کانگرس اور ہندو انتہاپسندی: 1885 سے قیامِ پاکستان تک

کانگرس اور ہندو انتہاپسندی: 1885 سے قیامِ پاکستان تک

کانگرس اور ہندو انتہاپسندی: 1885 سے قیامِ پاکستان تک

مصنف: محمدسرمدسرور اگست 2020

برصغیر پاک و ہند میں مسلمانوں اور ہندؤں سمیت کئی اقوام کئی ہزار سال سے آباد ہیں-برصغیر میں مسلمان اور ہندو کم و بیش ایک ہزار سال تک اکٹھے رہنے کے باوجود دریا کے دو کناروں کی طرح الگ الگ رہے- تاریخِ برصغیر میں دو قومی نظریہ (مسلمان اور ہندو مذہبی، ثقافتی، تہذیبی، سیاسی، سماجی اور معاشرتی لحاظ سے الگ الگ قومیں ہیں)کی حقیقت اتنی گہری ہے کہ اکبر کے دینِ الٰہی سے لے کر انڈین نیشنل کانگریس کے علماء تک کوئی بھی اس تقسیم کو ختم نہ کر سکا- اس خطہ زمین پر مسلمانوں کے لگ بھگ ہزار سالہ سنہری دورِ حکومت کا اختتام 1857ء کی جنگِ آزادی کی ناکامی سے ہوا- اگر تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو 1857ء کی جنگ آزادی میں ہندوؤں اور سکھوں نے ناصرف جنگِ آزادی کو ناکام بنانے میں گھناؤنا کردار ادا کیا بلکہ موقع پاتے ہی اس بدقسمت شکست کا سارا ملبہ مسلمانو ں پر ڈال دیا- مطالعہ تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ اونچی ذات کے ہندو اپنے مفلوج سماجی، سیاسی نظام کی بدولت کبھی بھی پورے برصغیر پر حکومت کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے -

نسل پرستی، انتہاء  پسندی اور طبقاتی سماجی نظام میں بٹی احساسِ کمتری کی شکار قوم کی رگوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت، بغض اور کینہ کئی صدیوں سے دوڑ رہا تھا جس کا اظہار برصغیر میں مغلیہ سلطنت کے زوال سے جاری ہوتا ہے- اسی طرح انگریز بھی صدیوں تک روئے زمین کے مختلف حصوں میں کامیاب سلطنتیں قائم کرنے والی قوم ’’مسلمانوں‘‘ سے حد درجہ تک خائف تھے اور بالخصوص برصغیر میں مسلمانوں کے جذبۂ حریت سے بہت خوفزدہ تھے- چونکہ مسلمانوں کا آزادی و حریت پسندی کا جذبہ انگریز کی حکومت کے تسلسل کے لیے خطرہ تھا لہٰذا وہ بر صغیر میں مسلمانوں کو ہی اپنا دشمن سمجھتا تھا- انگریز نے موقع پا کر تقسیم کرو اور حکومت کرو (Divide and Rule) کی پالیسی کے تحت ہندوؤں میں مسلم دشمنی کو فروغ دیا تاکہ ان دو بڑی قوموں کو آپس میں لڑوایا جا سکے -لہٰذا انگریز نے ہندوں کو مسلمانوں کے سامنے لا کھڑا کیا-

چونکہ آپ کے دشمن کا دشمن آپ کا دوست ہوتا ہے لہٰذا مسلمانوں کی دشمنی میں ہندو انگریز کٹھ جوڑ قائم ہو گیا جس کا واحد مقصد مسلمانوں کو سیاسی، سماجی، معاشی اور مذہبی طور پر کمزور بنانا تھا- جنگ آزادی کے چند عشروں بعد ہی اس مقصد کے حصول کے لیے ہندو انگریز کٹھ جوڑ کے نتیجے میں ایک منصوبہ کے تحت 1885ء میں انگریز سرکاری ملازم ایلن آکیٹوین ہوم(A.O. Hume) نے آل انڈیا نیشنل کانگریس کی بنیاد رکھی - بظاہر اس نوزائیدہ کانگریس کا مقصد برصغیر میں موجود تمام مذہبی و ثقافتی اکائیوں کی یکساں سیاسی نمائندگی کرنا تھا مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ بات عیاں ہوتی چلی گئی کہ ’’انڈین نیشنل کانگریس‘‘ میں ’نیشنل‘ سے مراد صرف اور صرف اونچی ذات کے ہندو ہیں- کانگریس نے نچلی ذات کے ہندؤں سمیت دیگر تمام قوموں کے مفادات کو مکمل طور پر پسِ پشت ڈالتے ہوئے صرف برہمن مفاد کے لیے کام کرنا شروع کر دیا- بلکہ یہ کہنا بجا ہوگا کہ برہمن مفاد کو تحفظ و فروغ کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے تمام حقوق سلب کر کے انہیں دیوار کے ساتھ لگانا کانگریس کے اولین مقاصد میں شامل تھا-یہ بات کسی حد تک درست ہے کہ کانگریس کے ابتدائی دور میں اس کے خفیہ مقاصد کھل کر سامنےنہیں آئے اور اسے انڈیا کی ایک اجتماعی سیاسی پارٹی کے طور پر ظاہر کیا گیا جس کیلیے دیگر قوموں سمیت مسلمانوں کے چیدہ چیدہ رہنماؤں کو بھی اس میں شمولیت کی دعوت دی گئی - کچھ مسلم رہنماؤں نے کانگریس کے خفیہ عزائم کو بھانپتے ہوئے اس میں سرے سے ہی شمولیت اختیار نہیں کی جبکہ کچھ دیگر حق پرست منصف مسلم رہنماؤں نے کانگریس کی مسلم دشمنی و بغض پر مبنی سوچ و پالیسی کو پہچان کر اس فورم سے مکمل علیحدگی اختیار کر لی-

المختصر!یہ کہ کانگریس جس نے برصغیر میں تمام مذہبی و ثقافتی اکائیوں کی سیاسی نمائندگی کرنا تھی محض چند سالوں میں ہی برہمن ہندوؤں کی نمائندہ جما عت بن کررہ گئی جس کا مقصد اب برہمن ہندو بالا دستی اور مسلم دشمنی کے سوا کچھ نہ تھا - ایک انڈین تاریخ دان کوالم مداواپانیکر (K. M. Panikkar) کانگریس پر ہندو غلبے کے متعلق اپنی کتاب ’’Common Sense About India‘‘میں قلم طراز ہے کہ:

The Indian National Congress was (founded 1885) also a dominantly Hindu movement.”[1]

’’ 1885ء میں قائم ہونے والی انڈین نیشنل کانگریس بھی زیادہ تر ایک ہندو تحریک تھی‘‘-

زیرِ نظر مضمون میں تقسیم ہند سے قبل انتہاء پسند کانگریس کے ہندو بالادستی اور مسلم دشمنی کے واقعات جیسے (1905ءکی تقسیم بنگال، 1919ء کی تحریک خلافت، 1928ء کی نہرو رپورٹ، 1932ء کا پونا پیکٹ، 1937ء کے صوبائی انتخابات، 1945ء شملہ کانفرنس کے انتخابات،  1946ء تقسیم ہند اور سروجنی نائیدو) کا احاطہ کیا جائے گا-

برِصغیر میں انگریزوں کی آمد کے بعد جو ظلم و ستم مسلمانوں کے ساتھ روا رکھا گیا اس کا نقشہ سرسید احمد خان نے یوں کھینچا ہےکہ:

’’کوئی بلا آسمان سے ایسی نہیں اتری جس نے زمین پر پہنچنے سے پہلے کسی مسلمان کا گھر نہ ڈھونڈا ہو‘‘-

مسلمانوں کے تعلیمی نظام کو مفلو ج کردیا گیا جو کہ برصغیر میں مسلمانوں کی سب سے اہم اساس تھی-اس کے برعکس کانگریس انگریزوں کی رفاقت میں مسلمانوں کو معاشی،سیاسی اور تعلیمی طور پر کمزور کرنے کے درپے تھی- ان تمام مایوس کن حالات سے مسلمان دو چار تھے-پھر ایک امید کی کرن مسلمانوں کو تقسیم بنگال کی صورت میں میسر آئی مگر کانگریس کو یہ امید بھی ہضم نہ ہوئی- انگریز حکومت نے 1905ء میں بنگال کے وسیع و عریض صوبے کو دو حصوں  ( مشرقی بنگال اور مغربی بنگال )میں تقسیم کر دیا-تقسیمِ بنگال کا مقصد انتظامی اصلاحات تھا جن میں ڈھاکہ یونیورسٹی، ہائی کورٹ، بورڈ آف ریوینیو اور دیگر حکومتی اداروں کا قیام عمل میں لایا گیا جس سے مسلمانوں کو تعلیمی، عدالتی، انتظامی اور معاشی فوائد حاصل ہوئے-مشرقی بنگال میں مسلمانوں کی اکثریت تھی اسلئے کانگرس کو یہ خدشہ بھی درپیش تھا کہ اگر مسلمان جدا گانہ انتخابات میں نمائندگی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے تو مشرقی بنگال مسلمانوں کا سیاسی مرکز بن جائے گا جس سے اکھنڈ بھارت کا خواب چکنا چور ہو سکتا ہے-اس بوکھلاہت میں انڈین نیشنل کانگریس نےاپنے خفیہ چہرہ ہندو کانگریس سے خود ہی پردا اٹھا دیا- پروفیسر ڈاکٹر جہانگیر حسین تمیمی نے اپنی کتاب ’’زوال سے اقبال تک‘‘میں اس کی طرف اشارہ یوں کیا ہے کہ:

’’تقسیمِ بنگال 1905ء وہ شعلہ جوالہ ہے جہاں انڈین نیشنل کانگریس سے ہندو کانگریس اپنے پیٹ کھولتی ہے- یہیں سے ہندو، ہندی، ہندوستان کا قومی شعور نمایاں ہوتا ہے- مسلم دشمنی اب کانگریس کے باطن سے ظاہر کے چہرے پر چیچک کی طرح چیک گئی‘‘-

خود گاندھی نے 1908ء میں لکھا ہے کہ:

“The real awakening of India (Hindu) took of the partition of Bengal.” [2]

’’تقسیم بنگال کو بھارت (ہندو )کیلیے اصل بیداری قرار دیا گیا‘‘-

متعصب نظریات کی حامی کانگرس نے نہ صرف اسے ہندو دشمنی سے تعبیر کیا بلکہ کانگریس کی سر پرستی میں سودیشی تحریک کو ملک بھر میں پھیلایا گیا - اس تحریک کا اولین مقصد تقسیم بنگال کو ختم کروانا تھا - اس تحریک کے تحت برطانوی اشیاء کی خرید و فرخت سے بائیکاٹ کیا گیا اور جن دکانوں پر بھی برطانوی اشیاء کی خریدو فروخت جاری ہوتی تھی انہیں نذر آتش کر دیا جاتا تھا-اس کا صرف ایک ہی مقصد تھا کہ برطانوی تجارت کو نقصان پہنچا کر حکومت سے اپنے مطالبات (تقسیم بنگال کو کالعدم قرار دلوانا) کو تسلیم کرایا جا سکے-انتہاء پسند کانگریس کی چاہت تھی کہ انگریزوں کےبرصغیر سےچلے جانے کے بعد ہندوؤں کی حکمرانی کو اس خطے پر قائم کیا جائے اور مسلمان بطور اقلیت کہ ان کے رحم و کرم پر رہیں- باالفاظ دیگر کانگریس ہندو راج کو قائم کر کے صدیوں کی نفرت کے باعث مسلمانوں کو سر زمینِ ہند سے مٹانے کی خواہاں تھی- بنجریا سورندر ناتھ کی مندرجہ ذیل تحریرسے کانگریس کےعزائم عیاں ہو جاتے ہیں:

The partition of Bengal in 1905 added fuel to the fire and extremist congress started Swaraj (self-rule), which began from Bengal and gradually spread throughout northern India.” [3]

’’ 1905ء  میں تقسیم بنگال نے جلتی آگ پر تیل کا کام کیااور انتہاء پسند کانگریس نے سوارج یعنی ( خود حکمرانی) کا نعرہ دیا جو کہ بنگال سے آہستہ آہستہ پھیلتا ہوا شمالی انڈیا تک پہنچ گیا‘‘-

کانگرس کی تنگ نظری اور مسلم دشمنی کی وجہ سے آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام  1906ء میں ڈھاکہ میں ہوا جو کہ برصغیر میں مسلمانوں کی واحد نمائندہ سیاسی جماعت کے طور پر وجود میں آئی -مسلم لیگ کے قیام کا مقصد مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے آواز بلند کرنا تھا- مسلم لیگ نے مسلمانوں کے مفادات کے پیش نظر 1909ء کے ایکٹ (یہ ایکٹ امور ہند لارڈ مارلے نے برصغیر میں سیاسی اصلاحات کیلیے پیش کیا تھا)میں جداگانہ انتخاب کا طریقہ شامل کروایا اور وزیر امور ہند کونسل میں ایک مسلمان شامل کروایا (جس کا نام سید حسین بلگرامی تھا)- اس کی وجہ یہ تھی کہ مسلمانوں کے مفادات جیسے( تقسیم بنگال ) کو کانگریس کی چالوں کے پیش نظر پسِ پست نہ ڈال دیا جائے- مگر کانگریس نے مختلف فسادی حربوں سے برطانیہ پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیا- کانگریس کی جانب سے برطانوی خرید و فروخت کا بائیکاٹ، دکانوں کو نذر آتش، مختلف مقامات پر سیاسی و سماجی انتشار کے ساتھ ساتھ مانچسٹر چیمبرآف کامرس پر دباؤ ڈالا گیا کہ اگر وہ برصغیر میں تجارت چاہتے ہیں تو انہیں حکومت کو تقسیم بنگال کا فیصلہ واپس لینے پر مجبور کرنا ہو گا-بالآخر اونچی ذات کے ہندوؤں کے دباؤ میں آکر انگریز نے 1911ء میں مشرقی اور مغربی بنگال کو ملا کر دوبارہ ایک صوبہ بنا دیا جس پر مسلمانوں نے دکھ اور غم کا اظہار کیا اور یوں شاطر بنیا مسلمانوں کے خلاف اپنی چال میں کامیاب ہوگیا-

پہلی جنگ عظیم( 1914ء تا 1918ء) میں (ایک طرف برطانیہ، فرانس، روس اور امریکہ اور دوسری جانب جرمنی، آسڑیا اور خلافتِ عثمانیہ کے درمیان لڑی گئی)جس میں جرمنی اور اس کے اتحادیوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا-شکست کے بعد برطانیہ نے ترکی (اوردیگر اتحادیوں )کے خلاف کاروائی کا اعلان کر دیا جس سےدنیا بھر کےمسلمانوں کے جذبات و احساسات کو ٹھیس پہنچی - 27 اکتوبر 1919 ء کو برصغیر کےمسلمانوں نے یوم خلافت منایا اور ترکی کی خلافت کی حمایت کی اور بیت المقدس سے اپنی نظریاتی و روحانی وابستگی اور اس کے تقدس کو پامال نہ ہونے کے مقصد کیلئے 1919ء میں تحریک خلافت کا آغاز کیا-گاندھی کی چاہت تھی کہ ہندو بھی تحریک خلافت میں مسلمانوں کے ساتھ شامل ہوں-اس کے باوجود علی برادران(مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی) کی سفارش پر گاندھی نے یکم اگست سے یکم ستمبر تک ملک بھر کا دورہ کیا اور ہندؤں کو تحریک میں مسلمانوں کا ساتھ دینے کی تلقین کی اور مسلمانوں کو بھی سول نافرمانی اور عدم تعاون جیسی تحریکوں میں شرکت کی دعوت دی- یہ اتحاد بھی برہمن ہندو بالاستی کے لئے گاندھی کی ایک چال تھی جس سے گاندھی مسلمانوں کے جذبات کو اپنی تحریک کے فروغ کے لئے استعمال کر رہا تھا-اس کا اندازہ سانحہ چورا چوری سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے- چورا چوری ضلع گورکھ پور کا ایک قصبہ ہے- وہاں گاندھی کے ایماپر نکلنے والے ایک بڑے جلوس نے پولیس تھانے کو آگ لگادی جس کے نتیجے میں 21 سپاہی زندہ جل کر مرگئے-گاندھی جو کافی وقت سے ایسے کسی بہانے کی تلاش میں تھا اس نے اپنی تحریکوں کے فوری خاتمے کا اعلان کر دیا- اس حوالے سے علی برادران اور دوسرے مسلمان راہنماؤں کی رائے لینا بھی مناسب نہ سمجھا -دراصل جنگ عظیم ختم ہوچکی تھی اور گاندھی کو یقین ہوگیا تھا کہ وہ حکومت کو مزید بلیک میل کرکے اپنے مقاصد پورے کرنے کے قابل نہ تھا-اس پر مسلمانوں کو بہت دکھ ہوا اور انہوں نے گاندھی کی چال کو بھانپ لیا- ریسرچ جرنل پاکستان ویژن نے کانگریس کی چال و مکاری کو یوں بیان کیا ہےکہ:

Muslim unrest in India over the future of Caliphate, was capitalized by Mahatma Gandhi to launch his non-Cooperation and Civil Disobedience movement against the English.”[4]

’’خلافت کے مستقبل کو لے کر ہندوستانی مسلمانوں میں جو اضطراب پایا جاتاتھااس کا فائدہ گاندھی نے عدم تعاون کی تحریک اور حکومتی نافرمانی کی تحریک چلا کر اٹھایا‘‘-

تحریک خلافت کے دوران سوامی شردھا نندنے شدھی تحریک کا آغاز کیا (اس تحریک کی نسبت سے انہیں انڈیا میں ہیرو کا درجہ دیا جاتا ہے)- کانگریس کے راہنما مدہن موہن مالویہ نے ’’سنگٹھن‘‘ جیسی مسلم دشمن تحریکوں کو جنم دیا جن کے مقاصد کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ ایک ہندؤ راہنما لالہ ہردیال نے کہا اگر ہندو زندہ رہنا چاہتے ہیں تو اسے یہ چار کام کرنے ہونگے-

  1. ہندؤ سنگٹھن یعنی ہندوؤں کومتحداور مضبوط بنانا-
  2. مسلمانوں کی شدھی یعنی مسلمانوں کو ہندؤ بنانا-
  3. صوبہ سرحد کی شدھی کے ساتھ ساتھ افغانستان کو بھی فتح کرکے شدھ کرنا-
  4. ہندؤستان میں ہندؤ راج قائم کرنا-

مندرجہ بالا تما م فرائض ان تحریکوں کے سپرد کیے گیے جنہوں نے اکھنڈ بھارت کے خواب کو عملی طور پر پورا کرنے کی خاطر زبردستی مسلمانوں کو شدھی بنانے کی ناکام سرگرمیوں کا آغاز کیا -متعصب ہندوؤں نے اس قسم کے بیانات بھی دیے کہ اگر مسلمان ہندو ہونا پسند نہ کریں تو انہیں ہندوستان سے نکال دیا جائے جیسا 500 سال قبل ان کو اندلس سے نکال دیا گیا تھا- یہ ایک طرح سے مسلمانوں کے اسلامی تشخص پر حملہ تھا جس کی بڑی وجہ تحریک خلافت کا وہ جذبہ تھا جسے گاندھی بہت قریب سے دیکھ چکا تھا اور اسے ڈر تھا کہ کہیں ہندو بالادستی خطرے میں نہ پڑ جائے- پروفیسرمحمد اسلم نے اپنی کتاب تحریک پاکستان میں یوں کانگریس کوبےنقاب کیا ہے کہ:

’’تحریکِ خلافت کے دوران مسلمانوں کا جذبہ ایثار و قربانی اور آزادی کیلئے ان کی تڑپ دیکھ کر ہندو بوکھلا اٹھے،اس لئے انہوں نے ہندوؤں کو مسلمانوں کے مقابلے میں لانے کیلئے ایسی جارحانہ تحریکیں شروع کیں جن کی بنیاد اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت پر رکھی ‘‘-[5]

ترکی میں خلافت کی جگہ جمہوریت نے لے لی اور مصطفےٰ کمال پاشا نے خود ہی خلافت ختم کردی - ترکی بحیثیت ایک ملک موجود رہا تاہم حکومت ترکی نے ازخود بہت سے علاقوں پر اپنی حاکمیت ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا- ان تما م اقدامات کے بعد تحریک خلافت کو جاری رکھنا مسلم راہنماؤں نے مناسب نہیں سمجھا اور یوں 1924ء میں تحریک خلافت ختم کر دی گئی-

برطانوی کنزروٹیو پارٹی(Conservative Party) کو یہ خدشہ تھا کہ ان کے مد مقابل سیاسی لبرل جماعت(Liberal Party) 1929ء کےبرطانوی الیکشن میں ہندوستان کے آئینی مسائل کی آڑ میں سبقت نہ لے جائے- اس کے علاوہ نہرو کی سوراج (خود حکمرانی)کی جماعت بھی برطانیہ کی حکومت کو جنرل اسمبلی میں اصلاحات کے معاملہ پر تنقید کا نشانہ بنا رہی تھی اور لوکل کمیونٹی کی خود مختاری کیلیے برصغیر کی عوام برطانیہ حکومت کے خلاف احتجاج کر رہی تھی-ان اہم وجوہات کی بناء پر برطانیہ حکومت نے 1927ء سر جان سائمن (Sir John Simon) کی سربراہی میں 7 افراد پر مشتمل ایک کمیشن کے تقرر کا اعلان کیا جسے سائمن کمیشن کا نام دیا گیا- اس کمیشن سے نہ صرف ہندوؤں نے اختلاف کیا بلکہ قائد اعظم محمد علی جناح نے بھی اس کی مخالفت کی- کیونکہ یہ کمیشن ہندوستان کی آئینی اصلاحات کے بجائے برطانوی حکومت نے 1929ء کے الیکشن میں کامیابی کے لیے بھیجا گیا تھا -اس مکاری کے باعث پورے برصغیر میں غم و غصہ کی لہر دوڑ اٹھی - جسے مشیرالحسن اپنی کتاب میں یو ں بیان کرتے ہیں کہ:

The president of the congress, Dr. Mukhtar Ahmad Ansari; asked the viceroy to urge the secretary of State for India and the British Government to withdraw its decision about the appointment of the commission, otherwise, the Indians would be left with no option but to boycott it.” [6]

’’اس وقت کے موجودہ کانگریس کے صدر ڈاکٹر مختار احمد انصاری نے وائسرائے سے کہا کہ وہ انڈیا اور برطانیہ کے سیکرٹری آف سٹیٹ کو ترغیب دیں کہ وہ کمیشن کی تعیناتی سے متعلق اپنا فیصلہ واپس لے لیں-وگرنہ انڈیا کے پاس بائیکاٹ کے علاوہ کوئی حل نہ ہوگا‘‘-

قائد اعظم نے سائمن کمیشن کو تنقید کرتے ہوئے گوروں کا کمیشن کہا- ملاحظہ ہو:

I cannot even imagine that appointment of a commission which has been given the task of deciding the future of constitution of India and its 350 million inhabitants but which does not contain even a single Indian member.” [7]

’’میں ایسے کمیشن کی تعیناتی کا تصور بھی نہیں کرسکتا جس کا ممبران میں ایک بھی ہندوستانی شامل نہ ہو اور اس کمیشن کے ہاتھ میں انڈیا کے مستقبل کا آئین بنانے کا اختیار اور 350 ملین ہندوستانی آبادی کا مستقبل سونپ دیا جائے‘‘-

برطانیہ حکومت کی سازش کو برصغیر کی تمام سیاسی جماعتوں نے بھانپ لیا اور اس سائمن کمیشن کو مسترد کردیا- اس کے ردعمل میں سیکرٹری آف سٹیٹ فار انڈیا لارڈ برکن ہیڈ (Lord Birkenhead)  نے ہندوستان کو چیلنج کیا اور کہا کہ اس کمیشن کے مقابلے میں کوئی آئینی کمیشن بنا کر لاؤ- برصغیر کی قابل ذکر سیاسی جماعتوں نے اسے قبول کیا اور  12 فروری کو 1928ء آل پارٹی کانفرنس منعقد کی گئی جس میں سیاسی جماعتوں کے لیڈروں نے شرکت کی- آئندہ ہندوستان کیلیے متفقہ آئین تیار کرنے کے لئے بحث کی گئی -

اس کمیٹی کے دوسرے اجلاس جو کہ 28 فروری 1928ء کو منعقد ہوا جس میں مسلم لیگ کے راہنماؤں نے مسلمانوں کے تمام مطالبات اجلاس میں پیش کیے جیسے کہ (جداگانہ انتخابات، مرکزی اسمبلی میں مسلمانوں کی ایک تہائی نمائندگی، سندھ کی بمبئی سے علیحدگی اور صوبہ سرحد اور بلوچستان میں اصلاحات ) ان مطالبات پر نظرثانی کے لئے دو کمیٹیاں 11 مارچ 1928ء کو تشکیل دی گئی اور کہا گیا کہ اگلے بمبئی اجلاس میں یہ کمیٹیاں اپنی رپورٹ پیش کرے گی -مگر کمیٹی کے تیار کردہ آئین (جسے نہرو رپورٹ کا نام دیاجاتا ہے) میں ان تمام مطالبات کو شامل نہیں کیا گیا -جب 3 نومبر 1928 ءکونہرو رپورٹ کو ہندو کانگریس نےمنظور کیا اور31 دسمبر 1928ء کو گاندھی کی قیادت میں حکومت برطانیہ کو دو ٹوک الفاظ میں کہا اگر نہرو رپورٹ کو ایسا ہی منظور نہ کیا گیا تو ہندو گانگریس عدم تعاون کی تحریک سے گریز نہیں کرے گی- اس رپورٹ کو مسلمانوں، سکھوں اور عیسائیوں نے بھی تسلیم کرنے سے انکار کیا سوائے کانگریس کے کوئی فرقہ یا پارٹی اس رپورٹ کے حق میں نہ تھی- نہرو رپورٹ نے ستم ظریفی کی انتہاء کردی جس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اس رپورٹ میں مسلمانوں کے تمام مطالبات کو فرقہ وارانہ بنیاد کہہ کر مسترد کر دیا گیا-

قائد اعظم محمد علی جناح نےمسلمانوں کی شرائط کا مسودہ تیار کروایا جس کی بنیادی تجاویز یہ تھی (مرکزی اسمبلی میں مسلمانوں کی ایک تہائی نمائندگی، دس سال کیلیے پنجاب اور بنگال میں مسلمانوں کو آبادی کی بنیاد پر نمائندگی اور اضافی اختیارت صوبوں کو حاصل ہوں)اور اسے نہرو آئین کنونشن جو کہ کلکتہ میں منعقدہوا اس میں یہ مسودہ پیش کیا مگر متعصب ہندو ذہنیت کی حامل ہندو کانگریس نے ان تجاویز کو بھی مسترد کردیا-یہ اس بات کی دلیل ہے کہ  کانگریس صرف ہندو مفادات کیلیے کام کر رہی تھی- اگر کانگریس تمام اکائیوں کے لیے کام کر رہی ہوتی تو ان مطالبات کو من و عن مان لیا جاتا-جس کے بعد مسلم ہندو اتحاد کے سفیر کہلانے والے محمد علی جناح یہ کہنے پر حق بجانب تھے کہ:

“From now onwards, this is the parting of the ways”.[8]

’’اب ہمارے تمہارے راستے جداجدا ہیں‘‘-

مزید برآں! قائد اعظم نےنہرو رپورٹ کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار یوں کیا ہے:

’’جس حد تک نہرو رپورٹ کے اصول اساسی کا تعلق ہے مَیں اس کے سخت خلاف ہوں-میرے نزدیک یہ اصول مسلمانوں کے مقاصد کے منافی ہے-اس لئے میں نہرو رپورٹ کے مخالف ہوں-میرے خیال میں مسلمانوں کے مقاصد اساسی کی حفاظت کے لئے کوئی سامان موجود نہیں اور جب تک مسلمان ان تمام شرائط کو منوا نہ لیں گے جو میرے مرتبہ مسودہ میں موجود ہیں اس وقت تک مسلمان ہندوستان میں اپنی مستقل قومی حیثیت کو محفوظ نہیں بنا سکیں گے‘‘-[9]

نہرو رپورٹ نے اونچی ذات کے ہندوؤں کی نمائندہ جماعت (ہندو  کانگریس) کا اصل چہرہ جوکہ برہمن ہندو بالادستی کےنفاذ کے لیے سرگرم تھی کو بے نقاب کیااور ہندو مسلم تعلقات کو نئی سمت دی بلکہ پاکستان کے حصول کیلئے خشتِ اول کا کام کیا- کانگریس کا برہمن ہندو بالادستی کا یہ رویہ صرف مسلمانوں، عیسائیوں اور پارسیوں کے ساتھ نہ تھا بلکہ نچلی ذات کے ہندو بھی اس سے بچ نہ سکے- واقعہ 1932ء کا ہے جب برٹش گورنمنٹ نے کمیونل ایوارڈ کا اجراء کیا جس کے تحت مسلم، سکھ، پارسی، عیسائی اور ہندو اچھوت جداگانہ طرزِ انتخاب کو اپنا سکیں گے- اس ایوارڈ کا برصغیر میں موجود تمام کمیونٹیز بشمول ہندو اچھوت جنہیں دلت کہا جاتا ہے نے خیرمقدم کیا لیکن کانگریس اور ’’عظیم مہاتما گاندھی جو ہندؤں کے باپو‘‘بھی ہیں، ان کو یہ بات نہ ہضم ہوئی اور نہ ہی منظور-

وہ کسی بھی طرح اپنے ہی ہم مذہبوں یعنی دلتوں کو یہ حق نہ دینا چاہتے تھے -لہٰذا جداگانہ طرز سیاست کے خلاف کمر کس بیٹھے، لیکن اچھوتوں نے بھی اپنے حقوق کی حفاظت کی ٹھان لی ، جب معاملہ کسی طور پر حل نہ ہو سکا تو گاندھی نے ’’مرن بھرت ‘‘ (مرن بھرت تامرگ بھوک ہڑتال کو کہتے ہیں)رکھا-گاندھی نے مرن بھرت کیوں رکھا؟ یہ بات اس تحریر سے واضح نہیں ہو رہی-مرن بھرت کے دوران گاندھی نے سردار پٹیل سے کہا اچھوت ( دلت ) یہ بات سمجھتے ہی نہیں کہ جداگانہ نیابت کا اصول ہندوں کو تقسیم کر دے گا یہاں تک کہ اس کی وجہ سے خونریزی ہو گی- اچھوت غنڈے اور مسلمان غنڈے ہم خیال ہو جائیں گے اور مل کر اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کو ہلاک کریں گے کیا برطانوی حکومت کو اس کا کوئی خیال نہیں ہے- جافری لوٹ کہتا ہے کہ گاندھی اس طرح یہ تجویز پیش کر رہے تھے کہ برطانوی حکومت کو مسلمانوں اور اچھوتوں کے اتحاد کے خلاف اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کا دفاع کرنا چاہیئے مہا سبھا ( نیشنل اسمبلی سمجھ لیں اس کو)  کا پہلے ہی یہ موقف تھا، معاملہ طول پکڑ گیا ان کے لیڈر ’’بھیم جی رام جی امبید کر‘‘( یہ دلتوں کے لیڈر کا نام ہے اس کا پورا نام بھیم جی رام جی امبید کر تھا ) نے اس ایوارڈ کی بھرپور پذیرائی کی تھی اور اس کے حق میں تھے کیونکہ اس ایوارڈ کے نتیجے میں دلتوں کو کچھ مخصوص نشستیں قانون ساز اسمبلی میں مل جاتیں اور وہ اپنے حقوق کی آواز بہتر انداز میں اٹھا سکتے ، لیکن گاندھی کے مرن بھرت کے آگے دیگر دلت لیڈر جن میں ایم سی راجا سر فہرست تھے گھٹنے ٹیک گئے- انہوں نے امبیدکر کو سمجھایا کہ مرن بھرت کی وجہ سے گاندھی کی حالت خراب ہے اگر اس بھرت کی وجہ سے گاندھی کا دیہانت (موت یا انتقال) ہو گیا تو ہم دلت جو کہ پہلے ہزاروں سالوں سے بری حالت میں ہیں اس دیہانت کی وجہ سے مزید کم بختی آ جائے گی-لہٰذا امبیدکر کے ساتھی کانگریس اور گاندھی کی چال کے آگے جب بےبس ہوگئے تو امبید کر بھی دل چھوڑ بیٹھے اور گاندھی کے ساتھ معاہدہ کر لیا، معاہدہ بھی کیا تھا جہاں گاندھی نے انگلی رکھی وہاں دستخط کر دیئے، اس معاہدہ کو ’’پونا پیکٹ‘‘ کہتے ہیں- گاندھی کے مرن بھرت سے مسلمانوں اور سکھوں کو تو کوئی فرق نہیں پڑتا تھا اس لئے اس مرن بھرت کے باعث دلتوں کو اپنی مخصوص نشستوں سے ہاتھ دھونا پڑے اور حکومت برطانیہ کے اس ایوارڈ کے تحت دلتوں نے کانگریس اور گاندھی کے دباؤ میں آکر خود کو اس ایوارڈ سے الگ کر لیا - [10]

1935ءکے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کے تحت صوبائی انتخابات 1939-1937ءمیں کانگریس کی کامیابی کے بعد مسلم دشمنی پالیسی اپناتے ہوئے مسلمانوں کو نہ صرف اذیت سے دو چار کیا گیا بلکہ ان کی نسل کُشی بھی کی گئی-ہندو کانگریس کی 27 ماہ کی حکومت میں ہندی کو قومی زبان قرار دیا گیا جب کہ ہندو کانگریس کے جھنڈے کو قومی جھنڈا اور بندے ماترم کو قومی ترانہ بنایا گیا- نام نہاد کانگریس جو کہ خود کو برصغیر کی سیاسی جماعت کے طور پر گردانتی تھی جب بر سرِ اقتدار آئی تو صرف مسلم دشمن پالیسی اختیار کر تے ہوئے ہندو عقائد جیسے گاؤ کشی کا خاتمہ کو فروغ دیا- انتہاء پسند ہندو کانگریس نے مساجد کی تعمیر میں رکاوٹیں حائل کی اورمساجد میں نمازیوں کو تشدد کا نشانا بنایا-ظلم، جبر اور بربریت کی یہ دردناک داستان کانگریس کی مسلم دشمن پالیسی کی عملی تصویر تھی- اسی طرح انتہاء پسند ہندو کانگریس کے راہنماؤں کے مسلم دشمنی پر مبنی چند اشتعال انگیز بیانات ملاحظہ ہوں:

کانگریس کے صدر سبھاش چندربوس نے کہا کہ:

Party dictatorship should be slogan of the congress and the idea of cooperation and coalition with other parties must be given up.” [11]

’’پارٹی کی آمریت کانگریس کا نعرہ ہونا چاہیے اور دوسری پارٹیوں سےتعاون اور اتحادکا خیال ترک ہونا چاہیے‘‘-

نہرو نے اپنے انتہاء پسند خیالات کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے:

There were only two parties in the country, the congress and the government, and others had to line up.” [12]

’’ملک میں صرف دو جماعتیں تھی کانگریس اور حکومت (برطانوی )، باقی (جماعتیں ) ان میں شامل ہو چکی‘‘-

اس دور میں کانگریس کی انتہاء پسند نظریات اور مسلم دشمنی عروج پر رہی اور ہندوؤں نے مسلمانوں کو کمزور کرنے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا تاکہ مسلمان ہندو بالادستی کے زیر سایہ اقلیت کے طور پر ہندوستان میں رہیں اور مسلمانوں پر برصغیر کے خطے کو تنگ کر دیا جائے اور ان کو ہمیشہ کیلیے غلام بنایا جائے- ابو الحسن اصفہانی (پاکستانی قانون دان) کی تحریر سے کانگریس کے مسلم دشمن نظریات کو بخوبی سمجھاجا سکتا ہےکہ:

For the Muslims, the Congress rule represented a nightmare of harassment, persecution, suppression, discrimination in the various fields administrative, social, culture, political, economic and educational.” [13]

’’مسلمانوں کیلیے ہندو کانگریس کی حکمرانی انتظامی، سماجی، ثقافتی، سیاسی، معاشی اور تعلیمی اعتبار سے ایک ڈراؤنا خواب ثابت ہوئی- وہ خواب جو ہراسگی، ظلم و ستم، مغلوبیت اور امتیازی سلوک پر مبنی تھی‘‘-

جون 1945ء میں شملہ کانفرنس ہوئی جس میں لارڈ ویول (وائسراے) کی پیش کردہ تجاویز کے مطابق یہ طے پایا کہ نئی ایگزیکٹو کونسل میں پانچ ہندو، پانچ مسلم، ایک اچھوت اور ایک سکھ کو نمائندگی دی جائے گی-اس ضمن میں مسلم لیگ کا مطالبہ تھا کہ مسلمانوں کو نامزد کرنے کا اختیار مسلم لیگ کو ہونا چاہیے مگر کانگریس یہ چاہتی تھی کہ مسلمان ارکان نامزد کر کے وہ مسلمانوں کی لیگ کی جانب جھکاؤ کی پالیسی کا رخ موڑ لیں گے-مگر قائد اعظم جیسے مضبوط اور نڈرشخص نے ان کی اس خواہش کو عملی جامہ نہ پہننے دیا- ہندؤ کانگریس کی مکاری،شاطرانہ چال اور قائد اعظمؒ کی سیاسی بصیرت کا اعتراف خود لارڈ ویول نےکیا- 30 مارچ 1946 کےنیو یارک ٹائمز کے مطابق لادڈویول کا کہنا تھا کہ:

’’مسلم لیگ حق بجانب تھی،کونسل میں کانگریس کوغلبہ حاصل ہو جاتا‘‘-

14 جولائی کو بحث و تمحیص کے بعد آخرکار یہ کانفرنس بھی اپنی اہمیت کھو بیٹھی- گاندھی نے کہا کہ مسلم لیگ اور کانگریس کے مابین کبھی بھی تصفیہ نہ ہوسکے گا- متعصب نظریات کی حامل کانگریس برہمن ہندو راج کے جنون میں ہر وہ حربہ اپنا رہی تھی جس سے انگریز مسلمانوں کی نمائندہ جماعت مسلم لیگ کو نظر انداز کر کے آگے بڑھ جائے لیکن برطانیہ کیلیے جناح جیسے آہنی بشر سے ٹکر لینا اتنا آسان نہ تھا-

شملہ کانفرنس کی ناکامی کے بعد اگست 1945ء میں دہلی گورنروں کا اجلاس ہوا -جس میں نئی ایگز یکٹو کونسل کیلئے مرکزی اسمبلی کے انتخابات 1945ء کے اواخر اور صوبائی اسمبلیوں کے 1946ء کے شروع میں منعقد کروا دیئے گئے-گورنر پنجاب گلانسی انتخابات کی آخر تک اس لیے مخالفت کر رہے تھے کہ انہیں معلوم تھا کہ پنجاب میں یونینسٹ اور کانگریس ہار جا ئیں گی-اس سے کانگریس اور انگریز کٹھ جوڑ جو کہ مسلمانوں کے خلاف کیا گیا تھا عیاں ہو جاتا ہے-1946ء کے انتخابات میں کانگریس تعصب ذہنیت آڑےآئی اس قدر مسلم دشمنی پالیسی کا اظہار کیا گیا کہ کانگریس کے مسلم راہنماؤں سے بھی متعصب رویہ روا رکھا گیا- ڈاکٹر سید محمود(جو کہ کانگریس کمیٹی میں جنرل سیکرٹری کے عہدے پر فائزتھے) انتخابات کے بعد بہار میں ڈاکٹر سید محمود سے ان کا حق چھین کر ہندو راہنماوؤں (شری کرشن سنہا اور انوگرہ سنہا، جو مرکزی اسمبلی کے اراکین تھے) کو دے دیا گیا-اس کی وجہ یہ تھی کہ سید محمود کی حکومت میں بہار کے مسلمانوں کو ہندوؤں کے برابر حقوق حاصل ہوں گے جو کہ کانگریسی عزائم اور مسلم دشمنی پالیسی کے خلاف تھا- تقسیم ہند میں ماؤنٹ بیٹن کی سربرای میں ریڈکلف ایوارڈ کھلی بد دیانتی کی ایک پُر سوز تصویر ہے- جب لارڈ ماؤنٹ بیٹن اور نہرو کٹھ جوڑ نےعلاقوں کی تقسیم میں غیر منصفانہ طریقے سے کام لیا اور مسلم اکثریت والے علاقے بھی بھارت کے حوالے کر دیے؛ جس کی سزا آج بھی آسام، کشمیر، جونا گڑھ، حیدر آباد، انبالہ اور جالندھرکے مسلما ن بھگت رہے ہیں -

کانگریس کی پرورش ہندوتوا نظریے کی گود میں ہوئی اس کا اندازہ یہاں سے کریں کہ جب پاکستان آزاد ہو چکا ہے، برصغیر دو ملکوں میں تقسیم ہے، بھارت میں گانگریس کی حکومت ہے اور پاکستان میں مسلم لیگ کی ، 11 اگست کو بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے دستور ساز اسمبلی میں ایک مشہور عالم تقریر کی جس کا دوہرانہ یہاں مقصد نہیں لیکن سب جانتے ہیں کہ اس تقریر کے بعد ہر مذہب، ہر رنگ، ہر فرقے کے انسان کو پاکستان میں آزادی نصیب ہو گئی اور خدشات دور ہو گئے-اس کے برعکس علی گڑھ یونیورسٹی میں تقسیم کے بعد جب صوبہ یو-پی کی گورنر سروجنی نائیڈو ( گورنر صاحبہ اپنی مسلم دوستی کی وجہ سے بھی مشہور تھی) کو دورہ کی دعوت دی گئی تو ان کے ساتھ گاندھی ٹوپیاں پہنے کانگریس کے عہدہ دار بھی آئے-ہر گاندھی ٹوپی سروجنی کے لئے ایک کڑا امتحان تھاکہ احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا لیکن سروجنی جی نے کانگریس کی ذہنیت کو بیچ چوراہے میں عیاں کر دیا، ان کی تقریر کیا شروع ہوئی مسلمان دنگ رہ گئے اوراس کے ساتھ آئے گاندھی ٹوپیوں والوں پر سکتہ طاری ہو گیا-انہوں نے کہا:

’’میں آج علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں کئی لوگوں کے مشورے کے خلاف اور چند لوگوں کی دھمکی کے باوجود آئی ہوں ، مجھے علی گڑھ کی ضلعی اور یو-پی کی صوبائی کانگریس نے پہلے مشورہ اور پھر حکم دیا کہ مسلم یونیورسٹی کا دورہ منسوخ کر دو، انہیں یہ بات بھول گئی کہ گورنر کی حیثیت سے میں اب کانگریس کا حصہ نہیں رہی (گورنر ریاست کا نمائندہ ہوتا ہے جس کی ذمہ داری صوبہ میں بسنے والے تمام شہری ہوتے ہیں) -لہٰذا نہ اب میں ان کی رائے کی پابند ہوں اور نہ ان کے ضابطے کی اور ان کی دھمکیوں کو کب خاطر میں لاتی ہوں ‘‘- [14]

کانگریس کی ہندوتوا پالیسی کا اظہار انتہاء پسندانہ و شدت پسندانہ نظریات کے حامل موجودہ بھارت میں بھی نظر آتا ہے- کانگریس موجودہ بھارت کے آپس میں سیاسی اختلافات تو ہو سکتے مگر نظریاتی اعتبار سے ان کا ہدف مسلم دشمنی ہے جس کیلئے وہ متحد ہو کر کسی بھی حد تک جاسکتی ہیں کیونکہ یہ تاریخی طور پر ثابت ہے کہ مسلمان سے نفرت ہمیشہ سے ہی ہندوؤں کی پا لیسی رہی ہے-حال ہی میں مغربی دنیا میں نسل پرستی کے خلاف احتجاج میں گاندھی کے مجسمہ کو مسمار کیاگیا اس کی وجہ نسل پرستانہ سوچ تھی جس کو گاندھی نے فروغ دیا-یہ ہی نظریاتی تسلسل موجودہ بھارت میں برقرار ہے جس نے مسلم دشمنی پر مبنی شہری بل میں ترمیم کی منظوری دی- یہ قدم ایک طرح سے اندلسی ماڈل کی عملی تصویر ہے- کانگریس کے دور میں بھی مسلمانوں کو شدھی کر نے کی تحریک کا یہی نعرہ تھا- کشمیر میں جو ظلم و جبر روا رکھا جارہا ہے اور اس کے ساتھ بھارتی مسلمانوں کو بھی تشدد کا نشانا بنایا جارہا ہے اس سے یہ واضح ہو جاتاہے کہ انڈیا اب صدیوں کی نفرت کے باعث 30کروڑ مسلمانوں کا شکار کرنا چاہتا ہے- نام نہاد جمہوریت کی حکومت کو یاد رکھنا چاہیے کہ سماجی، معاشرتی اور انتہاء پسندانہ سوچ کے باعث نہ تو کانگریس ہندو راج قائم کرسکی اور نہ ہی کبھی موجودہ بھارت  کامیاب ہو سکے گا- جن ناپاک عزائم سےانڈیا کشمیر میں ظلم کررہا ہے اس میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکےگا اور اکھنڈبھارت کا خواب محض حسرت رہ جائے گا- اب تو بھارت کے اندر سے ہی علیحدگی پسند تحریکوں (بالخصوص خالستان تحریک)نے بھی شدت اختیار کر لی ہے جس کے موجودہ بھارت اکھنڈبھارت کے جنون میں لداخ باڈر پرچینی افواج سے ٹکر لی مگر منہ کی کھانی پڑی- یہ جنون ہی اقوام عالم کو تیسری بڑی جنگ کی طرف لے جارہا ہے جس کے بعد نہ صرف جنوبی ایشاء بلکہ پوری دنیا بہت سی نعمتوں سے محروم ہو جائے گی-

مزید برآں مغربی طاقتوں کی سنجیدگی ساؤتھ سوڈان اور ایسٹ تیمور جیسے مسائل میں تو نظر آتی ہے، ان معاملات کو عالمی امن کا رنگ دے کر فوراً حل کیا جاتاہے اور پھر ستم تو یہ ہے کہ خود کو امن کے داعی کی طور پر دنیا میں پیش کرتے ہیں- یہ ہمیشہ سے مغربی طاقتوں کا وطیرہ رہا ہے جس کی بڑی وجہ معاشی مفاد ہے-اس کے برعکس بالخصوص اسلامی دنیا کےمسائل جیسے کشمیر، جونا گڑھ اور فلسطین  کے مسلمانوں پر ظلم ڈھایا جا رہا ہے- کشمیر اورجوناگڑھ سے عالمی امن کو اس لیے کبھی خطرہ لاحق نہیں ہوتا کیونکہ معاشی مفاد بھارت سے پورا ہو رہا ہےنہ کے کشمیر اور جوناگڑھ سے- فلسطینی مسلمانوں پر جو ظلم و جبر اسرائیل نے قائم کیا ہوا ہے یہ حیران کن بات ہے کہ مسلمانوں کی نسل کشی سے ہی عالمی امن قائم رہتا ہے-کانگریس اور انگریز کٹھ جوڑ آج بھی اسی طرح موجود ہے اور ان کی چاہت ہے کہ دنیا سے مسلمانوں کا نام و نشاں مٹادیں -آخری سطر یہ ہے کہ وقت بدلا ہے لیکن متعصب کانگریسی سوچ اور چال نہیں بدلی-

٭٭٭


[1]K.M. Panikkar, Common sense about India, Victor Gallency, 1960, p.19

[2](زوال سے  اقبالؒ تک،پروفیسر ڈاکٹر جہانگیر حسین تمیمی،مرکزمطالعاتِ  جنوبی  ایشیاء،پنجاب یونیورسٹی لا ہور)

[3]Bannerjea, Surrindra Nath، A Nation in the Making pp:  125-131.

[4]Iqbal, Afzal (ed) (1942), My life a Fragment (Autobiography of Maulana Muhammad Ali Johar), pp143-46,.

[5]( پروفیسر محمد اسلم، تحریک پاکستان،لاہور،ریاض برادرز،2000صفہ219)

[6]Mushirul Hasan, A nationalist correspondence – M.A. Ansari – The Congress and the Raj, Delhi,1987, pp.43-44

[7]Ahmad Saeed and Kh.Mansur Sarwar, Trek to Pakistan, pp.146

[8]Ahmad saeed and Kh.Mansur Sarwar, Trek to Pakistan, pp.160

[9]( احمد سعید، حیات قائد اعظم کے چند نئے پہلو، قومی ادارہ برائے تحقیق تاریخ و ثقافت،2009ء،ص:29)

[10](بحوالہ ، حرف شوق ،مختار مسعود ،صفہ 86،87)

[11]Jamil-ud-Din Ahmad, ‘The Congress in Office 1937-1939’, A History of The Freedom Movement 1707-1947, (Karachi: Pakistan Historical Society), p.9

[12]Ibid, p.9

[13]M. A. H. Isphani, Factors Leading to the Partition of India, (paper (presented at the study conference on partition of India 1947, at University of London, held on July 17-22, 1967. It was published by Forward Publications Trust Karachi), p.15

[14]( بحوالہ آوازِ دوست ، مختار مسعود، صفہ 170،171)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر