دَردِ اُمت

دَردِ اُمت

مسلمان ایک انتہائی مخفی اور پوشیدہ راز ہے جس کو ہم اپنی نگاہ کی بصیرت اور بصارت کے محدود ہونے کی وجہ سے نہ پہچان سکے کہ مسلمان کون ہے؟ اور مسلمان کیا ہوتا ہے؟ البتہ علامہ اقبال کے ’’قرآنی وزڈم ‘‘کو پڑھ کر مومن کی کچھ نہ کچھ جہتیں اور پَرتیں کُھلتی ہیں -

دنیا میں ایک اصول ہے کہ جو رتبے میں کم ہو وہ اپنے سے اعلیٰ رتبے والے کا پیرو ہوتا ہے اور بعض دفعہ اس سے محبت بھی کرتا ہے؛ وہ رتبہ چاہے علم میں ہو، مال و زر کی فراوانی سے ہو یا حسن و جمال سے متعلق ہو، یا قوت و اقتدار سے متعلق- اسی طرح محبت کے بارے  بھی ایک دنیاوی دستور ہے کہ محب محبوب کا خیر خواہ ہوتا ہے، اگر محبوب تکلیف میں ہو تو محب کا دل تڑپتا ہے اور وہ یہ چاہتا ہے کہ میرے پاس کوئی ایسی چیز ہو جس کو قربان کرکے محبوب کی تکلیف کو کم کرسکوں -لیکن محبوب محب کی اِس خواہش اور اُس کے اِس اضطراب سے لازمی نہیں کہ باخبر ہو،  بعض دفعہ وہ باخبر ہوتا ہےجبکہ بعض دفعہ نہیں ہوتا -

اسی طرح اس دنیا میں ایک اصول یہ بھی کار فرما ہے کہ جو کوئی چیز بانٹتا ہے بعض دفعہ وہ لینے والوں سے بے نیاز ہوتا ہے - لینے والے کس تنگی و تکلیف میں اس کے پاس کھڑے ہیں اسے اس بات کی پرواہ نہیں ہوتی، کیونکہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ میں اپنا فریضہ ادا کر رہا ہوں یعنی جو لینے والے آئے ہیں میں اپنی طرف سے ان کو عطا کر رہا ہوں، اور کیا یہ کم ہے کہ جو چیز میں دے رہا ہوں یہ ان کے پاس نہ تھی یا ان کے پاس کم تھی -اس لئے میرا اُن کو یہ چیز دینا فی نفسہ بھلائی اور احسان کا منہ بولتا ثبوت ہے-

مگر جب میں مسلمان کی قسمت و عظمت کو دیکھتا ہوں تو میرا یقین کیجئے اپنے مسلمان ہونے پر بھی فخر ہوتا ہے اور مجھے دنیا میں ہر وہ شخص جو ’’لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ کہتا ہے اس کی قسمت پر رشک آتا ہے-کیونکہ قرآن مجید میں غوطہ زنی کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ  رب کریم مسلمان کو دنیا کے اصولوں سے نرالا کردیتا ہے-یعنی جب مسلمان کی قسمت کے تعین کی بات آتی ہے تو وہاں اصول بھی کمال آتے ہیں-

آقا کریم (ﷺ) محبوب ہیں اور مسلمان محب-دنیا کا اصول یہ ہے کہ محب محبوب کی خیر خواہی کرتے ہیں مگر مسلمان کی عظمت یہ ہے کہ محبوب اپنے محب کی خیر خواہی کرتا ہے- حیرانگی کی انتہاء یہ ہے کہ محبوب بھی وہ محبوب ہے جوجن و انس اور کُل کائنات کا محبوب ہے بلکہ کائنات کو بنانے والے رب ذوالجلال کا بھی محبوب ہے-

سیدنا حضرت علی المرتضیٰؓ فرماتے ہیں کہ :

’’كُنْتُ مَعَ النَّبِىِّ (ﷺ) بِمَكَّةَ فَخَرَجْنَا فِىْ بَعْضِ نَوَاحِيْهَا فَمَا اسْتَقْبَلَهٗ جَبَلٌ وَلَا شَجَرٌ إِلاَّ وَهُوَ يَقُوْلُ اَلسَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُوْلَ اللّهِ‘‘[1]

’’میں رسول اللہ (ﷺ) کے ساتھ مکہ مکرمہ میں تھا تو ہم  مکہ کے کسی گوشہ میں تشریف لے گئےتو کوئی درخت اور کوئی پہاڑ ایسا نہ تھا جس نے آپ (ﷺ) کو ’’اَلسَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُوْلَ اللّهِ‘‘نہ کہا ہو‘‘-

آقا کریم (ﷺ) کُل مخلوقات کے محبوب ہیں اور اللہ  تعالیٰ نے جس کو پاکی عطا کی اس کی دلیل یہ بنا دی کہ وہ محبوب کریم (ﷺ) سے محبت کرتا ہے- مگر ایک مقام پہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہےکہ اےمومنوں! میں نے تم میں اپنے جس محبوب کو جلوہ گر فرمایا ہے وہ تمہارا اتنا خیر خواہ ہے کہ تمہیں کسی تکلیف میں مبتلا دیکھ کر وہ یہ چاہتا ہے کہ تمہارے لیے آسانی پیدا کی جائے کیونکہ تمہارا تکلیف میں پڑنا اُن کو گراں گزرتا ہے-اس لئے میرے دربار میں وہ جب بھی سوال کرتا ہے تو تمہاری بہتری اور بھلائی کا سوال کرتا ہے کیونکہ میں نے اپنے حبیب مکرم (ﷺ) کو یہ شان عطا کردی  ہے کہ:

’’وَ لَلْاٰخِرَةُ خَیْرٌ لَّكَ مِنَ الْاُوْلٰى‘‘[2]

’’اس کی ہر آنے والی گھڑی ہر گزری ہوئی گھڑی سے بہتر ہے‘‘-

گھڑیوں اور لمحوں کا شمار کیا ہے؟ ایک گھڑی تو یہ ہے جو زمین کی گریویٹی / کششِ ثقل کے مطابق لمحوں کو شمار کرتی ہے اور آپ اگر زمین کی گریویٹی/ کششِ ثقل سے نکل جائیں تو دنیا میں ساعتوں کا معیار اور اس کی مقدار تبدیل ہو جاتی ہے- اللہ تعالیٰ نے آقا کریم (ﷺ) کو یہ شان عطا فرمادی کہ کل  کائنات کی ہر گزری ہوئی گھڑی آنے والی گھڑی سے بہتر ہوگی-

اس قدر شان و رفعت والے آقا کریم (ﷺ) کے متعلق ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’قُلْ لَّآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبٰی‘‘[3]

’’فرما دیجیے: میں اِس (تبلیغِ رسالت) پر تم سے کوئی اُجرت نہیں مانگتا مگر (میری) قرابت  سے محبت (چاہتا ہوں)‘‘-

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ  میرا حبیب مکرم (ﷺ) تم سے خیر کے بدلے کسی اُجرت کا متلاشی نہیں ہے بلکہ وہ چاہتا ہے کہ میں نے تمہیں جو دولتِ ایمان عطا کی ہے اس کے بدلے تم  میرے اقربا، اہل بیت اطہار  و صحابہ کرامؓ سے محبت اور میری ازواج کا احترام کرو-

اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ رب کریم نے آقا کریم (ﷺ)کی شان میں کوئی کمی نہیں چھوڑی لیکن اس کے باوجود وہ آرزو مند ہیں کہ میرے مولا میری امت کی خیر فرمانا-یعنی وہ لوگ جو خود اپنی خیر نہیں چاہتے حبیب ان کی بھی خیر چاہتے ہیں-

حضرت عبدالرحمٰن بن ابی بکرؓ روایت بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشادفرما یا:

’’إِنَّ رَبِّيْ أَعْطَانِيْ سَبْعِيْنَ أَلْفًا مِّنْ أُمَّتِيْ يَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ بِغَيْرِ حِسَابٍ» فَقَالَ عُمَرُ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، فَهَلَّا اِسْتَزَدْتَّهٗ؟

’’اللہ پاک نے مجھے خوشخبری دی ہے کہ میرے ستر ہزار اُمتی بغیر حساب کے جنت میں داخل ہو جائیں گے-حضرت عمر فاروقؓ نے عرض کی یا رسول اللہ (ﷺ)!  آپ (ﷺ) نے اس میں مزید  کا مطالبہ کیوں نہ فرمایا ؟

 آپ (ﷺ) نے ارشادفرما یا کہ:

’’میں نے اللہ پاک کی بارگاہ میں مزید کے لیے عرض کی تواللہ پاک نے مجھے ایک کے ساتھ ستر ہزار کا وعدہ فرمایا حضرت عمر فاروقؒ نے عرض کی یارسول اللہ (ﷺ)! آپ (ﷺ) نے اس میں مزید  کا مطالبہ کیوں نہ فرمایا ؟

آپ (ﷺ) نے ارشادفرما یا کہ

«قَدِ اسْتَزَدْتُّهٗ، فَأَعْطَانِيْ مَعَ كُلِّ رَجُلٍ سَبْعِيْنَ أَلْفًا» قَالَ عُمَرُ: فَهَلَّا اِسْتَزَدْتَّهٗ؟ قَالَ: «قَدِ اسْتَزَدْتُّهٗ، فَأَعْطَانِيْ هَكَذَا»

’’میں نے اللہ پاک کی بارگاہ میں مزید کے لیے عرض کی تو اللہ پاک نے مجھے ایک کے ساتھ ستر ہزار کا وعدہ فرمایا حضرت عمر فاروقؓ نے عرض کی یارسول اللہ (ﷺ)! آپ (ﷺ) نے اس میں مزید  کا مطالبہ کیوں نہ فرمایا ؟ حضرت عمرفاروقؓ  نے دوسری بار یہی عرض کی تورسول اللہ (ﷺ) نے یہی جواب ارشادفرمایا-

پھر  تیسری بار آپ (ﷺ) نے جواب ارشادفرمایا کہ ’’اللہ پاک نے مجھے اتنا عطافرما یا ہے کہ آپ (ﷺ) نے اپنے دونوں ہاتھ پھیلادئیے ‘‘-

وَقَالَ هِشَامٌ: وَهَذَا مِنَ اللهِ لَا يُدْرٰى مَا عَدَدُهُ

’’ہشام فرماتے ہیں کہ یہ اللہ پاک کااتنا بڑافضل واحسان ہے جو  حساب وشمار سے  باہر ہے‘‘- [4]

حضرت عمر فاروقؓ کا بار بار سوال کرنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ آپؓ امت کی بخشش کے معاملے میں آقا کریم (ﷺ) کی بارگاہ اقدس سے عطا کیا ہوا کتنا درد رکھتے تھے-

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’لَقَدْ جَآءَکُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ ‘‘[5]

’’بے شک تمہارے پاس تم میں سے (ایک باعظمت) رسول (ﷺ) تشریف لائے- تمہارا تکلیف و مشقت میں پڑنا ان پر سخت گراں (گزرتا) ہے- (اے لوگو!) وہ تمہارے لیے (بھلائی اور ہدایت کے) بڑے طالب و آرزو مند رہتے ہیں (اور) مومنوں کیلئے نہایت (ہی) شفیق بے حد رحم فرمانے والے ہیں‘‘-

حافظ ابن کثیر اسی آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’حضرت ابو ہریرہؓ روایت فرماتے ہیں کہ ایک اعرابی رسول اللہ (ﷺ) کے پاس کچھ مانگنے آیا، عکرمہ کہتے ہیں کہ میرے خیال میں وہ خون بہا کی ادائیگی میں مدد کا خواہاں تھا-رسول اللہ(ﷺ)نے اسے کچھ عطا فرمایااور پوچھا کہ کیا میں نے تمہارے ساتھ احسان کیا ہے؟ اعرابی نے کہا: نہیں بلکہ حسن سلوک بھی نہیں کیا-یہ سن کر بعض صحابہ سخت غضب ناک ہوگئے اور اعرابی کی طرف اٹھنے کی طرف ارادہ کیالیکن آپ (ﷺ )نے انہیں اشارہ سے منع فرمایا-پھر رسول اللہ (ﷺ )تشریف لے گئے اور اس اعرابی کو اپنے گھر بلا کر مزید عطا فرمایا اور پوچھا کہ کیا میں نے تمہارے ساتھ احسان کیا ہے؟ اس نے کہا ہاں اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے آپ(ﷺ)نے اسے فرمایا:تم ہمارے پاس مانگنے کیلئے آئے اور ہم نے تمہیں عطا کیا لیکن تم نے وہ بات کہی جو تم نے کہی،اس پر میرے صحابہ کے دلوں میں تمہارے بارے میں رنجش ہے- اگر تم ان کے سامنے بھی وہی بات کہو جو تم نے میرے سامنے کہی ہے تو ان کی رنجش دور ہو سکتی ہے -اس نے کہا ہاں جب وہ اعرابی آیا تو آپ (ﷺ)نے صحابہ کرامؓ سے فرمایا:یہ آدمی ہمارے پاس مانگنے کے لیے آیا اور ہم نے اسے عطا کیا لیکن اس نے وہ بات کی جو کی- ہم نے اسےبلا کر مزید عطا کیا اس کا خیال ہے کہ وہ راضی ہو گیا ہے -اے اعرابی !کیا اسی طرح ہے؟ اس نے کہا: ہاں اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے- اس پر آپ (ﷺ) نے فرمایا: میر ی مثال اور اس اعرابی کی مثال ایسے شخص کی سی ہے جس کی اونٹنی بھاگ گئی لوگ (اسے پکڑنے کیلئے )اس کے پیچھے دوڑے لیکن اونٹنی اور زیادہ بدک گئی -اونٹنی کے مالک نے انہیں کہا کہ اس اونٹنی کا معاملہ مجھ پر چھوڑ دو،میں اس کا زیادہ خیر خواہ ہوں اور مجھے اس کے بارے میں زیادہ علم ہے-چنانچہ وہ اونٹنی کی طرف بڑھا اور گھاس کے چند تنکے لے کر اسے اپنی طرف بلایا ،اونٹنی اس کے پاس آگئی اور اس نے اس پر پلان کس لیا-اگر میں بھی تمہاری طرح اس کی ناروا بات پر اس سے ناراض ہو جاتا تو یہ شخص دوزخ میں چلا جاتا‘‘-

اس لئے بعض دفعہ لوگ نہیں جانتے کہ اللہ نے جن کو ان کا وارث  و امین مقرر کیا وہ ان کے ساتھ خیر و بھلائی کا صلہ چاہتے ہیں، لیکن لوگ اونٹنی کی طرح بھاگ کھڑے ہوتے ہیں، جبکہ بھاگنے والی اونٹنی کو یہ معلوم نہیں کہ اگر مَیں صحرا کی وسعتوں میں گُم ہوگئی تو میری ہڈیاں اس صحرا کی ریت کے نیچے دب جائیں گی اور میرا نام و نشان بھی مٹ جائے گا-

چونکہ اللہ تعالیٰ نے آقا کریم (ﷺ) کو اپنی صفت ِ رؤف و رحیم سے متصف کیا ہے-اس لئے جس طرح اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کے ساتھ احسان کا معاملہ فرماتا ہے اسی طرح آقا کریم (ﷺ) بھی اس کی مخلوق کے ساتھ احسان کا معاملہ فرماتے ہیں-مخلوق جس طرف بھی بھاگنے کی کوشش کرے آقا کریم (ﷺ) پھر بھی اسےاپنی رحمت کی آغوش میں لے لیتے ہیں -

سرکار دو عالم (ﷺ) ان مومنین سے محبت کرتے ہیں جو مومنین سے محبت کرتے ہیں- آقا کریم (ﷺ) محبوب ہیں اور مومن مسلمان مُحب ہیں- لیکن محب اپنے محبوب کے لئے اتنا متفکر نہیں ہے جتنا محبوب مُحب کی آخرت اور اُس کی بھلائی کیلئے فکر مند نظر آتے ہیں- یہاں سے علامہ اقبال کے ’’اسلامی قومیت‘‘ کے اصول کا مسئلہ اخذ ہوتا ہے -

دنیا کی ہر قوم اپنی قومیت کے اصول کے ساتھ چمٹ کر رہتی ہے- قومیت کا اصول چاہے کسی دستور، قبیلہ، ایک خون، ایک زبان، ایک رنگ ہونے پہ مبنی ہو- اقبال کہتے ہیں کہ جس طرح ہر قومیت اپنے اصول اور اپنی بنیاد کے اوپر قائم ہوتی ہے، اسی طرح اسلامی قومیت کا اصول رنگ اور خون، زبان اور جغرافیہ، ایک خاص حد زمانی اور ایک خاص حد مکانی سے بالاتر ہے-اس لئےجس نے اقرار کیا ’’لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ پس وہ  اسلامی قومیت میں آگیا کہ  اللہ تعالیٰ کا حبیب اُن سے محبت فرماتا ہے- مسلم قومیت کے اصول کو قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے مارچ 1944ء میں علی گڑھ میں اس طرح بیان فرمایا تھا :

Pakistan started the moment the first non-Muslim was converted to Islam in India long before the Muslims established their rule. As soon as a Hindu embraced Islam he was [an] outcaste not only religiously but also socially, culturally and economically”.

’’پاکستان اسی دن معرض وجود میں آ گیا تھا جب ہندوستان میں پہلا ہندو مسلمان ہوا تھا-یہ اس زمانے کی بات ہے جب یہاں مسلمانوں کی حکومت بھی قائم نہیں ہوئی تھی-  ہندوستان کا جب پہلا فرد مسلمان ہوا تو وہ پہلی قوم کا فرد نہیں رہا-وہ ایک جداگانہ قوم کا فرد ہو گیا-ہندوستان میں ایک نئی قوم وجود میں آگئی‘‘-

بقول حکیم ا لامت:

’’قومِ تو از رنگ و خون بالاتر است‘‘

’’تیری قوم رنگ و خون سے بالاتر ہے‘‘-

کیونکہ  آقا کریم (ﷺ) نے جب اللہ کے حضور سر بسجود ہو کر ، آنسو بہا کر اپنی امت کی شفاعت کا سوال کیا، تو اللہ تعالیٰ نے شفاعت کرنے والا بنایا-اس لئے روزِ حشر جب نفسا نفسی جاری ہوگی، جب سرکار دو عالم (ﷺ) شفاعت فرمائیں گےاس دن یہ نہیں دیکھاجائے گا کہ میرا امتی دنیا میں کس قبیلے، رنگ اور نسل سے تعلق رکھتا تھا- بلکہ  یہ دیکھا جائے گا کہ ’’لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ پہ کس امتی کی زبان اقرار اور دل تصدیق کرتاتھا- اقبالیاتی تناظر میں یہی اسلامی قومیت کا اصول ہے-

حضرت ابو ہریرہؓ روایت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا:

« لِكُلِّ نَبِىٍّ دَعْوَةٌ ، فَأُرِيْدُ إِنْ شَاءَ اللهُ أَنْ أَخْتَبِىَ دَعْوَتِىْ شَفَاعَةً لِّأُمَّتِىْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ‘‘[6]

’’ہر نبی کیلئے ایک دعا ہوتی ہے پس میں ارادہ کرتا ہوں ان شاءاللہ کہ اپنی اس دعا کو قیامت کے دن اپنی امت کی شفاعت کرنے کے لیے چھپا کر رکھوں گا ‘‘-

آقا کریم () کس حد تک شفاعت فرمائیں گے؟

کس حد تک شفاعت فرمائیں گے؟ یہ بھی درست ہے کہ سرکار دو عالم (ﷺ)نے فرمایا کہ بہترین زمانہ میرا زمانہ  ہے اور پھر میرے بعد کا زمانہ، پھر اس کے بعد کا اور پھر اس کے بعد کا زمانہ-یعنی آقا کریم (ﷺ) کے بعد صحابہ کرامؓ کا زمانہ، تابعین کا زمانہ، تبع تابعین کا زمانہ-

یہ سارے زمانے گو کہ اعلیٰ ہیں مگر یا رسول اللہ (ﷺ)!  ہم نے نہ آپ کے صحابہؓ کا زمانہ پایا، نہ تابعین کا زمانہ پایا، نہ تبع تابعینؓ کا زمانہ پایا- ہم تو آپ (ﷺ) کی ذاتِ اقدس سے بھی 1429 قمری سال بعد اس دنیا میں آئے، ہم آپ (ﷺ)  کا کلمہ تو پڑھتے ہیں اور آپ (ﷺ) کی ذات گرامی سے ہماری شناخت منسوب ہے-بزبانِ شاعر:

اُن کا دیوانہ ہوں، اُن کا مجذوب ہوں
 کیا یہ کم ہے کہ میں اُن سے منسوب ہوں

یا رسول اللہ(ﷺ)! آپ کے زمانے سے بھی دور ہیں ہم گناہگار بھی  ہیں کہ، گو کہ عمل میں کمزور ہیں مگر آپ کی ذاتِ گرامی سے محبت کرتے ہیں جس طرح ہم سے صدیوں پہلے وہ لوگ محبت کر گئے جنہیں آپ (ﷺ)کے زمانے کا قرب نصیب ہوا-

آقا کریم (ﷺ) کے فرمان کا مدعا ہے کہ اے لوگو! چاہے جتنی صدیاں بھی بیت جائیں جب جب، جس جس کی زبان پر میری رسالت کا اعتراف اور میری ختمِ نبوت کا اقرار جاری رہے گا، قیامت کے دن اللہ کے دربار میں چُن چُن کر اُس کی شفاعت کروں گا-

بروزِ حشر شفاعت کریں گے چُن چُن کر
 ہر اِک غلام کا چہرہ حضور جانتے ہیں

یعنی روزِ قیامت اُمتی کی شفاعت اسلامی قومیت کے اصول ’’لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ کے اقرار و تصدیق پہ مبنی ہوگی-

امیر المؤمنین سیدنا علی المرتضیٰؓ روایت فرماتے ہیں، آقا کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’أَشْفَعُ لِأُمَّتِيْ حَتَّى يُنَادِيَنِيْ رَبِّيْ عَزَّ وَجَلَّ، فَيَقُوْلُ: أَرَضِيْتَ يَا مُحَمَّدُ؟ فَأَقُوْلُ: نَعَمْ، رَضِيْتُ‘‘[7]

’’میں اپنی امت کیلئے شفاعت کروں گا یہاں تک کہ اللہ پاک ندافرمائے گا اور ارشادفرمائے گا اے محمد (ﷺ) کیا آپ (ﷺ) راضی ہو گئے؟ تو میں عرض کروں گا ہاں (یااللہ عزوجل) میں راضی ہوگیا‘‘-

سبحان اللہ! رب کریم اپنے محبوب مکرم (ﷺ) سے پوچھ رہا ہے کہ اے  میرے محبوب کیا آپ راضی ہیں-کیونکہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’وَ لَسَوْفَ یُعْطِیْکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰی‘‘ [8]

’’اور بے شک قریب ہے کہ تمہارا رب تمہیں اتنا دے گا کہ تم راضی ہوجاؤ گے‘‘-

یعنی اے حبیب مکرم (ﷺ) آپ مانگتے جائیں گے ہم عطا کرتے جائیں گے، آپ د عا کرتے جائیں گے ہم قبول کرتے جائیں گے، آپ شفاعت کرتے جائیں گے ہم مغفرت کرتے جائیں گے؛ مفسرین کا ایک طرح کا اجماع معلوم ہوتا ہے اس بات پہ کہ قرآن کریم میں گناہ گاروں کیلئے یہ سب سے زیادہ امید افزاء آیت مبارکہ ہے -

امام ابن عطيۃ الاندلسی المحاربی (المتوفى: 542ھ)  ’’تفسیر: المُحَرِّرُ الوَجِيز‘‘ اور امام القرطبی (المتوفى:671 ھ) ’’ تفسير القرطبی‘‘ میں لکھتے ہیں کہ:

’’بعض نے کہا ہے کہ کتاب اللہ میں سب سے امید افزاء آیت ’’ وَلَسَوْفَ يُعْطِيْكَ رَبُّكَ فَتَرْضٰى‘‘ہے -

’’وَذَلِكَ أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ (ﷺ) لَا يَرْضٰى بِبَقَاءِ أَحَدٍ مِّنْ أُمَّتِهٖ فِي النَّارِ‘‘

’’اوراس کی وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) اپنی امت میں سے کسی ایک کے بھی جہنم میں رہنے پر راضی نہ ہوں گے‘‘-

یعنی آقا کریم (ﷺ) نے فرمایا کہ مَیں اس وقت تک اللہ تعالیٰ سے راضی نہ ہوں گا جب تک میرا ایک بھی امتی جہنم کی آگ میں ہو گا-

یاد رکھیں! مسئلہ شفاعت سے سرکار دو عالم (ﷺ) کی امت کی قومیت کا اصول طے ہوتا ہے کہ ہماری قومیت رنگ و نسل، زبان اور جغرافیہ پہ قائم نہیں بلکہ ’’لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ کے اقرار و تصدیق پہ قائم ہے-

جس اصول پہ روزِ قیامت ہماری شفاعت ہونی ہے ہم اس کو آج اپنی شناخت کیوں نہیں بناتے؟؟؟بزبانِ سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری حنفی:

آج لے ان کی پناہ ،آج مدد مانگ ان سے
پھر نہ مانیں گے قیامت میں اگر مان گیا

مسئلہ شفاعت سے دوسری بات یہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ سرکار دو عالم (ﷺ) کی اُمت سے محبت کرنا، اُمت کا درد رکھنا یہ سنت عظیم ہے-لیکن آج کے  نام نہاد پڑھے لکھوں  اور آزاد پسند، جن کے متعلق علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ :

’’انہیں‘‘ تہذیب حاضر نے عطا کی ہے وہ آزادی
کہ ظاہر میں تو آزادی ہے باطن میں گرفتاری

وہ نام نہاد آزادی پسند (liberals) آج یہ طعنہ دیتے ہیں کہ تم اُمت کی بات کرتے رہتے ہوپہلے اپنے گھر کو دیکھو-کیونکہ وہ یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ اُمت اور ملّت کے اوپر تمہارے معاشی، جغرافیائی، خاندانی اور قبائلی مفاد کو برتری حاصل ہے -

مگر یاد رکھئے! وہ مسلمان جو سرکار دو عالم (ﷺ) کی شفاعت کے نظریے پہ کامل یقین و ایمان رکھتا ہے کہ روزِ محشر جب ہر کسی پہ خوف اور لرزہ طاری ہو گا سرکار دو عالم (ﷺ) بھی اپنی امت کے خوف سے اللہ کے حضور سر بسجود ہوں گے اور اللہ عزوجل کے اذن سے اپنی امت کی شفاعت کریں گے- ایک بات جو مجھے نہایت سطحی اور کسی حد تک ادب سے گری ہوئی بھی لگتی ہے جس کے بیان کرنے سے خائف بھی ہوں کہ سوئے ادب نہ ہو وہ یہ کہ سرکار دو عالم (ﷺ) نے اللہ عزوجل کی بارگاہ میں اپنے خاندان یا اپنے قبیلے کی  شفاعت طلب نہیں کی بلکہ پوری امت کی شفاعت کو طلب کیا- کلمہ گو عرب بھی ہیں غیر عرب بھی ، زبان ، جغرافیہ اور رنگ و نسل ہر تین اعتبار سے عرب و غیر عرب ہیں- شفاعت زبان، جغرافیہ اور رنگ و نسل کی بنیاد پہ نہیں بلکہ عقیدہ کی بنیاد پہ مانگی گئی اور مانگی جائے گی-زبان، جغرافیہ اور رنگ و نسل کی بجائے آقا کریم (ﷺ)  نے حق تعالیٰ کا کلمہ پڑھنے والی اپنی امت کو ترجیح دی اور یہ سبق سکھایا کہ سرداریاں  اور مال و زر کی فراوانی، زبان، جغرافیہ یا قبیلہ کا ایک ہونا   پیغامِ حق کے سامنے کوئی وقعت نہیں رکھتے-کیونکہ اللہ عزوجل کی عظمت و کبریائی کے نغمے جن کے دلوں کی دھڑکنوں میں بجتے اور گونجتے ہیں ان کی نظروں میں عظیم ترین مفاد پیغامِ حق کا ہوتا ہے-عظیم ترین برادری اہلِ ایمان ہوتے ہیں-

اس لیے اپنی امت کا درد سرکار دو عالم (ﷺ) نے خود اختیار کیا اور فرمایا کہ مجھے یہ بات پسند ہے کہ میری امت کے لئے آسانیاں پیدا کی جائیں-

صحیح بخاری شریف میں حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ نبی پاک (ﷺ) نے ارشادفرمایا: [9]

’’پس اللہ نے میری امت پر پچاس نمازیں فرض کیں پس میں ان نمازوں کولے کر واپس لوٹا،حتّٰی کہ مَیں حضرت موسیٰؑ کے پاس سے گزرا-انہوں نے عرض کی آپ (ﷺ) کیلیے، آپ (ﷺ) کی امت پر اللہ پاک نے کیا فرض کیا ہے؟میں نے کہا:اللہ پاک نے پچاس نمازیں فرض کی ہیں- حضرت موسیؑ نے عرض کی:آپ (ﷺ) اپنے رب کے پاس واپس تشریف لے جائیں کیونکہ آپ (ﷺ) کی امت ان کی طاقت نہیں رکھتی -پس میں واپس آیا تواللہ پا ک نے آدھی نمازیں کم کردیں، پھر میں حضرت موسیؑ کی طرف واپس آیا اور میں نے کہا اللہ پا ک نے آدھی نمازیں کم کردیں-تو انہوں نے پھر عرض کی آپ (ﷺ) اپنے رب کے پا س واپس تشریف لے جائیں کیونکہ آپ (ﷺ) کی اُمت اس کی طاقت نہیں رکھتی-پس میں(اللہ پاک کی بارگاہ میں) واپس آیا تواللہ پا ک نے آدھی نمازیں کم کردیں پھر میں حضرت موسٰیؑ کی طرف واپس آیا-تو انہوں نے پھر عرض کی: آپ (ﷺ) اپنے رب کے پا س واپس تشریف لے جائیں کیونکہ آپ (ﷺ ) کی اُمت اس کی طاقت نہیں رکھتی میں پھر اللہ پاک کی بارگاہ میں واپس آیا تو اللہ پاک نے ارشاد فرمایا یہ(فرض)پانچ نمازیں ہیں اور (اجر) میں پچاس ہیں، میرا قول میرے نزدیک تبدیل نہیں کیا جاتا- پس میں پھر موسٰیؑ کی طرف لوٹا، تو انہوں نے کہا: آپ (ﷺ) پھر اپنے رب کے پاس تشریف لے جائیں تومیں نے کہا (اب ) مجھے اپنے رب سے حیاء آتی ہے‘‘-

یعنی  آقا کریم (ﷺ) کا بار بار خداوند کریم کی بارگاہ میں جا کر نمازو ں کی تعداد میں تخفیف کروانا فقط اس لئے تھا کہ میری امت کیلئے آسانیاں پیدا ہو جائیں  کیونکہ آسانیوں میں رحمت و برکت ہوتی ہے-

حج بھی اسی طرح کا معاملہ ہے-حضرت ابوہریرہؓ  بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ہمیں خطبہ ارشاد فرمایا پس آپ (ﷺ) نےارشادفرما یا:

’’اے لوگو!تحقیق اللہ تعالیٰ نےتم پرحج فرض فرمایا ہے پس تم حج کرو- ایک شخص نے عرض کی: یا رسول اللہ (ﷺ)! کیا حج ہرسال فرض ہے؟ آپ (ﷺ) خاموش رہے حتی کہ اس نے تین بار یہی عرض کی پھررسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا: ’’لَوْ قُلْتُ: نَعَمْ لَوَجَبَتْ، وَلَمَا اسْتَطَعْتُمْ ‘‘اگر مَیں ہاں کَہ دیتا تو حج ہر سال فرض ہو جاتا اور تم اس کی ادائیگی کی طاقت نہ رکھتے‘‘- پھر آپ (ﷺ)نے ارشادفرما یا :

’’جن چیزوں کا بیان کرنامَیں چھوڑ دیاکروں تو تم ان سے متعلق مجھ سے سوال مت کیا کروکیونکہ تم سے پہلے لوگ اس لیے ہلاک ہوئے کہ وہ انبیاء (علیھم السلام) سے بکثرت سوال کیا کرتے تھے (فَإِذَا أَمَرْتُكُمْ بِشَيْءٍ فَأْتُوْا مِنْهُ مَا اسْتَطَعْتُمْ، وَإِذَا نَهَيْتُكُمْ عَنْ شَيْءٍ فَدَعُوْهُ)  لہٰذا جب میں تم کوکسی چیز کاحکم دوں تواس پر بقدر استطاعت عمل کیا کرو اور جب میں کسی چیز سے روک دوں تواس کو چھوڑ دیا کرو‘‘-[10]

یعنی آقا کریم (ﷺ) کے فرمان سے پیغام ملا کہ اے لوگو! جو آسانی میں تمہیں اپنی بارگاہ سے عطا کرتا ہوں وہ آسانی مَیں اپنے لیے نہیں بلکہ اس لئے کرتا ہوں تا کہ تمہارے لئے یعنی میری اُمت کے حساب کو اللہ تعالیٰ آسان فرما دے-

حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ حضور نبی پاک (ﷺ)نے ارشاد فرما یا:

’’لَوْلَا أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمَّتِي لَأَمَرْتُهُمْ بِالسِّوَاكِ عِنْدَ كُلِّ وُضُوءٍ‘‘[11]

’’اگرمجھے اپنی امت پر دشوار نہ ہو تا تومیں ان کو ہر وضو کے وقت مسواک کا حکم فرما تا‘‘-

’’حضرت ابو موسٰیؓ روایت بیان کرتے ہیں کہ:

’’رسول اللہ (ﷺ) جب اپنےصحابہ کرام ؓ میں سے کسی ایک کو کسی کام کیلئے بھیجتے تو آپ (ﷺ) ارشاد فرماتے کہ:

’’بَشِّرُوْا وَلَا تُنَفِّرُوْا وَيَسِّرُوْا وَلَا تُعَسِّرُوْا‘‘[12]

’’( لوگوں کو)  بشارتیں دو، متنفر نہ کرو اور (لوگوں کے لیے) آسانیاں پیدا کرو،مشکلات پید انہ کرو‘‘-

مسند امام احمد ابن حنبلؓ میں حضرت جَسْرَة بِنْت دَجَاجَةَ ؒ سے روایت ہے:

’’ حضرت ابو ذرؓ فرما رہے تھے (کہ ایک رات) حضور نبی کریم (ﷺ) نے نمازِ عشاء پڑھائی پھر کچھ صحابہ نماز کی غرض سے وہاں مسجد میں ہی رہ گئے حضور نبی کریم (ﷺ) نے جب انہیں نمازمیں مصروف دیکھا تو آپ (ﷺ)اپنی آرام گاہ کی طرف تشریف لے آئے جب آپ (ﷺ) نے دیکھا کہ لوگ اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے تو پھر آپ (ﷺ) اپنے مصلیٰ پر آکر نماز میں مشغول ہوگئے، میں بھی آیا اور آپ (ﷺ) کے پیچھے نماز پڑھنے لگا آپ (ﷺ) نے مجھے دائیں جانب کھڑے ہونے کا اشارہ کیا تو میں دائیں جانب کھڑا ہوگیا- پھر ابن مسعودؒ آئے اور وہ ہمارے پیچھے کھڑے ہوگئے، آپ (ﷺ) نے انہیں بائیں جانب کھڑے ہونے کا اشارہ کیا تو وہ اس طرف ہوگئے- حضرت ابوذرؓ فرماتے ہیں :ہم تینوں الگ الگ اپنی نمازیں ادا کرنے لگے-

وَيَتْلُوْ مِنَ الْقُرْآنِ مَا شَاءَ اللهُ أَنْ يَتْلُوَ فَقَامَ بِآيَةٍ مِنَ الْقُرْآنِ يُرَدِّدُهَا حَتَّى صَلَّى الْغَدَاةَ

اور جب تک اللہ پاک نے چاہا کہ آپ (ﷺ) تلاوت فرمائیں تب تک آپ (ﷺ) قرآن پاک کی تلاوت فرماتے رہے پس حضور نبی کریم (ﷺ) صبح تک ایک ہی آیت کو دہراتے رہے جب صبح کی نماز ادافرمائی-

(حضرت ابوذرؓ فرماتے ہیں) کہ میں نے ابن مسعودؓ کو اشارہ کیا کہ آپ (ﷺ) سے رات بھر ایک ہی آیت کا سبب دریافت کریں انہوں نے کہا جب تک آپ (ﷺ) خود نہیں بیان فرما دیتے، مَیں نہیں پوچھوں گا- (حضرت ابوذرؓ فرماتے ہیں) کہ میں نے ذرا ہمت کرکے عرض کر ہی لیا:

فَقُلْتُ بِأَبِىْ أَنْتَ وَأُمِّىْ قُمْتَ بِآيَةٍ مِنَ الْقُرْآنِ وَمَعَكَ الْقُرْآنُ

’’یا رسول اللہ (ﷺ) میرے ماں باپ آپ (ﷺ) پر قربان، آپ (ﷺ) ایک ہی آیت کو بار بار دہراتے رہے حالانکہ سارا قرآن آپ (ﷺ) کے سینہ  مبارک میں ہے‘‘-

آپ (ﷺ) نے ارشادفرمایا :  ’’ دَعَوْتُ لِأُمَّتِىْ ‘‘

’’میں اللہ تعالیٰ سے اپنی امت کیلئے دعا کررہا تھا‘‘-

میں نے عرض کی ، یارسول اللہ (ﷺ) پھر اللہ پاک نے کیا ارشاد فرمایا-آپ (ﷺ) نے فرمایا کہ:

’’أُجِبْتُ بِالَّذِى لَوِ اطَّلَعَ عَلَيْهِ كَثِيرٌ مِّنْهُمْ طَلْعَةً تَرَكُوا الصَّلاَةَ‘‘

’’جو وعدہ مجھ سے کیا گیا ہے اگر لوگ اس پر مطلع ہو جائیں  تو اکثرنماز پڑھنا ہی چھوڑ دیں ‘‘-

میں نے عرض کی :  أَفَلاَ أُبَشِّرُ النَّاسَ قَالَ « بَلَى ».

’’کیا لوگوں کو یہ خوشخبری نہ سنادوں؟ تو آپ (ﷺ) نے فرمایا ہاں ضرور ‘‘-

میں ابھی تھوڑی دور ہی گیا تھا کہ حضرت عمرؓ عرض کرنے لگے کہ یا رسول اللہ (ﷺ)  اگر لوگوں تک یہ خوشخبری پہنچ گئی تو وہ عبادت سے ہی اعراض کرنے لگیں گے تو آپ (ﷺ) نے مجھے واپس بلالیا- اور وہ آیت یہ تھی:

’’اِنْ تُعَذِّبْہُمْ فَاِنَّہُمْ عِبَادُکَ وَاِنْ تَغْفِرْ لَہُمْ فَاِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ‘‘[13]

’’اگر توانہیں عذاب دے تو وہ تیرے (ہی) بندے ہیں اور اگر تو انہیں بخش دے تو بے شک تو ہی بڑا غالب حکمت والا ہے‘‘-[14]

امام طبرانیؒ نے المعجم الکبیر اور امام ابو عبد اللہ حاکمؒ نے مستدرک علی الصحیحین میں روایت نقل کی جسے امام حاکم نے ’’صحیح السند‘‘ قرار دیا ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا  کہ :

’’روز محشر انبیاء کرام ( ﷩) کیلئے سونے کے منبر ہوں گے جن پر وہ رونق افروز ہونگے-آپ (ﷺ)  نے فرمایا  میں اپنے منبر پر نہیں بیٹھوں گا،اپنے رب کے سامنے اس خوف سے کھڑارہوں گا کہ(أَنْ يَبْعَثَ بِي إِلَى الْجَنَّةِ وَيَبْقٰي أُمَّتِيْ مِنْ بَعْدِيْ) مبادا  مجھے جنت میں بھیج دیا جا ئے اور میری امت پیچھے رہ جائے- میں اپنے رب سے عرض کروں گا: ’’(يَا رَبِّ أُمَّتِيْ أُمَّتِيْ) اےمیرے رب میری امت ،میری امت‘‘- اللہ پاک ارشاد فرمائے گا اے محمد (ﷺ) بتاؤ میں تمہاری امت کیلئے کیا کروں- پس مَیں عرض کروں گا: ’’اے میرے رب ان کا حساب جلدی جلدی لے- تو اُن سب کو بلایا جا ئیگا اوران کا حساب لیا جائیگاپس ان میں سے کوئی تو وہ ہو گاجو اللہ پاک کی رحمت سے جنت میں داخل ہوگا اور ان میں سے کوئی تو وہ ہو گا جو میری شفاعت سے جنت میں داخل ہو گا- پس میں اللہ پاک کی بارگا ہ میں شفاعت کرتا رہوں گا حتیّ کہ جن لوگوں کو جہنم روانہ کیا جا رہا ہے میں ان کو (جنت کا)پروانہ دے دوں-یہاں تک کہ جہنم کا داروغہ کہے گا:’’يَا مُحَمَّدُ، مَا تَرَكْتَ لِلنَّارِ لِغَضَبِ رَبِّكَ فِي أُمَّتِكَ مِنْ بَقِيَّةٍ ‘‘[15]

’’اے محمّد(ﷺ)! تم نے اپنی امت پر اپنے رب کے غضب میں سے کچھ نہیں چھوڑا‘‘ هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ

امام قرطبی لکھتے ہیں کہ:

’’قیامت کے دن جہنم کی ہولناکیوں کی وجہ سے ہر ایک نَفْسِيْ نَفْسِيْ کَہ رہا ہو گا: لیکن حضور نبی کریم (ﷺ): رَبِّ أُمَّتِيْ! رَبِّ أُمَّتِيْ! فرما رہے ہوں گے‘‘-[16]

سرکار دو عالم (ﷺ) نے خود اپنی امت کے لئے آسانیاں پیدا فرمائیں-اس لئے جوآقا کریم (ﷺ) کی امت کوتکلیف میں دیکھ کر خود تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے اس شخص کو نوید ہے کیونکہ سرکار کی امت کا درد رکھنا خود سرکار دو عالم (ﷺ)کی سنت ہے-یہی وجہ ہے کہ آقا کریم (ﷺ) کی اُمت کا درد اہلِ محبت اور اہل درد کو عطا ہوتا ہے-لیکن آج یہ نام نہاد آزادی پسند (liberals) ہمیں جس محبت سے روکنا چاہتے ہیں وہ محبت ہمارے ایمان کے اجزائے اعظم میں سے ہے اور ہمارے ایمان کا خاصہ ہے-

گویا سرکار دو عالم (ﷺ) کی اُمت سے محبت کرنا، آقا کریم (ﷺ) کی ذات اقدس سے محبت کرنا ہے کیونکہ ہم سرکار کی محبت میں سرکار کی اُمت سے محبت کرتے ہیں-مثلاً ہر ایک امریکی، فرانسیسی، جرمن، ڈچ، انگریز اپنی قومیت کے اصول پہ اپنی قوم سے محبت کرتے ہیں  اسی طرح ایک عرب اپنی پوری عرب قوم کے لئے سوچتا ہے-اس لئے جب ہم یہ نظریہ اختیار کرتےہیں کہ مسلمان دنیا میں ایک الگ قوم ہے اور اپنی ایک الگ شناخت  رکھتی ہے تو دنیا کی ہر قومیّت رکھنے والے کی طرح اپنی اسلامی قومیّت سے محبت کرنا ہمارا اخلاقی اور  قانونی حق بن جاتا ہے-

لیکن جب ہم فلسطین، روہنگیا، شام اور کشمیر کی بات کرتے ہیں تو لوگ کہتے ہیں کہ یہ اپنا مسئلہ خود حل کر لیں گے آپ اپنا گھر تو ٹھیک کریں-مَیں  یہاں اس بات پہ توجہ دلانا چاہوں گا کہ  انسان کا کسی قوم، رنگ و نسل میں پیدا ہونا اس کے اختیار میں نہیں ہوتا لیکن ’’لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘کا اقرار و تصدیق  انسان اپنی عقل سلیم سے کرتا ہے-اس لئے جب انسان اسلامی قومیت کو اپنا لیتا ہے تو اس کے مطابق جہاں بھی کلمہ گو مسلمان تکلیف میں ہوگا تو انسان وہی تکلیف خود پہ بھی محسوس کرے گا-بزبانِ شاعر:

اخوت اس کو کہتے ہیں چبھے کانٹا جو کابُل میں
تو ہندوستاں کا ہر پیر و جواں بے تاب ہو جائے

آج دنیا میں کئی فتنے سر اُٹھا رہے ہیں، کئی زبانیں تراشی جا رہی ہیں اور بالخصوص جو لوگ global civilizations کو بطور ایک نظام دنیا میں رائج کرنا چاہتے ہیں ان کی نظروں میں نہ صرف اسلام بلکہ دنیا کا ہر مذہب کھٹکتا ہے - کیونکہ یہ سامراج دنیا کو ایک زبان دینا چاہتا ہے تاکہ دنیا ایک ربوٹیک مشین (پیسے کے پجاری) بن جائے-چونکہ ان نام نہاد آزادی پسندوں کے ہاں سب سے بڑی رکاوٹ عقیدہ کی شناخت  بنتا ہے-اس لئے وہ چاہتے ہیں کہ اس شناخت کو ختم کر دیا جائے-

آج کی نوجوان نسل جو اپنی زندگی کا بیشتر وقت سوشل میڈیا اور سمارٹ فونز کی سکرین پر صرف کرتی ہے، یاد رکھیں! کہ دنیا میں اب جو نظریہ کار فرما ہے اُس کا ماننا اور کہنا یہ ہے کہ دنیا میں ہماری تہذیب کو درپیش جو بھی رکاوٹ ہے اُس رکاوٹ کی خوبی کو اُس کی خامی بنا دیا جائے-

صد افسوس! کہ اسلامی تہذیب میں مسلمانوں کی خوبیوں کے جتنے بھی عناصر ہیں، مثلاً: شریعتِ مطہرہ کی پاسداری، ناموسِ رسالت، عقیدۂ ختم نبوت، جہاد، شرم و حیا، پردہ داری و چار دیواری، خداداد مملکتِ پاکستان، پاکستان کی جوہری قوت وغیرہ اُن سب کو مسلمانوں کی کمزوری بنادیا گیا ہے-

اِس لئے یاد رکھیں کہ اسلامی شناخت ہماری طاقت ہے جس دن ہم نے اسلامی شناخت کو اپنی کمزوری سمجھا اس دن کفر کا سیلاب ہمیں بہا لے جائے گا-کیونکہ اگر کسی قوم کا خزانہ یا مال و دولت  چھن جائے تو وہ واپس آسکتا ہے لیکن اگر کسی قوم کی شناخت  چھن جائے وہ واپس نہیں آسکتی-

مثلاً یہ کیسا اعجاز تھا کہ خلافتِ راشدہ ختم ہو گئی، عباسی خلافت قائم ہوگئی- سلاجقہ ختم ہوئے، عثمانی خلافت قائم ہوگئی- عثمانی خلافت ختم ہوئی  تو اسلامی نظریہ پہ پاکستان معرضِ وجود میں آ گیا اور اس کے ساتھ دنیا میں 57اسلامی ممالک وجود میں آگئے- وہ کیا چیز تھی جو ہر خلافت کے بعد خلافت، ملک کے بعد ملک اور دولت کے بعد دولت ہمیں لوٹاتی گئی؟؟؟ اس کی وجہ فقط یہ تھی کہ ہمارے سینوں میں کلمہ طیب ’’لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ‘‘پڑھنے والوں کا درد موجود تھا-لیکن جس دن یہ درد نکل گیااس دن ہماری شناخت کھوگئی-جیسا کہ علامہ اقبال نے کہا تھا کہ:

نسل اگر مسلم کی مذہب پر مقدم ہو گئی
اڑ گیا دنیا سے تو مانندِ خاکِ رہِ گزر

جس وقت انسان عارضی دنیا کو اپنے مذہب پر مقدم کر دے گا اس وقت وہ  راستے کی خاک کی طرح اپنا نام و نشان کھو بیٹھے گا-

 آج جس طرح پاکستان کو ریگستان بنا کرپاکستانی قوم کو بھوک اور پیاس میں دھکیلا جارہا ہے اگر یہ قوم خواب خرگوش میں سوئی رہی  تو بھوک پیاس اس کا مقدر بن جائے گی- دشمن کا بنیادی ہتھیار بھی یہی ہے کہ مسلمانوں  کے عقیدہ میں اتنا ابہام اور التباس پیدا کر دیا جائےکہ ان کی نسلِ نو کو راستہ نہ ملے کہ کس سمت میں فلاح ہے-

میرے دوستو! جزئیات میں اختلاف ہو سکتا ہے، مالکی کا حنبلیوں سے، حنبلی کا شافعیوں سے، شافعی  کا حنفیوں سے اور حنفی کا کسی دوسرے سے-لیکن معتزلہ کی جو جدید شکل ہے وہ وجدان و الہام کو ترک کر کے عقلی استدلال کے ساتھ چیزوں کو ثابت کر رہے ہیں- یاد رکھیں! محض عقلی استدلال پہ دلیل قائم کرکے کوئی نتیجہ نکالا جائے تو یہ تجربہ تاریخ ِ اسلام میں معتزلہ اور دیگر فلاسفہ نے کیا  مگر اس کا نتیجہ فقط کی گمراہی  نکلا-

گو کہ عقل کی اہمیت تسلیم شدہ اور اس کا انکار ناممکن ہے، علم کے تین بڑے ذرائع میں سے ایک ہے  لیکن ہم عقل کو کتاب اللہ اور مخبرِ صادق (ﷺ) کی خبر کے تابع رکھتے ہیں-اس لئے بطور مسلمان ہم قرآن و سنت کے منافی عقلی دلیل کو فقط گمراہی سمجھتے ہیں-جیسا کہ کتاب اللہ میں ہے کہ جب رب کریم نے حکم فرمایا کہ آدم (علیہ السلام)کو سجدہ کروجس کو میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا اور اس میں اپنے نور کا جوہر رکھ دیا، وہاں شیطان نے بھی بارگاہِ  الٰہی میں عقلی استدلال پیش کیا کہ یہ خاک سے بنا ہے، میں آگ سے بنا ہوں، مَیں کیونکر اس کو سجدہ کروں-اس بنیاد پہ گمراہی ابلیس کا مقدر بنی-اس لئے محض عقلی استدلال  کودین پہ ترجیح دینا گمراہی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے -

یاد رکھیں! جدیدیت  سے ہم آہنگ ہونا نہ برا  ہے اور نہ غلط- لیکن جدت کے نام پہ مغربیت میں اتنا کھو جانا کہ  اپنی اسلامی قومیت  کا اصول بھولنے لگے تو یہ غلط ہے-کیونکہ اگر ہماری اسلامی شناخت کی دولت ہمارے ہاتھوں سے چھن گئی تو پھر ہمیں اس دنیا کی تلاطم خیزی میں بچانے والا کوئی نہیں ہو گا- اسلامی قومیت کا اصول  محمد علی جناح، علامہ اقبال یا کسی اور مفّکر و دانش کا تراشیدہ نہیں ہے بلکہ یہ قومیت کا اصول آقا  کریم (ﷺ) کی شفاعت کے نظریہ سے ثابت ہوتا ہے-

یہی وجہ ہے کہ اسلام کے ہر عقیدہ کے اصول میں اسلامی قومیت کا اصول پنہا ں ہے - اس لئے ہمیں اس قومیت کا دفاع کرنا ہے اور اسی قومیت پہ اپنی شناخت کو برقرار رکھنا ہے-

اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین کی یہی دعوت ہے کہ آئیں! اس دورِ  گمراہی میں ہم اپنی شناخت اسلامی قومیت کے اصول پہ قائم کریں-آپ کے پاس جتنا وقت ہو اس تحریک کے کارکنان کے ساتھ مل کر اس اصول کو سیکھیں اور اپنی روحانی، اخلاقی، فکری اور  ملی تربیت حاصل کریں جو انسان کے وجود میں اللہ پاک کی رحمت پیدا کرتی ہے- کیونکہ مومن اپنے باطن میں جتنامضبوط ہوگا اس کے نظریات  اس قدر واضح ہوتے چلے جائیں گے-اس لئے انسان کو بعض دفعہ باطن کی مضبوطی کثرتِ مطالعہ اور بڑی بڑی ڈگریوں سے نہیں ملتی جو اسے اپنے باطن کی تطہیر اور اس کی تلاش سے مل جاتی ہے-جیسا کہ علامہ اقبال فرماتے ہیں:

اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن، اپنا تو بن
من کی دولت ہاتھ آتی ہے تو پھر جاتی نہیں
تن کی دولت چھاؤں ہے، آتا ہے دَھَن، جاتا ہے دَھَن
من کی دنیا میں نہ دیکھا میں نے افرنگی کا راج
من کی دنیا میں نہ دیکھے مَیں نے شیخ و برہَمن
پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
تُو جُھکا جب غیر کے آگے، نہ من تیرا نہ تن

یعنی اپنے باطن کو سنوار کر زندگی کا مقصد پانے کی کوشش کرو کیونکہ حدیثِ مبارکہ ہے کہ:

’’مَنْ عَرَف نَفْسَہٗ فَقَدْ عرَفَ رَبَّہٗ‘‘

’’جس نے اپنے آپ کی شناخت کرلی اس نے اپنے مولا کی شناخت کرلی‘‘-

بزبانِ سلطان العارفین حضرت سلطان باھوؒ:

ایہہ تَن ربّ سَچے دا حُجرا وِچ پَا فَقیرا جَھاتی ھو
ناں کر مِنّت خَواج خِضر دی تیرے اندر آب حیاتی ھو
شوق دا دیوا بال ہَنیرے مَتاں لَبھی وَست کھَڑاتی ھو
مرن تھِیں اگے مر رہے باھوؒ جِنہاں حَق دی رمز پِچھاتی ھو

یعنی آپؒ فرماتے ہیں کہ اپنے من میں طلبِ مولیٰ کے دیے کو روشن کرو جو اپنے اندر سے روشن و معطر ہو جاتا ہے  اور اللہ  عزوجل اس کے نور سے اس کے گردونواح کو بھی روشن  و معطر کر دیتا ہے-جیسا کہ سلطان العارفین حضرت سلطان باھوؒ فرماتے ہیں کہ :

اَندر بُوٹی مُشک مَچایا جَاں پھُلّاں تے آئی ھو

یعنی جب انسان کے باطن میں روحانیت کی بوٹی مہکتی ہے تو پھر انسان کے وجود سے وہ خوشبو برآمد ہوتی ہے جس کے ذریعے اس زمین سے بدبو کا خاتمہ ہوجاتا ہے -جس سے دنیا میں جہالت اور ظلمت کا خاتمہ ہوتا ہے-اس لئے روحانی و اخلاقی تربیت میں ہی ہماری دنیاوی و اخروی نجات ہے- اگر اس کے ساتھ ہمارا دامن وابستہ رہا تو ہم سرکار  دو عالم (ﷺ) کی بارگاہ اقدس میں بھی سُرخرو ہوکر جائیں گے اور آقا کریم (ﷺ) بھی شفاعت کرتے ہوئے ناز فرمائیں گے کہ مولا یہ میرے وہ امتی ہیں جن کے دل میری محبت و اطاعت سے سرشار تھے-

محبتِ مصطفےٰ (ﷺ) سے سرشار روحانی تربیت  سے عام انسان خواص کی صف میں چلا جاتا ہے، عام مٹی سے بھی پھول کی خوشبو آنے لگتی ہے، عام بانس  سے محبتوں کے نغمے بجنے لگتے ہیں-جیسا کہ شیخ سعدیؒ فرماتے ہیں کہ:

گِلے خوشبوئے در حمّام روزے
رسید از دستِ محبوبی بہ دستم
بدو گفتم کہ ’’مشکی یا عبیری‘‘؟
کہ از بوئے دل آویزِ تو مستم
بگفتا! من گِلے نا چیز بودم
و لیکن مدتے با گُل نشستم
جمالِ ہمنشیں در من اثر کرد
و گرنہ من ھُماں خاکم کہ ھستم

’’ایک روز ایک حمام میں ایک محبوب کے ہاتھوں سے اُتری ہوئی کچھ مٹی مجھ تک پہنچی تو وہ بہت ہی خوشبو دارتھی- مَیں نے اُس مٹی سے سوال کیا کہ تم مُشک ہو یا عنبر ہو؟ کیونکہ تمہارے اندر موجود دلکش خوشبو نے مجھے مست کر دیا ہے- اُس (مٹی)نے کہا کہ میں تو ایک ناچیز سی مٹی تھی لیکن ایک مُدّت تک ایک پُھول کی صحبت میں رہی ہوں- میرے ہمنشین کے جمال نے مجھ پر اپنا اثر فرمایا جو مجھ میں یہ خوشبو پیدا ہو گئی وگرنہ مَیں تو وہی مٹی ہی ہوں جو پہلے تھی‘‘-

یعنی اُس مٹی میں خوشبو پیدا ہوتی ہے جو پھول کی پتی پر لگ کر رہے- اس لیے ہمیں اپنے وجود میں  ایمان، توکل اور  عظمتِ انسانیت کی خوشبو پیدا کرنی ہے جس سے  ہمارا  وجود معاشرے میں خوشبو بکھیرے اور جملہ انسانیت کیلئے باعثِ  خیر ہو؛ اور یہی اصلاحی جماعت کی  دعوتِ عام ہے-

اللہ پاک ہم سب کا حامی وناصر ہو-آمین!

٭٭٭


[1](سُنن الترمذى، ابواب المناقب)

[2](الضحیٰ:4)

[3](الشورٰی:23)

[4](مسند البزار، رقم الحدیث:2268)

[5](التوبہ:128)

[6](صحیح البخاری:کتاب التوحید)

[7](المعجم الأوسط للطبرانی، رقم الحدیث:2062)

[8](الضحیٰ:5)

[9](صحیح بخاری، کتاب الصلوٰۃ)

[10]( صحیح مسلم، کتاب الحج)

[11](صحیح البخاری، کتاب الصوم)

[12](صحیح مسلم، كِتَابُ الْجِهَادِ وَالسِّيَر)

[13](المائدہ:118)

[14](مُسند احمد، ج:8، ص:554)

[15](المعجم الكبير/المعجم الأوسط / مُستدرک علی الصحیحین)

[16]( تفسير القرطبی، زیر آیت سورۃ الفجر:24)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر