بلوچستان قائداعظم کا محبوب ترین صوبہ

بلوچستان قائداعظم کا محبوب ترین صوبہ

بلوچستان قائداعظم کا محبوب ترین صوبہ

مصنف: لئیق احمد مارچ 2020

بلوچستان کے رقبے اور آبادی کے لحاظ سے اعداد و شمار:

طویل ساحل سمندر، قیمتی معدنیات کے بیش بہا ذخائر اور جغرافیائی اہمیت کا حامل بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے-اس کا رقبہ 347190 مربع کلو میٹر ہے جو پاکستان کے کل رقبے کا43.6فیصد حصہ بنتا ہے[1]- جبکہ اس کی آبادی 1998ءکی مردم شماری کے مطابق 65لاکھ65ہزار885نفوس پر مشتمل تھی-[2]

ادارہ شماریات پاکستان کی جانب سے 15 مارچ سے 25 مئی 2017ء  تک ہونےوالی ملک کی چھٹی مردم شماری کے نتائج کے مطابق بلوچستان کی کل آبادی ایک کروڑ 23 لاکھ 44 ہزار 408 نفوس پر مشتمل ہے جس میں مردوں کی تعداد 64 لاکھ 83 ہزار 653 جبکہ خواتین کی تعداد 58 لاکھ 60 ہزار 646  ہے-

1998ء سے 2017ء تک آبادی میں سالانہ اضافے کی شرح3.37فیصد ریکارڈ کی گئی-[3]

بلوچستان کی اہمیت؛ بابائے قوم کی نظر میں :

اس خطے کی اہمیت کا اندازہ بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمّد علی جناح کے اس فرمان سے لگایا جا سکتا ہے:

’’بلوچستان بہادر اور حریت پسند لوگوں کی سرزمین ہے‘‘-[4]

قائد اعظم نے بلوچستان کو اپنا پسندیدہ ترین صوبہ قرار دیا تھا لیکن ان کے وصال کے بعد سیاسی بصیرت سے محروم حکمرانوں نے اس کے ساتھ جو امتیاز برتا، یہاں کے کئی ایک سرداروں وڈیروں (الا ما شاء اللہ) نے اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کیلئے عوامی وسائل پہ ناجائز قبضہ جما کر علم و صحت اور انفراسٹرکچر کی راہ میں روڑے اٹکا کر جو ناانصافی کی اور ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت اس خطے کے عوام کو علم کے زیور سے محروم اور رہن سہن کے اعتبار سے پسماندہ رکھا گیا اس کے مجرم کوئی ایک طبقہ یا کوئی ایک گروہ نہیں ہے بلکہ اس کے مجرم ہم من حیث القوم ہیں-

بلوچستان ہمارے بانیٔ پاکستان قائد اعظم کے دل کے بہت قریب تھا اور بلوچستان کی عوام بھی قائد اعظم محمّد علی جناح کو اپنا حقیقی لیڈرسمجھتی تھی جس کا ثبوت تاریخ کے اوراق میں جا بجا ملتا ہے؛ جس کی چند امثال درج ذیل ہیں:

  1. قائد اعظم محمد علی جناح کے بلوچستان کے دوروں کا آغاز 1934ءکےوسط سے ہوا تھا، آپ نے اس سے پہلے بلوچستان کے دورے میں تقریباً دو ماہ قیام کیا، اس کے بعد تا دمِ وصال قائد اعظم نے کوئٹہ اور زیارت کے علاوہ مستونگ، قلات، پشین، ڈھاڈر اور سبی سمیت اندرون بلوچستان کے متعدد دورے کیے جو قائد اعظم کی اس خطّے سے والہانہ محبّت کا واضح ثبوت ہے-[5]
  2. قائد اعظم محمد علی جناح صدر آل انڈیا مسلم لیگ کی حیثیت سے  1943ء میں جب کوئٹہ تشریف لائے تو انہیں 21 توپوں کی سلامی دی گئی - ان سے پہلے صرف وائسرائے ہند کو یہ پروٹوکول دیا گیا تھا-[6]
  3. 14 ستمبر 1945ء کو حضرت قائداعظم نے بلوچستان کا دورہ کیا-آپ کراچی میل کے ذریعے کوئٹہ تشریف لائے ہر سٹیشن پر والہانہ استقبال دیکھنے میں آیا-اس انداز سے استقبال کی پہلے کوئی مثال نہیں- جھٹ پٹ سٹیشن پر لوگ کئی گھنٹوں پہلے موجود تھے جس میں تمام جمالی اور کھوسہ سردار اپنے قبیلوں سمیت حاضر تھے-[7]
  4. جناح کیپ کے نام سے شہرت پانے والی اور بابائے قوم کی شخصیت کا حصہ بن جانے والی قراقلی ٹوپی بھی آپ کو کوئٹہ ہی میں پیش کی گئی تھی-[8]
  5. یہ بلوچستان ہی تھا جہاں خان آف قلات نے قائدِ اعظم کو چاندی میں تولا تھا-[9]
  6. بلوچستان سےمحبت اور انس کایہ عالم تھا کہ قائد اعظم نے اپنی زندگی کے آخری ایام زیارت میں گزارے، علالت کے باوجود قائد نے کسی بڑے شہرجانے کی بجائے زیارت کو ترجیح دی، زیارت میں وقت گزارنا بلوچستان اور یہاں کے لوگوں سے قائد کی محبت کا مظہر ہے-[10]
  7. قائد اعطم نے بلوچستان سے اپنی محبت کا ثبوت قیام پاکستان کے بعد سبی میں پہلے سالانہ دربار میں فروری 1948ء میں طبیعت کی خرابی کے باوجود شرکت کرکے بھی دیا- اس خطّے سے خاص اُنسیت کے سبب ہی اہل زیارت آپ کو بابائے محبت کےنام سے پکارتے تھے- [11]
  8. شدید علالت میں قائدِ اعظم نے اپنے قیام کیلئے بلوچستان کی پیشانی کے جھومر ’’زیارت‘‘ کو پسند کیا اور ایک طویل عرصہ بسترِ علالت پہ رہے جہاں ان کی جانباز بہن محترمہ فاطمہ جناح ان کی خدمت میں ساتھ رہیں، یہیں قائدِ اعظم کراچی روانہ ہوئے اور ہسپتال پہنچنے سے قبل آپ کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی  -

تحریکِ پاکستان میں بلوچستان کا کردار:

پاکستان کے اس عظیم  و حسین صوبہ بلوچستان کو مرکزی حکومتوں نے خاصہ نظر انداز کیا جبکہ بدقسمتی سے یہی حالات پاکستان بننے سے قبل بھی بلوچستان کے ساتھ رہے-انگریزوں کے دورِ حکومت میں بھی بلوچستان پسماندہ خطہ تھا لیکن قائد اعظم محمد علی جناح کو اس خطے سے بے حد محبت تھی جس کا اظہار انہوں نے اپنی مختلف تقاریر و خطابات میں کیا- بلوچستان کے حقوق کی خاطر قائد اعظم 1920ء کی دہائی کے اواخر سے ہی سرگرم رہے- 1929ء میں پیش کردہ اپنے 14 نکات میں بھی آپؒ نے بلوچستان کے حقوق کی خاطر آواز بلند کی-

’’صوبہ سرحد اور صوبہ بلوچستان میں بھی دیگر صوبوں کی طرح اصلاحات کی جائیں‘‘-[12]

1932ء میں قائد اعظم نے بلوچستان کے لیے صوبائی اختیارات کی غرض سے مرکزی اسمبلی میں تحریک بھی پیش کروائی مگر وہ نامنظور ہوگئی- بعدازیں قائد اعظم کی بمبئی میں قاضی محمد عیسٰی سے ملاقات ہوئی اور قائد اعظم نے ان سے سوال کیا کہ ’’کیا بلوچستان میں مسلم لیگ قائم ہوگئی؟ قاضی نے جواب دیا کہ میں ابھی وکالت ختم کر کے آیا ہوں مجھے خبر نہیں‘‘-

 قائد اعظم نے قاضی صاحب کو مسلم لیگ کے مقاصد سے آگاہ کیا- وہ قائد کی باتوں سے بے حد متاثر ہوئے اور انہوں نے اسی وقت مسلم لیگ کے قیام کیلیے تگ و دو شروع کر دیں-

بلوچستان میں واپس آکر انہوں نے مسلم لیگ کی داغ بیل ڈالی اور اپنے ساتھیوں سردار محمد عثمان جوگیزئی، سیٹھ محمد، ملک شاہ جہاں،ملک جان محمد کاسی، ارباب کرم خان،غلام محمد ترین، میر جعفر خان جمالی اور سیٹھ محمد اعظم بلوچ کے ہمراہ پارٹی کو بہت جلد مستحکم کیا- حتیٰ کہ چند مہینوں میں تحصیل اور ضلع کی سطح پر مسلم لیگ منظم ہو گئی-[13]

بلوچستان کی مملکتِ پاکستان اور دینِ اسلام سے محبت کا اظہار مسلم لیگی رہنما مولانا ظفر علی خان نے ان الفاظ سے کیا تھا:

مردانِ مجاہد ہیں گردانِ بلوچستان
دبتے نہیں باطل سے شیرانِ بلوچستان
جس وقت سے قاسم نے گاڑا ہے یہاں جھنڈا
لغزش میں نہیں آیا ایمانِ بلوچستان
کیا لائیں گے خاطر میں خُم خانۂ لندن کو
مست مَے یثرب ہیں رندانِ بلوچستان
خونِ رگِ بطحا سے پُہنچا جو یہاں بہہ کر
گُل رنگ ابھی تک ہیں میدانِ بلوچستان
ہیں اُس کے زعیموں میں کُرد اور اچک زائی
وہ شانِ بلوچستان یہ آنِ بلوچستان
آزادیٔ کامل پر حق ہے بدویّت کا
اور یہ بدویّت ہے سامانِ بلوچستان
وہ وقت بھی آتا ہی دیکھو گے ان آنکھوں سے
دارا و سکندر کو دربانِ بلوچستان
اسلام کی عزت پر سو جان سے قرباں ہے
ملّت کو نہ بھولے گا احسانِ بلوچستان
ہے ذوقِ سخن جو کو سن کر اسے کہہ دیں گے
یہ نظم مرصّع تھی شایانِ بلوچستان![14]

1940ء میں قرار داد پاکستان کے وقت بلوچستان کی نمائندگی قاضی محمد عیسیٰ نے کی اور قرارداد کی توثیق بھی کی- 1943ء میں جب کوئٹہ میں مسلم لیگ کا اجلاس ہوا تو اہلیان بلوچستان نے سبی جنکشن پر قائد اعظم کا پرجوش استقبال اور پُر عزم انداز میں خیر مقدم کیا- [15]جبکہ قائد اعظم کو اکیس توپوں کی سلامی بھی پیش کی گئی جو اس سے پہلے صرف وائسرائے ہند کا پروٹوکول تھا- [16]

اسی سال قائد اعظم نے بلوچستان مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کی بنیاد رکھی اور اس فیڈریشن نے تحریک پاکستان کے لئے دن رات انتھک محنت کی- قائد اعظم نے جولائی 1943ء کو اسلامیہ ہائی اسکول کوئٹہ (جسے قائد اعظم نے چھوٹا علی گڑھ کہا تھا) میں ایک عظیم الشان جلسے سے خطاب کیا- جلسے میں قائد اعظم نے بلوچستان کے عوام سے جو تاریخی جملے فرمائے، اس نے عوام کے اندر گرم لہو پیدا کیا:-

’’بلوچستان کے نوجوانو جاگو، مشکلات کا حل کرنا تمہارا کام ہے اور اس دوران ترقی میں تمہارا اولین فرض یہ ہے کہ مسلمانوں میں قومیت کا جذبہ پیدا کرو-- -تعلیمی طور پر، اقتصادی طور پر، سیاسی طور پر اپنی قوم کو ابھارنے میں امداد کرو‘‘-[17]

ستمبر 1945ء میں قائد اعظم اپنی بہن محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ بلوچستان آئے اور پانچ ہفتے قیام فرمایا- ہر اسٹیشن پر عوام نے آپ کا پرجوش استقبال کیا اور پاکستان سے والہانہ محبت کا اظہار کیا- قاضی محمد عیسٰی کے سبزہ زار پر نوجوانوں نے قائد کا استقبال کیا- ایک نوجوان فتح محمد نے قائد اعظم کی خدمت میں ایک نقشہ پیش کیا جس میں پاکستان کی نشاندہی تھی- جبکہ مشرقی اور مغربی پاکستان کو ایک شاہراہ ملا رہی تھی جس کا نام شاہراہِ قائد اعظم لکھا ہوا تھا- جسے دیکھ کر آپ بےحد خوش ہوئے اور فرمایا:

’’جس پاکستان کا میں مطالبہ کررہا ہوں- ہندو کانگریس اس کو ماننے کےلیے تیار نہیں اور تم بلوچستان کے نوجوانوں نے اس میں شاہراہِ قائد اعظم کا بھی اضافہ کر دیا‘‘-[18]

اگر بلوچستان کو پاکستان بننے سے پہلے دیکھا جائے تو یہ دو حصوں میں منقسم تھا- ایک برطانیہ کے زیر اثر ( کوئٹہ پشین، لورالائی، ژوب، سبی کے بلوچ علاقوں جہاں بگٹی اور مری قبائیل کے مراکز) اور دوسرا حصہ آزاد ریاستیں (قلات، خاران، مکران، لسبیلہ) تھیں-

جب بلوچستان کو پاکستان کے حصے میں کرنے کی بات کی جانے لگی تو برطانیہ کے زیر اثر علاقوں میں ریفرنڈم جبکہ آزاد ریاستوں میں شاہی جرگہ کے تحت فیصلہ کیا جانا تھا- قائد اعظم اور مسلم لیگ کے دیگر سرگرم کارکنان ان کی انتھک محنت کے باعث اکثر سرداروں کا فیصلہ پاکستان کے حق میں آیا اور کانگریس اور انگریزوں کی سازشوں سے خطہ محفوظ رہا-[19]

بلوچستان اور لمحہ فکریہ:

المختصر! بلوچستان بانیٔ پاکستان حضرت قائد اعظم کا محبوب صوبہ تھا لیکن پچھلے 70 سالوں میں حکمرانوں اور سرداروں نے مل کر جو اس خطّے کے ساتھ سوتیلوں جیسا سلوک کیا اور اسے نا صرف پسماندہ رکھا گیا بلکہ بنیادی ضرورتوں سے بھی محروم رکھا گیا جس کے ہم سب مجرم ہیں- الحمدللہ! گزشتہ کچھ عرصے سے بلوچستان کو خاص توجہ دی گئی ہے اور یہاں مختلف اضلاع میں ترقیاتی اور تعلیمی منصوبوں پر کام ہوا ہے لیکن اس سے زیادہ کی ضرورت ہے-

٭٭٭


[1]http://www.pbs.gov.pk/content/demographic-indicators-1998-census

[2]http://www.pbs.gov.pk/content/population-province-region-1951

[3]http://www.pbs.gov.pk/content/provisional-summary-results-6th-population-and-housing-census-2017-0

[4](بلدیہ کوئٹہ کے شہری سپاسنامہ کے جواب میں تقریر - کوئٹہ 15 جون 1948ء)

[5]https://www.google.com/amp/s/urdu.geo.tv/amp/96568

[6](نوائے وقت آرٹیکل عزیز ظفر آزاد 15 جولائی 2019ء)

[7]( ایضاً)

[8]https://www.google.com/amp/s/urdu.geo.tv/amp/96568

[9]https://www.google.com/amp/s/www.naibaat.pk/12-Jul-2019/24694%3fversion=amp

[10]https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2013/06/130615_ziarat_residency_rk

[11](روزنامہ جنگ آرٹیکل راشد سعید 25 دسمبر 2017ء)

[12]https://www.google.com/amp/s/pakistansinfocus.wordpress.com/2018/09/09/%25D9%2582%25D8%25A7%25D8%25A6%25D8%25AF-%25D8%25A7%25D8%25B9%25D8%25B8%25D9%2585-%25DA%25A9%25DB%2592-14-%25D9%2586%25DA%25A9%25D8%25A7%25D8%25AA/amp/

[13]https://ur.m.wikipedia.org/wiki/%D9%82%D8%A7%D8%B6%DB%8C_%D9%85%D8%AD%D9%85%D8%AF_%D8%B9%DB%8C%D8%B3%DB%8C /

[14]https://www.urduweb.org/mehfil/threads/%D9%85%D8%AC%D8%A7%DB%81%D8%AF%DB%8C%D9%86%D9%90-%D8%A8%D9%84%D9%88%DA%86%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86-%D9%85%D9%88%D9%84%D8%A7%D9%86%D8%A7-%D8%B8%D9%81%D8%B1-%D8%B9%D9%84%DB%8C-%D8%AE%D8%A7%DA%BA.29608/

[15]https://www.nawaiwaqt.com.pk/23-Mar-2012/120116

[16]https://www.google.com/amp/s/www.nawaiwaqt.com.pk/15-Jul-2019/1039320%3fversion=amp

[17]https://sites.google.com/site/cabinetmissionplan/speeches-and-statements-by-jinnah-1943-1945

[18]https://www.google.com/url?sa=t&source=web&rct=j&url=http://pu.edu.pk/images/journal/history/PDF-FILES/Kosar.pdf&ved=2ahUKEwjv0eKGyLXnAhUN66QKHdOqB2YQFjAFegQICBAB&usg=AOvVaw1jXl_ej87zHpeCgANSSvHm

[19]http://balochistansearch.blogspot.com/p/14-aug-1947-britshbalochistan-join-in.html?m=1

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر