غیبت سے بچنے کیلئے سورہ الحجرات سے ایک اخلاقی سبق

غیبت سے بچنے کیلئے سورہ الحجرات سے ایک اخلاقی سبق

غیبت سے بچنے کیلئے سورہ الحجرات سے ایک اخلاقی سبق

مصنف: صاحبزادہ سلطان احمد علی مئی 2023

علم کے ذرائع میں ایک اہم ترین ذریعہ وحی الٰہی ہے - اللہ تعالیٰ نے جتنے بھی انبیاء (ع) مبعوث فرمائے ان پر کوئی نہ کوئی صحیفہ یا کتاب نازل کی یا اپنے کچھ احکام فرمائے اور ان کو وحی کا شرف عطا کیا- وحی کے ذریعے ہی اللہ تعالیٰ نے اپنی منشا اور رضا کو مخلوق پر واضح فرمایا- دینِ اسلام میں ہر مسلمان کا یہ بنیادی عقیدہ ہے کہ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ تمام الہامی کتب اور مصحف کی آخری کڑی تھی اور ہے- اس کے بعد بطور شرعی حجت نہ کوئی وحی آئی ہے اور نہ آسکتی ہے- کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب قرآن مجید کو خاتم النبیین حضرت محمد مصطفےٰ(ﷺ) پرنازل فرمایا-

جس طرح قرآن مجید کا ایک ایک حرف وحی الٰہی ہے اسی طرح صاحب کتاب خاتم النبیین حضرت محمد مصطفےٰ (ﷺ) کی سنت مبارکہ کا ایک ایک جز اور احادیث مبارکہ کا ایک ایک لفظ بھی وحی ہے- ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ قرآن مجید وحی متلو ہے اور حدیث مبارکہ وحی غیر متلو ہے-اس لئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

’’وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰی؁ اِنْ ہُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی ‘‘[1]

’’اور وہ کوئی بات اپنی خواہش سے نہیں کرتے-وہ تو نہیں مگر وحی جو انہیں کی جاتی ہے‘‘-

لہٰذا قرآن مجید کی طرح حدیث مبارکہ بھی انسان کے لئے باعثِ فیض اور رشد و ہدایت ہے-گویا رشد و ہدایت کی بنیاد یہ دو ذرائع ’’قرآن کریم‘‘ اور ’’حدیث مبارکہ‘‘ ہیں-اس لئے جو کتاب وسنت کے متصادم و متضاد ذرائع ہوں گے ان سے ہدایت حاصل نہیں کی جا سکتی-

خلفاء راشدین، صحابہ کرام، آئمہ اہل بیت، تابعین، تبع تابعین (﷢)، آئمہ فقہ، آئمہ تفسیر و حدیث ،آئمہ اجتہاد، صالحین، عابدین، زاہدین، اور یہ جتنے بھی طبقات ہیں ان تمام کی دعوت کا منہج برحق ہونے کی دلیل کتاب وسنت کی تائید اور اطاعت ہے-

وہ قوم کبھی گمراہ نہیں ہو سکتی جن کے دامن کی گانٹھ اللہ تعالیٰ کی کتاب ’’قرآن مجید‘‘اور رسول کریم (ﷺ) کی سنت اور شریعت سے جڑی ہوئی ہو-اس لئے مسلمان کا عملی رشتہ کتاب خداوندی اور سنت رسول اللہ (ﷺ) کے ساتھ مضبوط ہونا چاہیئے- کیونکہ اگر مسلمان اللہ تعالیٰ کی کتاب اور رسول کریم(ﷺ)کی سنت اور شریعت سےدورہو جائے تو اس کے وجود سے ایمان کی روشنی زائل ہو جاتی ہے-

قرآن مجید کو سمجھ کر پڑھنا اور اس کے احکامات و ارشادات پر عمل کرنا مسلمان پر لازم ہے - قرآن مجید اور آج کے مسلمان کے باہمی تعلق کو اگر اقبالیاتی تناظر میں دیکھیں تو حضرت علامہ اقبال کی تنقید بالکل بجا ہے کہ مسلمانوں نے عملاً قرآن مجید کو ترک کر رکھا ہے اور اس سے زیادہ کوئی تعلق نہیں رہ گیا کہ نزع میں گرفتار ہمارے مریضوں کی روح بآسانی پرواز کر جائے - گو کہ اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ قرآن مجید میں ظاہری و باطنی شفا ہے -

مگر ضرورت تو یہ ہے کہ روحانی علاج اور حصولِ اجر و ثواب کی نیّت کے ساتھ ساتھ عمل ، کردار اور جد و جہد کو بھی قرآنی معیار پہ ڈھالا جائے - یہ قرآن مجید کا اعجاز ہےکہ قرآن مجید کو کسی بھی ترتیب سے یا کسی خاص مقام سے پڑھا جائے تو انسان کے دل میں قرآن مجید کا فیض منکشف ہو جاتا ہے- آپ قرآن مجید کو کہیں سے بھی پڑھنا شروع کر دیں قرآن آپ کو اپنے ساتھ involve کر دیتا ہے وہ چاہے آیات محکم ہو یا آیات متشابہ، بیان کبریائی تعالیٰ یا بیان عظمتِ مصطفےٰؐ ہو، احکام ہوں یا تلقین، بشارت ہو یا وعید- مزید قرآن مجید میں کچھ سورتیں ایسی ہیں جن کی جامعیت سے انسان ششدر رہ جاتاہے- مثلاً سورۃ العصر کے متعلق امام شافعی، ابن کثیر اور دیگر کئی مفسرین کرام نےنقل کیا ہے کہ اگر قرآن مجید میں فقط سورۃ العصر ہی نازل ہوئی ہوتی تو وہی انسان کی رشد و ہدایت کے لئے کافی ہوتی!!!

اصلاحی جماعت کے زیر اہتمام ہونے والے اجتماعات کا بنیادی مقصد ہی اصلاح اور ایسی کردار سازی ہے جس کی طرف قرآن مجید نے ہمیں دعوت دی ہے -اصلاح میں سب سے پہلے انسان اپنے نفس کی اصلاح کرتا ہےاور خود کو اس ترازو میں رکھ کر تولتا ہے تو پھر ہی وہ اس لائق ہو سکتا ہے کہ کسی نئے جہان کی تشکیل کر سکے اور دنیا کے چل چلاؤ کی زد میں آنے کی بجائے دنیا کو قرآنی معیار پہ ڈھالے - جس کےمتعلق علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ:

بر عیارِ مصطفےٰؐ خود را زند
تا جہانے دیگری پیدا کند

’’وہ مصطفےٰ کریم(ﷺ)کے معیار پر خود کو پرکھتا ہے اور اس طرح ایک نیا جہان وجود میں لاتا ہے‘‘-

اگر ایک مسلمان کا رشتہ اور تعلق سورة الحجرات سے قائم ہو جائےتو اس کا وجود سماج، خاندان، اہل علاقہ اور برادری کے لئے سراپا رحمت بن جاتا ہے- اللہ تعالیٰ سورة الحجرات میں مومنین کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے:

’’ یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا یَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰٓی اَنْ یَّکُوْنُوْا خَیْرًا مِّنْہُمْ وَلَا نِسَآءٌ مِّنْ نِّسَآءٍ عَسٰٓی اَنْ یَّکُنَّ خَیْرًا مِّنْہُنَّ ج وَلَا تَلْمِزُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ ط بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِیْمَانِ ۚ وَمَنْ لَّمْ یَتُبْ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ‘‘[2]

’’اے ایمان والو نہ مرد مَردوں سے ہنسیں،عجب نہیں کہ وہ ان ہنسنے والوں سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں سے دور نہیں کہ وہ ان ہنسے والیوں سے بہتر ہوں اور آپس میں طعنہ نہ کرو اور ایک دوسرے کے بُرے نام نہ رکھو -کیا ہی بُرا نام ہے مسلمان ہوکر فاسق کہلانا اور جو توبہ نہ کریں تو وہی ظالم ہیں‘‘-

کتنا واضح حکم ہے کہ ایک دوسرے کو برے القاب سے نہ پکارا جائے بلکہ جس کا جو نام ہے اس کو احسن طریق سے پکارا جائے-صد افسوس! کہ ہمارے ہاں یہ المیہ پیدا ہو گیا ہے کہ ہم ایک دوسرے کو بگڑے ہوئےنام سے مخاطب کرتے ہیں- حالانکہ ہر نام کی اپنی برکت ہوتی ہے اور نام رکھا ہی اس لئے جاتا ہے کہ جو نام جس شخصیت سے متاثر ہو کر رکھا جائے اللہ تعالیٰ اس شخصیت کے اوصاف و کمالات اس بندے میں پیدا فرمائے-کیونکہ اگر کوئی شخص کسی کا نام بگاڑ کر پکارتا ہے تو اسے یہ معلوم ہونا چاہیے کہ وہ اس نام سے جڑی کس نسبت اور ہستی کی توہین کر رہا ہے-اس لئے جس نے اس قبیح فعل سے توبہ نہ کی تو از روئے قرآن وہ ظالموں میں شمار کیا جائے گا- گویا یہ وہ معاشرت کا ادب اورحسن ہے جو اللہ تعالیٰ خود اپنی پاک کتاب ’قرآن مجید‘میں ارشاد فرماتا ہے-

سورۃ الجرات کی اس سے اگلی آیت کے الفاظ پڑھ کر انسان کا دل کانپ اٹھتا ہے، کلیجہ منہ کو آتا ہے، کہ ہمارے وہ جرائم اور گناہ جن کو ہم کسی خاطر میں نہیں لاتے اور سمجھتے ہیں کہ یہ تو بس ایک عام سی بات ہے، اس کو گناہ یا جرم تصور ہی نہیں کرتے اور نہ کبھی غور کرتے ہیں کہ ایسا عمل کرنے والے کو قرآن کریم کیا تلقین کرتا ہے اور کس طرح کی تشبیہ دیتا ہے-ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اجْتَنِبُوْا کَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ ز اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّ لَا تَجَسَّسُوْا وَلَا یَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضًا ط اَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنْ یَّاْکُلَ لَحْمَ اَخِیْہِ مَیْتًا فَکَرِہْتُمُوْہُ ط وَاتَّقُوا اللہَ ط اِنَّ اللہَ تَوَّابٌ رَّحِیْمٌ‘‘[3]

’’اے ایمان والو بہت گمانوں سے بچو -بیشک کوئی گمان گناہ ہوجاتا ہے - اور عیب نہ ڈھونڈو اور ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو - کیا تم میں کوئی پسند رکھے گا کہ اپنے مرے بھائی کا گوشت کھائے؟ تو یہ تمہیں گوارا نہ ہوگا-اور اللہ سے ڈرو، بیشک اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے ‘‘-

یعنی قرآن کریم فرماتا ہے کہ زیادہ تر گمانوں سے بچو - گمان سے مراد یہ ہے کہ کسی مومن کے متعلق منفی سوچ ذہن میں نہ لائی جائے-کیونکہ بد قسمتی سے ہمارے سماج میں یہ المیہ پیدا ہو گیا ہے کہ جہاں بھی دو بندے بیٹھ کر آپس میں بات کر رہے ہوں، تو دیکھنے والا تیسرا شخص اکثر یہی گمان کرتا ہے کہ وہ دونوں میرا ہی گلہ کر رہے ہوں گے-اس لئے اللہ تعالیٰ حکم فرماتا ہے کہ بدگمانی اور منفی سوچوں سےبچو- ایک دوسرے کی جاسوسی مت کرو اور ایک دوسرے کی غیبت مت کرو -قرآن مجید تشبیہ دیتا ہے کہ اگر ایک مومن کسی دوسرے مومن کی غیبت کرتا ہے تو وہ یوں ہے جیسے وہ اپنے مردہ بھائی کی میت کا گوشت کھا رہا ہو -

حضرت معاذ بن جبل (رض) فرماتے ہیں کہ مَیں حضورنبی کریم (ﷺ) کی بارگاہِ اقدس میں موجود تھا- پس آپ (ﷺ) کی بارگاہِ اقدس میں کسی شخص کاذکرہوا تو صحابہ کرام (رض) نے عرض کی کہ:

’’مَا اَعْجَزَہٗ! فَقَالَ النَّبِيُّ (ﷺ): اِغْتَبْتُمْ أَخَاكُمْ قَالُوْا:يَا رَسُوْلَ اللّهِ، قُلْنَا مَا فِيْهِ، قَالَ: إِنْ قُلْتُمْ مَا لَيْسَ فِيْهِ فَقَدْ بَهَتُّمُوْهٗ‘‘[4]

’’وہ بڑا عاجز (کمزور) ہے توحضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا: تو نے اپنے بھائی کی غیبت کی-صحابہ کرام (رض) نےعرض کی :یا رسول اللہ (ﷺ) ہم تو وہ کہتے ہیں جو اس میں (عیب) موجود ہے تو آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا: اگرتم نے وہ بات کی جو اس میں موجود نہیں تو تحقیق تم نے اُس پر بہتان لگایا ‘‘-

علامہ راغب الأصفہانى(المتوفى: 502ھ)’’المفردات‘‘ میں غیبت کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :

’’وَالْغِيْبَةُ: أَنْ يَّذْكُرَ الْإِنْسَانُ غَيْرَهٗ بِمَا فِيْهِ مِنْ عَيْبٍ مِّنْ غَيْرِ أَنْ أَحْوَجَ إِلَى ذِكْرِهٖ‘‘

’’اور غیبت یہ ہے کہ انسان بلا ضرورت دوسرے شخص کا وہ عیب بیان کرے جواس میں ہو‘‘-

ابو حامد محمد بن محمد الغزالی (المتوفى:505ھ) ’’احياء علوم الدين‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’اِعْلَمْ أَنَّ حَدَّ الْغِيْبَةِ أَنْ تَذْكُرَ أَخَاكَ بِمَا يَكْرَهُهٗ لَوْ بَلَغَهٗ سَوَائً ذَكَرْتَهٗ بِنَقْصٍ فِيْ بَدَنِهٖ أَوْ نَسَبِهٖ أَوْ فِيْ خُلُقِهٖ أَوْ فِيْ فِعْلِهٖ أَوْ فِيْ قَوْلِهٖ أَوْ فِيْ دِيْنِهٖ أَوْ فِيْ دُنْيَاهُ حَتّٰى فِيْ ثَوْبِهٖ وَدَارِهٖ وَدَابَّتِهٖ‘‘

’’تو جان کہ غیبت کی تعریف یہ ہے کہ تواپنے بھائی کا ذکر اس طرح کرےجب وہ بات اس کوپہنچے تو وہ اس کو ناپسندکرےبرابر ہے جس نقص کا تو نے ذکرکیا ہے وہ اس کے بدن میں ، نسب میں ،ا س کے خُلق میں ،یااس کے فعل میں ،یا اس کے قول میں ،یااس کے دین میں، یااس کی دنیامیں ہو یہاں تک کہ اس کے کپڑوں میں، اس کے گھرمیں یا اس کی سواری میں ہو‘‘-

علامہ ابن اثیر الجزری الشیبانی (المتوفى:606ھ) ’’النہایہ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ:

«اَلْغِيْبَةُ» وَهُوَ أَنْ يُّذكَرَ الْإِنْسَانُ فِيْ غَيْبَتِهٖ بِسُوْءٍ وَ إِنْ كَانَ فِيْهِ، فَإِذَا ذَكَرْتَهٗ بِمَا لَيْسَ فِيْهِ فَهُوَ الْبُهْتُ والْبُهْتَانُ.

’’غیبت یہ ہے کہ تم کسی انسان کی غیر موجودگی میں ا س کی کسی برائی کاذکر کرو شرط یہ ہے کہ وہ برائی اس میں موجودہواوراگر تم اس کی وہ برائی ذکر کرو جو ا س میں نہیں ہےتو وہ تہمت اوربہتان ہے‘‘-

محمّد بن محمّد بن عبد الرزّاق مرتضى، الزَّبيدي (المتوفى: 1205ھ) اور ابن منظور الانصاری الافريقى (المتوفى: 711ھ) لکھتے ہیں کہ:

{وَالْغِيْبَةُ }: وَهُوَ أَنْ يَّتَكَلَّمَ خَلْفَ إِنْسَانٍ مَسْتُوْرٍ بِسُوْءٍ، أَوْ بِمَا يَغُمُّهٗ لَوْ سَمِعَهٗ وَإِنْ كَانَ فِيْهِ، فَإِنْ كَانَ صِدْقًا، فَهُوَ غِيْبَةٌ؛ وَإِنْ كَانَ كَذِبًا، فَهُوَ الْبُهْتُ والْبُهْتَانُ ‘‘[5]

’’اورغیبت:یہ ہے کہ وہ کسی غیرموجود انسان کے پیٹھ پیچھے کسی ایسی برائی کا ذکر کرے-یا (ایسا عیب بیان کرے) کہ وہ اس کو اگر سنے تووہ اس کو غم زدہ کردے شرط یہ ہے کہ وہ(عیب یابرائی ) اس میں موجو دہو،پس اگروہ (اپنی بات کہنے یعنی اس کی برائی بیان کرنے میں) سچاہے تو وہ غیبت ہے اوراگروہ جھوٹاہے تو وہ تہمت اوربہتان ہے‘‘-

علامہ غلام رسول سعیدی’’شرح صحیح مسلم‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’کسی شخص کے اندھے، ٹھگنے، کالے، لمبے، یا بھینگے ہونے کا ذکر کرنا بدن کا عیب ہے-یہ کہنا کہ اس کا باپ حبشی ، موچی، یا فاسق ہے یہ نسب کا عیب ہے- یہ کہنا کہ وہ بخیل متکبر یا بزدل ہے خُلق کا عیب ہے- یہ کہ وہ چور، جھوٹا، شرابی ، نماز و روزے کا تارک، یا نجاسات سے بچنے والا نہیں ہےاس کے دینی افعال کا عیب ہے-یہ کہنا کہ وہ لوگوں سے اچھی طرح نہیں ملتا، بہت باتونی ہے، بہت کھاتا ہے، سست ہے یا بہت سوتا ہے یہ اس کے دنیاوی افعال کا عیب ہے- یہ کہنا کہ اس کے کپڑے میلے یالمبے ہیں، یہ اس کے کپڑوں کا عیب ہے‘‘-

یعنی کسی کا ایسا نقص و عیب بیان کرنا جو اس میں موجود ہو اور کوئی شخص اس کو بیان کرے تو از روئے قرآن وہ غیبت کہلاتا ہے اورکسی کا ایسا عیب بیان کرنا جو اس میں موجودنہ ہو وہ بہتان کہلاتا ہے اور یہ غیبت سے بھی بڑا جرم ہے جس کی الگ سزا ہے-اس لئے جن اعمال پر آقا کریم (ﷺ) نے مؤمنین سے بیعت لی ان میں ایک یہ بھی تھا کہ وہ کسی پر بہتان اور الزام نہیں لگائیں گے-گویا جو بھی مسلمان خودکو رسالت محمدی (ﷺ) کا مطیع ،فرمانبردار اور امتی سمجھتا ہے اس پر لازم ہے کہ وہ غیبت اور بہتان سے بچے-

حضرت ابو بَرْزَہ اسلمی (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’يَا مَعْشَرَ مَنْ آمَنَ بِلِسَانِهٖ وَلَمْ يَدْخُلِ الْإِيْمَانُ قَلْبَهٗ لَا تَغْتَابُوْا الْمُسْلِمِيْنَ، وَلَا تَتَّبِعُوْا عَوْرَاتِهِمْ، فَإِنَّهٗ مَنِ اتَّبَعَ عَوْرَاتِهِمْ يَتَّبِعُ اللّهُ عَوْرَتَهٗ وَمَنْ يَتَّبِعِ اللّهُ عَوْرَتَهٗ يَفْضَحْهُ فِيْ بَيْتِهٖ‘‘[6]

’’اے (مسلمانوں کا ) وہ گروہ جو زبان سے ایمان تو لایا ہے اور ایمان اس کے دل میں داخل نہیں ہوا، تم مسلمانوں کی غیبت نہ کیا کرواور ان کی پوشیدہ باتوں کا کھوج مت لگاؤ پس جو ان کی پوشیدہ باتوں کا کھوج لگاتا ہے اللہ تعالیٰ اس کا راز فاش کردیتا ہے- اور اللہ تعالیٰ جس کی ٹوہ میں پڑے تو اسے اس کے گھر میں رسوا کردیتا ہے‘‘-

حضرت جابر بن عبداللہ اورحضرت ابوسعید (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشادفرمایا :

«إِيَّاكُمْ وَالْغِيْبَةَ؛ فَإِنَّ الْغِيْبَةَ أَشَدُّ مِنَ الزِّنَا» قِيْلَ: يَا رُسُوْلَ اللهِ! وَكَيْفَ الْغِيْبَةُ أَشَدُّ مِنَ الزِّنَا؟ قَالَ:«الرَّجُلُ يَزْنِيْ فَيَتُوْبُ، فَيَتُوْبُ اللهُ عَلَيْهِ، وَإِنَّ صَاحِبَ الْغِيْبَةِ لَا يُغْفَرُ لَهٗ حَتَّى يَغْفِرَ لَهٗ صَاحِبُهٗ‘‘[7]

’’تم غیبت سے بچو،کیونکہ غیبت زناسے بھی سخت تر ہے -عرض کی گئی یارسول اللہ ()کہ غیبت زناسے کس طرح سخت ہے ؟توآپ () نے ارشادفرمایا :آدمی زناکرتاہے پھروہ توبہ کرتاہےتو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ کو قبول فرماتاہے،اورغیبت کرنے والے کو اس وقت تک معاف نہیں کیا جائےگا جب تک جس کی غیبت کی گئی ہے وہ معاف نہ کرے ‘‘- 

اس لیے کسی کا ایسا نقص و عیب ظاہر کرنا جو اس میں موجود نہ ہو وہ تو قطعاً بیان ہی نہیں کرنا چاہیے-اور اگر کسی کا عیب معلوم ہو جائے اور اگر اس کو بیان کرو گے تو قرآن مجید نے اسے گناہ اور کراہت قرار دیا ہے-گویا مومن کی نشانی یہ ہے کہ وہ اپنے مومن مسلمان بھائی کی پردہ پوشی کرنے والا ہوتا ہے-

جو عیب ڈھانپتا ہے عربی زبان میں اسے ’’ستار العیوب ‘‘ کہتے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ایک صفت ہے-اس لئے اللہ تعالیٰ کی عطا پہ شکر گزار ہونا چاہیے کہ وہ کس حکمت و کرم نوازی سے بندے کے وجود میں اپنی صفت جمال کو پیدا کرنا چاہتا ہے-کیونکہ جس طرح اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کی پردہ پوشی کر کے رحمت فرماتا ہے اسی طرح بندے کا وجود بھی رب تعالیٰ کی مخلوق کے لئے سراپا رحمت بن جائے- گویا یہ عطاءِ الٰہی ہے کہ ہم لوگوں کے عیب ڈھانپنے اور پردہ پوشی کرنے والے بن جائیں-

کوئی شخص بھی عیبوں سے خالی نہیں ہے- کسی ایک کا عیب دوسرے پہ ظاہر ہو جائے تو مخلوق برداشت نہیں کرتی لیکن اندازہ لگائیں کہ ہم سب لمحہ بہ لمحہ، قدم بہ قدم عیبوں اور لغزشوں سے لدے ہوئے ہیں،اس کے باوجود بھی رحیم و کریم خالق نے ہمارے عیبوں پہ پردہ ڈال رکھا ہے-

اس لئے عیبوں کی پردہ پوشی کرنا اللہ تعالیٰ کو پسند ہے -جب کوئی کسی کا عیب ڈھانپتا ہے تو وہ اخلاقِ الٰہیہ سے متخلق اور صفاتِ الٰہیہ سے متصّف ہوجاتا ہے- اُس کی صفت کا نور اس کی پیشانی سے جگمگانے لگتا ہےاور اس کے دل کو روشن و منور کر دیتا ہے-

عیب کیا ہیں؟اگر کوئی ایک ٹانگ سے معذور ہے تو اُس کو لنگڑے اور لُولےکا طعنہ دینا،کسی کے پیشے پہ طعنہ دینا، کوئی آدمی غریب ہے، جوتیاں گانٹھتا ہے، لکڑیاں صاف کرتا ہے، کپڑا بُنتا ہے یا کپڑا سیتا ہے، گوشت کاٹتا ہے وغیرہ کے پیشے کو اُس کی قومیت قرار (Declare) دےکرپھر اُس کو قومیت، پیشے اور غربت کی بنیاد پر طعن دینا کہ فلاں موچی ہے، فلاں قصائی ہے،کوئی فلاں ہے، فلاں ہے یہ طعن بھی اِسی غیبت اور عیب گوئی کے زمّرے میں آتا ہے- یاد رکھیں دوستو ! کسی کو اُس کے پیشے پہ طعنہ نہ دیں -

حضرت انس بن مالک (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ)نے ارشادفرمایا:

لَمَّا عُرِجَ بِيْ مَرَرْتُ بِقَوْمٍ لَهُمْ أَظْفَارٌ مِّنْ نُّحَاسٍ يَخْمُشُوْنَ وُجُوْهَهُمْ وَ صُدُوْرَهُمْ فَقُلْتُ: مَنْ هٰؤُلَاءِ يَا جِبْرِيْلُ؟

’’جب مجھے معراج پہ لے جایا گیا تو میراگزر ایسی قوم سے ہواان کے ناخن تانبے کے تھےجن سے وہ اپنے چہروں کو اورسینوں کو نوچ(کھرچ) رہے تھے-میں نے کہا: اے جبریل !یہ لوگ کون ہیں ؟

تو جبرائیل(ع)نےعرض کی (یارسول اللہ( ﷺ):

’’هٰؤُلَاءِ الَّذِيْنَ يَأْكُلُوْنَ لُحُومَ النَّاسِ، وَيَقَعُوْنَ فِيْ أَعْرَاضِهِمْ‘‘[8]

’’یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کا گوشت کھاتے ہیں اوران کی عزتوں کے پیچھے پڑتے ہیں‘‘-

 اس لیے کبھی کسی کو اُس کے پیشے پہ طعن نہ کیا جائے- یاد رکھیں! اِس زمین پہ رزق حلال کمانے والا کوئی بھی پیشہ ہو چاہے جوتیاں گانٹھنے سے کپڑا بُننے تک،گوشت کاٹنے سے بھیڑ اور بکریوں کے ریوڑ چرانے تک،بال کاٹنے سے مزدوری کرنے تک کوئی پیشہ ایسا نہیں جو کسی ولی، کسی صالح،کسی نبی، اور کسی رسول نے اختیار نہ کیا ہو-اس لئے جو رزق حلال کے لئے ادنیٰ سا پیشہ بھی اختیار کرتا ہے وہ ہمیشہ کسی اعلیٰ پیشے کے ذریعے حرام کمانے والے سے معتبر اور عزت دار ہے-کیونکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک لقمۂ حلال ہی ایمان کی بنیاد ہے- لقمۂ حلال کے بغیر انسان کے وجود میں ایمان داخل ہی نہیں ہو سکتا- متعدد صوفیاء کرام نے بھی اپنی کتب میں لکھا ہے کہ ولی کی بنیادی دوشرائط ہیں :

  1. صدق المقال(سچ بولنا)
  2. اکل الحلال(حلال کھانا)

یعنی اس کی زبان سے جھوٹ، فتنہ ، شرّ اور فساد نہ نکلے، اُس کے وجود میں حرام داخل نہ ہواور حرام کی بدبو سے بھی دور رہے- غیبت بھی بدبو ہے-حضرت جابر بن عبد اللہ (رض) سے مروی ہے کہ:

’’كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ (ﷺ) فَارْتَفَعَتْ رِيْحُ خَبِیْثَۃٍ مُنْتِنَةٍ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ (ﷺ): أَتَدْرُوْنَ مَا هَذِهِ الرِّيْحُ؟ هَذِهٖ رِيْحُ الَّذِيْنَ يَغْتَابُوْنَ الْمُؤْمِنِيْنَ‘‘[9]

ہم حضور نبی رحمت (ﷺ) کی بارگاہ ِاقدس میں موجود تھے تو اچانک (کسی جگہ سے) بہت بدبودار ہوا اٹھی تو آپ (ﷺ) نے ارشادفرمایا :کیا تم جانتے ہو یہ بدبو کیا ہے؟ (پھر آپ (ﷺ) نے ارشادفرمایا) یہ ان لوگوں کی (بدبو دار) ہواہے جو ایمان والوں کی غیبت کرتے ہیں‘‘-

حضرت جابر (رض) سے مروی ہے کہ:

’’رسول اللہ (ﷺ) کے عہدمبارک میں اچانک (کہیں سے )بدبو دار ہوا آئی تو سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا :

’’إِنَّ نَاسًا مِّنَ الْمُنَافِقِيْنَ اِغْتَابُوْا أُنَاسًا مِّنَ الْمُسْلِمِيْنَ، فَبُعِثَتْ هَذِهِ الرِّيْحُ لِذٰلِكَ‘‘[10]

’’بے شک منافقین میں سے کچھ لوگوں نے مسلمانوں کی غیبت کی ہے تو اسی وجہ سے یہ بدبودار ہوابھیجی گئی ہے‘‘-

گویا غیبت علاماتِ نفاق میں سے ہے-اس لئے مومن اگر کسی کا عیب دیکھتا ہے تو اُس کو باقیوں سے تنہا کرکے اور اپنا فریضہ سمجھتے ہوئے بہت احسن انداز میں اس کی اصلاح کرتا ہےکہ میرےبھائی! مَیں نے آپ میں یہ نقص دیکھا ہے جو میرے نزدیک اخلاقی یا سماجی یا شرعی قانونی قباحت کا باعث ہے آپ براہِ مہربانی اس کو خود سے رفع کریں- نیز ، یہ اصلاح کا عمل بھی انہی دو کے درمیان ہی رہنا چاہئے نہ کہ اصلاح کرنے کا بھی ڈھنڈورا پیٹا جائے - اور اصلاح کی بات بھی احسن انداز میں عاجزی سے کی جائے -

حضرت قاسم بن عبدالرحمٰن شامی (رض)سے مروی ہے کہ میں نے ابن اُمِّ عَبد (رض) کویہ فرماتے ہوئے سنا:

’’مَنْ اُغْتِيْبَ عِنْدَهُ مُؤْمِنٌ فَنَصَرَهٗ جَزَاهُ اللّهُ بِهَا خَيْرًا فِيْ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَمَنْ اُغْتِيْبَ عِنْدَهُ مُؤْمِنٌ فَلَمْ يَنْصُرْهُ جَزَاهُ اللهُ بِهَا فِيْ الدُّنْيَا وَ الْآخِرَةِ شَرًّا، وَمَا الْتَقَمَ أَحَدٌ لُقْمَةً شَرًّا مِّنْ اِغْتِيَابِ مُؤْمِنٍ، إِنْ قَالَ فِيْهِ مَا يَعْلَمُ، فَقَدْ اِغْتَابَهٗ وَإِنْ قَالَ فِيْهِ بِمَا لَا يَعْلَمُ فَقَدْ بَهَتَّهٗ‘‘[11]

’’جس کے پاس کسی مومن کی غیبت کی گئی اور اس نے مؤمن کی مددکی (یعنی اس کی غیبت کو روکا) تو اللہ پاک اس کو دنیا و آخرت میں اچھا بدلہ عطا فرمائیں گے اورجس کے پاس کسی مؤمن کی غیبت کی گئی اوروہ اس نے مؤمن کی مدد نہ کی (یعنی اس کی غیبت کو نہ روکا) تو اللہ پاک اس کو دنیاوآخرت میں بری جزاعطا فرمایں گے اور کسی نے مومن کی غیبت سے بڑھ کرکوئی برا لقمہ نہیں لیا-اگر اس نے وہ بات کہی جو وہ جانتاہےتو اس نے اس کی غیبت کی اور اگر اس نے اس کے بارے میں وہ بات کہی جس کو وہ نہیں جانتا تو اس نے اس پر بہتان باندھا‘‘-

غیبت کرنے سے لوگوں کے دلوں میں نفرت پیدا ہوتی ہے اور کوئی بھی ایسا عمل جو نفرت کا باعث ہودین مبین کبھی بھی اس کی اجازت نہیں دیتا-کیونکہ دین کا بنیادی مقصد ہی یہ ہے کہ لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب کیا جائے- دوریاں ہوں گی تو فتنہ و فساد اور غلط فہمیاں پیدا ہوں گی- اس لئے صوفیاء فرماتے ہیں کہ ملاقات، صحبت، قربت اور باہمی کلام کرنا بذاتِ خود ہزارہا غلط فہمیوں کو رفع کرتا ہے- سب سے بڑی غلط فہمی دوری سے جنم لیتی ہے کوئی جس سے جتنا دور ہوگا اس کے متعلق اتنا ہی بد ظن ہوگا- اس لئے از روئے قرآن اکثر ظن (برے گمان) گناہ ہوتے ہیں-

حضر ت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ:

أَنَّ رَجُلَيْنِ صَلَّيَا صَلَاةَ الظُّهْرِ أَوِ الْعَصْرِ وَكَانَا صَائِمَيْنِ، فَلَمَّا قَضَى النَّبِيُّ (ﷺ) اَلصَّلَاةَ-قَال: أَعِيْدَا وُضُوْءَكُمَا وَصَلَاتَكُمَا وَامْضِيَا فِيْ صَوْمِكُمَا وَاقْضِيَاهُ يَوْمًا آخَرَ قَالَا: لِمَ يَا رَسُوْلَ اللهِ؟ قَالَ: اِغْتَبْتُمْ فُلَانًا

’’دوآدمیوں نے ظہر یا عصر کی نماز ادا کی اس حال میں کہ وہ دونوں روزے دارتھے تو جب حضور نبی کریم (ﷺ) نے نماز ادا فرمالی تو آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا: تم دونوں اپناوضو بھی دوبارہ کرواوراپنی نمازبھی دوبارہ پڑھو اوراس روزے کی جگہ دوسرے دن روزہ رکھو ان دو آدمیوں نے عرض کی: یارسول اللہ (ﷺ) (شفقت فرمایں وجہ اعادہ ارشاد فرمادیں کہ ہم سے کیا خطا ہوئی؟) تو رسول اللہ (ﷺ) نے ارشادفرمایا:تم نے فلاں شخص کی غیبت کی تھی ‘‘-

محدثِ عصر علامہ غلام رسول سعید ی (رح)فرماتے ہیں کہ یہ حکم مستحب ہے- آپؒ مزید فرماتے ہیں کہ امام بیہقی لکھتے ہیں کہ امام احمدؒ نےفرمایا کہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے وضو، نماز، (اسی طرح روزہ)کو دہرانے کا حکم اس لیے فرمایا تھاکہ مسلمانوں کی غیبت یا ان کو اذیت پہنچانے سے جو گناہ سرزد ہوا ہے اس کا کفارہ اداہوجائے-

صائب تبریزی کے ایک شعر سے بڑی دلچسپ حکایت اخذ ہوتی ہے کہ :

کسی فقیر کے سامنے یہ کہا گیا کہ تیرے جنگل کی لکڑی تھی،کسی نے کاٹ لی اور کاٹ کر اُس نے اپنی کلہاڑی کا دستہ بنا لیا -اب اس شخص کا مقصد اُس لکڑ ہارے کی چغلی کرنا تھا کہ میں اس فقیر سے کہوں گا، چونکہ فقیر جلالی ہے فوراً غصے میں آکراس بندے پہ گرفت کرے گا- اُس فقیر نے جواب دیا کہ اگر تو مجھے یہ کہے میرے جنگل کی لکڑی کسی نے کاٹ کر درویش کی بانسری بنا دی ہے تو مَیں مان سکتا ہوں-لیکن میرے جنگل کی لکڑی کٹ کے کلہاڑی کا دستہ نہیں بن سکتی- جو کلہاڑی کا دستہ بنی وہ میرے جنگل کی لکڑی تھی ہی نہیں-

فقیر کا وجود سراپا رحمت ہوتا ہے کیونکہ فقیر کی بارگاہ میں کسی کا گلہ، غیبت،اور بہتان ترازی اور شکوہ و شکایت نہیں ہوتی-بقول علامہ محمد اقبال:

جو فقر ہوا تلخی دوراں کا گلہ مند
اس فقر میں باقی ہے ابھی بوئے گدائی

اس لئے جو بھی اہل تصوف کی صحبت و معیت حاصل کرتا ہے وہ رحمت کی اوٹ میں آجاتا ہے کیونکہ اہلِ تصوف کے وجود سے رحمتوں اور برکتوں کے چشمے پھوٹتے ہیں -

یہاں ایک دلچسپ واقعہ بیان کرنا چاہوں گا کہ:

’’اب ایک آدمی نے داتا صاحب حاضری کا اپنا احوال بیان کیا کہ میں داتا صاحب حاضری کے لئے جا رہا تھا، میرے دل و دماغ میں ایک نقشہ یوں قائم ہوا کہ وہاں بڑے بڑے صلحاء، صوفیاء، اتقیاء، زاہد اور عابد بیٹھے مجھے نظر آئیں گے اور کیا ہی خوب محفل ہوگی، علماء کا جمِ غفیر ہوگا اور قطار در قطار اؤلیاء اور علماء کھڑے ہونگے - مگر جب میں نے وہاں پہنچ کر منظر دیکھا تو حیران رہ گیا کہ مجھے وہاں عام، گنہگار و خطاکار لوگوں کے روتے چہرے نظر آئے- تو مجھے محسوس ہوا کہ ولی کا دامن ایسا دامن ہے جس پہ اللہ کی رحمت ہوتی ہے اور اس رحمت کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ گنہگار وہاں جاکے تسکین پاتا ہے‘‘-

لجپال کہتے ہی اسکو ہیں جو اپنے سے کم تر کو سینے سے لگا کر رکھے- کیونکہ اولیاء اللہ کی تعلیمات ہی یہی ہیں کہ انسان کا وجود معاشرے کے لئے سراپا امن و خیربن جائے- اس لیے اہلِ تصّوف کو ان کے آداب، اُن کے وجود کی نزاکت سے پہچانا جاتا ہے-کیونکہ وہ ابلیس کی طرح وجودِ آدم کا ظاہر نہیں بلکہ جِبریل کی طرح وجودِ آدم کا باطن دیکھتے ہیں - جس نے ظاہر دیکھا اُسے انسان نطفےکی پیداوار نظر آیا، آگ، ہوا ،مٹی ، پانی اور گوشت پوست کا پتلا-لیکن جس نے باطن میں دیکھا اسے انسان کی روح نظر آئی جو اللہ تعالیٰ نے اس کے وجود میں اپنے نور سے داخل کی-

لہذا! یہ انسان کی عظمت کی دلیل ہےکہ وہ دوسرے انسان کے عیبوں کو جانتے ہوئے ان کی پردہ پوشی کرے اور اس کی خوبیوں کو اجاگر کرتے ہوئے اسے محبت کے لئے قبول کرے - جس کی کئی مثالیں ہیں: جیسے والدین میں بچوں کو یا بچوں میں والدین کو نقائص نظر آئیں وہ پھر بھی ایک دوسرے کو خامیوں سمیت اپناتے ہیں اور محبت کے لئے قبول کرتے ہیں-اسی طرح استاد، شاگرد کے اور شاگرد استاد کے، بیوی شوہر کے اور شوہر بیوی کے عیب و نقائص ڈھونڈنے اور ظاہر کرنے اور خوبیوں کو پس پشت ڈالنے لگ جائیں تو معاشرہ چند لمحوں میں ٹوٹ جاتا ہے-

اسی طرح مختلف دفاتر اور اداروں میں مختلف طبیعت اور مزاج کے لوگ کام کرتے ہیں اور اچھا قائد (leader) وہی ہوتا ہے جو اُن تمام کے ساتھ اچھے سلوک سے تمام معاملات کو سرانجام دیتا ہے- یاد رکھیں! بہتر معاملہ مثبت سوچ رکھے بغیر پیدا ہو سکتا ہی نہیں ہے-

شیخ رومی (رح) حکایت بیان کرتے ہیں کہ:

ایک مکھی وہ ہے جو پانی میں گر جائے تو انسان اس پانی کو اُنڈیل دیتا ہے، کھانے میں گر جائے تو وہ کھانا نہیں کھاتا، زخم پے آکر بیٹھ جائے تو اس زخم کی حفاظت کرتا ہے کہ تاکہ وہ عیب دار مکھی زخم کو بڑھا نہ دے-اس کے برعکس ایک وہ مکھی ہے جس کے بطن سے جومادہ( شہد) نکلتا ہے قرآن اسے لوگوں کے لئے شفا قرار دیتا ہے-بظاہر دونوں مکھیاں ہیں لیکن ایک سے نفرت اور دوسری سے محبت یہ ان کی رسائی (Approach) کی وجہ سے ہے- یعنی جو عام مکھی ہے اگر اس کو پھولوں کے باغیچے میں چھوڑ دیا جائے وہ باغ کے تمام پھلوں، پھولوں، کلیوں اور غنچوں کو چھوڑ کر جہاں تھوڑی سی گندگی ہوگی وہ وہاں بیٹھ جائے گی- لیکن جو شہد کی مکھی ہےاگر اس کو گندگی کے ڈھیر پر چھوڑ دیا جائے جہاں نجاست، غلاظت اور بدبودار چیزیں پڑی ہوں گی، لیکن اگر اس کوڑے کرکٹ کے ڈھیر میں ایک چھوٹا سا پھول پڑا ہوگا تو وہ مکھی ساری گندگی کا ڈھیر چھوڑ کر اس چھوٹے سے پھول پر جا کر بیٹھے گی-

اسی طرح انسان کا معاملہ ہے جو خوبیوں کو چھوڑ کر خامیاں تلاش کرتا ہے اس سے نفرت پیدا ہوتی ہے اور جو خامیوں کے باوجود خوبیوں کو سراہتا ہے اس سے محبت پیدا ہوتی ہے- اس لئے ہمیں اپنی معاشرت میں مثبت رویّہ پیدا کرنے کی ضرورت ہے جو ہمیں سورۃ الحجرات سکھاتی ہے-ہمارے درمیان یہ جو معاشرتی ناسور بڑھتا جا رہا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ :

کتنا ہی کوئی گوہرِ نایاب ہو مگر
ہوتا ہے سنگ ریزہ جاہل کے ہاتھ میں
قرآن اک کتاب ہے اسرارِ سرمدی
لیکن ہے آج ملتِ غافل کے ہاتھ میں

لہذا! اگر قرآن کریم سے ہمارا تعلق استوار ہوجائے تو کبھی ذلت ہمارا مقدر نہ بنے-اصلاحی جماعت کی یہی دعوت ہے کہ آپ آئیں! بالخصوص میرے نوجوان ساتھی! اس عملی تربیت کو سیکھیں تاکہ ہمارے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی کبریائی اور مصطفےٰ کریم (ﷺ) کا عشق جاگزیں ہو- قرآن کریم اور سنت رسول (ﷺ) نے حسن معاشرت کے جو آداب سکھائے ہیں ان سے دلوں کو مزین اور منور کریں-

٭٭٭



[1](النجم:3-4)

[2](الحجرات:11)

[3](الحجرات:12)

[4](المعجم الکبیر للطبرانی)

[5](تاج العروس من جواهر القاموس/لسان العرب)

[6](سنن أبي داود ، كِتَاب الْأَدَبِ)

[7](المعجم الأوسط للطبرانی / شعب الإيمان للبیہقی)

[8](سنن أبي داود ، كِتَاب الْأَدَبِ / مسند الإمام أحمد بن حنبل)

[9](مسند الإمام أحمد بن حنبل)

[10](صِفَةُ النِّفَاقِ وَنَعْتُ الْمُنَافِقِيْنِ/ مساوئ الأخلاق / الأدب المفرد)

[11](الجامع لابن وهب / اَلْأَدَبُ الْمُفْردْ)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر