معاشرتی انصاف اور قانون کی بالادستی

معاشرتی انصاف اور قانون کی بالادستی

معاشرتی انصاف اور قانون کی بالادستی

مصنف: غلام یٰسین مئی 2025

 معاشرتی انصاف (Social justice ) سے مراد ایسا منصفانہ نظام ہے جس میں تمام افراد کو برابری کے مواقع، بنیادی حقوق اور وسائل کی منصفانہ تقسیم حاصل ہو- اس میں نسل، زبان، مذہب، جنس یا طبقاتی تفریق کے بغیر تمام انسانوں کو باعزت زندگی گزارنے کا حق دیا جاتا ہے-

قانون کی بالادستی (Rule of Law) سے مراد یہ ہے کہ ریاست میں تمام افراد، ادارے اور حکمران خود بھی قانون کے تابع ہوں اور کسی کو قانون سے بالاتر نہ سمجھا جائے- قانون سب کے لیے یکساں ہو اور اس پر غیر جانب داری سے عمل درآمد ہو-

انسانی معاشرے کی فلاح و بہبود، امن و استحکام اور ترقی کا راز دو بنیادی اصولوں میں مضمر ہے: معاشرتی انصاف اور قانون کی بالادستی- جب تک معاشرے میں ہر فرد کے ساتھ مساوی سلوک، حقوق کی پاسداری اور قانون کا یکساں نفاذ نہ ہو، تب تک کوئی قوم پائیدار ترقی حاصل نہیں کر سکتی- تاریخ گواہ ہے کہ جن اقوام نے انصاف اور قانون کو ترجیح دی، وہ بلند ہوئیں اور جنہوں نے ان اصولوں کو نظرانداز کیا، وہ زوال پذیر ہوئیں-

مشہور مفکرین، اور معاشرتی انصاف (Social Justice) کی تعاریف :

 افلاطون (Plato)

’’معاشرتی انصاف تب حاصل ہوتا ہے جب معاشرے کا ہر فرد اپنا مقررہ فریضہ انجام دیتا ہے اور دوسروں کے امور میں دخل نہیں دیتا‘‘-[1]

افلاطون کے مطابق، ایک مثالی ریاست میں انصاف اس وقت قائم ہوتا ہے جب حکمران، سپاہی اور کاریگر اپنے اپنے کام سرانجام دیں اور دوسرے کے کام میں دخل نہ دیں-

 امام غزالی

’’عدل و انصاف ایک ایسا معیار ہے جس سے انسانوں کے مابین توازن قائم ہوتا ہے اور جس سے ہر فرد کو اس کا حق دیا جاتا ہے‘‘-[2]

امام غزالیؒ کے مطابق عدل صرف قانون کی سطح پر نہیں بلکہ اخلاقی اور روحانی پہلوؤں میں بھی ضروری ہے-

 جان رالز (John Rawls)

’’معاشرتی انصاف کا مطلب ہے کہ معاشرے کے بنیادی ڈھانچے اس طرح منظم ہوں کہ وہ سب سے زیادہ فائدہ کمزور طبقے کو پہنچائیں‘‘-[3]

جان رالز نے ’’Justice as Fairness‘‘ کا تصور دیا، جس میں انصاف کو مساوی مواقع، آزادی اور بنیادی حقوق کی فراہمی کے ساتھ جوڑا گیا-

قانون کی بالادستی (Rule of Law) اور مختلف مفکرین کی تعریفیں:

 الفارابی (Al-Farabi)

الفارابی نے اپنی تصانیف میں سیاسی فلسفہ اور حکومت کے اصولوں پر بات کی- اس کے مطابق، قانون کی بالادستی کا مقصد انصاف کی فراہمی ہے اور حکمران کو اپنی طاقت کو قانون کے تابع رکھتے ہوئے عوامی مفاد میں فیصلے کرنے چاہئیں- الفارابی کے نزدیک، قانون کا اصل مقصد انسانی فلاح ہے اور حکومتی طاقت کو بھی اس کے مطابق چلنا چاہیے-[4]

 ابن تیمیہ (Ibn Taymiyyah)

ابن تیمیہ نے اپنے فقہی اور سیاسی نظریات میں قانون کی بالادستی پر زور دیا- ان  کے مطابق، شریعت کا قانون تمام حکومتی فیصلوں پر فوقیت رکھتا ہے اور حکومت کو شریعت کے مطابق فیصلے کرنے چاہئیں- انہوں نے کہا کہ حکمران کو قانون سے بالا تر نہیں سمجھا جا سکتا اور اس کی طاقت کو عوام کے مفاد میں استعمال کرنا چاہیے-[5]

دین اسلام میں معاشرتی انصاف اور قانون کی بالادستی:

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو انسان کی انفرادی و اجتماعی زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے- اسلام کا ایک بنیادی اصول ’’عدل و انصاف‘‘ ہے، جو معاشرتی فلاح و بہبود، امن و سلامتی اور قانون کی بالادستی کی بنیاد ہے- قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں بارہا عدل و انصاف کے قیام اور قانون کی پابندی پر زور دیا گیا ہے-

 عدل و انصاف کا قرآنی تصور :

 عدل اللہ کا حکم ہے:

’’وَ اَقِیْمُوا  الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَ لَا تُخْسِرُوا الْمِیْزَانَ‘‘[6]

’’تول کو انصاف کے ساتھ قائم رکھو اور میزان میں کمی نہ کرو‘‘-

یہ آیت کریمہ بتاتی ہے کہ انصاف نہ صرف انسانی معاملات بلکہ کائناتی نظام کی بنیاد ہے- اللہ تعالیٰ نے انسان کو بھی حکم دیا کہ وہ اپنے معاملات میں عدل کو قائم رکھے-

 عدل سے قربِ الٰہی حاصل ہوتا ہے:

’’اِنَّ اللہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ ‘‘[7]

’’بیشک اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے‘‘-

یہ آیت کریمہ عدل کے اعلیٰ درجے کو ظاہر کرتی ہے کہ یہ نہ صرف ایک اخلاقی فریضہ ہے بلکہ اللہ کی محبت کا سبب بھی ہے-

’’یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُہَدَآءَ لِلہِ وَ لَوْ عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ اَوِالْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ‘[8]

’’اے ایمان والو! عدل کے ساتھ قائم رہنے والے بنو، اللہ کے لیے گواہی دیتے ہوئے، خواہ وہ خود تمہارے خلاف ہو یا والدین اور قریبی رشتہ داروں کے خلاف‘‘-

یہ آیت کریمہ معاشرتی انصاف کی اعلیٰ مثال ہے کہ انصاف کے قیام میں رشتہ داری یا ذاتی مفاد کی کوئی گنجائش نہیں-

قانون کی بالادستی:

’’وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْکٰفِرُوْنَ‘‘[9]

’’اور جو اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کرے، تو ایسے ہی لوگ کافر ہیں‘‘-

یہ آیت کریمہ  واضح کرتی ہے کہ قانون کی بالادستی نہ صرف اہم بلکہ ایمان کا تقاضا ہے-

حضور  نبی کریم () کا عمل:

ام المومنین حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا)سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’اے لوگو! تم سے پہلے قومیں اس لیے ہلاک ہوئیں کہ جب ان کا کوئی معزز چوری کرتا تو اُسے چھوڑ دیتے اور جب کوئی کمزور چوری کرتا تو اُسے سزا دیتے- اللہ کی قسم! اگر فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرتی تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دیتا ‘‘-[10]

یہ حدیث پاک رسول اکرم (ﷺ) کے قول و فعل سے قانون کی بالادستی اور مساوات کی بہترین مثال ہے-

 حضرت عمر بن خطاب (رضی اللہ عنہ)نے فرمایا:

’’لوگوں کو اُن کے حقوق دینا ہی عدل ہےاور عدل کے بغیر حکومت ظلم ہے‘‘-

اسی طرح آپ کا قول ہے:

’’اگر دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی پیاسا مر گیا، تو مجھے اس کا جواب دینا ہوگا‘‘-

یہ اقوال اسلامی معاشرت میں قانون کی بالادستی اور انصاف پسندی کی عملی تصویر ہیں-[11]

 عدل سے معاشرے میں اطمینان، امن اور بھائی چارہ قائم ہوتا ہے-اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں کی مدد کرتا ہے-

’’وَلَا تَحْسَبَنَّ اللہَ غَافِلًا عَمَّا یَعْمَلُ الظّٰلِمُوْنَ‘‘[12]

’’اور ہرگزاللہ کو بے خبر نہ جاننا ظالموں کے کام سے‘‘-

معاشرتی انصاف اور قانون کی بالادستی نہ صرف اسلامی نظام کا بنیادی ستون ہے بلکہ ہر فرد، طبقے اور حکمران پر اس کا نفاذ یکساں اور لازمی ہے- معاشرے کی فلاح و بقاء عدل کے بغیر ممکن نہیں اور جہاں انصاف نہیں، وہاں انتشار، ظلم اور تباہی مقدر بن جاتی ہے-

معاشرتی انصاف اور قانون کی بالادستی کی تاریخی اہمیت :

قدیم تہذیبوں میں معاشرتی انصاف کا تصور انسانی تہذیب کے ابتدائی ادوار سے موجود ہے- بابلی دور میں بادشاہ حمورابی (Hammurabi) نے 1754ء قبل مسیح میں ایک جامع قانون (Hammurabi’s Code) مرتب کیا، جس کا مقصد انصاف کی فراہمی اور معاشرتی توازن قائم کرنا تھا- اس کو انسانی تاریخ کا پہلا تحریری قانونی مجموعہ قرار دیا جاتا ہے-

مصری تہذیب میں ماعت (Ma’at) نامی دیوی کو انصاف کی علامت سمجھا جاتا تھا- اسی طرح قدیم چین میں ’’کنفیوشس‘‘ نے معاشرتی ہم آہنگی اور اخلاقی ذمہ داریوں پر زور دیا-[13]

 یونانی اور رومی فلسفہ:

یونانی فلسفی افلاطون نے اپنی کتاب The Republic میں ایک مثالی ریاست کا خاکہ پیش کیا، جس کی بنیاد انصاف پر رکھی گئی- ارسطو کے نزدیک انصاف وہ عنصر ہے جو فرد اور ریاست کے درمیان توازن قائم رکھتا ہے- رومی تہذیب میں بھی انصاف کے اصولوں کو بنیادی حیثیت حاصل تھی-[14]

اسلام نے معاشرتی انصاف کو ایک بنیادی اصول قرار دیا- حضور نبی کریم (ﷺ) نے مدینہ منورہ میں جو ریاست قائم کی، وہ معاشرتی انصاف کا عملی نمونہ تھی- معاہدۂ مدینہ اس بات کا گواہ ہے کہ مسلمانوں، یہودیوں اور دیگر اقوام کو مساوی شہری حقوق دیے گئے-[15]

معاشرتی انصاف اور قانون کی بالادستی و آئین پاکستان

پاکستان کے آئین میں معاشرت:

سماجی انصاف (Social Justice) اور قانونی بالادستی (Rule of Law) کو بنیادی اصولوں اور شہری حقوق کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے- آئین ِ پاکستان 1973ء میں ان تصورات کو مختلف شقوں (Articles) میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے-

 تمہید (Preamble)

آئین کی تمہید میں ہی ان اصولوں کی بنیاد رکھ دی گئی ہےکہ :

’’ریاست عوام کو جمہوریت، آزادی، مساوات، رواداری اور معاشرتی انصاف کے اصولوں کے مطابق، جیسا کہ اسلام نے ان کی تشریح کی ہے، زندگی بسر کرنے کے قابل بنائے گی‘‘-

یہ تمہید پورے آئین کی روح کو ظاہر کرتی ہے کہ ریاست کا مقصد ایک ایسی فلاحی اسلامی ریاست قائم کرنا ہے جو معاشرتی انصاف اور قانونی بالادستی پر قائم ہو-

آرٹیکل 2A اسلامی دفعات (Objective Resolution کا حصہ بننا)

’’قرار دادِ مقاصد کو آئین کا مستقل حصہ بنایا گیا ہے‘‘-

’’...جس میں انسانوں کو ان کے سیاسی، معاشی، سماجی اور ثقافتی حقوق فراہم کیے جائیں گے اور جہاں اقلیتوں کو اپنی ثقافت، مذہب، عبادات کی آزادی حاصل ہو گی‘‘-

یہ آرٹیکل بنیادی انسانی حقوق، معاشرتی انصاف اور قانونی مساوات کی ضمانت دیتا ہے-

3. آرٹیکل 4 – قانون کے تحفظ کا حق

(Right of individuals to be dealt with in accordance with law)

’’ہر شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ اس کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک کیا جائے اور اسے قانونی تحفظ حاصل ہو‘‘-

یہ آئینی ضمانت دیتی ہے کہ کسی بھی فرد کو قانون سے ماورا سزا یا سلوک کا نشانہ نہیں بنایا جا سکتا- یہ ’’Rule of Law‘‘کی بنیاد ہے-

4. آرٹیکل 8 تا 28 – بنیادی حقوق

(Fundamental Rights)

یہ تمام دفعات معاشرتی انصاف اور قانونی مساوات پر زور دیتی ہیں، مثلاً:

آرٹیکل 9 – زندگی اور آزادی کا تحفظ

’’کسی شخص کو زندگی یا آزادی سے محروم نہیں کیا جائے گا، سوائے قانون کے مطابق‘‘-

آرٹیکل 10 – گرفتاری اور نظربندی کے خلاف تحفظ

آرٹیکل 25 – مساوات کا حق

’’تمام شہری قانون کی نظر میں برابر ہیں اور قانون کا مساوی تحفظ رکھتے ہیں‘‘-

یہ دفعات انصاف کی فراہمی، قانون کی بالادستی اور ہر فرد کے لیے برابری کی ضمانت دیتی ہیں-

5. آرٹیکل 37 – فلاحی اصولوں پر عمل

)Promotion of Social Justice and Eradication of Social Evils(

 ریاست کی یہ ذمہ داری ہو گی کہ وہ:

(a) انصاف اور مساوات کے اصولوں کے مطابق معاشرتی برائیوں کا خاتمہ کرے

(b) سماجی انصاف کو فروغ دے

یہ شق ریاست کو پابند کرتی ہے کہ وہ معاشرتی انصاف کو فروغ دے اور طبقاتی ناہمواری ختم کرے-

6. آرٹیکل 38 – عوامی فلاح و بہبود

)Promotion of Social and Economic Well-being of the People(

’’ریاست اس امر کو یقینی بنائے گی کہ:

(a) عوام کو بنیادی ضروریاتِ زندگی (خوراک، رہائش، تعلیم، علاج) میسر ہوں

(b) دولت و ذرائع پیداوار کی تقسیم چند ہاتھوں میں مرتکز نہ ہو‘‘-

معاشرتی نا انصافی اور لاقانونیت کے نقصانات :

جب کسی ریاست یا معاشرے میں معاشرتی انصاف اور قانون کی بالادستی نہ ہو، تو اس کے نتیجے میں انفرادی، اجتماعی، معاشی اور سیاسی سطح پر تباہ کن نقصانات سامنے آتے ہیں-

جب معاشرتی انصاف ختم ہوتا ہے تو امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا جاتا ہے، جس سے نفرت، حسد اور دشمنی جنم لیتی ہے-

’’کَیْ لَا یَکُوْنَ  دُوْلَۃًۢ  بَیْنَ الْاَغْنِیَآءِ مِنْکُمْ‘‘[16]

’’تاکہ دولت تمہارے مالداروں کے درمیان ہی نہ گھومتی رہے‘‘-

جب محروم طبقات کو انصاف نہ ملے تو وہ ریاستی نظام سے بدظن ہو جاتے ہیں، جو آخرکار بغاوت اور خانہ جنگی کا سبب بن سکتا ہے-

جب قانون کمزور ہو تو طاقتور طبقہ قانون سے بالاتر ہو جاتا ہے اور انصاف صرف طاقتور کیلیے مخصوص ہو جاتا ہے-جہاں قانون کی بالادستی نہ ہو وہاں ظالم کو کھلی چھوٹ مل جاتی ہے اور مظلوم کو کوئی پناہ نہیں ملتی-

’’وَلَا تَرْكَنُوْٓا اِلَى الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّكُمُ ٱلنَّارُ‘‘[17]

’’ظالموں کی طرف جھکاؤ بھی اختیار نہ کرو، ورنہ تمہیں عذاب پکڑ لے گا‘‘-

قانونی نظام کمزور ہونے کی صورت میں حکومتیں غیر مستحکم ہو جاتی ہیں، جس سے سرمایہ کار بھاگ جاتے ہیں، معیشت گرتی ہےاور عالمی سطح پر بدنامی ہوتی ہے-

حرف آخر :

اسلام  اور جدید قانونی تعبیرات ، دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ معاشرتی انصاف اور قانونی بالادستی کسی بھی ریاست کے لیے زندگی کی مانند ہیں- اگر یہ اصول ٹوٹ جائیں تو معاشرہ اندر سے کھوکھلا، ظالموں کا گڑھ اور مظلوموں کا قبرستان بن جاتا ہے-

معاشرتی انصاف اور قانونی بالادستی وہ دو ستون ہیں جن پر کوئی بھی ترقی یافتہ، مستحکم اور خوشحال ریاست قائم ہو سکتی ہے- ان اصولوں کی موجودگی معاشرتی امن، معاشی ترقی، عدالتی انصاف اور انسانی وقار کی ضمانت ہے-

معاشرتی انصاف اور قانون کی بالادستی نہ صرف ایک مثالی ریاست کی بنیاد ہیں بلکہ انسانی بقا، سلامتی اور ترقی کے ضامن بھی ہیں- تاریخ نے ہمیں بارہا سکھایا ہے کہ عدل و قانون کے بغیر کوئی معاشرہ دیرپا نہیں ہو سکتا- آج کی دنیا میں بھی اگر اقوام ترقی اور امن چاہتی ہیں تو انہیں انہی دو اصولوں کو بنیاد بنانا ہوگا- اسلامی تعلیمات، قدیم و جدید تہذیبیں اور عالمی معاہدے ان کی اہمیت پر متفق ہیں-

٭٭٭


[1]Plato, The Republic, Book IV

[2]امام غزالی، احیاء علوم الدین

[3]Rawls, John. A Theory of Justice. Harvard University Press, 1971.

[4]الفارابی میدانی حکومت (Al-Madina al-Fadhila).

[5]ابن تیمیہ, السیاسہ الشریعہ (Al-Siyasah al-Shar'iyyah)

[6](الرحمن: 9)

[7](المائدہ: 42)

[8](النساء: 135)

[9](المائدہ: 44)

[10](صحیح بخاری، رقم الحدیث:6788)

[11](نہج البلاغہ، خطبہ: 216 )

[12](ابراہیم: 42)

[13]Roth, Martha T. Law Collections from Mesopotamia and Asia Minor, 1995.

Allen, James P. Middle Egyptian: An Introduction to the Language and Culture of Hieroglyphs, 2000.

[14]Plato, The Republic, Trans. G. M. A. Grube, 1992.

Nicholas, Barry. An Introduction to Roman Law, 1962.

[15]Watt, W. Montgomery. Muhammad at Medina, Oxford Univerisity press 1956

[16](الحشر:7)

[17](ھود:113)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر