جب متحدہ ہندوستان پر انگریزوں اور کانگریس کی چیرہ دستیاں عروج پر پہنچ گئیں اور مسلمانوں کے لیے اپنی مذہبی و سیاسی آزادانہ زندگی گزارنا مشکل ہو گیا - ہندو مسلم فسادات نے بھی مسلمانوں کا جینا دو بھر کر دیا تھاتو اِن دونوں مذاہب میں امن و امان قائم کرنے اور مسلم ہندو فسادات کے خاتمے کے لیے مسلم اور ہندو دو الگ ریاستوں کا قیام ناگزیرہو گیا-مسلمانوں کے سخت حالات میں قائد اعظم ایک نجات دہندہ کے طور پر سامنے آئے جو بر صغیر کے مسلمانوں کی پہچان بنے جِنہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کے حقوق کے لیے جدوجہد شروع کی،وہ (قائد اعظم) مسلمانوں کے لیے آزادی کی آواز بن کر اُبھرے جو دو قومی نظریہ کو ساتھ لیکر بلند ہوئی اور برصغیر کے مسلمانوں کے لیے الگ وطن کا مطالبہ کیاجس کے وجہ سے انگریز حکومت نے آخر کار متحدہ ہندوستان کو دو الگ ریاستوں ( مسلم اور ہندو ) میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا -جس کے لیے برٹش وائسرے ہند لارڈ مائونٹ بیٹن نے ۳ جون ۱۹۴۷ء کو منصوبہ تقسیمِ ہند پیش کیا جس نے برٹش انڈیا کو دو الگ آزادو خودمختار ریاستوں (پاکستان اور بھارت ) میں تقسیم کرنے کی تجویز دی (حالانکہ اِس بات کی تاریخی شہادتیں موجود ہیں کہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن کا ہندوستان میں بطور وائسرائے آنے کا اصل مقصد کسی بھی طرح ہندوستان کو مُتحد رکھنا تھا) -۳ جُون کے اِس منصوبہ کو مسلم لیگ اور کانگرس کے وفد نے متفقہ طور پر قبول کر لیا تو لارڈ مائونٹ بیٹن نے اِس منصوبہ کوقانون سازی کے لیے برطانوی پارلیمان کے سامنے پیش کیا- جس کو بعد ازاں برطانوی پارلیمان نے قانون آزادیِ ہند ۱۹۴۷ء کی صورت میں حتمی شکل دے دی-
اِس قانون کی رُو سے مسلم اکثریتی آبادی والے علاقے پاکستان میں اور ہندو اکثریت والے علاقے بھارت میں شامل ہوں گے- قانونِ آزادیِ ہند ۱۹۴۷ ء کے تحت پانچ سو باسٹھ دیسی ریاستیں اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کر سکتی تھیںیعنی قانونِ آزادیِ ہند ۱۹۴۷ء مذکورہ دیسی ریاستوں کو یہ اختیار دیتا تھاکہ وہ:
(۱) پاکستان کے ساتھ الحاق کر لیں
(۲)بھارت کے ساتھ الحاق کر لیں
(۳) اپنی آزاد حیثیت کو برقرار رکھیں
مثلاً اِس قانون کے مطابق ریاستِ بہاولپور نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا اور میسوراور گوالیار جیسی دیسی ریاستوں نے بھارت میں ضم ہونے کا فیصلہ کیا بعینیہٖ قانونِ آزادیِ ہند ۱۹۴۷ء کے مطابق ریاستِ حیدرآباد کو بھی اختیار حاصل تھاکہ وہ چاہے تو پاکستان کے ساتھ الحاق کر لیں،بھارت میں شامل ہو جائیں یا اپنی آزاد حیثیت کو برقرار رکھیں-یہاں یہ بات یاد رہے کہ قانونِ آزادیِ ہند ۱۹۴۷ء مذکورہ دیسی ریاستوں کی مقامی حکومتوں کو یہ اختیار تفویض کرتا ہے کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ از خود کریں-قائداعظم نے دیسی ریاستوں کے متعلق پالیسی بیان دیتے ہوئے فرمایاتھاکہ:
’’آئینی اورقانونی اعتبار سے برطانوی راج کے خاتمے پرہندوستانی ریاستیں آزاد اورخود مختار ہوجائیں گی اوروہ اپنے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرنے یااپنے لئے کوئی راہ متعین کرنے میں آزاد ہوں گی -ان کے سامنے یہ راستہ کھلا ہے کہ خواہ وہ ہندوستان کی مجلس دستور ساز میں شامل ہوں یاپاکستان کی مجلس دستور ساز میں یااپنے طور پرآزاد رہنے کافیصلہ کرلیں -موخر الذکر صورت میں وہ اپنی صوابدید کے مطابق ہندوستان یا پاکستان سے معاملات طے کر سکتے ہیںیا تعلق استوار کر سکتے ہیں‘‘-(نیو دہلی ۱۷ جون ۱۹۴۷)-
نظام آف حیدر آباد دکّن مسلمان تھا، اِس لیے وہ قائد اعظم اور پاکستان سے دِلی وابستگی رکھتا تھا چنانچہ نظام آف حیدر آباد دَکّن نے مذکورہ قانونی حق کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا-نظام آف دکّن کے اِس فیصلے نے کانگریسی قیادت کے اوسان خطا کر دیے اورکانگریس نے اپنے مذموم مقاصد (ریاست حیدرآباد دَکّن پر غیر قانونی قبضہ) حاصل کرنے کے لیے حیدر آباد میں ہندو مسلم فسادات کو ہوا دی- ابھی نظام آف دکن سے الحاقی معاملات جاری تھے کہ بدقسمتی سے قائداعظم کی وفات وقوع پذیر ہو گئی-آپ کی وفات کے فوراً ہندو آبادی کے حقوق کے تحفظ کا بہانہ کرتے ہوئے بھارت نے ریاست ِحیدرآباد میں فوج کشی کے ذریعے غاصبانہ اور ظالمانہ قبضہ کر لیا،ظالمانہ اِس لیے کہ اِس حملہ میں ہزاروں مسلمانوں کا قتلِ عام کیا گیا-
یہ امر پیشِ نظر رہے کہ ریاستِ کشمیر اور ریاست حیدر آباد دکّن ہر دو معاملات میں کانگریسی قیادت نے دوہرے معیارات برتے، ایک جانب تو کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت کے باوصف مہاراجہ ہری سنگھ کی نسبت سے جعلی و غیر قانونی الحاقی دستاویز گھڑی اور اِن جعلی دستاویز کو جواز بنا کر وادیِ کشمیر پہ غاصبانہ قبضہ کر لیا-اِن الحاقی دستاویز کے غیر قانونی ہونے کے حق میں برطانوی تاریخ دان الیسٹر لیمب نے اپنی کتاب "Kashmir: A disputed Legacy"میں اور اوتار سنگھ نے اپنی کتاب ــ’’پاک بھارت تعلقات: ۱۹۴۷ تا ۲۰۰۷ ‘‘کی جلد نمبر ۶ میں دلائل دیے ہیں-دوسری جانب ریاست حیدر آباد کے سربراہ نظام آف حیدر آباد کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے قانونی و جائز فیصلے کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے فوج کشی کے ذریعے حیدر آباد پر غیر قانونی و غیر اخلاقی قبضہ کر لیا- یہ ہے ثبوت متعصب و تنگ نظر کانگریسی ہندو ذہنیت کے منافقانہ دوہرے معیار کا-ریاست حیدر آباد ہو یا ریاست کشمیر بھارت نے ہمیشہ دوہرامعیار اپناتے ہوئے وہاں کے مسلمانوں پر مظالم ڈھائے ہیں اور بھارت کی موجودہ حکومت بھی اُسی روش کی پیروکار ہے-
یہ بات یاد رہے کہ قائد اعظم کے ہوتے ہوئے کانگریسی قیادت نظام آف دکّن کے قانونِ آزادیِ ہند ۱۹۴۷ء کے تحت پاکستان کے ساتھ الحاقی فیصلے کو چیلنج نہیں کر سکتا تھاتو ہندو بنیا کسی ایسے موقع کی تلاش میں تھا کہ وہ ریاست حیدرآباد پر فوج کے ذریعے قبضہ کرے - ۱۱ ستمبر ۱۹۴۸ کو جب قائد اعظم نے ظاہری زندگی سے پردہ فرمایا تو بھارتی قیادت کو ایک اچھا موقع مل گیا کہ وہ ریاست حیدرآباد پر فوج کشی کر دے اِس لیے ۱۲ ستمبر ۱۹۴۸ ء کو بھارتی فوج قانونِ تقسیمِ ہند اور نظام آف دکن کے قانونی فیصلے کو ملحوظِ خاطر لائے بغیر ریاست حیدر آباد پر چڑھ دوڑی اور ہزاروں مسلمانوں کے قتل کے بعد وہاںپر قابض ہو گئی-کیونکہ قائد اعظم کے ہوتے ہوئے اگر وہ ایسا مذموم اقدام کرتے تو اُن کو قائد اعظم کی طرف سے سخت سیاسی و سفارتی ردِعمل کا سامنا کرنا پڑتا جِس کو شاید وہ برداشت نہ کر سکتی-
قائد اعظم نے دیسی ریاستوں کے متعلق اصولی مؤقف اپناتے ہوئے کہا تھا کہ
’’ آل انڈیا مسلم لیگ کی حکمت عملی شروع ہی سے بڑی
سوشل میڈیا پر شِیئر کریں