تحریک آزادی کشمیرکانیامرحلہ

تحریک آزادی کشمیرکانیامرحلہ

تحریک آزادی کشمیرکانیامرحلہ

مصنف: افضال راؤ اگست 2016

چناروں سے سجی زعفران سے مہکتی ہوئی سرزمین وادیٔ جموں و کشمیر کو جب مغل فرما روائوں نے اس وادی کو آنکھوں سے دیکھا تو ان کا دل بے اختیار پکار اٹھا کہ ’’ کشمیر جنّت نظیر وادی ہے‘‘ ظاہر پرست تو شاید وادی کے حسن و جمال کی وجہ سے اسے زمین پہ جنت کی مثل قرار دیتے ہوں لیکن کرشماتی نگاہ اور عشاق جموں و کشمیر کو محض اس وادی کے مناظراتی حُسن و جمال و دلکشی کی وجہ سے اسے جنت کی مثل قرار نہیں دیتے بلکہ وہ ’’ درگاہِ حضرت بل میں موجود سرکارِ دو جہاں ﴿w﴾ کے موئے مقدسہ کی وجہ سے وادیٔ جموں و کشمیر کو زمین پہ جنت کی مثل گردانتے ہیں‘‘-

یہ حقیقت ہے کہ دین مبین کے متوالے ہر اس جگہ پہ مائل و فریفتہ ہو جاتے ہیں کہ جہاں سرکارِ مدنہ کی کوئی نشانی موجود ہو- عشاقِ الٰہی تو جنت سے و الہانہ لگائو اس لئے رکھتے ہیں کہ حوضِ کوثر میں انہیں سرکارِ دو عالم کے دیدار اور زیارت کی نعمت نصیب ہوگی- اسی طرح مسلمان ’’بیت المقدس‘‘ پہ بھی یہودیوں کا ناجائز قبضہ کبھی بھی قبول نہیں کریں گے کیونکہ شبِ معراج میں سرکارِ دو عالم ﴿w﴾ وہاں سے نہ صرف آسمانوں کی جانب محو پرواز ہوئے بلکہ تمام انبیائ کرام ﴿e﴾ نے حضور پاک ﴿w﴾ کی امامت میں با جماعت نماز بھی ادا کی- ان روحانی امور کی وجہ سے ملتِ اسلامیہ کبھی بھی بیت المقدس پر یہودیوں کا تسلط قبول نہیں کریں گے کیونکہ مسلمانوں کے دلوں میں بیت المقدس کی بہت زیادہ روحانی و مذہبی تقدیس موجود ہے-

درگاہِ حضرت بل میں حضور نبی اکرم ﴿w﴾ کے موئے مبارک کی تقدس کی وجہ سے کشمیری اپنے وطن مقبوضہ وادی کو زمین پہ معنوی جنت خیال کرتے ہیں اور جیسے مسلمان ’’بیت المقدس‘‘ پر یہودیوں کا قبضہ اور اقتدار تسلیم نہیں کریں گے،بعینہ کشمیری مسلمان اپنی جنت نظیر وادی پہ ہندوئوں کا قبضہ و اقتدار تسلیم نہیں کریں گے - درگاہِ حضرت بل کے مقدسات سے قلبی و روحانی لگائو اور عشقِ رسول ﴿w﴾ کے جذبات ہی تحریک آزادی ٔ کشمیر کو پروان چڑھانے کے اسباب ہیں- یہ حقیقت ہے کہ آٹھ لاکھ ﴿۰۰۰،۰۰۸﴾ بھارتی فوج اس جنت نظیر وادی میں مسلمانوں کی زندگی اجیرن بھی کر دیں تب بھی کشمیری اپنی جنت کو ہندوؤں سے واگزار کراکے رہیں گے-

یہی وجہ ہے کہ کشمیری مسلمانوں کی پانچویں اور چھَٹی نسل میں بھی سیاسی آزادی کی جدوجہد نہ صرف جوں کی توں چلی آرہی ہے بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تحریکِ آزادی کی شدت و جدت میں اضافہ واضح طور پر نظر آرہا ہے- عشقِ رسول ﴿w﴾ کے اسی اشتراک نے کشمیریوں اور پاکستانیوں کے مابین اٹوٹ روحانی تعلق قائم رکھا ہوا ہے- بلاشبہ توحیدِ و رسالت کے اسی رشتے کی وجہ سے کشمیریوں کے دل پاکستانیوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں- لا الہ الا اللہ کا لافانی تعلق ہی وہ اٹل حقیقت ہے جو ان دونوں میں مصنوعی طور پر حائل کی گئی کسی لائن آف کنٹرول کو خاطر میں نہیں لاتا- پاکستانی عوام اپنے کشمیری بھائیوں کی اخلاقی، سیاسی اور سفارتی حمایت کرنے میں کوئی دقیقہ اٹھائے نہیں رکھتے- کشمیریوں اور پاکستانیوں کی تکمیل ایک دوسرے کے بغیر ممکن نہیں ہے کیونکہ قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تھا کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے- اس لیے شہ رگ کے بغیر جسم مکمل نہیں ہوتا اور اکیلی شہ رگ بھی جسم کے بغیر اپنی اہمیت و وقعت کھو بیٹھتی ہے- اس امر کا بیّن ثبوت یہ ہے کہ کشمیریوں کے مستقبل کے متعلق بھارتی وزیر اعظم اور دیگر بھارتی ادارے کچھ بھی کہہ لیں کشمیری بھارتی قیادت کے دھونس اور لالچ پر مبنی بیانات سے لا تعلق رہتے ہیں اور نہ ہی انہیں خاطر میں لاتے ہیں لیکن پاکستانی سربراہ مملکت اور دیگر ادارے اگر مسئلہ کشمیر پر معمول کا بیان بھی دیں تو کشمیر کی حریت پسند قیادت اس پہ فوری ردِ عمل کا اظہار کرتی ہے- اگر ناگوار گزرے تو پاکستان سے گلے شکوے بھی کرتے ہیں- جیسے نوجوان کشمیری مجاہد برہان الدین وانی کی بھارتی فورسز کے ہاتھوں بہیمانہ شہادت کے بعد جب مقبوضہ وادی میں احتجاج کی نئی لہر اٹھی تو بھارتی فوج نے اسے کُچلنے کے لیے ریاستی دہشت گردی و جبر و بربریت کا بے دریغ استعمال کیا تو اس کے ردِ عمل میں کور کمانڈر کانفرنس میں جنرل راحیل شریف نے پاکستانی قوم کی طرف سے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ مسئلہ کشمیر حل کروائے اور کشمیری عوام کی خواہشات کا احترام کرتے ہوئے خطے میں امن کے لیے کشمیری جدوجہد کو تسلیم کریں اور انہوں نے معصوم کشمیری نوجوان کی ظالمانہ ہلاکتوں کی پُر زور مزمت کی اور بجا طور پہ کہا کہ دنیا کو طویل عرصے سے اس حل طلب تنازعہ ﴿مسئلہ کشمیر ﴾ کو سلجھانے میں مدد کرنی چاہیے تا کہ علاقے میں امن کو یقینی بنایا جائے- مقبوضہ کشمیر کی حریت پسند قیادت نے جنرل راحیل شریف کے بیان کی فوری ستائش کی اور اس بیان کو کشمیریوں کے زخموں پہ مرہم رکھنے کے مترادف قرار دیا-

یہ حقیقت ہے کہ مقبول بٹ شہید سے لے کر نو جوان کشمیری مجاہد برہان الدین وانی کی شہادت کا تسلسل مقبوضہ وادی میں تحریک آزادیٔ کشمیر کو کمزور کرنے کی بجائے اس تحریک کو تقویت پہنچانے کا باعث بنا ہے اورمقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز کے ہاتھوں نہتے، بے گناہ اور معصوم کشمیریوں کی ہر شہادت پُر امن تحریک آزادیٔ کشمیر کے جوبن کو مزید نکھار دیتی ہے - حسبِ روایت اس بار بھی بھارتی افواج کی ریاستی دہشت گردی نے کشمیریوں کی لازوال جدوجہدِ آزادی میں ایک نئی روح پھونک دی- کشمیریوں کی ان گنت قربانیاں ایسی تاریخ رقم کر رہی ہیں جس سے آنے والا مؤرخ عصرِ حاضرکی نام نہاد مہذب دنیا کے چہرے سے تہذیب و شائستگی و شرافت کا نقاب اتار دے گا اور آنے والی نسل کو اس مہذب دنیا کو نفاق بھرا مکروہ چہرہ دکھائے گا- اب تو مقبوضہ وادی کشمیر کی سرزمین بھی بھارتی افواج کے ظلم و جبر کی گواہی از خود دے رہی ہے کہ مقبوضہ وادی کشمیر میں کھِلنے والے ہر پھول کے رنگ و رعنائی کے ساتھ ساتھ شہیدوں کے خون کی لالی نے کھِلنے والی پتیوں میں مزید سرخی بھر دی ہے اور اہلِ نظر کو ہر کھِلتے ہوئے شگوفے میں شہیدوں کے لہو کی چمک صاف نظر آتی ہے- مقبوضہ وادی کشمیر میں کھِلنے والی ہر کلی کشمیری ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کی عصمتوں سے پیش آنے والے کھِلواڑ کا نوحہ پڑھتے پڑھتے مرجھا جاتی ہے-

اس حقیقت سے کون واقف نہیں ہے کہ تقسیمِ ہند کے ہنگام میں ریاست کشمیر کی مسلم اکثریت کو یہ اختیار دیا تھا کہ وہ پاکستان یا بھارت کے ساتھ الحاق میں فیصلہ کرنے میں آزاد ہیں لیکن بھارت نے ڈوگرہ حکمرانوں کے نام سے جعلی دستاویز گھڑلی اور اس جعل سازی کو بنیاد بنا کر بھارتی حکومت نے تمام بین الاقوامی قانون کی دھجیاں بگھیرتے ہوئے وادی ٔ جموں و کشمیر پہ غاصبانہ قبضہ کر لیا- جس پہ کشمیری مسلمانوں نے ایک بار پھر جد و جہد آزادی کا آغاز کر دیا کیونکہ وادیٔ کشمیر کی اکثریت پاکستان کے ساتھ الحاق کرنا چاہتی تھی- اس وقت انگریز آفیسر جنرل گریسی پاک افواج کے سربراہ تھے - بانی ٔ پاکستا ن قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ نے جنرل گریسی کو حکم دیا کہ وہ کشمیر کی طرف پیش قدمی کرے لیکن اس نے واضح حکم کو بھی ماننے سے انکار کر دیا تو اس ساری صورت حال میں کشمیری حریت پسندوں نے پاکستان کے غیور قبائل کے ساتھ مل کر غاصب بھارتی افواج کے خلاف باقائدہ گوریلا جنگ کا آغاز کر دیا اور جلد ہی مجاہدین نے مقبوضہ وادیٔ کشمیر کے ایک وسیع و عریض علاقے کو بھارت کے غاصب افواج سے وا گزار کروا لیا- جب بھارتی حکومت نے پورا کشمیر ہاتھ سے جاتے دیکھا اور شکستِ فاش کا مزہ قریب قریب چکھ لیا تو بھارتی حکومت جنگ بندی کی دُہائی دینے خود اقوامِ متحدہ پہنچ گئی جہاں جواہر لال نہرو حکومت نے اقوامِ عالم کے سامنے وعدہ کیا کہ اگر جنگ بند کردی جائے تو بھارتی حکومت کشمیریوں کو اپنے مستقبل کے فیصلے کے لیے استصواب رائے دہی کا حق دے گی اور کشمیری عوام اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے میں آزاد ہوں گے-

اقوامِ متحدہ کی ضمانت پہ جنگ روک دی گئی اور استصواب و حقِّ رائے دہی کی امید پر مقبوضہ وادی میں عارضی امن قائم ہوگیا لیکن چانکیائی فطرت کی حامل ہندو قیادت بعد ازاں اپنے ہی دیئے ہوئے حق خود ارادیت کے وعدے سے مکر گئی اور اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں کی کھُلی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھارتی پارلیمنٹ سے مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ قرار دلوا لیا- اقوامِ متحدہ نے بھی اپنی متفقہ منظور کردہ قرار دادوں کی کھُلی خلاف ورزی پر مجرمانہ خاموشی اختیار کر لی اور عالمی ادارے کی اِس دانستہ چشم پوشی کے ردِ عمل میں کشمیریوں نے الحاقِ پاکستان اور استصوابِ رائے کے لیے پُر امن تحریک شروع کر دی- یاد رہے تحریکِ آزادیٔ کشمیر دنیا کی طویل آزادی کی تحریکوں میں اپنا جدا گانہ مقام رکھتی ہے-

بھارت نے مقبوضہ وادی میںاپنی من پسند کٹھ پتلی انتظامیہ قائم کرنے کے لیے عام انتخاب کا ڈھونگ رچایا لیکن کشمیری مسلمانوں کی اکثریت نے ہوش مندی سے کام لیتے ہوئے خود کو اس دھوکے سے بچائے رکھا کیونکہ اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں کی موجودگی میں کشمیری مسلمان خوب جانتے تھے کہ مذکورہ انتخابات کی کوئی آئینی حیثیت نہ ہوگی- البتہ کشمیری مسلمانوں کی اکثریت نے خود کو تحریکِ آزادی کشمیر سے ہمیشہ وابستہ رکھا اور ہمہ قسم کے حالات کا سامنا کیا- صد آفرین کہ کشمیری مسلمان تحریک آزادیٔ کشمیر کو کئی عشروں سے پوری آب و تاب سے نبھا رہے ہیں اور انہیں اپنی تحریک سے وفا کی بھاری قیمت چکانی پڑ رہی ہے اور اس جد وجہد میں لاکھوں جانوں اور ان گنت عصمتوں کی قربانی دے کر انہوں نے اس تحریک کو زندہ رکھا ہوا ہے -

کشمیری مجاہد برہان الدین وانی اور اس کے دو ساتھیوں کو بھارتی فورسز نے ’’ترال‘‘ کے مقام پر بے دردی سے شہید کیا- اس شہادت کے خلاف پوری مقبوضہ وادی میں لوگ سراپا احتجاج بن گئے- بھارتی فوج نے کشمیر کے اکثر حصوں پر کرفیو لگا دیا لیکن اس کے باوجود برہان وانی کی نمازِ جنازہ نے تین لاکھ ﴿۳۰۰۰۰۰﴾ سے زائد افراد نے حصہ لیا- برہان وانی کی شہادت اور اس کے بعد کے واقعات نے ثابت کردیا کہ تحریک آزادی کشمیر خالصتاً مقامی شہریوں کی پُر امن تحریک ہے اور بھارت کا پاکستان کے خلاف بیرونی مداخلت اور در اندازی کے الزامات صریحاً بے بنیاد ہیں -

قرائن یہ بتا رہے ہیں کہ برہان وانی کی شہادت کے بعد تحریک آزادی ٔ کشمیر اپنی کامیابی کے بہت قریب پہنچ چکی ہے- پاکستانی قوم، حکومتی ادارے اور بالخصوص پاک فوج اپنے کشمیری بھائیوں کی اخلاقی، سیاسی اور سفارتی حمایت میں پیش قدمی کر رہی ہے اور وہ دن دور نہیں جب کشمیری عوام عشروں کی جدوجہد کے بعد آزادی کی نعمت سے سرفراز ہوکر اپنے مستقبل کو پاکستان کے ساتھ وابستہ کر لیں گے-

أزأ

بقیہ رپورٹ از: ’’بھارتی مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورت حال کا تجزیہ‘‘

وقفہ سوال و جوابات:

مسئلہ کشمیر خطے اور بین الاقوامی سیاست کی نظر ہو گیا ہے -

 کشمیریوں کی جہد مسلسل اور آزادی کے لیے دی جانے والی قربانیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ ابھی امید کی شمع روشن ہے اور یہ تحریک ضرور سر خرو ہو گی- او آئی سی نے حال ہی میں ایک قرارداد منظور کی ہے جس میں کشمیر کے مؤقف کی بھرپور تائید کی گئی، پاکستانی سفارت خانہ بھی اس حوالے سے متحرک ہے کہ وہ محتلف فورمز پہ اس مسئلہ کو اجاگر کرے-

پاکستان کے سالارِ اعلیٰ جنرل راحیل شریف نے بھی جاندار مؤقف کا اظہار کیا تاہم ابھی کشمیر کے حوالے سے بہت کچھ کرنا باقی ہے- عالمی برادری کو کشمیر کے حقِ خود ارادیت کے مطالبہ کو تسلیم کرنا ہی پڑے گا- ہمیں اپنے مؤقف پہ مضبوتی سے قائم رہنا چاہیے اور اپنے اوپر عائد کشمیریوں کے متعلق اخلاقی و قانونی ذمہ داری کو پورا کرنے کے لیے مسلسل جدوجہد جاری رکھنی چاہیے-

تجاویز و سفارشات :

٭ عالمی برادری کو بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں جاری قتل عام اور ظلم و استبداد کو جلد از جلد ختم کرانے کے لئے فوری عملی اقدامات کرنے چاہئیں-

٭ بین الاقوامی میڈیا اور غیر جانبدار اداروں کو مقبوضہ کشمیر میں رسائی حاصل ہونی چاہیے اور کسی قسم کے ذرائع ابلاغ پر پابندی نہیں ہونی چاہیے تاکہ زمینی حقائق دنیا کے سامنے آ سکیں-

٭ مقبوضہ کشمیر میں ہزاروں کی تعداد میں زخمی ہونے والے افراد کو فوری طبی سہولیات فراہم کی جانی چاہئیں-

٭ اقوام متحدہ کے منشور کے تحت کشمیریوں کو ان کا بنیادی حق حقِ خود ارادیت حاصل کرنے میں عالمی برادری بھارت پہ دباؤ ڈالے اور تحریکِ آزادیِ کشمیر کو عالمی سطح پر قبول کرتے ہوئے پذیرائی دی جانی چاہئے-

٭ کشمیر میں بنیادی انسانی حقوق کی صریحاً خلاف ورزی پہ انسانی حقوق کے اداروں اور تنظیموں کو فوری نوٹس لینا چاہئے اور بھارتی اقدامات کو ریاستی دہشت گردی قرار دینا چاہئے-

٭اقوام متحدہ کو کشمیر میں اپنا ایک خصوصی مندوب مقرر کرنا چاہیے ، اگرچہ بھارت اس کی مخالفت بھی کرے ، تاکہ وہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے آگاہ ہوا جاسکے-

٭ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ہندوئوں کی غیر قانونی آباد کاری عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے جسے فوری طور پر روکا جانا چاہئے-

٭ بھارت کی جانب سے مقبوضہ ریاست میں لاگو کالے قوانین کا فوری خاتمہ ہونا چاہئے اور اقوامِ متحدہ اور عالمی عدالتِ انصاف کو اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے-

٭ پاکستان کو کشمیر میں حقِ خود ارادیت کے اصولی موقف پر قائم رہنا چاہئے اور پاکستان و دیگر مسلمان ممالک کو سفارتی و سیاسی طور پر بھارت پر دبائو ڈالنا چاہے کہ وہ اپنے وعدوں کے مطابق اس مسئلہ کو حل کرے اور کشمیریوں کو ان کا حق دیا جائے-

٭پاکستان کو چاہیے کے اس مسئلہ کو سکیورٹی کونسل کے فورم پہ اٹھائے-

٭پاکستانی حکومت کو جلد از جلد اس مسئلہ پر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس اور آل پارٹیز کانفرنس بلانی چاہیے-

٭ پاکستانی حکومت کو او آئی سی کے ممبر ممالک کے خارجہ امور کے وزرائ کو موجودہ صورتحال سے آگاہ کرنے کے لیے پاکستان یا کسی اور ملک میں مدعو کرنا چاہیے-

٭پاکستان کو انسانی حقوق کی تنظیموں، یورپی ممالک اور امریکی کانگرس کو اس سلسلہ میں بریف کرنا چاہیے ﴿امریکی کانگرس تک کشمیر یوں کے مؤقف کوپہنچانے کے لیے امریکہ میں آبا د پاکستانی کیمیونٹی بھی ایک مؤثر ذریعہ ہے ، اس کے ساتھ ساتھ لابنگ فرموں کی خدمات بھی حاصل کی جا سکتی ہیں ﴾-

٭ پاکستان کو بھارت کے ساتھ تجارت اور مذاکرات کے لئے جلدی نہیں کرنی چاہئے جب تک بھارت مسئلہ کشمیر کے حل میں سنجیدہ نہیں ہوتا-

چناروں سے سجی زعفران سے مہکتی ہوئی سرزمین وادیٔ جموں و کشمیر کو جب مغل فرما روائوں نے اس وادی کو آنکھوں سے دیکھا تو ان کا دل بے اختیار پکار اٹھا کہ ’’ کشمیر جنّت نظیر وادی ہے‘‘ ظاہر پرست تو شاید وادی کے حسن و جمال کی وجہ سے اسے زمین پہ جنت کی مثل قرار دیتے ہوں لیکن کرشماتی نگاہ اور عشاق جموں و کشمیر کو محض اس وادی کے مناظراتی حُسن و جمال و دلکشی کی وجہ سے اسے جنت کی مثل قرار نہیں دیتے بلکہ وہ ’’ درگاہِ حضرت بل میں موجود سرکارِ دو جہاں ﴿w﴾ کے موئے مقدسہ کی وجہ سے وادیٔ جموں و کشمیر کو زمین پہ جنت کی مثل گردانتے ہیں‘‘-

یہ حقیقت ہے کہ دین مبین کے متوالے ہر اس جگہ پہ مائل و فریفتہ ہو جاتے ہیں کہ جہاں سرکارِ مدنہ کی کوئی نشانی موجود ہو- عشاقِ الٰہی تو جنت سے و الہانہ لگائو اس لئے رکھتے ہیں کہ حوضِ کوثر میں انہیں سرکارِ دو عالم کے دیدار اور زیارت کی نعمت نصیب ہوگی- اسی طرح مسلمان ’’بیت المقدس‘‘ پہ بھی یہودیوں کا ناجائز قبضہ کبھی بھی قبول نہیں کریں گے کیونکہ شبِ معراج میں سرکارِ دو عالم ﴿w﴾ وہاں سے نہ صرف آسمانوں کی جانب محو پرواز ہوئے بلکہ تمام انبیائ کرام ﴿e﴾ نے حضور پاک ﴿w﴾ کی امامت میں با جماعت نماز بھی ادا کی- ان روحانی امور کی وجہ سے ملتِ اسلامیہ کبھی بھی بیت المقدس پر یہودیوں کا تسلط قبول نہیں کریں گے کیونکہ مسلمانوں کے دلوں میں بیت المقدس کی بہت زیادہ روحانی و مذہبی تقدیس موجود ہے-

درگاہِ حضرت بل میں حضور نبی اکرم ﴿w﴾ کے موئے مبارک کی تقدس کی وجہ سے کشمیری اپنے وطن مقبوضہ وادی کو زمین پہ معنوی جنت خیال کرتے ہیں اور جیسے مسلمان ’’بیت المقدس‘‘ پر یہودیوں کا قبضہ اور اقتدار تسلیم نہیں کریں گے،بعینہ کشمیری مسلمان اپنی جنت نظیر وادی پہ ہندوئوں کا قبضہ و اقتدار تسلیم نہیں کریں گے - درگاہِ حضرت بل کے مقدسات سے قلبی و روحانی لگائو اور عشقِ رسول ﴿w﴾ کے جذبات ہی تحریک آزادی ٔ کشمیر کو پروان چڑھانے کے اسباب ہیں- یہ حقیقت ہے کہ آٹھ لاکھ ﴿۰۰۰،۰۰۸﴾ بھارتی فوج اس جنت نظیر وادی میں مسلمانوں کی زندگی اجیرن بھی کر دیں تب بھی کشمیری اپنی جنت کو ہندوؤں سے واگزار کراکے رہیں گے-

یہی وجہ ہے کہ کشمیری مسلمانوں کی پانچویں اور چھَٹی نسل میں بھی سیاسی آزادی کی جدوجہد نہ صرف جوں کی توں چلی آرہی ہے بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تحریکِ آزادی کی شدت و جدت میں اضافہ واضح طور پر نظر آرہا ہے- عشقِ رسول ﴿w﴾ کے اسی اشتراک نے کشمیریوں اور پاکستانیوں کے مابین اٹوٹ روحانی تعلق قائم رکھا ہوا ہے- بلاشبہ توحیدِ و رسالت کے اسی رشتے کی وجہ سے کشمیریوں کے دل پاکستانیوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں- لا الہ الا اللہ کا لافانی تعلق ہی وہ اٹل حقیقت ہے جو ان دونوں میں مصنوعی طور پر حائل کی گئی کسی لائن آف کنٹرول کو خاطر میں نہیں لاتا- پاکستانی عوام اپنے کشمیری بھائیوں کی اخلاقی، سیاسی اور سفارتی حمایت کرنے میں کوئی دقیقہ اٹھائے نہیں رکھتے- کشمیریوں اور پاکستانیوں کی تکمیل ایک دوسرے کے بغیر ممکن نہیں ہے کیونکہ قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تھا کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے- اس لیے شہ رگ کے بغیر جسم مکمل نہیں ہوتا اور اکیلی شہ رگ بھی جسم کے بغیر اپنی اہمیت و وقعت کھو بیٹھتی ہے- اس امر کا بیّن ثبوت یہ ہے کہ کشمیریوں کے مستقبل کے متعلق بھارتی وزیر اعظم اور دیگر بھارتی ادارے کچھ بھی کہہ لیں کشمیری بھارتی قیادت کے دھونس اور لالچ پر مبنی بیانات سے لا تعلق رہتے ہیں اور نہ ہی انہیں خاطر میں لاتے ہیں لیکن پاکستانی سربراہ مملکت اور دیگر ادارے اگر مسئلہ کشمیر پر معمول کا بیان بھی دیں تو کشمیر کی حریت پسند قیادت اس پہ فوری ردِ عمل کا اظہار کرتی ہے- اگر ناگوار گزرے تو پاکستان سے گلے شکوے بھی کرتے ہیں- جیسے نوجوان کشمیری مجاہد برہان الدین وانی کی بھارتی فورسز کے ہاتھوں بہیمانہ شہادت کے بعد جب مقبوضہ وادی میں احتجاج کی نئی لہر اٹھی تو بھارتی فوج نے اسے کُچلنے کے لیے ریاستی دہشت گردی و جبر و بربریت کا بے دریغ استعمال کیا تو اس کے ردِ عمل میں کور کمانڈر کانفرنس میں جنرل راحیل شریف نے پاکستانی قوم کی طرف سے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ مسئلہ کشمیر حل کروائے اور کشمیری عوام کی خواہشات کا احترام کرتے ہوئے خطے میں امن کے لیے کشمیری جدوجہد کو تسلیم کریں اور انہوں نے معصوم کشمیری نوجوان کی ظالمانہ ہلاکتوں کی پُر زور مزمت کی اور بجا طور پہ کہا کہ دنیا کو طویل عرصے سے اس حل طلب تنازعہ ﴿مسئلہ کشمیر ﴾ کو سلجھانے میں مدد کرنی چاہیے تا کہ علاقے میں امن کو یقینی بنایا جائے- مقبوضہ کشمیر کی حریت پسند قیادت نے جنرل راحیل شریف کے بیان کی فوری ستائش کی اور اس بیان کو کشمیریوں کے زخموں پہ مرہم رکھنے کے مترادف قرار دیا-

یہ حقیقت ہے کہ مقبول بٹ شہید سے لے کر نو جوان کشمیری مجاہد برہان الدین وانی کی شہادت کا تسلسل مقبوضہ وادی میں تحریک آزادیٔ کشمیر کو کمزور کرنے کی بجائے اس تحریک کو تقویت پہنچانے کا باعث بنا ہے اورمقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز کے ہاتھوں نہتے، بے گناہ اور معصوم کشمیریوں کی ہر شہادت پُر امن تحریک آزادیٔ کشمیر کے جوبن کو مزید نکھار دیتی ہے - حسبِ روایت اس بار بھی بھارتی افواج کی ریاستی دہشت گردی نے کشمیریوں کی لازوال جدوجہدِ آزادی میں ایک نئی روح پھونک دی- کشمیریوں کی ان گنت قربانیاں ایسی تاریخ رقم کر رہی ہیں جس سے آنے والا مؤرخ عصرِ حاضرکی نام نہاد مہذب دنیا کے چہرے سے تہذیب و شائستگی و شرافت کا نقاب اتار دے گا اور آنے والی نسل کو اس مہذب دنیا کو نفاق بھرا مکروہ چہرہ دکھائے گا- اب تو مقبوضہ وادی کشمیر کی سرزمین بھی بھارتی افواج کے ظلم و جبر کی گواہی از خود دے رہی ہے کہ مقبوضہ وادی کشمیر میں کھِلنے والے ہر پھول کے رنگ و رعنائی کے ساتھ ساتھ شہیدوں کے خون کی لالی نے کھِلنے والی پتیوں میں مزید سرخی بھر دی ہے اور اہلِ نظر کو ہر کھِلتے ہوئے شگوفے میں شہیدوں کے لہو کی چمک صاف نظر آتی ہے- مقبوضہ وادی کشمیر میں کھِلنے والی ہر کلی کشمیری ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کی عصمتوں سے پیش آنے والے کھِلواڑ کا نوحہ پڑھتے پڑھتے مرجھا جاتی ہے-

اس حقیقت سے کون واقف نہیں ہے کہ تقسیمِ ہند کے ہنگام میں ریاست کشمیر کی مسلم اکثریت کو یہ اختیار دیا تھا کہ وہ پاکستان یا بھارت کے ساتھ الحاق میں فیصلہ کرنے میں آزاد ہیں لیکن بھارت نے ڈوگرہ حکمرانوں کے نام سے جعلی دستاویز گھڑلی اور اس جعل سازی کو بنیاد بنا کر بھارتی حکومت نے تمام بین الاقوامی قانون کی دھجیاں بگھیرتے ہوئے وادی ٔ جموں و کشمیر پہ غاصبانہ قبضہ کر لیا- جس پہ کشمیری مسلمانوں نے ایک بار پھر جد و جہد آزادی کا آغاز کر دیا کیونکہ وادیٔ کشمیر کی اکثریت پاکستان کے ساتھ الحاق کرنا چاہتی تھی- اس وقت انگریز آفیسر جنرل گریسی پاک افواج کے سربراہ تھے - بانی ٔ پاکستا ن قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ نے جنرل گریسی کو حکم دیا کہ وہ کشمیر کی طرف پیش قدمی کرے لیکن اس نے واضح حکم کو بھی ماننے سے انکار کر دیا تو اس ساری صورت حال میں کشمیری حریت پسندوں نے پاکستان کے غیور قبائل کے ساتھ مل کر غاصب بھارتی افواج کے خلاف باقائدہ گوریلا جنگ کا آغاز کر دیا اور جلد ہی مجاہدین نے مقبوضہ وادیٔ کشمیر کے ایک وسیع و عریض علاقے کو بھارت کے غاصب افواج سے وا گزار کروا لیا- جب بھارتی حکومت نے پورا کشمیر ہاتھ سے جاتے دیکھا اور شکستِ فاش کا مزہ قریب قریب چکھ لیا تو بھارتی حکومت جنگ بندی کی دُہائی دینے خود اقوامِ متحدہ پہنچ گئی جہاں جواہر لال نہرو حکومت نے اقوامِ عالم کے سامنے وعدہ کیا کہ اگر جنگ بند کردی جائے تو بھارتی حکومت کشمیریوں کو اپنے مستقبل کے فیصلے کے لیے استصواب رائے دہی کا حق دے گی اور کشمیری عوام اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے میں آزاد ہوں گے-

اقوامِ متحدہ کی ضمانت پہ جنگ روک دی گئی اور استصواب و حقِّ رائے دہی کی امید پر مقبوضہ وادی میں عارضی امن قائم ہوگیا لیکن چانکیائی فطرت کی حامل ہندو قیادت بعد ازاں اپنے ہی دیئے ہوئے حق خود ارادیت کے وعدے سے مکر گئی اور اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں کی کھُلی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھارتی پارلیمنٹ سے مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ قرار دلوا لیا- اقوامِ متحدہ نے بھی اپنی متفقہ منظور کردہ قرار دادوں کی کھُلی خلاف ورزی پر مجرمانہ خاموشی اختیار کر لی اور عالمی ادارے کی اِس دانستہ چشم پوشی کے ردِ عمل میں کشمیریوں نے الحاقِ پاکستان اور استصوابِ رائے کے لیے پُر امن تحریک شروع کر دی- یاد رہے تحریکِ آزادیٔ کشمیر دنیا کی طویل آزادی کی تحریکوں میں اپنا جدا گانہ مقام رکھتی ہے-

بھارت نے مقبوضہ وادی میںاپنی من پسند کٹھ پتلی انتظامیہ قائم کرنے کے لیے عام انتخاب کا ڈھونگ رچایا لیکن کشمیری مسلمانوں کی اکثریت نے ہوش مندی سے کام لیتے ہوئے خود کو اس دھوکے سے بچائے رکھا کیونکہ اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں کی موجودگی میں کشمیری مسلمان خوب جانتے تھے کہ مذکورہ انتخابات کی کوئی آئینی حیثیت نہ ہوگی- البتہ کشمیری مسلمانوں کی اکثریت نے خود کو تحریکِ آزادی کشمیر سے ہمیشہ وابستہ رکھا اور ہمہ قسم کے حالات کا سامنا کیا- صد آفرین کہ کشمیری مسلمان تحریک آزادیٔ کشمیر کو کئی عشروں سے پوری آب و تاب سے نبھا رہے ہیں اور انہیں اپنی تحریک سے وفا کی بھاری قیمت چکانی پڑ رہی ہے اور اس جد وجہد میں لاکھوں جانوں اور ان گنت عصمتوں کی قربانی دے کر انہوں نے اس تحریک کو زندہ رکھا ہوا ہے -

کشمیری مجاہد برہان الدین وانی اور اس کے دو ساتھیوں کو بھارتی فورسز نے ’’ترال‘‘ کے مقام پر بے دردی سے شہید کیا- اس شہادت کے خلاف پوری مقبوضہ وادی میں لوگ سراپا احتجاج بن گئے- بھارتی فوج نے کشمیر کے اکثر حصوں پر کرفیو لگا دیا لیکن اس کے باوجود برہان وانی کی نمازِ جنازہ نے تین لاکھ ﴿۰۰۰۰۰۳﴾ سے زائد افراد نے حصہ لیا- برہان وانی کی شہادت اور اس کے بعد کے واقعات نے ثابت کردیا کہ تحریک آزادی کشمیر خالصتاً مقامی شہریوں کی پُر امن تحریک ہے اور بھارت کا پاکستان کے خلاف بیرونی مداخلت اور در اندازی کے الزامات صریحاً بے بنیاد ہیں -

قرائن یہ بتا رہے ہیں کہ برہان وانی کی شہادت کے بعد تحریک آزادی ٔ کشمیر اپنی کامیابی کے بہت قریب پہنچ چکی ہے- پاکستانی قوم، حکومتی ادارے اور بالخصوص پاک فوج اپنے کشمیری بھائیوں کی اخلاقی، سیاسی اور سفارتی حمایت میں پیش قدمی کر رہی ہے اور وہ دن دور نہیں جب کشمیری عوام عشروں کی جدوجہد کے بعد آزادی کی نعمت سے سرفراز ہوکر اپنے مستقبل کو پاکستان کے ساتھ وابستہ کر لیں گے-

أزأ

 

بقیہ رپورٹ از: ’’بھارتی مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورت حال کا تجزیہ‘‘

وقفہ سوال و جوابات:

مسئلہ کشمیر خطے اور بین الاقوامی سیاست کی نظر ہو گیا ہے -

 کشمیریوں کی جہد مسلسل اور آزادی کے لیے دی جانے والی قربانیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ ابھی امید کی شمع روشن ہے اور یہ تحریک ضرور سر خرو ہو گی- او آئی سی نے حال ہی میں ایک قرارداد منظور کی ہے جس میں کشمیر کے مؤقف کی بھرپور تائید کی گئی، پاکستانی سفارت خانہ بھی اس حوالے سے متحرک ہے کہ وہ محتلف فورمز پہ اس مسئلہ کو اجاگر کرے-

پاکستان کے سالارِ اعلیٰ جنرل راحیل شریف نے بھی جاندار مؤقف کا اظہار کیا تاہم ابھی کشمیر کے حوالے سے بہت کچھ کرنا باقی ہے- عالمی برادری کو کشمیر کے حقِ خود ارادیت کے مطالبہ کو تسلیم کرنا ہی پڑے گا- ہمیں اپنے مؤقف پہ مضبوتی سے قائم رہنا چاہیے اور اپنے اوپر عائد کشمیریوں کے متعلق اخلاقی و قانونی ذمہ داری کو پورا کرنے کے لیے مسلسل جدوجہد جاری رکھنی چاہیے-

تجاویز و سفارشات :

٭ عالمی برادری کو بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں جاری قتل عام اور ظلم و استبداد کو جلد از جلد ختم کرانے کے لئے فوری عملی اقدامات کرنے چاہئیں-

٭ بین الاقوامی میڈیا اور غیر جانبدار اداروں کو مقبوضہ کشمیر میں رسائی حاصل ہونی چاہیے اور کسی قسم کے ذرائع ابلاغ پر پابندی نہیں ہونی چاہیے تاکہ زمینی حقائق دنیا کے سامنے آ سکیں-

٭ مقبوضہ کشمیر میں ہزاروں کی تعداد میں زخمی ہونے والے افراد کو فوری طبی سہولیات فراہم کی جانی چاہئیں-

٭ اقوام متحدہ کے منشور کے تحت کشمیریوں کو ان کا بنیادی حق حقِ خود ارادیت حاصل کرنے میں عالمی برادری بھارت پہ دباؤ ڈالے اور تحریکِ آزادیِ کشمیر کو عالمی سطح پر قبول کرتے ہوئے پذیرائی دی جانی چاہئے-

٭ کشمیر میں بنیادی انسانی حقوق کی صریحاً خلاف ورزی پہ انسانی حقوق کے اداروں اور تنظیموں کو فوری نوٹس لینا چاہئے اور بھارتی اقدامات کو ریاستی دہشت گردی قرار دینا چاہئے-

٭اقوام متحدہ کو کشمیر میں اپنا ایک خصوصی مندوب مقرر کرنا چاہیے ، اگرچہ بھارت اس کی مخالفت بھی کرے ، تاکہ وہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے آگاہ ہوا جاسکے-

٭ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ہندوئوں کی غیر قانونی آباد کاری عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے جسے فوری طور پر روکا جانا چاہئے-

٭ بھارت کی جانب سے مقبوضہ ریاست میں لاگو کالے قوانین کا فوری خاتمہ ہونا چاہئے اور اقوامِ متحدہ اور عالمی عدالتِ انصاف کو اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے-

٭ پاکستان کو کشمیر میں حقِ خود ارادیت کے اصولی موقف پر قائم رہنا چاہئے اور پاکستان و دیگر مسلمان ممالک کو سفارتی و سیاسی طور پر بھارت پر دبائو ڈالنا چاہے کہ وہ اپنے وعدوں کے مطابق اس مسئلہ کو حل کرے اور کشمیریوں کو ان کا حق دیا جائے-

٭پاکستان کو چاہیے کے اس مسئلہ کو سکیورٹی کونسل کے فورم پہ اٹھائے-

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر