تعصب کے سدِباب میں روحانیت کا کردار

تعصب کے سدِباب میں روحانیت کا کردار

تعصب کے سدِباب میں روحانیت کا کردار

مصنف: مسلم انسٹیٹیوٹ ستمبر 2018

سلم انسٹیٹیوٹ یو-کے چپٹر نے ریکارڈ ہال لندن میں ’’تعصب کے سدِباب میں روحانیت کا کردار‘‘کے موضوع پر راؤنڈ ٹیبل ڈسکشن کا انعقاد کیا-اس موقع پر پروفیسر رونالڈ ایلن گیوز (سکول آف ہسٹری، آرکیالوجی اینڈ ریلجن، کارڈیف یونیورسٹی، یوکے) اور صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب (چیئر مین مسلم انسٹیٹیوٹ) نے اپنے خیالات کا اظہار کیا- ڈاکٹر اقبال حسین(صدر مسلم انسٹیٹیوٹ یو-کے چپٹر) نے ابتدائی کلمات ادا کیے اور جناب راؤعلی خان ( سینیئرریسرچ ایسوسی ایٹ، مسلم انسٹیٹیوٹ) نے اختتام میں تمام شرکاء کا شکریہ ادا کیا-محمد علی افتخار (پروگرام مینیجر، دی مسلم ڈیبیٹ) نے ماڈریٹر کے فرائض سر انجام دیے-  

مقررین کے اظہار خیال کا مختصر خلاصہ درج ذیل ہے:

تعصب روحانیت کی موجودگی میں قائم نہیں رہ سکتا کیونکہ تعصب کی بنیاد احساسِ برتری کی بناء پر کسی فرقہ، قوم، قبیلہ یا ذات کا قیام ہے-جبکہ روحانیت کی بنیاد خدا کی وحدانیت، انسانی مساوات اور خدا کے مخلوق سے تعلق پر ہے- الہامی مذاہب اپنا تعلق ذاتِ باری تعالیٰ سے جوڑتے ہیں جو کہ انسان کو کسی رہبر یا استاد کے ذریعے سکھائے گئے ہیں- کسی بھی ادارے میں انسانوں کے ایک گروہ میں اگر مذہب بہترین انسانی اقدار کو فروغ دے رہا ہے تو اس کا فائدہ دوسروں کو بھی ہونا چاہیے تھا لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو آخر اس کی وجہ کیا ہے؟

روحانیت ان لوگوں کے ذریعے انسانیت کی ترویج کرتی ہے جو ماہرِ الٰہیات یا دانشور تو نہیں لیکن اپنے دل میں وہ دوسروں کے لیے بھلائی کے ایسے کام مثلاً کھانا کھلانا یا ٹھکانہ مہیا کرنا کرنے پر تیار رہتے ہیں جس سے وہ دوسروں کے دل میں گھر کر لیتے ہیں- روحانیت کا تعلق زندگی کے ان عناصر سے ہے جو معمولی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مختلف معاشرتی طبقات میں انسانیت کی ترقی کے لیے کوشاں رہتے ہیں- انسانیت کی معراج یہ ہے کہ مختلف لباس، عقیدہ، خاندان، تجربات اور زبان کے باوجود ہم آپس میں انسانیت کا رشتہ مت بھلائیں-

یہ بات بھی بر محل ہو گی کہ مَیں دنیا تو کیا اپنے بچے میں بھی تبدیلی نہیں لا سکتا جب تک کہ مَیں اپنے آپ پر وہ تبدیلی لاگو نہیں کروں گا اور یہ صرف ایک دن یا ہفتہ کی بات نہیں ہو گی- تصوف میں اپنے آپ کو تبدیل کرنے کا مطلب اپنے نفس اور اَنا پر قابو پانا ہے- اگر میں اپنی اولاد سے ہی مخلص نہیں تو وہ میری تابعداری کیوں کرے گی؟

اپنے بارے احساسِ برتری اور دوسروں بارے تحقیر آمیز خیالات ہمیشہ تباہ کن نتائج کی طرف لے جاتے ہیں-تعصب کے سدِ باب میں روحانیت کا کردار آج کے متنوع ثقافتی ماحول خصوصاً برطانیہ جیسے مغربی ممالک میں نہایت اہمیت کا حامل ہے- آج دنیا افراتفری اور بدنظمی کا شکار ہے- جب ہم اپنے اندر جھانکتے ہیں تو ہمارا دل اور باطن بے چین اور غیر مطمئن نظر آتا ہے- دورِ جدید میں ہماری خوبصورت دنیا مایوسی اور انتشار کا شکار ہے- ہم نے اپنے اس سیارہ کو قیامت سے پہلے ہی جہنم بنا دیاہے- تاہم، ہم بےحد خوش قسمت ہیں کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ہمیں کرہ ارض کو جہنم سے جنت کا ٹکڑا بنانے کا راستہ بتایا ہے اور وہ راستہ روحانیت ہے-

آپ کسی بھی تنظیم یا ادارہ کے دفتر میں چلے جائیں، آپ کو اس جگہ کے قوانین کے مطابق اس شعبہ کی اقدار اور عزت و وقار کا درس دیا جائے گا- جب آپ کسی سکول، کالج، مسجد یا یونیورسٹی میں جائیں گے، تو آپ کو استاد کا ادب و احترام سکھایا جائے گا- اسی طرح ایک خانقاہ میں صوفی و شیخ کی پیروی و تعظیم کی تعلیم دی جائے گی- کسی عدالت میں حاضری آپ کو جج، کمرہ عدالت اور قانون کے تقدس اور مروجہ نظام کی اقدار کا احترام سکھائے گی- اس لیے آپ جہاں کہیں بھی جائیں گے، آپ کو اس جگہ کی روایات اور عظمت کا سبق دیا جائے گا-تاہم، یہ امر قابلِ افسوس ہے کہ ایسے اداروں یا اساتذہ کا قحط برپا ہے جو ہمیں انسان کی تعظیم سکھا سکیں- خواہ کوئی شاعر، ادیب، محقق، صدرِ مملکت، سفیر، عالم، استاد یا والد ہو، وہ سب سے پہلے انسان ہے- اصل تعظیم انسانیت کی ہے نہ کہ ظاہری شناختوں کی- انتہائی کرب کی بات ہے کہ انسانیت کی عظمت کا درس دینے والے ادارے اب معدوم ہو کر رہ گئے ہیں-ایک سفیر یا محقق کی اپنی اہمیت ہے لیکن ان تمام میں مشترکہ قابلِ تعظیم خصوصیت انسانیت ہی ہے-

اگر تاریخ پر نظر دوڑائی جائے، تو صوفی ازم کا ماضی تابناک اور ان گنت مثالوں سے بھرا پڑا ہے جس میں روحانیت کی بنیاد پر اولیائے کرام نے لوگوں میں اتفاق و اتحاد پیدا کیا- تاریخی طور پر، سرکردہ صوفی سلاسل میں سے سلسلہ قادریہ کا بغداد اور سلسلہ نقشبندیہ کا وسطی ایشیا میں آغاز ہوا- تاہم دونوں سلاسل اس وقت روئے زمین پر پھیلے ہوئے ہیں اور بڑی تعداد میں پیروکار رکھتے ہیں-ان صوفی سلاسل کے مبلغین کی تربیت کی بنیاد روحانیت پر تھی اور وہ اسلام کی اصل روح اور پیغام کے پرچارک تھے- انسانیت کو بنیاد بناتے ہوئے انہوں نے صوفی سلاسل کی وراثت کو بلا تفریق عوام الناس میں تقسیم کیا- تصوف کے بردبار، انسان دوست اور عالمگیر پیغام کی وجہ سے مختلف رنگ و نسل اور عقیدہ کے لوگوں میں برداشت، بین المذاہب ہم آہنگی اور اخوت کا کلچر پیدا ہوا جس کی بلاشبہ پوری تاریخِ انسانی میں کوئی مثال نہیں ملتی- اس عمل میں روحانی تعلیمات کی ترویج کے ساتھ مختلف ثقافتوں اور تہذیبوں میں دوریاں مٹانے کا کردار ادا کرنا بھی شامل تھا-

آج کے دور میں ہمیں معاشرتی انتشار، نفرت، نسلی تعصب اور عدم برداشت پر قابو پانے کے لیے روحانی فکر اور تعلیمات کے دوبارہ اجراء کی ضرورت ہے- روحانی فعالیت بھی اتنی ہی ضروری ہے جتنی کہ سیاسی طور پہ فعال ہونا ضروری ہے-

٭٭٭

سلم انسٹیٹیوٹ یو-کے چپٹر نے ریکارڈ ہال لندن میں ’’تعصب کے سدِباب میں روحانیت کا کردار‘‘کے موضوع پر راؤنڈ ٹیبل ڈسکشن کا انعقاد کیا-اس موقع پر پروفیسر رونالڈ ایلن گیوز (سکول آف ہسٹری، آرکیالوجی اینڈ ریلجن، کارڈیف یونیورسٹی، یوکے) اور صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب (چیئر مین مسلم انسٹیٹیوٹ) نے اپنے خیالات کا اظہار کیا- ڈاکٹر اقبال حسین(صدر مسلم انسٹیٹیوٹ یو-کے چپٹر) نے ابتدائی کلمات ادا کیے اور جناب راؤعلی خان ( سینیئرریسرچ ایسوسی ایٹ، مسلم انسٹیٹیوٹ) نے اختتام میں تمام شرکاء کا شکریہ ادا کیا-محمد علی افتخار (پروگرام مینیجر، دی مسلم ڈیبیٹ) نے ماڈریٹر کے فرائض سر انجام دیے-

مقررین کے اظہار خیال کا مختصر خلاصہ درج ذیل ہے:

تعصب روحانیت کی موجودگی میں قائم نہیں رہ سکتا کیونکہ تعصب کی بنیاد احساسِ برتری کی بناء پر کسی فرقہ، قوم، قبیلہ یا ذات کا قیام ہے-جبکہ روحانیت کی بنیاد خدا کی وحدانیت، انسانی مساوات اور خدا کے مخلوق سے تعلق پر ہے- الہامی مذاہب اپنا تعلق ذاتِ باری تعالیٰ سے جوڑتے ہیں جو کہ انسان کو کسی رہبر یا استاد کے ذریعے سکھائے گئے ہیں- کسی بھی ادارے میں انسانوں کے ایک گروہ میں اگر مذہب بہترین انسانی اقدار کو فروغ دے رہا ہے تو اس کا فائدہ دوسروں کو بھی ہونا چاہیے تھا لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو آخر اس کی وجہ کیا ہے؟

روحانیت ان لوگوں کے ذریعے انسانیت کی ترویج کرتی ہے جو ماہرِ الٰہیات یا دانشور تو نہیں لیکن اپنے دل میں وہ دوسروں کے لیے بھلائی کے ایسے کام مثلاً کھانا کھلانا یا ٹھکانہ مہیا کرنا کرنے پر تیار رہتے ہیں جس سے وہ دوسروں کے دل میں گھر کر لیتے ہیں- روحانیت کا تعلق زندگی کے ان عناصر سے ہے جو معمولی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مختلف معاشرتی طبقات میں انسانیت کی ترقی کے لیے کوشاں رہتے ہیں- انسانیت کی معراج یہ ہے کہ مختلف لباس، عقیدہ، خاندان، تجربات اور زبان کے باوجود ہم آپس میں انسانیت کا رشتہ مت بھلائیں-

یہ بات بھی بر محل ہو گی کہ مَیں دنیا تو کیا اپنے بچے میں بھی تبدیلی نہیں لا سکتا جب تک کہ مَیں اپنے آپ پر وہ تبدیلی لاگو نہیں کروں گا اور یہ صرف ایک دن یا ہفتہ کی بات نہیں ہو گی- تصوف میں اپنے آپ کو تبدیل کرنے کا مطلب اپنے نفس اور اَنا پر قابو پانا ہے- اگر میں اپنی اولاد سے ہی مخلص نہیں تو وہ میری تابعداری کیوں کرے گی؟

اپنے بارے احساسِ برتری اور دوسروں بارے تحقیر آمیز خیالات ہمیشہ تباہ کن نتائج کی طرف لے جاتے ہیں-تعصب کے سدِ باب میں روحانیت کا کردار آج کے متنوع ثقافتی ماحول خصوصاً برطانیہ جیسے مغربی ممالک میں نہایت اہمیت کا حامل ہے- آج دنیا افراتفری اور بدنظمی کا شکار ہے- جب ہم اپنے اندر جھانکتے ہیں تو ہمارا دل اور باطن بے چین اور غیر مطمئن نظر آتا ہے- دورِ جدید میں ہماری خوبصورت دنیا مایوسی اور انتشار کا شکار ہے- ہم نے اپنے اس سیارہ کو قیامت سے پہلے ہی جہنم بنا دیاہے- تاہم، ہم بےحد خوش قسمت ہیں کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ہمیں کرہ ارض کو جہنم سے جنت کا ٹکڑا بنانے کا راستہ بتایا ہے اور وہ راستہ روحانیت ہے-

آپ کسی بھی تنظیم یا ادارہ کے دفتر میں چلے جائیں، آپ کو اس جگہ کے قوانین کے مطابق اس شعبہ کی اقدار اور عزت و وقار کا درس دیا جائے گا- جب آپ کسی سکول، کالج، مسجد یا یونیورسٹی میں جائیں گے، تو آپ کو استاد کا ادب و احترام سکھایا جائے گا- اسی طرح ایک خانقاہ میں صوفی و شیخ کی پیروی و تعظیم کی تعلیم دی جائے گی- کسی عدالت میں حاضری آپ کو جج، کمرہ عدالت اور قانون کے تقدس اور مروجہ نظام کی اقدار کا احترام سکھائے گی- اس لیے آپ جہاں کہیں بھی جائیں گے، آپ کو اس جگہ کی روایات اور عظمت کا سبق دیا جائے گا-تاہم، یہ امر قابلِ افسوس ہے کہ ایسے اداروں یا اساتذہ کا قحط برپا ہے جو ہمیں انسان کی تعظیم سکھا سکیں- خواہ کوئی شاعر، ادیب، محقق، صدرِ مملکت، سفیر، عالم، استاد یا والد ہو، وہ سب سے پہلے انسان ہے- اصل تعظیم انسانیت کی ہے نہ کہ ظاہری شناختوں کی- انتہائی کرب کی بات ہے کہ انسانیت کی عظمت کا درس دینے والے ادارے اب معدوم ہو کر رہ گئے ہیں-ایک سفیر یا محقق کی اپنی اہمیت ہے لیکن ان تمام میں مشترکہ قابلِ تعظیم خصوصیت انسانیت ہی ہے-

اگر تاریخ پر نظر دوڑائی جائے، تو صوفی ازم کا ماضی تابناک اور ان گنت مثالوں سے بھرا پڑا ہے جس میں روحانیت کی بنیاد پر اولیائے کرام نے لوگوں میں اتفاق و اتحاد پیدا کیا- تاریخی طور پر، سرکردہ صوفی سلاسل میں سے سلسلہ قادریہ کا بغداد اور سلسلہ نقشبندیہ کا وسطی ایشیا میں آغاز ہوا- تاہم دونوں سلاسل اس وقت روئے زمین پر پھیلے ہوئے ہیں اور بڑی تعداد میں پیروکار رکھتے ہیں-ان صوفی سلاسل کے مبلغین کی تربیت کی بنیاد روحانیت پر تھی اور وہ اسلام کی اصل روح اور پیغام کے پرچارک تھے- انسانیت کو بنیاد بناتے ہوئے انہوں نے صوفی سلاسل کی وراثت کو بلا تفریق عوام الناس میں تقسیم کیا- تصوف کے بردبار، انسان دوست اور عالمگیر پیغام کی وجہ سے مختلف رنگ و نسل اور عقیدہ کے لوگوں میں برداشت، بین المذاہب ہم آہنگی اور اخوت کا کلچر پیدا ہوا جس کی بلاشبہ پوری تاریخِ انسانی میں کوئی مثال نہیں ملتی- اس عمل میں روحانی تعلیمات کی ترویج کے ساتھ مختلف ثقافتوں اور تہذیبوں میں دوریاں مٹانے کا کردار ادا کرنا بھی شامل تھا-

آج کے دور میں ہمیں معاشرتی انتشار، نفرت، نسلی تعصب اور عدم برداشت پر قابو پانے کے لیے روحانی فکر اور تعلیمات کے دوبارہ اجراء کی ضرورت ہے- روحانی فعالیت بھی اتنی ہی ضروری ہے جتنی کہ سیاسی طور پہ فعال ہونا ضروری ہے-

٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر