کسووہ (جُرمِ ضعیفی کا احوال)

کسووہ (جُرمِ ضعیفی کا احوال)

کسووہ (جُرمِ ضعیفی کا احوال)

مصنف: احمد القادری فروری 2017

تعارف:

دنیا کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ہمیشہ زور آور ریاست نے کمزور ریاست یا اِس سے ملحقہ خطہِ زمین پر بسنے والے لوگوں کو نو آبادیاتی نظام کے تحت ثقافتی، مذہبی، سیاسی ہم آہنگی یا خصوصاً زمینی ربط کو جواز بنا کر اپنا غلام کر لیاہےجِس کی مثال ہمیں کشمیر اور فلسطین سے ملتی ہے- مُلکوں کی اِس کھینچا تانی نےدنیا میں طاقت کے توازن میں ایسا بگاڑ پیدا کیا کہ آج دنیا دو طرح کی صورتحال میں پھنسی ہوئی ہے- ایک طرف تو طاقتور ممالک دنیا میں برپا ہونے والے مسائل کو اپنی مرضی اور ذاتی مفادات کے فیصلے کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں اورایک جیسی شناخت رکھنے والے لوگوں کو تقسیم کر دیا جاتا ہے جِس کی زندہ مثال ہمیں مشرقی تیمور اور سوڈان کی تقسیم کی صورت میں ملتی ہے-اِس تقسیم کی صورت میں ایک طرف تو وہ آزاد ملک کی حیثیت رکھتے ہیں مگر دوسری طرف وہ متنازعہ علاقے کی حیثیت رکھتے ہیں- دوسری طرف طاقت کے کھینچا تانی میں جِس کا دِل کرے وہ اپنی شناخت، اپنی زبان، اپنی ثقافت اور علاقہ پرستی کو جواز بنا کر اپنی ہی ریاست کے خلاف اٹھ کھڑا ہوتا ہے- حد افسوس کہ ایسے عناصر کی زرکوبی کی بجائے طاقت کے جواری (جواری اِس لیے کہ وہ اپنی اپنی طاقت کو برقرار رکھنے کے لیے مختلف ممالک کے لوگوں کو طاقت کا لالچ دے کر اپنے ہی ملک کے خلاف لڑنے پر مجبور کر دیتے ہیں) اِن کو مزید اتنا تقسیم کر دیتے ہیں کہ وہ ملک انتشار میں ایسے الجھتے ہیں جِس سے  اِس ترقی یافتہ دور میں پتھر کا زمانہ ان کا مقدر بنتا ہے-کوسوو کا وجود بھی اوپر واضح کی گئی پہلی صورت حال کی زندہ مثال ہے،جہاں ایک طرف تو وہ آزاد ملک تصور کیا جاتا ہے مگر دوسری طرف ایک متنازعہ علاقہ کی حیثیت بھی رکھتا ہے-

جغرافیہ:

جنوب مشرقی یورپ میں بالقان ریاستوں (Balkan States  ) کے نام سے مشہور ممالک میں سے خشکی میں محصور کوسوو ستتّر ہزار چار سو چوہتّر (۷۷۴۷۴ ) مربع کلو میٹر پر محیط ہے- جِس کی سرحدیں البانیہ(Albania) کے ساتھ ایک سو بارہ (۱۱۲)کلومیٹر،سربیا (Serbia)سے تین سو چھیاسٹھ (۳۶۶)کلومیٹر اور میسیڈونیا(Macedonia) سے ایک سو ساٹھ (۱۶۰)کلومیٹر ملتی ہیں- جِس کا دارالحکومت پرسٹینا (Pristina)ہے- اِس ملک کی آبادی جولائی۲۰۱۶ءکے مطابق تقریباً اُنیس لاکھ (۱۹۰۰۰۰)نفوس پر مشتمل ہے جِس میں تقریباً چھیانوے (۹۶)فیصد مسلمان اور تہذیب و ثقافت کے مطابق بانوے (۹۲)فیصد البانین ہیں- اِس کی کرنسی یورپین یورو ہے- اِس ملک کی شرحِ خواندگی تقریباً بانوے (۹۲)فیصد ہے-

تاریخ:

کوسوو کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی کہ یوگوسلاویہ(Yugoslavia) کی ہے - کوسوو کی الگ تاریخ ہمیں ۱۹۹۹ءمیں یوگوسلاویہ (Yugoslavia)  ٹوٹنے کے بعد ملتی ہے جب اِس علاقہ پر کنٹرول کرنے کی خاطر سربیا (Serbia) نے ٹوٹی ہوئی ریاستِ  یوگوسلاویہ کےمختلف علاقوں پر چڑھائی کرتے ہوئے  ان پر قبضہ کرنے کی کوششیں شروع کر دیں(یاد رہے سربیا نے یوگوسلاویہ کے ٹوٹنے کے بعدوہ اوچے ہتھکنڈے اپنائے جو کہ بھارت نے تقسیمِ ہند کے وقت اپنائےتھے)- جِس کے بدولت صرف بوسنیا (Bosnia)میں تقریباً ایک لاکھ(۱۰۰۰۰۰)،کوسوو میں بیس ہزار (۲۰۰۰۰)لوگوں کو قتل کیا گیا اور ڈیڑھ لاکھ (۱۵۰۰۰۰)افراد ملک سے بے دخل کر دیے گئے اور ہزاروں نسلی فسادات میں لاپتہ ہو گئے-عورتوں کی بے حرمتی اور لوگوں کو لوٹا گیا جِس کی بدولت سربیا کے سابق صدرسلوبودان میلوسیوک (Slobodan Milosevic)کو جنگی جرئم کی پاداش میں عالمی عدالت برائےانصاف میں پیش بھی کیا گیا- یوگوسلاویہ کے ٹوٹنے کے بعد سربیا کی طرف سے شروع کیے گئے فسادات میں انسانی قتل و غارت کو دیکھتے ہوئے یورپین طاقتوں نے یورپی یونین کے قانون کے تحت بین الاقوامی مشن کےذریعے نیٹو (NATO) کو کوسوو میں بروقت بھیج کر سربیا کوکوسوو کی آبادی کے قتل و غارت سے روکااور کوسوو کو اقوام متحدہ سکیورٹی کونسل کی قرارداد۱۲۴۴ کےتحت محافظ کے طور پر اقوام متحدہ کے امن مشن کے لیےقبول کیا گیا-۱۷ فروری ۲۰۰۷ ءمیں سٹیٹ پارلیمنٹ نے قراداد کی شکل میں آزادی کا اعلان کر دیا جِس کو سب سے پہلے امریکہ،اسرائیل اور اٹلی نے قبول کیا-۲۰۱۲ءمیں عالمی عدالت برائے انصاف کی طرف سے کوسوو کی سالمیت کو قانونی قرار دینے کے بعد پاکستان نے اِس ملک کی سالمیت کو تسلیم کرتے ہوئے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ متنازعہ علاقوں کے  مسائل انصاف کے سارے تقاضے پورے کر کے جلد سے جلد حل کیے جائیں-

کوسوو،البانیہ اور سربیا کی مشاورت کے بغیرخودمختار فیصلے پردنیا کی طاقتیں تقسیم کا شکار ہیں جیسا کہ ویٹو پاور ممالک بھی اِس پر تقسیم ہیں-امریکہ، برطانیہ، اور فرانس نے اِس کی سالمیت کو تسلیم کیا،مگر چین نے رد کیا اور روس نے اِس کو غیر قانونی کہا ہے- دسمبر ۲۰۱۶ء تک اقوام متحدہ کے ایک سو ترانوے (۱۹۳) ممبرز میں سے ایک سو دس (۱۱۰)نے، یورپی یونین کے اٹھائیس (۲۸)میں سے تئیس (۲۳)ممالک نے،  نیٹو کےاٹھائیس (۲۸)میں سے چوبیس (۲۴) ممبرز نے جبکہ اسلامی تعاون کی تنظیم(OIC) کے ستاون (۵۷)میں سے چونتیس (۳۴)ممالک نے اس کی سالمیت کو تسلیم کیا ہے جو کہ دنیا میں طاقت کے عدم توازان اور عالمی طاقتوں کے دوہرے معیار کی بھیانک تصویر ہے، مگر اِس کی مکمل خود مختار حیثیت تا حال پوری طرح تسلیم نہیں کی گئی - یہاں یہ امر اجاگر کرناضروری سمجھتا ہوں کہ بین الاقوامی طاقتوں خصوصاً امریکہ،برطانیہ اور فرانس کو سوڈان، مشرقی تیمور اور کوسوو جیسے انسانی المیے تو بہت جلد نظر آگئے اور بروقت حل نے مسائل کو ختم بھی کردیا-مگر بین الاقوامی دوہرا معیار کشمیر، فلسطین اور روہنگیا کے مسلمانوں کی صورت میں ہمارے سامنے عیاں ہے کہ اپنے مفاد کی خاطر مسائل کا حل ایک ہی رات میں نکل آتا ہےاور مسائل حل ہو جاتے ہیں مگر دوسری طرف جِن ممالک سے ان کے مفادات کو خطرہ ہو ان کے مسائل حل نہیں ہوتے اور نہ ہی کوئی اِن طاقتوں کو مجرم دیکھتا ہے-آزادی کے بعد کوسووکے پہلے صدر ابراہیم راگوا    ) Ibrahim Rugova)  ۲۰۰۶ءتک صدربنے- موجودہ صدر ہاشم تھاکی ہیں(Hashim Thaci) -

اسلام کی آمد:

کوسوو میں اسلام کی آمداُس وقت ہوئی جب یہ خطہِ زمین ۱۳۸۹ءمیں خلافتِ عثمانیہ میں شامل کیا گیا-  صدیوں اِس علاقہ میں خلافتِ عثمانیہ کی عادلانہ و منصفانہ حکومت کے بدولت اسلام کافی مقبول مذہب بن گیا۔ طریقہ قادریہ اور رفاعیہ کے بزرگانِ دین کے ساتھ ساتھ مولانا رومی سے منسوب طریقہ مولویہ کے مبلغین نے بھی تبلیغ و اشاعتِ اِسلام میں بھر پور کردار ادا کیا ۔  اور خلافت ِعثمانیہ کے خاتمے کے وقت اِس علاقہ میں اکثریت مسلمان تھے جو کہ کوسوو کی پہچان بن چکے ہیں- ۱۹۹۹ءمیں کوسوو،سربیا کی جنگ میں مسلمان آبادی اور اسلامی مقامات کو جلا دیا گیاجِن کی تفصیل تاریخ کے پورشن میں عرض کی گئی ہے-  کوسوو میں مشہور مساجد کے نام مسجدِ الآغا(۱۲۶۸)،  مسجدِغازی علی بیگ (۱۴۱۰)، مسجدِ کجرکوو(۱۴۸۰) اور مسجدِ ہادم آغا ہیں-

معشیت:

یورپی یونین میں ہونے کی بدولت کوسوو کو تجارتی منڈیوں میں رسائی بہت آسانی سے مِل گئی اور اٹلی نے شروع شروع میں اس کی معیشیت میں ریڑھ کی ہڈی کا کام کیا- کوسوو کی شرح نمود ۲۰۱۵ءمیں تقریباً چار (۴)فیصد تھی- جِس کی درآمدات ۲۰۱۴ءمیں تقریباً چار (۴)بلین ڈالر اور برآمدات تقریباً چارسو (۴۰۰)ملین ڈالر ہیں-

پاکستان سے تعلقات:

جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا ہے کہ پاکستان نے ۲۰۱۲ءمیں کوسوو کی سالمیت کو تسلیم کرتے ہوئے سفارتی تعلقات کا آغاز کیا جِس کے بعد اب تک دونوں حکومتوں کی کوشش ہے کہ پاکستان اور کوسوو کے درمیان اچھے سفارتی،دفاعی اورمعاشی تعلقات قائم ہوں-جِس کے لیے ۲۰۱۳ء لندن میں وزیر اعظم پاکستان اور کوسوو کے صدر،ہاشم تھاکی کے درمیان ملاقات میں ایک دوسرے کو اپنے اپنے ممالک میں دعوتی دورے دینے کے ساتھ ساتھ اِس بات کا بھی عزم کیا گیا کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کی ہر سطح پر مدد کریں گیں-

اختتامیہ:

دنیا میں طاقت اور انصاف کے توازن کے سوا امن اور ترقی ممکن نہیں- دنیا کے عالمی نظام کو منظم کر کے دہشت گردی و جدوجہدِ آزادی میں فرق کرنا ہو گا- اِس مقصد کے لیے پاکستان اور کوسوو کو مل کر دنیا کے دوسرے ممالک کے درمیان ہم آہنگی اور یکجہتی کا پرچار کرنا ہوگا تا کہ دنیا میں بارود و گولی کے بدلے امن اور ترقی کا خواب پایہ تکمیل تک پہنچ سکے-

٭٭٭

تعارف:

دنیا کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ہمیشہ زور آور ریاست نے کمزور ریاست یا اِس سے ملحقہ خطہِ زمین پر بسنے والے لوگوں کو نو آبادیاتی نظام کے تحت ثقافتی، مذہبی، سیاسی ہم آہنگی یا خصوصاً زمینی ربط کو جواز بنا کر اپنا غلام کر لیاہےجِس کی مثال ہمیں کشمیر اور فلسطین سے ملتی ہے- مُلکوں کی اِس کھینچا تانی نےدنیا میں طاقت کے توازن میں ایسا بگاڑ پیدا کیا کہ آج دنیا دو طرح کی صورتحال میں پھنسی ہوئی ہے- ایک طرف تو طاقتور ممالک دنیا میں برپا ہونے والے مسائل کو اپنی مرضی اور ذاتی مفادات کے فیصلے کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں اورایک جیسی شناخت رکھنے والے لوگوں کو تقسیم کر دیا جاتا ہے جِس کی زندہ مثال ہمیں مشرقی تیمور اور سوڈان کی تقسیم کی صورت میں ملتی ہے-اِس تقسیم کی صورت میں ایک طرف تو وہ آزاد ملک کی حیثیت رکھتے ہیں مگر دوسری طرف وہ متنازعہ علاقے کی حیثیت رکھتے ہیں- دوسری طرف طاقت کے کھینچا تانی میں جِس کا دِل کرے وہ اپنی شناخت، اپنی زبان، اپنی ثقافت اور علاقہ پرستی کو جواز بنا کر اپنی ہی ریاست کے خلاف اٹھ کھڑا ہوتا ہے- حد افسوس کہ ایسے عناصر کی زرکوبی کی بجائے طاقت کے جواری (جواری اِس لیے کہ وہ اپنی اپنی طاقت کو برقرار رکھنے کے لیے مختلف ممالک کے لوگوں کو طاقت کا لالچ دے کر اپنے ہی ملک کے خلاف لڑنے پر مجبور کر دیتے ہیں) اِن کو مزید اتنا تقسیم کر دیتے ہیں کہ وہ ملک انتشار میں ایسے الجھتے ہیں جِس سے  اِس ترقی یافتہ دور میں پتھر کا زمانہ ان کا مقدر بنتا ہے-کوسوو کا وجود بھی اوپر واضح کی گئی پہلی صورت حال کی زندہ مثال ہے،جہاں ایک طرف تو وہ آزاد ملک تصور کیا جاتا ہے مگر دوسری طرف ایک متنازعہ علاقہ کی حیثیت بھی رکھتا ہے-

جغرافیہ:

جنوب مشرقی یورپ میں بالقان ریاستوں (Balkan States) کے نام سے مشہور ممالک میں سے خشکی میں محصور کوسوو ستتّر ہزار چار سو چوہتّر (۷۷۴۷۴ ) مربع کلو میٹر پر محیط ہے- جِس کی سرحدیں البانیہ(Albania) کے ساتھ ایک سو بارہ (۱۱۲)کلومیٹر،سربیا (Serbia)سے تین سو چھیاسٹھ (۳۶۶)کلومیٹر اور میسیڈونیا(Macedonia) سے ایک سو ساٹھ (۱۶۰)کلومیٹر ملتی ہیں- جِس کا دارالحکومت پرسٹینا (Pristina)ہے- اِس ملک کی آبادی جولائی۲۰۱۶ءکے مطابق تقریباً اُنیس لاکھ (۱۹۰۰۰۰)نفوس پر مشتمل ہے جِس میں تقریباً چھیانوے (۹۶)فیصد مسلمان اور تہذیب و ثقافت کے مطابق بانوے (۹۲)فیصد البانین ہیں- اِس کی کرنسی یورپین یورو ہے- اِس ملک کی شرحِ خواندگی تقریباً بانوے (۹۲)فیصد ہے-

تاریخ:

کوسوو کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی کہ یوگوسلاویہ(Yugoslavia) کی ہے - کوسوو کی الگ تاریخ ہمیں ۱۹۹۹ءمیں یوگوسلاویہ (Yugoslavia)  ٹوٹنے کے بعد ملتی ہے جب اِس علاقہ پر کنٹرول کرنے کی خاطر سربیا (Serbia) نے ٹوٹی ہوئی ریاستِ  یوگوسلاویہ کےمختلف علاقوں پر چڑھائی کرتے ہوئے  ان پر قبضہ کرنے کی کوششیں شروع کر دیں(یاد رہے سربیا نے یوگوسلاویہ کے ٹوٹنے کے بعدوہ اوچے ہتھکنڈے اپنائے جو کہ بھارت نے تقسیمِ ہند کے وقت اپنائےتھے)- جِس کے بدولت صرف بوسنیا (Bosnia)میں تقریباً ایک لاکھ(۱۰۰۰۰۰)،کوسوو میں بیس ہزار (۲۰۰۰۰)لوگوں کو قتل کیا گیا اور ڈیڑھ لاکھ (۱۵۰۰۰۰)افراد ملک سے بے دخل کر دیے گئے اور ہزاروں نسلی فسادات میں لاپتہ ہو گئے-عورتوں کی بے حرمتی اور لوگوں کو لوٹا گیا جِس کی بدولت سربیا کے سابق صدرسلوبودان میلوسیوک (Slobodan Milosevic)کو جنگی جرئم کی پاداش میں عالمی عدالت برائےانصاف میں پیش بھی کیا گیا- یوگوسلاویہ کے ٹوٹنے کے بعد سربیا کی طرف سے شروع کیے گئے فسادات میں انسانی قتل و غارت کو دیکھتے ہوئے یورپین طاقتوں نے یورپی یونین کے قانون کے تحت بین الاقوامی مشن کےذریعے نیٹو (NATO) کو کوسوو میں بروقت بھیج کر سربیا کوکوسوو کی آبادی کے قتل و غارت سے روکااور کوسوو کو اقوام متحدہ سکیورٹی کونسل کی قرارداد۱۲۴۴ کےتحت محافظ کے طور پر اقوام متحدہ کے امن مشن کے لیےقبول کیا گیا-۱۷ فروری ۲۰۰۷ ءمیں سٹیٹ پارلیمنٹ نے قراداد کی شکل میں آزادی کا اعلان کر دیا جِس کو سب سے پہلے امریکہ،اسرائیل اور اٹلی نے قبول کیا-۲۰۱۲ءمیں عالمی عدالت برائے انصاف کی طرف سے کوسوو کی سالمیت کو قانونی قرار دینے کے بعد پاکستان نے اِس ملک کی سالمیت کو تسلیم کرتے ہوئے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ متنازعہ علاقوں کے  مسائل انصاف کے سارے تقاضے پورے کر کے جلد سے جلد حل کیے جائیں-

کوسوو،البانیہ اور سربیا کی مشاورت کے بغیرخودمختار فیصلے پردنیا کی طاقتیں تقسیم کا شکار ہیں جیسا کہ ویٹو پاور ممالک بھی اِس پر تقسیم ہیں-امریکہ، برطانیہ، اور فرانس نے اِس کی سالمیت کو تسلیم کیا،مگر چین نے رد کیا اور روس نے اِس کو غیر قانونی کہا ہے- دسمبر ۲۰۱۶ء تک اقوام متحدہ کے ایک سو ترانوے (۱۹۳) ممبرز میں سے ایک سو دس (۱۱۰)نے، یورپی یونین کے اٹھائیس (۲۸)میں سے تئیس (۲۳)ممالک نے،  نیٹو کےاٹھائیس (۲۸)میں سے چوبیس (۲۴) ممبرز نے جبکہ اسلامی تعاون کی تنظیم(OIC) کے ستاون (۵۷)میں سے چونتیس (۳۴)ممالک نے اس کی سالمیت کو تسلیم کیا ہے جو کہ دنیا میں طاقت کے عدم توازان اور عالمی طاقتوں کے دوہرے معیار کی بھیانک تصویر ہے، مگر اِس کی مکمل خود مختار حیثیت تا حال پوری طرح تسلیم نہیں کی گئی - یہاں یہ امر اجاگر کرناضروری سمجھتا ہوں کہ بین الاقوامی طاقتوں خصوصاً امریکہ،برطانیہ اور فرانس کو سوڈان، مشرقی تیمور اور کوسوو جیسے انسانی المیے تو بہت جلد نظر آگئے اور بروقت حل نے مسائل کو ختم بھی کردیا-مگر بین الاقوامی دوہرا معیار کشمیر، فلسطین اور روہنگیا کے مسلمانوں کی صورت میں ہمارے سامنے عیاں ہے کہ اپنے مفاد کی خاطر مسائل کا حل ایک ہی رات میں نکل آتا ہےاور مسائل حل ہو جاتے ہیں مگر دوسری طرف جِن ممالک سے ان کے مفادات کو خطرہ ہو ان کے مسائل حل نہیں ہوتے اور نہ ہی کوئی اِن طاقتوں کو مجرم دیکھتا ہے-آزادی کے بعد کوسووکے پہلے صدر ابراہیم راگوا    ) Ibrahim Rugova)  ۲۰۰۶ءتک صدربنے- موجودہ صدر ہاشم تھاکی ہیں(Hashim Thaci) -

اسلام کی آمد:

کوسوو میں اسلام کی آمداُس وقت ہوئی جب یہ خطہِ زمین ۱۳۸۹ءمیں خلافتِ عثمانیہ میں شامل کیا گیا-  صدیوں اِس علاقہ میں خلافتِ عثمانیہ کی عادلانہ و منصفانہ حکومت کے بدولت اسلام کافی مقبول مذہب بن گیا۔ طریقہ قادریہ اور رفاعیہ کے بزرگانِ دین کے ساتھ ساتھ مولانا رومی سے منسوب طریقہ مولویہ کے مبلغین نے بھی تبلیغ و اشاعتِ اِسلام میں بھر پور کردار ادا کیا ۔  اور خلافت ِعثمانیہ کے خاتمے کے وقت اِس علاقہ میں اکثریت مسلمان تھے جو کہ کوسوو کی پہچان بن چکے ہیں- ۱۹۹۹ءمیں کوسوو،سربیا کی جنگ میں مسلمان آبادی اور اسلامی مقامات کو جلا دیا گیاجِن کی تفصیل تاریخ کے پورشن میں عرض کی گئی ہے-  کوسوو میں مشہور مساجد کے نام مسجدِ الآغا(۱۲۶۸)،  مسجدِغازی علی بیگ (۱۴۱۰)، مسجدِ کجرکوو(۱۴۸۰) اور مسجدِ ہادم آغا ہیں-

معشیت:

یورپی یونین میں ہونے کی بدولت کوسوو کو تجارتی منڈیوں میں رسائی بہت آسانی سے مِل گئی اور اٹلی نے شروع شروع میں اس کی معیشیت میں ریڑھ کی ہڈی کا کام کیا- کوسوو کی شرح نمود ۲۰۱۵ءمیں تقریباً چار (۴)فیصد تھی- جِس کی درآمدات ۲۰۱۴ءمیں تقریباً چار (۴)بلین ڈالر اور برآمدات تقریباً چارسو (۴۰۰)ملین ڈالر ہیں-

پاکستان سے تعلقات:

جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا ہے کہ پاکستان نے ۲۰۱۲ءمیں کوسوو کی سالمیت کو تسلیم کرتے ہوئے سفارتی تعلقات کا آغاز کیا جِس کے بعد اب تک دونوں حکومتوں کی کوشش ہے کہ پاکستان اور کوسوو کے درمیان اچھے سفارتی،دفاعی اورمعاشی تعلقات قائم ہوں-جِس کے لیے ۲۰۱۳ء لندن میں وزیر اعظم پاکستان اور کوسوو کے صدر،ہاشم تھاکی کے درمیان ملاقات میں ایک دوسرے کو اپنے اپنے ممالک میں دعوتی دورے دینے کے ساتھ ساتھ اِس بات کا بھی عزم کیا گیا کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کی ہر سطح پر مدد کریں گیں-

اختتامیہ:

دنیا میں طاقت اور انصاف کے توازن کے سوا امن اور ترقی ممکن نہیں- دنیا کے عالمی نظام کو منظم کر کے دہشت گردی و جدوجہدِ آزادی میں فرق کرنا ہو گا- اِس مقصد کے لیے پاکستان اور کوسوو کو مل کر دنیا کے دوسرے ممالک کے درمیان ہم آہنگی اور یکجہتی کا پرچار کرنا ہوگا تا کہ دنیا میں بارود و گولی کے بدلے امن اور ترقی کا خواب پایہ تکمیل تک پہنچ سکے-

٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر