ون بیلٹ ون روڈ اور پاکستان : ایک تجزیہ

ون بیلٹ ون روڈ اور پاکستان : ایک تجزیہ

ون بیلٹ ون روڈ اور پاکستان : ایک تجزیہ

مصنف: احمد القادری جولائی 2017

تعارف:

کرۂ ارض پر انسان نے اپنی بقاء اور بنیادی ضروریات کے پورا کرنے کے لیے معاشرے تشکیل دیے جو وسائل کی تلاش میں دنیا میں پھیلنا شروع ہو گئے-اِس ہجرت کی دو ممکنہ بنیادی وجوہات  ہو سکتی ہیں - پہلی، یا تو یہ لوگ وسائل کی کمی کو پورا کرنے کے لیے نکلے-جبکہ دوسری وجہ یہ کہ یہ لوگ  بہتر زندگی کی تلاش میں نکلے- وقت کے ساتھ ساتھ کچھ لوگ کامیاب ہوئے اور کچھ ناکام ہو کر یا تو مر گئے یا واپسی اپنے اپنے قبائل میں شامل ہو گئے-اِس ہجرت نے دنیا میں معاشروں کو دولت و طرزِ زندگی میں تقسیم کرنا شروع کر دیا- لیکن تاریخ یہ ثابت کرتی  ہے کہ ہمیشہ وہ معاشرے یا ممالک کامیاب ہوتے ہیں جو مل جل کر ترقی کا سفر کرتے ہیں-جِس کی زندہ مثال  دو سو (۲۰۰)سال قبل مسیح سے ملنے والے شواہد کی نظر میں شاہراہِ ریشم (silk road) ہے-جِس کو ہین ریاست (Han dynasty) (موجودہ چین کا  (۹۰)فیصد علاقہ)کے دور میں اِس علاقے کے باشندے تجارت کی غرض سے اِس راستے کواستعمال کرتے تھے-یہ تجارتی راستہ بحرہِ روم  سے شروع ہو کر  مشرق اور مغرب کو خصوصاً زمینی  راستےسے  ملاتا ہے-اِس راستے کے تحت  نہ صرف مصالحے جات اور سلک کی تجارت کی جاتی تھی بلکہ اِن شاہراہوں کے جال کی وجہ سے لوگ آپس میں علمی، ثقافتی،سماجی،و تجارتی تبادلہ خیال کرتے تھے-تاریخ مقامات اور قدیم شہروں کی شاہراہ ریشم پر موجودگی کی وجہ سے لوگ سیاحت کی غرض سے بھی اِس شاہراہ کو استعمال کرتے تھے-سلک کی کثرتِ تجارت  کی وجہ سے ۱۸۷۷ءمیں جرمن ماہر ارض ’’بیرن فرڈینان وون  رچتفن‘‘(Baron Ferdinand von Richthofen) نے زمین کے طول وعرض پہ پھیلی شاہراہوں کو مجوعی طور پر شاہراہِ ریشم (سلک روڈ ) کا نام دے دیا جو کہ آج تک مقبول ہے-

طاقت و دولت کے جنون نے دنیا کی ایسی تقسیم کی کہ یہ عالمی شاہراہ بھی تقسیم ہو کر رہ گئی - ملکوں کی تقسیم نے  لوگوں کی خود ساختہ نقل و حرکت  کو سرحدوں میں محدود  کردیا-مگر دنیا میں آنے والے صنعتی،ٹیکنالوجی اور مواصلاتی انقلاب و ترقی نے اِس سرحدی قید کو خطرے میں ڈال دیا-جِس طرح قدیم زمانے میں معاشرے ضروریات کی خاطر اپنے اپنے علاقوں سے نکلے،اسی طرح ملک بھی اپنی اپنی خرید و فروخت کے لیے سرحدی قیدسے نکلے اور دوسرے ممالک سے تعلقات استوار کیے-دنیا کے بڑھتے تجارتی و ثقافتی تعلقات نے ایک بار پھر دنیا  کو ایک ساتھ مل کر آگے بڑھنے کا درس دیا-

ون بیلٹ ون روڈ (One Belt and One Road)

شاید چین کے صدر نےدنیا کے بدلتے حالات (اکیسویں صدی ایشیاء کی ہو گی) کو صحیح بھانپا اور ۲۰۱۳ءمیں دنیا کو پھر سے دوبارہ شاہراہِ ریشم کی صورت میں  ایک نیا تجارتی فورم دیا تاکہ دنیا اِس کے تحت ایک ساتھ مل کر ترقی کر سکے-اِس نئے منصوبے کو ون بیلٹ ون روڈ (One Belt and One Road) کا نام دیا گیا-اِس منصوبے کے تحت  ایشیاء، افریقہ اور یورپ کو ریل ٹریکس، سڑکوں اور تیل و گیس کی پائپ لائنز  سے ملانا ہے-اِس منصوبے کے تحت معاشی تعاون،پالیسی تعاون،تجارت،ثقافتی وسماجی اور سرمایہ داری میں تعاون  کے لیے  پلیٹ فارم مہیا کرناہے-اِس منصوبے کے تحت چین نے مختلف علاقوں کے جوڑنے کے لیے چھ (۶)مختلف ربط کا اعلان کیا ہے جو درج ذیل ہیں :

1)  چین، پاکستان معاشی راہداری (CPEC)

2)   چین-منگولیا-روس راہداری (China–Mongolia–Russia Corridor)

3)   چین-وسطی ایشیاء –مغربی ایشیاء راہداری (China–Central Asia–West Asia )

4)   چین- انڈونیشیائی جزیرہ راہداری(China–Indochina Peninsula Corridor)

5)   نیو یوریشین لینڈ بریج (New Eurasian Land Bridge)

6)   میری ٹائم سلک روڈ (Maritime Silk Road)

ایک محتاط اندازے کے مطابق اِس بڑے منصوبے پر اکیس (۲۱)ٹریلین امریکی ڈالر لاگت آئے گی جو کہ تقریباً پینسٹھ (۶۵)ممالک اور کم و بیش دنیا کی اسی (۸۰)فیصد آبادی کو آپس میں ملائے گا-اِس منصوبے کی سرمایہ کاری کے لیے ایشیائی تعمیراتی و سرمایہ داری بنک(AIIB)، بریکس بنک(BRICS)،سلک روڈ فنڈ(Silk Road Fund)،چین–آسیان انٹر بنک تنظیم(China-ASEAN Interbank Association) اور ایس سی او انٹر بنک تنظیم(SCO Interbank Association) کا قیام کیا گیا ہے-

پاکستان  اور ون بیلٹ ون روڈ:

اپریل ۲۰۱۵ءکو چین کے صدر نے پاکستان کے دورے پر  سی پیک (چین-پاکستان معاشی راہداری)،چھیالیس(۴۶) بلین امریکی ڈالر سرمایہ کاری پر مشتمل،جو کہ ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کا ہی حصہ ہے، کا اعلان کیا-اِس کا مقصد پاکستان اور چین کا زمینی ربط بنا کر ون بیلٹ ون روڈ سے ربط بنانا ہے -اِس منصوبے کے تحت پاکستان میں سڑکوں اور ریل لائنوں کا جال بچھایا جائے گا-جِس میں کراچی سے لاہور موٹروے، راوالپنڈی سے کاشغر تک قراقرم ہائی وے اور پشاور سے کراچی تک ریل لائن کی توسیع کرنا شامل ہے اور ملک میں آئل اور گیس کی ترسیل و درآمد کے لیے پائپ لائنز کی تعمیر شامل ہے-اسی منصوبے کے تحت  پاکستان کے مختلف علاقوں میں تقریباً  ساڑھے بارہ ہزار (۱۲۵۰۰)میگا واٹ بجلی کے پیدواری یو نٹ لگائے جائیں گے-سی پیک کے تحت بیرونی سرمایہ کاری کو دلکش ماحول فراہم کرنے کے لیے سپیشل اکنامک زون (Special Economic Zone (SEZ) بنانے کے منصوبہ بھی شامل ہیں جو کہ آسان تجارتی شرائط،کم ٹیکس اور دوسری کاروباری فوائد کی بدولت بیرونی سرمایہ دار کو اپنی طرف راغب کرتے ہیں-

ون بیلٹ ون روڈ  کے پاکستان کو فوائد کا تجزیہ:

 دنیا کے نقشے پر پاکستان اپنی  جغرافیائی سرحدوں کی وجہ سے  اہمیت کا حامل ہے- نقشے کو بطورغور دیکھا جائے تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ  ایک طرف تو پاکستان کئی خشکی میں گھرے ممالک  کے لیےگرم پانیوں تک پہنچنے کے لیے گزرگاہ ہے تو دوسری طرف چین اور روس کے لیے ایک متبادل اور کم خرچ تجارتی راستہ ہے-روس کے یورپ کے ساتھ یوکرائن اور کریمیا کی وجہ سے بگڑتے حالات اور چین کے امریکہ کے ساتھ ساؤتھ چائینہ سےبگڑتے حالات نے ون بیلٹ ون روڈ کی شاخ سی پیک کو ایک خاص اہمیت دے دی ہے-افغانستان کے ناسازگار حالات نے وسطی ایشیائی ممالک کو ون بیلٹ ون روڈ کے ذریعے پاکستان کو گرم پانیوں تک پہنچنے کے لیے اپنی گزرگاہ بنانے پر مجبور کر دیا ہے-اِس منصوبے کی کامیابی ایران کو اپنی طرف مائل کرے گی-

علاقائی خوشحالی:

مئی ۲۰۱۷ءمیں چین کے شہر بیجنگ میں ہونے والی’’ون بیلٹ ون روڈ فورم‘‘بین الاقوامی کانفرنس چین کی علاقائی خوشحالی کی کوششوں کی عکاس ہے-اِس دو(۲)روزہ کانفرنس میں محتاط اندازے کے مطابق  مجموعی طور پر چھیاسٹھ (۶۶)ممالک کے نمائندوں نے شرکت کی جن میں چوبیس (۲۴)ممالک کے سربراہان بھی شامل ہیں-اِس کانفرنس میں شامل ممالک کی تعداد سے اندازہ لگایا جا سکتا ہےکہ یہ منصوبہ اب نہ صرف ایک ملک کا ہے بلکہ اِس مخصوص خطہ  کے تمام علاقائی ممالک کا جو اِس عظیم منصوبے سے منسلک ہیں-یہ منصوبہ تمام ممالک کو ایک ساتھ آگے بڑھنے کےلیے یکجا کرتا ہے اور ممالک کے درمیان مسائل کو مفاہمت سے حل کر کے ترقی کی رغبت دیتا ہے-پاکستان اپنی جغرافیائی اہمیت اورممالک سے دوستانہ تعلقات کی وجہ سے اپنی خاص اہمیت رکھتا ہے-اِس منصوبے کے تحت بھی پاکستان ایک بار پھر علاقائی خوشحالی میں اپنا بھرپور کردار ادا کرے گا-ایسے ممالک جو اپنی انا و دشمنی کو بنیاد بنا کر اِس منصوبے کی اصل روح کو پہچاننے سے قاصر ہیں اور اِس کو نقصان پہنچانے کے پے درپے ہیں،وہ یاد رکھیں!کہ وہ دن دور نہیں جب وہ اِس عظیم منصوبے کی کامیابی پر اپنا  لہو خود پئیں گے-

سکیورٹی کی صورتحال:

دہشت گردی کا ناسور دن بہ دن بڑھتا ہی جا رہا ہے جو کہ ایک مخصوص علاقے سے نکل کر اب دنیا کے لیے خطرہ بن چکا ہے- اِس ناسور کے خاتمے کے لیے دنیا کو مل کر کام کرنا ہو گا-غربت اور تعلیم کا نہ ہونا دہشت گردی کی دو (۲)بڑی وجوہات سمجھی جاتی ہیں-ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کے تحت جہاں ملکوں میں غربت کم اور تعلیم کے مواقع زیادہ ہوں گے وہیں ممالک کے درمیان ایک دوسرے کی حفاظت کا ذمہ بھی ہو گا-اِس منصوبے کے تحت ملک آپس میں معاشی،ثقافتی و سماجی طور پر  ایسے جڑیں گے کہ ہر ملک اپنے باشندوں کو دوسرے ممالک میں مداخلت سے روکنے  کے لیے ہر ممکنہ اقدام اٹھائے گا-اِس منصوبے کی ہی بدولت پاکستان اور روس نے مل کر فوجی مشقیں کی ہیں جن کا مقصدممالک کے درمیان دفاعی تعاون بڑھانے کی ایک کوشش ہے-اِس منصوبے کی تحت یقیناً ٹھوس ویزا پالیسی و اشیاء کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے گا-اِس کی ایک زندہ مثال پاکستان کی سی پیک کے لیے بنائی گئی مخصوص حفاظتی فورس ہے-اِس فورس میں نو(۹)آرمی  انفینٹری اور چھ(۶) سول آرم ونگ کے کل بارہ ہزار (۱۲۰۰۰)سپاہی شامل ہیں- جِس کا مقصد اِس معاشی راہداری کی حفاظت کرنا ہے-اس منصوبہ پہ قوم کا اعتماد اِس لئے بھی مکمل طور پہ قائم ہے کہ اِس منصوبے کی حفاظت کا ظاہری ذِمّہ اَفواجِ پاکستان نے اُٹھا رکھّا ہے -

دفاعی صلاحیت پر اثرات:

چین و پاکستان کے خلاف،امریکہ اور بھارت کے بڑھتے گٹھ جوڑ نے پاکستان اور چین اور ایک ساتھ مل کر دفاعی صلاحیتوں پر کام کرنے  کی حکمت عملی کو وقت کی ضرورت بنا دیا ہے-ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کے اعلان نے  پہلےہی امن و ترقی دشمن عناصر کی کیمپوں میں طوفان برپا کرد یا ہے جِس نے اِس منصوبے کی سکیورٹی کو کافی حد تک خطرے میں ڈالا ہوا ہے-جِس کی مثال پاکستان میں گرفتار بھارتی جاسوس کلبھوشن کے انکشافات ہیں-سی پیک منصوبہ اور گوادر کے مکمل آپریشنل بندر گاہ بن جانے کے بعد مستقبل میں بحری سرحدوں پہ بڑھتے ہوئے خطرات کے پیشِ نظر پاکستان اور چین سمندری ہتھیاروں کے تر سیلی نظام (Sea-based Delivery System) پر خاصی توجہ دے رہا ہے-  جیسا کی چین کے  بھارت میں سابق سفیر نے کہا ہے کہ :

’’گودار ، چین کے فوجی جہازوں،جو کہ سویز کنال ، بحیرہ روم اور خلیج عدن کی طرف جائیں گے،کے لیے ایک لاجسٹک سپلائی بیس بن جائے گی،جو کہ جہازوں کو بنیادی سامان فراہم کرے گی ‘‘-[1]

معاشی فوائد:

پاکستان وسطی اور مغربی ایشیاء کے لیے پل کی حیثیت رکھتا ہے- خصوصاًگوادر گلف کی طرف سے برآمد کئے گئے تیل کے راستے کے منہ پر واقع ہے-جِس کے لیے یہ چین کے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کے لیے ایک خاص اہمیت رکھتی ہےکیونکہ یہ مغربی ایشیاء اور وسطی ایشیائی ممالک کو سمندر تک رسائی دیتا ہے-ابھی اِس فصل کے پھل کاٹنے کا وقت نہیں آیا جو اِس کے مجموعی طور پر معاشی فوائد کی بات کی جائے مگر قارئین کے سامنے قراقرم ہائی وے کی مثال رکھنا چاہوں گا جو کہ پاکستا ن اور چین کی تجارت میں ایک اہم کردار ادا کر رہا ہے-بین الاقوامی تعلقات عامہ،تاریخ اور اکنامکس کے طالب علم ہی اِس منصوبے کی اصل روح کو پہچان سکتے ہیں-

سی پیک سے متعلق تنقید کا تجزیہ:

جیسے جیسے سی پیک اپنی ترقی کے منازل طے کر رہا ہے دُشمنوں کے مروڑ بڑھتے جا رہے ہیں اور مختلف سازشیں بُنی جا رہی ہیں خاص کر اس کے مستقبل کے متعلق منفی اور بے بُنیاد پروپیگنڈا بہت تیزی سے کیا جا رہا ہے -جن مین سے چنددرج ذیل ہیں:

پاکستان بطور چین کی کالونی:

سب سے بڑی افواہ جو سی پیک کے متعلق گردش میں ہے کہ پاکستان اِس منصوبے کے تحت چین کی کالونی بن جائے گا-تاریخ دان یہ بتانے میں کوئی عار نہ سمجھیں گےکہ نوآبادیات و سامراجی خصوصیات دنیا کے شمالی ممالک کی خصوصیات ہیں-چین نے کبھی کسی ملک کو اپنی کالونی نہیں بنایا-چین کی تجارتی حجم کو بھی اِس افواہ کی دلیل کے طور پر دیا جاتا ہے مگر محترم! پاکستان کی چین کے ساتھ موجودہ تجارت تقریباً چھ (۶)بلین ڈالر ہے جبکہ چین کا بھارت کے ساتھ سنتالیس (۴۷)بلین ڈالر،امریکہ کے ساتھ تقریباً ساڑھے تین سو(۳۵۰)بلین ڈالرتجارتی حجم ہے-کیا بھارت یا امریکہ چین کی کالونی یا صوبہ بن گئے ہیں- یقیناً نہیں-پاکستان کو چاہیے کہ وہ سی پیک منصوبے کے ساتھ ساتھ اپنے دیہی علاقوں کے انفراسڑکچر کو سی پیک منصوبے کے ساتھ جوڑے اور ساتھ ساتھ پاکستان کی لوکل و گھریلو انڈسٹری  کو مزید مستحکم کرے تاکہ پاکستان کی دیہی عوام اپنی مصنوعات خصوصاً کسان اپنی اناج و پھل کو عالمی منڈیوں تک بروقت پہنچا سکے-حکومت کو چاہیے کہ وہ ایک ایسی تنظیم کی بنیاد رکھے جو پاکستان کے دیہی مزدور کو جدید مشینوں پر کام کرنے کی صلاحیت دے تاکہ ان کے آنے والے وقت کے لیے ہراول دستے کے طور پر استعمال کیا جاسکے-  

معاشرتی تقسیم:

اِس منصوبے کے تحت ایک اور افواہ کو بطور دلیل کے پیش کیا جاتا ہے کہ چین کے لوگ پاکستان میں آباد ہو جائیں گے اور پاکستانی معاشرے  خصوصاً مزدور طبقےکو نقصان ہو گا مگر ملائیشیا میں تقریباً آٹھ (۸)ملین  چینی، فرانس میں چار (۴)لاکھ،جاپان میں چھ(۶) لاکھ ، کینیڈا میں نو (۹) لاکھ اور امریکہ میں تقریباً اڑھائی ملین (M ۲.۵)چینی آباد ہیں -کیا ان کا معاشرتی نظام خراب ہو گیا ہے؟ کیا اسّی (۸۰)لاکھ چینیوں کی موجودگی کی وجہ سے ملائشیا چین کی کالونی بن گیا ہے؟ یا اڑھائی ملین چینی باشندوں نے امریکہ کی سیاست و خود مختاری کو ہائی جیک کر لیا ہے ؟ ہم پہ لازم ہے کہ ایسے فرسودہ اور منفی خیالات کی بھر پور مذمت اور سرکوبی کریں کیونکہ یہ غلط و منافقانہ پروپیگنڈا بد ہضمی و بد حواسی کا شکار بھارت کے زر خرید نام نہاد سماجی لونڈے پھیلا رہے ہیں -پاکستان قوم کو چاہیے کہ ان سازشوں کا شکار بننے کی بجائے اپنی انتھک محنت سے اپنا لوہا خود منوائے-

ثقافتی تقسیم:

چین کے لوگوں اور میڈیا چینلز کی وجہ سے پاکستانی ثقافت کو نقصان ہو گا مگر بھارت کے سو (۱۰۰)سے زائد چینلز  کی موجودگی میں چین کے چند چینلز سے کچھ زیادہ حالات خراب نہ ہوں گے-یاد رہے! کوئی آپ کو اپنی ثقافت کے بارے میں بتا تو سکتا ہے مگر اس کو اپنانا انسان کے خود اپنے اختیار میں ہوتا ہے-یہ تو کچھ یوں ہے کہ پاکستان کے تعلیمی اداروں میں کسی بھی ملک کی تاریخ اور ادب کو  اور ختم کر دیا جائے کیونکہ اِس سے ہمارے ثقافتی اقدار کو نقصان پہنچتا ہے-اِس مسئلے کا حل پاکستان کی نظریاتی و ثقافتی اساس کو مضبوط کرنا ہو گا جِس کے لیے ملک میں پہلے ہی سے بہت سے ادارے کام کر رہے ہیں ان کو مزید فعال کرنے کی ضرورت ہے-

اختتامیہ:

جِس طرح چین کے رہنما ون بیلٹ ون روڈ کو خطے کے لیے گیم چینجر کہتے ہیں اسی طرح پاکستانی رہنما سی پیک کو ملک معیشت کے لیےگیم چینجر گردانتے ہیں-سی پیک سے نہ صرف ملک کی معیشت،سکیورٹی،ثقافتی،سماجی اور دفاعی فائدہ ہو گا بلکہ اِس منصوبے کی کامیابی پاکستان کی اہمیت کی ضامن ہے-ون بیلٹ ون روڈ منصوبے نے پاکستانی قوم کو متحد ہونے کا ایک اور موقع دیا ہے تاکہ یہ قوم اپنی اصل روح پہچان کر اپنے ہر شعبے میں اپنی سو (۱۰۰)فیصد توجہ و محنت سے ایک زندہ قوم کی مثال قائم کرے-اللہ نے چاہا تو پاکستانی قوم اپنی محنت سے اِس بات کو رد کرے گی کہ ون بیلٹ ون روڈ  صرف چین کی معیشت کا  منصوبہ تھا اس لیے  کامیاب ہوا-بلکہ دنیا دیکھے گی کہ  پاکستان کی جغرافیائی اہمیت و محنت کش قوم بھی اِس منصوبے کی  کامیابی میں برابر کی شریک ہے-شاہراہ قراقرم تو بن گئی مگر اُس کا سہرا آج بھی ان انجئینرز کے سر جاتا ہے جنہوں نے اپنی سکون و راحت بھری زندگی کو پاکستان کی بقاء کے لیے قربان کر دیا ہے-یہ وقت اپنی راحت بھری اور خوابوں کی دنیا سے نکل کر میدان عمل میں آنا ہو گا تاکہ آپ دنیا کے ساتھ چل سکیں کیونکہ سکون پرست کبھی خوابوں کو حقیقت نہیں بنا سکتے-ہاں یہ بات سچ ہے کہ معاشرے کبھی تنہا نہیں پھولتے مگر اتحاد ان کو ابھارتا ہے-خدا پاکستان کو امن کا گہوارہ بنائے تاکہ یہ عالم اسلام کی معاشی،سماجی و دفاعی طاقت کے طور پر ابھرے- آمین!

٭٭٭


[1](آئی ایس ایس آئی جرنل ،والیم:۳۵،نمبر:۳،ص:۹)

تعارف:

کرۂ ارض پر انسان نے اپنی بقاء اور بنیادی ضروریات کے پورا کرنے کے لیے معاشرے تشکیل دیے جو وسائل کی تلاش میں دنیا میں پھیلنا شروع ہو گئے-اِس ہجرت کی دو ممکنہ بنیادی وجوہات  ہو سکتی ہیں - پہلی، یا تو یہ لوگ وسائل کی کمی کو پورا کرنے کے لیے نکلے-جبکہ دوسری وجہ یہ کہ یہ لوگ  بہتر زندگی کی تلاش میں نکلے- وقت کے ساتھ ساتھ کچھ لوگ کامیاب ہوئے اور کچھ ناکام ہو کر یا تو مر گئے یا واپسی اپنے اپنے قبائل میں شامل ہو گئے-اِس ہجرت نے دنیا میں معاشروں کو دولت و طرزِ زندگی میں تقسیم کرنا شروع کر دیا- لیکن تاریخ یہ ثابت کرتی  ہے کہ ہمیشہ وہ معاشرے یا ممالک کامیاب ہوتے ہیں جو مل جل کر ترقی کا سفر کرتے ہیں-جِس کی زندہ مثال  دو سو (۲۰۰)سال قبل مسیح سے ملنے والے شواہد کی نظر میں شاہراہِ ریشم (silk road) ہے-جِس کو ہین ریاست (Han dynasty) (موجودہ چین کا  (۹۰)فیصد علاقہ)کے دور میں اِس علاقے کے باشندے تجارت کی غرض سے اِس راستے کواستعمال کرتے تھے-یہ تجارتی راستہ بحرہِ روم  سے شروع ہو کر  مشرق اور مغرب کو خصوصاً زمینی  راستےسے  ملاتا ہے-اِس راستے کے تحت  نہ صرف مصالحے جات اور سلک کی تجارت کی جاتی تھی بلکہ اِن شاہراہوں کے جال کی وجہ سے لوگ آپس میں علمی، ثقافتی،سماجی،و تجارتی تبادلہ خیال کرتے تھے-تاریخ مقامات اور قدیم شہروں کی شاہراہ ریشم پر موجودگی کی وجہ سے لوگ سیاحت کی غرض سے بھی اِس شاہراہ کو استعمال کرتے تھے-سلک کی کثرتِ تجارت  کی وجہ سے ۱۸۷۷ءمیں جرمن ماہر ارض ’’بیرن فرڈینان وون  رچتفن‘‘(Baron Ferdinand von Richthofen) نے زمین کے طول وعرض پہ پھیلی شاہراہوں کو مجوعی طور پر شاہراہِ ریشم (سلک روڈ ) کا نام دے دیا جو کہ آج تک مقبول ہے-

طاقت و دولت کے جنون نے دنیا کی ایسی تقسیم کی کہ یہ عالمی شاہراہ بھی تقسیم ہو کر رہ گئی - ملکوں کی تقسیم نے  لوگوں کی خود ساختہ نقل و حرکت  کو سرحدوں میں محدود  کردیا-مگر دنیا میں آنے والے صنعتی،ٹیکنالوجی اور مواصلاتی انقلاب و ترقی نے اِس سرحدی قید کو خطرے میں ڈال دیا-جِس طرح قدیم زمانے میں معاشرے ضروریات کی خاطر اپنے اپنے علاقوں سے نکلے،اسی طرح ملک بھی اپنی اپنی خرید و فروخت کے لیے سرحدی قیدسے نکلے اور دوسرے ممالک سے تعلقات استوار کیے-دنیا کے بڑھتے تجارتی و ثقافتی تعلقات نے ایک بار پھر دنیا  کو ایک ساتھ مل کر آگے بڑھنے کا درس دیا-

ون بیلٹ ون روڈ (One Belt and One Road)

شاید چین کے صدر نےدنیا کے بدلتے حالات (اکیسویں صدی ایشیاء کی ہو گی) کو صحیح بھانپا اور ۲۰۱۳ءمیں دنیا کو پھر سے دوبارہ شاہراہِ ریشم کی صورت میں  ایک نیا تجارتی فورم دیا تاکہ دنیا اِس کے تحت ایک ساتھ مل کر ترقی کر سکے-اِس نئے منصوبے کو ون بیلٹ ون روڈ (One Belt and One Road) کا نام دیا گیا-اِس منصوبے کے تحت  ایشیاء، افریقہ اور یورپ کو ریل ٹریکس، سڑکوں اور تیل و گیس کی پائپ لائنز  سے ملانا ہے-اِس منصوبے کے تحت معاشی تعاون،پالیسی تعاون،تجارت،ثقافتی وسماجی اور سرمایہ داری میں تعاون  کے لیے  پلیٹ فارم مہیا کرناہے-اِس منصوبے کے تحت چین نے مختلف علاقوں کے جوڑنے کے لیے چھ (۶)مختلف ربط کا اعلان کیا ہے جو درج ذیل ہیں :

1)  چین، پاکستان معاشی راہداری (CPEC)

2)   چین-منگولیا-روس راہداری (China–Mongolia–Russia Corridor)

3)   چین-وسطی ایشیاء –مغربی ایشیاء راہداری (China–Central Asia–West Asia )

4)   چین- انڈونیشیائی جزیرہ راہداری(China–Indochina Peninsula Corridor)

5)   نیو یوریشین لینڈ بریج (New Eurasian Land Bridge)

6)   میری ٹائم سلک روڈ (Maritime Silk Road)

ایک محتاط اندازے کے مطابق اِس بڑے منصوبے پر اکیس (۲۱)ٹریلین امریکی ڈالر لاگت آئے گی جو کہ تقریباً پینسٹھ (۶۵)ممالک اور کم و بیش دنیا کی اسی (۸۰)فیصد آبادی کو آپس میں ملائے گا-اِس منصوبے کی سرمایہ کاری کے لیے ایشیائی تعمیراتی و سرمایہ داری بنک(AIIB)، بریکس بنک(BRICS)،سلک روڈ فنڈ(Silk Road Fund)،چین–آسیان انٹر بنک تنظیم(China-ASEAN Interbank Association) اور ایس سی او انٹر بنک تنظیم(SCO Interbank Association) کا قیام کیا گیا ہے-

پاکستان  اور ون بیلٹ ون روڈ:

اپریل ۲۰۱۵ءکو چین کے صدر نے پاکستان کے دورے پر  سی پیک (چین-پاکستان معاشی راہداری)،چھیالیس(۴۶) بلین امریکی ڈالر سرمایہ کاری پر مشتمل،جو کہ ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کا ہی حصہ ہے، کا اعلان کیا-اِس کا مقصد پاکستان اور چین کا زمینی ربط بنا کر ون بیلٹ ون روڈ سے ربط بنانا ہے -اِس منصوبے کے تحت پاکستان میں سڑکوں اور ریل لائنوں کا جال بچھایا جائے گا-جِس میں کراچی سے لاہور موٹروے، راوالپنڈی سے کاشغر تک قراقرم ہائی وے اور پشاور سے کراچی تک ریل لائن کی توسیع کرنا شامل ہے اور ملک میں آئل اور گیس کی ترسیل و درآمد کے لیے پائپ لائنز کی تعمیر شامل ہے-اسی منصوبے کے تحت  پاکستان کے مختلف علاقوں میں تقریباً  ساڑھے بارہ ہزار (۱۲۵۰۰)میگا واٹ بجلی کے پیدواری یو نٹ لگائے جائیں گے-سی پیک کے تحت بیرونی سرمایہ کاری کو دلکش ماحول فراہم کرنے کے لیے سپیشل اکنامک زون (Special Economic Zone (SEZ) بنانے کے منصوبہ بھی شامل ہیں جو کہ آسان تجارتی شرائط،کم ٹیکس اور دوسری کاروباری فوائد کی بدولت بیرونی سرمایہ دار کو اپنی طرف راغب کرتے ہیں-

ون بیلٹ ون روڈ  کے پاکستان کو فوائد کا تجزیہ:

 دنیا کے نقشے پر پاکستان اپنی  جغرافیائی سرحدوں کی وجہ سے  اہمیت کا حامل ہے- نقشے کو بطورغور دیکھا جائے تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ  ایک طرف تو پاکستان کئی خشکی میں گھرے ممالک  کے لیےگرم پانیوں تک پہنچنے کے لیے گزرگاہ ہے تو دوسری طرف چین اور روس کے لیے ایک متبادل اور کم خرچ تجارتی راستہ ہے-روس کے یورپ کے ساتھ یوکرائن اور کریمیا کی وجہ سے بگڑتے حالات اور چین کے امریکہ کے ساتھ ساؤتھ چائینہ سےبگڑتے حالات نے ون بیلٹ ون روڈ کی شاخ سی پیک کو ایک خاص اہمیت دے دی ہے-افغانستان کے ناسازگار حالات نے وسطی ایشیائی ممالک کو ون بیلٹ ون روڈ کے ذریعے پاکستان کو گرم پانیوں تک پہنچنے کے لیے اپنی گزرگاہ بنانے پر مجبور کر دیا ہے-اِس منصوبے کی کامیابی ایران کو اپنی طرف مائل کرے گی-

علاقائی خوشحالی:

مئی ۲۰۱۷ءمیں چین کے شہر بیجنگ میں ہونے والی’’ون بیلٹ ون روڈ فورم‘‘بین الاقوامی کانفرنس چین کی علاقائی خوشحالی کی کوششوں کی عکاس ہے-اِس دو(۲)روزہ کانفرنس میں محتاط اندازے کے مطابق  مجموعی طور پر چھیاسٹھ (۶۶)ممالک کے نمائندوں نے شرکت کی جن میں چوبیس (۲۴)ممالک کے سربراہان بھی شامل ہیں-اِس کانفرنس میں شامل ممالک کی تعداد سے اندازہ لگایا جا سکتا ہےکہ یہ منصوبہ اب نہ صرف ایک ملک کا ہے بلکہ اِس مخصوص خطہ  کے تمام علاقائی ممالک کا جو اِس عظیم منصوبے سے منسلک ہیں-یہ منصوبہ تمام ممالک کو ایک ساتھ آگے بڑھنے کےلیے یکجا کرتا ہے اور ممالک کے درمیان مسائل کو مفاہمت سے حل کر کے ترقی کی رغبت دیتا ہے-پاکستان اپنی جغرافیائی اہمیت اورممالک سے دوستانہ تعلقات کی وجہ سے اپنی خاص اہمیت رکھتا ہے-اِس منصوبے کے تحت بھی پاکستان ایک بار پھر علاقائی خوشحالی میں اپنا بھرپور کردار ادا کرے گا-ایسے ممالک جو اپنی انا و دشمنی کو بنیاد بنا کر اِس منصوبے کی اصل روح کو پہچاننے سے قاصر ہیں اور اِس کو نقصان پہنچانے کے پے درپے ہیں،وہ یاد رکھیں!کہ وہ دن دور نہیں جب وہ اِس عظیم منصوبے کی کامیابی پر اپنا  لہو خود پئیں گے-

سکیورٹی کی صورتحال:

دہشت گردی کا ناسور دن بہ دن بڑھتا ہی جا رہا ہے جو کہ ایک مخصوص علاقے سے نکل کر اب دنیا کے لیے خطرہ بن چکا ہے- اِس ناسور کے خاتمے کے لیے دنیا کو مل کر کام کرنا ہو گا-غربت اور تعلیم کا نہ ہونا دہشت گردی کی دو (۲)بڑی وجوہات سمجھی جاتی ہیں-ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کے تحت جہاں ملکوں میں غربت کم اور تعلیم کے مواقع زیادہ ہوں گے وہیں ممالک کے درمیان ایک دوسرے کی حفاظت کا ذمہ بھی ہو گا-اِس منصوبے کے تحت ملک آپس میں معاشی،ثقافتی و سماجی طور پر  ایسے جڑیں گے کہ ہر ملک اپنے باشندوں کو دوسرے ممالک میں مداخلت سے روکنے  کے لیے ہر ممکنہ اقدام اٹھائے گا-اِس منصوبے کی ہی بدولت پاکستان اور روس نے مل کر فوجی مشقیں کی ہیں جن کا مقصدممالک کے درمیان دفاعی تعاون بڑھانے کی ایک کوشش ہے-اِس منصوبے کی تحت یقیناً ٹھوس ویزا پالیسی و اشیاء کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے گا-اِس کی ایک زندہ مثال پاکستان کی سی پیک کے لیے بنائی گئی مخصوص حفاظتی فورس ہے-اِس فورس میں نو(۹)آرمی  انفینٹری اور چھ(۶) سول آرم ونگ کے کل بارہ ہزار (۱۲۰۰۰)سپاہی شامل ہیں- جِس کا مقصد اِس معاشی راہداری کی حفاظت کرنا ہے-اس منصوبہ پہ قوم کا اعتماد اِس لئے بھی مکمل طور پہ قائم ہے کہ اِس منصوبے کی حفاظت کا ظاہری ذِمّہ اَفواجِ پاکستان نے اُٹھا رکھّا ہے -

دفاعی صلاحیت پر اثرات:

چین و پاکستان کے خلاف،امریکہ اور بھارت کے بڑھتے گٹھ جوڑ نے پاکستان اور چین اور ایک ساتھ مل کر دفاعی صلاحیتوں پر کام کرنے  کی حکمت عملی کو وقت کی ضرورت بنا دیا ہے-ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کے اعلان نے  پہلےہی امن و ترقی دشمن عناصر کی کیمپوں میں طوفان برپا کرد یا ہے جِس نے اِس منصوبے کی سکیورٹی کو کافی حد تک خطرے میں ڈالا ہوا ہے-جِس کی مثال پاکستان میں گرفتار بھارتی جاسوس کلبھوشن کے انکشافات ہیں-سی پیک منصوبہ اور گوادر کے مکمل آپریشنل بندر گاہ بن جانے کے بعد مستقبل میں بحری سرحدوں پہ بڑھتے ہوئے خطرات کے پیشِ نظر پاکستان اور چین سمندری ہتھیاروں کے تر سیلی نظام (Sea-based Delivery System) پر خاصی توجہ دے رہا ہے-  جیسا کی چین کے  بھارت میں سابق سفیر نے کہا ہے کہ :

’’گودار ، چین کے فوجی جہازوں،جو کہ سویز کنال ، بحیرہ روم اور خلیج عدن کی طرف جائیں گے،کے لیے ایک لاجسٹک سپلائی بیس بن جائے گی،جو کہ جہازوں کو بنیادی سامان فراہم کرے گی ‘‘-[1]

  معاشی فوائد:

پاکستان وسطی اور مغربی ایشیاء کے لیے پل کی حیثیت رکھتا ہے- خصوصاًگوادر گلف کی طرف سے برآمد کئے گئے تیل کے راستے کے منہ پر واقع ہے-جِس کے لیے یہ چین کے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کے لیے ایک خاص اہمیت رکھتی ہےکیونکہ یہ مغربی ایشیاء اور وسطی ایشیائی ممالک کو سمندر تک رسائی دیتا ہے-ابھی اِس فصل کے پھل کاٹنے کا وقت نہیں آیا جو اِس کے مجموعی طور پر معاشی فوائد کی بات کی جائے مگر قارئین کے سامنے قراقرم ہائی وے کی مثال رکھنا چاہوں گا جو کہ پاکستا ن اور چین کی تجارت میں ایک اہم کردار ادا کر رہا ہے-بین الاقوامی تعلقات عامہ،تاریخ اور اکنامکس کے طالب علم ہی اِس منصوبے کی اصل روح کو پہچان سکتے ہیں-

سی پیک سے متعلق تنقید کا تجزیہ:

جیسے جیسے سی پیک اپنی ترقی کے منازل طے کر رہا ہے دُشمنوں کے مروڑ بڑھتے جا رہے ہیں اور مختلف سازشیں بُنی جا رہی ہیں خاص کر اس کے مستقبل کے متعلق منفی اور بے بُنیاد پروپیگنڈا بہت تیزی سے کیا جا رہا ہے -جن مین سے چنددرج ذیل ہیں:

پاکستان بطور چین کی کالونی:

سب سے بڑی افواہ جو سی پیک کے متعلق گردش میں ہے کہ پاکستان اِس منصوبے کے تحت چین کی کالونی بن جائے گا-تاریخ دان یہ بتانے میں کوئی عار نہ سمجھیں گےکہ نوآبادیات و سامراجی خصوصیات دنیا کے شمالی ممالک کی خصوصیات ہیں-چین نے کبھی کسی ملک کو اپنی کالونی نہیں بنایا-چین کی تجارتی حجم کو بھی اِس افواہ کی دلیل کے طور پر دیا جاتا ہے مگر محترم! پاکستان کی چین کے ساتھ موجودہ تجارت تقریباً چھ (۶)بلین ڈالر ہے جبکہ چین کا بھارت کے ساتھ سنتالیس (۴۷)بلین ڈالر،امریکہ کے ساتھ تقریباً ساڑھے تین سو(۳۵۰)بلین ڈالرتجارتی حجم ہے-کیا بھارت یا امریکہ چین کی کالونی یا صوبہ بن گئے ہیں- یقیناً نہیں-پاکستان کو چاہیے کہ وہ سی پیک منصوبے کے ساتھ ساتھ اپنے دیہی علاقوں کے انفراسڑکچر کو سی پیک منصوبے کے ساتھ جوڑے اور ساتھ ساتھ پاکستان کی لوکل و گھریلو انڈسٹری  کو مزید مستحکم کرے تاکہ پاکستان کی دیہی عوام اپنی مصنوعات خصوصاً کسان اپنی اناج و پھل کو عالمی منڈیوں تک بروقت پہنچا سکے-حکومت کو چاہیے کہ وہ ایک ایسی تنظیم کی بنیاد رکھے جو پاکستان کے دیہی مزدور کو جدید مشینوں پر کام کرنے کی صلاحیت دے تاکہ ان کے آنے والے وقت کے لیے ہراول دستے کے طور پر استعمال کیا جاسکے-  

معاشرتی تقسیم:

اِس منصوبے کے تحت ایک اور افواہ کو بطور دلیل کے پیش کیا جاتا ہے کہ چین کے لوگ پاکستان میں آباد ہو جائیں گے اور پاکستانی معاشرے  خصوصاً مزدور طبقےکو نقصان ہو گا مگر ملائیشیا میں تقریباً آٹھ (۸)ملین  چینی، فرانس میں چار (۴)لاکھ،جاپان میں چھ(۶) لاکھ ، کینیڈا میں نو (۹) لاکھ اور امریکہ میں تقریباً اڑھائی ملین (M ۲.۵)چینی آباد ہیں -کیا ان کا معاشرتی نظام خراب ہو گیا ہے؟ کیا اسّی (۸۰)لاکھ چینیوں کی موجودگی کی وجہ سے ملائشیا چین کی کالونی بن گیا ہے؟ یا اڑھائی ملین چینی باشندوں نے امریکہ کی سیاست و خود مختاری کو ہائی جیک کر لیا ہے ؟ ہم پہ لازم ہے کہ ایسے فرسودہ اور منفی خیالات کی بھر پور مذمت اور سرکوبی کریں کیونکہ یہ غلط و منافقانہ پروپیگنڈا بد ہضمی و بد حواسی کا شکار بھارت کے زر خرید نام نہاد سماجی لونڈے پھیلا رہے ہیں -پاکستان قوم کو چاہیے کہ ان سازشوں کا شکار بننے کی بجائے اپنی انتھک محنت سے اپنا لوہا خود منوائے-

ثقافتی تقسیم:

چین کے لوگوں اور میڈیا چینلز کی وجہ سے پاکستانی ثقافت کو نقصان ہو گا مگر بھارت کے سو (۱۰۰)سے زائد چینلز  کی موجودگی میں چین کے چند چینلز سے کچھ زیادہ حالات خراب نہ ہوں گے-یاد رہے! کوئی آپ کو اپنی ثقافت کے بارے میں بتا تو سکتا ہے مگر اس کو اپنانا انسان کے خود اپنے اختیار میں ہوتا ہے-یہ تو کچھ یوں ہے کہ پاکستان کے تعلیمی اداروں میں کسی بھی ملک کی تاریخ اور ادب کو  اور ختم کر دیا جائے کیونکہ اِس سے ہمارے ثقافتی اقدار کو نقصان پہنچتا ہے-اِس مسئلے کا حل پاکستان کی نظریاتی و ثقافتی اساس کو مضبوط کرنا ہو گا جِس کے لیے ملک میں پہلے ہی سے بہت سے ادارے کام کر رہے ہیں ان کو مزید فعال کرنے کی ضرورت ہے-

اختتامیہ:

جِس طرح چین کے رہنما ون بیلٹ ون روڈ کو خطے کے لیے گیم چینجر کہتے ہیں اسی طرح پاکستانی رہنما سی پیک کو ملک معیشت کے لیےگیم چینجر گردانتے ہیں-سی پیک سے نہ صرف ملک کی معیشت،سکیورٹی،ثقافتی،سماجی اور دفاعی فائدہ ہو گا بلکہ اِس منصوبے کی کامیابی پاکستان کی اہمیت کی ضامن ہے-ون بیلٹ ون روڈ منصوبے نے پاکستانی قوم کو متحد ہونے کا ایک اور موقع دیا ہے تاکہ یہ قوم اپنی اصل روح پہچان کر اپنے ہر شعبے میں اپنی سو (۱۰۰)فیصد توجہ و محنت سے ایک زندہ قوم کی مثال قائم کرے-اللہ نے چاہا تو پاکستانی قوم اپنی محنت سے اِس بات کو رد کرے گی کہ ون بیلٹ ون روڈ  صرف چین کی معیشت کا  منصوبہ تھا اس لیے  کامیاب ہوا-بلکہ دنیا دیکھے گی کہ  پاکستان کی جغرافیائی اہمیت و محنت کش قوم بھی اِس منصوبے کی  کامیابی میں برابر کی شریک ہے-شاہراہ قراقرم تو بن گئی مگر اُس کا سہرا آج بھی ان انجئینرز کے سر جاتا ہے جنہوں نے اپنی سکون و راحت بھری زندگی کو پاکستان کی بقاء کے لیے قربان کر دیا ہے-یہ وقت اپنی راحت بھری اور خوابوں کی دنیا سے نکل کر میدان عمل میں آنا ہو گا تاکہ آپ دنیا کے ساتھ چل سکیں کیونکہ سکون پرست کبھی خوابوں کو حقیقت نہیں بنا سکتے-ہاں یہ بات سچ ہے کہ معاشرے کبھی تنہا نہیں پھولتے مگر اتحاد ان کو ابھارتا ہے-خدا پاکستان کو امن کا گہوارہ بنائے تاکہ یہ عالم اسلام کی معاشی،سماجی و دفاعی طاقت کے طور پر ابھرے- آمین!

٭٭٭



[1](آئی ایس ایس آئی جرنل ،والیم:۳۵،نمبر:۳،ص:۹)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر