قوم کی ترقی کے اصول

قوم کی ترقی کے اصول

سچائی، معاشرے کے قیام کا پہلا اصول

مقاصد کی وحدانیت اور سچائی تک رسائی کے بے شمار راستے ہو سکتے ہیں لیکن ہر راستے میں ایک صفت کا موجود ہونا لازمی ہے-سچائی تک پہنچنے کا راستہ صرف اور صرف سچائی ہی ہے-یعنی سچائی ایک مددگار حقیقت ہے یا حقیقت ایک مددگار سچائی کا نام ہے- سچائی اپنا راستہ خود بناتی ہے-سچائی کے راستے میں وحدانیت ہے اور وحدانیت کا راستہ اور منزل بھی سچائی ہی ہے-سچائی کا راستہ تمام راستوں کی سچائی ہے- اِس طرح سچائی اپنی حفاظت خود کرتی ہے اور سچائی میں تضاد نہیں ہے لہٰذا سچائی کا امن وسکون ہمیشگی ہے اور اسے کوئی زوال نہیں ہے-سچائی کے علاوہ کسی چیز کو دوام نہیں اور سچائی سے ہٹ کر سچائی تک نہیں پہنچا جا سکتا-

تاریخ کا سفر بھی دراصل تضادات کے خاتمے اور بالآخر سچائی تک پہنچنےکا نام ہے- ایمان کا سفر سچائی کی تلاش سے شروع ہوتا ہے اور پھر یہ سچائی کی حفاظت کرتا ہے-اس لیے سچائی سے وابستگی پہلا اصول ہے اور یہی تمام اصولوں کا بھی اصول ہے اور ہر اصل کا اصول بھی یہی ہے - دراصل یہ اصول نا صرف انسان کو اُس کی حقیقت تک پہنچاتا ہے بلکہ معاشرے کو ترقی کی راہ پر گامزن کرتا ہے- کسی بھی معاشرے میں امن کا انحصار اُس معاشرے میں موجود سچائی کے سفر سے وابستہ ہے، جس معاشرے میں سچائی پنپتی ہے وہاں تضادات کم ہوتے ہیں-اس کے برعکس جس معاشرے میں سچائی کو پرواز بھرنے میں مشکلات آتی ہیں وہاں تکالیف اور تضادات بھی کثرت سے ہوتے ہیں-تمام انسانوں کی سچائیاں انسان کی اپنی سچائی پر مبنی ہوتی ہیں اور انسان کی اپنی اندرونی سچائی اسے عارضی سچائیوں سے وابستہ اور پیوستہ کر دیتی ہے- سچائی حقیقت کی ترسیل (communication) کا نام ہے اور حقیقت کی ترسیل کا نام سچائی ہے -سچائی حقیقت سے ہمارے تعلق کا ذریعہ ہے اور سچائی ہمیں حقیقت تک پہنچانے کیلئے گاڑی کا کردار ادا کرتی ہے-

انسان کی اپنی ذات اور اس پوری کائنات کی تخلیق کا کوئی خاص مقصد ہے - چنانچہ کوئی بھی چیز بے مقصد نہیں ہے- اگر ہم ایک مفروضہ بنائیں کہ ہم نے اپنی قوم کو تعمیر کرنا ہے تو پہلا سوال پہ پیدا ہوتا ہے کہ اِس کو کیسے تعمیر کیا جائے؟ اس میں سب سے پہلے یہ اصول طے کیا جا سکتا ہے کہ یہ مان لیا جائے کہ کہ سچائی کو اپنا ئے بغیرآج تک دنیا کی کسی قوم نے ترقی کی ہے اورنہ ہی آئیندہ کرسکتی ہے- دنیا کی تمام عمارتیں جیومیٹری کے اصولوں پر کھڑی ہیں - اسی طرح کوئی بھی معاشرہ سچائی کے اصولوں کے بغیر کھڑا نہیں ہوسکتا -

جب تک معاشرےمیں سچائی کو بنیادی حقیقت کے طور پر نہ لیا جائے، تب تک معاشرہ ترقی نہیں کرسکتا- دنیا میں سفر کرنے پہ انسان محسوس کرتا ہے کہ جس ملک کی ٹریفک ، مصنوعات، ادویات، ڈاکٹرز یا انجینئرزانسان کو پسند آتی ہیں اس ملک کے عام آدمی کی گفتگو میں سچائی ملتی ہے- اس کے برعکس اگر سچائی موجود نہ ہو تو اس ملک کی ٹریفک ، ڈاکٹر ، ادویات اور اچھا دیگر نظام قابلِ تعریف نہیں سمجھا جاتا- سچائی کے بغیر کسی قوم نے ترقی کی راہ نہیں پائی -چنانچہ معاشرے میں سچائی کو تحسین اور جھوٹ کو سب سے بڑا جرم قراردیا جانا چاہئے- جب مختلف برائیوں اور گھناؤنے جرائم کے متعلق پیغمبر اکرم حضرت محمد الرسول اللہ (ﷺ) سے دریافت کیا گیا تو آپ(ﷺ)نے فرمایا کہ ان غلطیوں پر معافی ہوسکتی ہے- لیکن جب پوچھا گیا کہ آدمی اگر جھوٹا ہو تو فرمایا کہ جھوٹ پر معافی نہیں ہوسکتی -

جھوٹ پر معاشرہ استوار نہیں ہوسکتا- چنانچہ معاشرے میں ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کے دل میں یہ بات ہونی چاہئے کہ اصل مقصد لوگوں کو سچائی کی طرف راغب کرنا اور اسکی اہمیت کو یاد دلانا ہے- مارکیٹ میں آنے والی ہر کہانی،فلم یا پروڈکٹ کے پیچھے کوئی نہ کوئی دہنی سوچ اور مقاصد کارفرما ہوتےہیں جو بظاہراً عام لوگوں کو نظر نہیں آتے- لیکن مقاصد سے واقف افراد یہ واضح کرتے ہیں کہ پہلا کام سچائی کو آگے لانا ہے-چنانچہ جب بھی کوئی فلم، کہانی یا پروڈکٹ بنائی جائے، بنیادی اصول سچائی ہے جس کے بغیرمعاشرہ قائم نہیں رہ سکتا –

محنت

معاشرے کے قیام میں دوسرا اصول محنت ہے- کہیں یہ بتایا جاتا ہے کہ ترقی کرنے کیلئے لوگوں کو مسلمان ہو نا چاہئے- تاہم ہمیں نظر آتا ہے کہ مسلمان ممالک ترقی نہیں کر رہے- کہیں یہ بتایا جاتا ہے کہ سوشلزم کے ساتھ ترقی کی جا سکتی ہےلیکن ہم نے اسے ناکام ہوتے دیکھا ہے-اسی طرح مختلف نظریات اور ممالک کا جائزہ لینے پہ واضح ہوتا ہے کہ ترقی کا تعلق نہ علاقے سے ہے نہ زبان سے، نہ رنگ سے ہے نہ کسی اور چیز سے- سادہ سی بات ہے کہ ان قوموں نے ترقی کی ہے جنہوں نے محنت کو اپنایا ہے اور محنت کے کلچر کو فروغ دیا ہے- وہ ممالک کرپٹ ہیں جن کے ذرائع محنت سے منسلک نہیں ہیں-صرف وہی ممالک ٹھیک چل رہے ہیں جن میں محنت کاکلچر عام ہے – حضور نبی کریم(ﷺ) نے جنت میں محنتی کو اپنا ہمسایہ قرار دیا ہے -اور یہ بھی حقیقت ہے کہ حضور نبی کریم(ﷺ) سے زیادہ محنتی آدمی کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی- آپ(ﷺ) نے 63 سال کی عمر میں اتنی بڑی کامیابیاں حاصل کیں جن کی تاریخ مثال دینے سے قاصر ہے ، ان کامیابیوں میں روحانی اسباب اور غیبی مدد کے ساتھ ساتھ آپ (ﷺ) کی انتھک اور مسلسل محنت کو کبھی نہ فراموش کیا جا کستا ہے نہ ہی نظر انداز کیا جا سکتا ہے –

یہ بدقسمتی ہے کہ ہمارے معاشرے میں بہت کم لوگ محنتی ہیں- اچھی قسمت اور بری قسمت کے الفاظ کی صورت میں ہم نے بہت سی برائیاں پال رکھی ہیں-کسی بھی چھوٹے سے معاملے پر اپنی بدقسمتی کا رونا رونے لگتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے اس کا شکوہ کرنے لگتے ہیں-

یہ اٹل حقیقت ہے کہ کسی قوم نے محنت کے بغیر ترقی نہیں کی- چنانچہ کامیاب قوم کیلئے ضروری ٹھہرتا ہے کہ بالواسطہ یا بلاواسطہ محنت کو اپنائے- وہ چاہے صوتی اثرات ہوں،میوزک ہو، یا زندگی کا کوئی بھی شعبہ ہو ، قوم کو محنت کی طرف بلائے بنا کامیابی ممکن نہیں ٹھہرتی- چنانچہ قوم کو محنت کی طرف بلانا ناگزیر ہے- اگر محنت کو نہ اپنایا گیا تو دنیا میں جتنے بھی اسلامی ممالک ہیں،اگلے تیس سال میں یہ اپنا بوجھ خود نہیں اٹھا سکیں گے – قوموں کی تاریخ بدلنے والا کلچر محنت ہے-زندگی بہت تیزی سے گزر رہی ہے اورقوم کیلئے یہ جاننا ضروری ہے کہ محنت کے بغیر کبھی ترقی نہیں ہو سکتی–

 لوگ اس حقیقت سے آشنا نہیں ہیں کہ محنت ہی اصل زندگی ہے اور یہی کامیابی ہے- طاقت، دولت، عزت، اور ایسی لذتیں بذات خود کوئی حیثیت نہیں رکھتیں کیونکہ اصل خوشی (happiness) روح کا بلندی کی جانب سفر ہے-جس کی روح اور سوچ بلندی کی طرف جاتی ہے وہی اصل میں خوش ہے اور جس کی روح بلند پرواز نہیں کرتی تو مال و دولت اور عہدے کبھی حتمی خوشی نہیں دے سکتے- روح کا سفر بھی محنت کے بغیر مشکل ہے-

پیشہ ورانہ اخلاقیات

(work ethics)

قوم کی ترقی کا تیسرا اصول پیشہ ورانہ اخلاقیات (Work Ethics ) کا ہے- اپنے مذہب کی تعلیمات پر عمل اور اسکی تبلیغ اخلاقیات اور پیشہ ورانہ اصولوں سے کر کے مذاہب کی جنگ کو بھی ختم کیا جا سکتا ہے- اسلامی تاریخ میں اہلِ مدینہ کی بیعت قابلِ غور ہے- اُس وقت لوگ آپ (ﷺ) کے ہاتھ پر بیعت کیوں ہوئے تھے؟ وہ پیشہ ورانہ اخلاقیات تھیں جس کی بنیاد پہ آپس میں دشمن اور بڑے بڑے سردار آپ(ﷺ) کے سامنے موم کی طرح پگھل گئےاور بیعت کر لی-یہ سب سے بڑی فتح ہے- اس کی ایک مثال بازار میں خریداری سے دی جا سکتی ہے کہ عموماً لوگ اچھے برینڈ کی چیز لینا پسند کرتے ہیں کیونکہ ان کی پیشہ ورانہ اخلاقیات معروف ہوتی ہیں-

وہی قومیں دنیا میں فخر محسوس کرتی ہیں جو پیشہ ورانہ اخلاقیات کو اپناتی ہیں- چنانچہ ہمیں اپنی محنت سے قوم میں اپنے کام کے متعلق فخر پیدا کرنا چاہئے کہ ایسی محنت اور اخلاقیات سے کام کیا جائے کہ دوسرے ہمارے کام کے قائل ہو جائیں- یہی وہ کلیہ ہے جس سے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہو سکتے ہیں کیونکہ لوگ اپنے فخر اور ترقی کیلئے نت نئی ایجادات کریں گے - قوم کو باور کروانا چاہئے کہ اپنے آپ کو اپنے فلسفہ، اپنے مذہب کو، اپنی محنت اور اپنی چاہت کو پیشہ روانہ اخلاقیات کے ذریعے دنیا کے سامنے لایا جا سکتا ہے -

حقیقت پسندی

 یہ ایک ایسا اصول ہے جہاں بہت سے سکالرز اور محققین نے غلطی کی ہے جس کی وجہ سے ہمارے بہت سے عظیم لوگ بہت دیر بعد بھی کامیابی حاصل نہیں کر سکے- ڈیڑھ سو کروڑ سے زائد مسلمان سینکڑوں سال سے شکست، پسماندگی اور بیچارگی کا شکار ہیں- ہمیں ان وجوہات کا ادراک کرنا ہے جس کے باعث ہم اس صورتحال سے باہر نہیں آ پا رہے- ہمیں بنیادی سطح پہ اپنے معاملات پہ نظر ثانی کی ضرورت ہے-یقیناًیہ حادثاتی بات نہیں کہ اتنے اچھے لوگ اور ابدی سچائی کی کتاب ساتھ ہونے کے باوجود ہم ترقی نہیں کر پا رہے- ہمارے معاشرے بد نام ہو رہے ہیں، ناکام ریاستوں کا نام دیا جا رہا ہے، ہمیں اب اپنے معاملات پہ نظر ثانی کی ضرورت ہے اور حقیقت پسندی (realism)کی ضرورت ہے- ہم اپنے بچوں کو آئیڈیل دکھاتے ہیں لیکن اپنے قول و فعل میں تضاد کے باعث اپنے خوابوں پر عمل پیرا نہیں ہوتے ہمیں حقیقت پسندی کی ضرورت ہےاور لوگوں کو اس کا ادراک کروانے کی ضرورت ہے-

تناسب

ہمیں معاشرے میں تناسب کے اصول (proportionality principle )کی تعلیم دینی ہے- ایسے مقاصد کا تعین کرنا ہے کہ تناسب کا اصول معاشرے میں پیدا ہو-عدم تناسب صرف ایک غلطی نہیں ہے بلکہ بدقسمتی سے یہ لوگوں کی ضرورت بننے لگی ہے- رشوت، ، دھاندلی،نا انصافی اور ایسے ناسور اسی عدم تناسب کی شکل ہیں-

 تناسب دراصل تہذیب کا نام ہے- قدیم زمانے میں تناسب نہیں ہوتا تھا اور جس جس معاملے میں تناست کے اصول کا ارتقاء ہوا ، اس اس معاملے میں انسان شائستہ، نفیس اور کامیاب ہوتا گیا- چنانچہ تناسب دراصل تہذیب کا نام ہے- تناسب انصاف ہی کا نام ہے اور جن معاشروں میں یہ اصول نہیں پنپتا وہ معاشرے پستی اور تضاد کی طرف واپس چلے جاتے ہیں-

انصاف صرف عدالتوں کا کام نہیں ہے- جو شخص گھر سے قدم باہر رکھتا ہے اسے یہ سوچنا چاہئے کہ اسے ہر معاملے میں انصاف کرنا ہے- ہمیں تجزیہ کرنا ہے کہ کتنی کتابیں ایسی ہیں جس میں ہم لوگوں کو اپنی صوابدید کے اختیار (discretion) کا استعمال سکھاتے ہیں-صوابدید کا استعمال ہمارے کلچر کا حصہ ہونا چاہیے- تعلیم کی بنیادی خصوصیات میں صوابدید کے استعمال کا طریقہ ہونا چاہئے- عوام کو صوابدید کا استعمال سکھانے سے عدالتوں کا کام بہت حد تک کم ہو سکتا ہے- ہمیں ہرسطح پر ایسی اخلاقیات کو پروان چڑھانا ہے جو معاشرے کی ترقی کے لئے ایسے افراد پیدا کریں ہے جن کی صوابدیدی قوت فیصلہ اچھی ہو- ذمہ دار شہری کے جدید تصورات میں سے کسی کو بھی اپنایا جائے، چاہے وہ جدیدیت ہو، انفرادیت ہو، سول سوسائیٹی ہو یا کوئی بھی، ہمیں اپنے شعور کے ساتھ زندگی گزارنی ہے- ہزارہا سال کا علم، انبیائے کرام کی رہنمائی، وحی یہ سب شعور ہی کی ترویج اور آبیاری ہے جو انسان کو غاروں سے نکال کر فلکیات تک لے گئے ہیں-ذمہ دار شہری کو ایک یہی برتری حاصل ہوتی ہے کہ وہ شعور کے ساتھ زندہ رہتا ہے-ذمہ دار شہری وہی ہے جو اپنے صوابدیدی اختیار (Discretion) کو صحیح استعمال کرتا ہے- صوابدید کے بہترین استعمال سے ایک بہترین قوم بنتی ہے-

مشترکات

آپس میں مل کر آگے بڑھنے کیلئے ضروری ہے کہ ہمیں آپس میں جوڑنے والی قوت تلاش کی جائے(common denominator) - ذمہ دار شہریوں کو آپس میں جوڑنے والی قوت دراصل یہی ہے کہ وہ معاشرے کو ترقی دینا چاہتے ہیں-یہ ایک بڑا راز ہے کہ ابتدا وہاں سے کی جائے جو سب کو جوڑنے والی ہو تاکہ بنیاد مضبوط ہو اس کے بعد اس سے کم اور پھر آہستہ آہستہ ان معاملات کی طرف آیا جائے جن پہ کم اتفاق ہو-اگر ابتدا کسی ایسی چیز سے کی جائے تو مشترک نہ ہو تو آپس میں جڑنا مشکل ہو جاتا ہے-احرامِ مصر آج تک دنیا میں اسی لئے قائم ہیں کہ ان کی بنیادیں چوڑی تھیں اگرچہ وہ بلندی پہ جا کر تنگ ہو جاتے ہیں- پانی کے آگے بند باندھنے کا یہی اصول ہے کہ نیچے سے اسے بہت چوڑا کیا جاتا ہے اور اوپر بے شک کم چوڑا ہو- قوم کے لئے بھی یہی اصول ہے کہ بنیاد ایسی ہو جو سب کی آپس میں مشترک ہواور اس کے بعد کم مشترک معاملات دیکھے جا سکتے ہیں-

اختتامیہ

دنیا کا بہترین مذہب اللہ کا پسندیدہ مذہب اسلام ہے- لیکن اس کے باوجود ہم ترقی نہیں کر پارہے-یہ واضح کرتا ہے کہ کہیں نہ کہیں ہم غلطی کر رہے ہیں- دراصل ہم اپنی کاہلی کوچھپانے کیلئے ایسی تشریحات کا سہارا لے لیتے ہیں جس سے محنت نہ کرنی پڑے- اسی طرح ایسی توجیحات اپنا لیتے ہیں جو سچائی سے ہم آہنگ نہیں ہوتی- باعث افسوس ہے کہ رجعت پسندانہ حکمت (regressive wisdom) کو اپنانے میں ہم بہت تیزی دکھاتے  ہیں جبکہ ترقی کی سوچ کی حامل حکمت (progressive wisdom) کو ہم اپنانے سے کتراتے ہیں- معاشرے میں مشہور اشعار کو اکٹھا کیا جائے تو بمشکل ہی کسی شعر میں حکمت یا گہرا فلسفہ نظر آتا ہے-ایک ایسا شعر جو بہت معروف نظر آتا ہے :

یہ مسائلِ تصوف یہ ترا بیان غالب
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا

یہ اچھا شعر ہے ، لیکن اس غزل کا ایک اور شعر ہے جو اصل مشہور ہونے کے قابل تھا مگر ہماری سطحیت پسندی نے ہمیں اس سے اور ایسے دیگر اشعار سے دور کر رکھا ہے ؛شعر یہ ہے

اسے کون دیکھ سکتا کہ یگانہ ہے وہ یکتا
جو دوئی کی بو بھی ہوتی تو کہیں دو چار ہوتا

یہ قرآن کی آیت ہے اوریہ اصل فلسفہ ہے لیکن اسے (regressive wisdom) کی وجہ سے دہرایا اور یاد نہیں کیا جاتا–

اسی طرح علامہ اقبال کا معروف شعر ہے

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

جبکہ اس سے پہلے شعر ہے

خرد مندوں سے کیا پوچھوں کہ میری ابتدا کیا ہے
کہ میں اس فکر میں رہتا ہوں میری انتہا کیا ہے

یعنی انسان کون ہے، کہاں سے آیا ہے اور اس دنیا میں اس کا مقام اور مقصد کیا ہے؟یہ بھی اصل فکر پہ مبنی ہے لیکن اسے بھی زیادہ دہرایا نہیں جاتا-المختصر ہمیں ان چیزوں پر نظرِ ثانی کرنا چاہیئے جن کے ساتھ ہم آرام دہ محسوس کرتے ہیں- اسلام کی من پسند تعبیر و تشریح،سکالرز کی پسند ناپسند، چالاک عقل کے بہت سارے محاورے کہ جب کھانی دو وقت کی روٹی ہے تو کام کرنے کی کیا ضرورت ہے، یہ سب ہمیں محنت سے عاری کرتے ہیں، خوشحال انسانی معاشرے اور ایجادات کیلئے کام کرنا ہے- اپنی سوچ اور فکر بلند کرنی ہے-دو وقت کی روٹی اور اس طرح کے محاورے اگرچہ بہت پُر معنی ہیں لیکن ان کا استعمال اپنے سیاق و سباق کے ساتھ کرنا ہی فائدہ مند رہتا ہے- ہمیں چالاک عقل کی بجائے پختہ عقل مندی اپنانی چاہئے اور اپنی عقل کی پختگی سے کام لینا چاہئے- رومی بھی چالاک عقل کی بجائے پختہ عقل کی تلقین کرتے ہیں-

ہمیں نسلِ نو کو یہ بھی بتانا ہے کہ تھیوری اور پریکٹکل میں کوئی فرق نہیں ہے- کوئی ایسی مشین نہیں بنائی جا سکتی جس کی تھیوری پر عمل نہ کیا جائے -سپیس شٹل اس کی تھیوری پر عمل کئے بغیر ممکن نہیں حتیٰ کہ ایک غلطی سے سارا سسٹم کرپٹ ہو سکتا ہے -لہٰذا تھیوری کے مطابق پریکٹکل ہوتا ہے اور پریکٹکل کے مطابق تھیوری بنائی جاتی ہے- چنانچہ نظریہ اور عمل دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں اور یہی کامیابی کا اصول ہے اور یہی سچائی ہے-

٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر