ڈی این اے ڈیٹا سٹوریج ڈیوائس

ڈی این اے ڈیٹا سٹوریج ڈیوائس

ڈی این اے ڈیٹا سٹوریج ڈیوائس

مصنف: ندیم اقبال ستمبر 2018

یوں تو انسان اپنی آنکھوں سے قدرت کے دلفریب نظارے جن میں آسمان، ستارے، سیارے،چاند، سورج، بادل، بارش، زمین پہاڑ، سبزہ، میدان،صحرا، چرند، پرند، کو دیکھ کر لطف اندوز اور قدرت کی بنائی ہوئی چیزوں پر عش عش کر اُٹھتا ہے-انسان اپنی آنکھوں سے جو چیز دیکھتا اور محسوس کرتا ہے وہی چیز کیمرہ میں محفوظ کر نے کی کوشش کرتا ہے اُس کی یہ خواہش بھی ہے کہ وہ ان نظاروں کو اپنی آنکھوں کے ساتھ ساتھ ہمیشہ کیلئے کیمرہ میں بھی محفوظ کرلے- انسان کی بڑھتی ہوئی خواہشات اورٹیکنالوجی کے بے دریغ استعمال نے انسان کو سہولت کے ساتھ ساتھ پریشانیوں سےبھی دوچار کیا ہے-ہائی ریزولیشن گرافکس کا بڑھتا ہوا استعمال، سیلفی کا بڑھتا ہوا رواج، سوشل میڈیا پر روزانہ کی مصروفیات سے سب کو آگاہ رکھنے کے لئے تصاویر نے ڈیٹا سٹوریج ڈیوائس میں ڈیٹا محفوظ کرنے کا فقدان پیدا کیا ہے-

اگر ہم سٹوریج ڈیوائس کی بات کریں تو سب سے پہلے فلاپی ڈرائیور سب سے کم ترین سٹوریج ڈیوائس تھی جو کہ MB1.5ڈیٹا سٹور کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی پھر فلاپی کی جگہ CDs سٹوریج ڈیوائس میں زیادہ اہمیت حاصل کر لی جس کی صلاحیت  MB800 ڈیٹا سٹور کرنے کی ہے جس کا آج کل بہت کم استعمال ہے- CDs کے ساتھ ساتھ DVDs نے اپنی سٹوریج کو مزید بڑھایا جس میں سٹوریج طاقت 4 to 8GBہو گئی- آج کل سب سے زیادہ استعمال ہونے والی سٹوریج ڈیوائس USB فلیش ڈرائیو ہے جس میں 1TBتک ڈیٹا سٹور کیا جاسکتا ہے - کیمرہ کا ہائی ریزولیشن میں آنا اور ہماری روز مرہ کی عادات کا سوشل میڈیا پر عام ہونے کیلئے سیلفیز کا بے دریغ استعمال لیپ ٹاپ یا پرسنل کمپیوٹر میں1ٹیرا بائیٹ (TB)کی ہارڈ ڈرائیور آج سے 20 سال پہلے کی 40 گیگا بائیٹ (GB)کے برابر ہو چکی ہے-سٹوریج ڈیوائس کی بڑھتی ہوئی ڈیمانڈ نے ٹیکنالوجی ماہرین کو یہ سوچنے پر مجبور کیا جس میں سٹوریج ڈیوائس کی Capacity کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ نئی آپشن پر بھی غور کیا گیا جس میں ایسی سٹوریج ڈیوائس کی تجویز پیش کی گئی جو کم سے کم جگہ پر زیادہ سے زیادہ ڈیٹا کو سٹور کر سکتی ہو-بہت عرصہ کی کھوج کے بعد قدرت کاجسم میں فراہم کردہ وہ یونیک مادہ جس کوDNA کا نام دیا گیا ہے اُس میں ڈیٹا کو محفوظ کرنے کا تجربہ ماہرین نے مکمل کیا ہے - DNA میں ڈیٹا کو سٹور کرنے سے پہلے اس کو خاندان کا پتہ لگانے، بیماریوں کی جانچ کرنے، مجرم کی نشاندہی کرنے کے لئے اور ایک شخص کی عادات جانچنے کیلئے استعمال کیا جاتا تھا-

DNA ڈی آکسی رائبو نیوکلیک ایسڈ (DeoxyriboNucleic Acid) کا مخفف ہے - یہ زندگی کی مکمل تاریخ رکھنے والا سیل ہے- اس کو سمجھنے کیلئے ہم یوں کَہ سکتے ہیں کہDNA نیو موبائل فون کے ساتھ ملنے والاہدایات کا وہ بُک لٹ ہے جس پرموبائل فون کی تمام معلومات درج ہوتی ہے-DNAمیں انسان کی جنس؟ بالوں کا رنگ؟ آنکھوں اور چہرے کی رنگت؟ اُس کا وزن،قد اور عمر ؟ سوچنے، سمجھنے، جاگنے، سونے  اور عادتوں کے بارے میں مکمل معلومات، انسان عمر کے کس حصے میں ہے؟ کس وجہ سے ہے؟اور کس بیماری سےفوت ہوگااور وہ پوری زندگی کن کن بیماریوں کا شکار رہے گا اللہ تعالی ٰ اُس کے DNA میں ڈال دیتا ہے جس کی وہ شخص پوری زندگی پیروی کرتا ہے- DNA کی کھوج سے اب تک جتنے بھی شخص کاDNA ٹیسٹ کیا گیا ہے وہ کسی بھی دوسرے شخص سے مماثلت اختیار نہیں کرتا اِس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ماہرین نے زمین کی کُھدائی کے دوران ملنے والی ہڈیوں کا جب DNA ٹیسٹ کیا تو وہ بھی مختلف تھیں- ہر انسان کا DNA دوسرے انسان سے مختلف ہے لیکن ایک انسان کے جسم میں موجود تمام سیلز کا ڈی این اے ایک ہوتا ہے یہ 50فیصد والد اور 50فیصد والدہ کے ڈی این اے سے ملتاہے-

اب تک سائنسدان اور ماہرین صرف انسانی DNA پر تجربہ کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں اور ڈیٹا کو بھی انسانی DNA میں سٹور کیا گیا ہے-انسان کا جسم سیلز کا مجموعہ ہوتا ہے اور مکمل جسم تقریباً 30-40 ٹریلین سیلز پر مشتمل ہے-[1] ایک سیل میں تقریباً 2میٹر لمباDNAپایا جاتا ہے[2] اوراگر مکمل انسانی جسم کا DNA معلوم کیا جائے تو اس کی تعداد 244.2 گرام ہوگی[3] ایک گرام DNA میں 215ملین گیگا بائٹس ڈیٹاسٹور ہوسکتا ہے[4]-اگر انسانی جسم کے ہر سیل میں ملنے والے تمام ڈی این اے کو ایک لائن میں رکھنے کی کوشش کریں یہ فاصلہ زمین سے سورج کے درمیان 80 گنابڑھ جائے گا یعنی ایک سوپرسونک ائیرکرافٹ جس کی رفتار آواز سے 10 گنا تیز ہے وہ اس فاصلے کو سوا صدی میں طے کرے گا-اگر ایک کمپیوٹر پر ڈی این اے کے نیو کلیوٹائیٹز روزانہ 8 گھنٹے 60 ورڈز فی منٹ کے حساب سے لکھیں جائیں تو بغیر آرام کے تقریباً 15 سال کا عرصہ لگے گا ایک DNA لکھنے میں- اگر ہم انسانی تخلیق کا گہرائی سے مشاہد ہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ :

’’فَبِاَیِّ  اٰلَآءِ  رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ‘‘[5]

 

’’تم اپنے پروردگار کے کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے‘‘-

پوری دنیا میں ایک لمحہ میں کئی ٹیرا بائیٹس ڈیٹا محفوظ اور Send ہورہا ہے- جس میں بہت زیادہ مواد ہائی ریزولیشن ہوتا ہے جو کہ ہارڈ ڈرائیو میں بہت سی میموری (Memory) گھیر لیتے ہیں -اگراسی مقدار میں ڈیٹا بڑھتا رہا تو لیپ ٹاپ اور پرسنل کمپیوٹر کی TB1 ہارڈ ڈرائیو میں چند فائلز محفوظ ہو سکے گی یوں ہمیں بہت سی ہارڈ ڈرائیوزکی ضرورت پڑے گی اور تصور کریں اگر پوری دنیا کا ڈیٹا اکھٹا کریں تو ہمیں کئی ٹرلینز کی تعداد میں ہارڈ ڈرائیو چاہیے ہو نگیں جس میں ڈیٹا بھی غیر محفوظ رہے گا- قدرت نے ہمیں تقریباً 3.5 بلین سال پہلےسب سے بڑی اور یونیک سٹوریج ڈیوائس سے روشناس کروایا تھا[6] جس کو DNA کہتے ہیں جس کو مکمل طور پر قابل استعمال بنانے کیلئے ماہرین DNAپر ریسرچ کر رہے ہیں جس میں کافی حد تک ماہرین کو کامیابی حاصل ہوئی ہے- وائرس اٹیک کی صورت میں ڈیٹا ہارڈ ڈرائیوسے ضائع ہو جاتا ہے لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ DNA میں ڈیٹا صدیوں تک کیلئے محفوظ کیا جا سکتا ہےجس کیلئے کسی مخصوص لیبارٹری اور کسی ٹمپریچر کی قید نہیں - ان کا ماننا ہے کہ ml5 ڈی این اے ٹیوب میں 1بلین گیگا بائیٹس تک کا ڈیٹا سٹور کیا جاسکتا ہے اور اب تک پوری دنیا کے ڈیٹا کومحفوظ کرنے کیلئے 10 ٹن DNAدرکار ہے جو کہ ہارڈ ڈرائیو میں ڈیٹا محفوظ کرنے سے 90 گنا کم ہے-

ہارڈورڈ یونیورسٹی کے پروفیسرز کا ماننا ہے کہ DNA ایک بہترین سٹوریج ڈیوائس ہے جس میں ڈیٹا لامحدود عرصہ تک محفوظ رہ سکتا ہے اُن کا یہ بھی ماننا ہے کہ ریسرچ سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ DNA ہارڈ ڈرائیو ، سی ڈیز ، ڈی وی ڈیز اور یو ایس بی ڈیوائس کی طرح ڈیٹا ضائع نہیں کرتا بلکہ ہر موسم میں اور ہر ٹمپریچر پر DNA ٹیوب میں محفوظ رہتا ہے -DNA سٹوریج ڈیوائس کا اندازہ اور کھوج لگانے کے بعدDNA کو ڈیٹا ٹیوب میں محفوظ کرنا اور اس محفوظ شُدہ ٹیوب سے اس ڈیٹا کو ریڈایبل بنانا کافی مہنگا اور ٹائم ٹیکنگ کام ہے-

سب سے پہلے فائلز کو جو آپ نے DNA ٹیوب میں سٹور کرنی ہے اس کو ماسٹر فائل میں کمپریس کیا جاتا ہے جس کے بعد ڈیٹا کو بائنری کوڈ (0,1)کی چھوٹی سٹرنگ میں تقسیم کیا جاتا ہے - کمپیوٹرکا ALU انسانی زبان سمجھنے سے قاصر ہے اس لیے ان کو اپنے کام کی نوعیت سمجھانے کیلئے بائنری زبان میں ہدایات دی جاتی ہیں - فائونٹین ایلگوردم کی مدد سے بائنری لسٹ کو ڈراپ لیٹس میں تشکیل دیا جاتا ہے اور ہر ڈراپ لیٹ بائنری کوڈ (0,1) کو DNA میں پائے جانے والے چار نیو کلیو ٹائڈ بیسز سے مطابقت دیتا ہے جس کی ترتیب A,G,C,T ہوتی ہے -جس سے 72000ڈی این اے Standard کی ایک ڈیجیٹل لسٹ تیار ہوئی جس کو سان فرانسسکوDNA سنتھیس کی طرف ایک Text File میں محفوظ کرکے بھیج دیا جاتا ہے -یہ ادارہ ڈیجیٹل ڈیٹا کو لوجیکل ڈیٹا میں تبدیل کرنے پر ریسیرچ کرتا ہے-15 دن کے بعداُس ادارہ کی جانب سے DNA مالیکولز کی ایک شیشی موصول ہوئی اس کے مطابق اس انفارمیشن کو DNA سے واپس حاصل کرنے کیلئے ماڈرن سیکوئنسنگ ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جس کے ذریعے DNA پر موجود ڈیٹا کو ریڈ کیا جا سکتا ہے جس کو ایک سافٹ وئیر کے ذریعےجینیٹک کوڈ کو ڈی این اے سے پڑھ کر اسے بائنری میں تبدیل کیا- اس طریقے سے ڈیٹا کو واپس حاصل کر لیا گیا-یہ وہ طریقہ ہے جس کی ابھی ابتداء ہے کیونکہ ایسی لیب کی تمام ضروریات پوری کرنا بہت ضروری ہے مستقبل قریب میں یہ ٹیکنالوجی لیبارٹری سے سمٹ کر لیپ ٹاپ یا سیل فون تک محدود ہو جائے گی اور انسان بلین ٹیرا بائٹس کا ڈیٹا اپنے جسم کے DNA میں لیے گھومے گا جسے کسی چوری یا کھونے کا ڈر نہیں اور بوقت ضرورت اُس ڈیٹا کو استعمال بھی کر سکے گا-

پاکستان کو ٹیکنالوجی کے میدان میں بہت ترقی کرنے کی ضرورت ہے اگر ہم پاکستان میں DNA لیبارٹریز کی بات کریں تو صرف ایک لیبارٹری موجود ہے اگر مستقبل قریب میں DNA ڈیٹا سٹوریج عام ہوگئی تو پریشانی کا باعث بنے گی- آج ہمیں سائنسدانوں کی یہ کھوج بہت دور اور بہت مہنگی دکھائی دے رہی ہے لیکن مستقبل قریب میں سیل فون کی طرح DNA ڈیٹا سٹوریج کا بھی استعمال عام ہو جائے گا جو ڈیٹا کو محفوظ کرنے کا جدید طریقہ ہے –

٭٭٭

یوں تو انسان اپنی آنکھوں سے قدرت کے دلفریب نظارے جن میں آسمان، ستارے، سیارے،چاند، سورج، بادل، بارش، زمین پہاڑ، سبزہ، میدان،صحرا، چرند، پرند، کو دیکھ کر لطف اندوز اور قدرت کی بنائی ہوئی چیزوں پر عش عش کر اُٹھتا ہے-انسان اپنی آنکھوں سے جو چیز دیکھتا اور محسوس کرتا ہے وہی چیز کیمرہ میں محفوظ کر نے کی کوشش کرتا ہے اُس کی یہ خواہش بھی ہے کہ وہ ان نظاروں کو اپنی آنکھوں کے ساتھ ساتھ ہمیشہ کیلئے کیمرہ میں بھی محفوظ کرلے- انسان کی بڑھتی ہوئی خواہشات اورٹیکنالوجی کے بے دریغ استعمال نے انسان کو سہولت کے ساتھ ساتھ پریشانیوں سےبھی دوچار کیا ہے-ہائی ریزولیشن گرافکس کا بڑھتا ہوا استعمال، سیلفی کا بڑھتا ہوا رواج، سوشل میڈیا پر روزانہ کی مصروفیات سے سب کو آگاہ رکھنے کے لئے تصاویر نے ڈیٹا سٹوریج ڈیوائس میں ڈیٹا محفوظ کرنے کا فقدان پیدا کیا ہے-

اگر ہم سٹوریج ڈیوائس کی بات کریں تو سب سے پہلے فلاپی ڈرائیور سب سے کم ترین سٹوریج ڈیوائس تھی جو کہ MB1.5ڈیٹا سٹور کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی پھر فلاپی کی جگہ CDs سٹوریج ڈیوائس میں زیادہ اہمیت حاصل کر لی جس کی صلاحیت  MB800 ڈیٹا سٹور کرنے کی ہے جس کا آج کل بہت کم استعمال ہے- CDs کے ساتھ ساتھ DVDs نے اپنی سٹوریج کو مزید بڑھایا جس میں سٹوریج طاقت 4 to 8GBہو گئی- آج کل سب سے زیادہ استعمال ہونے والی سٹوریج ڈیوائس USB فلیش ڈرائیو ہے جس میں 1TBتک ڈیٹا سٹور کیا جاسکتا ہے - کیمرہ کا ہائی ریزولیشن میں آنا اور ہماری روز مرہ کی عادات کا سوشل میڈیا پر عام ہونے کیلئے سیلفیز کا بے دریغ استعمال لیپ ٹاپ یا پرسنل کمپیوٹر میں1ٹیرا بائیٹ (TB)کی ہارڈ ڈرائیور آج سے 20 سال پہلے کی 40 گیگا بائیٹ (GB)کے برابر ہو چکی ہے-سٹوریج ڈیوائس کی بڑھتی ہوئی ڈیمانڈ نے ٹیکنالوجی ماہرین کو یہ سوچنے پر مجبور کیا جس میں سٹوریج ڈیوائس کی Capacity کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ نئی آپشن پر بھی غور کیا گیا جس میں ایسی سٹوریج ڈیوائس کی تجویز پیش کی گئی جو کم سے کم جگہ پر زیادہ سے زیادہ ڈیٹا کو سٹور کر سکتی ہو-بہت عرصہ کی کھوج کے بعد قدرت کاجسم میں فراہم کردہ وہ یونیک مادہ جس کوDNA کا نام دیا گیا ہے اُس میں ڈیٹا کو محفوظ کرنے کا تجربہ ماہرین نے مکمل کیا ہے - DNA میں ڈیٹا کو سٹور کرنے سے پہلے اس کو خاندان کا پتہ لگانے، بیماریوں کی جانچ کرنے، مجرم کی نشاندہی کرنے کے لئے اور ایک شخص کی عادات جانچنے کیلئے استعمال کیا جاتا تھا-

DNA ڈی آکسی رائبو نیوکلیک ایسڈ (DeoxyriboNucleic Acid) کا مخفف ہے - یہ زندگی کی مکمل تاریخ رکھنے والا سیل ہے- اس کو سمجھنے کیلئے ہم یوں کَہ سکتے ہیں کہDNA نیو موبائل فون کے ساتھ ملنے والاہدایات کا وہ بُک لٹ ہے جس پرموبائل فون کی تمام معلومات درج ہوتی ہے-DNAمیں انسان کی جنس؟ بالوں کا رنگ؟ آنکھوں اور چہرے کی رنگت؟ اُس کا وزن،قد اور عمر ؟ سوچنے، سمجھنے، جاگنے، سونے  اور عادتوں کے بارے میں مکمل معلومات، انسان عمر کے کس حصے میں ہے؟ کس وجہ سے ہے؟اور کس بیماری سےفوت ہوگااور وہ پوری زندگی کن کن بیماریوں کا شکار رہے گا اللہ تعالی ٰ اُس کے DNA میں ڈال دیتا ہے جس کی وہ شخص پوری زندگی پیروی کرتا ہے- DNA کی کھوج سے اب تک جتنے بھی شخص کاDNA ٹیسٹ کیا گیا ہے وہ کسی بھی دوسرے شخص سے مماثلت اختیار نہیں کرتا اِس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ماہرین نے زمین کی کُھدائی کے دوران ملنے والی ہڈیوں کا جب DNA ٹیسٹ کیا تو وہ بھی مختلف تھیں- ہر انسان کا DNA دوسرے انسان سے مختلف ہے لیکن ایک انسان کے جسم میں موجود تمام سیلز کا ڈی این اے ایک ہوتا ہے یہ 50فیصد والد اور 50فیصد والدہ کے ڈی این اے سے ملتاہے-

اب تک سائنسدان اور ماہرین صرف انسانی DNA پر تجربہ کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں اور ڈیٹا کو بھی انسانی DNA میں سٹور کیا گیا ہے-انسان کا جسم سیلز کا مجموعہ ہوتا ہے اور مکمل جسم تقریباً 30-40 ٹریلین سیلز پر مشتمل ہے-[1] ایک سیل میں تقریباً 2میٹر لمباDNAپایا جاتا ہے[2] اوراگر مکمل انسانی جسم کا DNA معلوم کیا جائے تو اس کی تعداد 244.2 گرام ہوگی[3] ایک گرام DNA میں 215ملین گیگا بائٹس ڈیٹاسٹور ہوسکتا ہے[4]-اگر انسانی جسم کے ہر سیل میں ملنے والے تمام ڈی این اے کو ایک لائن میں رکھنے کی کوشش کریں یہ فاصلہ زمین سے سورج کے درمیان 80 گنابڑھ جائے گا یعنی ایک سوپرسونک ائیرکرافٹ جس کی رفتار آواز سے 10 گنا تیز ہے وہ اس فاصلے کو سوا صدی میں طے کرے گا-اگر ایک کمپیوٹر پر ڈی این اے کے نیو کلیوٹائیٹز روزانہ 8 گھنٹے 60 ورڈز فی منٹ کے حساب سے لکھیں جائیں تو بغیر آرام کے تقریباً 15 سال کا عرصہ لگے گا ایک DNA لکھنے میں- اگر ہم انسانی تخلیق کا گہرائی سے مشاہد ہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ :

’’فَبِاَیِّ  اٰلَآءِ  رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ‘‘[5]

 

’’تم اپنے پروردگار کے کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے‘‘-

پوری دنیا میں ایک لمحہ میں کئی ٹیرا بائیٹس ڈیٹا محفوظ اور Send ہورہا ہے- جس میں بہت زیادہ مواد ہائی ریزولیشن ہوتا ہے جو کہ ہارڈ ڈرائیو میں بہت سی میموری (Memory) گھیر لیتے ہیں -اگراسی مقدار میں ڈیٹا بڑھتا رہا تو لیپ ٹاپ اور پرسنل کمپیوٹر کی TB1 ہارڈ ڈرائیو میں چند فائلز محفوظ ہو سکے گی یوں ہمیں بہت سی ہارڈ ڈرائیوزکی ضرورت پڑے گی اور تصور کریں اگر پوری دنیا کا ڈیٹا اکھٹا کریں تو ہمیں کئی ٹرلینز کی تعداد میں ہارڈ ڈرائیو چاہیے ہو نگیں جس میں ڈیٹا بھی غیر محفوظ رہے گا- قدرت نے ہمیں تقریباً 3.5 بلین سال پہلےسب سے بڑی اور یونیک سٹوریج ڈیوائس سے روشناس کروایا تھا[6] جس کو DNA کہتے ہیں جس کو مکمل طور پر قابل استعمال بنانے کیلئے ماہرین DNAپر ریسرچ کر رہے ہیں جس میں کافی حد تک ماہرین کو کامیابی حاصل ہوئی ہے- وائرس اٹیک کی صورت میں ڈیٹا ہارڈ ڈرائیوسے ضائع ہو جاتا ہے لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ DNA میں ڈیٹا صدیوں تک کیلئے محفوظ کیا جا سکتا ہےجس کیلئے کسی مخصوص لیبارٹری اور کسی ٹمپریچر کی قید نہیں - ان کا ماننا ہے کہ ml5 ڈی این اے ٹیوب میں 1بلین گیگا بائیٹس تک کا ڈیٹا سٹور کیا جاسکتا ہے اور اب تک پوری دنیا کے ڈیٹا کومحفوظ کرنے کیلئے 10 ٹن DNAدرکار ہے جو کہ ہارڈ ڈرائیو میں ڈیٹا محفوظ کرنے سے 90 گنا کم ہے-

ہارڈورڈ یونیورسٹی کے پروفیسرز کا ماننا ہے کہ DNA ایک بہترین سٹوریج ڈیوائس ہے جس میں ڈیٹا لامحدود عرصہ تک محفوظ رہ سکتا ہے اُن کا یہ بھی ماننا ہے کہ ریسرچ سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ DNA ہارڈ ڈرائیو ، سی ڈیز ، ڈی وی ڈیز اور یو ایس بی ڈیوائس کی طرح ڈیٹا ضائع نہیں کرتا بلکہ ہر موسم میں اور ہر ٹمپریچر پر DNA ٹیوب میں محفوظ رہتا ہے -DNA سٹوریج ڈیوائس کا اندازہ اور کھوج لگانے کے بعدDNA کو ڈیٹا ٹیوب میں محفوظ کرنا اور اس محفوظ شُدہ ٹیوب سے اس ڈیٹا کو ریڈایبل بنانا کافی مہنگا اور ٹائم ٹیکنگ کام ہے-

سب سے پہلے فائلز کو جو آپ نے DNA ٹیوب میں سٹور کرنی ہے اس کو ماسٹر فائل میں کمپریس کیا جاتا ہے جس کے بعد ڈیٹا کو بائنری کوڈ (0,1)کی چھوٹی سٹرنگ میں تقسیم کیا جاتا ہے - کمپیوٹرکا ALU انسانی زبان سمجھنے سے قاصر ہے اس لیے ان کو اپنے کام کی نوعیت سمجھانے کیلئے بائنری زبان میں ہدایات دی جاتی ہیں - فائونٹین ایلگوردم کی مدد سے بائنری لسٹ کو ڈراپ لیٹس میں تشکیل دیا جاتا ہے اور ہر ڈراپ لیٹ بائنری کوڈ (0,1) کو DNA میں پائے جانے والے چار نیو کلیو ٹائڈ بیسز سے مطابقت دیتا ہے جس کی ترتیب A,G,C,T ہوتی ہے -جس سے 72000ڈی این اے Standard کی ایک ڈیجیٹل لسٹ تیار ہوئی جس کو سان فرانسسکوDNA سنتھیس کی طرف ایک Text File میں محفوظ کرکے بھیج دیا جاتا ہے -یہ ادارہ ڈیجیٹل ڈیٹا کو لوجیکل ڈیٹا میں تبدیل کرنے پر ریسیرچ کرتا ہے-15 دن کے بعداُس ادارہ کی جانب سے DNA مالیکولز کی ایک شیشی موصول ہوئی اس کے مطابق اس انفارمیشن کو DNA سے واپس حاصل کرنے کیلئے ماڈرن سیکوئنسنگ ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جس کے ذریعے DNA پر موجود ڈیٹا کو ریڈ کیا جا سکتا ہے جس کو ایک سافٹ وئیر کے ذریعےجینیٹک کوڈ کو ڈی این اے سے پڑھ کر اسے بائنری میں تبدیل کیا- اس طریقے سے ڈیٹا کو واپس حاصل کر لیا گیا-یہ وہ طریقہ ہے جس کی ابھی ابتداء ہے کیونکہ ایسی لیب کی تمام ضروریات پوری کرنا بہت ضروری ہے مستقبل قریب میں یہ ٹیکنالوجی لیبارٹری سے سمٹ کر لیپ ٹاپ یا سیل فون تک محدود ہو جائے گی اور انسان بلین ٹیرا بائٹس کا ڈیٹا اپنے جسم کے DNA میں لیے گھومے گا جسے کسی چوری یا کھونے کا ڈر نہیں اور بوقت ضرورت اُس ڈیٹا کو استعمال بھی کر سکے گا-

پاکستان کو ٹیکنالوجی کے میدان میں بہت ترقی کرنے کی ضرورت ہے اگر ہم پاکستان میں DNA لیبارٹریز کی بات کریں تو صرف ایک لیبارٹری موجود ہے اگر مستقبل قریب میں DNA ڈیٹا سٹوریج عام ہوگئی تو پریشانی کا باعث بنے گی- آج ہمیں سائنسدانوں کی یہ کھوج بہت دور اور بہت مہنگی دکھائی دے رہی ہے لیکن مستقبل قریب میں سیل فون کی طرح DNA ڈیٹا سٹوریج کا بھی استعمال عام ہو جائے گا جو ڈیٹا کو محفوظ کرنے کا جدید طریقہ ہے –

٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر