تقابلِ ادیان کےراہ رو 'توشی ہیکو ایزوتسو' کی زندگی پر ایک نظر

تقابلِ ادیان کےراہ رو  'توشی ہیکو ایزوتسو'  کی زندگی پر ایک نظر

تقابلِ ادیان کےراہ رو 'توشی ہیکو ایزوتسو' کی زندگی پر ایک نظر

مصنف: حافظ محمد شہباز عزیز مئی 2023

دنیا میں فردِ واحد کی بقا اس کلیہ پہ محیط ہے کہ وہ ایسے کارنامے سر کرجائے جس کی وجہ سے اسے مرنے کے بعد بھی یاد رکھا جاسکے- تاریخ ایسے ناموں سے بھری پڑی ہے جنہوں نے اپنی ذات سے ایسے کام انجام دئیے ہیں کہ صدیاں گزرنے کے بعد بھی انہیں بھلایا نہیں گیا- میدانِ علم و ہنر میں ایک ایسا ہی نام غیر اسلامی دنیا کے مفکر کا ہے جنہیں اپنی علمی خدمات کے باعث اسلامی دنیا میں بھی شہرت حاصل ہوئی- ہماری مراد جاپان سے تعلق رکھنے والے معروف اسکالر ”توشی ہیِکو اِیزُوتسو“ (Toshihiko Izutsu)ہیں جنہیں علمی دنیا اور بالخصوص تقابلِ ادیان میں اپنی مہارت کی وجہ سے یاد کیا جاتا ہے-

وہ اسلام، ہندو ادوَیت وَیدانتا، مہایان زین بدھ مت (بدھ مت کے دو بڑے مکاتب فکر ہیں- ہنایان اور مہایان- زین بدھ مت مہایان مکتب فکر کی ایک شاخ ہے جس میں مراقبہ کو کافی اہمیت حاصل ہے) اور فلسفیانہ تاؤازم کی مابعد الطبیعات، فلسفہ و حکمت کے افکار میں کمال گرفت رکھتے تھے- اُنہیں 30 سے زائد زبانوں پہ عبور حاصل تھا جن میں عربی، فارسی، سنسکرت، پالی، چینی، جاپانی، روسی اور یونانی زبانیں شامل ہیں- ان کی تحقیقات (اکثر سفری و ملاقاتی ادوار کے باعث) مشرق وسطیٰ (خاص طور پر ایران)، ہندوستان، یورپ، شمالی امریکہ جیسے علاقوں میں ہوئیں جو تقابلِ ادیان کے نہج میں مباحثِ مابعد الفلسفہ کی حیثیت رکھتی ہیں اور روایتی مابعد الطبیعیاتی متون کے لسانی مطالعہ کی بنیاد پر مبنی ہیں- وہ مشرقی روایات اور مذاہب جیسے کہ اسلام، تاؤ مت اور بدھ مت کا بہت زیادہ احترام کرتے تھے اور بین المذاہب ہم آہنگی کے ساعی تھے- انہیں علومِ اسلامیہ کے معروف جاپانی غیر مسلم عالم کے طور پہ جانا جاتا ہے- جاپانی اور انگریزی میں 30 سے زائد علمی کام ان سے منسوب ہیں جو ان کی دقیق نظریاتی دلائل اور فکری انفرادیت کو واضح کرتے ہیں - توشی ہیکو ایزوتسو کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے پہلی بار براہ راست عربی زبان سے جاپانی زبان میں قرآن  کریم کا ترجمہ مکمل کیا-[1]

ابتدائی زندگی: 

پروفیسر ایزوتسو جاپان کےشہر ٹوکیو کے ایک امیر خاندان میں4 مئی 1914ء کو پیدا ہوئے-ان کے والد ایک خطاط اور زین بدھ مت سے تعلق رکھتے تھے- کم عمری میں ہی زین بدھ مت کی روایات بالخصوص مخصوص مراقبے کے طریق سے روشناس ہوئے - اسکول کےدنوں میں اسلامی علوم میں ان کی دلچسپی پیدا ہوئی- جب اسکول میں عیسائیت کے زیرِ اثر انہیں اپنے آبائی مذہب پہ تنقید کا سامنا کرنا پڑا تو ان میں مذاہب کے متعلق جاننے کی فکر اور سمجھ نے جنم لیا- ابتداء میں وہ باقاعدگی سے ٹوکیو میں موجود مسجد اور ترک اسلامک سینٹر جایا کرتے تھے اور وہاں ترکی اور عربی زبان سیکھتے تھے-آغاز میں ممتاز مسلم اسکالر موسی ٰ کار اللہ بگیف کے ساتھ انہوں نے صحیح مسلم سمیت دیگر کلاسیکی عربی متون اور شاعری پڑھی- [2]

تعلیم و تدریس:

پروفیسر ایزوتسو شاعرانہ نظریات کے ادبی نقاد تھے،’ جون زِبئیرو نِشیِواکی‘کی شعری تخلیقات کو پڑھنا پسند کرتے تھےجو Keio یونیورسٹی کی فیکلٹی آف لیٹرز کے پروفیسر تھے- ان سے متاثر ہوکر ہی ایزوتسو نے 1931ء میں جامعہ میں داخلہ لیا- اولاً والد کے اصرار پر معاشیات پڑھی لیکن زبان و بیان اور شعر و ادب سے ذاتی دلچسپی کے غالب آنے کے باعث شعبہ انگریزی میں تبادلہ کروالیا- [3]

1942ءمیں اسی یونیورسٹی کے انسٹیٹیوٹ برائےعلومِ ثقافت و زبان میں مشرقی زبانوں کے ماہر کے طور پر کام کرنا شروع کیا- 1945ء میں شعبہ عربی کے سربراہ مقرر ہوئے  اور 9 برس کےعرصے میں پروفیسر کے عہدے پر فائز ہوئے- 1959ء میں راک فیلر فیلو اسکالرشپ حاصل کرکے مصر اور لبنان میں رہے- 1962ء میں ولفریڈ سمتھ نے انہیں کینیڈا مدعو کیا جہاں انہوں نے 1969ء تک میک گل یونیورسٹی میں مہمان پروفیسر کے طور پہ خدمات انجام دیں- بعد ازیں انہیں وہاں کُل وقتی پروفیسر شپ سے نوازا گیا-1972ء میں انہوں نے میک گل یونیورسٹی کی تہران برانچ میں تدریسی فرائض سر انجام دئیے-اس دوران ایزوتسو کی کئی نامور مغربی اور اسلامی مفکرین سے ملاقاتیں ہوئیں- 1979ء میں وہ جاپان واپس آگئے ،کچھ عرصے بعد کےیو یونیورسٹی میں وہ بطور متقاعد پروفیسر(ریٹائر ہونے کے بعد اعزازی پروفیسر) کے خدمات انجام دیتے رہے- انہوں نےکئی مایہ ناز کتب تحریر کیں جو ان کی عالمی شناخت کا موجب ٹھہریں- 7 جنوری 1993ءکو اپنے گھر میں انہوں نے79 سال کی عمر میں یہ فانی دنیا چھوڑی -

علمی خدمات:

ایزوتسو کوچونکہ بہت سی زبانوں پہ مہارت حاصل تھی جس کی بدولت انہیں مختلف ثقافتی اور لسانی پس منظر سے تعلق رکھنے والے مسلم مفکرین کے کاموں کو سمجھنے میں مدد ملی- اسلامی علوم میں ان کی دلچسپی قرآنی علوم، اسلامی فلسفہ، تصوف و الہٰیات، ثقافت و تاریخ جیسے دقیق مضامین میں تھی-ان کی تحقیقات کی بنیاد”علم المعانی“ پہ مبنی ہے جس میں الفاظ و بیان کے موقعِ استعمال اور معنوں کے درست و موزوں ہونے کے متعلق پڑھا جاتا ہے-ان کے تحریری کاموں کےاردو، ترکی ، فارسی و دیگر زبانوں میں بھی تراجم کئے گئے- علوم القرآن سے متعلق ان کی گراں قدر خدمات درج ذیل ہیں[4] :

v The Structure of the Ethical Terms in the Quran: A Study in Semantics (Tokyo: Keio University)

v God and Man in the Koran: Semantics of the Koranic Weltanschauung (Tokyo: Keio Institute of Cultural and Linguistic Studies, 1964)

اس کتاب کا ترجمہ ترکی، فارسی اور عربی زبان میں ہوا-

v The Concept of Belief in Islamic Theology: A Semantic Analysis of Iman and Islam (Tokyo: Keio Institute of Cultural and Linguistic Studies, 1966)

اس کتاب کا ترجمہ ترکی اور فارسی زبان میں ہوا-

v Ethico-religious Concepts in the Quran (Montreal: McGill University Press, 1966)

اس کتاب کا ترجمہ ترکی، فارسی اور عربی زبانوں میں ہوا- 2004ء میں لاہور کے ادارۂ  ثقافتِ اسلامیہ نے اس کتاب کا اردو ترجمہ شائع کیا-

v 'Revelation as a Linguistic Concept in Islam'. – English

یہ مقالہ 1962ء میں انگریزی زبان میں Studies in Medieval Thoughtمیں شائع ہوا-

v Revelation and Reason in Islam.

v Muhammad and the Qur'an.

v The Qur'an and Arabian Nights.

v Reading the Qur'an.

درج بالا چار مقالہ جات جاپانی زبان میں شائع ہوئے لیکن پروفیسر ایزوتسو کا سب سے اہم کام قرآن مجید فرقان حمید کا باضابطہ طور پہ عربی سے جاپانی زبان میں ترجمہ ہے جو تین جلدوں پہ محیط ہے:

v Three-volume translation of the Qur'an.

ایزوتسو کے علم المعانی پہ مبنی کام کا جائزہ:

ناقدین کے مطابق بنیادی طور پر ’قرآنی علوم‘ تفاسیر و ادبی سوانح پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں جبکہ ایزوتسو کے تحقیقی کام نے قرآنی علوم میں ایک بالکل نئی جہت کھول دی-انہوں نے ویزگربر ویلٹنشونگ معنوی ماڈل (Weisgerber’s semantic Weltanschauung)  سے قرآن کے معنوی تجزیے و ترجمہ کا کام سرانجام دیا- انہوں نے قرآن مجید کے متن میں کلیدی اصطلاحات (جیسے عالمِ غیب اور عالمِ شہادہ، دنیا اور آخرت ودیگر) کے باہمی ربط کا تجزیہ کیا-اس طرح کے کام کے لئے قرآنی تفاسیر یا دیگر متعلقہ مصادر کی کھپت کی ضرورت نہیں ہوتی- البتہ معنویت کے اعتبار سے حقیقت کے متعلق قرآن کا لسانی نظریہ داخلی طور پر مربوط ہے لیکن ثقافتی اور تاریخی طور پر مشروط ہے-قرآن کے بنیادی تصورات پر انہوں نے اپنی دو کتب میں معنوی نظریہ کو بیان کیا ہے-پہلی کتاب God and Man in the Qur’an اور دوسری Ethico-Religious Concepts in the Qur’an کے عنوان سے شائع ہوئی- [5]

ملائشیا سے تعلق رکھنے والے اسکالر حسین عثمان کا کہنا ہے کہ ایزوتسو خود کو نام نہاد مستشرقین کی روایت سے دور رکھنے میں کامیاب رہے ہیں جو مغرب میں اسلامی علوم پر طویل عرصے سے حاوی تھے- بہت سے مسلمان علماء کا ماننا ہے کہ پروفیسر ایزوتسو نے قرآنی علوم کے بارے میں مغربی ماہرینِ اسلام کے نقطہ نظر کو تبدیل کیاہے- [6]

تصوف اور توشی ہیکو ایزوتسو:

جس طرح ایزوتسو نے ایشیائی مذاہب کے مابین تقابلی مطالعے کئے ان مطالعات سے مذاہب کی مشترکہ اقدار اور میراث کو ڈھونڈنے کی سعی کی، وسیع سطح پہ مذہب کی ضرورت تلاش کی اور مذہبی ہم آہنگی کیلئے مؤثر و پُر امن مکالمے کی راہیں ہموار کیں-اسی طرح مذاہب کے فلسفیانہ تناظر پہ بھی انہوں نے تخصیصی تقابلی مطالعہ کیا کہ کس طرح مذہب کی فلسفیانہ جہت سے مذاہب کے مابین مکالمہ کیا جا سکتا ہے ، اسی طرح بچپن سے بدھ مت کے مکتبِ فکر زین مت کی تفہیم و مشق کو اپنانے والے پروفیسر ایزوتسو نے مذاہب کی روحانیاتی جہت سے بھی تقابلی مطالعے کئے اور مذاہب کی مشترکہ روحانی اقدار کو بین المذاہب ہم آہنگی اور مکالمہ کے ذریعے کے طور پہ پیش کیا- پروفیسر ایزوتسو نےاسلامی تصوف اور تاؤازم) چینی فلسفی لاؤتازے کا مذہبی نظام (Daoism) کا تقابلی جائزہ پیش کیا ہے- اپنی کتاب بعنوانSufism and Daoism, A comparative study of Key Philosophical Concepts  میں انہوں نے شیخِ اکبر محی الدین ابن العربی علیہ الرحمہ اور دو چینی فلسفی شانگ زُو (Chuang-Tzu) اور لاؤزو  (Lau Tzu ) کے نظریاتی افکار کے مابین ہم آہنگی کی وضاحت کی ہے-انہوں نے تصوف اور تاؤ ازم کے مابعد الطبیعیاتی اور فکری نظام کا موازنہ کیا اور دریافت کیا کہ اگرچہ تاریخی طور پر ان دونوں کا کوئی تعلق نہیں ہے لیکن ان دونوں میں ایسی خصوصیات اور نمونے مشترک ہیں جو بین التاریخی مکالمے کے لیے نتیجہ خیز ثابت ہوتے ہیں-جیسے ایک جگہ وہ لکھتے ہیں کہ ابن العربی نے جو فنائیت (self annihilation مقامِ فنا ) کا تصور پیش کیا ہے ، شانگ زُو نے بھی سو وانگ(tso wang مراقبہ کی ایسی تکنیک ہے جس میں ذہن کو تمام تر رفاقتوں اور رقابتوں سے آزاد کرکے تنہا کیا جاتا ہے) کا یہی تصور پیش کیا ہے-وہ مزید لکھتے ہیں کہ تاؤ ازم اور تصوف دونوں میں باطنی و عقلی پاکی(طہارت) سے مراد یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو تمام خواہشات اور عقل کی نکتہ چینی سے پاک کرلے-اسی طرح فنا و بقا  سمیت کئی دیگر پہلوؤں میں انہوں نے مشترک اقدار کو تلاشنے کی سعی کی-[7]

پروفیسر ایزوتسو مشرقی فلسفہ سے وابستہ تھے- اپنے تحقیقی امور میں انہوں نےابن العربی کی عارفانہ پرواز اور فلسفیانہ وسعت کا بتکرار اعتراف کیا اور اپنی بیشتر تحقیقات میں شیخ ابن العربی کے نظریہ سے استفادہ کیا - انہوں نے اپنے فلسفیانہ کام میں جو نظریاتی اساس کی پیش رفت کی ہے وہ ابن العربی کا فلسفہ ہے جس کے ذریعے انہوں نے فلسفہ تصوف کو سمجھا اور اسے بطور فریم ورک کے اپنے ہاں استعمال کیا- [8]

علمِ تصوف پہ ان کے مقالات کا مجموعہ بعنوان Creation and the Timeless Order of Things: A study in the Mystical Philosophy شائع ہوا- انہوں نے ایران کے معروف فلسفی ملا ہادی سبزواری کے فلسفہ پہ اپنی کتاب بنام ’’بنیادِ حکمتِ سبزواری‘‘ کے نام سے شائع کی- اس کے علاوہ بھی وہ مذہبی تحقیق کے کئی شعبوں میں تحقیقی کاموں کو قلم رنجہ کر گئے -

حرفِ آخر:

پروفیسر ایزوتسو گوکہ اپنے مذہب پہ قائم رہے ، اسلام اور اسلامی متون کے بارے ان کی تشریحات سے علمی اختلافات اپنی جگہ موجود ہیں، لیکن ان کی اسلام کی ادبی، فلسفیانہ، مابعد الطبیعاتی، لسانی، تاریخی اور تہذیبی جہات پر گراں قدر تحقیقات خصوصاً قرآن مجید کا جاپانی زبان میں ترجمہ کرنے کے باعث وہ ایک منفرد شناخت رکھتے ہیں- ان کی زندگی علم دوستی، تحقیق اور تلاشِ علم کے لئے اَسفار میں گزری-وہ صدی جس میں مغرب سے ’’تہذیبی تصادم‘‘کی صدا بلند کی گئی اسی صدی میں پروفیسر ایزوتسو جیسے لوگوں نے مذہبی اور تہذیبی ہم آہنگی اور مکالمہ کی اہمیّت کو اُجاگر کیا- پروفیسر ایزوتسو کو بیسویں صدی کے ان نمایاں ماہرینِ ادیان میں مانا جاتا ہے جن کی تحقیقات کی بدولت جامعاتی و کلیاتی سطح پہ مذہب کے بارے کثیر الشعبہ جاتی تحقیقی نقطہ نظر (multidisciplinary approach) کو فروغ ملا  -

٭٭٭



[1]Japanese religion expert Toshihiko Izutsu under spotlight in “The Eastern.” (2018, July 10). Tehran Times.

[2]Toshihiko Izutsu, The Concept and Reality of Existence (Kyoto, 1972), Turkish translation as Islamda Varlik Dusuncesi, Insan Publications, Istanbul, Turkey, 1995 by Prof. Ibrahim Kalin.

[3]Toshihiko Izutsu:  The Genius That Bridged East & West: Keio University. (28 May 2021) https://www.keio.ac.jp/en/keiotimes/features/2021/4/#:~:text=Under%20the%20instruction%20of%20his,subject%20and%20practiced%20zazen%20meditation.

[4]Ismail Albayrak, The Reception of Toshihiko Izutsu's Qur'anic Studies in the Muslim World: With Special Reference to Turkish Qur'anic Scholarship pp. 74-75 Journal of Quranic Studies, Australian Catholic University, Melbourne.

[5]Solihu, Abdul Kabir. (2009). Semantics of the Qur’anic Weltanschauung: A Critical Analysis of Toshihiko Izutsu’s Works. American Journal of Islam and Society. 26. 1-23. 10.35632/ajis.v26i4.387.

[6]Hussain Othman (2010), “Unveiling the Concept of Man and Universe in the Classical Malay Historical Texts Using Izutsu’s Approach”, in Japanese Contribution to Islamic Studies: The Legacy of Toshihiko Izutsu Interpreted, published by Japan Foundation and IIUM Press, pp. 277-292. ISBN 978-967-5272-63-9.

[7]Hygeia, N. F. (2023, January 18). Toshihiko Izutsu: From ‘Sufism & Taoism’ – The Inner Transformation of Man. Via Hygeia. https://via-hygeia.art/toshihiko-izutsu-from-sufism-taoism-the-inner-transformation-of-man/

[8]Sawai, Makoto. (2022). From Mysticism to Philosophy: Toshihiko Izutsu and Sufism. Üsküdar Üniversitesi Tasavvuf Araştırmaları Enstitüsü Dergisi. 1. 112-121. 10.32739/ustad.2022.2.31.

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر