دین کے نمائندے اور دینی رویے

دین کے نمائندے اور دینی رویے

دین کے نمائندے اور دینی رویے

مصنف: مفتی محمد شیرالقادری ستمبر 2017

  ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللہِ الْاِسْلَامُ‘‘[1]

 

’’بے شک دین اﷲ کے نزدیک اسلام ہی ہے ‘‘- 

اس کے علاوہ کوئی دین   بارگاہِ صمدیت میں  قبول نہیں کیا جائے گاجس پر قرآن کریم ان الفاظ میں شہادت پیش کرتا ہے کہ:

’’وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّـقْبَلَ مِنْہُ  وَھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ‘‘[2]

 

’’اور جو کوئی اسلام کے سوا کسی اور دین کو چاہے گا تو وہ اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا‘‘-

اسی دین کی ترویج و اشاعت کے لئےاللہ تعالیٰ نے سلسلہ نبوت و رسالت کا اجراء فرمایا کیونکہ اس کے علاوہ انسان کی کامیابی کسی اور راستے پر چلنے  میں ممکن نہیں ہے-سیدنا  حضرت عمرفاروق (رضی اللہ عنہ)سیدنا  حضرت ابو عبیدہ بن جراح(رضی اللہ عنہ)کو مخاطب ہوکر فرماتے ہیں کہ:

’’انا کنا اذل قوم  فأعزنا اللہ بالاسلام فمھما نطلب العز بغیر ما أعزنا اللہ بہ أذلنا اللہ‘‘[3]

 

’’بیشک ہم ذلیل و رسوا قوم تھے پس اللہ تعالیٰ نے اسلام کے ذریعے ہم کو عزت عطا فرمائی پس جب ہم عزت طلب کریں گے اس کے بغیرجس کے ساتھ اللہ نے ہم کو عزت دی تو اللہ ہم کو ذلیل کردے گا‘‘-

اگر ہم اس دینِ اسلام کو ایک جملے میں سمجھنا چاہیں  کہ اسلام کیا چیز ہے ؟ تو وہ  جملہ   یہ ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ) کی کامل اطاعت و فرمانبرداری کا نام اسلام ہے- جب حضور نبی کریم ()  کی بارگاہ مبارک میں  تورات شریف پڑھی جا رہی تھی تو آپ () کی ذات پاک  پر  ناگوار و گراں  گزر رہا تھا   تو اس وقت  آپ () نے صحابہ کرام (رضی اللہ عنہ) کو تنبیہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

و الذی نفسُ محمدٍ بیدہ لو بدالکم موسی فاتبعتموہ و ترکتمونی لضللتم عن سواء السبیل  لو کان حیًّا و ادرک نبوّتی لا تبعنی‘‘[4]

 

’’اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں محمد () کی جان ہےاگر (حضرت)موسیٰ علیہ السلام آج ظاہر ہوجائیں اور تم ان کی پیروی کرو اور میری پیروی چھوڑ دو تو سیدھے راستے سے بھٹک جاؤ گے،اگر (حضرت) موسیٰ (علیہ السلام)(بظاہراً) زندہ ہوتے اور میری نبوت پاتے تو  انہیں بھی میری پیروی  کرنے کے بغیر کوئی چارہ نہ ہوتا‘‘-

حضور نبی کریم (ﷺ) کی مکمل اطاعت و فرمانبرداری سے متعلق ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’وَمَآ اٰتٰـکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَہٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا‘‘[5]

 

’’اور جو کچھ رسول() تمہیں عطا فرمائیں سو اُسے لے لیا کرو اور جس سے تمہیں منع فرمائیں سو (اُس سے) رُک جایا کرو‘‘-

اس کی مزید وضاحت حضور نبی کریم ()  کے اس  ارشاد گرامی سے  ہو جاتی ہے  آپ  ()   نے  فرمایا:

’’لا یومن احد کم حتی یکون ھواہ تبعالما جئت بہ‘‘-[6]

 

’’تم میں سے کوئی ایک بھی مومن نہیں ہوسکتاجب تک اپنی خواہشات کو میرے لائے ہوئے دین کے تابع نہ کردے‘‘-

آپ () کی اطاعت و فرمانبرداری کا کامل نمونہ صحابہ کرام(رضی اللہ عنہ) تھے-اس لئے حضور نبی کریم() نےصحابہ کرام کے راستے کو اپنانے کا حکم فرمایا:

’’فعلیکم بسنتی و سنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین‘‘[7]

 

’’پس تم میری اور ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت کو لازم پکڑو‘‘-

اگر دیکھا جائے تو امت مسلمہ میں سے اس حدیث پاک کا عملی مصداق اولیاء اللہ اور علماء دین ہیں یہی اسلام کی مکمل شناخت،پہچان   اور نائبان رسول (ﷺ) ہیں -  یہی وہ گروہ ہے  جس کے حق ہونے  اور ہمیشہ  حق پر رہنے  کی خبر  آپ ()   نے  ان الفاظ مبارک میں بیان فرمائی -

’’وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ لاَ نَبِىَّ بَعْدِى وَلاَ تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِى عَلَى الْحَقِّ ظَاهِرِينَ لاَ يَضُرُّهُمْ مَنْ خَالَفَهُمْ حَتَّى يَأْتِىَ أَمْرُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ‘‘[8]

 

فرمایا : میں آخری نبی ہوں  میرے بعد کوئی  نبی نہیں  اور میری امت کا ایک  گروہ  ہمیشہ حق پر رہے گا  سب پر غالب ، ان کا مخالف انہیں نقصان نہ پہنچا سکے گا -

اس کی  مزید تصدیق حضور نبی کریم() کے اس ارشاد مبارک سے  بھی ہو  جاتی ہے فرمایا :

’’ان العلماء ورثۃ الانبیاء‘‘[9]

 

’’بے شک علماء کرام انبیاء (﷩) کے وارث ہیں‘‘-

حضور نبی کریم ()  نے عالم کی فضیلت کوبیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

’’ان اللہ و ملائکۃ و اھل  السموت و الارض حتی النملۃ فی حجرھا و حتی الحوت لیصلون علی معلم الناس الخیر‘‘[10]

 

’’بے شک اللہ اور اس کے فرشتےاور آسمان و زمین والے حتی کے چیونٹیاں اپنے سوراخوں میں اور مچھلیاں (پانی میں) صلوٰۃبھیجتے ہیں علم دین سکھانے والےپر‘‘-

حضور نبی کریم (ﷺ) نےاللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر علم دین پڑھنے کی فضیلت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

’’من جاءہ الموت و ھو یطلب العلم لیحیی بہ الاسلام فبینہ وبین النبین درجۃ واحدۃ فی الجنۃ‘‘[11]

 

’’جسے موت اس حالت میں آئے کہ وہ اسلام زندہ کرنے کے لئے علم سیکھ  رہا ہو تو جنت میں اس کے اور انبیاء(علیہم السلام) کے درمیان ایک درجہ ہوگا‘‘-

یہی  وہ   مذہبی طبقہ ہے  جن کی بابت اسلام پروان چڑھتا ہے  یہی اسلام کی آن اور شان ہیں انہی کے بارے  آپ  (ﷺ) نے ارشاد فرمایا  جس کو  علامہ ابن حجر عسقلانی(رحنمتہ اللہ علیہ)’’لسان المیزان‘‘ اور امام ذہبی (رحمتہ اللہ علیہ) ’’میزان الاعتدال‘‘ میں نقل فرمایا ہے - کہ حضور نبی کریم() نے ارشاد فرمایا:

’’من زار عالما فکانمازارنی ومن عانق عالما فکانما عانقنی‘‘[12]

 

’’جس نے عالم دین کی زیارت کی گویااس نےمیری زیارت کی اور جس شخص نےعالم دین  کے ساتھ معانقہ کیا پس گویا اس نے میرے ساتھ معانقہ کیا‘‘-

لیکن بد قسمتی سے  یہ وقت ہم نے دیکھنا ہو گا   کہ علم دین کو دنیا کے حصول  اور دنیاوی نام و ناموس  کی خاطر پڑھا جا رہا ہے اور جس علم کا مقصد محض معاش اور دنیاوی غرض وغایت ہو اس علم کے نتائج مفکرِ اسلام علامہ اقبال ؒ نے ان الفاظ میں بیان فرمائے:

وہ علم نہیں زہر ہے احرار کے حق میں

 

جس علم کا حاصل ہو جہاں میں دو کف جو[13]

حضور نبی کریم()   نے علم دین کو حصولِ دنیا کی خاطر  پڑھنے والے شخص کے بارے میں ارشاد فرمایا  :

’’من تعلم علما یبتغی بہ وجہ اللہ لا یتعلمہ الا لیصیب بہ عرضا من الدنیا لم یجد عرف الجنۃ یوم القیامۃ یعنی ریحھا‘‘[14]

 

’’جو کوئی وہ علم سیکھے جس سے اللہ تعالیٰ کی رضاحاصل کی جاتی ہے صرف اس لئے کہ اس سے دنیاوی سامان حاصل کرے وہ قیامت کے دن جنت کی خوشبو نہ پائے گا‘‘-

’’سنن النسائی اور سنن ترمذی ‘‘میں حضرت عبد اللہ بن عمر(رضی اللہ عنہ) سے روایت  ہے کہ حضور نبی کریم(ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’من تعلم علما لغیر اللہ او ارادبہ غیر اللہ فلینتبوأ مقعدہ من النار‘‘[15]

 

جس شخص نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے سوا کسی اور مقصد کےلئے علم حاصل کیا پس وہ اپنا ٹھکانا جہنم بنا لے‘‘-

حضرت عمر بن خطاب (رضی اللہ عنہ) نےحضرت کعب (رضی اللہ عنہ) سے پوچھا:

’’فما اخرج العلم من قلوب العلماء ‘‘؟،قال الطمع‘‘[16]

 

’’کہ علماء کے دل سےعلم کو کس چیز نے نکال دیا ،عرض کی  : لالچ نے‘‘-

آج کے اِس گئے گزرے دور میں بھی اِس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ مخلص و باکردار علما اور طرزِ اَسلاف کی یاد گار صاحبانِ نگاہ مشائخ سے اُمت کی صفیں کُلیّتاً خالی نہیں ہیں (خال خال اِس قوم میں اب بھی نظر آتے ہیں وہ - کرتے ہیں اشکِ سحر گاہی سے جو ظالم وضُو) - مگر بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ چند کالی بھیڑیں مذہبی طبقہ کے لبادے میں  نام نہاد  مشائخ ، علماء  اور واعظین و پیشہ ور ثناخوان  مذہب اور دین کو پیشہ وارانہ  طریقہ سے استعمال کررہے ہیں -ان کی زندگی کا سوائے دولت و اقتدار کے کوئی مقصد ہی نہیں ہے   نہ دین ، نہ ملک اور نہ قوم –پھر وہ اپنا انجام بھی احادیثِ رسول کریم (ﷺ) میں دیکھ لے- داعیانِ دین و سُنّت کی ذاتی زندگی اور خانگی ماحول اُن کی دعوت میں اِخلاص کا سب سے بڑا مظہر ہوتا ہے کہ جس بات کے وہ پرچارک ہیں ، خود اُن میں اور اُن کے خانگی ماحول میں وہ بات کس حد تک سمائی ہوئی نظر آتی ہے-خاص کر فی زمانہ ذرائع ابلاغ کے عام، وافر اور سستے ہونے کے بعد کس کس نے اپنی آئندہ نسل کو اسلاف کی روش پہ چلانے کی کامیاب سعی کی ہے-مختلف ذرائع ابلاغ کے عام ہوجانے سے عوامی شعور بہت بلند ہوا ہے اِس لئے مذہب ایک بُنیادی فلسفۂ زندگی کے طور پہ بہت ڈسکس ہوتا ہے جس کے نمائندہ ہونے کے ناطے مذہبی طبقہ بطورِ خاص ’’مخصوص آنکھ‘‘ سے دیکھا جاتا ہے-دین چونکہ انسانیت کی تکمیل کی دعوت دیتا ہے اِس لئے دعوت کا فریضہ سر انجام دینے والوں سے لوگ یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ اس کے کامل سانچے میں کامل طور پہ ڈھلے ہونگے-خاص کر دینی سیاست کرنے والے، کیونکہ وہ زندگی کے عملی معاملات کا دین کی روشنی میں سیاسی حل پیش کرتے ہیں-مگر جب وہاں سے بنامِ دین ’’ہاتھ کرنے‘‘  کی خبریں آتی ہیں، قتل و غارت اور فتنہ و فساد کا درس دیا جاتا ہے، شدت، تعصب اور نفرت کو بھڑکایا جاتا ہے، بالواسطہ یا بلا واسطہ سامراجی قوتوں کا تزویراتی آلہ کار بنا جاتا ہے تو عام لوگ دینی طبقہ سے دوری اختیار کرتے ہیں جس سے وہ ملحدین کا نرم شکار بن جاتے ہیں-

امام حاکم ’’المستدرک علی الصحیحین‘‘ میں نقل کرتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق (رضی اللہ عنہ) نے خطبہ ارشاد فرمایا کہ : ’’میں اپنے بعد سب سے زیادہ جس چیز کی فکر کرتا ہوں وہ یہ ہے کہ تم میں سے  کسی بے قصور شخص کو پکڑ لیا جائے گااور اس کو اونٹ کی طرح ذبح کیا جائے گا اور اونٹ کی طرح اس کا گوشت پکایا جائے گا اور اس کو مجرم قرار دیا جائے گا حالانکہ وہ مجرم نہیں ہوگا‘‘ -حضرت علی (رضی اللہ عنہ)خطبہ سن رہے تھے-آپ (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا: ’’اے امیر المومنین! یہ حالات کب ہوں گے؟ اورآزمائشیں سخت کیوں ہوں گی؟غیرت غالب کیوں ہوگی؟ اور  بچوں کوقیدی کیوں بنایا جائے گا؟ اور فتنے ان کو یوں پیس کر رکھ دیں گے جیسے چکی اپنے نچلے پاٹ کو کچل دیتی ہے اور جیسے آگ لکڑیوں کو بھسم کردیتی ہے‘‘ -امیر المومنین (رضی اللہ عنہ) نےکہا ’’اے علی(رضی اللہ عنہ)(آپ ارشاد فرمائیں)! یہ واقعات کب ہوں گے؟‘‘ حضرت علی (رضی اللہ عنہ) نے ارشادفرمایا:

’’اذا تفقہ المتفقہ لغیر الدین و تعلم المتعلم لغیر العمل و التمست الدنیا بعمل الاخرۃ‘‘[17]

 

’’جب علماء دین کے تحصیل علم کا مقصد دین کے علاوہ ہوگااور طالب علم کے تحصیل علم کا مقصد عمل نہیں ہوگا اور آخرت والے عمل کے ذریعے دنیا کمائی جائے گی‘‘-

حضرت  معاذ بن جبل(رضی اللہ عنہ)فرماتے ہیں  کہ میں نے  رسول اللہ (ﷺ) سے سنا ہے  کہ  آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا ہے کہ میں سب سے زیادہ اپنی امت پر تین (3) چیزوں کا خوف کرتا ہوں:

’’زَلَّةُ عَالِمٍ، وَجِدَالُ مُنَافِقٍ بِالْقُرْآنِ، وَدُنْيَا تُفْتَحُ عَلَيْكُمْ‘‘[18]

 

’’عالم دین کا پھسلنا، منافق کا قرآن کے ساتھ جھگڑنا اور دنیا جو تم پر کھول دی جائے گی‘‘-

حضرت زیاد بن حدیر(رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ مجھ سے حضرت عمر فاروق (رضی اللہ عنہ) نے پوچھا :

’’ھل تعریف ما یھدم الاسلام؟‘‘، ’’کیا تم جانتے ہو کہ اسلام کو کیا چیز گراتی ہے‘‘-مَیں نے عرض کیا کہ نہیں،توحضرت عمر فاروق (رضی اللہ عنہ) نےفرمایا: یھدمہ زلۃ العالم و جدال المنافق بالکتاب و حکم الائمۃ المضلین‘‘، ’’عالم دین  کا پھسلنا، منافق کا کتاب کے ساتھ جھگڑنا اور گمراہ  آئمہ کا حکم ، اسلام کو تباہ کرتا ہے‘‘-[19]

’’یھدمہ زلۃ العالم‘‘،عالم دین کا پھسلنا اسلام کو تباہ کرتا ہے کیونکہ اسلام کی پہچان اور شناخت علماء و مشائخ کے ساتھ وابستہ ہےاور پورا معاشرہ اسلام کے معاملہ میں انہی کی اقتداء کرتاہے-اس لئے یہ طبقہ اسلام کے ساتھ جتنا زیادہ وابستہ ہوگا لوگ اسلام پر اتنے زیادہ عمل پیرا نظر آئیں گے-اگر ان کے طرزِعمل میں دین کو ثانوی درجہ حاصل ہوگا تو ان کی یہ روش لوگوں میں اسلام پر، مذہب پر، دین پر اور قرآن و شریعت پر ، بلا خوف و خطر بات کرنے میں جرأت پیدا کرے گی اور اسلام سے آزادی کا عنصر لوگوں کے ذہن میں پیدا ہوجائے گا جو اسلام کو تباہ کرنے کے مترادف ہے-اس لئے عالم دین کے پھسلنے کو اسلام کا تباہ کرنا فرمایا گیا ہے-

٭٭٭

 



[1](العمران:19)

[2](العمران:85)

[3](المستدرک علی الصحیحین، کتاب الایمان)

[4]( سنن دارمی، کتاب المقدمہ)

[5](الحشر:7)

[6](شرح السنہ:کتاب الایمان)

[7](سنن ترمذی، کتاب العلم)

[8](مسند احمد، رقم حدیث:23058)

[9](سنن ابی داؤد، کتاب العلم)

[10](سنن الترمذی، کتاب العلم)

[11]( سنن دارمی، کتاب المقدمہ)

[12](میزان الاعتدال، ج:4، ص:234)

[13](ضربِ کلیم)

[14](مشکوٰۃ المصابیح، کتاب العلم)

[15](سنن نسائی، کتاب اھل العلم بالعلم)

[16](سنن دارمی، کتاب المقدمہ)

[17](المستدرک علی الصحیحین، کتاب الفتن)

[18](المعجم الکبیرللطبرانی،ج:8، ص:451)

[19](سنن الدارمی، کتاب المقدمہ)

 ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللہِ الْاِسْلَامُ‘‘[1]

 

’’بے شک دین اﷲ کے نزدیک اسلام ہی ہے ‘‘-

اس کے علاوہ کوئی دین   بارگاہِ صمدیت میں  قبول نہیں کیا جائے گاجس پر قرآن کریم ان الفاظ میں شہادت پیش کرتا ہے کہ:

’’وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّـقْبَلَ مِنْہُ  وَھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ‘‘[2]

 

’’اور جو کوئی اسلام کے سوا کسی اور دین کو چاہے گا تو وہ اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا‘‘-

اسی دین کی ترویج و اشاعت کے لئےاللہ تعالیٰ نے سلسلہ نبوت و رسالت کا اجراء فرمایا کیونکہ اس کے علاوہ انسان کی کامیابی کسی اور راستے پر چلنے  میں ممکن نہیں ہے-سیدنا  حضرت عمرفاروق (﷜)سیدنا  حضرت ابو عبیدہ بن جراح(﷜)کو مخاطب ہوکر فرماتے ہیں کہ:

’’انا کنا اذل قوم  فأعزنا اللہ بالاسلام فمھما نطلب العز بغیر ما أعزنا اللہ بہ أذلنا اللہ‘‘[3]

 

’’بیشک ہم ذلیل و رسوا قوم تھے پس اللہ تعالیٰ نے اسلام کے ذریعے ہم کو عزت عطا فرمائی پس جب ہم عزت طلب کریں گے اس کے بغیرجس کے ساتھ اللہ نے ہم کو عزت دی تو اللہ ہم کو ذلیل کردے گا‘‘-

اگر ہم اس دینِ اسلام کو ایک جملے میں سمجھنا چاہیں  کہ اسلام کیا چیز ہے ؟ تو وہ  جملہ   یہ ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ) کی کامل اطاعت و فرمانبرداری کا نام اسلام ہے- جب حضور نبی کریم ()  کی بارگاہ مبارک میں  تورات شریف پڑھی جا رہی تھی تو آپ () کی ذات پاک  پر  ناگوار و گراں  گزر رہا تھا   تو اس وقت  آپ () نے صحابہ کرام (﷢) کو تنبیہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

و الذی نفسُ محمدٍ بیدہ لو بدالکم موسی فاتبعتموہ و ترکتمونی لضللتم عن سواء السبیل  لو کان حیًّا و ادرک نبوّتی لا تبعنی‘‘[4]

 

’’اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں محمد () کی جان ہےاگر (حضرت)موسیٰ علیہ السلام آج ظاہر ہوجائیں اور تم ان کی پیروی کرو اور میری پیروی چھوڑ دو تو سیدھے راستے سے بھٹک جاؤ گے،اگر (حضرت) موسیٰ (علیہ السلام)(بظاہراً) زندہ ہوتے اور میری نبوت پاتے تو  انہیں بھی میری پیروی  کرنے کے بغیر کوئی چارہ نہ ہوتا‘‘-

حضور نبی کریم (ﷺ) کی مکمل اطاعت و فرمانبرداری سے متعلق ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’وَمَآ اٰتٰـکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَہٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا‘‘[5]

 

’’اور جو کچھ رسول() تمہیں عطا فرمائیں سو اُسے لے لیا کرو اور جس سے تمہیں منع فرمائیں سو (اُس سے) رُک جایا کرو‘‘-

اس کی مزید وضاحت حضور نبی کریم ()  کے اس  ارشاد گرامی سے  ہو جاتی ہے  آپ  ()   نے  فرمایا:

’’لا یومن احد کم حتی یکون ھواہ تبعالما جئت بہ‘‘-[6]

 

’’تم میں سے کوئی ایک بھی مومن نہیں ہوسکتاجب تک اپنی خواہشات کو میرے لائے ہوئے دین کے تابع نہ کردے‘‘-

آپ () کی اطاعت و فرمانبرداری کا کامل نمونہ صحابہ کرام(﷢) تھے-اس لئے حضور نبی کریم() نےصحابہ کرام کے راستے کو اپنانے کا حکم فرمایا:

’’فعلیکم بسنتی و سنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین‘‘[7]

 

’’پس تم میری اور ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت کو لازم پکڑو‘‘-

اگر دیکھا جائے تو امت مسلمہ میں سے اس حدیث پاک کا عملی مصداق اولیاء اللہ اور علماء دین ہیں یہی اسلام کی مکمل شناخت،پہچان   اور نائبان رسول (ﷺ) ہیں -  یہی وہ گروہ ہے  جس کے حق ہونے  اور ہمیشہ  حق پر رہنے  کی خبر  آپ ()   نے  ان الفاظ مبارک میں بیان فرمائی -

’’وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ لاَ نَبِىَّ بَعْدِى وَلاَ تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِى عَلَى الْحَقِّ ظَاهِرِينَ لاَ يَضُرُّهُمْ مَنْ خَالَفَهُمْ حَتَّى يَأْتِىَ أَمْرُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ‘‘[8]

 

فرمایا : میں آخری نبی ہوں  میرے بعد کوئی  نبی نہیں  اور میری امت کا ایک  گروہ  ہمیشہ حق پر رہے گا  سب پر غالب ، ان کا مخالف انہیں نقصان نہ پہنچا سکے گا -

اس کی  مزید تصدیق حضور نبی کریم() کے اس ارشاد مبارک سے  بھی ہو  جاتی ہے فرمایا :

’’ان العلماء ورثۃ الانبیاء‘‘[9]

 

’’بے شک علماء کرام انبیاء (﷩) کے وارث ہیں‘‘-

حضور نبی کریم ()  نے عالم کی فضیلت کوبیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

’’ان اللہ و ملائکۃ و اھل  السموت و الارض حتی النملۃ فی حجرھا و حتی الحوت لیصلون علی معلم الناس الخیر‘‘[10]

 

’’بے شک اللہ اور اس کے فرشتےاور آسمان و زمین والے حتی کے چیونٹیاں اپنے سوراخوں میں اور مچھلیاں (پانی میں) صلوٰۃبھیجتے ہیں علم دین سکھانے والےپر‘‘-

حضور نبی کریم (ﷺ) نےاللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر علم دین پڑھنے کی فضیلت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

’’من جاءہ الموت و ھو یطلب العلم لیحیی بہ الاسلام فبینہ وبین النبین درجۃ واحدۃ فی الجنۃ‘‘[11]

 

’’جسے موت اس حالت میں آئے کہ وہ اسلام زندہ کرنے کے لئے علم سیکھ  رہا ہو تو جنت میں اس کے اور انبیاء(﷩) کے درمیان ایک درجہ ہوگا‘‘-

یہی  وہ   مذہبی طبقہ ہے  جن کی بابت اسلام پروان چڑھتا ہے  یہی اسلام کی آن اور شان ہیں انہی کے بارے  آپ  (ﷺ) نے ارشاد فرمایا  جس کو  علامہ ابن حجر عسقلانی(﷫)’’لسان المیزان‘‘ اور امام ذہبی (﷫) ’’میزان الاعتدال‘‘ میں نقل فرمایا ہے - کہ حضور نبی کریم() نے ارشاد فرمایا:

’’من زار عالما فکانمازارنی ومن عانق عالما فکانما عانقنی‘‘[12]

 

’’جس نے عالم دین کی زیارت کی گویااس نےمیری زیارت کی اور جس شخص نےعالم دین  کے ساتھ معانقہ کیا پس گویا اس نے میرے ساتھ معانقہ کیا‘‘-

لیکن بد قسمتی سے  یہ وقت ہم نے دیکھنا ہو گا   کہ علم دین کو دنیا کے حصول  اور دنیاوی نام و ناموس  کی خاطر پڑھا جا رہا ہے اور جس علم کا مقصد محض معاش اور دنیاوی غرض وغایت ہو اس علم کے نتائج مفکرِ اسلام علامہ اقبال(﷫) نے ان الفاظ میں بیان فرمائے:

وہ علم نہیں زہر ہے احرار کے حق میں

 

جس علم کا حاصل ہو جہاں میں دو کف جو[13]

حضور نبی کریم()   نے علم دین کو حصولِ دنیا کی خاطر  پڑھنے والے شخص کے بارے میں ارشاد فرمایا  :

’’من تعلم علما یبتغی بہ وجہ اللہ لا یتعلمہ الا لیصیب بہ عرضا من الدنیا لم یجد عرف الجنۃ یوم القیامۃ یعنی ریحھا‘‘[14]

 

’’جو کوئی وہ علم سیکھے جس سے اللہ تعالیٰ کی رضاحاصل کی جاتی ہے صرف اس لئے کہ اس سے دنیاوی سامان حاصل کرے وہ قیامت کے دن جنت کی خوشبو نہ پائے گا‘‘-

’’سنن النسائی اور سنن ترمذی ‘‘میں حضرت عبد اللہ بن عمر (﷜) سے روایت  ہے کہ حضور نبی کریم(ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’من تعلم علما لغیر اللہ او ارادبہ غیر اللہ فلینتبوأ مقعدہ من النار‘‘[15]

 

جس شخص نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے سوا کسی اور مقصد کےلئے علم حاصل کیا پس وہ اپنا ٹھکانا جہنم بنا لے‘‘-

حضرت عمر بن خطاب (﷜) نےحضرت کعب (﷜) سے پوچھا:

’’فما اخرج العلم من قلوب العلماء ‘‘؟،قال الطمع‘‘[16]

 

’’کہ علماء کے دل سےعلم کو کس چیز نے نکال دیا ،عرض کی  : لالچ نے‘‘-

آج کے اِس گئے گزرے دور میں بھی اِس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ مخلص و باکردار علما اور طرزِ اَسلاف کی یاد گار صاحبانِ نگاہ مشائخ سے اُمت کی صفیں کُلیّتاً خالی نہیں ہیں (خال خال اِس قوم میں اب بھی نظر آتے ہیں وہ - کرتے ہیں اشکِ سحر گاہی سے جو ظالم وضُو) - مگر بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ چند کالی بھیڑیں مذہبی طبقہ کے لبادے میں  نام نہاد  مشائخ ، علماء  اور واعظین و پیشہ ور ثناخوان  مذہب اور دین کو پیشہ وارانہ  طریقہ سے استعمال کررہے ہیں -ان کی زندگی کا سوائے دولت و اقتدار کے کوئی مقصد ہی نہیں ہے   نہ دین ، نہ ملک اور نہ قوم –پھر وہ اپنا انجام بھی احادیثِ رسول کریم (ﷺ) میں دیکھ لے- داعیانِ دین و سُنّت کی ذاتی زندگی اور خانگی ماحول اُن کی دعوت میں اِخلاص کا سب سے بڑا مظہر ہوتا ہے کہ جس بات کے وہ پرچارک ہیں ، خود اُن میں اور اُن کے خانگی ماحول میں وہ بات کس حد تک سمائی ہوئی نظر آتی ہے-خاص کر فی زمانہ ذرائع ابلاغ کے عام، وافر اور سستے ہونے کے بعد کس کس نے اپنی آئندہ نسل کو اسلاف کی روش پہ چلانے کی کامیاب سعی کی ہے-مختلف ذرائع ابلاغ کے عام ہوجانے سے عوامی شعور بہت بلند ہوا ہے اِس لئے مذہب ایک بُنیادی فلسفۂ زندگی کے طور پہ بہت ڈسکس ہوتا ہے جس کے نمائندہ ہونے کے ناطے مذہبی طبقہ بطورِ خاص ’’مخصوص آنکھ‘‘ سے دیکھا جاتا ہے-دین چونکہ انسانیت کی تکمیل کی دعوت دیتا ہے اِس لئے دعوت کا فریضہ سر انجام دینے والوں سے لوگ یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ اس کے کامل سانچے میں کامل طور پہ ڈھلے ہونگے-خاص کر دینی سیاست کرنے والے، کیونکہ وہ زندگی کے عملی معاملات کا دین کی روشنی میں سیاسی حل پیش کرتے ہیں-مگر جب وہاں سے بنامِ دین ’’ہاتھ کرنے‘‘  کی خبریں آتی ہیں، قتل و غارت اور فتنہ و فساد کا درس دیا جاتا ہے، شدت، تعصب اور نفرت کو بھڑکایا جاتا ہے، بالواسطہ یا بلا واسطہ سامراجی قوتوں کا تزویراتی آلہ کار بنا جاتا ہے تو عام لوگ دینی طبقہ سے دوری اختیار کرتے ہیں جس سے وہ ملحدین کا نرم شکار بن جاتے ہیں-

امام حاکم ’’المستدرک علی الصحیحین‘‘ میں نقل کرتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق (﷜) نے خطبہ ارشاد فرمایا کہ : ’’میں اپنے بعد سب سے زیادہ جس چیز کی فکر کرتا ہوں وہ یہ ہے کہ تم میں سے  کسی بے قصور شخص کو پکڑ لیا جائے گااور اس کو اونٹ کی طرح ذبح کیا جائے گا اور اونٹ کی طرح اس کا گوشت پکایا جائے گا اور اس کو مجرم قرار دیا جائے گا حالانکہ وہ مجرم نہیں ہوگا‘‘ -حضرت علی (﷜)خطبہ سن رہے تھے-آپ (﷜) نے فرمایا: ’’اے امیر المومنین! یہ حالات کب ہوں گے؟ اورآزمائشیں سخت کیوں ہوں گی؟غیرت غالب کیوں ہوگی؟ اور  بچوں کوقیدی کیوں بنایا جائے گا؟ اور فتنے ان کو یوں پیس کر رکھ دیں گے جیسے چکی اپنے نچلے پاٹ کو کچل دیتی ہے اور جیسے آگ لکڑیوں کو بھسم کردیتی ہے‘‘ -امیر المومنین (﷜) نےکہا ’’اے علی(﷜)(آپ ارشاد فرمائیں)! یہ واقعات کب ہوں گے؟‘‘ حضرت علی (﷜) نے ارشادفرمایا:

’’اذا تفقہ المتفقہ لغیر الدین و تعلم المتعلم لغیر العمل و التمست الدنیا بعمل الاخرۃ‘‘[17]

 

’’جب علماء دین کے تحصیل علم کا مقصد دین کے علاوہ ہوگااور طالب علم کے تحصیل علم کا مقصد عمل نہیں ہوگا اور آخرت والے عمل کے ذریعے دنیا کمائی جائے گی‘‘-

حضرت  معاذ بن جبل  (﷜)   فرماتے ہیں  کہ میں نے  رسول اللہ (ﷺ) سے سنا ہے  کہ  آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا ہے کہ میں سب سے زیادہ اپنی امت پر تین (3) چیزوں کا خوف کرتا ہوں:

’’زَلَّةُ عَالِمٍ، وَجِدَالُ مُنَافِقٍ بِالْقُرْآنِ، وَدُنْيَا تُفْتَحُ عَلَيْكُمْ‘‘[18]

 

’’عالم دین کا پھسلنا، منافق کا قرآن کے ساتھ جھگڑنا اور دنیا جو تم پر کھول دی جائے گی‘‘-

حضرت زیاد بن حدیر(﷜) فرماتے ہیں کہ مجھ سے حضرت عمر فاروق (﷜) نے پوچھا :

’’ھل تعریف ما یھدم الاسلام؟‘‘، ’’کیا تم جانتے ہو کہ اسلام کو کیا چیز گراتی ہے‘‘-مَیں نے عرض کیا کہ نہیں،توحضرت عمر فاروق (﷜) نےفرمایا: یھدمہ زلۃ العالم و جدال المنافق بالکتاب و حکم الائمۃ المضلین‘‘، ’’عالم دین  کا پھسلنا، منافق کا کتاب کے ساتھ جھگڑنا اور گمراہ  آئمہ کا حکم ، اسلام کو تباہ کرتا ہے‘‘-[19]

’’یھدمہ زلۃ العالم‘‘،عالم دین کا پھسلنا اسلام کو تباہ کرتا ہے کیونکہ اسلام کی پہچان اور شناخت علماء و مشائخ کے ساتھ وابستہ ہےاور پورا معاشرہ اسلام کے معاملہ میں انہی کی اقتداء کرتاہے-اس لئے یہ طبقہ اسلام کے ساتھ جتنا زیادہ وابستہ ہوگا لوگ اسلام پر اتنے زیادہ عمل پیرا نظر آئیں گے-اگر ان کے طرزِعمل میں دین کو ثانوی درجہ حاصل ہوگا تو ان کی یہ روش لوگوں میں اسلام پر، مذہب پر، دین پر اور قرآن و شریعت پر ، بلا خوف و خطر بات کرنے میں جرأت پیدا کرے گی اور اسلام سے آزادی کا عنصر لوگوں کے ذہن میں پیدا ہوجائے گا جو اسلام کو تباہ کرنے کے مترادف ہے-اس لئے عالم دین کے پھسلنے کو اسلام کا تباہ کرنا فرمایا گیا ہے-

٭٭٭