اپنا گھر اپنے لوگ اور اپنی سر زمین کیسی نعمت ہیں شامی مہاجرین سے بڑھ کر شاید کوئی اِس حقیقت سے آگاہ نہ ہو جو بے سروسامانی کی حالت میںدیارغیر میں ٹھوکریں کھا رہے ہیں- مشرق و سطیٰ میں امن عامہ کی اِنتہائی ابتر صورت حال کی وجہ سے لوگ وہاں سے دوسرے خطوں میں نقل مکانی پر مجبور ہو گئے ہیں- جنگ کے شعلوں میں سلگتے مشرق وسطیٰ میں گزشتہ برسوں میں مہاجرین کی صورت میں ایک شدید انسانی بحران پیدا ہوا- شام سے لاکھوں کی تعداد میں لوگوں نے پہلے تو ہمسایہ ممالک کا رخ کیا لیکن اِس بحران کو عالمی میڈیا کی توجہ اُس وقت حاصل ہوئی جب ان مہاجرین نے یورپ کے قلعہ پر دستک دی- سمندر کے ساحل سے ملنے والی ایک شامی بچے ایلان کُردی کی لاش نے عالمی سطح پر کہرام برپا کر دیا جس کے بعد متعدد ممالک میںمظاہرے ہوئے اور اِس سنگین نوعیت کے مسئلہ کو توجہ حاصل ہوئی- اِن مہاجرین میںبڑی تعداد عورتوں اور بچوں کی بھی ہے جو یا تو کھُلے آسمان کی چھت تلے ہیں یا خیموں میں زندگی بسر کر رہے ہیں- یورپ تک رسائی کے لیے اِن مہاجرین کو کٹھن سمندری و زمینی راستہ عبور کرنا پڑتا ہے جس میں سینکڑوں لوگوں نے اپنی جان بھی گوائی ہے- یورپ پہنچ کر بھی حالات سازگار نہیں ہوتے کہیںلاٹھی چارج کا سامنا ہوتا کہیں ربڑکی گولیوں سے اور کہیں خاردار تاروں سے استقبال ہوتا ہے- اِس ضمن میں مسلم ممالک کا کردار بھی حوصلہ افزا نہیںچند ممالک کو چھوڑ کہ بیشتر خلیجی ممالک نے اِس مسٔلہ کو اپنی جغرافیائی حدود سے دور رکھنے کی کوشش کی-
اِس بحران کی وجہ مشرق وسطیٰ میں جاری خونی جنگ ہے، شام میںجب سے خانہ جنگی شروع ہوئی ہے اب تک تین لاکھ بیس ہزار لوگ جاں بحق ہو چکے ہیں جن میں بارہ ہزار بچے بھی شامل ہیں شام میں انسانی حقوق کی تنظیم کے مطابق پندرہ لاکھ لوگ زخمی یا معذور ہو چکے ہیں- اس کے علاوہ وہا ںکا انفراسٹرکچر مکمل طور پہ تباہ ہو چکا ہے- سکولوں ہسپتالوں کی متعدد عمارتیں تباہ ہو چکی ہیں اور معیشت کا پہیہ بھی جام ہو چکا ہے- اِس جنگ میں سب سے زیادہ متاثر بچے ہوئے ہیں جن کی کفالت کرنے والے اُن کی آنکھوں کے سامنے ہلاک ہوئے اور ان کی تعلیم وتربیت کا نظام بھی درہم برہم ہو گیا پھر اُن کم سِن بچوں کو مختلف گروہ جنگی مقاصد کے لیے بھرتی بھی کرتے ہیںاور انسانی ڈھال کے طور پہ بھی استعمال کیا جاتا ہے- شام میں جاری اِس جنگ کے متعددپہلو ہیں ایک جانب صدر بشارالاسد کی فوج اور اس کے بین الاقوامی اتحادی ہیں جن کے مخالف مسلح افراد اور ان کے بین الاقوامی اتحادی ہیں پھر اِس جنگ میں غیر ریاستی عناصر بھی شامل ہیں - تباہ حال معصوم شہریوں کے سروں پر منڈلاتے موت کے خوف، امن عامہ کی اِس ابتر صورت حال اور روزی کمانے کے مفقود ذرائع نے لاکھوں لوگوں کو اپنے آبائی علاقوں سے نقل مکانی پہ مجبور کر دیا- لاکھوں افراد اندرونی طور پہ بے گھر ہوئے اور لاکھوں افراد دوسرے ممالک میں نقل مکانی اختیار کرنے پہ مجبور ہوئے جس کے باعث تاریخ انسانی میں جنگ عظیم دوم کے بعد دوسری بڑی وسیع پیمانے پر ہجرت وقوع پذیر ہوئی-
شام میںتقریبا ستر لاکھ لوگ اندرونی طور پہ بے گھر ہوئے ہیں اور شام سے ہمسایہ ممالک میں ہجرت کرنے والوں کی تعداد تقریبا چالیس لاکھ کے قریب ہے- ترکی مہاجرین کی سب سے بڑی تعداد کو پناہ دیئے ہوئے ہے جہاں مہاجرین کی کل تعداد بیس لاکھ کے قریب ہے اِس کے بعد گیارہ لاکھ کے قریب مہاجرین لبنان میں موجود ہیں اردن میںچھ لاکھ انتیس ہزار اور عراق میںشامی مہاجرین کی تعداد دو لاکھ پچاس ہزار کے قریب ہے اور مصر میںنقل مکانی کرنے والوں کی تعداد ایک لاکھ بتیس ہزار ہے- یورپ میں اب تک ایک لاکھ پچاس ہزار مہاجرین کو پناہ دی جاچکی ہے- یورپ کی طرف رُخ کرنے والے مہاجرین بحیرۂ روم کے سمندری راستے کے ذریعے پہلے یونان کا رُخ کرتے ہیں اور پھر وہاں سے دوسرے یورپی ممالک تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں- اِس سفر میں بہت سے لوگ جان کی بازی بھی ہار جاتے ہیں کیونکہ یہ سفر انتہائی ناقص کشتیوں پر ہوتا ہے اور انسانی سمگلنگ کرنے والے سینکڑوں کی تعداد میں لوگوں کو چھوٹی چھوٹی کشتیوں میں سوار کر لیتے ہیں جن میں سے اکثر کشتیاں ساحل پر پہنچنے سے پہلے ہی ڈوب جاتی ہیں- یورپ کے ممالک میں پہنچ کر بھی اُن مہاجرین کو مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جہاں بچوں سمیت فٹ پاتھوں ، کھلے میدانوں ، جنگلوں اور پہاڑوں میں راتیں بسر کرنا پڑتی ہیں -
مہاجرین کے مسئلہ سے متعلق یورپی ممالک میں مختلف رجحانات پائے جاتے ہیںلہٰذا ہر ملک کی پا لیسی بھی مختلف ہے جس کے باعث یورپی یونین میںتناؤ بھی دیکھنے میں آیا- آسٹریا اور ہنگری جیسے ممالک نے اُن مہاجرین کو اپنی سرحدوں سے دور رکھنے کی کوشش کی بلکہ سرحدوں سے دھکیلنے کے لیے لاٹھی چارج اور ربڑ کی گولیوں کا استعمال بھی کیا گیا- کچھ ممالک کا یہ ماننا ہے کہ اُن مہاجرین میں ضرورت مندوں کی تعداد کم اور معاشی مہاجرین کی تعداد زیادہ ہے جو بہتر روزگار کے لیے یورپ جیسے ترقی یافتہ خطے کا رخ کرتے ہیں اور اتنی بڑی تعداد میں مہاجرین کی نقل مکانی سے اُن ممالک میںآبادیات کا نظام بھی متاثر ہو سکتا ہے- کچھ ممالک نے مذہبی منافرت کا بھی اظہار کیا جیسا کے صرف عیسائی مہاجرین کو قبول کرنے پر رضا مندی ظاہر کی - مہاجرین کے معاملے میںالبتّہ جرمنی کاکردار حوصلہ افزا رہا ہے جس نے ایک جانب کروڑوں ڈالر کی امداد فراہم کی اور دوسری جانب ہزاروں کی تعداد میں مہاجرین کوبلا تفریق اپنے ملک میں آباد بھی کیا- جنگِ عظیم دوئم کے بعد یورپ عدمِ استحکام اور ظلم و جبر کی وجہ سے معاشی اور سیاسی طور پر تباہ ہو چکا تھا تاہم لوگوں کا ردِ عمل انسانی اور باہمی ذمہ داری کی بنیاد پر باہمی تعاون کا تھا لیکن بدقسمتی سے ایسی سیاسی بلوغت آج نظر نہیں آتی اور اس کی جگہ ڈر اور خوف نے لے لی ہے-
مسلم ممالک کی اگر بات کی جائے تو سوائے چند ممالک کے باقی ممالک کی مہاجرین کے مسئلہ کو لے کے صورتحال زیادہ تسلی بخش نہیں- مہاجرین کے بحران کا سب سے زیادہ اثر ترکی پر ہوا، ترکی اِس وقت دنیا میں مہاجرین کو بسانے والا ایک بڑا ملک ہے- پاکستان میں گو کے شامی مہاجرین تو آباد نہیں لیکن لاکھوں کی تعداد میںافغانی مہاجرین موجود ہیں - حالانکہ پاکستان ۱۵۹۱ کے مہاجرین کے کنونشن کا حصہ نہیں ہے چنانچہ گزشتہ تین دہائیوں سے زائد عرصہ میں اِس کا چار ملین ﴿اِس عرصہ میں زیادہ سے زیادہ تعداد جو کہ ۵۰۰۲ئ میں 2.6 ملین اور اب 1.6 ملین ہے﴾افغان مہاجرین کو پناہ دیناایک غیر معمولی عمل ہے-اِس کے علاوہ شام کے دیگر ہمسایہ ممالک میں بھی بڑی تعداد میں مہاجرین خیمہ زن ہیں جہاںاُن مہاجرین کو بہت سی مشکلات کا سامنا ہے جن میںصحت کی سہولتوںکی عدم دستیابی بھی بہت بڑا مسئلہ ہے مہاجرین کے حقوق کی تنظیموں نے اکثر ایسے کیس رپورٹ کئے ہیں کہ مناسب طبّی سہولتیں نہ ہونے کے سبب ہزاروں خواتین دورانِ زچگی جان کی بازی ہار چکی ہیں - میزبان ممالک بڑی تعداد میں آباد مہاجرین کو سہولیات فراہم کرنے سے قاصر ہیں
اور اقوام متحدہ کا ادارہ برائے مہاجرین کے پاس بھی فنڈز کی عدم دستیابی کے باعث یہ استعداد نہیںکہ پوری دنیا میں دو کروڑ مہاجرین کو پوری امداد فراہم کر سکے- قدرتی دولت سے مالامال کئی امیر ممالک نے مہاجرین کے مسئلہ پہ Zero resettlement places کی پالیسی اپنا رکھی ہے یعنی کہ وہ مہاجرین کے بحران کو اپنی سرحدوں سے دور رکھناچاہتے ہیں، گوکہ ان میں سے بعض ممالک نے مالی امداد بہت قابلِ تعریف حد تک کی ہے -
مہاجرین کے متعلق موجودہ حکمت عملی دوسری جنگِ عظیم کے بعد مرتب کی گئی تھی جب لاکھوں افراد بے گھر ہوئے تھے -مہاجرین سے متعلق اقوامِ متحدہ کا مرکزی ردِ عمل ۱۵۹۱ئ کا کنونشن تھا- اقوامِ متحدہ کے ممبر ۳۹۱ ممالک میں سے ۵۴۱ نے مہاجرین کنونشن کو باضاطہ اپنایا ہے- مہاجر اُس فرد کو کہتے ہیں جو اپنے آبائی ملک سے باہر ہو اور بہت مخصوص وجوہات کی بنا پر اپنی جان کے خطرے کے پیشِ نظر واپس نہ جا سکے۔ یہ تعریف عام مشہور تعریف کی نسبت محدود ہے-
اولاََ اِس میں وہ لوگ شامل نہیں جو اپنے ہی ملک کے اندر ہجرت کرتے ہیں-
دوئم یہ ماضی کے تجربات کو چھوڑ کر مستقبل کی تکالیف کے خوف پر مبنی ہے-
سوئم اِس میں جان کے خطرے اور اِس سے متعلق کنونشن میں دی گئی وجوہات کے درمیان ایک ربط کی ضرورت ہے اور اِس میں وہ لوگ شامل نہیں جو قدرتی آفات کی وجہ سے یا خالصتاََ معاشی مسائل کی وجہ سے اپنا ملک چھوڑتے ہیں-
مہاجر کا درجہ کسی بیرونی سرکار کی جانب سے نہیں دیا جاتا بلکہ یہ فرد میں ذاتی طور موجود ہے- مزید برآں مختلف گروہوں کے درمیان تفریق نہیں ہونی چاہئے- ہر انسان کا یہ حق ہے کہ وہ اپنے جان کے خطرے کے باعث اپنا ملک چھوڑ دے اور کسی اور ملک میں پناہ کے لیے اپیل کرے البتہ مہاجرین کو پناہ دینے سے متعلق کوئی ملک بھی قانوناً اِس بات کا پابند نہیں کے وہ مہاجر کو پناہ دے یہ محض اُس ملک کی صواب دید پہ منحصر ہے کہ وہ کسی پناہ گزیں کو پناہ دے یا نہ دے- اِس کے باعث اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کو چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ وہ جب کسی ملک کی آبادی کے تناسب سے مختلف ممالک کا کوٹہ مقرر کرتے ہیںتو بیشتر ممالک اس سے برّی الذّمہ ہو جاتے ہیں لہٰذا مہاجرین سے متعلق قوانین پر نظر ثانی بہت ضروری ہے-
شامی مہاجرین کے بحران کو ایک عالمی بحران سمجھاجا نا چاہیے اور اِس پر سیاست سے گریز کرنا چاہیے - مسلم ممالک کو چاہیے کے اِس بحران کے حل کے لیے مشترکہ کاوش کریں اور واضح حکمتِ عملی کے لیے باہمی تعاون کو فروغ دیں- بچوں کے تحفظ اور اُن کی صحت اور تعلیم پر خصوصی توجہ دی جانی چاہیے- اِس مسئلہ کی اصل جڑ جو کے شام میں جاری خانہ جنگی ہے کو ختم کرنے کے لیے عالمی برادری کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے-