علمِ نفسیات : بچوں کی پرورش اور تربیت

علمِ نفسیات : بچوں کی پرورش اور تربیت

علمِ نفسیات : بچوں کی پرورش اور تربیت

مصنف: لئیق احمد مئی 2022

بچوں کی تربیت کا مطلب سماجی اور روحانی طور پر ان کی ایسی نشوونماہےجس سے وہ زمانہ میں مؤدب، خود اعتماد، ذہین اور کارآمد ا نسان کی شناخت حاصل کرسکیں - بچے کی درست تربیت اسے صحت مند جسم، تیز دماغ اور توانا روح عطا کرتی ہے جس سے وہ اپنی آنے والی زندگی کو سنوار کر انفرادی و معاشرتی سطح پرایک کارآمد شخص بن کر ابھرتا ہے- بچوں کی زندگی کے مختلف درجات میں تربیت کے مختلف مراحل ہیں-یہ تربیت دورانِ حمل سےہی شروع ہوجاتی ہے اور بلوغت تلک چلتی رہتی ہے-قرآن مجید نے بچے کی پیدائش اور افزائش کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے:

’’يَآ اَيُّـهَا النَّاسُ اِنْ كُنْتُـمْ فِىْ رَيْبٍ مِّنَ الْبَعْثِ فَاِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُـمَّ مِنْ نُّطْفَةٍ ثُـمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُـمَّ مِنْ مُّضْغَةٍ مُّخَلَّقَةٍ وَّغَيْـرِ مُخَلَّقَةٍ لِّنُـبَيِّنَ لَكُمْ ۚ وَنُقِرُّ فِى الْاَرْحَامِ مَا نَشَآءُ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى ثُـمَّ نُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُـمَّ لِتَبْلُغُوٓا اَشُدَّكُمْ صلے وَ مِنْكُمْ مَّنْ يُّتَوَفّـٰى وَمِنْكُمْ مَّنْ يُّرَدُّ اِلٰٓى اَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَيْلَا يَعْلَمَ مِنْ بَعْدِ عِلْمٍ شَيْئًا ۚ [1]

’’اے لوگو! اگر تمہیں دوبارہ زندہ ہونے میں شک ہے تو ہم نے تمہیں مٹی سے، پھر قطرہ سے، پھر جمے ہوئے خون سے پھر گوشت کی بوٹی نقشہ بنی ہوئی اور بغیر نقشہ بنی ہوئی سے بنایا تاکہ ہم تمہارے سامنے ظاہرکر دیں  اور ہم رحم میں جس کو چاہتے ہیں ایک مدت معین تک ٹھہراتے ہیں پھر ہم تمہیں بچہ بنا کر باہر لاتے ہیں پھر تاکہ تم اپنی جوانی کو پہنچو اور کچھ تم میں سے مرجاتے ہیں اور کچھ تم میں سے نکمی عمر تک پہنچائے جاتے ہیں کہ سمجھ بوجھ کا درجہ پاکر ناسمجھی کی حالت میں جا پڑتا ہے‘‘-

لوغت سے قبل بچے کو طفل کہا جاتا ہے- لغوی معنی کے اعتبار سے طفل نرم و نازک کو کہتے ہیں جسے توجہ اور احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے- [2]ترقی پسند سائنسدان کا ماننا ہے کہ بچوں کی پرورش بغیر کسی روک تھام کے کی جائے جبکہ دوسری جانب ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ بہترین نشوونما علمِ نفسیات کو مدِ نظر رکھ کر کی جاسکتی ہے-[3] ان کا کہنا ہے کہ والدین اور بچے کے مابین تعلقات اور سمجھ بوجھ بچوں کی نفسیاتی اور ظاہری بالیدگی کا باعث بنتے ہیں- [4]

علم نفسیات کے ماہرین نے تحقیق سے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ بچہ پیدائش سے قبل ہی ماں کے احساسات و خیالات کا اثر قبول کرنا شروع کر دیتا ہے -[5]  جب بچہ رحمِ مادر میں ہوتا ہے تو وہ اپنی ماں اور بیرونی دنیا کی آوازوں کو سنتا ہے- اس دوران ماں کو زیادہ سے زیادہ آرام اور احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے- مناسب اور متوازن غذا، آرام دہ ماحول کا میسر ہونا بہت ضروری ہے کیونکہ بچے کا ذہن ان تمام حالات سے متاثر ہوتا ہے- ایک ریسرچ کے مطابق 50 فیصد چائلڈ ڈویلپمنٹ (بچے کی نشوونما) دوران حمل ہی مکمل ہو جاتی ہے- علم ِنفسیات کے ماہرین نے یہ نتیجہ بہت سے تجربات کے بعد اخذ کیا ہے کہ وہ بچہ جس کی تعلیم و تربیت کا آغاز دورانِ حمل ہی شروع کر دیا جائے، پیدا ہوتے ہی بہت کم عمر میں مشکل ترین چیزیں سیکھ سکتا ہے- کس طرح ایک بچے کی اچھی پرورش ہوسکتی ہے؟اس کے پیچھے کی سائنس کو سمجھنے کیلئے ’’child psychology‘‘ سمجھنا بہت ضروری ہے جس میں سب سے بڑا کردار والدین کےرشتے کا ہوتا ہے- اگر وہ خوش رہیں گے اور ان کے مابین محبت کی فضا قائم رہے گی تو گھر میں ایک مثبت ماحول روا ہوگا جس کا بالواسطہ اثر بچے کی پرورش پر بھی ہوگا-

بچے کی دورانِ حمل تربیت:

ایک بچے کی تعلیم و تربیت کی درست عمر کیا ہے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس پر ہر دور میں کچھ نہ کچھ لکھا جاتا رہا ہے اور ہر معاشرے کے اہلِ علم و دانش کے لئے یہ سوال دلچسپی کا باعث رہا ہے- اس سوال کا حیرت انگیز جواب یونان کے مشہور فلسفی سقراط نے یہ دیا تھا کہ بچے کی سیکھنے، سمجھنے اور تعلیم و تربیت کی اصل عمر صرف5 سال ہے یعنی 5سال کے بعد بچے میں سیکھنے کی صلاحیت اس طرح نہیں رہتی جس طرح 5 سال سے قبل ہوتی ہے-تربیتِ اولادپر حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی نسبت یہ اشعار بیان کئے جاتے ہیں :

حرّض بنيك على الآداب في الصغر
كيما تقرَّ بهم عيناك في الكبر
و إنما مثل الآداب تجمعها
في عنفوان الصبا كالنقش في الحجر[6]

’’اپنی اولاد کو بچپن سے ہی ادب سکھلاؤ تاکہ بڑے ہوکر وہ تمہاری آنکھوں کی ٹھنڈک بنیں اور بچپن میں ادب سکھانا ایسے ہے جیسے پتھر پر نقش ہو“-

دنیا بھر کے متمدن معاشروں میں یہ خیال کیا جاتا تھا کہ بچے کی تعلیم و تربیت کا آغازدو سے تین سال کی عمر میں شروع کر دینا چاہیے - دور جدید میں جہاں انسان نے دیگر علوم میں ترقی کی ہے وہیں علمِ نفسیات کے ماہرین نے اس موضوع کو بہت اہمیت دی ہے - علم نفسیات کے جدید ماہرین کا ماننا ہے کہ بچے کی تربیت کا آغاز ماں کے پیٹ سے ہی شروع ہو جاتا ہے- اس نظریے کو سامنے رکھتے ہوئے دنیا بھر میں خاص کر ترقی یافتہ دنیا میں ای سی ڈی (Early Childhood Development) کا نظریہ متعارف کرایا گیا- [7]

پیدائش سے قبل رحمِ مادر میں بچے کی پچاس فیصد تربيت ہوجاتی ہے- اس لئے حمل کادورانیہ بچے کی تربیت کیلئے اہم ترین ہوتا ہے- کوئی بھی بچہ کمزور پیدا نہیں ہوتا، اللہ تبارک وتعالیٰ اسے تمام صلاحیتیں دے کر پیدا کرتا ہے جن میں کچھ چيزيں genes (جینیات)کی طرف سے آتی ہیں جس پر کسی کا اختیار نہیں-

اسٹیفِن کارلیون ایک عیسائی محقق ہیں، انہوں نے 1980ء کی دہائی میں 3 سال اسرائیل میں گزارے ،وہاں انہوں نے یہ تحقیق کی کہ یہودی بچے کس طرح اتنی کم عمر میں ذہین ہوتے ہیں اور اسرائیلی باشندے کیوں ہر فیلڈ بالخصوص بزنس میں اولین صف میں ہیں- انہوں نے یہ تجزیہ دیا کہ وہاں دورانِ حمل عورت کی ذہنی اور طبعی صحت کا خاص خیال رکھا جاتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ عورت کی غذا پر بھی خاص توجہ دی جاتی ہے- یہودی ماں باپ اپنے بچوں کو جو بھی بنانا چاہتے ہیں، وہ اس پر کام کرنا شروع کردیتے ہیں- مثلاً اگر وہ چاہتے ہیں کہ ان کا بچہ بزنس مین بنے تو ماں بزنس پڑھنا شروع کرتی ہے، اسی طریقے سے اگروہ اسے جو کچھ بنانا چاہتی ہے، جو زبان سکھانا چاہتی ہے تو اس زبان کے بارے میں سوچنا، دیکھنا اور سننا شروع کر دیتی ہے جس کا اثر بچے پر ہوتا ہے- یہی وجہ ہے کہ یہودی بچے 5 سال کی عمر میں روانی کے ساتھ عربی، انگلش اور عبرانی بولتے ہیں-[8] نیویارک سٹی کو جرائم کا شہر کہا جاتا ہے جہاں ہر کمیونٹی کے لوگ مختلف جرائم میں گرفتار ہوتے ہیں لیکن رپورٹ کے مطابق اب تک یہودیوں کا کوئی کیس نہیں ہے اس کے پیچھے یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے بچوں پرخاص توجہ دیتے ہیں- ہمارے یہاں بچوں کو ویڈیو  گیمز اور موبائل پکڑا دیے جاتے ہیں جبکہ وہاں بچوں میں جسمانی ورزش،  شطرنج، ریاضی اور مطالعۂ کتب جیسی سرگرمیوں کو فروغ دیا جاتا ہے-

زچہ اور بچہ کا تعلق حمل کے دوران جتنا مضبوط ہوگا، پیدائش کے بعد بھی اس رشتے میں مضبوطی قائم رہےگی-حمل کے 18ویں ہفتے میں بچہ اپنی ماں کی دل کی دھڑکن کو سننا شروع کر دیتا ہے، 26ویں ہفتے میں وہ آوازوں پر ردعمل دے سکتا ہے- اسی دوران اس کی زبان پردسترس کی قوت بھی ترقی پانا شروع کردیتی ہے-لہٰذا ماں کو چاہیے کہ کسی قسم کا تناؤ اور دباؤ سے خود کو دور رکھے- اگر ماں کے دل کی دھڑکن تیز ہوگی تو بچے کے دل کی دھڑکن بھی تیز ہوجائے گی- بہتر یہ ہے کہ اگر کوئی پریشانی یا دباؤ سے ماں گزرے تو وہ اپنے شوہر یا اپنے کسی قریبی دوست یا رشتہ دار سے اس متعلق بات کرے اور خود کو پرسکون رکھنے کی کوشش کرے- ماں کیلئے ضروری ہے کہ وہ ان دنوں دن میں کوئی ایک وقت مختص کرلے جس میں وہ اپنے بچے سے بات کرے اور اسے بتائے کہ وہ اس کے دنیا میں آنے کیلئے کتنی خوش ہے اور اس سے مزید باتیں کرے اور اپنے گرد و نواح میں ماحول پُرسکون اور مثبت رویوں والا رکھے تاکہ اس کی اولاد پر بھی ان سب کے مثبت اثرات مرتب ہوسکیں- دورانِ حمل عورت کیا کھا رہی ہے، پی رہی ہے، سن رہی ہے اور کیا دیکھ رہی ہے ان سب کا اثر بچے پر پڑتا ہے اگر یوں کہا جائےدورانِ حمل عورت کے ساتھ جو رویہ رکھا جائے گا اُن سب کا نتیجہ بچےمیں نظرآئے گا-

جانور کا بچہ پیدا ہوتےہی بھاگنا دوڑنا شروع کرتا ہے، اسے چیزیں سیکھنی نہیں پڑتیں جبکہ انسان کا بچہ سیکھنے کے عمل سے گزرتا ہے اور اس کے سیکھنے کا عمل ماں کے پیٹ سے ہی شروع ہو جاتا ہے- بچے میں اٹھارہویں ہفتے کے بعد سے سننے کی صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے، لہٰذا ماں کو چاہئے کہ اچھا سنے تاکہ بچے پر اس کا اچھا اثر مرتب ہو-[9]  ایک ریسرچ کے مطابق ایک حاملہ عورت پر تجربہ کیا گیا جس میں اس کے پیٹ پر ہیڈ فونز لگائے جاتے تھے جس میں میوزک چلتا تھا جب اس کے بچے کی پیدائش ہوئی تو بچہ سوا سال کی عمر میں گٹار بجانے لگا اورمیوزک میں خاص دلچسپی لینے لگا- ٹھیک یہی تجربہ ایک مسلمان حاملہ عورت پر بھی کیا گیا اس کا بچہ جب پیدا ہوا تو تین سال کی عمر میں حافظ قرآن بنا کيونکہ اس عورت کے پیٹ پر جو ہيڈفونز لگائے جاتے تھے ان ميں تلاوت قرآن چلائی جاتی تھی- اصل معنوں میں بچوں کے سیکھنے کا عمل ماں کے پیٹ سے شروع ہوجاتا ہے-

شروع کےدو سال :

بچے کے پیدا ہو جانے کے بعد شروع کے دو سال انتہائی اہم ہوتے ہیں- بچہ ہر چیز کو اپنے دماغ میں ریکارڈ کرتا ہے، خاص کر ماں باپ کے ہر عمل کو بہت غور سے دیکھتا ہے اور ڈیٹا جمع کرنے کے بعد وہ اس کے عمل میں نظر آتا ہے- بچے کی زندگی کے ابتدائی پانچ سال انتہائی اہم ہوتے ہیں اور اُن میں بھی شروع کا ایک سال بہت زیادہ توجہ کے قابل ہے- اس پہلے سال میں بچے پر جتنا کام کیا ہوتا ہے وہ اس کا رزلٹ بڑے ہو کر دیتا ہے- بچے کی ایک سال کے ہوتے ہی ماں باپ کو الرٹ ہو جانا چاہیے کیونکہ اب بچہ گھر ميں سرچ کیمرہ اور ٹیپ ریکارڈر کا کام شروع کر دیتا ہے- اگر آپ کا بچہ کوئی نازیبا لفظ بار بار بول رہا ہے یا پھر کوئی اچھی بات کہتاہے اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اسے اپنے آس پاس کے ماحول سے سیکھ رہا ہے اور یہ ماحول اس کے ماں باپ اس کو مہیا کرتے ہیں- معروف نیورولوجسٹ ایلن شور کہتے ہیں کہ بچے کے دماغ کی نشوونما کیلئے ماں اور شیر خوار بچے کے درمیان مثبت تعلق انتہائی ضروری ہوتاہے- ابتدائی دو سال میں 80فیصد دماغی خلیات جنم لے لیتے ہیں- [10]

شروع کا ایک سال بہت ضروری ہے- نومولود بچے میں کوئی جذبات نہیں ہوتے، نہ گردن ہلا پاتا ہے، نہ اپنی پوزیشن تبدیل کرپاتا ہے- لیکن ایک سال کا ہوتے ہی وہ سر کو آسانی سے ہلاتا ہے، آنکھیں بھی گھماتا ہے، شور سن کر ان پر ردعمل دیتا ہے، چیزوں کو مٹی میں پکڑنا شروع کرتا ہے- اس ایک سال کے دوران میں بچہ بہت ساری تبدیلیوں سے گزرتا ہے- ماں باپ کو چاہیے کہ شوخ رنگوں کو متعارف کروائے، ایسے کھلونے دے جو کہ نرم اور رنگین ہوں کیونکہ اس عمر میں بچہ چیزوں کو اور اپنے آس پاس کے ماحول کولےکربہت زیادہ سنجیدہ ہوجاتا ہے- ماں باپ کو چاہیے کہ بچے کو آس پاس موجود چیزوں کے نام سکھائیں اور انہیں یاد بھی کروائیں- پانچ مہینے کا بچہ اپنے نام کو پہچاننا شروع کر دیتا ہے، ماں باپ کو چاہیے کہ اسے نام سے پکاریں اور زیادہ سے زیادہ بچے سے interact کرنے کی کوشش کریں- اگربچہ منہ سے کوئی آواز نکالتا ہے یا کچھ بولنے کی کوشش کرتا ہے تو ماں باپ کو چاہیے کہ اس کو توجہ دیں اور اس کو جواب دیں، اس طریقے سے بچے اور ماں باپ کے بیچ میں Interaction مضبوط ہوگا اور communication skills بھی بہتر ہوں گی- اس ایک سال کے دوران بچے کی language development، ابلاغی صلاحیت اور یادداشت پر کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے- ماں اور باپ دونوں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ بچے کو زیادہ سے زیادہ وقت دیں اور ایک مثبت ماحول مہیا کریں-

تین سے سات سال:

پیدائش سے لے کر پانچ سال تک بچے اپنے مشاہدات اور تعلقات کے ذریعے ذہن کو جِلا بخشتے ہیں،ان کے دماغوں میں لاکھوں روابط پیداہوتے ہیں- درحقیقت بچوں کی زندگی کے ابتدائی پانچ سال ان کی زندگی کے کسی بھی وقت کے مقابلے میں تیزی سے روابط بنانے والے سال ہوتے ہیں- بچہ اس عرصہ میں دنیا کے بارے میں اہم معلومات سیکھتا ہے- مثال کے طور پر بچہ سیکھتا ہے کہ دنیا اس کے لئے کتنی محفوظ ہے، وہ کس سے پیار کرتا ہے، کون ان سے پیار کرتا ہے، جب وہ روتا ہے یا ہنستا ہے تو کیا ہوتا ہے اور اس طرح دیگر بہت کچھ- جبکہ وہ دوسرے لوگوں کے درمیان تعلقات کو دیکھ کر بھی سیکھتا ہے- مثلاً:والدین خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ کیسا برتاؤ کرتے ہیں- بچے کی بات چیت کا سلیقہ، سماجی رویے اور دیگر مہارتوں کی نشوونما کی بنیاداسی دوران بن جاتی ہے- [11]

جب بچہ تین سال کا ہوجاتا ہے تو وہ اردگرد سے الفاظ اور جملے سیکھنے کی کوشش کرتا ہے اور انہیں ادا کرتا ہے، بسا اوقات چند بچے کم عمری میں ہی بغیر اٹکے تسلسل سے بولنا شروع کردیتے ہیں جبکہ کچھ بچے دیر سے بولنا شروع کرتے ہیں، اس میں کچھ جینیاتی عمل دخل بھی ہے-بچے اسکول جانا شروع کردیتے ہیں جہاں وہ دوسرے بچوں سے ملتے جلتے ہیں، انہیں بچوں کے ساتھ مل کر کھیلنا اور مستیاں کرنا اچھا لگتا ہے- اس عمر میں والدین کو چاہئے کہ وہ اپنے بچوں کو اعتماد میں لیں اور اجنبی لوگوں سے کس طرح ملنا ہے اور اعتماد کن لوگوں پر کرنا ہے،اس حوالے سے سمجھائیں- بچوں کو فارغ نہ رہنے دیں بلکہ ان چار پانچ سال میں بچے کو مختلف سرگرمیوں میں مبتلا رکھیں- بدقسمتی سے آج کل والدین بچوں کو اس عمر میں ڈیجیٹل میڈیا تک رسائی دلادیتے ہیں جبکہ چاہئے کہ بچوں کے ساتھ بیٹھ کر کتب کا مطالعہ کریں، انہیں کتب خانوں میں لے کر جائیں، ان سے کتاب پڑھائیں- ان سے سوالات کریں کیونکہ یہ عمر بچوں کی ذہنی نشوونما اور مشاہداتی تجربہ کا دورانیہ ہوتا ہے- تین اور چار سال کے بچے سوالات کرتے ہیں اور بار بار کسی حرکت کو دہراتے ہیں، والدین کو چاہئے کہ وہ ان کی بات توجہ سے سنیں اور انہیں صحیح اور غلط میں تمیز اورتہذیب واخلاق سکھائیں- بچوں میں خوف و ہراس پیدا نہ کریں، ماؤں کو چاہئے کہ وہ بچوں کو ڈرائیں نہ دھمکائیں بلکہ اپنا رعب رکھیں بلکہ محبت اس قدر دیں کہ اس کی ضرورت ہی نہ پڑے- [12]

5سال کی عمر کا بچہ تقریباً 10ہزار الفاظ کا ذخیرہ کر چکا ہوتا ہے- اس کے تصورات بننے لگتے ہیں،بچے اپنے اظہار میں برے رویے بھی لاتے ہیں لیکن والدین کو چاہئے کہ یاد رکھیں کہ ان کے رویے غلط ہوسکتے ہیں لیکن بچے نہیں-لہذا انہیں سمجھنا اور ان کا بہترین دوست بننا ضروری ہے - [13]

اکثربچے چار یا پانچ سال کی عمر میں اسکول شروع کرتے ہیں-پیچیدہ جذبات، خودمختاری، دوستی، کھیل کود، کثرت سے باتیں کرنا، بہتر جسمانی ہم آہنگی اس عمر میں بڑھ جاتی ہیں-جوں جوں بچے بڑے ہوتے رہتے ہیں ان کی نشوونما کے لیےضروری ہے کہ والدین ان کے ساتھ زیادہ وقت گزاریں، کھیلیں، کام کریں، ساتھ بیٹھ کر ہوم ورک کروائیں، اسکول روٹین کے بارے میں پوچھیں، سیر و تفریح کیلئے لے کر جائیں، انہیں عقائد سمجھائیں، سلیقے سے اٹھنے بیٹھنے، چلنے پھرنے کا ڈھنگ سکھائیں[14] ان سے ان کی دلچسپیوں پر بحث کریں، زندگی کے نصب العین کا تعین کروائیں، کسی چیز پر ذہن کو مسلط نہ رہنے دیں بلکہ محنت اور صبر کی تلقین دیں- 7 سال کے بچے کو اب بلوغت کی جانب بڑھنا ہوتا ہے، ضروری ہے کہ والدین اس پر کڑی نظر رکھیں اور اسے سمجھائیں نہ کہ اسے چپ کروائیں- والدین کی تربیت اولاد کو ایک اچھا انسان بنادیتی ہے جبکہ عدم توجہ بداخلاقی اور برائی کی جانب لے جاسکتی ہے-

والدین کی ذمہ داریاں :

بچے کے بالغ ہونے سے قبل والدین پر چند ذمہ داریاں لاگو ہوتی ہیں ،جنہیں ذیل میں مختصراً بیان کیا گیا ہے:

v     مقصدِ حیات کے حصول میں بچے کی امدادکرنا، زندگی کا اصل مقصد سمجھانا اور اس کی صحیح طور سے ذہن سازی کرنا-

v     بچوں کو نیک اعمال کرنے کیلئے تیار کرنا، معاشرے کا صالح فرد بنانا تاکہ معاشرے میں خوشحالی، ترقی اور امن و امان کا باعث بن سکیں-

v     اولاد کو اچھے کردار کا متحمل بنانا اور ان کےحقوق کی حفاظت کرنا-

v     بچوں کی دیکھ بھال اور حفاظت کرنا اور ان کی زندگی اور نسب کوتحفظ بخشنا-

v     بچوں کی شائستگی اور مہربانی سے پرورش کرنا-

v     دنیا اور آخرت میں بچوں کو بہترین حصول دلانے کی کوشش کرنا-

تربیتِ اولاد اور ماہرِ نفسیات:

جدید نفسیات کا تعلق انسانی زندگی سے ہے اور اس کی شاخیں جن میں چائلڈ سائیکالوجی، ڈویلپمنٹ سائیکالوجی، شخصی نفسیات وغیرہ بچوں کی پرورش کے متعلق رہنمائی فراہم کرتی ہیں- ماہرِ نفسیات کے مطابق والدین پراولادکے چند بنیادی فرائض ہیں جنہیں ذیل میں بیان کیا گیا ہے:-

انسانی صلاحیت اور بالیدگی کی پیمائش کرنا

بچوں میں رونما ہوتی تبدیلیاں اور عمر کے ساتھ بڑھتی صلاحیتوں پر مکمل نگہداشت رکھنا اور ان کی اصلاح کرنا والدین کی ذمہ داری ہے- [15]

تربیت کے ساتھ تعلیم مہیا کرنا

ہر بچے کا حق ہے کہ اسے معیاری تعلیم اور بہترین تربیت دی جائے جس سے وہ فی نفسہٖ افادہ کرسکے اور تعلیم سے اپنے شعور میں اضافہ کرسکے-

بچوں کی ذہنی صحت پر کام کرنا:

والدین کا بچوں سے پیار اور شفقت والا رویہ ہونا بے حد ضروری ہے - بچوں کو محبت دی جائے لیکن ان کی ہر بات تسلیم نہ کی جائے بلکہ ان کی بےجا خواہشات پر روک تھام کی جائے اور محبت بھرے لہجے میں انہیں سمجھایا جائے- جہاں ضرورت پڑے وہاں سختی بھی برتی جائے لیکن کوشش یہی کی جائے کہ پہلے معاملے کو محبت سے نبٹایا جائے- دوسروں کے سامنے انہیں بُرا بھلا نہ کہا جائے اور نہ ہی مارا جائے- اس سے ان کی ذہنی صحت پر اثر پڑتا ہے-

شخصیت کی ترقی میں حائل رکاوٹوں سے نبٹنا:

شخصیت میں بہتری عمر کے مختلف حصوں میں رونما ہوتی رہتی ہے،البتہ والدین کا فرض بنتا ہے کہ وہ بچوں کے درپیش مسائل کو حل کرنے کی پوری کوشش کریں اور ان کی بات کو توجہ سے سنیں- انہیں اہمیت دیں اور ان کی اصلاح و نصیحت کا سامان کریں- بچوں کی نفسیات کے ماہرین کے مطابق 2سے5 سال تک کی عمر، بچے کی شخصی بنیاد کا اہم دورانیہ ہوتی ہے جبکہ 6سے 10 سال کی عمر کا عرصہ ان کی صلاحیتوں کو پرکھنے اور نکھارنے کا دورانیہ ہوتا ہے- [16]

صلاحیتوں کی منتقلی

اچھے اور کامیاب والدین کی نشانی یہ ہے کہ وہ اپنی خوبیوں اور صلاحیتوں کو اگلی نسل میں احسن انداز سے منتقل کریں- ان کی اچھے انداز میںparenting نسل درنسل منتقل ہوگی جس سے معاشرے میں باکردار اورباہنر اشخاص جنم لیں گے- [17]

نسل انسانی کا تحفظ

والدین کو قدرت نے اولاد کے جنم کا سبب بنایا ہے البتہ اس کی اچھی پرورش اور صحت افزاء خوارک کی ذمہ داری پوری کرنا والدین پر فرض ہے- بھوک اور افلاس کی وجہ سے بچوں کو قتل کرنا یا غربت کے باعث بچوں کی بنیادی ضروریات سے انحراف کرنا سراسر ناانصافی ہوتی ہے-

دنیاکےذہین ترین بچے:

زیدان حامد:

زیدان حامد پاکستان کا ذہین ترین بچہ ہے -یہ پیدائشی عاقل نہیں تھا بلکہ اس کے ماں باپ نے اس کی بالیدگی پر کام کیا جس کا نتیجہ آج ان کے سامنے ہے- زیدان حامد 3 جنوری 2010ء کو راولپنڈی میں پیدا ہوا -اسے ننھا پروفیسر بھی کہا جاتا ہے- 8 ماہ کی عمر میں اسے 11 رنگوں کی پہچان تھی، 3 سال کی عمر میں دنیا کے تمام ممالک کے نام اور دارالحکومت کے نام بھی یاد تھے اور periodic table of elements بھی یاد تھا، 4 سال کی عمر میں دنیا کے تمام ممالک کا جغرافیہ 20 منٹ میں بیان کر دیتا تھا، علامہ اقبال کے فارسی شعر یاد تھے، علامہ اقبال، کیمسٹری اور فزکس پر گھنٹوں گھنٹوں لیکچرز دئیے اور میٹرک کے طالب علموں کو کیمسٹری اور فزکس پر علیحدہ سے لیکچرز دئیے- 5 سال کی عمر میں میڈیکل سٹوڈنٹس کو انسانی جسم کے تمام ہڈیوں پر لیکچر دینے کا اعزاز بھی اس کے نام ہے- جیو پر جرگہ شو پر ایک گھنٹے مختلف مضامین پر بات کی، 6سال کی عمر میں اس نے پہلی کتاب لکھی جس کا نام تھا ’’Books not guns‘‘- ابھی دو مزید کتابیں بھی آ چکی ہیں، 7 سال کی عمر میں رمضان ٹرانسمیشن بھی کی، مختلف مضامین کے ساتھ ساتھ زیدان کو مختلف زبانوں میں بھی دلچسپی ہے اور وہ کیمبرج اسلامک کالج سے عربی اور اسلامک اسٹدیز میں 2 سالہ ڈپلومہ کر رہے ہیں- یہ ڈپلومہ اے-لیول کے برابر ہے اور زیدان دنیا کے کم عمر طالبِ علم ہیں جو اس ڈگری کو حاصل کر رہے ہیں- اس ڈگری میں عربی اور اسلامیات کے مشکل اور قدیم ترین مضامین شامل ہیں مثال کے طور پر عربیۃ لِلناشین (چھ والیومز)، قصصُ النّبیّین (تین والیومز)، اِحکام (مجموعہِ احادیث)، مُبادی الصّرف، مُبادی النّحو، کلیلہ و دِمنہ، حماسہ، مُختصر القدوری(فقہ)، شرح قطرۃالنّدی و بد الصدی، شزۃالعرف فی فن الصَرف، فقہ الاسلامی، تیسواں پارہ حفظ اور سورۃِ یوسف کی تفسیر شامل ہیں- 7 سال کی عمرتک 500 سے زائد کتابوں کا مطالعہ کیا اور ان کا review بھی دیا اور 9سال کی عمر میں گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈزمیں اپنا نام لکھوایا- زیدان نے کم وقت میں پیریاڈک ٹیبل کے تمام عناصر کو ترتیب دےکر گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں نام درج کرایا- [18]

کیش کؤیسٹ :

نارمل آئ کيو ليول 85-100 ہوتا ہے لیکن کیش کؤیسٹ نامی لڑکی کا IQ level دو سال کی عمر میں 146 تھا- یہ MENSA INTERNANTIONAL کی ممبر بھی ہے- اس کی ماں خود child expertہے- 18 ماہ کی عمر میں وہ بالکل ٹھیک اور ایڈوانس طریقے سے بول پاتی تھی جس کے بعد اس کا ٹیسٹ کیا گیا جس میں اس کو ذہین مانا گیا- یہ امريکن اسٹیٹس کو بالکل صحيح پہچان سکتی ہے، اس کے علاوہ ہر براعظم اورحکومتی شاخیں بھی جانتی ہے- Periodic table بھی یاد ہے اس کے سارے elements کے بارے میں جانتی ہے- مزیدہسپانوی زبان اور  امریکن سائن کی زبان بھی جانتی ہے-[19]

پریانشی سومانی :

پریانشی سومانی کو Mental calculator کہا جاتا ہے- یہ Mathematics میں بہت زیادہ ذہین ہے- یہ شوق اسے چھ سال کی عمر سے پیدا ہوا، 11 سال کی عمر میں اس نے Mental calculation world cup میں حصہ لیا جس کو اس نے overall جیتا اور ٹائٹل اپنے نام کیا- یہ اب تک کی واحد ایسی participant ہے جس نے 100 فیصد درست ضرب،  جمع اور اسکوائر روٹ کئے- اب تک 5 بار Mental calculation World cup ہوا ہے اور پانچ بار اس نے ہی جیتا ہے- اس نے Pogo Amazing kids awards 2010 کو بھی جیتا ہے- اس کا نام Guinness Book of World Records میں بھی شامل ہے - [20]

کِم انگ یونگ :

کِم انگ یونگ دنیا کا سب سے زیادہ ذہین ترين بچہ سمجھا جاتاتھا- یہ کوریا میں پیدا ہوا، اس نے Guinness Book of World Recordsمیں آئی کیو لیول توڑا، ان کا آئی کیو لیول 210 ہے- 4 سال کی عمر میں اس نے جرمن،کوریا، انگلش اور جاپانی زبانیں بول کر سب کو حیران کر دیا تھا- یہ پیچیدہ قسم کے calculus problems حل کرتے تھا -اس نے بطور مہمان ہان یانگ یونیورسٹی میں تین سے چار سال تک پڑھا، سات سال کی عمر میں ناسا کی طرف سے اسے دعوت دی گئی، فزکس میں پی ایچ ڈی کی، پوری دنیا میں موجود بچوں میں ان کوسب سے زیادہ ذہین تصور کیا جاتا تھا- اب یہ ساٹھ برس کے ہوگئے ہیں-

ارکِت جَسوال :[21]

ارکِت جَسوال کا شمار دنیا کے Most Intelligent kids کی لسٹ میں ہوتا ہے- 8سال کی عمر میں اس نے ایک لڑکی کی سرجری کی جس کا ہاتھ جل گیا تھا، جلنے کی وجہ سے وہ اسی حالت میں رہ گیا تھا وہ اپنا ہاتھ نہیں کھول پاتی تھی لیکن ارکت نے اس8سالہ بچی کی سرجری کی جبکہ اس کے پاس کوئی میڈیکل ٹریننگ نہیں تھی- یہ وہ واحد بچہ ہے جسے12 سال کی عمر میں میڈیسن کی فیلڈمیں پنجاب یونیورسٹی میں ایڈمیشن ملا- 13 سال کی عمر میں اس نے کینسرکا علاج ڈھونڈنے پر ریسرچ کی- اس کا آئی کیو لیول 146 ہے -اسے 13 سال کی عمر میں world's youngest surgeon کا اعزاز بھی مل چکا ہے- [22]

حرفِ آخر:

عصرِ حاضر میں والدین اور اساتذہ کوبچوں کی نفسیات کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ وہ انہیں ایک بہترین اور ذہین انسان بناسکیں- جب بچوں پر شروع سے ہی مکمل توجہ دی جائے گی اور ان کی درست انداز میں تربیت کی جائے گی تو وہ اپنی صلاحیتوں سے معاشرے میں نت نئی ایجادات اور بہتریاں متعارف کروانے کے قابل ہوسکیں گے جبکہ اچھی نشوونما کے ساتھ اچھے اخلاق سے آراستہ کرکے انہیں مستقبل کے لئے بہتر انسان بنایا جاسکتا ہے جس سے معاشرہ ثمر اندوز ہوسکے گا-

٭٭


[1](الحج:5)

[2]Ibrahim Mustafā, et al., Ahmed Al-Ziyat, Hamid Abdul Qadirand Muhammad Al-Najjār., Al-Mujam al-Wasīt, vol. 2, p. 1062.

[3]Sueann Robinson Ambron, Prologue in Child Development, 2nd ed. (New York: Holt, Rinehart and Winston, 1978), p. 4.

[4]David R. Shaffer and Katherine Kipp, Developmental Psychology, 7th ed. (Kundli (Haryana) India: Thomson Wadsworth, 2007), pp. 3-4.

[5]https://www.psu.edu/news/research/story/probing-question-can-babies

[6]https://www.aldiwan.net/poem31051.html

[7]CambridgeUniversityPress/Predicting child temperament and behavior from the fetus

[8]http://www.sapulse.com/new_comments.php?id=A3426_0_1_0_M

[9]https://www.medicalnewstoday.com/articles/324464#can-they-differentiate-between-different-voices

[10]https://medium.com/swlh/why-your-babys-first-years-of-life-matter-most 52615f74d481#:~:text=Your%20Baby's%20First%20Years%20are,will%20ever%20have%20are%20manufactured.

[11]https://raisingchildren.net.au/newborns/development/understanding-development/development-first-five-years

[12]https://www.betterhealth.vic.gov.au/health/healthyliving/child-development-7-three-to-four-years

[13]https://www.rileychildrens.org/health-info/growth-development-3-5-years

[14]https://www.cdc.gov/ncbddd/childdevelopment/positiveparenting/middle.html

[15]Kathleen Stassen Berger, The Developing Person Through Childhood and Adolescence, 5th ed. (New York: Worth Publishers, 2000), p. 2.

[16]Carolyn S. Schroeder and Betty N. Gordon, Assessment and Treatment of Childhood Problems (New York: The Guilford Press, 1991), p. 5.

[17]John W. Santrock, Life-Span Development, p. 10.

[18]https://www.google.com/amp/s/celebritynews.pk/zidane-hamid/amp

[19]https://www.google.com/amp/s/people.com/human-interest/2-year-old-is-the-youngest-member-of-american-mensa/%3famp=true

[20]https://www.google.com/amp/s/www.indiatimes.com/amp/technology/science-and-future/priyanshi-somani-human-calculator-mental-calculation-world-cup-522573.html

[21]https://en.m.wikipedia.org/wiki/Kim_Ung-yong

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر