آیہ صوفیہ کاتاریخی پسِ منظرواہمیت

آیہ صوفیہ کاتاریخی پسِ منظرواہمیت

آیہ صوفیہ کاتاریخی پسِ منظرواہمیت

مصنف: محمد محبوب ستمبر 2020

پوری اسلامی دنیا اور خصوصاً ترکی کے اندر اس وقت خوشی کا ایک سماں برپا ہو گیا جب ترکی کی کونسل آف سٹیٹ نے آیہ صوفیہ کی بطور مسجد بحالی کا حکم دیا اور عدالتی فیصلے کے بعد ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے اعلان کیا کہ 24 جولائی 2020ء کو آیہ صوفیہ میں نماز جمعہ ادا کر کے آیہ صوفیہ کو  86 سال کے بعد عبادت کے لئے کھول دیا جائے گا- بالآخر وہ تاریخی دن آن پہنچا اور 86 سال بعد استنبول (سابقہ قسطنطنیہ) میں آیہ صوفیہ کے بلند عالی شان میناروں سے صدائے تکبیر کی آوازیں بلند ہوئیں اور لاکھوں فرزندانِ توحید اس تاریخی دن آیہ صوفیہ میں اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہوئے -

زیر نظر مضمون میں ہم آیہ صوفیہ کی عمارت کا تاریخی پس منظر اور اہمیت جاننے کی کوشش کریں گے-اس کے علاوہ یہ بھی زیرِ بحث لائیں گے کہ سلطنتِ عثمانیہ کے عظیم سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ فتح کرنے کے بعد کیسے اس تاریخی عمارت کو مسجد میں تبدیل کیا اور اسی سے صدائے تکبیر بلند ہوتی رہی-

آیہ صوفیہ کا تاریخی پس منظر:

سلطان محمد فاتح  کی فتح قسطنطنیہ (موجودہ استنبول) سے پہلے یہ شہر بازنطینی سلطنت کا دارالحکومت تھا اور قسطنطنیہ میں اس تاریخی عمارت جسے سینٹ صوفیا، اورہگا صوفیاء اور آیہ صوفیہ وغیرہ کے مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے، کی بنیاد بازنطینی بادشاہ کونسٹنٹائن اول نے رکھی- بعد میں جسٹنیئن اول نے 532ء میں تعمیر کا آغاز کیا جو 537ء میں مکمل ہوئی-

یعنی یہ عمارت کم و بیش 1660ء سال پرانی ہے - جب 537ء میں عمارت مکمل ہوئی تو یہ مسیحی فرقے آورتھوڈوکس چرچ کے سربراہ کا مقام بن گئی اور اس کے علاوہ ناصرف اہم ترین بازنطینی تقریبات جیسے کہ بازنطینی شہنشاہوں کی تاج پوشی اس عمارت میں ہونے لگیں بلکہ دوسرے مذہبی مراسم بھی اس میں ادا کئے جاتے تھے- آیہ صوفیہ تقریباً 900سال تک آرتھوڈوکس کا مرکزی چرچ  رہی-

مشرقی و مغربی دونوں سلطنتوں میں سیاسی، مذہبی اور فرقہ ورانہ اختلافات بڑی شدت سے پائے جاتے تھے اور اسی طرح آرتھوڈوکس اور کیتھولک چرچ کے درمیان رسہ کشی جاری رہی اور آخرکار تیرھویں صدی عیسوی میں کیتھولک آیہ صوفیہ پر قابض ہوگئے- اسی طرح کم و بیش ایک ہزار سال تک اس عمارت کو دنیا کا سب سے بڑا گرجا گھر اور عیسائیوں کی مذہبی اور روحانی مرکز کی حیثیت رہی-

فتح قسطنطنیہ اور مسجد آیا صوفیہ:

سلطنت عثمانیہ کے بانی غازی عثمان خان کی رِحلت (1326ء بمطابق 726ھ) کے بعد بھی خاندانِ عثُمانی کی فتوحات کا سلسلہ جاری رہا اور ترکوں نے بے شمار عظیم فتوحات حاصل کیں-سلطنت عثمانیہ کے عظیم سلطان محمد فاتح نے 29 مئی 1453ء کو 54 روز کے طویل محاصرے کے بعد قسطنطنیہ فتح کرلیا اور بشاراتِ نبوی (ﷺ) کے مصداق ٹھہرے- جب سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ فتح کیا اور اسے عثمانی سلطنت کا دارالحکومت بنایا تو اس کا نام ’’اسلام بول‘‘ رکھا جو بعد میں استنبول مشہور ہوگیا- جب قسطنطنیہ فتح ہو گیا تو سلطان محمد فاتح نے اپنے لشکر کو مبارک باد دی اور حکم دیا کہ وہ شہر میں بسنے والے لوگوں سےحسنِ سلوک کریں، ان کے ساتھ نرمی سے پیش آئیں،قتل و غارت نہ کریں - فتح کے دن فجر کی نماز کے بعد سلطان محمد فاتح نے یہ اعلان کیا تھا کہ ان شاء اللہ ہم ظہر کی نماز آیہ صوفیہ میں ادا کریں گے چنانچہ آیہ صوفیہ اسی دن فتح ہوئی اور اس سر زمین پر پہلی نماز ظہر ادا کی گئی - اس کے بعد پہلا جمعہ بھی وہیں ادا کیا گیا-قسطنطنیہ کی عظیم الشان فتح کے بعد اسلامی روایات کے مطابق سلطان محمد فاتح نے آیہ صوفیہ میں پناہ گزین عیسائی باشندوں اور شاہی خاندان کے افراد کے لئے بھی عام معافی کا اعلان کردیا-

قسطنطنیہ چونکہ سلطان محمد فاتح کی طرف سے صلح کی پیشکش کے بعد بزور شمشیر فتح ہوا تھا اور اسلامی سلطنت کا حصہ بن گیا تھا تو اس لئے مسلمان ان کلیساؤں کو باقی رکھنے کے پابند اور مشروط نہ تھے- اس لئے سلطان محمد فاتح نے چرچ کو مسجد میں تبدیل کرنے کا ارادہ کیا- سلطان نے اس کے میناروں میں بھی اضافہ کر دیا تھا اور محراب کی بھی تعمیر کی گئی- اس کے بعد یہ مسجد ”جامع آیہ صوفیہ“ کے نام سے مشہور ہو گئی اور سلطنت عثمانیہ کے خاتمے تک تقریباً 500  سال تک مسجد آیہ صوفیہ میں نماز پنجگانہ ادا ہوتی رہی-

یہ بات بھی اہمیت کی حامل ہے کہ قسطنطنیہ کی فتح کے بعد چونکہ مسلمانوں کی کوئی بڑی عبادت گاہ نہ تھی اس لئے سلطان محمد فاتح نے اس عمارت اور آس پاس کی زمین کو اپنے ذاتی مال سے خریدااور اس کی مکمل قیمت کلیسا کے راہبوں کو ادا کی- اس کے علاوہ سلطان نے اس مصرف کیلئے مسلمانوں کے بیت المال سے بھی قیمت نہیں لی بلکہ طے کردہ پوری قیمت اپنی جیب سے ادا کی اور اس عمارت اور زمین کو مسلمانوں کیلئے وقف کر دیا- اس خرید و فروخت کے دستاویزات آج بھی ترکی کے دارلحکو مت انقرہ میں موجود ہیں-

سلطنت عثمانیہ کے حکمرانوں بشمول سلطان محمد فاتح نے مسجد آیہ صوفیہ کے اردگرد چار عظیم الشان مینار تعمیر کروائے اور یہ چاروں مینار الگ الگ دور میں مختلف طرزوں میں تعمیر کئے گئے اور یہ مینار آج بھی قائم و دائم ہیں- انیسویں صدی عیسوی میں عثمانی سلاطین نے مسجد آیہ صوفیہ کے مرکزی ہال میں ایک خوبصورت محراب اور منبر تعمیر کیا اور اس کے علاوہ مشہور اسلامی خطاطی کے نمونے بھی رکھے گئے- فتح قسطنطنیہ یعنی 1453ء سے لے کر 1930ء کی دہائی تک کم و بیش500 سال تک اس تاریخی عمارت کو مسجد کی حیثیت حاصل رہی اور اس مسجد کے بلند و بالا میناروں سے صدائے تکبیر بلند ہوتی رہی-

آیہ صوفیہ کی اسلامی تاریخ میں اہمیت:

فتح قسطنطنیہ سے جدید ترکی کی بنیاد رکھنے سے پہلے تک مسجد آیہ صوفیہ کا شمار مسلمانوں کی عظیم الشان مساجد میں ہوتا رہا- جب سلطان محمد فاتح نے آیہ صوفیہ کو چرچ سے مسجد میں تبدیل کیا تو اس عمارت میں نا صرف محراب اور مینار تعمیر کروائے بلکہ عمارت میں سنگِ مرمر کا استعمال کر کے اسلامی نقش و نگار اور خطاطی بھی کی گئی- اس کے علاوہ مسجد آیہ صوفیہ میں کئی تعمیراتی کام کیے گئے جن میں سب سے معروف سولہویں صدی کے مشہور ماہر تعمیرات سنان پاشا کی تعمیر ہے- پوری عمارت میں چار سو ستون ہیں اور اور انیسویں صدی میں منبر پر سنہرے حروف میں قرآنی آیات،اللہ تعالیٰ، رسول اللہ (ﷺ)  اور خلفائے راشدین کے اسماء گرامی والی تختیاں نصب کی گئیں-

آیہ صوفیہ بطور میوزیم:

جنگ عظیم اول کے بعد جمہوریہ ترکی کی بنیاد رکھی گئی تو مصطفیٰ کمال اتاترک نے 1930ء کی دہائی میں آیہ صوفیہ کی حیثیت مسجد سے تبدیل کر کے میوزیم بنا دی اور یوں خدا کے گھر کو عجائب گھر میں تبدیل کر دیا اور مسلمانوں کا مسجد آیہ صوفیہ میں نماز پڑھنا ممنوع قرار دیا جس کو علامہ محمد اقبالؒ اس وقت ان الفاظ میں للکارا تھا:

لا دینی و لاطینی کس پیچ میں الجھا تو
دارو ہے ضعیفوں کا لا غالب الا ھو

آیہ صوفیہ دنیا کی مشہور ترین عمارتوں میں سے ایک اور سیاحوں کے لیے انتہائی کشش کی حامل تاریخی عمارت ہے- آیہ صوفیہ  کا بڑا گنبد استنبول جانے والے سیاحوں کے منظر کا لازمی حصہ ہے جس کی ایک اپنی کشش ہے- اقوام متحدہ کے ادارہ یونیسکو کی جانب سے اس عمارت کو 1985ء میں عالمی تاریخی ورثے میں شامل کیا گیا- ترکی میں تقریباً ہر سال 30 لاکھ سیاح اس تاریخی عمارت کو دیکھتے ہیں- یہ 2019ء میں 38 لاکھ سیاحوں کے ساتھ ترکی کا معروف ترین مقام تھا-

آیہ صوفیہ کی بطور مسجد بحالی:

اسلام کی عظیم روایات کے امین عثمانی تُرک، قوت ِ ایمانی، عدل و انصاف، رحم دلی، اسلامی جذبہ، جذبہ عشقِ مصطفےٰ (ﷺ)، اُولو العز می،فہم و فراست،سخت کوشی، جہد و تحرّک، جہاں بانی میں اپنی مثال آپ تھے اس لئے اسلام، شعارِ اسلام اور شعائرِ اسلام سے خصوصی محبت عثمانیوں کے قلب و روح میں شامل تھی جس کا مشاہدہ دنیا نے بھی کیا-

جامع مسجد آیہ صوفیہ کی واپس مسجد میں تبدیلی محض مسلمانان ترکی ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے مسلمانوں کی ایک دیرینہ خواہش اور مطالبہ تھا-جب 1994ء میں رجب طیب اردگان استنبول شہر کے ناظم کا الیکشن لڑ رہے تھے تو انہوں نے اس عمارت کو نماز کیلئے کھولنے کا وعدہ کیا تھا-اسی طرح رجب طیب اردگان ترکی کے صدر بننے کے لئے الیکشن کمپین کر رہے تھے تو انہوں نے اپنا وعدہ بار بار دہرایا اور بالآخر 10 جولائی 2020ء کو وہ دن آن پہنچا جب ترکی کی عدالت کونسل آف سٹیٹ کے فیصلے کے بعد ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے آیہ صوفیہ کی میوزیم کی حیثیت ختم کر کے مسجد میں بدلنے کا حکم نامہ جاری کیا گیا-

ترکی کی سب سے اعلیٰ انتظامی عدالت، کونسل آف سٹیٹ نے اپنے فیصلے میں لکھا:

’’ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ تصفیے کی دستاویز میں اسے مسجد کے لیے مختص کیا گیا لہٰذا قانونی طور پر اسے کسی اور مقصد کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا‘‘-

 عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ 1934ء کی کابینہ کا فیصلہ جس میں اس عمارت کے مسجد کے کردار کو ختم کر کے میوزیم میں تبدیل کیا گیا وہ قانون سے مطابقت نہیں رکھتا- چنانچہ مسجد کی بحالی کے صدراتی حکم نامے کے بعد صدر رجب طیب اردگان نے اعلان کیا کہ 24 جولائی 2020ء کو مسجد آیہ صوفیہ میں نماز جمعہ ادا کر کے باقاعدہ مسجد کو نمازیوں کے لئے کھول دیا جائے گا-

86 سال بعد نماز جمعہ کا روح پرور منظر:

24 جولائی 2020ء کا دن نا صرف ترکی کی تاریخ بلکہ پوری اسلامی تاریخ میں سنہری حروف میں لکھا جائے گا جب 86 سال بعد پوری دنیا نے جامع مسجد آیہ صوفیہ میں نمازِ جمعہ کی ادائیگی کا روح پرور منظر دیکھا گیا- نماز میں شرکت کیلئے ترکی کے صدر رجب طیب اردگان اور اُن کی کابینہ کے وزراء بھی موجود تھے- نماز کی ادائیگی کیلئے رات سے ہی لوگ جمع ہونا شروع ہوگئے تھے جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے جنہوں نے ترکی کے قومی اور عثمانی پرچم اٹھا رکھے تھے- اس موقع پر فضا ’’اللہ اکبر‘‘ کی صداؤں سے گونجتی رہی- ترک صدر نے نماز جمعہ سے قبل قرآن پاک کی تلاوت بھی کی- جامع مسجد آیہ صوفیہ میں حمد و ثنا کے ساتھ نبی آخر الزماں، خاتم النبیین حضرت محمد الرسول اللہ(ﷺ) کی بارگاہ اقدس میں نعت اور صلوٰۃ و سلام کا نذرانہ بھی پیش کیا گیا-

خطبۂ جمعہ ترکی کے وزیر مذہبی امور (صدر دینیات و مفتی اعظم) دکتور الشیخ علی ایرباش نے فاتح قسطنطنیہ سلطان محمد فاتح کی تلوار تھام کر دیا اور ایک روح پرور منظر دیکھنے کو ملا جسے پاکستان سمیت دنیا بھر میں کروڑوں افراد نے براہ راست دیکھا-اس موقع پر ترک صدر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آیہ صوفیہ  کو مسجد میں تبدیل کرنے کا فیصلہ ترکی کا تاریخی و آئینی حق ہے اور قبلہ اول (مسجد اقصیٰ )کی آزادی کی طرف پہلا قدم ہے جو مسلمانوں کے شاندار مستقبل کی نوید بنے گا-

جامع مسجد آیہ صوفیہ سلطنت عثمانیہ کے دور کے مسلمانوں کی نا صرف ایک یادگار ہے بلکہ مسلمانوں کے ایک مقدس مقام کا درجہ رکھتی ہے-آج پوری اسلامی دنیا ترک عدلیہ اور ترکی کے صدر رجب طیب اردگان کے اس فیصلے کو ناصرف قدر کی نگاہ سے دیکھ رہی ہے بلکہ مسلمانوں کی عظمت رفتہ کی بحالی کی طرف بڑھتے ہوئے پہلے قدم کی طرح دیکھ رہی ہے -

٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر