘‘-

یہ وہ تفکر ہےجس کے ذریعے سےاللہ تعالیٰ انسان کے اعمال کو خالص بناتا ہے اور اگر آدمی اس عمل سے غفلت برتا ہے تو وہ فقط اپنی عمر کو ضائع کرتا ہے اس کےحصے میں کچھ نہیں آتا-مثلا ابو المعانی میرزا عبد القادر بیدل انسان کو مخاطب کر کے اسی تفکر کی جانب رغبت دلاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اگر تو اپنی زندگی میں غور کر اپنی ہستی اور اپنے ہونے پر غور کر کہ تو اس دنیا میں کیسے موجود ہےتو وہ فرماتے ہیں کہ تیرا ہونا اس دنیا میں ایسے ہےکہ جیسے ایک انسان کی پلکوں پر ایک آنسو کھڑا ہوتا ہے اس دنیا میں تو بالکل اسی طرح کھڑا ہے اور کسی بھی لمحے کسی بھی وقت وہ آنسو آنکھ سے ٹپکے گا اور اس زمین کی خاک کے اندر غائب اور گم ہوجائے گا-

’’اے کہ بر مژگاں چوں اشک ایستادہٖ ہوشیار باش‘‘

’’اے وہ شخص جو اپنی مژگان اپنی پلکوں پر ایک آنسو کی طرح کھڑا ہےتو غور کر ہوشیار ہوجا کہ توکسی بھی لمحےتیری زندگی کا وہ آنسو اس زمین پر گر جائے گااور اس زمین کے اندر دفن ہوکر رہ جائے گا‘‘-

میاں محمد بخش ؒ فرماتے ہیں کہ:

لاکھ ہزار تیرے تھیں سوہنے خاک اندر ونج سُتّے

یہ دنیا فانی اور عارضی ہے اور اللہ تعالیٰ نے جو نعمتیں عطا فرمائی ہیں  ان نعمتوں کا احساس اپنے وجود کے اندر پیدا کرو اور آقا پاک (ﷺ) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں جو بھی نعمتیں عطا فرمائی ہیں تم یہ مت سمجھو کہ تمہیں اس کے بارےمیں پوچھا نہیں جائے گا-

آقا پاک (ﷺ) کی حدیث پاک ہے جسے امام ترمذی ؒ نے’’سنن الترمذی‘‘، امام دارمیؒ نے، ’’سنن دارمی‘‘، امام ابو یعلیٰ موصلی ؒنے ’’مسند ابی یعلی‘‘، امام ابن ابی شیبہؒ نے ’’مصنف ابن ابی شیبہ‘‘ میں، امام بیہقیؒ نے’’شعب  الایمان‘‘  اور امام طبری ؒ نے ’’المعجم الکبیر‘‘میں اس حدیث پاک کو نقل کیا ہے کہ حضرت عبد اللہ ابن مسعود ؒ  سےروایت ہے کہ نبی کریم () نے فرمایا:

’’قَالَ لَا تَزُوْلُ قَدَمَا ابْنِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ عِنْدِ رَبِّهِ حَتَّى يُسْأَلَ عَنْ خَمْسٍ: عَنْ عُمْرِهِ فِيْمَا أَفْنَاهُ وَ عَنْ شَبَابِهِ فِيْمَا أَبْلاَهُ وَ عَنْ شَبَابِهِ فِيْمَا أَبْلاَهٗ وَ عَنْ شَبَابِهِ فِيْمَا أَبْلاَهُ  وَ فِيْمَ أَنْفَقَهُ  وَ مَاذَا عَمِلَ فِيْمَا عَلِمَ ‘‘

’’انسان قیامت کے دن اس وقت تک اپنے رب کے پاس کھڑا رہے  گا جب تک اس سے پانچ باتوں کے بارے میں سوال نہ کیا جائے:اس کی عمر کے بارے میں پوچھا جائے گا اس نے اپنی زندگی کس کام میں گزاری ؟ اس کی جوانی  کے بارے میں پوچھا جائے گا کہ اپنی جوانی کوکہاں  گنوایا ؟ اس کے مال کے بارے میں پوچھا جائے گا کہ مال کہاں سے کمایا؟ اور اس سے  یہ بھی پوچھا جائے گاکہ ما  ل کہاں خرچ کیا؟ اور اس سے  یہ بھی پوچھا جائے گاکہ  اپنے علم کے مطابق کیا عمل کیا‘‘-

آج قرآن مجید اور سنتِ مبارکہ ہمارے سامنے واضح و منکشف ہے- اس لئے جب تک آدمی کسی بات سے لا علم و بے خبر ہو تو اس کو اس کے بے خبر ہونے کے سبب اس کو رعائیت مل سکتی ہے لیکن جب قرآن و سنت کی روشنی میں پیغام پہنچا دیا جائے اس کے بعد بھی آدمی غفلت و کوتاہی برتتا ہے تو  آدمی اس علم سے وہ فیض کو حاصل نہیں کر پاتا جو کہ اللہ تعالیٰ اور حضور پاک (ﷺ)اس کو عطا فرمانا چاہتے ہیں-پھر آدمی کا کوئی عذر و بہانہ بھی اس کی بارگاہ میں قبول نہیں ہوتا اگر وہ اپنے کسی بندے کو تخفیف دینے پر آئے تو وہ قادر مطلق ہےاس کی رحمت و بخشش میں کوئی حائل نہیں ہوسکتا-بقول اقبال ؒ!

کوئی یہ پوچھے کہ واعظ کا کیا بگڑتا ہے
جو بے عمل پہ بھی رحمت وہ بے نیاز کرے[1]

وہ بے نیاز ہے جس کو چاہے بخش دے یا  جس کو چاہے اپنی رحمت کی آغوش میں لے لے، لیکن کتاب و سنت میں سیکھنے اور سکھانے کے لئے جو اصول بیان کیا ہےاس اصول کی روشنی میں آدمی کو یہ معلوم ہوتا ہےکہ جو چیز بتادی جائے اس کو جانتے ہوئے بھی اپنے وجود میں چھپائے رکھتا ہے تو یہ اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی ناراضگی کا سبب بن جاتا ہے-مَیں یہ سمجھتا ہوں کہ ہمارےیہی وہ اعمال ہیں جنہوں نے آج ہمیں اس سطح پر لا کر کھڑا کیا ہےکہ ہمارے اپنے بھی اور ہمارے بیگانے بھی پرسانِ حال نہیں ہیں، ہمارے دشمن ہمارے دوست نما جلووں میں روپ دکھاتے ہیں اور ہمارے دوستوں کے اعمال بھی ایسے ہیں جن سے دشمنی کا شائبہ جھلکتا ہے-اس لئے  ہم ایک ایسی قوم کی طرح ہوتے چلے جارہے ہیں جس کا کوئی پرسانِ حال، والی وارث نہ ہو جس کا حق،جس کا کام فقط و فقط اللہ کی گرفت و ناراضگی کا سامنا کرنا رہ جائے،جیسے وہ کہتا ہے کہ پھر میرے امر یعنی عذاب کا انتظار کرو-

وہ ذات بے نیاز ہےوہ کسی کے قبیلہ اور نام و نسب کو نہیں دیکھتا، وہ کسی کے وقار،  کسی کے علم و دولت اور جاہ و جلا ل کو نہیں دیکھتا وہ تو یہ فرماتا ہے کہ میں تجھ سے صرف اتنا مانگتا ہوں جو مَیں نے تمہاری طرف اپنے پیارے محبوب (ﷺ) کے ذریعے بھیجا تھا کیا تم نے اس کو نافذ جان کیا ہےیا اس کو نافذ جان نہیں کیا-مَیں تو صرف یہ تم سے دیکھنا چاہتا ہوں کہ میں نے تمہیں جو پیغام دیا تھاجس سے تمہاری زندگی میں سہولت و استحکام پیدا ہو جائے، اندھیرے ختم ہو جائیں اور تمہاری زندگی میں  برزخ و آخرت کی جنت سے بھی قبل تمہیں مَیں جنت کی رونقیں، فرحتیں اور راحتیں عطا فرمادوں-کیا تم نے میرے اس فرمان اور میری اور میرے محبوب پاک (ﷺ) کی اطاعت کے ذریعے اپنے وجود میں اس انقلاب و تبدیلی،فرحت و رعنائی کو پیدا کیا ہے؟

 میرے نوجوان ساتھیو! یہ زندگی ہماری پلکوں پر آنسوؤں کی طرح کھڑی ہے جو کسی بھی لمحے نیچے گر جائے گی-اس لئے ہمیں اللہ کی بارگاہ میں یہ عہد و عزم کرنا چاہیے کہ میرے مولا! تیری رحمت، توفیق اور تیرا کرم و عطا میرے شامل حال رہےکیونکہ پہلے مَیں اس پیغام  و تلقین سے غافل تھا اب یہ پیغام مجھ تک پہنچ گیا ہےاس لئے اب میرا قول قولِ صدق و قولِ سدید ہوگا-میرا قول اس طرح کا قول ہوگا کہ لوگ مجھے دیکھیں گے کہ میری اس زبان سے تیری رحمت و فیض کے چشمے پھوٹےگیں کہ  میرے کلام سے لوگوں کو محمدِ مصطفےٰ (ﷺ)، صحابہ کرام (رضی اللہ عنہ)،اہل بیت اطہار ، اولیاء ِکاملین، صوفیاء اور صالحین کے کلام کی خوشبو آئے گی -

مَیں آپ سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ  ایک آدمی کے لئے کسی کام کا کرنا مشکل نہیں ہوتا بلکہ اس کا عزم و پیمان باندھنا مشکل ہوتا ہے- جب آدمی ایک کارِخیر کا عہد و عزم باندھ لیتا ہےتو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اپنے بندے کو اس عہد کا عزم کرتے ہوئےدیکھ کر خوش ہوتا ہوں اور اس بندے کے اس عمل پر اسی وقت میں پہلا انعام یہ فرماتا ہوں کہ:

’’وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا‘‘[2]

’’اور جو لوگ ہمارے حق میں جہاد (اور مجاہدہ) کرتے ہیں تو ہم یقینا انہیں اپنی  راہیں دکھا دیتے ہیں‘‘-

انسان اپنی انفرادی زندگی  و عمل میں اپنے قول سدید کے لئے اللہ پاک کی بارگاہ میں جواب دہ ہے-قول سدید سے اجتناب کرنے کا جو منفی اثر انسان کی شخصیت، انسان کے سماجی و معاشرتی زندگی اور خود انسان کی آخرت پر جو مرتب ہوتا ہےاس کےبارے میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ عَسَى أَنْ يَكُوْنُوْا خَيْرًا مِنْهُمْ وَلَا نِسَاءٌ مِنْ نِسَاءٍ عَسَى أَنْ يَكُنَّ خَيْرًا مِنْهُنَّ وَلَا تَلْمِزُوْا أَنْفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْأَلْقَابِ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْإِيْمَانِ وَمَنْ لَمْ يَتُبْ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُوْنَ‘‘[3]

’’اے ایمان والو! کوئی قوم کسی قوم کا مذاق نہ اڑائے ممکن ہے وہ لوگ اُن (تمسخُر کرنے والوں) سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں ہی دوسری عورتوں کا (مذاق اڑائیں) ممکن ہے وہی عورتیں اُن (مذاق اڑانے والی عورتوں) سے بہتر ہوں اور نہ آپس میں طعنہ زنی اور الزام تراشی کیا کرو اور نہ ایک دوسرے کے برے نام رکھا کرو، کسی کے ایمان (لانے) کے بعد اسے فاسق و بد کردار کہنا بہت ہی برا نام ہے اور جس نے توبہ نہیں کی سو وہی لوگ ظالم ہیں‘‘-

یہاں میں وضاحت کردوں کہ دو چیزیں ہوتی ہیں ایک تبسم ہوتا ہے اور ایک تمسخر ہوتا ہے-تبسم اور تمسخر میں فرق ہے-آپ کسی کے چہرے پر مسکراہٹ اور دل جوئی کرنے کے لئے،اپنے دوست احباب کی مجلس میں مسکراہٹوں اور قہقہوں کو بکھیرنے کے لئے،کوئی ایک ایسی بات کَہ سکتے ہیں جس سے چہروں پر تبسم اور مسکراہٹ پھیل جائے لیکن قرآن کریم یہ حد مقرر فرماتا ہےکہ تمہارے اس تبسم خیزی میں تمسخر نہیں ہونا چاہیے- کسی کی توہین اور تذلیل نہیں ہونی چاہیے بلکہ اس کو تم ایک احسن انداز میں بیان کرو،جسے ہم مذاق کہتے ہیں-آپ جانتے ہیں کہ یہ لفظ مذاق اور لفظ لطیفہ کہاں سے نکلا ہے؟ مذاق ذوق سے نکلا ہے، مذاق کا مطلب بیہودگی نہیں ہے-مذاق کا مطلب ایسی بات ہے جو آپ کےذوق کو تسکین بخشے- اور لطیفہ لطیف سے نکلا ہے جس سے مراد باریک اور نفیس چیز ہے، جس میں لطافت، لطف، اور باریکی آئے، ایسی نفیس بات کو لطیفہ کہتے ہیں- لطیفہ کا مطلب بھی بیہودگی نہیں ہوتا-کسی بیہودگی کو لطیفہ کہنا یہ خود لفظِ لطیفہ کی توہین ہے کیونکہ یہ ایک لطیف چیز سے نکلی ہوئی چیز ہے-اسی طرح مزاق میں گالی دینا یا کسی کی تحقیر کرنا نہیں ہوتا-کیاکسی کی تحقیرو توہین سے آپ کے ذوق کو تسکین ملے گی؟ ذوق کا مطلب ہوتا ہے کہ وہ چیز آپ کو مزید تسکین و تقویت پہنچائے-اس لئے فرمایا گیا ہےکہ تم  کسی کا بھی مذاق نہ اڑاؤعین ممکن ہے کہ تم جن کا مذاق اڑا رہے ہو وہ تم سے بہتر ہوں اور پھر عورتوں کے لئے بھی یہی فرمایا کہ کسی کا مذاق نہ اڑائیں ہو سکتا ہے کہ جس کا مذاق اڑایا جا رہا ہو وہ اڑانے والیوں سے بہتر ہوں-

اسی طرح مزید اللہ تعالیٰ نےارشاد فرمایا:

’’يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا اِجْتَنِبُوْا كَثِيْرًا مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ وَلَا تَجَسَّسُوْا وَلَا يَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضًا أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيْهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوْهُ وَاتَّقُوْا اللہَ إِنَّ اللہَ  تَوَّابٌ رَحِيْمٌ‘‘[4]

’’ا ے ایمان والو! زیادہ تر گمانوں سے بچا کرو بے شک بعض گمان (ایسے) گناہ ہوتے ہیں (جن پر اُخروی سزا واجب ہوتی ہے) اور (کسی کے عیبوں اور رازوں کی) جستجو نہ کیا کرو اور نہ پیٹھ پیچھے ایک دوسرے کی برائی کیا کرو، کیا تم میں سے کوئی شخص پسند کرے گا کہ وہ اپنے مُردہ بھائی کا گوشت کھائے، سو تم اس سے نفرت کرتے ہو اور (اِن تمام معاملات میں) اﷲ سے ڈرو بے شک اﷲ توبہ کو بہت قبول فرمانے والا بہت رحم فرمانے والا ہے‘‘-

سورۃ الحجرات کی ان دو آیات میں اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو چھ (6)باتوں کا حکم فرمایاہے اور ان چھ (6)باتوں کا تعلق براہ راست انسانی معاشرے سے ہے-مثلاً:

1.       لَا يَسْخَرْ                 

’’تمسخر ،استہزاء  اور کسی کو حقیر جاننے سے منع فرمایاہے‘‘-

2.       وَلَا تَلْمِزُوا          

’’عیب لگانے سے منع فرمایاہے‘‘-

3.       وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ               

’’برے القابات سے کسی کو بلانے سے منع فرمایا ہے ‘‘-

4.       اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِنَ الظَّنِّ        

’’بکثرت بدگمانیوں سے بچنے کا حکم دیا گیاہے ‘‘-

5.       وَلَا تَجَسَّسُوا            

’’جاسوسی کرنے سے منع کیا گیاہے‘‘-

6.       وَلَا يَغْتَب

’’غیبت کرنے سے منع کیا گیا ہے‘‘-

اگر ان میں سے تمام باتوں پر عمل نہ کیاجائے تو انسانی معاشرے کی عمارت قائم نہیں رہ سکتی -

امام ابن کثیرؒ نے ’’تفسیر ابن کثیر‘‘، امام بیہقی ؒ نے ’’شعب الایمان‘‘، امام سیوطی ؒ نے ’’‘تفسیر درِ منثور‘‘ ، امام محمود آلوسی ؒ نے ’’تفسیر روح المعانی‘‘ اور دیگر آئمہ کرام نے اپنی اپنی تفاسیر میں حضرت عمر فاروق (رضی اللہ عنہ) کا قول مبارک نقل کرتے ہیں کہ:

’’لَا تَظُنُّنَّ بِكَلِمَةٍخَرَجَتْ مِنْ أَخِيْكَ الْمُؤْمِنِ إِلَّاخَيْرًا وَ أَنْتَ تَجِدُ لَهَا فِي الْخَيْرِ مَحْمَلًا ‘‘

’’تیرے مسلمان بھائی کے منہ سے جو کلمہ نکلا ہے اسے اچھا ہی گمان کر تواس کیلئے اچھی ہی تاویل پالے گا‘‘-

یعنی تمہیں کوئی بھائی بھی کوئی بات کرے تو پہلا گمان اس کے بارے میں احسن رکھا کرو کہ اس نے صحیح بات کی ہوگی-جس کو ہم پازیٹو اپروچ کہتے ہیں کہ کسی بھی بات کاپہلا امپریشن آپ پر مثبت آنا چاہیے بے شک وہ کتنی سخت اور کڑوی بات ہی کیوں نہ ہو-آپ اسے بدگمانی اور غصے میں نہ لے جائیں-لیکن اگر آپ کے سامنے کوئی آدمی بیت اللہ کی عیب تراشی یا تذلیل کرے آپ کا پہلا امپریشن اس آدمی کے متعلق کیا ہوگا؟کیا آپ کی غیرت ایمانی اس چیز کو قبول یا برداشت کرے گی؟ اگر کوئی کعبہ شریف کا تمسخر اڑائے تو انسان کا ضمیر اور ایمان اس چیز کو کبھی گوارہ نہیں کرتا-

امام ابن ماجہؒ نے’’سنن ابن ماجہ، کتاب الفتن‘‘میں سیدنا حضرت عبداللہ ابن عمر (رضی اللہ عنہ) سے روایت کی ہے وہ فرماتے ہیں کہ:

’’قَالَ رَأَيْتُ رَسُوْلَ اللہِ() يَطُوْفُ بِالْكَعْبَةِ وَيَقُوْلُ  مَا أَطْيَبَكِ، وَأَطْيَبَ رِيحَكِ مَا أَعْظَمَكِ وَأَعْظَمَ حُرْمَتَكِ وَالَّذِىْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَحُرْمَةُ الْمُؤْمِنِ أَعْظَمُ عِنْدَ اللہِ حُرْمَةً  مِنْكِ مَالِهٖ وَدَمِهِ وَأَنْ نَظُنَّ بِهِ إِلاَّ خَيْرًا‘‘[5]

’’میں نے حضور نبی کریم () کو دیکھا کہ حضورنبی کریم () دوران ِطواف کعبہ کو مخاطب ہوکر ارشاد فرما رہے تھے کہ تو کتنا اچھا ہے اور تیری خوشبو کتنی عمدہ ہے تو کتنا عظیم ہے اور تیری حرمت کنتی عظیم ہےاور اس ذات(اللہ) کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں محمد () کی جان ہے-اللہ کے نزدیک مومن کی جان و مال کی حرمت تجھ سے زیادہ ہےاور نہ گمان کیا جائے اس کے بارے مگر اچھا‘‘-

جب کوئی بیت اللہ شریف کی تحقیر کرتا ہے ہمارا ایمان اس کو برداشت نہیں کرسکتا تو جس کا دل اللہ کی محبت کا مرکز بن جائے،جو شخص اللہ تعالیٰ کی توحید اور حضور رسالت مآب (ﷺ)کی نبوت کا کلمہ پڑھتا ہے،ہم اس کی تحقیر کیسے برداشت کرسکتے ہیں؟ہمیں اپنے ایمان کی اصلاح کرنی چاہیے ایمان کو اس درجے کے اوپر لے کر جانا چاہیے جہاں آقا پاک (ﷺ) نے انسانیت کا شرف قائم کیا ہے-

امام قرطبی ؒ نے فرمایا ہے کہ ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل اس لئے کہا گیا ہے کہ اس نے حرمت انسانی کو پامال کیا ہےاور ایک انسان کی جان بچانے کو پوری انسانیت کی جان بچانا اس لئے کہا گیا ہےکہ اس نے حرمت انسانی کو محفوظ کیا ہے-یعنی ایک انسان کی تحقیر پوری انسانیت کی تحقیر کے مترادف ہے اور ایک انسان کی توقیر پوری انسانیت کی توقیر کے مترادف ہے-ایک انسان کی غیبت کرنا یا اس کو گالی دینا پوری انسانیت کی غیبت کرنے اور گالی دینے کے مترادف ہے-کیا یہ ہمارے ایمان کی دلیل ہے یا ہمارے ایمان سے خارج ہونے کی دلیل ہے؟اس لئے یہ وہ امور ہیں جن پر قرآن اور آقا پاک (ﷺ) نے بے شمار مقامات پر ہمیں یہ حکم فرمایا ہے کہ ہمیشہ  درست قول ادا کیا کرویعنی تمہاری زبان سے جب الفاظ نکلیں تو یہ نظر آنا چاہیے کہ یہ اہل ایمان کی زبان ہے-کیونکہ آقا پاک (ﷺ) کی حدیثِ مبارکہ ہے کہ تمہارا دل کٹوی ہے اور تمہاری زبان اس کٹوی کا ڈھکن ہے کٹوی کے اندر کیا پک رہا ہے کسی کو معلوم نہیں لیکن جب کٹوی کا ڈھکن اٹھتا ہےتو اس کی خوشبو سے سب جان لیتے ہیں کہ اس کٹوی میں کیا پک رہاہے-

گلستان کے ابتدائی اسباق میں ہمیں شیخ سعدیؒ کا یہ فرمان اکثر یاد آتا ہےکہ:

تا مرد سخن نہ گفتہ باشد

عیب و ہنرش نہفتہ باشد

’’جب تک ایک آدمی اپنی زبان سے بولتا نہیں اس کا ہنر بھی چھپا رہتا ہے اور اس کا عیب بھی چھپا رہتا ہےتو وہ جیسےہی کلام کرتا ہے تو اس کا ہنر بھی سامنے آجاتا ہے اور اس کا کلام بھی سامنے آجاتا ہے‘‘-

آج کا یہ پیغام مکمل طور پر قرآن مجید و حدیث مبارکہ ہی کا پیغام ہے کہ ہمیں اپنی زبان کو اپنے قابو و اختیار میں رکھ کر خدا کے حکم کے مطابق ’’قولا سدیدا‘‘کے مطابق رکھنی چاہیے-بطور امتِ محمدیہ (ﷺ)  ہمیں یہ نسبت دیکھنی چاہیے کہ:

اس کا دیوانہ ہوں اس کا مجذوب ہوں

کیا یہ کم ہے کہ مَیں اس سے منسوب ہوں

یعنی جس ذات گرامی سے ہم منسوب ہیں تو ان کے اخلاقِ عالیہ کی جھلک ہم میں ہونی چاہیے-اصلاحی جماعت یہی پیغام لے کر قریہ قریہ، کوچہ کوچہ، شہر شہر اور نگر نگر یہ پیغام لے کر جارہی ہے کہ آئیں اپنے اخلاق اور  اپنے ملی ولولہ و غیرت کا احیا کریں کہ ہمارے اخلاق،اخلاقِ نبوی(ﷺ) سے روشن و منور ہونے چاہیں-اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین کے مبلغین اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کا یہ پیغام لے کر آپ کی طرف آتے ہیں کہ:

’’فَفِرُّوْٓا اِلَی ﷲ ‘‘[6]     

     ’’پس دوڑو اللہ کی طرف‘‘-

اس لئے میری آپ تمام،خاص کر نوجوان ساتھیوں اور دیگر تمام احباب گرامی کو یہ دعوت ہوگی کہ آپ اس جماعت کے شانہ بشانہ اس جماعت کے پیغام کو ساتھ لے کر چلیں اور جتنا وقت آپ اپنے ظاہر و باطن کی اصلاح کیلئے نکال سکتے ہیں اپنا وقت نکالیے اور اصلاحی جماعت کے مبلغین کے ساتھ اس دعوتِ فکر و دعوتِ اصلاح کے لئے اپنا کچھ وقت بیتائیں-اللہ تعالیٰ آپ کے تمام ظاہری افعال و اعمال کی بھی اصلاح فرمائے گا اور ہمارے باطن کی اصلاح کی بھی توفیق عطا فرمائے گا کیونکہ انسان نے اس دنیامیں جو کچھ کمانا ہےوہ اسے برزخ میں بھی اور آخرت میں بھی عطا کیا جائے گا-اللہ پاک ہم سب کا حامی و ناصر ہو-----!

٭٭٭


[1](بانگِ درا)

[2](العنکبوت:69)

[3](الحجرات:11)

[4](الحجرات:12)

[5](سنن ابن ماجہ، کتاب الفتن)

[6](الذاریات:50)

امام احمد بن حنبل (﷫) نے ’’المسند‘‘ میں اورامام بیہقی (﷫)  نے ’’شعب الایمان میں‘‘حدیث پاک بیان فرمائی ہے:

حضرت ابوذر غِفاری(﷜)فرماتے ہیں کہ  رسول اللہ () نے فرمایاکہ :

’’ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ أَخْلَصَ اللہُ قَلْبَهُ لِلْإِيْمَانِ، وَ جَعَلَ قَلْبَهُ سَلِيْماً وَ لِسَانَهُ صَادِقاً وَ نَفْسَهُ مُطْمَئِنَّةً وَ خَلِيْقَتَهُ مُسْتَقِيْمَةً وَجَعَلَ أُذُنَهُ مُسْتَمِعَةً وَ عَيْنَهُ نَاظِرَةً فَأَمَّا الْأُذُنُ فَقَمِعٌ وَ اَمَّا الْعَيْنُ فَمَقِرَةٌ لِمَا يُوْعِى الْقَلْبُ وَ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ جَعَلَ قَلْبَهُ وَاعِياً‘‘

’’کامیاب ہو گیا وہ جس نے اپنے دل کو ایمان کے لئے اللہ سے خالص کیا ہےاور اپنے دل کو سلامت رکھا اور اپنی زبان کو سچا، اپنے دل کو مطمئن اور اپنی طبیعت کو سیدھا رکھااور اپنے کان کو سننے والا،اپنی آنکھ کو دیکھنے والا بنایالیکن کان تو وہ چَین کی خبر ہے اور لیکن آنکھ تو  وہ اس  چیز کو قائم کرنے والی بنے جسے دل کی حفاظت کرتا ہے، کامیاب ہوگیا-وہ جس نےاپنے دل کو حفاظت کرنے والا بنایا‘‘-

یہ وہ تفکر ہےجس کے ذریعے سےاللہ تعالیٰ انسان کے اعمال کو خالص بناتا ہے اور اگر آدمی اس عمل سے غفلت برتا ہے تو وہ فقط اپنی عمر کو ضائع کرتا ہے اس کےحصے میں کچھ نہیں آتا-مثلا ابو المعانی میرزا عبد القادر بیدل انسان کو مخاطب کر کے اسی تفکر کی جانب رغبت دلاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اگر تو اپنی زندگی میں غور کر اپنی ہستی اور اپنے ہونے پر غور کر کہ تو اس دنیا میں کیسے موجود ہےتو وہ فرماتے ہیں کہ تیرا ہونا اس دنیا میں ایسے ہےکہ جیسے ایک انسان کی پلکوں پر ایک آنسو کھڑا ہوتا ہے اس دنیا میں تو بالکل اسی طرح کھڑا ہے اور کسی بھی لمحے کسی بھی وقت وہ آنسو آنکھ سے ٹپکے گا اور اس زمین کی خاک کے اندر غائب اور گم ہوجائے گا-

’’اے کہ بر مژگاں چوں اشک ایستادہٖ ہوشیار باش‘‘

’’اے وہ شخص جو اپنی مژگان اپنی پلکوں پر ایک آنسو کی طرح کھڑا ہےتو غور کر ہوشیار ہوجا کہ توکسی بھی لمحےتیری زندگی کا وہ آنسو اس زمین پر گر جائے گااور اس زمین کے اندر دفن ہوکر رہ جائے گا‘‘-

میاں محمد بخش(﷫) فرماتے ہیں کہ:

لاکھ ہزار تیرے تھیں سوہنے خاک اندر ونج سُتّے

یہ دنیا فانی اور عارضی ہے اور اللہ تعالیٰ نے جو نعمتیں عطا فرمائی ہیں  ان نعمتوں کا احساس اپنے وجود کے اندر پیدا کرو اور آقا پاک (ﷺ) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں جو بھی نعمتیں عطا فرمائی ہیں تم یہ مت سمجھو کہ تمہیں اس کے بارےمیں پوچھا نہیں جائے گا-

آقا پاک (ﷺ) کی حدیث پاک ہے جسے امام ترمذی (﷫) نے’’سنن الترمذی‘‘، امام دارمی(﷫) نے، ’’سنن دارمی‘‘، امام ابو یعلیٰ موصلی (﷫)نے ’’مسند ابی یعلی‘‘، امام ابن ابی شیبہ(﷫) نے ’’مصنف ابن ابی شیبہ‘‘ میں، امام بیہقی(﷫) نے’’شعب  الایمان‘‘  اور امام طبری (﷫) نے ’’المعجم الکبیر‘‘میں اس حدیث پاک کو نقل کیا ہے کہ حضرت عبد اللہ ابن مسعود (﷜)  سےروایت ہے کہ نبی کریم () نے فرمایا:

’’قَالَ لَا تَزُوْلُ قَدَمَا ابْنِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ عِنْدِ رَبِّهِ حَتَّى يُسْأَلَ عَنْ خَمْسٍ: عَنْ عُمْرِهِ فِيْمَا أَفْنَاهُ وَ عَنْ شَبَابِهِ فِيْمَا أَبْلاَهُ وَ عَنْ شَبَابِهِ فِيْمَا أَبْلاَهٗ وَ عَنْ شَبَابِهِ فِيْمَا أَبْلاَهُ  وَ فِيْمَ أَنْفَقَهُ  وَ مَاذَا عَمِلَ فِيْمَا عَلِمَ ‘‘

’’انسان قیامت کے دن اس وقت تک اپنے رب کے پاس کھڑا رہے  گا جب تک اس سے پانچ باتوں کے بارے میں سوال نہ کیا جائے:اس کی عمر کے بارے میں پوچھا جائے گا اس نے اپنی زندگی کس کام میں گزاری ؟ اس کی جوانی  کے بارے میں پوچھا جائے گا کہ اپنی جوانی کوکہاں  گنوایا ؟ اس کے مال کے بارے میں پوچھا جائے گا کہ مال کہاں سے کمایا؟ اور اس سے  یہ بھی پوچھا جائے گاکہ ما  ل کہاں خرچ کیا؟ اور اس سے  یہ بھی پوچھا جائے گاکہ  اپنے علم کے مطابق کیا عمل کیا‘‘-

آج قرآن مجید اور سنتِ مبارکہ ہمارے سامنے واضح و منکشف ہے- اس لئے جب تک آدمی کسی بات سے لا علم و بے خبر ہو تو اس کو اس کے بے خبر ہونے کے سبب اس کو رعائیت مل سکتی ہے لیکن جب قرآن و سنت کی روشنی میں پیغام پہنچا دیا جائے اس کے بعد بھی آدمی غفلت و کوتاہی برتتا ہے تو  آدمی اس علم سے وہ فیض کو حاصل نہیں کر پاتا جو کہ اللہ تعالیٰ اور حضور پاک (ﷺ)اس کو عطا فرمانا چاہتے ہیں-پھر آدمی کا کوئی عذر و بہانہ بھی اس کی بارگاہ میں قبول نہیں ہوتا اگر وہ اپنے کسی بندے کو تخفیف دینے پر آئے تو وہ قادر مطلق ہےاس کی رحمت و بخشش میں کوئی حائل نہیں ہوسکتا-بقول اقبال (﷫)!

کوئی یہ پوچھے کہ واعظ کا کیا بگڑتا ہے
جو بے عمل پہ بھی رحمت وہ بے نیاز کرے[1]

وہ بے نیاز ہے جس کو چاہے بخش دے یا  جس کو چاہے اپنی رحمت کی آغوش میں لے لے، لیکن کتاب و سنت میں سیکھنے اور سکھانے کے لئے جو اصول بیان کیا ہےاس اصول کی روشنی میں آدمی کو یہ معلوم ہوتا ہےکہ جو چیز بتادی جائے اس کو جانتے ہوئے بھی اپنے وجود میں چھپائے رکھتا ہے تو یہ اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی ناراضگی کا سبب بن جاتا ہے-مَیں یہ سمجھتا ہوں کہ ہمارےیہی وہ اعمال ہیں جنہوں نے آج ہمیں اس سطح پر لا کر کھڑا کیا ہےکہ ہمارے اپنے بھی اور ہمارے بیگانے بھی پرسانِ حال نہیں ہیں، ہمارے دشمن ہمارے دوست نما جلووں میں روپ دکھاتے ہیں اور ہمارے دوستوں کے اعمال بھی ایسے ہیں جن سے دشمنی کا شائبہ جھلکتا ہے-اس لئے  ہم ایک ایسی قوم کی طرح ہوتے چلے جارہے ہیں جس کا کوئی پرسانِ حال، والی وارث نہ ہو جس کا حق،جس کا کام فقط و فقط اللہ کی گرفت و ناراضگی کا سامنا کرنا رہ جائے،جیسے وہ کہتا ہے کہ پھر میرے امر یعنی عذاب کا انتظار کرو-

وہ ذات بے نیاز ہےوہ کسی کے قبیلہ اور نام و نسب کو نہیں دیکھتا، وہ کسی کے وقار،  کسی کے علم و دولت اور جاہ و جلا ل کو نہیں دیکھتا وہ تو یہ فرماتا ہے کہ میں تجھ سے صرف اتنا مانگتا ہوں جو مَیں نے تمہاری طرف اپنے پیارے محبوب (ﷺ) کے ذریعے بھیجا تھا کیا تم نے اس کو نافذ جان کیا ہےیا اس کو نافذ جان نہیں کیا-مَیں تو صرف یہ تم سے دیکھنا چاہتا ہوں کہ میں نے تمہیں جو پیغام دیا تھاجس سے تمہاری زندگی میں سہولت و استحکام پیدا ہو جائے، اندھیرے ختم ہو جائیں اور تمہاری زندگی میں  برزخ و آخرت کی جنت سے بھی قبل تمہیں مَیں جنت کی رونقیں، فرحتیں اور راحتیں عطا فرمادوں-کیا تم نے میرے اس فرمان اور میری اور میرے محبوب پاک (ﷺ) کی اطاعت کے ذریعے اپنے وجود میں اس انقلاب و تبدیلی،فرحت و رعنائی کو پیدا کیا ہے؟

 میرے نوجوان ساتھیو! یہ زندگی ہماری پلکوں پر آنسوؤں کی طرح کھڑی ہے جو کسی بھی لمحے نیچے گر جائے گی-اس لئے ہمیں اللہ کی بارگاہ میں یہ عہد و عزم کرنا چاہیے کہ میرے مولا! تیری رحمت، توفیق اور تیرا کرم و عطا میرے شامل حال رہےکیونکہ پہلے مَیں اس پیغام  و تلقین سے غافل تھا اب یہ پیغام مجھ تک پہنچ گیا ہےاس لئے اب میرا قول قولِ صدق و قولِ سدید ہوگا-میرا قول اس طرح کا قول ہوگا کہ لوگ مجھے دیکھیں گے کہ میری اس زبان سے تیری رحمت و فیض کے چشمے پھوٹےگیں کہ  میرے کلام سے لوگوں کو محمدِ مصطفےٰ (ﷺ)، صحابہ کرام (﷢)،اہل بیت اطہار ، اولیاء ِکاملین، صوفیاء اور صالحین کے کلام کی خوشبو آئے گی -

مَیں آپ سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ  ایک آدمی کے لئے کسی کام کا کرنا مشکل نہیں ہوتا بلکہ اس کا عزم و پیمان باندھنا مشکل ہوتا ہے- جب آدمی ایک کارِخیر کا عہد و عزم باندھ لیتا ہےتو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اپنے بندے کو اس عہد کا عزم کرتے ہوئےدیکھ کر خوش ہوتا ہوں اور اس بندے کے اس عمل پر اسی وقت میں پہلا انعام یہ فرماتا ہوں کہ:

’’وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا‘‘[2]

’’اور جو لوگ ہمارے حق میں جہاد (اور مجاہدہ) کرتے ہیں تو ہم یقینا انہیں اپنی  راہیں دکھا دیتے ہیں‘‘-

انسان اپنی انفرادی زندگی  و عمل میں اپنے قول سدید کے لئے اللہ پاک کی بارگاہ میں جواب دہ ہے-قول سدید سے اجتناب کرنے کا جو منفی اثر انسان کی شخصیت، انسان کے سماجی و معاشرتی زندگی اور خود انسان کی آخرت پر جو مرتب ہوتا ہےاس کےبارے میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ عَسَى أَنْ يَكُوْنُوْا خَيْرًا مِنْهُمْ وَلَا نِسَاءٌ مِنْ نِسَاءٍ عَسَى أَنْ يَكُنَّ خَيْرًا مِنْهُنَّ وَلَا تَلْمِزُوْا أَنْفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْأَلْقَابِ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْإِيْمَانِ وَمَنْ لَمْ يَتُبْ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُوْنَ‘‘[3]

’’اے ایمان والو! کوئی قوم کسی قوم کا مذاق نہ اڑائے ممکن ہے وہ لوگ اُن (تمسخُر کرنے والوں) سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں ہی دوسری عورتوں کا (مذاق اڑائیں) ممکن ہے وہی عورتیں اُن (مذاق اڑانے والی عورتوں) سے بہتر ہوں اور نہ آپس میں طعنہ زنی اور الزام تراشی کیا کرو اور نہ ایک دوسرے کے برے نام رکھا کرو، کسی کے ایمان (لانے) کے بعد اسے فاسق و بد کردار کہنا بہت ہی برا نام ہے اور جس نے توبہ نہیں کی سو وہی لوگ ظالم ہیں‘‘-

یہاں میں وضاحت کردوں کہ دو چیزیں ہوتی ہیں ایک تبسم ہوتا ہے اور ایک تمسخر ہوتا ہے-تبسم اور تمسخر میں فرق ہے-آپ کسی کے چہرے پر مسکراہٹ اور دل جوئی کرنے کے لئے،اپنے دوست احباب کی مجلس میں مسکراہٹوں اور قہقہوں کو بکھیرنے کے لئے،کوئی ایک ایسی بات کَہ سکتے ہیں جس سے چہروں پر تبسم اور مسکراہٹ پھیل جائے لیکن قرآن کریم یہ حد مقرر فرماتا ہےکہ تمہارے اس تبسم خیزی میں تمسخر نہیں ہونا چاہیے- کسی کی توہین اور تذلیل نہیں ہونی چاہیے بلکہ اس کو تم ایک احسن انداز میں بیان کرو،جسے ہم مذاق کہتے ہیں-آپ جانتے ہیں کہ یہ لفظ مذاق اور لفظ لطیفہ کہاں سے نکلا ہے؟ مذاق ذوق سے نکلا ہے، مذاق کا مطلب بیہودگی نہیں ہے-مذاق کا مطلب ایسی بات ہے جو آپ کےذوق کو تسکین بخشے- اور لطیفہ لطیف سے نکلا ہے جس سے مراد باریک اور نفیس چیز ہے، جس میں لطافت، لطف، اور باریکی آئے، ایسی نفیس بات کو لطیفہ کہتے ہیں- لطیفہ کا مطلب بھی بیہودگی نہیں ہوتا-کسی بیہودگی کو لطیفہ کہنا یہ خود لفظِ لطیفہ کی توہین ہے کیونکہ یہ ایک لطیف چیز سے نکلی ہوئی چیز ہے-اسی طرح مزاق میں گالی دینا یا کسی کی تحقیر کرنا نہیں ہوتا-کیاکسی کی تحقیرو توہین سے آپ کے ذوق کو تسکین ملے گی؟ ذوق کا مطلب ہوتا ہے کہ وہ چیز آپ کو مزید تسکین و تقویت پہنچائے-اس لئے فرمایا گیا ہےکہ تم  کسی کا بھی مذاق نہ اڑاؤعین ممکن ہے کہ تم جن کا مذاق اڑا رہے ہو وہ تم سے بہتر ہوں اور پھر عورتوں کے لئے بھی یہی فرمایا کہ کسی کا مذاق نہ اڑائیں ہو سکتا ہے کہ جس کا مذاق اڑایا جا رہا ہو وہ اڑانے والیوں سے بہتر ہوں-

اسی طرح مزید اللہ تعالیٰ نےارشاد فرمایا:

’’يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا اِجْتَنِبُوْا كَثِيْرًا مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ وَلَا تَجَسَّسُوْا وَلَا يَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضًا أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيْهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوْهُ وَاتَّقُوْا اللہَ إِنَّ اللہَ  تَوَّابٌ رَحِيْمٌ‘‘[4]

’’ا ے ایمان والو! زیادہ تر گمانوں سے بچا کرو بے شک بعض گمان (ایسے) گناہ ہوتے ہیں (جن پر اُخروی سزا واجب ہوتی ہے) اور (کسی کے عیبوں اور رازوں کی) جستجو نہ کیا کرو اور نہ پیٹھ پیچھے ایک دوسرے کی برائی کیا کرو، کیا تم میں سے کوئی شخص پسند کرے گا کہ وہ اپنے مُردہ بھائی کا گوشت کھائے، سو تم اس سے نفرت کرتے ہو اور (اِن تمام معاملات میں) اﷲ سے ڈرو بے شک اﷲ توبہ کو بہت قبول فرمانے والا بہت رحم فرمانے والا ہے‘‘-

سورۃ الحجرات کی ان دو آیات میں اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو چھ (6)باتوں کا حکم فرمایاہے اور ان چھ (6)باتوں کا تعلق براہ راست انسانی معاشرے سے ہے-مثلاً:

1.       لَا يَسْخَرْ                 

’’تمسخر ،استہزاء  اور کسی کو حقیر جاننے سے منع فرمایاہے‘‘-

2.       وَلَا تَلْمِزُوا          

’’عیب لگانے سے منع فرمایاہے‘‘-

3.       وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ               

’’برے القابات سے کسی کو بلانے سے منع فرمایا ہے ‘‘-

4.       اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِنَ الظَّنِّ        

’’بکثرت بدگمانیوں سے بچنے کا حکم دیا گیاہے ‘‘-

5.       وَلَا تَجَسَّسُوا            

’’جاسوسی کرنے سے منع کیا گیاہے‘‘-

6.       وَلَا يَغْتَب

’’غیبت کرنے سے منع کیا گیا ہے‘‘-

اگر ان میں سے تمام باتوں پر عمل نہ کیاجائے تو انسانی معاشرے کی عمارت قائم نہیں رہ سکتی -

امام ابن کثیر(﷫) نے ’’تفسیر ابن کثیر‘‘، امام بیہقی (﷫)نے ’’شعب الایمان‘‘، امام سیوطی (﷫) نے ’’‘تفسیر درِ منثور‘‘ ، امام محمود آلوسی (﷫) نے ’’تفسیر روح المعانی‘‘ اور دیگر آئمہ کرام نے اپنی اپنی تفاسیر میں حضرت عمر فاروق (﷜) کا قول مبارک نقل کرتے ہیں کہ:

’’لَا تَظُنُّنَّ بِكَلِمَةٍخَرَجَتْ مِنْ أَخِيْكَ الْمُؤْمِنِ إِلَّاخَيْرًا وَ أَنْتَ تَجِدُ لَهَا فِي الْخَيْرِ مَحْمَلًا ‘‘

’’تیرے مسلمان بھائی کے منہ سے جو کلمہ نکلا ہے اسے اچھا ہی گمان کر تواس کیلئے اچھی ہی تاویل پالے گا‘‘-

یعنی تمہیں کوئی بھائی بھی کوئی بات کرے تو پہلا گمان اس کے بارے میں احسن رکھا کرو کہ اس نے صحیح بات کی ہوگی-جس کو ہم پازیٹو اپروچ کہتے ہیں کہ کسی بھی بات کاپہلا امپریشن آپ پر مثبت آنا چاہیے بے شک وہ کتنی سخت اور کڑوی بات ہی کیوں نہ ہو-آپ اسے بدگمانی اور غصے میں نہ لے جائیں-لیکن اگر آپ کے سامنے کوئی آدمی بیت اللہ کی عیب تراشی یا تذلیل کرے آپ کا پہلا امپریشن اس آدمی کے متعلق کیا ہوگا؟کیا آپ کی غیرت ایمانی اس چیز کو قبول یا برداشت کرے گی؟ اگر کوئی کعبہ شریف کا تمسخر اڑائے تو انسان کا ضمیر اور ایمان اس چیز کو کبھی گوارہ نہیں کرتا-

امام ابن ماجہ(﷫) نے’’سنن ابن ماجہ، کتاب الفتن‘‘میں سیدنا حضرت عبداللہ ابن عمر (﷜) سے روایت کی ہے وہ فرماتے ہیں کہ:

’’قَالَ رَأَيْتُ رَسُوْلَ اللہِ() يَطُوْفُ بِالْكَعْبَةِ وَيَقُوْلُ  مَا أَطْيَبَكِ، وَأَطْيَبَ رِيحَكِ مَا أَعْظَمَكِ وَأَعْظَمَ حُرْمَتَكِ وَالَّذِىْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَحُرْمَةُ الْمُؤْمِنِ أَعْظَمُ عِنْدَ اللہِ حُرْمَةً  مِنْكِ مَالِهٖ وَدَمِهِ وَأَنْ نَظُنَّ بِهِ إِلاَّ خَيْرًا‘‘[5]

’’میں نے حضور نبی کریم () کو دیکھا کہ حضورنبی کریم () دوران ِطواف کعبہ کو مخاطب ہوکر ارشاد فرما رہے تھے کہ تو کتنا اچھا ہے اور تیری خوشبو کتنی عمدہ ہے تو کتنا عظیم ہے اور تیری حرمت کنتی عظیم ہےاور اس ذات(اللہ) کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں محمد () کی جان ہے-اللہ کے نزدیک مومن کی جان و مال کی حرمت تجھ سے زیادہ ہےاور نہ گمان کیا جائے اس کے بارے مگر اچھا‘‘-

جب کوئی بیت اللہ شریف کی تحقیر کرتا ہے ہمارا ایمان اس کو برداشت نہیں کرسکتا تو جس کا دل اللہ کی محبت کا مرکز بن جائے،جو شخص اللہ تعالیٰ کی توحید اور حضور رسالت مآب (ﷺ)کی نبوت کا کلمہ پڑھتا ہے،ہم اس کی تحقیر کیسے برداشت کرسکتے ہیں؟ہمیں اپنے ایمان کی اصلاح کرنی چاہیے ایمان کو اس درجے کے اوپر لے کر جانا چاہیے جہاں آقا پاک (ﷺ) نے انسانیت کا شرف قائم کیا ہے-

امام قرطبی (﷫) نے فرمایا ہے کہ ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل اس لئے کہا گیا ہے کہ اس نے حرمت انسانی کو پامال کیا ہےاور ایک انسان کی جان بچانے کو پوری انسانیت کی جان بچانا اس لئے کہا گیا ہےکہ اس نے حرمت انسانی کو محفوظ کیا ہے-یعنی ایک انسان کی تحقیر پوری انسانیت کی تحقیر کے مترادف ہے اور ایک انسان کی توقیر پوری انسانیت کی توقیر کے مترادف ہے-ایک انسان کی غیبت کرنا یا اس کو گالی دینا پوری انسانیت کی غیبت کرنے اور گالی دینے کے مترادف ہے-کیا یہ ہمارے ایمان کی دلیل ہے یا ہمارے ایمان سے خارج ہونے کی دلیل ہے؟اس لئے یہ وہ امور ہیں جن پر قرآن اور آقا پاک (ﷺ) نے بے شمار مقامات پر ہمیں یہ حکم فرمایا ہے کہ ہمیشہ  درست قول ادا کیا کرویعنی تمہاری زبان سے جب الفاظ نکلیں تو یہ نظر آنا چاہیے کہ یہ اہل ایمان کی زبان ہے-کیونکہ آقا پاک (ﷺ) کی حدیثِ مبارکہ ہے کہ تمہارا دل کٹوی ہے اور تمہاری زبان اس کٹوی کا ڈھکن ہے کٹوی کے اندر کیا پک رہا ہے کسی کو معلوم نہیں لیکن جب کٹوی کا ڈھکن اٹھتا ہےتو اس کی خوشبو سے سب جان لیتے ہیں کہ اس کٹوی میں کیا پک رہاہے-

گلستان کے ابتدائی اسباق میں ہمیں شیخ سعدی(﷫)کا یہ فرمان اکثر یاد آتا ہےکہ:

تا مرد سخن نہ گفتہ باشد

عیب و ہنرش نہفتہ باشد

’’جب تک ایک آدمی اپنی زبان سے بولتا نہیں اس کا ہنر بھی چھپا رہتا ہے اور اس کا عیب بھی چھپا رہتا ہےتو وہ جیسےہی کلام کرتا ہے تو اس کا ہنر بھی سامنے آجاتا ہے اور اس کا کلام بھی سامنے آجاتا ہے‘‘-

آج کا یہ پیغام مکمل طور پر قرآن مجید و حدیث مبارکہ ہی کا پیغام ہے کہ ہمیں اپنی زبان کو اپنے قابو و اختیار میں رکھ کر خدا کے حکم کے مطابق ’’قولا سدیدا‘‘کے مطابق رکھنی چاہیے-بطور امتِ محمدیہ (ﷺ)  ہمیں یہ نسبت دیکھنی چاہیے کہ: