جمہوریہ جیوبوتی

جمہوریہ جیوبوتی

جغرافیائی طور پرسکڑتی اور سفارتی طور پر پھیلتی عالمی سیاست میں معیشیت مرکزی اہمیت حاصل کرچکی ہے- کسی بھی ملک کانا قابلِ تسخیر دفاع اس کی مضبوط معیشیت پر منحصر ہے- دنیا میں سامراجی و استعماری طاقتوں نے ہمیشہ معاشی و دفاعی طور پر کمزور ممالک میں اپنے نو آبادیاتی نظام کے پنجے گاڑے ہیں- اسی نظریے کی بنیاد ہمیں سوویت یونین ،جرمنی اور دیگر ممالک کی تقسیم کی وجوہات سمجھنے میں بھی مدد دیتی ہے- حقیقت پسندانہ (Realism) اور آزادانہ برتری (Liberal Hegemony) رکھنے والے نظریات کے پیروکار دفاعی و معاشی پالیسیوں کو، چاہے وہ دفاعی (Defensive) ہوں یا جارحانہ (Offensive)،  مضبوط و مستحکم کرنے کی کوششوں میں نئے سے نئے طریقوں اور راستوں کی تلاش میں سرگرداں ہیں- ہر ملک چاہتا ہے کہ تمام جغرافیائی و سفارتی سطحوں پر اپنا اثر قائم رکھے تاکہ حال و مستقبل کی عالمی سیاست و معیشیت میں بہتر کردار ادا کر سکے- یہی بات سٹریٹجک دیپتھ(Strategic Depth) کو بھی یقینی بناتی ہے -اسی تناظر میں اگر افریقی ملک جمہوریہ جیوبوتی کا تجزیہ کیا جائے تو دور حاضر میں تجارت کی بڑھتی اہمیت اور جغرافیائی رکاوٹوں (جنگیں، دہشتگردی، سفارتی بندش وغیرہ) کی بدولت سمندری ساحل سے نوازے گئے ممالک کافی اہمیت حاصل کر چکے ہیں -

جمہوریہ جیوبوتی ایک افریقی ملک ہے- یہ گلف آف ایڈن کے کنارے بحیرہ احمر (Red Sea) اور بحیرہ روم (Mediterranean Sea) کے درمیان مختصر راہداری سویز کینال، باب المندیب (Bab-el-Mandeb Strait) پر واقع ہے - نقشے کے اس حصے کو ہارن آف آفریقہ(Horn of Africa) کے نام سے جا نا جاتا ہے-جمہوریہ جیوبوتی کی اہمیت اس کے وسائل نہیں بلکہ اس کی جغرافیائی لوکیشن ہے-اس بات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہاں دنیاکے سب سے زیادہ بیرونی ممالک کے فوجی اڈے ہیں جس میں امریکہ، فرانس، جاپان، اٹلی اور چین کے فوجی اڈے بھی شامل ہیں- ایک طرف چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ نے جمہوریہ جیوبوتی کے لیے ترقی کی نئی منزلیں متعین کی ہیں جو اس کو افریقہ کا دبئی بنا سکتی ہے تو دوسری طرف امریکہ اور چین کے درمیان تجارتی جنگ اس ملک کو تاریخی المیہ ’’Scramble for Africa‘‘  کی طرف دھکیل رہی ہے- سکرمبل آف افریقہ سے مراد استعماری طاقتوں کی طرف سے افریقہ پر قبضہ، تقسیم اور نوآبادیات قائم کرنا ہے -مشرقِ وسطیٰ اور افریقہ میں لگی آگ کے پیش نظر معاشی تعاون و اتحاد (اکنامک انٹرنیشلزم) کے ذریعے ممالک کو معاشی اور دفاعی طور پر مضبوط کرنا وقت کی عین ضرورت ہے تاکہ ممالک میں انتشار روکا جا سکے جس سے غیر ریاستی عناصر ناجائز فائدہ اٹھا کر خون ریزی کرتے ہیں-

اس خطہ ارضی کے تاریخی تناظر کو دیکھا جائے تو تین قبل از مسیح میں آفار قبائل کے عرب آباؤ اجداد ہجرت کر کےیہاں آباد ہوئے- بعد ازاں صومالی عیساس (Somali Issas) نامی قبائل بھی یہاں آباد ہو گئے- نویں صدی عیسوی کے اوائل میں عرب تاجروں نے یہاں اسلام کا نور پہنچایا - [1]اس علاقے پر ان دونوں قبائل (آفار اور عیساس) نے اپنی خود مختاری قائم رکھی- بعد ازاں جمہوریہ جیوبوتی کی موجودہ جغرافیائی حدود کو  1862ء  سے لے کر 1885ء کے درمیان آفار اور عیساس حکمرانوں کے ساتھ معاہدوں کے ذریعے فرانس کے نو آبادیت میں شامل کر دیا گیا-[2] اس کالونی کا نام صومالی لینڈ (Somaliland) رکھا گیا جس کا دارلحکومت جمہوریہ جیوبوتی بنایا گیا-[3] جنگِ عظیم دوم (WWII)کے بعد فرانس کی دیگر کالونیز کی طرح 1952ء میں صومالی لینڈ کو فرانسیسی یونین میں بیرونی ریاست کے طور پر شامل کر دیا گیا- اس عمل پر صومالی لینڈ کے کچھ عوامی حلقوں کے مظاہروں کے بعد 1967ء میں ایک بار پھر فرانسیسی یونین کے ساتھ الحاق کو جاری رکھنے یا آزادی پر ریفرنڈم ہوا- اس ریفرنڈم میں تقریباً ٪60لوگوں نے الحاق جاری رکھنے کا فیصلہ کیا جس کے بعد صومالی لینڈ کا نام تبدیل کر کے آفاروں اور عیساسوں کی فرانسیسی ریاست(French Territory of Afars and Issas) رکھ دیاگیا -[4] آزادی کے متوالوں نے ایک بار پھر عالمی سیاست کو آزادی کے لیے مجبور کیا جس کی بدولت فرانس نے 1977ء میں تیسرے ریفرنڈم کا اعلان کیا جس میں لوگوں نے اپنا مستقبل آزادی کی صورت میں چنا- یوں 12 جون 1977ء کو حسن گولیڈ ایڈپٹن(Hassan Gouled Aptidon) کی صدارت میں جمہوریہ جیوبوتی دنیا کے نقشے پر ایک آزاد ملک کی حیثیت سے ابھرا جو افریقہ سمیت عالمی سیاست میں اپنی ایک خاص اہمیت رکھتا ہے- فرانس نے اپنی تجارتی مفادات کے تناظر میں جمہوریہ جیوبوتی میں اپنا فوجی اڈہ قائم رکھا ہوا ہے- اس کا دارلحکومت جیوبوتی سٹی ہے جس میں ملک کی تقریباً 80 فیصد آبادی آباد ہے-

بعد از آزادی جمہوریہ جیوبوتی کو معاشی، سیاسی و دفاعی مسائل کا سامنا ہے- سیاسی طور پر مقامی و بیرونی باشندوں کے درمیان نمائندگی کی کشمکش شروع ہوئی جو 1991ء میں خانہ جنگی کی صورت اختیار کر گئی- بعد ازاں سیاسی فریقوں نے امن معاہدے کی صورت میں اس انتشار پر قابو پایا- سیاسی و معاشی مسائل کے ساتھ ساتھ یہ ملک خانہ جنگی، دہشتگردی اور بحری قذاقوں کے خطرات سے دوچار ہے- 2002ء میں دہشتگردی کے خلاف جنگ کے پیشِ نظر اٹلی اور امریکہ نے جمہوریہ جیوبوتی میں اپنے فوجی اڈے قائم کیے- 2016ء میں سعودی عرب اور بھارت نے فوجی اڈے کھولنے میں دلچسپی ظاہر کی- 2017ء  میں چین نے اپنی سرحدی حدود سے باہر پہلا فوجی اڈہ قائم کیا- ان ممالک کے علاوہ جرمنی، سپین کے فوجی فرانس، برطانوی فوجی امریکہاور بھارتی فوجی ، جاپان کے عسکری اڈوں پر تعینات ہیں-

جمہوریہ جیوبوتی کی معیشیت کا انحصار عالمی سمندری تجارت اور اس تجارت کی بدولت ملک میں پیدا ہونے والے ملازمت کے مواقع پر ہے- گو کہ پیدا ہونے والے ملازمت کے مواقع آبادی کے تناسب سے کہیں کم ہیں- جمہوریہ جیوبوتی جغرافیائی اہمیت کا حامل ہونے والا ملک ہونے کے باوجود معاشی بحران کا شکار ہے- ملک میں بارشوں کی کمی اور کل رقبہ کا صرف چار فیصد (٪4) علاقہ قابل کاشت ہونے کے باعث غذائی قلت بہت زیادہ ہے - بڑھتی شرحِ بیروزگاری نے عوام کو بھوک اور افلاس کی دلدل میں دھکیل دیا ہے- کل آبادی کا تقریباً 25 فیصد سطح غربت سے نیچے زندگی گزار نے پر مجبور ہے - 2007 ءمیں قحط نے جمہوریہ جیوبوتی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا جس پر عالمی مالیاتی فنڈ نے 2011ء میں 14 ملین ڈالر کے قرضہ کی منظوری دی- (عالمی طاقتوں کے بحران کا شکار ہونے سے قبل کمزور کو سہارا نہ دینا اور لقمہ اجل بن جانے کے بعد قرضوں کی منظوری دینا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ مقصود مدد نہیں بلکہ مقصود محتاج کو محکومی کی جانب دھکیلنا ہے- بقول حکیم الامت محمد اقبالؒ ’’ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات ‘‘-

2017ء میں جمہوریہ جیوبوتی کی درآمدات تقریباً 730 ملین ڈالر اور برآمدات تقریباً 160 ملین ڈالر رہی-[5] یہ بات قابل غور ہے کہ جمہوریہ جیوبوتی ہمسایہ ایتھوپیا کے لیے ری ایمپورٹ سنٹر (پہلے چیزیں جمہوریہ جیوبوتی میں آتی ہیں جس کے بعد عالمی منڈی میں یا ایتھوپیا میں جاتی ہیں) کا کام بھی کرتا ہے جس سے کافی زرمبادلہ حاصل ہوتا ہے- جمہوریہ جیوبوتی کی درآمد کردہ ڈیزل سے پیدا کردہ بجلی اور درآمد کردہ پانی و خوراک ملکی معیشیت کا ایک بڑا عنصر ہے- ان درآمدات کی وجہ سے ملکی معیشیت غیر مستحکم ہے- ملکی سیاسی و سکیورٹی کی خراب صورتحال کسی بھی بیرونی سرمایہ کاری و امداد کے لیے ایک رکاوٹ ہے جس پر پچھلی دہائی میں کافی حد تک قابو پا کر چین کی سرمایہ کاری سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جارہی ہے-

2015 ء میں جمہوریہ جیوبوتی حکومت نےآزادنہ معاشی پالیسیوں کو اپناتے ہوئے بیرونی کمپنیوں کو ملک میں سستی بجلی اور بہترین سہولیات سے آراستہ سڑکوں اور ریلوے ٹریکس کی تعمیر کے لیے NOCجاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے- جمہوریہ جیوبوتی نے تاریخ کے دو بڑےمنصوبوں پر بھی کام شروع کیا ہے جس میں دوریحلح بندرگاہ (The Doraleh Port )اور جیوبتی ادیس ادابا ریلوے (Djibouti-Addis Ababa Railway) ٹریک شامل ہیں- یہ پراجیکٹس چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا حصہ ہیں- اس سے ملک میں معاشی استحکام آئے گا  اور یوں جمہوریہ جیوبوتی اپنی جغرافیائی حیثیت سے بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے نہ صرف اکنامک انٹرنیشلزم بلکہ سمندری وسائل پر منحصر تجارت (Blue Economy ) کی مدد سے ملکی معیشیت کی ترقی کے سفر کو تیز کر کسے گا-

جمہوریہ جیوبوتی صحراؤں، میدانوں، پہاڑوں اور ساحلوں کی سیاحت کے دلدادہ لوگوں کے لیے ایک بہترین تفریح گاہ ہے- جس میں مساجد (ہمادی مسجد و سلمان مسجد)، آزادی کی نشانی جس کو لوگوں کا محل (The People’s Palace) کہتے ہیں ،قابل دید ہے- اسی طرح نیشنل ڈے جنگل پارک (Day Forest National Park) اور گلف آف تجورا (Gulf of Tadjoura) مشہور سیاحتی مقام ہیں- جیوبوتی کے اندرونی حالات نے ان مقامات کو دنیا کی نظروں سے اوجھل کر رکھا ہے مگر امید کی جاتی ہے کہ بڑھتی سرمایہ کاری ان مقامات کو ان کی حقیقی منزلت دینے میں ممدن ثابت ہوگی-

اگر دوطرفہ تعلقات کو دیکھا جائے تو پاکستا ن اور جیوبوتی دونوں اسلامی ملک اور بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ کے شراکت دار کے طور پر مل کر کر ترقی کی نئی راہیں تلاش کر سکتے ہیں- پاکستان جیوبوتی کوزراعت کے شعبے میں مدد کر سکتا ہے اور وہاں اپنی اضافی زرعی اجناس برآمد کر سکتا ہے- وہاں کے نوجوانوں کو تعلیمی اور دفاعی تربیت مہیا کی جا سکتی ہے تاکہ وہ امن دشمنوں کے ساتھ ہر محاذ پر لڑ سکیں- پاکستان جیوبوتی کے ساتھ دفاعی مشقوں کے ساتھ ساتھ دہشتگردی و بحری قذاقوں کے خلاف تعاون مہیا کر سکتا ہے-OICافریقن یونین اور دیگر عالمی تنظیموں میں باہمی تعاون سے دونوں ممالک فائدہ اٹھا سکتے ہیں-

اکیسویں صدی کے تقاضوں اور اقوام متحدہ کے مقاصد کو سمجھتے ہوئے ایک طرف تو ممالک عالمی اتحاد اور سمندروں کی حفاظت کی بات کرتے ہیں تو دوسری طرف خود مفادات کے تصادم کی صورت میں نہ صرف پولیٹیکل اور اکنامک انٹرنیشنلزم کو رد کرتے ہیں بلکہ سمندر جیسے اہم جزو کو بھی اپنے مفادات کی خاطر استعمال کر رہے ہیں- جس کا اندازہ ممالک کی سمندروں میں بڑھتی فوجی طاقت اور وسائل کے حصول کیلیے اہم جغرافیائی حصوں پر اپنے اثر و رسوخ بڑھانے کی کوششیں ہیں جو دنیا کو کسی بھی وقت ایک ایسی صورت حال سے دوچار کر سکتی ہے جس کا نقصان ایک یا دو ممالک کو نہیں بلکہ پوری دنیا کو اٹھانا پڑ سکتا ہے-  وقت کا تقاضا ہے کہ ہم ممالک کی معاشی و دفاعی صلاحیت بڑھانے کی غرض سے وہاں فوجی اڈے بنانے کے ساتھ ساتھ ان ممالک کی معاشی و دفاعی ترقی پر بھی توجہ دیں تا کہ وہ اپنے مسائل سے بغیر کسی مالی و دفاعی قرضوں کے نبرد آزما ہو سکے-

٭٭٭


[1]Amy McKenna, “The History of Central and Eastern Africa”, Britannica Educational Publishers 2011,  p.105.

[2]African Affairs, Vol. 79, No. 315 (Apr., 1980), pp. 209-226, http://www.jstor.org/stable/722120

[3]https://www.bbc.com/news/world-africa-13232162

[4]Africa Today, Vol. 24, No. 1, New and Emerging Small States in Africa (Jan. - Mar., 1977), pp. 61-67, Indiana University Press, http://www.jstor.org/stable/4185660

[5]https://www.cia.gov/library/publications/the-world-factbook/geos/dj.html

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر