امریکہ اور چین کی مصنوعی ذہانت کی دوڑ: جدت اور طاقت کا نیا میدان

امریکہ اور چین کی مصنوعی ذہانت کی دوڑ: جدت اور طاقت کا نیا میدان

امریکہ اور چین کی مصنوعی ذہانت کی دوڑ: جدت اور طاقت کا نیا میدان

مصنف: محمد بازید خان مئی 2025

تعارف

مصنوعی ذہانت (AI) ایک ایسی ٹیکنالوجی ہے جو کمپیوٹرز اور مشینوں کو انسانوں کی طرح سوچنے اور عمل کرنے کے قابل بناتی ہے- AI سے چلنے والے آلات اشیاء کو پہچان سکتے ہیں، زبان کو سمجھ سکتے ہیں اور اس کا جواب دے سکتے ہیں، تجربے سے سیکھ سکتے ہیں، فیصلے کر سکتے ہیں اور یہاں تک کہ خود سے نئی چیزیں بھی تخلیق کر سکتے ہیں-جیسے کہ خودکار گاڑیاں( self-driving cars- AI )ایک طریقہ کار مشین لرننگ (ML) کے ذریعے سیکھتی ہیں، جس میں کمپیوٹرز ڈیٹا کا تجزیہ کرتے ہیں بجائے اس کے کہ ہر کام کے لیے انہیں الگ سے پروگرام کیا جائے- مشین لرننگ کے ایک طاقتور قسم کے نیورل نیٹ ورکس (neural networks) ہیں، جو انسانی دماغ کی طرح بڑی مقدار میں ڈیٹا میں موجود پیٹرن کو پہچان کر نتائج اخذ کرتے ہیں- سیکھنے کی ایک آسان شکل سپر وائزڈ لرننگ supervised learning ہے، جس میں کمپیوٹرز کو لیبل شدہ مثالوں کے ذریعے تربیت دی جاتی ہے تاکہ وہ مستقبل کے نتائج کی پیش گوئی کر سکیں-

ڈیپ لرننگ Deep learning، جو مشین لرننگ کی ایک جدید شکل ہے، نیورل نیٹ ورکس (deep neural networks with many layers) کا استعمال کرتی ہے، جن میں کئی تہیں ہوتی ہیں اور یہ انسانی مدد کے بغیر پیچیدہ معلومات کو سمجھ سکتے ہیں- یہ خاص طور پر زبان کی پہچان، تصویر کی شناخت، اور بڑی مقدار میں ڈیٹا کے تجزیے کے لیے مفید ہے- جنریٹو (Gen AI) مصنوعی ذہانت کی ایک خاص قسم ہے جو ڈیپ لرننگ کو مزید آگے لے جا کر نئی تخلیقات جیسے متن، تصاویر، اور موسیقی بنا سکتی ہے، جو موجود ڈیٹا سے سیکھے گئے پیٹرنز پر مبنی ہوتی ہیں- یہ وہی ٹیکنالوجی ہے جو ChatGPT اور AI سے تخلیق شدہ آرٹ کے پیچھے کام کر رہی ہے-مصنوعی ذہانت دنیا کو بدل رہی ہے، مشینوں کو مزید ذہین اور قابل بنا رہی ہے اور مستقبل کی تشکیل میں مدد دے رہی ہے، جس سے کام آسان اور تخلیقی صلاحیتوں میں اضافہ ہو رہا ہے -[1]

مصنوعی ذہانت کی اہمیت دور حاضر میں :

مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی عالمی مواصلات (global communication) اور صنعت کاری کو مکمل طور پر بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہے- AI نہ صرف جدید ٹیکنالوجی (modern technology) میں اہم کردار ادا کر رہی ہے بلکہ یہ امریکہ اور چین کے درمیان تکنیکی مسابقت (technological competition) کا بھی ایک بنیادی عنصر بن چکی ہے، جسے عام طور پر مصنوعی ذہانت کی دوڑ (AI race)کہا جاتا ہے- عوامی تاثر یہی ہے کہ AI عظیم طاقتوں (great powers) کے درمیان مسابقت کا ایک مرکزی پہلو بن چکی ہے-

تاریخی طور پر، بڑی طاقتوں کے عروج و زوال کو تکنیکی تبدیلی  کے ادوار نے متاثر کیا ہے، جو ایک طاقت کو مسلسل اقتصادی ترقی حاصل کرنے اور بالآخر جغرافیائی سیاسی اور عسکری اثر و رسوخ قائم کرنے کے مواقع فراہم کرتی ہے-یہ رجحان مختلف تاریخی ادوار میں دیکھا گیا ہے، جیسے کہ صنعتی انقلاب کے دوران برطانیہ کا عروج یا 19ویں صدی کے آخر میں امریکہ کی ٹیکنالوجیکل ترقی، حتیٰ کہ 1980ء میں امریکہ اور جاپان کے درمیان سیمی کنڈکٹر اور کنزیومر الیکڑانکس صارفین کی الیکٹرانکس کی دریافت میں مسابقت نے یہ قیاس آرائیاں جنم دیں کہ جاپان شاید امریکہ کو پیچھے چھوڑ سکتا ہے- ان تاریخی مثالوں کے پیش نظر، یہ تصور درست معلوم ہوتا ہے کہ مصنوعی ذہانت کی ترقی امریکہ-چین کی رقابت کا ایک اہم عنصر ہے- اس مسابقت کے پیچھے ایک اور مفروضہ یہ بھی کارفرما ہے کہ چین یا تو مصنوعی ذہانت میں امریکہ سے آگے بڑھ چکا ہے یا بہت جلد اس کا مقابلہ کرنے والا ہے -[2]

مصنوعی ذہانت کی دوڑ میں عالمی سالمیت

مصنوعی ذہانت ریاستی طاقت، معاشی ترقی اور فوجی صلاحیتوں پر گہرا اثر ڈال رہی ہے- جو ممالک اس میدان میں برتری حاصل کریں گے، وہ نہ صرف عالمی معیشت پر اثر انداز ہوں گے بلکہ ٹیکنالوجی کے استعمال کے عالمی معیارات بھی طے کریں گے، جس کا اثر ان ممالک پر بھی پڑے گا جو ابھی تک کسی ایک ماڈل کو اپنانے کے بارے میں غیر یقینی کا شکار ہیں- یہ مسابقت بڑی طاقتوں کے درمیان وسیع تر جغرافیائی و سیاسی جدوجہد کا حصہ ہے، جہاں چین اور روس امریکی اثر و رسوخ کو چیلنج کرنے کے لیے معیشت، فوج اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں- امریکی قومی سلامتی کی حکمت عملی (National Security Strategy) بھی اس حقیقت کو تسلیم کرتی ہے کہ چین کی تیز رفتار مصنوعی ذہانت کی ترقی ایک طویل المدتی حکمت عملی کا حصہ ہے، جس کا مقصد فوجی جدت اور معاشی برتری کے ذریعے عالمی طاقت حاصل کرنا ہے-

مصنوعی ذہانت ریاستی طاقت کا ایک بنیادی ستون بنتی جا رہی ہے، خاص طور پر اس کی معیشت میں ترقی کی صلاحیت کی وجہ سے- تحقیق کے مطابق، 2030ء تک مصنوعی ذہانت عالمی معیشت میں کھربوں ڈالر کا اضافہ کر سکتی ہے، لیکن اس کا فائدہ صرف وہی ممالک اٹھائیں گے جو پہلے ہی اس میدان میں ترقی یافتہ ہیں، جیسے امریکہ اور چین- فوجی سطح پر بھی، دونوں ممالک مصنوعی ذہانت کے دفاعی استعمال میں بھاری سرمایہ کاری کر رہے ہیں- چین کی پیپلز لبریشن آرمی (People’s Liberation Army - PLA) خودکار ہتھیاروں اور مصنوعی ذہانت سے چلنے والی فوجی حکمت عملیوں پر کام کر رہی ہے- دوسری طرف، امریکی محکمہ دفاع نے مصنوعی ذہانت کو اپنی دفاعی منصوبہ بندی میں شامل کرنے کیلئے’’Defense Advanced Research Projects Agency‘‘  اور ’’Joint Artificial Intelligence Center‘‘ جیسے ادارے قائم کیے ہیں- معاشی اور فوجی طاقت کے علاوہ، مصنوعی ذہانت عالمی حکمرانی کے اصول بھی طے کر رہی ہے اور چین مصنوعی ذہانت سے چلنے والے نگرانی کے نظام (Surveillance Systems) کو مختلف ممالک میں برآمد کر رہا ہے، جو انسانی پرائیویسی کے لیے ایک خطرہ بن سکتا ہے- خاص طور پر افریقہ، لاطینی امریکہ اور مشرق وسطیٰ میں - [3]

مصنوعی ذہانت کی دوڑ میں چین اور امریکہ

20 جنوری 2025ء کو، جب دنیا کی توجہ امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کی حلف برداری پر تھی، چین کی ایک کمپنی ’’DeepSeek‘‘ نے خاموشی سے اپنا نیا بڑا زبان سمجھنے والا ماڈل R1 لانچ کیا- یہ ماڈل نہ صرف کم قیمت اور اوپن سورس ہے بلکہ کارکردگی کے لحاظ سے ChatGPT-4 کے برابر یا اس سے بہتر بتایا گیا ہے- اس اعلان کے بعد امریکی اسٹاک مارکیٹ میں گراوٹ آئی، Nasdaq 3.1 فیصد اور S&P 500 1.5فیصد نیچے آگیا- ڈیپ سیک کا یہ اقدام امریکہ اور چین کے درمیان مصنوعی ذہانت کے میدان میں بڑھتی ہوئی مسابقت کی ایک اور بڑی مثال بن گیا- امریکہ نے اس مقابلے کا جواب ’’Stargate Project‘‘ کے ذریعے دیا، جو 500 ارب ڈالر کا سب سے بڑا AI منصوبہ ہے- دوسری طرف چین نے اعلان کیا ہے کہ وہ 2030ء تک ٹیکنالوجی میں 10 ٹریلین یوآن ($1.4 ٹریلین) کی سرمایہ کاری کرے گا- یہ صورتحال ایشیائی ممالک کے لیے پیچیدہ ہو گئی ہے، جیسے کہ جنوبی کوریا اور آسٹریلیا، جو ٹیکنالوجی اور معدنیات کے میدان میں ان دونوں طاقتوں پر انحصار کرتے ہیں-

چین کی ترقی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2000 تک امریکہ، سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی میں چین سے زیادہ PhDs پیداکرتا تھا، لیکن 2017ء میں دونوں برابر ہو گئے- 2025ء تک چین نے 70000 جبکہ امریکہ نے 35000 PhDs اسکالرز پیدا کیے- تقریباً 600000 چینی طلبہ نے امریکہ کی اعلیٰ جامعات سے تعلیم حاصل کی اور 70 فیصد نے واپس آکر چین میں حکومت کی مدد سے اپنی تحقیقاتی لیبارٹریز قائم کیں- چینی جامعات جیسے تسنگھوا (Tsinghua) اور پیکنگ یونیورسٹی (Peking University) اب دنیا کی بہترین جامعات میں شمار ہوتی ہیں- ڈیپ سیک کی ٹیم انہی جامعات کے تربیت یافتہ ماہرین پر مشتمل ہے، جنہوں نے جدید AI ٹیکنالوجی میں دنیا کو حیران کر دیا- آسٹریلین پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ (Australian Policy Research Institute) کے مطابق، چین 64 میں سے 53 اہم ٹیکنالوجیز جیسے کہ سپرکمپیوٹنگ، مصنوعی ذہانت اور مشین لرننگ، صنعتی روبوٹکس (industrial robotics)، بایومیڈیسن (biomedicine) وغیرہ میں سبقت حاصل کر چکا ہے -[4]

جغرافیائی سیاست سے ہٹ کر، مصنوعی ذہانت کے شعبے میں تیزی سے ہونے والی ترقی توانائی اور ماحولیات پر بھی گہرے اثرات مرتب کر رہی ہے- اے آئی ڈیٹا سینٹرز کی بڑھتی ہوئی مانگ توانائی کے گرڈز  پر دباؤ ڈال رہی ہے اور اندازہ ہے کہ امریکہ کو آئندہ پانچ برسوں میں پانچ گیگا واٹ کے توانائی مراکز درکار ہوں گے- 2030ء تک، ڈیٹا سینٹرز امریکی بجلی کا 10فیصد استعمال کر سکتے ہیں، جو 2023ء میں ریکارڈ شدہ 4 فیصدسے دوگنا ہوگا- چین، جو دنیا کا سب سے بڑا 5G نیٹ ورک رکھتا ہے اور دوسرا سب سے بڑا ڈیٹا سینٹر انڈسٹری کا حامل ملک ہے، انہی چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے- گرین پیس ایسٹ ایشیا (Greenpeace East Asia) کے مطابق، چین کے ڈیجیٹل بنیادی ڈھانچے کی بجلی کی کھپت 2035 تک 289فیصدبڑھ سکتی ہے، جس سے کاربن کے اخراج میں 310 ملین ٹن اضافہ متوقع ہے- تاہم، اگر ان ترقیوں کو بہتر حکمت عملی کے تحت منظم کیا جائے تو مصنوعی ذہانت توانائی کے شعبے میں ایک مثبت تبدیلی لائی جا سکتی ہے -[5]

روایتی نظام سے مصنوعی ذہانت تک کا سفر

امریکہ اور چین کے درمیان تیزی سے بڑھتا ہوا AI مقابلہ صرف ایک تکنیکی دوڑ نہیں بلکہ عالمی طاقت کے توازن کو تشکیل دینے والا ایک اہم میدان ہے- یوکرین جنگ نے جدید جنگ میں AI کے کردار کو نمایاں کیا ہے، خاص طور پر AI سے چلنے والے ڈرونز نے اپنی مہلک صلاحیت کو ثابت کیا ہے- مصنوعی ذہانت کی اس دوڑ کو مزید پیچیدہ بنانے والی بات یہ ہے کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کی ٹیکنالوجی سے بھی استفادہ کر رہے ہیں- کچھ امریکی منصوبے چینی اوپن سورس AI ماڈلز پر انحصار کر رہے ہیں، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ تکنیکی ترقی یک طرفہ نہیں بلکہ باہمی تعاون پر بھی مبنی ہے- اگرچہ عمومی تصور یہی ہے کہ چینی کمپنیاں امریکی ٹیکنالوجی کی نقل کرتی ہیں، لیکن حالیہ مثالیں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ کچھ امریکی منصوبے بھی چینی AI ماڈلز سے فائدہ اٹھا رہے ہیں- اس کا مطلب یہ ہے کہ AI کی ترقی صرف مقابلے پر نہیں بلکہ باہمی استفادے پر بھی قائم ہے- امریکہ نے تاریخی طور پر سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی کے ماہرین کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے، لیکن جغرافیائی سیاسی کشیدگی اور سخت امیگریشن پالیسیوں کی وجہ سے یہ رجحان تبدیل ہو سکتا ہے -[6]

امریکہ اور چین کے درمیان مصنوعی ذہانت کی بڑھتی ہوئی مسابقت ایک پیچیدہ جغرافیائی و سیاسی جدوجہد میں تبدیل ہو چکی ہے اور قومی سلامتی سے آگے دیکھیں تو AI عالمی معیشت اور سماجی ترقی کے لیے ایک بڑی قوت بن چکی ہے- جو صرف ٹیکنالوجی کی برتری تک محدود نہیں رہی- ابتدا میں اسے معاشی دوڑ کے طور پر پیش کیا گیا اور امریکی پالیسی سازوں نے جدید سیمی کنڈکٹر ٹیکنالوجی اور AI اسکیلنگ قوانین میں اپنی ابتدائی برتری کو برقرار رکھنے کی کوشش کی- تاہم، چین نے اس فرق کو کم کر لیا ہے اور کم کمپیوٹنگ وسائل استعمال کرتے ہوئے تقریباً مساوی نتائج حاصل کر لیے ہیں، جس پر امریکہ نے سخت برآمدی پابندیاں عائد کر کے چین کی AI ترقی کو روکنے کی کوشش کی- لیکن یہ حکمت عملی الٹ ثابت ہوئی کیونکہ ان پابندیوں نے چین کو مزید خود کفالت کی راہ پر ڈال دیا- چونکہ دنیا کے تقریباً نصف AI ماہرین چینی پس منظر سے تعلق رکھتے ہیں- ڈیٹا شیئرنگ معاہدے اور غیر عسکری AI منصوبے، کشیدگی کم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں- ایک عالمی AI سیکیورٹی اتحادAI کی اخلاقی ترقی کو فروغ دے سکتا ہے اور غیر متوازن ٹیکنالوجی کے پھیلاؤ سے پیدا ہونے والے خطرات کو کم کر سکتا ہے - [7]

واشنگٹن AI کمپیوٹ پاور، وہ کمپیوٹیشنل وسائل جو AI ماڈلز کی تربیت اور ان کے نفاذ کے لیے استعمال ہوتے ہیں پر سخت ضابطے لگا رہا ہے، جبکہ چین ان رکاوٹوں کو نظرانداز کرتے ہوئے متبادل راستے اختیار کر رہا ہے- چونکہ چین کو اعلیٰ درجے کے AI کمپیوٹ میں امریکہ کے برابر آنے میں وقت لگے گا، اس لیے اس نے کم لاگت اور زیادہ مؤثر AI ٹیکنالوجیز پر توجہ مرکوز کر رکھی ہے- مزید برآں، چین اوپن سورس AI، کلاؤڈ انفراسٹرکچر اور عالمی ڈیٹا ایکوسسٹمزمیں اپنی گرفت مضبوط کر رہا ہے، جس سے وہ ان ممالک کو سستی اور بغیر کسی پابندی کے AI تک رسائی فراہم کر رہا ہے جو امریکی پالیسیوں سے نالاں ہیں- اس کا مطلب صرف AI مقابلہ نہیں بلکہ عالمی ڈیجیٹل انفراسٹرکچر پر کنٹرول کی جنگ ہے-

یہ ضابطے نہ صرف امریکہ کے قریبی اتحادیوں کے ساتھ تعلقات کو نقصان پہنچا رہے ہیں بلکہ ان ممالک کو بھی دور دھکیل رہے ہیں جو امریکہ اور چین کے درمیان توازن قائم رکھنا چاہتے ہیں، جیسے پاکستان، بھارت، انڈونیشیا، برازیل،  ترکیہ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات- ان پابندیوں کے باعث امریکہ کے ٹیکنالوجی فراہم کنندگان کے لیے ابھرتی ہوئی مارکیٹوں میں کام کرنا مشکل ہو رہا ہے، جبکہ چین ان مواقع سے فائدہ اٹھا کر اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہا ہے- امریکہ پہلے ہی ٹیلی کمیونیکیشن کے میدان میں ہواوے پر پابندیاں لگا کر ایسی ہی غلطی کر چکا ہے، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہواوے نے دیگر خطوں میں اپنی گرفت مضبوط کر لی- اگر یہی غلطی AI کے شعبے میں بھی دہرائی گئی تو امریکہ اپنی ٹیکنالوجی برتری کھو سکتا ہے -[8]

امریکہ اور چین کی مصنوعی ذہانت کی دوڑمیں اسٹریٹجک فوائد اور کمزوریاں

امریکہ اور چین کے درمیان مصنوعی ذہانت (AI) کی دوڑ میں دونوں ممالک اپنے اپنے منفرد فوائد اور چیلنجز کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں- یہ مقابلہ صرف اس بات کا نہیں کہ کون سا ملک جدید ترین ٹیکنالوجی رکھتا ہے، بلکہ یہ بھی اہم ہے کہ کون اپنے اندرونی مسائل کو بہتر طریقے سے حل کرکے مسلسل ترقی کو ممکن بناتا ہے- امریکہ کو کئی اہم اسٹریٹجک فوائد حاصل ہیں- دنیا کی بہترین جامعات، تحقیقاتی ادارے اور عالمی سطح پر مانے جانے والے سائنس دان امریکی تحقیق کو ایک نمایاں مقام دلاتے ہیں- امریکی حکومت، نجی شعبہ اور تعلیمی اداروں کے درمیان ہم آہنگی اور نئی ایجادات کے لیے سازگار ماحول فراہم کرتی ہے- سلیکون ویلی (Silicon Valley) جیسی جگہیں اور مضبوط سرمایہ کاری کا نظام AI ٹیکنالوجیز کو تجارتی طور پر کامیاب بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں- اس کے ساتھ ساتھ، امریکہ کا intellectual property کا مؤثر تحفظ، سیمی کنڈکٹر ڈیزائن اور مینوفیکچرنگ میں مہارت، بنیادی AI تحقیق میں عالمی قیادت اور عالمی سطح پر ٹیکنالوجی شراکت داری کا نیٹ ورک اس کی پوزیشن کو مزید مضبوط بناتے ہیں-

چین بھی اپنے طور پر کئی اہم برتریوں کا حامل ہے- اس کی بڑی آبادی کی وجہ سے وہاں ڈیٹا کی بے پناہ مقدار دستیاب ہے، جو AI کو تربیت دینے میں مدد دیتی ہے- چینی حکومت کی جانب سے AI کو قومی ترجیح دیا جانا، مالی وسائل کی فراہمی اور تیز رفتار پالیسی نافذ کرنے کی صلاحیت اسے بہت آگے لے جا رہی ہے-’’Made-in-China 2025‘‘ منصوبہ چین کے تکنیکی خودکفالت کے عزم کو ظاہر کرتا ہے- ساتھ ہی، چین میں تیزی سے AI ٹیکنالوجیز کو مختلف شعبوں میں اپنایا جا رہا ہے، اس کے علاوہ وہاں سیمی کنڈکٹرز کی مقامی صنعت بھی ترقی کر رہی ہے- چینی حکومت کا فوجی و شہری ٹیکنالوجی کو یکجا کرنے کا منصوبہ (civil-military fusion) بھی AI میں پیش رفت کو تیز کر رہا ہے -[9]

تاہم، دونوں ممالک کو چیلنجز کا سامنا ہے- امریکہ میں مختلف اداروں کے درمیان AI پالیسی پر ہم آہنگی کی کمی ہے، جس سے پالیسی سازی سست ہو جاتی ہے- اس کے علاوہ پرائیویسی قوانین اور عوامی ردعمل AI کے نفاذ میں رکاوٹ بنتے ہیں، خاص طور پر صحت، تعلیم اور دفاع جیسے حساس شعبوں میں- دوسری جانب، چین کو بنیادی تحقیق میں کمزوری، غیر ملکی ٹیکنالوجی (خاص طور پر سیمی کنڈکٹرز) پر انحصار اور عالمی سطح پر نگرانی و پرائیویسی کے حوالے سے تنقید کا سامنا ہے- چین کی AI ٹیکنالوجیز پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات بھی اس کی ساکھ کو متاثر کرتے ہیں-

AI کی اس عالمی دوڑ میں کامیابی اس پر منحصر ہوگی کہ کون سا ملک اپنی اندرونی کمزوریوں کو مؤثر پالیسیوں، سمارٹ سرمایہ کاری اور ٹیکنالوجی کے درست استعمال سے دور کر سکتا ہے- چونکہ دونوں ممالک مسلسل ترقی کر رہے ہیں اور حالات تیزی سے بدل رہے ہیں- اس لیے یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ کون اس دوڑ میں آگے نکلے گا- تاہم، یہ واضح ہے کہ AI کی عالمی قیادت کا دارومدار صرف ٹیکنالوجی پر نہیں بلکہ اس کے دانشمندانہ اور مؤثر استعمال پر ہوگا -[10]

امریکہ اور چین کے درمیان مصنوعی ذہانت کی دوڑ کے عالمی اثرات

امریکہ اور چین کے درمیان جاری AI کی مسابقت نہ صرف دو طاقتور ممالک کے درمیان ٹیکنالوجی کی برتری کی جنگ ہے، بلکہ یہ عالمی نظام کی تشکیلِ نو کا باعث بن رہی ہے- اس دوڑ کے اثرات دنیا بھر کی معیشت، سیاست، معاشرت اور سیکیورٹی پر مرتب ہو رہے ہیں، جس سے بین الاقوامی تعلقات، اتحادوں کی نوعیت اور ٹیکنالوجی سے متعلق فیصلے شدید طور پر متاثر ہو رہے ہیں- ماہرین کے مطابق یہ مقابلہ 20ویں صدی کی ’’خلائی دوڑ‘‘ کے بعد سب سے اہم ٹیکنالوجیکل مسابقت ہے، جس کے اثرات کہیں زیادہ گہرے اور طویل المدت ہو سکتے ہیں-

معاشی میدان میں دنیا کے کئی ممالک کو اب دو مختلف ٹیکنالوجی ماڈلز کے درمیان انتخاب کرنا پڑ رہا ہے: ایک امریکی ماڈل جو نجی شعبے، انفرادی آزادی اور انوویشن پر زور دیتا ہے، اور دوسرا چینی ماڈل جو ریاستی کنٹرول، تیزی سے اطلاق اور بڑے پیمانے پر ڈیٹا تک رسائی پر انحصار کرتا ہے- اس انتخاب کے نتیجے میں دنیا میں ’’ڈیجیٹل سلک روڈز‘‘ اور ’’سلیکون کاریڈورز‘‘ بن رہے ہیں جو اقتصادی بلاکس کی نئی شکلیں ہیں- ابھرتی ہوئی منڈیاں خاص طور پر اس دباؤ کا شکار ہیں، کیونکہ انہیں نہ صرف ٹیکنالوجی کو اپنانے کا فیصلہ کرنا ہے بلکہ ڈیٹا گورننس، سائبر سیکیورٹی اور اقتصادی شراکت داری کے حوالے سے بھی پالیسیز بنانی پڑ رہی ہیں-

دفاعی لحاظ سے AI اسلحہ سازی، نگرانی اور ڈیجیٹل جنگوں کا نیا میدان بن چکی ہے- خودکار ہتھیاروں، سائبر حملوں اور AI پر مبنی انٹیلیجنس سسٹمز کے ذریعے فوجی توازن میں تبدیلی آ رہی ہے- اس کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر تکنیکی معیارات (standards) کا مقابلہ بھی شدت اختیار کر رہا ہے، جس کی وجہ سے دنیا ایک ’’Digital Iron Curtain‘‘ کی جانب بڑھ رہی ہے، جہاں دو علیحدہ ٹیکنالوجی نظام ابھر سکتے ہیں-ایک امریکی اثر کے تحت اور دوسرا چینی اثر کے تحت -[11]

تحقیقی اور علمی میدان میں بھی عالمی تعاون کی فضا بدل رہی ہے- یونیورسٹیاں اور ریسرچ انسٹیٹیوٹس اب محتاط ہو چکے ہیں، کیونکہ ٹیکنالوجی ٹرانسفر، انٹیلیکچوئل پراپرٹی اور سلامتی سے جڑے خدشات میں اضافہ ہو گیا ہے- اس کی وجہ سے بین الاقوامی تحقیقی تعاون کی رفتار سست ہو رہی ہے، جو کہ عالمی سطح پر اختراعات کے عمل کو متاثر کر سکتی ہے-

اس کے علاوہ مختلف ممالک اب AI گورننس کے لیے اپنی اپنی ریگولیٹری پالیسیاں تشکیل دے رہے ہیں، جو یا تو امریکہ یا چین کے ماڈل سے متاثر ہیں- اسی طرح عالمی سرمایہ کاری کے رجحانات بھی بدل رہے ہیں، کیونکہ ممالک اب سرمایہ کاری کے فیصلے جغرافیائی سیاسی اثرات اور ٹیکنالوجی اتحادوں کی بنیاد پر کر رہے ہیں- باصلاحیت افراد کی عالمی سطح پر نقل و حرکت بھی متاثر ہو رہی ہے، کیونکہ دونوں ممالک دنیا بھر سے ٹیکنالوجی ماہرین کو اپنی جانب کھینچنے کی کوشش کر رہے ہیں، جس سے دوسرے ممالک میں اختراعی صلاحیت کم ہو سکتی ہے-

عالمی حکمرانی کے حوالے سے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ اقوام متحدہ جیسے بین الاقوامی ادارے جو دوسری عالمی جنگ کے بعد تشکیل پائے تھے، وہ اس تیزی سے بدلتی ٹیکنالوجی دنیا سے ہم آہنگ نہیں ہو پا رہے- AI کے محفوظ، اخلاقی اور منصفانہ استعمال کے لیے کوئی جامع اور مؤثر عالمی نظام موجود نہیں، جس سے عالمی سطح پر غیر یقینی صورتحال، خطرات اور بداعتمادی بڑھ رہی ہے- یہی وجہ ہے کہ مختلف خطے اور ممالک اپنی الگ حکمتِ عملیاں اپنا رہے ہیں، جو ایک مزید منقسم اور غیر مربوط عالمی نظام کا پیش خیمہ بن سکتا ہے -[12]

اختتامیہ:

امریکہ اور چین اس وقت مصنوعی ذہانت کے شعبے میں دنیا کی دو بڑی طاقتیں سمجھی جا رہی ہیں اور ان کے درمیان ایک ٹیکنالوجیکل سرد جنگ کی سی کیفیت پیدا ہو چکی ہے- امریکہ اس میدان میں کئی دہائیوں سے تحقیق اور ترقی کے عمل میں مصروف ہے، جہاں بڑی ٹیکنالوجی کمپنیاں جیسے گوگل، مائیکروسافٹ، اوپن اے آئی اور دیگر ادارے جدید ترین AI ماڈلز، جیسے چیٹ بوٹس، تصویری تجزیے اور مشینی سیکھنے کے نظامات پر کام کر رہے ہیں- امریکہ کو سائنسی برتری، اعلیٰ تعلیمی اداروں اور نجی سرمایہ کاری کے اعتبار سے فوقیت حاصل ہے-

چین نے مصنوعی ذہانت کو اپنی ترقی کی اہم پالیسی بنا لیا ہے اور وہ 2030ء تک اس میدان میں دنیا کی قیادت کرنا چاہتا ہے- حکومت کی مکمل حمایت، بہت زیادہ ڈیٹااور سرکاری و نجی اداروں کے باہمی تعاون کی وجہ سے چین AI میں تیزی سے ترقی کر رہا ہے- Huawei، Baidu اور Alibaba جیسے ادارے بھی اس پر کام کر رہے ہیں- دوسری طرف، امریکہ چین کی AI ترقی کو اپنے لیے خطرہ سمجھتا ہے، اس لیے اس نے چین پر پابندیاں لگائیں اور جدید چپس کی برآمد روکنے کی کوشش کی- لیکن چین ان رکاوٹوں کے باوجود اپنی ٹیکنالوجی خود بنانے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ خودکفیل بن سکے-

مجموعی طور پر، یہ دوڑ صرف تکنیکی ترقی تک محدود نہیں بلکہ اس کا اثر عالمی سیاست، معیشت اور فوجی طاقت پر بھی پڑ رہا ہے- مستقبل میں AI نہ صرف ٹیکنالوجی کی بنیاد پر دنیا کی طاقت کا توازن طے کرے گا بلکہ یہ طے کرے گا کہ کس ملک کی اقدار اور نظام دنیا پر غالب آئیں گے- لہٰذا، دیگر ممالک کو بھی اس میدان میں مؤثر حکمت عملی اپنانا ہوگی تاکہ وہ اس مقابلے میں پیچھے نہ رہ جائیں-

٭٭٭


[1]IBM, "What Is Artificial Intelligence (AI)?," IBM Think Topics, accessed 9 August 2024,

https://www.ibm.com/think/topics/artificial-intelligence.

[2]National Committee on U.S.-China Relations. "The U.S.-China AI Race." NCUSCR Podcast, March 2025. Accessed March 24, 2025. https://www.ncuscr.org/podcast/us-china-ai-race/.

[3]Mozur, Paul. “Why U.S.-China AI Competition Matters.” New America, August 2023.

https://www.newamerica.org/cybersecurity-initiative/reports/essay-reframing-the-us-china-ai-arms-race/why-us-china-ai-competition-matters/.

[4]Husain, Ishrat. "Alternative to New Varsity." Dawn, March 22, 2025.

 https://www.dawn.com/news/1899555.

[5]Jean Dong and Christoph Nedopil, "AI: China and the US Go Head to Head," The Interpreter, Lowy Institute, February 25, 2025, https://www.lowyinstitute.org/the-interpreter/ai-china-us-go-head-head.

[6]Singer, Andrew. "Stakes Rising in the US-China AI Race." Global Finance, September 9, 2024.

https://gfmag.com/economics-policy-regulation/us-china-competition-generative-ai/.

[7]Graylin, Alvin Wang, and Paul Triolo. "There Can Be No Winners in a US-China AI Arms Race." MIT Technology Review, January 21, 2025. https://www.technologyreview.com/2025/01/21/1110269/there-can-be-no-winners-in-a-us-china-ai-arms-race/.

[8]Kennedy, Mark. "America’s AI Strategy: Playing Defense While China Plays to Win." Wilson Center, January 24, 2025. https://www.wilsoncenter.org/article/americas-ai-strategy-playing-defense-while-china-plays-win.

[9]Global Finance. (2023). U.S.-China competition in generative AI. https://gfmag.com/economics-policy-regulation/us-china-competition-generative-ai/

[10]Michael Craddock, "Inside the US-China Race for Technological Supremacy," Medium, July 6, 2023, https://medium.com/@mcraddock/inside-the-us-china-race-for-technological-supremacy-52cb5c3df063.

[11]Jean Dong and Christoph Nedopil, "AI: China and the US Go Head to Head," The Interpreter, Lowy Institute, February 25, 2025, https://www.lowyinstitute.org/the-interpreter/ai-china-us-go-head-head.

[12]Horizon Advisory, "The Age of AI in U.S.-China Great Power Competition: Strategic Implications, Risks, and Global Governance," Horizon, June 15, 2023, https://behorizon.org/the-age-of-ai-in-u-s-china-great-power-competition-strategic-implications-risks-and-global-governance/#:~:text=The%20U.S.%2DChina%20competition%20in,%2C%20cryptography%2C%20and%20computing%20power.

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر