مسلم انسٹیٹیوٹ یو-کے چپٹر کے زیر اہتمام لندن میں ’’مصنوعی ذہانت کے انسانوں کے لئے خطرات اور فوائد ‘‘ کے موضوع پر راؤنڈ ٹیبل ڈسکشن کا انعقاد کیا گیا- اس موقع پر پروفیسر طارق ستار، لندن ساؤتھ بنک انوویٹو سنٹر، پروفیسر فلپ برل، لندن ساوتھ بنک یونیورسٹی اور اینڈریو مارٹن، تکنیکی ماہر اور مہتمم نے اپنے خیالات کا اظہار کیا -محمد علی افتخار ( پروگرام مینیجر، دی مسلم ڈیبیٹ) نے ماڈریٹر کے فرائض سر انجام دیے-
مقررین کے اظہار خیال کا مختصر خلاصہ درج ذیل ہے:
مصنوعی ذہانت کامقصد فیصلہ سازی میں انسانی مداخلت کو کم کرنا ہے- مصنوعی ذہانت ہر صورتحال میں انسانی دماغ کا مقابلہ نہیں کر سکتی لیکن بہت سے کام ایسے بھی ہیں جن کا سرانجام دینا انسانی دماغ کے بس کی بات نہیں جیسا کے جہاز کی پرواز کے لیے کمپیوٹر کی مدد درکار ہوتی ہے- یہ عمومی نقطہ نظر ہے کہ مصنوعی ذہانت نے بہت سے روز گار ہڑپ کرلیے ہیں لیکن جب بھی ایک قسم کا روزگار ختم ہوتا ہے تو دوسرا اس کی جگہ لے لیتا ہے جیسا کے’’کافی مشین‘‘کی ایجاد کے بعد کافی تیار کرنے کے لیے انسان کی ضرورت نہیں لیکن کافی مشین تیار کرنے والی فیکٹری میں روزگار کے بہت سے مواقع پیدا ہوگئے-اس کام پہ بہت تحقیق جاری ہے کہ انسان نما روبوٹ تیار کیے جائیں، یہ روبوٹ کسی حد تک تو کام کر سکتے ہیں جیسا کے چہرہ شناسی لیکن اعلیٰ سطح کی ذہانت ممکن نہیں جیسا کہ حالات کو مد نظر رکھ کے فیصلہ کرنا-
مصنوعی ذہانت ان علاقوں میں طب کے شعبوں میں بہت اہم کردار ادا کرسکتی ہے جہاں طبی سہولیات پہنچانا ممکن نہیں جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ افریقہ میں ہر منٹ کے بعد ایک بچہ ملیریا اور دیگر مہلک امراض جیسا کہ ذیکا وائرس کی وجہ سے جاں بحق ہوتا ہے-اس ٹیکنالوجی کے ذریعے ہم دیہی اور دور دراز علاقوں کے باشندوں کو اپنی صحت کا خیال رکھنے کے قابل بنا سکتے ہیں-اس مقصد کے لیے ہم بڑے سادہ صحت کی حفاظت کے طریقہ کار استعمال کر سکتے ہیں- زیادہ تر بیماریاں آلودہ پانی اور جانوروں کی وجہ سے پھیلتی ہیں بلکہ بعض پیدائشی بھی ہوتی ہیں- یہ بیماریاں دیہی علاقوں میں بڑی تیزی سے پھیلتی ہیں اور بعض اوقات ان پہ بڑے سادہ طریقے سے بھی قابو پایا جا سکتا ہے جس کی معلومات لوگوں میں نہیں ہوتی جیسا کہ مریض کو پانی پلائے رکھنا- موبائل طبی سہولیات بھی مہیا کی جا سکتی ہیں جس کو ایک عام آدمی بھی کام میں لا سکتا ہے- دیہی علاقے کے لوگوں کو یہ تربیت بھی دی جا سکتی ہے کہ وہ خود اپنی صحت کا خیال رکھیں- سادہ مصنوعی ذہانت کے طریقہ کار سے مختلف آبادیوں کی صحت کے ریکارڈ کی چھان بین ممکن ہے جیسا کہ بڑے ہسپتالوں میں یہ سہولت موجود ہوتی ہے-تشخیص کے مختلف طریقہ کاروں کو بروئے کار لاتے ہوئے بہت سی بیماریوں کا علاج ممکن ہے-سادہ مصنوعی ذہانت کے تشخیصی طریقہ کار سے وہ سادہ اصول جن کے ذریعے ڈاکٹر تشخیص کرتے ہیں، کو بروئے کار لایا جاسکتا ہے- جدید مصنوعی ذہانت کے تشخیصی طریقہ کار میں خون کے نمونوں کا ٹیسٹ بھی ممکن ہے- مصنوعی ذہانت کے ذریعے ہم مریضوں کا آن لائن ریکارڈ بھی محفوظ رکھ سکتے ہیں- لوگوں کو یہ تربیت دینا ہوگی کے مصنوعی ذہانت کے ذریعے اپنی صحت کی حفاظت کا ذمہ خود لیں جس سے ایک صحت مند اور خوشگوار معاشرے کا قیام کیا جا سکتا ہے-
انڈسٹری میں استعمال ہونے والی مشینری نہایت قیمتی ہوتی ہے اور اس کی مناسب دیکھ بھال بہت ضروری ہے-صنعتی مشینوں کے دیو ہیکل وجود مسلسل معائنہ کے متقاضی ہوتے ہیں- اس کے علاوہ ان کی تنصیب دور دراز ہوتی ہے - اس لیے ان تک رسائی بھی مشکل ہوتی ہے- اس کے علاوہ یہ بہت حساس ہوتے ہیں اور معمولی نقصان بھی بہت بڑے حادثے کا پیش خیمہ ہوسکتا ہے- ان صنعتوں میں تیل و گیس، نیوکلیائی پلانٹس، ہوائی چکیاں، ذرائع آمد و رفت اور ریلویز شامل ہیں جو کہ اپنی اہمیت کے پیشِ نظر مسلسل دیکھ بھال کی ضرورت رکھتی ہیں - انسان زیادہ درجہ حرارت اور ناقابلِ رسائی ہونے کی وجہ سے چلتی مشینوں کا معائنہ نہیں کرسکتے اور روبوٹس اس کام کے لیے بہتر آپشن ہیں-
غیر تخریبی جانچ میں ماہر، انتہائی قابل معائنہ کاروں اور روبوٹس کا تعاون کسی بھی ڈیٹا کے تجزیہ کو آسان اور فیصلہ سازی کی قوت کو تیز بنا سکتا ہے- ایسے روبوٹس ظاہری معائنہ اور سرویلینس میں نہایت معاون ثابت ہوتے ہیں- روبوٹک مشینری آئل اور گیس ٹینکس کی لیکج، زنگ خوردگی اور جمع شدہ فاضل مادوں کی تشخیص میں بہت مددگار ہے- روبوٹس نیوکلیر پلانٹس سے لے کر کثیر المنزلہ عمارات کی ساخت میں موجود نقائص کی باآسانی نشاندہی کر سکتے ہیں- ایسے متحرک روبوٹس بنائے جا رہے ہیں جو کسی بھی نازک اور اہم انفراسٹرکچر کی سلامتی کو جانچ سکیں، اس کی حفاظت کو یقینی بنائیں، اس کی معائنہ اور مرمت کی قیمت کو کم کریں اور ممکن ہو تو اس کی مشینری کو بند کیے بغیر اس کی جانچ پڑتال کر سکیں- بلاشبہ، اصل مقصد ان کارکنان کی حفاظت ہے جو ایسے خطرناک ماحول میں اپنا کام سر انجام دیتے ہیں- بہت سے غوطہ خوروں کی اموات واقع ہو چکی ہیں جو سمندر اور دوسری تہوں میں ایسے اسٹرکچرز کی مرمت و معائنہ کرتے ہیں-
تاہم، روبوٹس کی تخلیق بہت سے مسائل بھی پیدا کر سکتی ہے- اس ضمن میں یہ انتہائی ضروری ہے کہ مشینی سسٹم شفاف اور تعصب سے پاک ہوں- اس کے علاوہ روبوٹک مشینز کے کامیاب استعمال کے لیے مناسب ٹریننگ چاہیے ہوتی ہے جو کہ وَقت طلب بھی ہے اور دِقّت طلب بھی- بسا اوقات، یہ مشینیں ایسے نتائج بھی اخذ کر سکتی ہیں جو کہ غلط اور تباہ کن ثابت ہو سکتے ہیں- اس کے علاوہ ان سے غیر مستقل، جانبدار اور بے تکے نتائج بھی سامنے آ سکتے ہیں- مصنوعی ذہانت پر یو-کے رپورٹ کے مطابق ڈیٹا کا بہت زیادہ حجم، اس کا ذریعہ حصول اور اس کا نامناسب استعمال غیر حقیقی نتائج کی طرف لے کے جا سکتا ہے- روبوٹ، کمپیوٹر اور دوسری ٹیکنالوجی کے اشتراک سے ایسی مخلوق تشکیل دی جا رہی ہیں جو کئی گنا زیادہ ذہین ہونے کے باعث انسان پر تباہ کن اثرات مرتب کر سکتی ہیں- لوگوں میں یہ ڈر ہے کہ مشینیں مصنوعی نظامِ تنفس سے ہوائی جہازوں تک کو کنٹرول کر رہی ہیں اور اگر ان کا کنٹرول انسان کے ہاتھ سے نکل گیا تو نتائج کا سوچنا بھی ناممکن ہے-ان مسائل کا تدارک مصنوعی ذہانت کے الگورزَم تشکیل دے کر ان میں جانبداری تلاش کرنے کے لیے ان کی چھان بین میں ہے- اس کے علاوہ حکومت کو ایسے نظام اپنے کنٹرول میں رکھنے چاہییں جن کی رسائی حساس معلومات تک ہے- یورپی یونین نے ڈیٹا یا معلومات کے استعمال سے متعلق ایک قانون بھی متعارف کرایا ہے جس کے مطابق کوئی بھی یورپی شہری اپنے متعلق معلومات کو تلف کروانے کا حق رکھتا ہے- تاہم، روبوٹس کے فوائد و نقصانات سے متعلق بحث میں ابھی گنجائش باقی ہے-
وقفہ سوال و جواب:
چار سال قبل جب آپ کسی بنک میں جاتے تھے تو انسانی عملہ آپ کے روبرو ہوتا تھا لیکن اب انسانوں کی جگہ روبوٹس اور مشینوں نے لے لی ہے- اگر مشین نے آپ کی کمانڈ ماننے سے انکار کردیا تو آپ کے پاس کوئی راستہ نہیں بچتا- حقیقتاً، آپ کو جواباً روبوٹ جیسا ردِ عمل دینا پڑتا ہے- اس صورتحال سے بیروزگاری میں اضافہ ہوا ہے- چند سال پہلے جہاں دس لوگ کام کرتے ہیں، آج وہاں صرف دو لوگ بچے ہیں- باقی تمام کی جگہ روبوٹس نے لے لی ہے اور ایسے سسٹمز اس لیے بنائے گئے ہیں کہ مشینیں ایسے پیچیدہ عوامل سیکھ سکتی ہیں جو انسانوں کی دسترس سے باہر ہیں- اگر آپ ایسا سسٹم بنائیں جس میں بہت سے ڈاکٹرز کا مجموعی تجربہ درج ہو تو ایسا سسٹم بہتر انداز میں کام کر سکتا ہے- ایسا سسٹم بہت پیچیدہ اور زیادہ حجم والے ڈیٹا کے تجزیہ سے اہم فیصلے آسانی سے لے سکتا ہے- تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ جب ایسے سسٹمز اور ڈاکٹر مل کر کام کرتے ہیں تو بہتر نتائج حاصل ہوتے ہیں- ابھی ہم مصنوعی ذہانت کی ترقی کے ابتدائی مراحل پر ہیں، جب یہ ٹیکنالوجی مکمل طور پر قابلِ عمل ہو جائے گی تو انسانوں کو ممدومعاون ثابت ہو گی-انسانوں کی طرح بازو، آنکھیں اور دماغ رکھنے والے روبوٹس شدید اور مشکل ماحول جیسا کہ گولڈ مائننگ میں مفید ثابت ہوں گے جہاں انسان کام نہیں کر سکتا-انسانوں جیسی قابلیت اور تحرک سے لیس روبوٹس اہم نتائج پیدا کریں گے- مشینوں کو بنانے کا مقصد ان سے ایسے مشکل کام لینا ہے جو انسان کی قوت سے باہر ہیں- جب ہم روبوٹس کو فیصلہ سازی کی قوت سے لیس کرنا چاہتے ہیں تو اس کا مقصد ان کو ناقابلِ رسائی مقامات پر کام کے قابل بنانا ہے-
٭٭٭
مسلم انسٹیٹیوٹ یو-کے چپٹر کے زیر اہتمام لندن میں ’’مصنوعی ذہانت کے انسانوں کے لئے خطرات اور فوائد ‘‘ کے موضوع پر راؤنڈ ٹیبل ڈسکشن کا انعقاد کیا گیا- اس موقع پر پروفیسر طارق ستار، لندن ساؤتھ بنک انوویٹو سنٹر، پروفیسر فلپ برل، لندن ساوتھ بنک یونیورسٹی اور اینڈریو مارٹن، تکنیکی ماہر اور مہتمم نے اپنے خیالات کا اظہار کیا -محمد علی افتخار ( پروگرام مینیجر، دی مسلم ڈیبیٹ) نے ماڈریٹر کے فرائض سر انجام دیے-
مقررین کے اظہار خیال کا مختصر خلاصہ درج ذیل ہے:
مصنوعی ذہانت کامقصد فیصلہ سازی میں انسانی مداخلت کو کم کرنا ہے- مصنوعی ذہانت ہر صورتحال میں انسانی دماغ کا مقابلہ نہیں کر سکتی لیکن بہت سے کام ایسے بھی ہیں جن کا سرانجام دینا انسانی دماغ کے بس کی بات نہیں جیسا کے جہاز کی پرواز کے لیے کمپیوٹر کی مدد درکار ہوتی ہے- یہ عمومی نقطہ نظر ہے کہ مصنوعی ذہانت نے بہت سے روز گار ہڑپ کرلیے ہیں لیکن جب بھی ایک قسم کا روزگار ختم ہوتا ہے تو دوسرا اس کی جگہ لے لیتا ہے جیسا کے’’کافی مشین‘‘کی ایجاد کے بعد کافی تیار کرنے کے لیے انسان کی ضرورت نہیں لیکن کافی مشین تیار کرنے والی فیکٹری میں روزگار کے بہت سے مواقع پیدا ہوگئے-اس کام پہ بہت تحقیق جاری ہے کہ انسان نما روبوٹ تیار کیے جائیں، یہ روبوٹ کسی حد تک تو کام کر سکتے ہیں جیسا کے چہرہ شناسی لیکن اعلیٰ سطح کی ذہانت ممکن نہیں جیسا کہ حالات کو مد نظر رکھ کے فیصلہ کرنا-
مصنوعی ذہانت ان علاقوں میں طب کے شعبوں میں بہت اہم کردار ادا کرسکتی ہے جہاں طبی سہولیات پہنچانا ممکن نہیں جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ افریقہ میں ہر منٹ کے بعد ایک بچہ ملیریا اور دیگر مہلک امراض جیسا کہ ذیکا وائرس کی وجہ سے جاں بحق ہوتا ہے-اس ٹیکنالوجی کے ذریعے ہم دیہی اور دور دراز علاقوں کے باشندوں کو اپنی صحت کا خیال رکھنے کے قابل بنا سکتے ہیں-اس مقصد کے لیے ہم بڑے سادہ صحت کی حفاظت کے طریقہ کار استعمال کر سکتے ہیں- زیادہ تر بیماریاں آلودہ پانی اور جانوروں کی وجہ سے پھیلتی ہیں بلکہ بعض پیدائشی بھی ہوتی ہیں- یہ بیماریاں دیہی علاقوں میں بڑی تیزی سے پھیلتی ہیں اور بعض اوقات ان پہ بڑے سادہ طریقے سے بھی قابو پایا جا سکتا ہے جس کی معلومات لوگوں میں نہیں ہوتی جیسا کہ مریض کو پانی پلائے رکھنا- موبائل طبی سہولیات بھی مہیا کی جا سکتی ہیں جس کو ایک عام آدمی بھی کام میں لا سکتا ہے- دیہی علاقے کے لوگوں کو یہ تربیت بھی دی جا سکتی ہے کہ وہ خود اپنی صحت کا خیال رکھیں- سادہ مصنوعی ذہانت کے طریقہ کار سے مختلف آبادیوں کی صحت کے ریکارڈ کی چھان بین ممکن ہے جیسا کہ بڑے ہسپتالوں میں یہ سہولت موجود ہوتی ہے-تشخیص کے مختلف طریقہ کاروں کو بروئے کار لاتے ہوئے بہت سی بیماریوں کا علاج ممکن ہے-سادہ مصنوعی ذہانت کے تشخیصی طریقہ کار سے وہ سادہ اصول جن کے ذریعے ڈاکٹر تشخیص کرتے ہیں، کو بروئے کار لایا جاسکتا ہے- جدید مصنوعی ذہانت کے تشخیصی طریقہ کار میں خون کے نمونوں کا ٹیسٹ بھی ممکن ہے- مصنوعی ذہانت کے ذریعے ہم مریضوں کا آن لائن ریکارڈ بھی محفوظ رکھ سکتے ہیں- لوگوں کو یہ تربیت دینا ہوگی کے مصنوعی ذہانت کے ذریعے اپنی صحت کی حفاظت کا ذمہ خود لیں جس سے ایک صحت مند اور خوشگوار معاشرے کا قیام کیا جا سکتا ہے-
انڈسٹری میں استعمال ہونے والی مشینری نہایت قیمتی ہوتی ہے اور اس کی مناسب دیکھ بھال بہت ضروری ہے-صنعتی مشینوں کے دیو ہیکل وجود مسلسل معائنہ کے متقاضی ہوتے ہیں- اس کے علاوہ ان کی تنصیب دور دراز ہوتی ہے - اس لیے ان تک رسائی بھی مشکل ہوتی ہے- اس کے علاوہ یہ بہت حساس ہوتے ہیں اور معمولی نقصان بھی بہت بڑے حادثے کا پیش خیمہ ہوسکتا ہے- ان صنعتوں میں تیل و گیس، نیوکلیائی پلانٹس، ہوائی چکیاں، ذرائع آمد و رفت اور ریلویز شامل ہیں جو کہ اپنی اہمیت کے پیشِ نظر مسلسل دیکھ بھال کی ضرورت رکھتی ہیں - انسان زیادہ درجہ حرارت اور ناقابلِ رسائی ہونے کی وجہ سے چلتی مشینوں کا معائنہ نہیں کرسکتے اور روبوٹس اس کام کے لیے بہتر آپشن ہیں-
غیر تخریبی جانچ میں ماہر، انتہائی قابل معائنہ کاروں اور روبوٹس کا تعاون کسی بھی ڈیٹا کے تجزیہ کو آسان اور فیصلہ سازی کی قوت کو تیز بنا سکتا ہے- ایسے روبوٹس ظاہری معائنہ اور سرویلینس میں نہایت معاون ثابت ہوتے ہیں- روبوٹک مشینری آئل اور گیس ٹینکس کی لیکج، زنگ خوردگی اور جمع شدہ فاضل مادوں کی تشخیص میں بہت مددگار ہے- روبوٹس نیوکلیر پلانٹس سے لے کر کثیر المنزلہ عمارات کی ساخت میں موجود نقائص کی باآسانی نشاندہی کر سکتے ہیں- ایسے متحرک روبوٹس بنائے جا رہے ہیں جو کسی بھی نازک اور اہم انفراسٹرکچر کی سلامتی کو جانچ سکیں، اس کی حفاظت کو یقینی بنائیں، اس کی معائنہ اور مرمت کی قیمت کو کم کریں اور ممکن ہو تو اس کی مشینری کو بند کیے بغیر اس کی جانچ پڑتال کر سکیں- بلاشبہ، اصل مقصد ان کارکنان کی حفاظت ہے جو ایسے خطرناک ماحول میں اپنا کام سر انجام دیتے ہیں- بہت سے غوطہ خوروں کی اموات واقع ہو چکی ہیں جو سمندر اور دوسری تہوں میں ایسے اسٹرکچرز کی مرمت و معائنہ کرتے ہیں-
تاہم، روبوٹس کی تخلیق بہت سے مسائل بھی پیدا کر سکتی ہے- اس ضمن میں یہ انتہائی ضروری ہے کہ مشینی سسٹم شفاف اور تعصب سے پاک ہوں- اس کے علاوہ روبوٹک مشینز کے کامیاب استعمال کے لیے مناسب ٹریننگ چاہیے ہوتی ہے جو کہ وَقت طلب بھی ہے اور دِقّت طلب بھی- بسا اوقات، یہ مشینیں ایسے نتائج بھی اخذ کر سکتی ہیں جو کہ غلط اور تباہ کن ثابت ہو سکتے ہیں- اس کے علاوہ ان سے غیر مستقل، جانبدار اور بے تکے نتائج بھی سامنے آ سکتے ہیں- مصنوعی ذہانت پر یو-کے رپورٹ کے مطابق ڈیٹا کا بہت زیادہ حجم، اس کا ذریعہ حصول اور اس کا نامناسب استعمال غیر حقیقی نتائج کی طرف لے کے جا سکتا ہے- روبوٹ، کمپیوٹر اور دوسری ٹیکنالوجی کے اشتراک سے ایسی مخلوق تشکیل دی جا رہی ہیں جو کئی گنا زیادہ ذہین ہونے کے باعث انسان پر تباہ کن اثرات مرتب کر سکتی ہیں- لوگوں میں یہ ڈر ہے کہ مشینیں مصنوعی نظامِ تنفس سے ہوائی جہازوں تک کو کنٹرول کر رہی ہیں اور اگر ان کا کنٹرول انسان کے ہاتھ سے نکل گیا تو نتائج کا سوچنا بھی ناممکن ہے-ان مسائل کا تدارک مصنوعی ذہانت کے الگورزَم تشکیل دے کر ان میں جانبداری تلاش کرنے کے لیے ان کی چھان بین میں ہے- اس کے علاوہ حکومت کو ایسے نظام اپنے کنٹرول میں رکھنے چاہییں جن کی رسائی حساس معلومات تک ہے- یورپی یونین نے ڈیٹا یا معلومات کے استعمال سے متعلق ایک قانون بھی متعارف کرایا ہے جس کے مطابق کوئی بھی یورپی شہری اپنے متعلق معلومات کو تلف کروانے کا حق رکھتا ہے- تاہم، روبوٹس کے فوائد و نقصانات سے متعلق بحث میں ابھی گنجائش باقی ہے-
وقفہ سوال و جواب:
چار سال قبل جب آپ کسی بنک میں جاتے تھے تو انسانی عملہ آپ کے روبرو ہوتا تھا لیکن اب انسانوں کی جگہ روبوٹس اور مشینوں نے لے لی ہے- اگر مشین نے آپ کی کمانڈ ماننے سے انکار کردیا تو آپ کے پاس کوئی راستہ نہیں بچتا- حقیقتاً، آپ کو جواباً روبوٹ جیسا ردِ عمل دینا پڑتا ہے- اس صورتحال سے بیروزگاری میں اضافہ ہوا ہے- چند سال پہلے جہاں دس لوگ کام کرتے ہیں، آج وہاں صرف دو لوگ بچے ہیں- باقی تمام کی جگہ روبوٹس نے لے لی ہے اور ایسے سسٹمز اس لیے بنائے گئے ہیں کہ مشینیں ایسے پیچیدہ عوامل سیکھ سکتی ہیں جو انسانوں کی دسترس سے باہر ہیں- اگر آپ ایسا سسٹم بنائیں جس میں بہت سے ڈاکٹرز کا مجموعی تجربہ درج ہو تو ایسا سسٹم بہتر انداز میں کام کر سکتا ہے- ایسا سسٹم بہت پیچیدہ اور زیادہ حجم والے ڈیٹا کے تجزیہ سے اہم فیصلے آسانی سے لے سکتا ہے- تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ جب ایسے سسٹمز اور ڈاکٹر مل کر کام کرتے ہیں تو بہتر نتائج حاصل ہوتے ہیں- ابھی ہم مصنوعی ذہانت کی ترقی کے ابتدائی مراحل پر ہیں، جب یہ ٹیکنالوجی مکمل طور پر قابلِ عمل ہو جائے گی تو انسانوں کو ممدومعاون ثابت ہو گی-انسانوں کی طرح بازو، آنکھیں اور دماغ رکھنے والے روبوٹس شدید اور مشکل ماحول جیسا کہ گولڈ مائننگ میں مفید ثابت ہوں گے جہاں انسان کام نہیں کر سکتا-انسانوں جیسی قابلیت اور تحرک سے لیس روبوٹس اہم نتائج پیدا کریں گے- مشینوں کو بنانے کا مقصد ان سے ایسے مشکل کام لینا ہے جو انسان کی قوت سے باہر ہیں- جب ہم روبوٹس کو فیصلہ سازی کی قوت سے لیس کرنا چاہتے ہیں تو اس کا مقصد ان کو ناقابلِ رسائی مقامات پر کام کے قابل بنانا ہے-
٭٭٭