کشمیر 2018 کے تناظر میں

کشمیر 2018 کے تناظر میں

کشمیر 2018 کے تناظر میں

مصنف: احمد القادری ستمبر 2018

لفظ کشمیر جب بھی ہمارے کانوں میں گونجتا ہے تو ہم ایک درد بھری کہانی کا تصور کرتے ہیں جہاں انسانوں کی انسانیت کو ان کی کمزوری سمجھا جاتا ہے - ہاں یہ حقیقت ہے کہ کچھ لوگوں کی نظر میں مسئلہ ِ کشمیر 1947ء میں ایک ملک کی تقسیم سے شروع ہوا مگر شائد بطور انسانی المیہ کشمیر ڈوگرا راج کی ایک تلخ حقیقت ہے- تاریخ دان اس بات کو اپنی کتابوں میں واضح طور پر لکھ چکے ہیں کہ کشمیر کے مسلمانوں پر زندگی تقسیم سے پہلے ہی تنگ کر دی گئی تھی-کشمیر کی موجودصورتحال کوئی نئی کہانی نہیں بلکہ ہندو بنیا و ڈوگرا راج کے مسلم کُش پالیسیز کا تسلسل ہے- بھارتی حکومت اور فوج نے مل کر کئی ڈریکولا قوانین کی زیرِ سایہ نہ صرف کشمیر جنت نظیر پر غاصبانہ قبضہ کیا بلکہ وہاں آباد مسلمانوں کو اپنی اسلام دشمنی کا بدترین نشانہ بنایا- کئی گمنام قبریں، شہدا، یتیم، بیوہ، نصف بیوہ، بچے، بوڑھے اور اُجڑی وادیٔ کشمیر بھارتی مظالم کا منہ بولتا ثبوت ہے- کوئی بھی قانون خواہ وہ مذہب سے اخذ کردہ ہو یا انسانی عقل کا داعی ہو ان مظالم کی نہ تو اجازت دیتا ہے اور نہ ہی ان مظالم کی تائید کرتا ہے-  

بھارت ہمیشہ سےپاکستان پر الزام تراشی کرتے ہوئے کشمیر کی حقِ خودارادیت کی جدوجہد کو دہشتگردی سے منسلک کر کے دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکتا رہاہے - جولائی 2016ء میں کشمیر ی حریت پسند برہان مظفر وانی کی شہادت نے جدوجہدِ حقِ خود ارادیت میں ایک نیا جذبہ و جنون بھر دیا جو بھارتی فوج کے ہر ہتھکنڈے کے سامنے خواہ وہ گولی، پیلٹ گن، آنسو گیس، وحشیانہ لاٹھی چارج ہو یا گرفتاریاں کشمیری مرد و عورت کو اپنے حق سے دستبردار نہ کروا سکے-کشمیریوں کے جنون نے نہ صرف بھارتی طاقت کے نشے کو توڑا بلکہ عالمی اداروں کے توجہ بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا- جس کی زندہ مثال اقوامِ متحدہ انسانی حقوق کمیشن کی رپورٹ ہے-

اقوام متحدہ کمشنر برائے انسانی حقوق نے جون 2018ءمیں کشمیر میں قابض بھارتی فورسز کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر پہلی رپورٹ مرتب کی ہے جس میں بین الاقوامی تعلقات کا مشہور فقرہ لکھا گیا ہے :

“This is not a conflict frozen in time”. [1]

گوکہ اس کا سادہ ترجمہ تو یہ ہے کہ ’’یہ ایسا تنازعہ نہیں جسے گزرتا وقت ٹھنڈا کر سکا ہو‘‘ مگر اس مشہور فقرے کا مفہوم سمجھنا بہت ضروری ہے جس کے مطابق ’’کنفلکٹ فروزن‘‘ کا مطلب کسی بھی علاقے کی ایسی صورتحال جس میں بغاوت کو فوج کی مدد سے دبایا گیا ہو اور دوبارہ پھوٹنے کے ڈر سے بے دریغ طاقت کاا ستعمال ناگزیر ہو- اس رپورٹ نے ایک طرف تو بھارت کے اٹوٹ انگ کے جھوٹے دعوے کو جھٹلا دیا ہے تو دوسری طرف جدوجہدِ حق ِ خود ارادیت کو بغاوت و دہشتگردی جیسی مذموم اصطلاحات سے بھی پاک کر دیا ہے- اس رپورٹ کی اولین ترجیح جموں کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں تھیں-

اس رپورٹ کے مطابق جولائی 2016ءسے مارچ 2018ء تک ایک محتاط اندازے کے مطابق 170 نہتے کشمیری بھارتی جارحیت کا نشانہ بنے- جن میں سے 17 لوگ پیلٹ گن سے شہید ہوئے جبکہ اس دورانیہ میں 6 ہزار سے زائد لوگ زخمی ہوئے جن میں کئی افراد بینائی جیسی نعمت سے محروم ہو چکے ہیں-[2] اس رپورٹ میں ان تمام انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو نمایاں کیا گیا ہے جو کہ قتل، انصاف کی کمی، فوجی عدالتیں، انتظامی ناکامی، طاقت کا بے دریغ استعمال، پیلٹ گن کا وحشیانہ استعمال، من مانی گرفتاریاں، تشدد، کمشدگیاں، حقوقِ صحت،تعلیم اور اظہار ِرائے کی خلاف ورزی، صحافیوں کے خلاف تشدد اور جنسی زیادتی ہیں-[3] اسی رپورٹ میں بھارت کی طرف سے جموں کشمیر میں لاگو کالے قوانین کی نشاندہی بھی کی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا سب سے بڑا ذمہ دار قرار دیا ہے- اس رپورٹ نے بھارت سے غیر جانبدار تفتیش کا دعویٰ کیا ہے اور بھارت کو بین الاقوامی اداروں کو کشمیر میں کام کرنے کی اجازت دینے کا کہا گیا ہے- جہاں ایک طرف پاکستان نے عالمی اداروں کی اس رپورٹ کو تسلیم کیا ہے وہیں بھارت نے ایک بار پھر ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس رپورٹ کو مسترد کرد یا ہے- پاکستان کو چاہیے کہ وہ اس رپورٹ کو ہر فورم پر پیش کرے اور مختلف ممالک کے سفارتخاروں میں بھیج کر بھارت کے اوپر دباؤ بڑھائے تا کہ وہ کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کوبند کرے-

کشمیر بھارت کے آئین کے آرٹیکل 370 اور 35-A کے تحت سپیشل سٹیٹس رکھتا ہے- جس کے مطابق کشمیر کی شہریت،پراپرٹی کی خریدو فروخت، ووٹ کا حق صرف کشمیری شہریوں کو حاصل ہے کوئی بھی غیر کشمیری اس حق کو حاصل نہیں کر سکتا- آئین کے ان آرٹیکلز کا مقصد کشمیر میں بیرونی آبادی کی شرح کو کنٹرول کرنا تھا تاکہ مستقبل میں ہونے والی رائے شماری میں صرف کشمیری حصہ لے سکیں- ایک طرف جہاں بھارت کے اوپر عالمی دباؤ بڑھ رہا ہے دوسری طرف وہ کشمیر میں آبادی کےمسلم-ہندو تناسب کو تبدیل کرنے پر تُلا ہے تا کہ مسلم اکثریت علاقے کو ہندو اکثریت میں تبدیل کر کے اپنے مذموم عزائم کو حاصل کر سکے- بھارت میں موجود مسلم کش پالیسیز کے علمبردار وں نے کئی بار اس سپیشل سٹیٹس کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے- جون 2018ء میں ایک بار پھر بھارتی انتہا پسند سوچ نے آئین کے اس آرٹیکل پر حملہ کیا اوربھارتی سپریم کورٹ میں اس کے خلاف پٹیشن دائر کی ہے- اس پٹیشن میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ بھارت کے آئین کے آرٹیکل 35-A کو ختم کردیا جائے- آرٹیکل 35-A کا متن کشمیری شہریت کے حامل لوگوں کو درج ذیل حقوق دیتا ہے:

سرکاری ملازمت Employment under the State Government

2.  پراپرٹی کا حصول Acquisition of immovable properly in the State

3. ریاست میں مستقل قیام Settlement in the State

4. سکالرشپ کا حق Right to scholarships[4]

اس پٹیشن پرکشمیر، پاکستان سمیت دنیا بھر میں آباد کشمیریوں کا ردعمل آیا ہے - حریت رہنما میر واعظ عمر فاروق نے کہا کہ :

“It (Article 35A) is part of our identity and any tinkering with it is an assault on the people of Kashmir”. [5]

’’یہ(آرٹیکل -A35) ہماری شناخت کا حصہ ہے اور اس کے ساتھ چھیڑ خانی کشمیر کے لوگوں پر حملہ کے مترادف ہو گا‘‘-

بھارت ہمیشہ سے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کر کے مسئلہ ِ کشمیر کو ختم کرنے کی کوشش کرتا آیا ہے مگر ہر بار اس کو ناکامی ہوئی ہے- باوجود بھارت کے مظالم اور عالمی برادری کی مجرمانہ خاموشی کے کشمیر کے لوگ حق خودارادیت کے جدوجہد پر یکجا ہیں اور کوئی بھی طاقت ان کو ان کے اس بنیادی حق سے ہٹا نہیں سکتی کیونکہ آئے دن کشمیر کے چراغ کو کوئی نہ کوئی اپنا خون دے کر ترو تازہ کر دیتا ہے- عالمی برادری کو سمجھنا چاہیے کہ پاکستان کا مسئلہِ کشمیر پر بولنا کوئی ذاتی مقصد یا بھارت کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی نہیں ہے بلکہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق پاکستان مسئلہ ِ کشمیر کی پارٹی ہے اور عالمی قوانین کے مطابق اس مسئلہ کو ہر فورم پر اجاگر کرنے کاحق رکھتا ہے-جنوبی ایشیاء میں بڑھتی جوہری طاقت اور دہشتگردی کے مسائل نے مسئلہِ کشمیر کو ایک نیوکلئیر فلیش پوائنٹ بنا دیا ہے- پاکستان و بھارت کئی مرتبہ مسئلہِ کشمیر کی وجہ سے پنجہ آزمائی کر چکے ہیں اور مستقبل میں کوئی بھی ناخوشگوار واقعہ اس خطے کو خطرناک نتائج کی طرف لے جائے گا-

٭٭٭

لفظ کشمیر جب بھی ہمارے کانوں میں گونجتا ہے تو ہم ایک درد بھری کہانی کا تصور کرتے ہیں جہاں انسانوں کی انسانیت کو ان کی کمزوری سمجھا جاتا ہے - ہاں یہ حقیقت ہے کہ کچھ لوگوں کی نظر میں مسئلہ ِ کشمیر 1947ء میں ایک ملک کی تقسیم سے شروع ہوا مگر شائد بطور انسانی المیہ کشمیر ڈوگرا راج کی ایک تلخ حقیقت ہے- تاریخ دان اس بات کو اپنی کتابوں میں واضح طور پر لکھ چکے ہیں کہ کشمیر کے مسلمانوں پر زندگی تقسیم سے پہلے ہی تنگ کر دی گئی تھی-کشمیر کی موجودہ صورتحال کوئی نئی کہانی نہیں بلکہ ہندو بنیا و ڈوگرا راج کے مسلم کُش پالیسیز کا تسلسل ہے- بھارتی حکومت اور فوج نے مل کر کئی ڈریکولا قوانین کی زیرِ سایہ نہ صرف کشمیر جنت نظیر پر غاصبانہ قبضہ کیا بلکہ وہاں آباد مسلمانوں کو اپنی اسلام دشمنی کا بدترین نشانہ بنایا- کئی گمنام قبریں، شہدا، یتیم، بیوہ، نصف بیوہ، بچے، بوڑھے اور اُجڑی وادیٔ کشمیر بھارتی مظالم کا منہ بولتا ثبوت ہے- کوئی بھی قانون خواہ وہ مذہب سے اخذ کردہ ہو یا انسانی عقل کا داعی ہو ان مظالم کی نہ تو اجازت دیتا ہے اور نہ ہی ان مظالم کی تائید کرتا ہے-

بھارت ہمیشہ سےپاکستان پر الزام تراشی کرتے ہوئے کشمیر کی حقِ خودارادیت کی جدوجہد کو دہشتگردی سے منسلک کر کے دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکتا رہاہے - جولائی 2016ء میں کشمیر ی حریت پسند برہان مظفر وانی کی شہادت نے جدوجہدِ حقِ خود ارادیت میں ایک نیا جذبہ و جنون بھر دیا جو بھارتی فوج کے ہر ہتھکنڈے کے سامنے خواہ وہ گولی، پیلٹ گن، آنسو گیس، وحشیانہ لاٹھی چارج ہو یا گرفتاریاں کشمیری مرد و عورت کو اپنے حق سے دستبردار نہ کروا سکے-کشمیریوں کے جنون نے نہ صرف بھارتی طاقت کے نشے کو توڑا بلکہ عالمی اداروں کے توجہ بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا- جس کی زندہ مثال اقوامِ متحدہ انسانی حقوق کمیشن کی رپورٹ ہے-

اقوام متحدہ کمشنر برائے انسانی حقوق نے جون 2018ءمیں کشمیر میں قابض بھارتی فورسز کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر پہلی رپورٹ مرتب کی ہے جس میں بین الاقوامی تعلقات کا مشہور فقرہ لکھا گیا ہے :

“This is not a conflict frozen in time”. [1]

گوکہ اس کا سادہ ترجمہ تو یہ ہے کہ ’’یہ ایسا تنازعہ نہیں جسے گزرتا وقت ٹھنڈا کر سکا ہو‘‘ مگر اس مشہور فقرے کا مفہوم سمجھنا بہت ضروری ہے جس کے مطابق ’’کنفلکٹ فروزن‘‘ کا مطلب کسی بھی علاقے کی ایسی صورتحال جس میں بغاوت کو فوج کی مدد سے دبایا گیا ہو اور دوبارہ پھوٹنے کے ڈر سے بے دریغ طاقت کاا ستعمال ناگزیر ہو- اس رپورٹ نے ایک طرف تو بھارت کے اٹوٹ انگ کے جھوٹے دعوے کو جھٹلا دیا ہے تو دوسری طرف جدوجہدِ حق ِ خود ارادیت کو بغاوت و دہشتگردی جیسی مذموم اصطلاحات سے بھی پاک کر دیا ہے- اس رپورٹ کی اولین ترجیح جموں کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں تھیں-

اس رپورٹ کے مطابق جولائی 2016ءسے مارچ 2018ء تک ایک محتاط اندازے کے مطابق 170 نہتے کشمیری بھارتی جارحیت کا نشانہ بنے- جن میں سے 17 لوگ پیلٹ گن سے شہید ہوئے جبکہ اس دورانیہ میں 6 ہزار سے زائد لوگ زخمی ہوئے جن میں کئی افراد بینائی جیسی نعمت سے محروم ہو چکے ہیں-[2] اس رپورٹ میں ان تمام انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو نمایاں کیا گیا ہے جو کہ قتل، انصاف کی کمی، فوجی عدالتیں، انتظامی ناکامی، طاقت کا بے دریغ استعمال، پیلٹ گن کا وحشیانہ استعمال، من مانی گرفتاریاں، تشدد، کمشدگیاں، حقوقِ صحت،تعلیم اور اظہار ِرائے کی خلاف ورزی، صحافیوں کے خلاف تشدد اور جنسی زیادتی ہیں-[3] اسی رپورٹ میں بھارت کی طرف سے جموں کشمیر میں لاگو کالے قوانین کی نشاندہی بھی کی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا سب سے بڑا ذمہ دار قرار دیا ہے- اس رپورٹ نے بھارت سے غیر جانبدار تفتیش کا دعویٰ کیا ہے اور بھارت کو بین الاقوامی اداروں کو کشمیر میں کام کرنے کی اجازت دینے کا کہا گیا ہے- جہاں ایک طرف پاکستان نے عالمی اداروں کی اس رپورٹ کو تسلیم کیا ہے وہیں بھارت نے ایک بار پھر ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس رپورٹ کو مسترد کرد یا ہے- پاکستان کو چاہیے کہ وہ اس رپورٹ کو ہر فورم پر پیش کرے اور مختلف ممالک کے سفارتخاروں میں بھیج کر بھارت کے اوپر دباؤ بڑھائے تا کہ وہ کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کوبند کرے-

کشمیر بھارت کے آئین کے آرٹیکل 370 اور 35-A کے تحت سپیشل سٹیٹس رکھتا ہے- جس کے مطابق کشمیر کی شہریت،پراپرٹی کی خریدو فروخت، ووٹ کا حق صرف کشمیری شہریوں کو حاصل ہے کوئی بھی غیر کشمیری اس حق کو حاصل نہیں کر سکتا- آئین کے ان آرٹیکلز کا مقصد کشمیر میں بیرونی آبادی کی شرح کو کنٹرول کرنا تھا تاکہ مستقبل میں ہونے والی رائے شماری میں صرف کشمیری حصہ لے سکیں- ایک طرف جہاں بھارت کے اوپر عالمی دباؤ بڑھ رہا ہے دوسری طرف وہ کشمیر میں آبادی کےمسلم-ہندو تناسب کو تبدیل کرنے پر تُلا ہے تا کہ مسلم اکثریت علاقے کو ہندو اکثریت میں تبدیل کر کے اپنے مذموم عزائم کو حاصل کر سکے- بھارت میں موجود مسلم کش پالیسیز کے علمبردار وں نے کئی بار اس سپیشل سٹیٹس کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے- جون 2018ء میں ایک بار پھر بھارتی انتہا پسند سوچ نے آئین کے اس آرٹیکل پر حملہ کیا اوربھارتی سپریم کورٹ میں اس کے خلاف پٹیشن دائر کی ہے- اس پٹیشن میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ بھارت کے آئین کے آرٹیکل 35-A کو ختم کردیا جائے- آرٹیکل 35-A کا متن کشمیری شہریت کے حامل لوگوں کو درج ذیل حقوق دیتا ہے:

سرکاری ملازمت

پراپرٹی کا حصول

ریاست میں مستقل قیام

سکالرشپ کا حق

 

1.       Employment under the State Government

2.       Acquisition of immovable properly in the State

3.       Settlement in the State

4.      Right to scholarships[4]

 

اس پٹیشن پرکشمیر، پاکستان سمیت دنیا بھر میں آباد کشمیریوں کا ردعمل آیا ہے - حریت رہنما میر واعظ عمر فاروق نے کہا کہ :

“It (Article 35A) is part of our identity and any tinkering with it is an assault on the people of Kashmir”. [5]

’’یہ(آرٹیکل -A35) ہماری شناخت کا حصہ ہے اور اس کے ساتھ چھیڑ خانی کشمیر کے لوگوں پر حملہ کے مترادف ہو گا‘‘-

بھارت ہمیشہ سے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کر کے مسئلہ ِ کشمیر کو ختم کرنے کی کوشش کرتا آیا ہے مگر ہر بار اس کو ناکامی ہوئی ہے- باوجود بھارت کے مظالم اور عالمی برادری کی مجرمانہ خاموشی کے کشمیر کے لوگ حق خودارادیت کے جدوجہد پر یکجا ہیں اور کوئی بھی طاقت ان کو ان کے اس بنیادی حق سے ہٹا نہیں سکتی کیونکہ آئے دن کشمیر کے چراغ کو کوئی نہ کوئی اپنا خون دے کر ترو تازہ کر دیتا ہے- عالمی برادری کو سمجھنا چاہیے کہ پاکستان کا مسئلہِ کشمیر پر بولنا کوئی ذاتی مقصد یا بھارت کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی نہیں ہے بلکہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق پاکستان مسئلہ ِ کشمیر کی پارٹی ہے اور عالمی قوانین کے مطابق اس مسئلہ کو ہر فورم پر اجاگر کرنے کاحق رکھتا ہے-جنوبی ایشیاء میں بڑھتی جوہری طاقت اور دہشتگردی کے مسائل نے مسئلہِ کشمیر کو ایک نیوکلئیر فلیش پوائنٹ بنا دیا ہے- پاکستان و بھارت کئی مرتبہ مسئلہِ کشمیر کی وجہ سے پنجہ آزمائی کر چکے ہیں اور مستقبل میں کوئی بھی ناخوشگوار واقعہ اس خطے کو خطرناک نتائج کی طرف لے جائے گا-

٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر