علامہ محمداقبال کانفرنس (رپورٹ)

علامہ محمداقبال کانفرنس (رپورٹ)

علامہ محمداقبال کانفرنس (رپورٹ)

مصنف: مسلم انسٹیٹیوٹ جنوری 2019

مسلم انسٹیٹیوٹ کے زیر اہتمام ’علامہ محمد اقبال کانفرنس‘ کا انعقاد 9 نومبر 2018ء کو نیشنل لائبریری اسلام آباد میں کیا گیا- کانفرنس 4 سیشنز پرمشتمل تھی جبکہ اختتام پر کلام اقبال کے حوالے سے ایک ثقافتی محفل کا بھی اہتمام کیا گیا- کانفرنس میں مختلف یونیورسٹیز کے طلبہ، اساتذہ، تھنک ٹینکس کے نمائندگان، وکلاء، محققین، صحافیوں اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے والے لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی-

پہلا سیشن : افتتاحی سیشن

’افتتاحی سیشن‘کی صدارت لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم صاحب نے کی- چیئرمین مسلم انسٹیٹیوٹ صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب نے افتتاحی کلمات ادا کیے جبکہ پروفیسر ڈاکٹر مارسیا ہرمینسن نے خصوصی خطاب فرمایا- دیگر معزز مہمانان میں جناب پیوٹر اوپلنسکی ، جناب شیر علی جانانوو اور حضرت ولی ہوتک نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا -

معزز مہمانانِ گرامی کے اظہار خیال کا خلاصہ درج ذیل ہے:

افتتاحی کلمات

صاحبزادہ سلطان احمد علی:( چیئرمین مسلم انسٹیٹیوٹ)

آج کی اس کانفرنس کا مقصد اقبال کی فکر، فلسفہ وموجودہ حالات میں ان کی مطابقت کو سمجھنا ہے-اس کیلیے نہایت ہی قابل احترام اسکالرز اور ز ریسرچرز، پاکستان اور بیرون ممالک سے تشریف فرما ہیں - اقبال نے اپنے ایک فارسی شعر میں فرمایا :

دو صد دانا دریں محفل سخن گُفت
سخن نازک تر از برگِ سمن گُفت
ولے با من بگو آں دیدہ ور کیست؟
کہ خارے دید و احوالِ چمن گُفت

’’اس محفل میں سینکڑوں دانا آئے جنہوں نے پھول کی پتی سے بھی نازک تر باتیں کہیں لیکن مجھے یہ بتاؤ وہ دیدہ ور کون تھا جس نے کانٹا دیکھ کر چمن کا پورا حال بیان کردیا ‘‘-

بلاشبہ وہ عظیم دیدہ ور علامہ اقبال تھے جیسا کہ وہ فرماگئے:

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پر روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

 آج کل ہم اس شعر کا اطلاق سیاسی جلسوں میں مختلف شخصیات پر کر دیتے ہیں- میرے خیال میں صحیح معنوں میں وہ ’’دیدہ ور‘‘علامہ اقبال خود ہی ہیں-

خصوصی خطاب

پروفیسر مارسیا ہرمینسن: ( ڈائریکٹر اسلامک ورلڈ اسٹڈیز پروگرام ، لو ئلا یونیورسٹی شکاگو ، امریکہ )

قرآنِ کریم میں برزخ کو ایک حجاب تشبیہ دی گئی ہے- برزخ ایک ایسی جگہ یا کیفیت ہے جس کو جدیدیت اور مابعد الجدیدیت میں جائے تغیر کا نام دیا گیا ہے-یا پھر ایک تیسری جگہ جو لامکاں ہے لیکن کچھ نیا ہونے یا کرنے کی طاقت رکھتی ہے- ارمغانِ حجاز میں اقبال نے برزخ کو قرآنِ کریم کی روشنی میں بیان کیا ہے کہ جس کے پاس کچھ نیا کرنے کی طاقت ہے لیکن یہ بھی بتایا کہ ہر نئی تخلیق سے پہلے تباہی ہوتی ہے- اگر ہم دو سمندروں کے ملاپ کو برزخ تصور کریں تو اسی جگہ پر حضرت موسیٰ(علیہ السلام) کی حضرت خضر(علیہ السلام)سے ملاقات ہوئی جنہوں نے موسیٰ(علیہ السلام) کو غیب کا علم سکھایا- روح برزخ کے نمائندہ کے طور پر ظاہر اور پوشیدہ کا سنگم ہے-’’تجدیدِ فکریاتِ اسلام‘‘ میں اقبال نے برزخ کا ذکر قرآنِ کریم کی درج ذیل آیت کی روشنی میں کیا ہے -

’’وَنُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَصَعِقَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِی الْاَرْضِ اِلَّا مَنْ شَآئَ اللہُ ط ثُمَّ نُفِخَ فِیْہِ اُخْرٰی فَاِذَا ہُمْ قِیَامٌ یَّنْظُرُوْنَo[1]‘‘

’’اور صُور پھونکا جائے گا تو سب لوگ جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں بے ہوش ہو جائیں گے سوائے اُس کے جِسے اللہ چاہے گا، پھر اس میں دوسرا صُور پھونکا جائے گا، سو وہ سب اچانک دیکھتے ہوئے کھڑے ہو جائیں گے‘‘-

اقبال کہتے ہیں کہ یہ امتیاز کس کو حاصل ہو سکتا ہے؟ ماسوائے ان کے جن کی خودی اعلیٰ مقام حاصل کر چکی ہے؛ اور اس مقام کا درجہ انتہاء اس وقت حاصل ہو تا ہے جب خودی تمام تر مصائب اور مشکلات کے باوجود بھی اپنے مرتبہ کو قائم رکھتی ہے-

مہمانِ خصوصی

جناب شیر علی جانانوو:(تاجک سفیر برائے پاکستان )

علامہ محمد اقبال ہمارے خطے کی ایک مشہور شخصیت ہیں- ہم اقبال کو شاعرِ انسانیت تسلیم کرتے ہیں-آپ کی شاعری اور فلاسفی ہمارے تدریسی نصاب کا حصہ ہیں- بلاشبہ آپ پر ہمارے ادیبوں نے کافی کام کیا- پاکستان کی یہ خوش قسمتی ہے کہ اقبال اس کے نظریاتی بانی ہیں- اقبال کی شاعری بہت جامع اور سمندر کی مانند ہے - تاجکستان کے لوگ فنونِ لطیفہ اور ادب سے مالامال ہیں اور اقبال کی نصیحت کردہ اقدار کی ترویج کیلئے کوشاں ہیں-

مہمانِ خصوصی

جناب پیوٹر اوپلنسکی:(سفیرِ پولینڈ برائے پاکستا ن )

آج کی اس پرشکوہ تقریب میں شرکت میرے لیے باعثِ افتخار ہے- پولینڈ کی قدیم ترین یونیورسٹی کے ساتھ تحقیقی تعاون کے آغاز کے لیے مسلم انسٹیٹیوٹ تحسین کا حقدار ہے-یہ ایک سال قبل کی بات ہے جب ممتاز پولش دانشور پروفیسر پیوٹر کلاڈکووسکی مسلم انسٹیٹیوٹ کی دعوت پر ’’انٹرنیشنل علامہ محمد اقبال کانفرنس‘‘ میں شرکت کیلئے اسلام آباد تشریف لائے- اقبال کو نہ صرف ایشیاء بلکہ کئی یورپی ممالک بشمول پولینڈ میں بیسویں صدی کی ایک نمایاں شخصیت مانا جاتا ہے-آپ کے جدید جمہوری نظام کے بارے خیالات کی اکیسویں صدی کے حالات کے پسِ منظر میں از سرِ نو تشریح کی ضرورت ہے- اقبال کے کام میں مغربی فلاسفرز کے بارے میں دیے گئے حوالہ جات کے تنقیدی جائزہ کی ضرورت ہے تاکہ موجودہ بین الثقافتی اور تہذیبوں کے مابین ہونے والے مکالمے میں اِن کی مطابقت تلاش کی جا سکے- پولش ماہرینِ لسانیات اقبال کے فلسفیانہ افکار پر تحقیق کر رہے ہیں- اقبال کا پیغام اس بے یقینی اور عدم اعتماد کے دور میں مغرب و مشرق میں پُل کا کردار ادا کر سکتا ہے-

مہمانِ خصوصی

طارق پیر زادہ :(سابق چیف کمشنر اسلام آبا د )

اقبال کا حضور رسالت مآب (ﷺ) کی ذات سے تعلق، اقبال کے فلسفے کی بنیاد اور مرکزی نقطہ ہے- اگرہم علامہ کی زندگی کو بغور دیکھیں تو ان کی حضور نبی کریم (ﷺ) سےگہری وابستگی نظر آتی ہے- حضور نبی کریم (ﷺ) کی مہربانی سے ان کو بے انتہاء روحانی چیزیں عطا ہوئیں اور ان پر لاتعداد راز منکشف ہوئے- ان کی سوچ اور فکر کی بنیاد فلسفہ نہیں بلکہ حضور نبی کریم (ﷺ) سے محبت ہے اور اگر کوئی فلسفہ ہمیں نظر آتا ہے تو اس محبت سے ہی پھوٹتا ہے-

ہم سب پہ اقبال کے ساتھ محبت ایک فریضہ ہے خاص طور پر جو لوگ گورنمنٹ کے ساتھ منسلک ہیں اُن کی اقبال سے دوری کا ایک سبب اپنی قومی زبان کا نہ سمجھنا بھی ہے- ہماری نوجوان نسل ماڈرن ایجوکیشن حاصل کرتی ہے اور فارسی و اردو میں بہت کمزور ہے-

مہمانِ خصوصی

 حضرت ولی ہوتک:( کلچرل اتاشی افغان سفارتخانہ، اسلام آباد )

علامہ اقبال نہ صرف پاکستان کے ایک بہت بڑے شاعر تھے بلکہ اس خطہ اور پوری دنیا کے لوگ اقبال لاہوری کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے- اقبال پشتونوں کو اپنی خوش اخلاقی، بہادری اور مہمان نوازی کی وجہ سے پسند کرتے تھے اور پشتونوں سے بے پناہ پیار کرتے تھے- آپ نے مختلف اشعار میں پشتونوں سے برملا اپنی محبت کا اظہار کیا ہے- پشتونوں سے اس محبت کی وجہ سے ہی لوگ علامہ اقبال پر افغان ہونے کا گمان کرتے تھے-

صدارتی کلمات

لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم:(چیئرمین سینٹ کمیٹی برائے دفاعی پیداوار ، سربراہ نظریہ پاکستان فورم، اسلام آباد )

تخیل، مطالعہ فطرت اور الفاظ کے خزانے جیسی شاعرانہ خصوصیات سے مالا مال ہونے کے ساتھ اقبال کا اصل طرہ امتیاز روحانیت کی طرف مائل ہونا اور ہر چیز میں روحانی قوتوں کے کار فرما ہونے پر یقین تھا- علامہ اقبال نے روحانیت کی طاقت پر بہت کچھ لکھا- ایران میں ایک ممتاز مفکر سے اقبال کے بارے میں پوچھا گیا توانہوں نے جواب دیا کہ اقبال مسلمانوں کی 1400 سالہ تاریخ کا نچوڑ ہے- اقبال کے مطابق روحانیت اور اللہ کی وحدانیت پر ایمان کو حقیقی زندگی سے الگ نہیں کیا جا سکتا-آپ نے1931ء میں کیمبرج میں خطاب کے دوران کہا تھا کہ ’’اگر چرچ کو ریاست سے الگ نہ کیا جاتا تو شاید پہلی جنگِ عظیم برپا نہ ہوتی- کیونکہ مذہب اس دنیا کی عارضی حقیقت کو بے نقاب کرتے ہوئے انسان کی اخلاقی حیثیت کو مضبوط کرتا ہے‘‘-

دوسر ا سیشن: تعلیم اور جامعات میں اقبال کی اہمیت

کانفرنس کے دوسرے سیشن کی صدارت جناب ڈاکٹر سہیل عمر (سابق ڈائریکٹر، اقبال اکادمی آف پاکستان،لاہور) نے کی- عزت مآب جاؤ سبیڈو کوسٹا (سفیرِ پرتگال برائے پاکستان) سیشن کے مہمانِ خصوصی تھے- جبکہ ڈاکٹر عمیر محمود صدیقی اور پروفیسر ریاض احمد نے اس موقع پر اپنے خیالات کا اظہار کیا-

مقررین کے اظہار خیال کا خلاصہ ذیل میں پیش کیا گیا ہے:

موجودہ تعلیمی نظام اور نصاب سازی میں فکر اقبال کی ضرورت

جناب ریاض احمد:

(اسسٹنٹ پروفیسر، لارنس کالج مری)

1902ء سے 1930ء تک کی تحاریر میں علامہ اقبال نے تعلیمی نظام میں نفسیات، مذہب اور عمرانیات کی اہمیت پر مختلف مقامات پر بحث کی ہے - بچوں کی تعلیم و تربیت کے عنوان سے اقبال کا مضمون 1902ء میں ’’رسالہ مخزن‘‘میں شائع ہوا جو کہ اقبال کے تعلیمی نقطہ نظر کا آغاز تھا - اس مقالہ میں علامہ اقبال نے اساتذہ کیلئے بچوں کی نشوونما کے اصولوں کا مطالعہ لازمی قرار دیا- اسی طرح قومی زندگی اور ملت بیضا پر بحث کرتے ہوئے علامہ اقبال نے ایک طرف تعلیم کو مذہبی عقائد و اقدار اور دوسری طرف معاشرتی ضروریات کی تکمیل کا ذریعہ قرار دیا- علامہ اقبال نے جب آنکھ کھولی تو دو طرح کے تعلیمی نظام رائج تھے - جدید تعلیمی ادارے اور اسلامی علوم کے مراکز- علامہ اقبال نے محسوس کیا کہ دونوں طرح کے تعلیمی نظام مسلمانوں میں فکری اور علمی ترقی میں نمایاں کردار ادا نہیں کر رہے-کسی ملک میں رائج تعلیمی نظام اس قوم کی معاشرتی ضروریات،نظریات اور عقائد کے مطابق ہوتا ہے- مگر برطانوی سامراج کا مروجہ نظام تعلیم کا واضح مقصد ایسے مسلمان پیدا کرنا تھا جو اپنے رنگ و نسل کے اعتبار سے ہندوستانی لیکن اپنے نظریات کے اعتبار سے انگریز ہوں-

مذہبی مدارس اور جدید تعلیمی نظام میں  ہم آہنگی کیلیے اقبال کی تعلیمات کا کردار

ڈاکٹر عمیر محمود صدیقی:(اسسٹنٹ پروفیسر، یونیورسٹی آف کراچی)

خود مختار ہونے کے باوجود ہمارا تعلیمی نظام بیرونی قوتوں کے زیرِ اثر ہے اور ہماری نوجوان نسل کا نظریاتی تشخص انتہائی خطرے میں ہے- آج کا دور شک، فریب، جھوٹ اور نظریاتی بے راہ روی کا دور ہے- کالونیلزم (colonialism) کے دور میں اقبال جیسا مفکر، فلسفی اور دانشور امتِ مسلمہ کے لیے نعمت تھا- اقبال کی تعلیمی پالیسی قرآنِ کریم کی حقیقی تعلیمات کی آئینہ دار تھی جس کے بنیادی خد و خال تعلیم، تربیت،  تعدید اور تزکیہ پر مشتمل تھے- اقبال کی تعلیمی پالیسی کے یہ 4 بنیادی عناصر فرد کی جسمانی، ذہنی اور روحانی ترقی کے ذریعے حاصل ہوتے ہیں-

مہمانِ خصوصی

جناب جاؤ سبیڈو کوسٹا:(سفیرِ پرتگال برائے پاکستان)

بعض خصوصیات کی بناء پر اقبال کی تعظیم و تعریف لازم ہے- ان خصوصیات میں اقبال کے کلام کی کئی زبانوں سے مطابقت اور ان کے برِصغیر کی سیاست پر معاشرتی اثرات سرِ فہرست ہیں- اقبال کے فکری کمالات نے عالمی ثقافتوں اور تہذیبوں میں روابط پیدا کیے اور انسانیت پر اسلام کی اہمیت اجاگر کی- اقبال کی نظر میں حقیقتِ خداوندی نت نئے رنگوں سے دنیا کے سامنے آشکار ہوتی رہتی ہے اور انسان کو سچائی کی تلاش کے لیے ہمیشہ متحرک رہنا ہے- قرآنِ کریم بلا شک و شبہ محض لفاظی یا چند مجموعہ احکامات ہونے کے مقابلے میں بہت اعلیٰ درجہ کا حامل ہے کیونکہ قرآن خالق و مخلوق کے سربستہ رازوں کا امین ہے-

وقفہ سوال و جواب

شرکاء کے مختلف سوالات کے جوابات کا خلاصہ ذیل میں پیش کیا گیا ہے:

جدید علومِ انسانیہ کے حوالے سےہمارا ایک رویہ تو یہ ہے کہ ہم ان کو مکمّل طور پر رد کر دیں جو کہ عمومی طور پر ہمارے مدارس کا رہا- دوسرا رویہ یہ ہو سکتا ہے کہ قرآن سنّت کو مکمل طور پر جدیدیت کے تناظر میں دیکھا جائے- اقبال کی رائےمیں یہ دونوں رویّے درست نہیں- یعنی اگر آپ مغرب سے کوئی ایسی چیز حاصل کر لیتے ہیں جو اسلام کے اصولوں کے متصادم نہیں ہے تو اقبال کی رائے میں آپ نے کوئی غلط قدم نہیں اٹھایا- آج ہمارے تعلیمی نظام میں دو بڑے مسائل الحاد اور جنس پرستی ہیں اور اس کی وجہ یہی ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام وحئ الٰہی کے نور سے محروم ہوگیا ہے اور یقینی طور پر اس تباہی اور بربادی کو ہم اپنے سامنے پا رہے ہیں- اقبال فرماتے ہیں کہ علم بغیر عشق کے شر ہے اور وہ علم جسے ہم نور سمجھ رہے ہیں وہ سرا سر تاریکی ہے- اسی علم نے اہل یورپ کے دل میں آگ بھر دی ہے کیونکہ یہ علم انہیں دوسری قوموں پر ظلم کرنا سکھاتا ہے-اقبال تلقین کرتے ہیں کہ اے مسلمان تو عشق ِ رسول (ﷺ)سے اس اندھے علم کو بینا کر دے اور اس کی بو لہبی کو مٹا کر حیدر کرّار کی خوشبو بنا دے-

تیسرا سیشن:

روحانی پاکیزگی اورکردار سازی کے لیے اقبال کی تعلیمات

کانفرنس کے تیسرے سیشن کی صدارت پروفیسر ڈاکٹر مارسیا ہرمینسن  نے کی-پروفیسر ڈاکٹرجناب سہیل عمر اور جناب شعیب آفریدی نے اس موقع پر خطاب کیا -

مقررین کے اظہار خیال کا خلاصہ ذیل ہے:

کردار سازی میں براہیمی نظر کی اہمیت

جناب شعیب آفریدی: (ماہرِ اِقبالیات)

ابرہیمی نسبت ایک فرد کی تربیت میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے اور اقبال کے مرد مومن کے کردار میں دو بنیادی اوصاف کی ترویج کی ضامن ہے، ایک بت شکنی اور دوسری ایمان- معاشرے کو ایسے افراد کی ضرورت ہے جن کی تربیت براہیمی نظر کے زیر اثر ہو تا کہ وہ روایتی فکری اصولوں سے بلند ہو کر سوچنے کی استعداد حاصل کر سکیں-

معاشی اور معاشرتی صورت میں بھی اقبال کا مثالی انسان اپنی ذمہ داریوں کو بجا لانے میں ہر قسم کے امتحان کیلئے مستعد ہے کیونکہ وہ حضرت ابراہیم(﷤) کی روحانی اولاد ہے- یہ ایک طرف بتوں کو توڑنے کی صلاحیت عطا کرتی ہے اور دوسری طرف جہانِ تگ ودو سے نئی دنیاکی تشکیل کے آثار بھی مہیا کرتی ہے-اقبال کے مثالی انسان کی تکمیل میں ایک مرحلہ اس براہیمی نظر کا پیدا ہو نا ہے لیکن یہ نظر پیدا بڑی مشکل سے ہو تی ہے- اس کو حاصل کرنے کیلئے سب سے اہم تکنیک تقویٰ ہے جس کے بغیر یہ چیز حاصل کرنا بہت مشکل ہے-تقوی کی تربیت کیلئے ہی ہماری روایت میں تصوف کے کئی سلاسل موجود ہیں-اقبال کی تربیت بھی انہی سلاسل میں سے ہوئی ہے-

اقبال کے سائنس اور فلسفہ مابعد الطبیعات کے متعلق رجحانات

پروفیسر ڈاکٹر سہیل عمر:

اقبال نے 1929ء میں نیوٹن کے حقیقت کے بارے خیالات پر ان الفاظ میں تنقید کی:

’’قدیم فزکس اپنی بنیادوں کا تنقیدی جائزہ لے رہی ہے- اس کے نتیجے میں مادیت پرستی بہت تیزی سے غائب ہو رہی ہے جس کو ابتداء میں لازم سمجھا جاتا تھا-وہ دن دور نہیں جب سائنس اور مذہب باہمی ہم آہنگی پر مشتمل حقائق سے روشناس ہوں گے جن کا ابھی تک گمان ممکن نہیں‘‘-

 کوانٹم میکینکس کے مطابق ہماری کائنات صرف ایٹمز یا ناقابلِ تقسیم ذرات سے نہیں بنی بلکہ یہ ایک مرکز سے ابھرنے والی متعدد امکانی قوتوں کا پیچیدہ امتزاج ہے- اس مرکز کو اسلامی اصطلاح میں ’’چھپا ہوا خزانہ‘‘ قرار دیا گیا ہے-

یہ دیکھا جاسکتا ہے کہ سائنس اور مذہب میں، اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے ،ایک صحت مند باہمی تعلق قائم ہو گیا ہے- ڈیوڈ بوہم ہمیں ایک ایسے ہی ماڈل سے متعارف کرواتا ہے یعنی ’’طبیعات اور مابعدالطبیعات پر مشتمل حقیقت‘‘- ڈیوڈ بوہم نے دنیائے سائنس پر اہم اثرا ت مرتب کیے اور مذہب اور سائنس کے مابین باہمی تعاون کے نئے افق دریافت کیے- بوہم کے مطابق حقیقت کے ایسے رخ بھی ہیں جو سائنس کی دسترس سے باہر ہیں-اقبال کے بقول کائنات مختلف واقعات اور حقائق کا رنگا رنگ مجموعہ ہے- بوہم کے نقطہ نظر اور مابعدالطبیعات کے دوسرے نظریات میں مماثلت یہ بتاتی ہے کہ سائنس مابعد الطبیعات کو قدامت سے جدت کی طرف لا رہی ہے- اقبال نے 1929ء میں کہا کہ وجدان اور کشف، مابعدالطبیعات میں ممکن ہیں کیونکہ اس سطح پر جا کے زمان و مکان کا سوال ختم ہو جاتا ہے -

صدارتی کلمات

پروفیسر مارسیا ہرمینسن:

جیسا کہ ذکر کیا گیا کہ حقیقت ایک سمندر کی مانند ہے- رہبر، قلندر اور بت شکنی جیسی تراکیب نہایت وسیع معنی رکھتی ہیں- جدید سائنس میں واضح تبدیلی دیکھی جا سکتی ہے کہ سائنس اتنی بھی مادیت پرست اور بےلچک نہیں، جتنا ہم اس کو سمجھتے ہیں-لیکن کچھ سائنس دان ایسے ہیں جو آئیڈلزم کا شکار ہیں اور وسیع النظری سے عاری ہیں لیکن سائنس پر اب یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ کچھ عوامل ایسے ہیں جو اس کی دسترس سے باہر ہیں-

وقفہ سوال و جواب

شرکاء کے مختلف سوالات کے مقررین کی جانب سے دیے گئے جوابات کا خلاصہ ذیل میں پیش کیا گیا ہے:

نظریہ ارتقاء میں یہ دلیل پیش کی گئی تھی کہ شعور مادہ کی ایک ذیل سے پھو ٹنے والی جزوی شے ہے-لیکن جدید تحقیق نے اس نظریہ کی نفی کر دی اور اب شعور، مادہ اور حیات کی ایک نئی تعبیر سامنے آئی ہے جو فکری طور پہ مطمئن کرتی ہے- اقبال نے   1930ء میں آئن سٹائن کے ایک سائنسی نظریے پر تنقید کی تھی وہ بوہم کے زمانے میں بالکل واضح ہو گئی کہ سائنس نے کیا غلطی کی تھی -لہذا سائنٹزم کی خود سائنس نے ہی تردید کردی-

سائنس دانوں اور مذہبی رہنماؤں کی ایک نشست میں ایک سائنس دان نے یہ اعتراف کیا کہ ہماری تحقیق یہاں تک لے آئی ہے کہ وقت اور زمانے سے ماوراء حقائق بھی موجود ہیں- کچھ سائنس دان اس بات پہ یقین رکھتے ہیں کہ ایک اور حقیقت بھی موجود ہے جو ہمارے سائنسی تجربات کی پہنچ سے دور ہے- اقبال نے  1930ء میں اس بات کی طرف اشارہ کر دیا تھا کہ جو کچھ آئن سٹائن کَہ رہا ہے کہ یہ ایک حتمی حقیقت نہیں ہے کیونکہ جب تک طبیعی و مابعد الطبیعی حقائق کو تسلیم نہیں کیا جاتا یہ بات ادھوری رہے گی-

چوتھا سیشن: موجودہ عالمی صورتحال اور اقبال کا وژن

کانفرنس کے چوتھے سیشن کی صدارت ائروائس مارشل (ر) جناب فیض عامر (وائس چانسلر،ائر یونیورسٹی، اسلام آباد) نے کی-پروفیسر جلیل عالی (مصنف، شاعر اور کالم نگار) اور پروفیسر ڈاکٹر اظہار اللہ (چیئرمین، شعبہ اردو، اسلامیہ کالج پشاور) نے اس موقع پر اپنے خیالات کا اظہار کیا-صاحبزادہ سلطان احمد علی (چیئرمین مسلم انسٹیٹیوٹ) نے اختتامی کلمات ادا کیے-

مقررین کے اظہار خیال کا خلاصہ ذیل ہے:

اقبال کا تصورِ قومیت اور تصورِ قومی ریاست

پروفیسر جلیل عالی:( مصنف، شاعر و کالم نگار )

اقبال کا تصورِ قومیت اور تصورِ قومی ریاست دونوں پہلے سے موجود تصورات سے ذرا الگ مفہوم رکھتے ہیں جو کہ برصغیر میں موجود تاریخی ہندو مسلم کشمکش کی پیداوارہے- اس کشمکش کا آغاز اکبر کے دین الٰہی کے خلاف مجدد الف ثانی اور حضرت شیخ احمد سرہندی کی فکری مزاحمت سے ہو گیا تھا- اس تحریک کا بنیادی نقطہ یہ تھا کہ مسلم جمعیت اپنی ایک الگ شناخت رکھتی ہے اور کسی صورت بھی اپنا تہذیبی اور معاشرتی وجود کسی دوسری جمعیت میں ضم نہیں کر سکتی-برصغیر کے مسلمانوں کو اپنے تہذیبی وجود کی بقاء کے چیلنج کا دوبارہ سامنااس وقت کرنا پڑا جب نوآبادیاتی عہد کے بعد اب فیصلہ سازی کی قوت عددی اکثریت کے ہاتھوں میں جانے والی تھی- ان چیلنجز اور ہندو مسلم کشمکش کا حل تلاش کرنے کی فکری کوشش اقبال کو اسلام کے آفاقی نصب العین و ملت اسلامیہ کی عمرانی انفرادیت کی آگاہی تک لے آئی - اقبال پر منکشف ہوا کہ ملت اسلامیہ کو مغربی اقوام کی مانند خیال کرنا درست نہیں ہے-عالمی انتشار اور برصغیر کی ہندو مسلم کشمکش کو سامنے رکھتے ہوئے اقبال نے ایک نئی سطح پر تصورِ قومیت کی تشکیل نو کا کارنامہ سر انجام دیا ورنہ مروجہ تصورِ قومیت کے زیراثر آل انڈیا کانگریس مسلمانوں سے منسوب اردو زبان کا استحصال کرنے اور پورے ہندوستان پر ہندی زبان کو مسلط کرنے کی کوشش کر رہی تھی -

اقبال کے سیاسی افکاراور جدید سیاسی نظریات اور اصول

پروفیسر ڈاکٹر اظہاراللہ:(چیئرمین، شعبہ اردو، اسلامیہ کالج پشاور)

علامہ اقبال آفاقی تناظر میں ایک مسلسل تبدیلی کا استعارہ رہے ہیں- انہوں نے عہد استراغ میں جنم لیا- بین الاقوامی افق پر انہوں نے ادب اور سیاست کی تحاریک کو نہ صرف ابھرتے اور بکھر تے ہوئے دیکھا بلکہ انہیں اپنی ذات میں بھی جذب کرتے رہے- جس کےبعد انہوں نے انسان کی زندگی بدلنے کی کوشش شروع کردی- ابلیس کی مجلس شوریٰ اور مختلف مقامات پر وہ بین الاقوامی سیاست پر تنقید کرتے رہے-

عالمی منظر نامہ اور اقبال کی شاعری

فیض عامر صاحب:(وائس چانسلر،ائر یونیورسٹی، اسلام آباد)

اگرچہ ہندوستان کے بارے میں شروع میں آپ نے قومیت پر مبنی نظمیں اور غزلیں لکھیں-لیکن بعد میں ’’تجدیدِ فکریاتِ اسلام‘‘ میں اقبال لکھتے ہیں:

’’موجودہ صورت حال میں ہرمسلمان قوم کو اپنے آپ میں گہرے طور پر غوطہ زن ہونا چاہیے اور عارضی طور پراپنی نظر خود اپنے آپ پر جما لینی چاہیےحتیٰ کہ تمام اس قدر مضبوط اور مستحکم ہو جائیں کہ وہ جمہوری ممالک کا ایک خاندان تشکیل دے سکیں… مجھے یوں نظر آتا ہے کہ خدا ہمیں آہستہ آہستہ اس حقیقت کے ادراک کی طرف لارہا ہے کہ اسلام نہ تو قومیت ہے اور نہ ملوکیت بلکہ ایک مجلسِ اقوام ہے جو مصنوعی حد بندیوں اور نسلی امتیازات کو محض پہچان کیلئے تسلیم کرتی ہےنہ اس لیے کہ ان رکن ممالک کے اپنے اپنے سماجی آفاق کو تنگ کر دیا جائے‘‘-

اختتامی کلمات

صاحبزادہ سلطان احمد علی: ( چیئرمین مسلم انسٹیٹیوٹ)

اسلام آباد اور دیگر شہروں میں جتنے بھی تحقیقی ادارے ہیں سب کو اقبال کے پیغام کی تفہیم اور ترویج کے لیےاپنا حصہ شامل کرنا چاہیے-

ثقافتی محفل بسلسلہ کلام اقبال

 اقبال کی تعلیمات کو ہر شعبہ فکر میں عام کرنے کے لیے کانفرنس کے اختتام پہ ثقافتی محفل بسلسلہ کلام اقبال منعقد کی گئی- راجہ حامد علی اور ہمنوا نے بڑے خوبصورت انداز میں کلام اقبال پیش کیا جس نے شائقین کے دل موہ لیے -

٭٭٭


[1](الزمر:68)

مسلم انسٹیٹیوٹ کے زیر اہتمام ’علامہ محمد اقبال کانفرنس‘ کا انعقاد 9 نومبر 2018ء کو نیشنل لائبریری اسلام آباد میں کیا گیا- کانفرنس 4 سیشنز پرمشتمل تھی جبکہ اختتام پر کلام اقبال کے حوالے سے ایک ثقافتی محفل کا بھی اہتمام کیا گیا- کانفرنس میں مختلف یونیورسٹیز کے طلبہ، اساتذہ، تھنک ٹینکس کے نمائندگان، وکلاء، محققین، صحافیوں اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے والے لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی-

پہلا سیشن : افتتاحی سیشن

’افتتاحی سیشن‘کی صدارت لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم صاحب نے کی- چیئرمین مسلم انسٹیٹیوٹ صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب نے افتتاحی کلمات ادا کیے جبکہ پروفیسر ڈاکٹر مارسیا ہرمینسن نے خصوصی خطاب فرمایا- دیگر معزز مہمانان میں جناب پیوٹر اوپلنسکی ، جناب شیر علی جانانوو اور حضرت ولی ہوتک نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا -

معزز مہمانانِ گرامی کے اظہار خیال کا خلاصہ درج ذیل ہے:

افتتاحی کلمات

صاحبزادہ سلطان احمد علی:( چیئرمین مسلم انسٹیٹیوٹ)

آج کی اس کانفرنس کا مقصد اقبال کی فکر، فلسفہ وموجودہ حالات میں ان کی مطابقت کو سمجھنا ہے-اس کیلیے نہایت ہی قابل احترام اسکالرز اور ز ریسرچرز، پاکستان اور بیرون ممالک سے تشریف فرما ہیں - اقبال نے اپنے ایک فارسی شعر میں فرمایا :

دو صد دانا دریں محفل سخن گُفت
سخن نازک تر از برگِ سمن گُفت
ولے با من بگو آں دیدہ ور کیست؟
کہ خارے دید و احوالِ چمن گُفت

’’اس محفل میں سینکڑوں دانا آئے جنہوں نے پھول کی پتی سے بھی نازک تر باتیں کہیں لیکن مجھے یہ بتاؤ وہ دیدہ ور کون تھا جس نے کانٹا دیکھ کر چمن کا پورا حال بیان کردیا ‘‘-

بلاشبہ وہ عظیم دیدہ ور علامہ اقبال تھے جیسا کہ وہ فرماگئے:

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پر روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

 آج کل ہم اس شعر کا اطلاق سیاسی جلسوں میں مختلف شخصیات پر کر دیتے ہیں- میرے خیال میں صحیح معنوں میں وہ ’’دیدہ ور‘‘علامہ اقبال خود ہی ہیں-

خصوصی خطاب

پروفیسر مارسیا ہرمینسن:

( ڈائریکٹر اسلامک ورلڈ اسٹڈیز پروگرام ، لو ئلا یونیورسٹی شکاگو ، امریکہ )

قرآنِ کریم میں برزخ کو ایک حجاب تشبیہ دی گئی ہے- برزخ ایک ایسی جگہ یا کیفیت ہے جس کو جدیدیت اور مابعد الجدیدیت میں جائے تغیر کا نام دیا گیا ہے-یا پھر ایک تیسری جگہ جو لامکاں ہے لیکن کچھ نیا ہونے یا کرنے کی طاقت رکھتی ہے- ارمغانِ حجاز میں اقبال نے برزخ کو قرآنِ کریم کی روشنی میں بیان کیا ہے کہ جس کے پاس کچھ نیا کرنے کی طاقت ہے لیکن یہ بھی بتایا کہ ہر نئی تخلیق سے پہلے تباہی ہوتی ہے- اگر ہم دو سمندروں کے ملاپ کو برزخ تصور کریں تو اسی جگہ پر حضرت موسیٰ(﷤) کی حضرت خضر(﷤)سے ملاقات ہوئی جنہوں نے موسیٰ(﷤) کو غیب کا علم سکھایا- روح برزخ کے نمائندہ کے طور پر ظاہر اور پوشیدہ کا سنگم ہے-’’تجدیدِ فکریاتِ اسلام‘‘ میں اقبال نے برزخ کا ذکر قرآنِ کریم کی درج ذیل آیت کی روشنی میں کیا ہے -

’’وَنُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَصَعِقَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِی الْاَرْضِ اِلَّا مَنْ شَآئَ اللہُ ط ثُمَّ نُفِخَ فِیْہِ اُخْرٰی فَاِذَا ہُمْ قِیَامٌ یَّنْظُرُوْنَo[1]‘‘

’’اور صُور پھونکا جائے گا تو سب لوگ جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں بے ہوش ہو جائیں گے سوائے اُس کے جِسے اللہ چاہے گا، پھر اس میں دوسرا صُور پھونکا جائے گا، سو وہ سب اچانک دیکھتے ہوئے کھڑے ہو جائیں گے‘‘-

اقبال کہتے ہیں کہ یہ امتیاز کس کو حاصل ہو سکتا ہے؟ ماسوائے ان کے جن کی خودی اعلیٰ مقام حاصل کر چکی ہے؛ اور اس مقام کا درجہ انتہاء اس وقت حاصل ہو تا ہے جب خودی تمام تر مصائب اور مشکلات کے باوجود بھی اپنے مرتبہ کو قائم رکھتی ہے-

مہمانِ خصوصی

جناب شیر علی جانانوو:(تاجک سفیر برائے پاکستان )

علامہ محمد اقبال ہمارے خطے کی ایک مشہور شخصیت ہیں- ہم اقبال کو شاعرِ انسانیت تسلیم کرتے ہیں-آپ کی شاعری اور فلاسفی ہمارے تدریسی نصاب کا حصہ ہیں- بلاشبہ آپ پر ہمارے ادیبوں نے کافی کام کیا- پاکستان کی یہ خوش قسمتی ہے کہ اقبال اس کے نظریاتی بانی ہیں- اقبال کی شاعری بہت جامع اور سمندر کی مانند ہے - تاجکستان کے لوگ فنونِ لطیفہ اور ادب سے مالامال ہیں اور اقبال کی نصیحت کردہ اقدار کی ترویج کیلئے کوشاں ہیں-

مہمانِ خصوصی

جناب پیوٹر اوپلنسکی:(سفیرِ پولینڈ برائے پاکستا ن )

آج کی اس پرشکوہ تقریب میں شرکت میرے لیے باعثِ افتخار ہے- پولینڈ کی قدیم ترین یونیورسٹی کے ساتھ تحقیقی تعاون کے آغاز کے لیے مسلم انسٹیٹیوٹ تحسین کا حقدار ہے-یہ ایک سال قبل کی بات ہے جب ممتاز پولش دانشور پروفیسر پیوٹر کلاڈکووسکی مسلم انسٹیٹیوٹ کی دعوت پر ’’انٹرنیشنل علامہ محمد اقبال کانفرنس‘‘ میں شرکت کیلئے اسلام آباد تشریف لائے- اقبال کو نہ صرف ایشیاء بلکہ کئی یورپی ممالک بشمول پولینڈ میں بیسویں صدی کی ایک نمایاں شخصیت مانا جاتا ہے-آپ کے جدید جمہوری نظام کے بارے خیالات کی اکیسویں صدی کے حالات کے پسِ منظر میں از سرِ نو تشریح کی ضرورت ہے- اقبال کے کام میں مغربی فلاسفرز کے بارے میں دیے گئے حوالہ جات کے تنقیدی جائزہ کی ضرورت ہے تاکہ موجودہ بین الثقافتی اور تہذیبوں کے مابین ہونے والے مکالمے میں اِن کی مطابقت تلاش کی جا سکے- پولش ماہرینِ لسانیات اقبال کے فلسفیانہ افکار پر تحقیق کر رہے ہیں- اقبال کا پیغام اس بے یقینی اور عدم اعتماد کے دور میں مغرب و مشرق میں پُل کا کردار ادا کر سکتا ہے-

مہمانِ خصوصی

طارق پیر زادہ :(سابق چیف کمشنر اسلام آبا د )

اقبال کا حضور رسالت مآب (ﷺ) کی ذات سے تعلق، اقبال کے فلسفے کی بنیاد اور مرکزی نقطہ ہے- اگرہم علامہ کی زندگی کو بغور دیکھیں تو ان کی حضور نبی کریم (ﷺ) سےگہری وابستگی نظر آتی ہے- حضور نبی کریم (ﷺ) کی مہربانی سے ان کو بے انتہاء روحانی چیزیں عطا ہوئیں اور ان پر لاتعداد راز منکشف ہوئے- ان کی سوچ اور فکر کی بنیاد فلسفہ نہیں بلکہ حضور نبی کریم (ﷺ) سے محبت ہے اور اگر کوئی فلسفہ ہمیں نظر آتا ہے تو اس محبت سے ہی پھوٹتا ہے-

ہم سب پہ اقبال کے ساتھ محبت ایک فریضہ ہے خاص طور پر جو لوگ گورنمنٹ کے ساتھ منسلک ہیں اُن کی اقبال سے دوری کا ایک سبب اپنی قومی زبان کا نہ سمجھنا بھی ہے- ہماری نوجوان نسل ماڈرن ایجوکیشن حاصل کرتی ہے اور فارسی و اردو میں بہت کمزور ہے-

مہمانِ خصوصی

 حضرت ولی ہوتک:( کلچرل اتاشی افغان سفارتخانہ، اسلام آباد )

علامہ اقبال نہ صرف پاکستان کے ایک بہت بڑے شاعر تھے بلکہ اس خطہ اور پوری دنیا کے لوگ اقبال لاہوری کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے- اقبال پشتونوں کو اپنی خوش اخلاقی، بہادری اور مہمان نوازی کی وجہ سے پسند کرتے تھے اور پشتونوں سے بے پناہ پیار کرتے تھے- آپ نے مختلف اشعار میں پشتونوں سے برملا اپنی محبت کا اظہار کیا ہے- پشتونوں سے اس محبت کی وجہ سے ہی لوگ علامہ اقبال پر افغان ہونے کا گمان کرتے تھے-

صدارتی کلمات

لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم:(چیئرمین سینٹ کمیٹی برائے دفاعی پیداوار ، سربراہ نظریہ پاکستان فورم، اسلام آباد )

تخیل، مطالعہ فطرت اور الفاظ کے خزانے جیسی شاعرانہ خصوصیات سے مالا مال ہونے کے ساتھ اقبال کا اصل طرہ امتیاز روحانیت کی طرف مائل ہونا اور ہر چیز میں روحانی قوتوں کے کار فرما ہونے پر یقین تھا- علامہ اقبال نے روحانیت کی طاقت پر بہت کچھ لکھا- ایران میں ایک ممتاز مفکر سے اقبال کے بارے میں پوچھا گیا توانہوں نے جواب دیا کہ اقبال مسلمانوں کی 1400 سالہ تاریخ کا نچوڑ ہے- اقبال کے مطابق روحانیت اور اللہ کی وحدانیت پر ایمان کو حقیقی زندگی سے الگ نہیں کیا جا سکتا-آپ نے1931ء میں کیمبرج میں خطاب کے دوران کہا تھا کہ ’’اگر چرچ کو ریاست سے الگ نہ کیا جاتا تو شاید پہلی جنگِ عظیم برپا نہ ہوتی- کیونکہ مذہب اس دنیا کی عارضی حقیقت کو بے نقاب کرتے ہوئے انسان کی اخلاقی حیثیت کو مضبوط کرتا ہے‘‘-

دوسر ا سیشن: تعلیم اور جامعات میں اقبال کی اہمیت

کانفرنس کے دوسرے سیشن کی صدارت جناب ڈاکٹر سہیل عمر (سابق ڈائریکٹر، اقبال اکادمی آف پاکستان،لاہور) نے کی- عزت مآب جاؤ سبیڈو کوسٹا (سفیرِ پرتگال برائے پاکستان) سیشن کے مہمانِ خصوصی تھے- جبکہ ڈاکٹر عمیر محمود صدیقی اور پروفیسر ریاض احمد نے اس موقع پر اپنے خیالات کا اظہار کیا-

مقررین کے اظہار خیال کا خلاصہ ذیل میں پیش کیا گیا ہے:

موجودہ تعلیمی نظام اور نصاب سازی میں فکر اقبال کی ضرورت

جناب ریاض احمد:

(اسسٹنٹ پروفیسر، لارنس کالج مری)

1902ء سے 1930ء تک کی تحاریر میں علامہ اقبال نے تعلیمی نظام میں نفسیات، مذہب اور عمرانیات کی اہمیت پر مختلف مقامات پر بحث کی ہے - بچوں کی تعلیم و تربیت کے عنوان سے اقبال کا مضمون 1902ء میں ’’رسالہ مخزن‘‘میں شائع ہوا جو کہ اقبال کے تعلیمی نقطہ نظر کا آغاز تھا - اس مقالہ میں علامہ اقبال نے اساتذہ کیلئے بچوں کی نشوونما کے اصولوں کا مطالعہ لازمی قرار دیا- اسی طرح قومی زندگی اور ملت بیضا پر بحث کرتے ہوئے علامہ اقبال نے ایک طرف تعلیم کو مذہبی عقائد و اقدار اور دوسری طرف معاشرتی ضروریات کی تکمیل کا ذریعہ قرار دیا- علامہ اقبال نے جب آنکھ کھولی تو دو طرح کے تعلیمی نظام رائج تھے - جدید تعلیمی ادارے اور اسلامی علوم کے مراکز- علامہ اقبال نے محسوس کیا کہ دونوں طرح کے تعلیمی نظام مسلمانوں میں فکری اور علمی ترقی میں نمایاں کردار ادا نہیں کر رہے-کسی ملک میں رائج تعلیمی نظام اس قوم کی معاشرتی ضروریات،نظریات اور عقائد کے مطابق ہوتا ہے- مگر برطانوی سامراج کا مروجہ نظام تعلیم کا واضح مقصد ایسے مسلمان پیدا کرنا تھا جو اپنے رنگ و نسل کے اعتبار سے ہندوستانی لیکن اپنے نظریات کے اعتبار سے انگریز ہوں-

مذہبی مدارس اور جدید تعلیمی نظام میں  ہم آہنگی کیلیے اقبال کی تعلیمات کا کردار

ڈاکٹر عمیر محمود صدیقی:(اسسٹنٹ پروفیسر، یونیورسٹی آف کراچی)

خود مختار ہونے کے باوجود ہمارا تعلیمی نظام بیرونی قوتوں کے زیرِ اثر ہے اور ہماری نوجوان نسل کا نظریاتی تشخص انتہائی خطرے میں ہے- آج کا دور شک، فریب، جھوٹ اور نظریاتی بے راہ روی کا دور ہے- کالونیلزم (colonialism) کے دور میں اقبال جیسا مفکر، فلسفی اور دانشور امتِ مسلمہ کے لیے نعمت تھا- اقبال کی تعلیمی پالیسی قرآنِ کریم کی حقیقی تعلیمات کی آئینہ دار تھی جس کے بنیادی خد و خال تعلیم، تربیت،  تعدید اور تزکیہ پر مشتمل تھے- اقبال کی تعلیمی پالیسی کے یہ 4 بنیادی عناصر فرد کی جسمانی، ذہنی اور روحانی ترقی کے ذریعے حاصل ہوتے ہیں-

مہمانِ خصوصی

جناب جاؤ سبیڈو کوسٹا:(سفیرِ پرتگال برائے پاکستان)

بعض خصوصیات کی بناء پر اقبال کی تعظیم و تعریف لازم ہے- ان خصوصیات میں اقبال کے کلام کی کئی زبانوں سے مطابقت اور ان کے برِصغیر کی سیاست پر معاشرتی اثرات سرِ فہرست ہیں- اقبال کے فکری کمالات نے عالمی ثقافتوں اور تہذیبوں میں روابط پیدا کیے اور انسانیت پر اسلام کی اہمیت اجاگر کی- اقبال کی نظر میں حقیقتِ خداوندی نت نئے رنگوں سے دنیا کے سامنے آشکار ہوتی رہتی ہے اور انسان کو سچائی کی تلاش کے لیے ہمیشہ متحرک رہنا ہے- قرآنِ کریم بلا شک و شبہ محض لفاظی یا چند مجموعہ احکامات ہونے کے مقابلے میں بہت اعلیٰ درجہ کا حامل ہے کیونکہ قرآن خالق و مخلوق کے سربستہ رازوں کا امین ہے-

وقفہ سوال و جواب

شرکاء کے مختلف سوالات کے جوابات کا خلاصہ ذیل میں پیش کیا گیا ہے:

جدید علومِ انسانیہ کے حوالے سےہمارا ایک رویہ تو یہ ہے کہ ہم ان کو مکمّل طور پر رد کر دیں جو کہ عمومی طور پر ہمارے مدارس کا رہا- دوسرا رویہ یہ ہو سکتا ہے کہ قرآن سنّت کو مکمل طور پر جدیدیت کے تناظر میں دیکھا جائے- اقبال کی رائےمیں یہ دونوں رویّے درست نہیں- یعنی اگر آپ مغرب سے کوئی ایسی چیز حاصل کر لیتے ہیں جو اسلام کے اصولوں کے متصادم نہیں ہے تو اقبال کی رائے میں آپ نے کوئی غلط قدم نہیں اٹھایا- آج ہمارے تعلیمی نظام میں دو بڑے مسائل الحاد اور جنس پرستی ہیں اور اس کی وجہ یہی ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام وحئ الٰہی کے نور سے محروم ہوگیا ہے اور یقینی طور پر اس تباہی اور بربادی کو ہم اپنے سامنے پا رہے ہیں- اقبال فرماتے ہیں کہ علم بغیر عشق کے شر ہے اور وہ علم جسے ہم نور سمجھ رہے ہیں وہ سرا سر تاریکی ہے- اسی علم نے اہل یورپ کے دل میں آگ بھر دی ہے کیونکہ یہ علم انہیں دوسری قوموں پر ظلم کرنا سکھاتا ہے-اقبال تلقین کرتے ہیں کہ اے مسلمان تو عشق ِ رسول (ﷺ)سے اس اندھے علم کو بینا کر دے اور اس کی بو لہبی کو مٹا کر حیدر کرّار کی خوشبو بنا دے-

تیسرا سیشن:روحانی پاکیزگی اور

کردار سازی کے لیے اقبال کی تعلیمات

کانفرنس کے تیسرے سیشن کی صدارت پروفیسر ڈاکٹر مارسیا ہرمینسن  نے کی-پروفیسر ڈاکٹرجناب سہیل عمر اور جناب شعیب آفریدی نے اس موقع پر خطاب کیا -

مقررین کے اظہار خیال کا خلاصہ ذیل ہے:

کردار سازی میں براہیمی نظر کی اہمیت

جناب شعیب آفریدی: (ماہرِ اِقبالیات)

ابرہیمی نسبت ایک فرد کی تربیت میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے اور اقبال کے مرد مومن کے کردار میں دو بنیادی اوصاف کی ترویج کی ضامن ہے، ایک بت شکنی اور دوسری ایمان- معاشرے کو ایسے افراد کی ضرورت ہے جن کی تربیت براہیمی نظر کے زیر اثر ہو تا کہ وہ روایتی فکری اصولوں سے بلند ہو کر سوچنے کی استعداد حاصل کر سکیں-

معاشی اور معاشرتی صورت میں بھی اقبال کا مثالی انسان اپنی ذمہ داریوں کو بجا لانے میں ہر قسم کے امتحان کیلئے مستعد ہے کیونکہ وہ حضرت ابراہیم(﷤) کی روحانی اولاد ہے- یہ ایک طرف بتوں کو توڑنے کی صلاحیت عطا کرتی ہے اور دوسری طرف جہانِ تگ ودو سے نئی دنیاکی تشکیل کے آثار بھی مہیا کرتی ہے-اقبال کے مثالی انسان کی تکمیل میں ایک مرحلہ اس براہیمی نظر کا پیدا ہو نا ہے لیکن یہ نظر پیدا بڑی مشکل سے ہو تی ہے- اس کو حاصل کرنے کیلئے سب سے اہم تکنیک تقویٰ ہے جس کے بغیر یہ چیز حاصل کرنا بہت مشکل ہے-تقوی کی تربیت کیلئے ہی ہماری روایت میں تصوف کے کئی سلاسل موجود ہیں-اقبال کی تربیت بھی انہی سلاسل میں سے ہوئی ہے-

اقبال کے سائنس اور فلسفہ

مابعد الطبیعات کے متعلق رجحانات

پروفیسر ڈاکٹر سہیل عمر:

اقبال نے 1929ء میں نیوٹن کے حقیقت کے بارے خیالات پر ان الفاظ میں تنقید کی:

’’قدیم فزکس اپنی بنیادوں کا تنقیدی جائزہ لے رہی ہے- اس کے نتیجے میں مادیت پرستی بہت تیزی سے غائب ہو رہی ہے جس کو ابتداء میں لازم سمجھا جاتا تھا-وہ دن دور نہیں جب سائنس اور مذہب باہمی ہم آہنگی پر مشتمل حقائق سے روشناس ہوں گے جن کا ابھی تک گمان ممکن نہیں‘‘-

 کوانٹم میکینکس کے مطابق ہماری کائنات صرف ایٹمز یا ناقابلِ تقسیم ذرات سے نہیں بنی بلکہ یہ ایک مرکز سے ابھرنے والی متعدد امکانی قوتوں کا پیچیدہ امتزاج ہے- اس مرکز کو اسلامی اصطلاح میں ’’چھپا ہوا خزانہ‘‘ قرار دیا گیا ہے-

یہ دیکھا جاسکتا ہے کہ سائنس اور مذہب میں، اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے ،ایک صحت مند باہمی تعلق قائم ہو گیا ہے- ڈیوڈ بوہم ہمیں ایک ایسے ہی ماڈل سے متعارف کرواتا ہے یعنی ’’طبیعات اور مابعدالطبیعات پر مشتمل حقیقت‘‘- ڈیوڈ بوہم نے دنیائے سائنس پر اہم اثرا ت مرتب کیے اور مذہب اور سائنس کے مابین باہمی تعاون کے نئے افق دریافت کیے- بوہم کے مطابق حقیقت کے ایسے رخ بھی ہیں جو سائنس کی دسترس سے باہر ہیں-اقبال کے بقول کائنات مختلف واقعات اور حقائق کا رنگا رنگ مجموعہ ہے- بوہم کے نقطہ نظر اور مابعدالطبیعات کے دوسرے نظریات میں مماثلت یہ بتاتی ہے کہ سائنس مابعد الطبیعات کو قدامت سے جدت کی طرف لا رہی ہے- اقبال نے 1929ء میں کہا کہ وجدان اور کشف، مابعدالطبیعات میں ممکن ہیں کیونکہ اس سطح پر جا کے زمان و مکان کا سوال ختم ہو جاتا ہے -

صدارتی کلمات

پروفیسر مارسیا ہرمینسن:

جیسا کہ ذکر کیا گیا کہ حقیقت ایک سمندر کی مانند ہے- رہبر، قلندر اور بت شکنی جیسی تراکیب نہایت وسیع معنی رکھتی ہیں- جدید سائنس میں واضح تبدیلی دیکھی جا سکتی ہے کہ سائنس اتنی بھی مادیت پرست اور بےلچک نہیں، جتنا ہم اس کو سمجھتے ہیں-لیکن کچھ سائنس دان ایسے ہیں جو آئیڈلزم کا شکار ہیں اور وسیع النظری سے عاری ہیں لیکن سائنس پر اب یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ کچھ عوامل ایسے ہیں جو اس کی دسترس سے باہر ہیں-

وقفہ سوال و جواب

شرکاء کے مختلف سوالات کے مقررین کی جانب سے دیے گئے جوابات کا خلاصہ ذیل میں پیش کیا گیا ہے:

نظریہ ارتقاء میں یہ دلیل پیش کی گئی تھی کہ شعور مادہ کی ایک ذیل سے پھو ٹنے والی جزوی ش?

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر