حسد : اک مرضِ موذی

حسد : اک مرضِ موذی

   انسان اس  دنیا میں بود و باش اختیار کرنے کے ساتھ ہی جہاں جسمانی بیماریوں میں مبتلا ہوا وہاں ساتھ ہی روحانی و اخلاقی بیماریاں بھی آہستہ آہستہ اُسے گھیرنے لگیں جن میں جھوٹ، بغض، کینہ عداوت اور حسد وغیرہ قابل ذکر ہیں-آج موضوعِ بحث حسد رہے گا کیونکہ یہ ایک ایسی روحانی بیماری ہے جو ایمان کے ساتھ ساتھ انسان کے جسم کو بھی نا محسوس طریقے سے کھا جاتی ہےلیکن انسان اس سے نا واقف ہی رہتا ہے اور اس میں مبتلا ہو کر جہاں کبھی کبھار دوسروں کا نقصان کرتا ہے وہاں اپنا نقصان لازمی کربیٹھتا ہے-

حسد کی تعریف :

’’خدا کی تقسیم سے اختلاف رکھنا‘‘-یعنی کسی مستحق کے پاس کسی نعمت کو دیکھ کر اس سے اس نعمت کے چھن جانے کی خواہش کرنا اور اس خواہش کے زیر اثر مستحق شخص سے اس نعمت کے چھن جانے کی کوئی عملی تدبیر کرنا-یہ سب حسد ہی کے زمرے میں آتا ہے-   

حسد کا نیم متضاد رشک ہے،رشک کا معنی ہے کہ کسی کے پاس کسی نعمت کو دیکھ کر اس کی خواہش کرنا کہ یہ نعمت مجھے بھی مل جائے رشک کہلاتا ہے-حسد و رشک دونوں جذبات ہیں جن میں  باہم فرق یہ ہے کہ حسد منفی سوچ سے جنم لیتا ہے جبکہ رشک نیم مثبت سوچ کی عکاسی کرتا ہے- جبکہ حسد کا صحیح متبادل قبول و قناعت ہے جو کہ مکمل مثبت سوچ کی عکاسی ہے - یعنی کسی دوست ، رشتہ دار یا جاننے والے کے پاس کوئی چیز دیکھ کر خوش ہونا اور اس کیلئے مزید بہتری کی تمنّا کرنا -  

حسد کی شروعات :

جب حضرت آدم علیہ السلام کی عزت و تکریم کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا تو ابلیس کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ اس عزت و منصب کا حق دار تو میں ہوں ، مَیں، جس نے اتنے عرصہ عبادت کی، علم و فضل میں یکتا ہوں کہ استادِ ملائک ہوں،یہ آدم جو ابھی ابھی میرے سامنے تخلیق ہو رہا ہے یہ بھلا کہاں سے اور کس طرح  صاحب عزت ہونے جا رہا ہے،  اپنے منصب اور علم کے زعم میں ابلیس،حضرت آدم علیہ السلام سے حسد کر بیٹھا- جس نے اس کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بھی مفقود کر دی اور اپنی تخلیق آگ سے  کئے جانے اور آدم کی مٹی سے کئے جانے کو عُذر بنا کر اس کے سامنے پیش کر دیا جو جو دونوں کا خالق اور سب کچھ جاننے والا تھا، جو کسی سے کچھ پوچھنے کا روادار بھی نہیں-حسد نے عزازیل کو ابلیس بنا دیا اور پھر اس پر بس نہیں،بلکہ آدم سے حسد کے باعث ان کو اللہ پاک کی بارگاہ میں رسوا کرنے کی خاطر انہیں دانہ گندم کھانے پر اکسانے کا عمل بھی اسی حسد کے نتیجے میں تھا، تو گویا حسد ان اولین گناہوں کے دستے میں شامل تھا جن پر گناہوں کی عمارت کی بنیاد رکھی گئی-یہ سلسلہ پھر تھما نہیں،قابیل نے حسد ہی کی بناء پر ہابیل کو قتل کیا، حضرت یعقوب علیہ السلام کا اپنے بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام سےمحبت کرنے کی وجہ سے آپ کے بھائیوں نےحسد کیا اور یہ سلسلہ آج تک چل رہا ہے اور ہمارے معاشرے میں اس طرح سرایت کر چکا ہے کہ  ہر گام پر کچھ نہ کچھ ایسا دیکھنے کو ملتا ہے کہ نہ جائے ماندن، نہ پائے رفتن-

حسد کرنے کی وجوہات:

v     کمزور ایمان

بحیثیت مسلمان ہم یہ بات جانتے ہیں کہ اس دنیا میں ہر چیز عطا کرنے والی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے-اگر اللہ پاک کسی بھی شخص کو کوئی  بھی نعمت عطا کر رہا ہے اور ہمارے حصے میں وہ نعمت نہیں آ رہی  تو ہمیں اس کی تقسیم پر راضی رہنا چاہیئے کیونکہ وہ  ہم سے زیادہ جانتا ہے کہ کس کو کیا چیز عطا کرنی ہے-ہاں البتہ کسی چیز کے حصول کے لئے محنت کرنا اور اس کو پانے کی خواہش کرنا ایک فطری عمل ہے-

 

v     عدمِ برداشت و کم ظرفی

جیسا کہ حسد کی تعریف بیان کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ حسد کسی مستحق کے پاس سے نعمت کے چھن جانے کی خواہش کا نام ہے اور یہ ایک لازمی امر ہے کہ اگر کسی کے پاس کوئی نعمت ہوگی تو وہ اس نعمت کا استعمال بھی کر رہا ہو گا، جس سے اس کو فائدہ بھی ملے گا-اس فائدے کی وجہ سے ہو سکتا ہے کہ معاشرے میں  اس شخص کی عزت و وقار میں بھی اضافہ ہو اور یہ بات حاسد سے برداشت نہ ہو رہی ہو اور اس عزت و مقام کا حق دار حاسد خود کو خیال کرتا ہو جس کے باعث وہ حسد کی آگ میں جلتے ہوئے حاسدانہ رویہ کا مبتلا ہو گیا ہو-

v     منفی سوچ

حسد کی ابتداء عموماً منفی سوچ سے جنم لیتی ہے-اگر انسان کے دل میں منفی سوچ جنم نہ لے اور انسان ہر چیز کے مثبت پہلو کو دیکھے تو یقیناً وہ اس بیماری سے بچ سکتا ہے، انسان کی سوچ اور اندازِ فکر ہی اس کی قسمت کا فیصلہ کرنے میں معاون و مددگار ہوتے ہیں-اگر انسان کی سوچ اچھی اور مثبت ہو گی تو اس کی نیت میں نہ تو فتور آئے گا اور نہ اس کے اعمال بد ہوں گے- نیت کا دارومدار سوچ پر ہی ہوتا ہے نیت سوچ کے کامل ہونے اور اس پر عمل درآمد کا نام ہے- اگر سوچ اچھی ہو گی تو نیت صالح ہو گی جس پر عمل کا دارومدار ہو گا اور اگر سوچ منفی ہو گی تو نیت میں کھوٹ رہے گا اور اگر اس سے اچھا عمل بھی سرزد ہو جائے تو لاحاصل ہی رہے گا-

v     غرور و تکبر

غرور و تکبر بھی حسد کرنے کی ایک وجہ ہے، ایک شخص جب غرور و تکبر میں مبتلا ہو جائے تو وہ یہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ ہر چیز اس ہی کے لئے ہے اور ہر چیز پر اس کا ہی حق ہے کیونکہ غرور کی بیماری میں مبتلا شخص باقی افراد کو حقارت کی نگاہ سے ہی دیکھتا ہے اور اگر اسے کسی میں کوئی گُن نظر آ جائے تو وہ مغرور آدمی اس پر تلملا اٹھتا ہے کہ اس حقیر آدمی میں یہ بات کہاں سے آ گئی جبکہ اس کا حق دار تو میں تھا، تو غرور جہاں بذات خود ایک بُری بیماری ہے وہاں ہی حسد اس کو دو آتشہ کر دیتی ہے-

v     طبقاتی تفریق

طبقاتی تفریق بھی حسد کی ایک بڑی وجہ بنتی ہے - بزُعمِ خویش جو خود کو چوہدری خان مہر ملک اور نوابین و سرداروں میں شمار کرتے ہیں ان کے قرب و جوار میں اگر کوئی غریب آدمی محنت و مشقت کر کے کسی اچھے مقام کو پالے تو نام نہاد بڑوں کو طبقاتی احساسِ برتری کی وجہ سے  کلیجے میں سوئیاں چبھنی شروع ہو جاتی ہیں - بجائے اس کے کہ اُس کو داد دی جائے اور اس کیلئے دُعا گو ہوا جائے وڈیروں کو یہ بات بھلی لگتی ہے کہ کسی کی بد خواہی کی جائے - اِس کے بر عکس و متضاد بھی اکثر اوقات دیکھنے میں آیا ہے کہ اگر کوئی سفید پوش آدمی اپنی جائز آمدن سے اپنے رہن سہن کا معیار جدید اور بہتر کر لے تو بیمار ذہنیت کے پڑوسی اور جاننے والے اخلاقی بد ہضمی کی وجہ سے اور طبقاتی احساسِ کمتری کی وجہ سے حسد اور جلن کا شکار ہوجاتے ہیں - یہ دونوں رویے فی الحقیقت طبقاتی احساسِ برتری یا طبقاتی احساسِ کمتری کے باعث پیدا ہوتے ہیں اور یہ دونوں حسد کے زُمرے میں آتے ہیں-

v     نفرت و کینہ پروری

بعض اوقات کوئی شخص کسی بھی وجہ سے کسی دوسرے سے نفرت و کینہ میں مبتلا ہو جاتا ہے جو کہ بذات ِ خود بھی ایک بیماری ہے اس کینہ و نفرت کی وجہ سے بھی وہ اس کے پاس کوئی نعمت نہیں دیکھ سکتا اور حسد میں مبتلا ہو جاتا ہے-

v     دیگر وجوہات

انسانوں کی ایک کثیر تعداد اس وقت دنیا میں موجود ہے اور ایسی بہت ہی وجوہات ہیں جن کا احاطہ کرنا شاید ایک مختصر مضمون میں ممکن نہ ہو جن میں علاقائی و خاندانی عداوت وغیرہ بھی وجوہات ہو سکتیں ہیں-مثال کے طور پر پنجاب میں ایک چیز جس کو ’’شریکہ‘‘کہتے ہیں یا ایک چیز ’’برادری ازم‘‘پائی جاتی ہے جس کی وجہ تو نا قابلِ سمجھ ہے لیکن ان جذبات میں حسد ایک لازمی امر ہے-اسی طرح جتنے لوگ ہیں اتنی ہی وجوہات بھی ہو سکتی ہیں الغرض حسد ایک ایسی بیماری ہے جس سے بچنا ضروری ہے- 

 

حسد کے نقصانات :

حسد کا پہلا نقصان خود حاسد کو ہی ہوتا ہے،   حسد کرنے والاسب سے پہلے اپنے ایمان کو جلاتا ہے پھر خود  کڑھ کر اپنا خون جلاتا رہتا ہے،  اس کے سوچنے کی صلاحیت  محدود ہوتی جاتی ہے اور وہ جس سے حسد کر رہا ہوتا ہے اس کو تکلیف پہنچانے کے لئے  ہمہ وقت کوشاں رہتا ہے، جس سے اس کی زندگی ایک خاص دائرہ کار میں ہی گھومتی رہتی ہے،حاسد بعض اوقات   محسود کو نقصان پہنچانے کے لئے قبیح فعل بھی سرانجام دے دیتا ہے جو غیر قانونی نہ بھی ہوں تو غیر اخلاقی ضرور  ہوتے ہیں، جس سے حاسد کی معاشرےمیں عزت ضرور کم ہوتی ہے-لیکن اگر یہ افعال غیر قانونی ہوں تو حاسد کو اس کے کئے کی سزا بھی مل سکتی ہے، ان افعال کا تعلق تو ظاہری اور مادی دنیا سے ہے لیکن باطنی یا قلبی حوالے سے اگر دیکھا جائے تو حاسد کی نیکیاں حسد کی بناء پر جل جاتی ہیں جیسے خشک لکڑیاں آگ میں جل جاتی ہیں، اپنے مومن بھائیوں سے حسد کی بناء پر اس کو تائید الٰہی بھی نصیب نہیں ہوتی اور اس کی دعاؤں میں سے اثر اٹھ جاتا ہے، حاسد سے اللہ اور اس کا رسول(ﷺ) خوش نہیں ہوتے  اور جس سے اللہ اور اس کا رسول (ﷺ)خوش نہ ہوں وہ تو ہر لمحہ نقصان  میں ہے-اگر غور کیا جائے تو حسد خود پر ظلم کرنا ہے-

حسد:  قران و حدیث میں:

حسد کے بارے میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:

’’اَمْ یَحْسُدُوْنَ النَّاسَ عَلٰی مَآ اٰتٰھُمُ اللہُ مِنْ فَضْلِہٖ‘‘[1]

 

’’کیا وہ لوگ حسد کرتے ہیں اس پر جو اللہ نے ان کو اپنے فضل سے عطا فرمایا‘‘-

’’وَدَّکَثِیْرٌ مِّنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ لَوْ یَرُدُّوْنَکُمْ مِّنْ بَعْدِ اِیْمَانِکُمْ کُفَّارًا حَسَدًا مِّنْ عِنْدِاَنْفُسِھِمْ مِّنْ بَعْدِ مَاتَبَیَّنَ لَھُمُ الْحَقُّ فَاعْفُوْا وَاصْفَحُوْاحَتّٰی یَاْتِیَ اللہُ بِاَمْرِہٖ اِنَّ اللہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْر‘‘[2]

 

’’بہت سے اہلِ کتاب کی یہ خواہش ہے تمہارے ایمان لے آنے کے بعد پھر تمہیں کفر کی طرف لوٹا دیں، اس حسد کے باعث جو ان کے دلوں میں ہے اس کے باوجود کہ ان پر حق خوب ظاہر ہو چکا ہے، سو تم درگزر کرتے رہو اور نظرانداز کرتے رہو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم بھیج دے، بے شک اللہ ہر چیز پر کامل قدرت رکھتا ہے‘‘-

مذکورہ بالا آیات میں حسد کی بات کی گئی ہے جو دلوں تک محدود رہ کر کینہ وبغض کی شکل اختیار کر لیتا ہے،لیکن سورہ فلق میں ’’إذا حسد‘‘ کے الفاظ سے واضح ہوتاہے کہ جب وہ حسد کا عملی مظاہرہ کرنے لگے-

حسد کی مذمت میں نبی اکرم (ﷺ)سے مختلف اَحادیث مروی ہیں، مثلاً

’’کسی بندے کے دل میں ایمان اور حسد جمع نہیں ہوسکتے‘‘-[3]

’’تمہاری طرف پچھلی قوموں کی برائیاں حسد اور بغض سرایت کر آئیں گی جو مونڈ ڈالیں گی،مَیں یہ نہیں کہتاکہ یہ بالوں کومونڈ دیں گی بلکہ یہ دین کو مونڈ دیں گی‘‘-[4]

اگر غور کریں تو حسد توبہ کا الٹ بھی ہے کیونکہ توبہ کرنے سے گناہ بھی نیکیوں میں بدل سکتے ہیں جبکہ حدیث کی رو سے حسد ، کی ہوئی نیکیوں کو بھی اس طرح جلا دیتا ہے جیسے آگ لکڑیوں کو جلا دیتی ہے-

الغرض حسد ایک ایسی برائی ہے جس سے حاسد کا نقصان ہوتا ہے-مخلوقِ خدا کی برائی سوچنے والے کی نہ تو دعاؤں میں اثر ہوتاہے ، نہ ہی اسے نُصرتِ خداوندی نصیب ہوتی ہے بلکہ اللہ اور اس کے رسول(ﷺ) کی ناراضگی الگ-ہمیں اپنے گریبانوں میں جھانکنا ہو گا کہ کیا ہم کسی سے حسد تو نہیں کرتے؟اگر یہ بیماری ہم میں موجود ہو تو اس کے تدارک کے لئے ہمیں اقدامات کرنے ہوں گے کیونکہ اخلاقی  یا روحانی بیماری ایسی ہوتی ہے جس کے خاتمہ کے لئے کوشش مریض کو خود کرنا پڑتی ہے اور یہ کام آسان ہو سکتا ہے کہ اگر وہ ایسے  ولیٔ کامل کی تلاش کی خواہش بھی کرے جو اسے اپنی صحبت کے فیضان سے حسد اور اس جیسے باقی موذی امراض سے نجات دلا سکےکیونکہ  بقول شیخ سعدی (﷫):

صحبتِ صالح ترا صالح کند

 

’’صالحین کی صحبت ہی تمہیں صالح بناتی ہے‘‘-

٭٭٭


[1](النساء:54)

[2](البقرۃ:109)

[3](سنن النسائی، حدیث:2912)

[4](سنن الترمذی، حدیث:2510)

 انسان اس  دنیا میں بود و باش اختیار کرنے کے ساتھ ہی جہاں جسمانی بیماریوں میں مبتلا ہوا وہاں ساتھ ہی روحانی و اخلاقی بیماریاں بھی آہستہ آہستہ اُسے گھیرنے لگیں جن میں جھوٹ، بغض، کینہ عداوت اور حسد وغیرہ قابل ذکر ہیں-آج موضوعِ بحث حسد رہے گا کیونکہ یہ ایک ایسی روحانی بیماری ہے جو ایمان کے ساتھ ساتھ انسان کے جسم کو بھی نا محسوس طریقے سے کھا جاتی ہے لیکن انسان اس سے نا واقف ہی رہتا ہے اور اس میں مبتلا ہو کر جہاں کبھی کبھار دوسروں کا نقصان کرتا ہے وہاں اپنا نقصان لازمی کربیٹھتا ہے-

حسد کی تعریف :’’خدا کی تقسیم سے اختلاف رکھنا‘‘-یعنی کسی مستحق کے پاس کسی نعمت کو دیکھ کر اس سے اس نعمت کے چھن جانے کی خواہش کرنا اور اس خواہش کے زیر اثر مستحق شخص سے اس نعمت کے چھن جانے کی کوئی عملی تدبیر کرنا-یہ سب حسد ہی کے زمرے میں آتا ہے- 

حسد کا نیم متضاد رشک ہے،رشک کا معنی ہے کہ کسی کے پاس کسی نعمت کو دیکھ کر اس کی خواہش کرنا کہ یہ نعمت مجھے بھی مل جائے رشک کہلاتا ہے-حسد و رشک دونوں جذبات ہیں جن میں  باہم فرق یہ ہے کہ حسد منفی سوچ سے جنم لیتا ہے جبکہ رشک نیم مثبت سوچ کی عکاسی کرتا ہے- جبکہ حسد کا صحیح متبادل قبول و قناعت ہے جو کہ مکمل مثبت سوچ کی عکاسی ہے - یعنی کسی دوست ، رشتہ دار یا جاننے والے کے پاس کوئی چیز دیکھ کر خوش ہونا اور اس کیلئے مزید بہتری کی تمنّا کرنا -

حسد کی شروعات :

جب حضرت آدم علیہ السلام کی عزت و تکریم کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا تو ابلیس کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ اس عزت و منصب کا حق دار تو میں ہوں ، مَیں، جس نے اتنے عرصہ عبادت کی، علم و فضل میں یکتا ہوں کہ استادِ ملائک ہوں،یہ آدم جو ابھی ابھی میرے سامنے تخلیق ہو رہا ہے یہ بھلا کہاں سے اور کس طرح  صاحب عزت ہونے جا رہا ہے،  اپنے منصب اور علم کے زعم میں ابلیس،حضرت آدم علیہ السلام سے حسد کر بیٹھا- جس نے اس کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بھی مفقود کر دی اور اپنی تخلیق آگ سے  کئے جانے اور آدم کی مٹی سے کئے جانے کو عُذر بنا کر اس کے سامنے پیش کر دیا جو جو دونوں کا خالق اور سب کچھ جاننے والا تھا، جو کسی سے کچھ پوچھنے کا روادار بھی نہیں-حسد نے عزازیل کو ابلیس بنا دیا اور پھر اس پر بس نہیں،بلکہ آدم سے حسد کے باعث ان کو اللہ پاک کی بارگاہ میں رسوا کرنے کی خاطر انہیں دانہ گندم کھانے پر اکسانے کا عمل بھی اسی حسد کے نتیجے میں تھا، تو گویا حسد ان اولین گناہوں کے دستے میں شامل تھا جن پر گناہوں کی عمارت کی بنیاد رکھی گئی-یہ سلسلہ پھر تھما نہیں،قابیل نے حسد ہی کی بناء پر ہابیل کو قتل کیا، حضرت یعقوب علیہ السلام کا اپنے بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام سےمحبت کرنے کی وجہ سے آپ کے بھائیوں نےحسد کیا اور یہ سلسلہ آج تک چل رہا ہے اور ہمارے معاشرے میں اس طرح سرایت کر چکا ہے کہ  ہر گام پر کچھ نہ کچھ ایسا دیکھنے کو ملتا ہے کہ نہ جائے ماندن، نہ پائے رفتن-

حسد کرنے کی وجوہات:

v     کمزور ایمان

بحیثیت مسلمان ہم یہ بات جانتے ہیں کہ اس دنیا میں ہر چیز عطا کرنے والی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے-اگر اللہ پاک کسی بھی شخص کو کوئی  بھی نعمت عطا کر رہا ہے اور ہمارے حصے میں وہ نعمت نہیں آ رہی  تو ہمیں اس کی تقسیم پر راضی رہنا چاہیئے کیونکہ وہ  ہم سے زیادہ جانتا ہے کہ کس کو کیا چیز عطا کرنی ہے-ہاں البتہ کسی چیز کے حصول کے لئے محنت کرنا اور اس کو پانے کی خواہش کرنا ایک فطری عمل ہے-


v     عدمِ برداشت و کم ظرفی

جیسا کہ حسد کی تعریف بیان کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ حسد کسی مستحق کے پاس سے نعمت کے چھن جانے کی خواہش کا نام ہے اور یہ ایک لازمی امر ہے کہ اگر کسی کے پاس کوئی نعمت ہوگی تو وہ اس نعمت کا استعمال بھی کر رہا ہو گا، جس سے اس کو فائدہ بھی ملے گا-اس فائدے کی وجہ سے ہو سکتا ہے کہ معاشرے میں  اس شخص کی عزت و وقار میں بھی اضافہ ہو اور یہ بات حاسد سے برداشت نہ ہو رہی ہو اور اس عزت و مقام کا حق دار حاسد خود کو خیال کرتا ہو جس کے باعث وہ حسد کی آگ میں جلتے ہوئے حاسدانہ رویہ کا مبتلا ہو گیا ہو-

v     منفی سوچ

حسد کی ابتداء عموماً منفی سوچ سے جنم لیتی ہے-اگر انسان کے دل میں منفی سوچ جنم نہ لے اور انسان ہر چیز کے مثبت پہلو کو دیکھے تو یقیناً وہ اس بیماری سے بچ سکتا ہے، انسان کی سوچ اور اندازِ فکر ہی اس کی قسمت کا فیصلہ کرنے میں معاون و مددگار ہوتے ہیں-اگر انسان کی سوچ اچھی اور مثبت ہو گی تو اس کی نیت میں نہ تو فتور آئے گا اور نہ اس کے اعمال بد ہوں گے- نیت کا دارومدار سوچ پر ہی ہوتا ہے نیت سوچ کے کامل ہونے اور اس پر عمل درآمد کا نام ہے- اگر سوچ اچھی ہو گی تو نیت صالح ہو گی جس پر عمل کا دارومدار ہو گا اور اگر سوچ منفی ہو گی تو نیت میں کھوٹ رہے گا اور اگر اس سے اچھا عمل بھی سرزد ہو جائے تو لاحاصل ہی رہے گا-

v     غرور و تکبر

غرور و تکبر بھی حسد کرنے کی ایک وجہ ہے، ایک شخص جب غرور و تکبر میں مبتلا ہو جائے تو وہ یہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ ہر چیز اس ہی کے لئے ہے اور ہر چیز پر اس کا ہی حق ہے کیونکہ غرور کی بیماری میں مبتلا شخص باقی افراد کو حقارت کی نگاہ سے ہی دیکھتا ہے اور اگر اسے کسی میں کوئی گُن نظر آ جائے تو وہ مغرور آدمی اس پر تلملا اٹھتا ہے کہ اس حقیر آدمی میں یہ بات کہاں سے آ گئی جبکہ اس کا حق دار تو میں تھا، تو غرور جہاں بذات خود ایک بُری بیماری ہے وہاں ہی حسد اس کو دو آتشہ کر دیتی ہے-

v     طبقاتی تفریق

طبقاتی تفریق بھی حسد کی ایک بڑی وجہ بنتی ہے - بزُعمِ خویش جو خود کو چوہدری خان مہر ملک اور نوابین و سرداروں میں شمار کرتے ہیں ان کے قرب و جوار میں اگر کوئی غریب آدمی محنت و مشقت کر کے کسی اچھے مقام کو پالے تو نام نہاد بڑوں کو طبقاتی احساسِ برتری کی وجہ سے  کلیجے میں سوئیاں چبھنی شروع ہو جاتی ہیں - بجائے اس کے کہ اُس کو داد دی جائے اور اس کیلئے دُعا گو ہوا جائے وڈیروں کو یہ بات بھلی لگتی ہے کہ کسی کی بد خواہی کی جائے - اِس کے بر عکس و متضاد بھی اکثر اوقات دیکھنے میں آیا ہے کہ اگر کوئی سفید پوش آدمی اپنی جائز آمدن سے اپنے رہن سہن کا معیار جدید اور بہتر کر لے تو بیمار ذہنیت کے پڑوسی اور جاننے والے اخلاقی بد ہضمی کی وجہ سے اور طبقاتی احساسِ کمتری کی وجہ سے حسد اور جلن کا شکار ہوجاتے ہیں - یہ دونوں رویے فی الحقیقت طبقاتی احساسِ برتری یا طبقاتی احساسِ کمتری کے باعث پیدا ہوتے ہیں اور یہ دونوں حسد کے زُمرے میں آتے ہیں-

v     نفرت و کینہ پروری

بعض اوقات کوئی شخص کسی بھی وجہ سے کسی دوسرے سے نفرت و کینہ میں مبتلا ہو جاتا ہے جو کہ بذات ِ خود بھی ایک بیماری ہے اس کینہ و نفرت کی وجہ سے بھی وہ اس کے پاس کوئی نعمت نہیں دیکھ سکتا اور حسد میں مبتلا ہو جاتا ہے-

v     دیگر وجوہات

انسانوں کی ایک کثیر تعداد اس وقت دنیا میں موجود ہے اور ایسی بہت ہی وجوہات ہیں جن کا احاطہ کرنا شاید ایک مختصر مضمون میں ممکن نہ ہو جن میں علاقائی و خاندانی عداوت وغیرہ بھی وجوہات ہو سکتیں ہیں-مثال کے طور پر پنجاب میں ایک چیز جس کو ’’شریکہ‘‘کہتے ہیں یا ایک چیز ’’برادری ازم‘‘پائی جاتی ہے جس کی وجہ تو نا قابلِ سمجھ ہے لیکن ان جذبات میں حسد ایک لازمی امر ہے-اسی طرح جتنے لوگ ہیں اتنی ہی وجوہات بھی ہو سکتی ہیں الغرض حسد ایک ایسی بیماری ہے جس سے بچنا ضروری ہے- 


حسد کے نقصانات :

حسد کا پہلا نقصان خود حاسد کو ہی ہوتا ہے،   حسد کرنے والاسب سے پہلے اپنے ایمان کو جلاتا ہے پھر خود  کڑھ کر اپنا خون جلاتا رہتا ہے،  اس کے سوچنے کی صلاحیت  محدود ہوتی جاتی ہے اور وہ جس سے حسد کر رہا ہوتا ہے اس کو تکلیف پہنچانے کے لئے  ہمہ وقت کوشاں رہتا ہے، جس سے اس کی زندگی ایک خاص دائرہ کار میں ہی گھومتی رہتی ہے،حاسد بعض اوقات   محسود کو نقصان پہنچانے کے لئے قبیح فعل بھی سرانجام دے دیتا ہے جو غیر قانونی نہ بھی ہوں تو غیر اخلاقی ضرور  ہوتے ہیں، جس سے حاسد کی معاشرےمیں عزت ضرور کم ہوتی ہے-لیکن اگر یہ افعال غیر قانونی ہوں تو حاسد کو اس کے کئے کی سزا بھی مل سکتی ہے، ان افعال کا تعلق تو ظاہری اور مادی دنیا سے ہے لیکن باطنی یا قلبی حوالے سے اگر دیکھا جائے تو حاسد کی نیکیاں حسد کی بناء پر جل جاتی ہیں جیسے خشک لکڑیاں آگ میں جل جاتی ہیں، اپنے مومن بھائیوں سے حسد کی بناء پر اس کو تائید الٰہی بھی نصیب نہیں ہوتی اور اس کی دعاؤں میں سے اثر اٹھ جاتا ہے، حاسد سے اللہ اور اس کا رسول(ﷺ) خوش نہیں ہوتے  اور جس سے اللہ اور اس کا رسول (ﷺ)خوش نہ ہوں وہ تو ہر لمحہ نقصان  میں ہے-اگر غور کیا جائے تو حسد خود پر ظلم کرنا ہے-

حسد:  قران و حدیث میں:

حسد کے بارے میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:

’’اَمْ یَحْسُدُوْنَ النَّاسَ عَلٰی مَآ اٰتٰھُمُ اللہُ مِنْ فَضْلِہٖ‘‘[1]

 

’’کیا وہ لوگ حسد کرتے ہیں اس پر جو اللہ نے ان کو اپنے فضل سے عطا فرمایا‘‘-

’’وَدَّکَثِیْرٌ مِّنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ لَوْ یَرُدُّوْنَکُمْ مِّنْ بَعْدِ اِیْمَانِکُمْ کُفَّارًا حَسَدًا مِّنْ عِنْدِاَنْفُسِھِمْ مِّنْ بَعْدِ مَاتَبَیَّنَ لَھُمُ الْحَقُّ فَاعْفُوْا وَاصْفَحُوْاحَتّٰی یَاْتِیَ اللہُ بِاَمْرِہٖ اِنَّ اللہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْر‘‘[2]

 

’’بہت سے اہلِ کتاب کی یہ خواہش ہے تمہارے ایمان لے آنے کے بعد پھر تمہیں کفر کی طرف لوٹا دیں، اس حسد کے باعث جو ان کے دلوں میں ہے اس کے باوجود کہ ان پر حق خوب ظاہر ہو چکا ہے، سو تم درگزر کرتے رہو اور نظرانداز کرتے رہو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم بھیج دے، بے شک اللہ ہر چیز پر کامل قدرت رکھتا ہے‘‘-

مذکورہ بالا آیات میں حسد کی بات کی گئی ہے جو دلوں تک محدود رہ کر کینہ وبغض کی شکل اختیار کر لیتا ہے،لیکن سورہ فلق میں ’’إذا حسد‘‘ کے الفاظ سے واضح ہوتاہے کہ جب وہ حسد کا عملی مظاہرہ کرنے لگے-

حسد کی مذمت میں نبی اکرم (ﷺ)سے مختلف اَحادیث مروی ہیں، مثلاً

’’کسی بندے کے دل میں ایمان اور حسد جمع نہیں ہوسکتے‘‘-[3]

’’تمہاری طرف پچھلی قوموں کی برائیاں حسد اور بغض سرایت کر آئیں گی جو مونڈ ڈالیں گی،مَیں یہ نہیں کہتاکہ یہ بالوں کومونڈ دیں گی بلکہ یہ دین کو مونڈ دیں گی‘‘-[4]

اگر غور کریں تو حسد توبہ کا الٹ بھی ہے کیونکہ توبہ کرنے سے گناہ بھی نیکیوں میں بدل سکتے ہیں جبکہ حدیث کی رو سے حسد ، کی ہوئی نیکیوں کو بھی اس طرح جلا دیتا ہے جیسے آگ لکڑیوں کو جلا دیتی ہے-

الغرض حسد ایک ایسی برائی ہے جس سے حاسد کا نقصان ہوتا ہے-مخلوقِ خدا کی برائی سوچنے والے کی نہ تو دعاؤں میں اثر ہوتاہے ، نہ ہی اسے نُصرتِ خداوندی نصیب ہوتی ہے بلکہ اللہ اور اس کے رسول(ﷺ) کی ناراضگی الگ-ہمیں اپنے گریبانوں میں جھانکنا ہو گا کہ کیا ہم کسی سے حسد تو نہیں کرتے؟اگر یہ بیماری ہم میں موجود ہو تو اس کے تدارک کے لئے ہمیں اقدامات کرنے ہوں گے کیونکہ اخلاقی  یا روحانی بیماری ایسی ہوتی ہے جس کے خاتمہ کے لئے کوشش مریض کو خود کرنا پڑتی ہے اور یہ کام آسان ہو سکتا ہے کہ اگر وہ ایسے  ولیٔ کامل کی تلاش کی خواہش بھی کرے جو اسے اپنی صحبت کے فیضان سے حسد اور اس جیسے باقی موذی امراض سے نجات دلا سکےکیونکہ  بقول شیخ سعدی (﷫):

صحبتِ صالح ترا صالح کند

 

’’صالحین کی صحبت ہی تمہیں صالح بناتی ہے‘‘-

٭٭٭



[1](النساء:54)

[2](البقرۃ:109)

[3](سنن النسائی، حدیث:2912)

[4](سنن الترمذی، حدیث:2510)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر